گرد و غبار کے ایک چھوٹے سے بادل اور انجن کی پھٹ پھٹ کی شور میں موٹر سائیکل پر سوار یہ اڈکّل چیلوی آ رہی ہیں۔ انہوں نے نیلے رنگ کی ساڑی پہن رکھی ہے، ان کی ناک میں ایک بڑی سی نتھ  ہے اور چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی ہے۔ کچھ منٹ پہلے انہوں نے ہمیں اپنے مرچوں کے کھیت سے ہی اپنے تالا لگے گھر کے باہر انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ابھی دوپہر کا وقت ہے اور مارچ کا مہینہ چل رہا ہے، لیکن رام ناتھ پورم میں سورج اپنا قہر برپا کر رہا ہے۔ ہمارے سایے چھوٹے ہیں، لیکن پیاس بہت زیادہ لگی ہوئی ہے۔ اپنی دو پہیہ گاڑی کو میٹھے امرود کی چھاؤں میں کھڑی کرنے کے بعد اڈکّل چیلوی نے جلدی سے سامنے کا دروازہ کھولا اور ہمیں اندر آنے کے لیے کہا۔ اس دوران چرچ کی گھنٹی بجتی ہے۔ وہ ہمارے لیے پانی لاتی ہیں اور ہم بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔

ہم اپنی بات کا آغاز ان کی موٹر سائیکل سے کرتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ان عمر رسیدہ خاتون کے لیے موٹر سائیکل چلانا عام بات نہیں ہے۔ ’’لیکن یہ بہت کام کی چیز ہے،‘‘ ۵۱ سالہ خاتون ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ انہوں نے بہت جلد اسے چلانا سیکھ لیا تھا۔ ’’جب میں آٹھویں کلاس میں تھی تو میرے بھائی نے مجھے سائیکل چلانا سکھایا تھا، لہٰذا میرے لیے یہ مشکل نہیں تھا۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ اگر دو پہیہ گاڑی نہیں ہوتی تو زندگی مزید مشکل ہوتی۔ ’’میرے شوہر کئی سالوں تک گھر سے دور رہے۔ انہوں نے پہلے سنگاپور میں اور پھر دبئی میں اور بعد میں قطر میں بطور پلمبر کام کیا۔ میں نے تنہا اپنی بیٹیوں کی پرورش کی اور کھیتی باڑی بھی کی۔‘‘

جے اڈکّل چیلوی ہمیشہ سے کسان رہی ہیں۔ وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کی پیٹھ بالکل سیدھی ہے اور ایک ایک چوڑی سے مزین ان کے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر ٹکے ہوئے ہیں۔ وہ شیوگنگئی ضلع کے کالیارکوئل میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ جگہ موڈوکولاتور بلاک میں واقع ان کی بستی، پی موتووجیہ پورم سے سڑک کے راستے ڈیڑھ گھنٹہ کی دوری پر واقع ہے۔ ’’میرے بھائی شیوگنگئی میں رہتے ہیں۔ وہاں ان کے بہت سے بورویل ہیں۔ اور یہاں، میں ۵۰ روپے فی گھنٹہ میں آبپاشی کے لیے پانی خریدتی ہوں۔‘‘ رام ناتھ پورم میں پانی ایک بڑا کاروبار ہے۔

Adaikalaselvi is parking her bike under the sweet guava tree
PHOTO • M. Palani Kumar

اڈکّل چیلوی میٹھے امرود کے درخت کے نیچے اپنی موٹر سائیکل کھڑی کر رہی ہیں

Speaking to us in the living room of her house in Ramanathapuram, which she has designed herself
PHOTO • M. Palani Kumar

رام ناتھ پورم میں اپنے گھر کے لیونگ روم میں ہم سے بات کرتے ہوئے۔ اس گھر کو انہوں نے خود ہی ڈیزائن کیا ہے

اڈکّل چیلوی نے اپنی بیٹیوں کو چھوٹی عمر میں ہی ہاسٹل بھیج دیا تھا۔ اپنے کھیت کا کام ختم کرنے کے بعد وہ انہیں دیکھنے جاتی تھیں اور واپس آنے کے بعد اپنے گھر کا کام کرتی تھیں۔ اب وہ چھ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتی ہیں۔ ایک ایکڑ کھیت ان کا اپنا ہے اور باقی پانچ ایکڑ انہوں نے پٹّہ پر لے رکھا ہے۔ ’’دھان، مرچ، کپاس تو بازار کے لیے اگاتے ہیں اور دھنیا، بھنڈی، بیگن، لوکی اور چھوٹا پیاز اپنے گھر کے لیے…‘‘

وہ ہال کے چھجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’چوہوں سے بچانے کے لیے میں نے دھان کو بوریوں میں ڈال کر وہاں رکھ دیا ہے اور مرچوں کو کچن کے چھجے پر رکھ چھوڑا ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ گھر میں اُس طرف خالی کمرے ہیں۔ اپنے چہرے پر ایک شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ وہ کہتی ہیں کہ دو دہائیوں سے کچھ عرصہ قبل اس مکان کی تعمیر کے وقت ان تمام چیزوں کی ڈیزائن انہوں نے خود ہی کی تھی۔ سامنے کے دروازے پر مدر مریم کی تراشیدہ مورتی آویزاں کرنے کا خیال انہی کا تھا۔ یہ لکڑی کو تراش کر بنائی گئی ایک خوبصورت مورتی ہے، جس میں مریم ایک پھول کے اوپر کھڑی ہیں۔ اندر بیٹھک کے کمرے کی ہلکے سبز رنگ کی دیواروں کو مزید پھولوں، ان کے خاندان کے بزرگوں کی تصاویر اور حضرت عیسٰی اور مریم کے پورٹریٹ سے سجایا گیا ہے۔

خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں ذخیرہ کرنے کی کافی جگہ ہے، جو انہیں اپنی فصل رکھنے اور اچھی قیمت کا انتظار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ عام طور پر اس میں منافع ہوتا ہے۔ دھان کی سرکاری خریداری کی شرح ۱۹روپے ۴۰ پیسے تھی۔

جب کہ مقامی کمیشن ایجنٹ نے صرف ۱۳ روپے کی پیشکش کی تھی۔ وہ سوالیہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’میں نے حکومت کو دو کوئنٹل [۲۰۰ کلو] دھان بیچے تھے۔ پھر وہ مرچیں کیوں نہیں خرید سکتے؟‘‘

مرچ کا ہر کاشتکار ایک مستحکم اور اچھی قیمت کی قدر کرے گا، وہ دلیل دیتی ہیں۔ ’’دھان کے برعکس، مرچ کی کاشت زیادہ بارش یا پانی کا جماؤ برداشت نہیں کرسکتی۔ اس سال بے وقت بارش ہوئی – جب بیج سے کونپل پھوٹ رہے تھے اور جب پودے چھوٹے تھے۔ اور جب پھول لگنے سے قبل بارش کی ضرورت تھی، تب کوئی بارش نہیں ہوئی۔‘‘ حالانکہ انہوں نے ’ماحولیاتی تبدیلی‘ کی اصطلاح کا استعمال نہیں کیا، لیکن بارش کے بدلتے ہوئے طرز کی طرف اشارہ ضرور کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ، بہت جلدی، غلط موسم میں، غلط وقت پربارش ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی مرچوں کی پیداوار ان کے اندازے کے مطابق عام پیداوار کے پانچویں حصے تک کم ہو گئی ہے۔ ’’اس [فصل] میں بھی ناکامی ہاتھ لگے گی۔‘‘ اور ایسا تب ہو رہا ہے جب ان کے ذریعہ اگائی جانے والی ’رامناد مُنڈو‘ قسم کی مرچیں ۳۰۰ روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں۔

Adaikalaselvi is showing us her cotton seeds. Since last ten years she has been saving and selling these
PHOTO • M. Palani Kumar

اڈکّل چیلوی ہمیں اپنے کپاس کے بیج دکھا رہی ہیں۔ پچھلے دس سالوں سے وہ ان کو بچا کر رکھ رہی ہیں اور فروخت بھی کرتی ہیں

She is plucking chillies in her fields
PHOTO • M. Palani Kumar

وہ اپنے کھیتوں میں مرچیں توڑ رہی ہیں

وہ زمانہ انہیں یاد ہے جب مرچ ایک یا دو روپے کلو فروخت ہوتی تھی اور بیگن ۲۵  پیسے کلو۔ ’’تیس سال قبل جب کپاس صرف تین یا چار روپے کلو فرخت ہوتا تھا، تو اس وقت آپ پانچ روپے یومیہ پر مزدور حاصل کرسکتے تھے۔ اور ابھی؟ ابھی ایک دن کی مزدوری ۲۵۰ روپے تک پہنچ گئی ہے، لیکن کپاس صرف ۸۰ روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں کہیں تو مزدوری کی لاگت میں ۵۰ گنا اضافہ ہوا ہے، جبکہ کپاس کی قیمت میں صرف ۲۰ گنا بڑھوتری ہوئی ہے۔ ایسے میں کسان کو کیا کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے، خاموشی سے اپنا کام جاری رکھیں۔

اڈکّل چیلوی بھی وہی کرتی ہیں۔ ان کی باتیں ان کے حوصلے کو ظاہر کرتی ہیں۔ اپنے دائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’مرچ کا کھیت اس طرف ہے۔‘‘ ہوا میں اپنے ہاتھوں کے اشارے سے ایک نقشہ کھینچتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اور میں کچھ زمین یہاں جوتتی ہوں، اور کچھ وہاں۔ چونکہ میرے پاس موٹر سائیکل ہے، اس لیے دوپہر کے کھانے کے لیے بھی واپس آجاتی ہوں اور بوریاں لانے اور لے جانے کے لیے کسی مرد پر انحصار نہیں کرتی۔ میں انہیں کیریئر پر رکھ کر گھر لے آتی ہوں۔‘‘ اڈکّل چیلوی بات کرتے ہوئے مسکراتی ہیں۔ میرے لیے ان کے علاقے کی تمل مانوس بھی ہے اور مخصوص بھی۔

’’سال ۲۰۰۵ میں اپنی موٹر سائیکل خریدنے سے پہلے، میں گاؤں کے کسی آدمی سے موٹر سائیکل مانگ کر چلاتی تھی۔‘‘ وہ اپنے ٹی وی ایس موپیڈ کو ایک بہترین سرمایہ سمجھتی ہیں۔ اب وہ گاؤں کی نوجوان عورتوں کو بھی موٹر سائیکل چلانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’بہت سی عورتیں پہلے سے ہی‘‘ اپنے کھیتوں پر آنے جانے کے لیے موٹر سائیکلوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ہم اپنی گاڑی میں سوار ہوکر ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ راستے میں دھوپ میں سوکھنے کے لیے رکھی ہوئی مرچوں پر نظر پڑتی ہے، ہم رام ناتھ پورم کی اس (مرچوں کی) سرخ قالین کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ مرچیں کھانے کو کافی مسالے دار بنائیں گی، ایک وقت میں ایک گنڈو ملہائی (موٹی مرچ)…

*****

’’میں نے تمہیں سبز رنگ میں دیکھا، جب پک کر تیار ہوئیں تو سرخ ہو گئیں، دیکھنے میں اچھی اور کھانے میں مزیدار…‘‘
سنت موسیقار پورندر داس کے ایک گیت سے ماخوذ

ان دلچسپ سطور، جن کی مختلف تشریحیں ہو سکتی ہیں، کے بارے میں کے ٹی اچایہ نے اپنی کتاب ’انڈین فوڈ، اے ہسٹوریکل کمپینئن‘ میں لکھا ہے کہ ادبی اظہار کے طور پر یہ مرچوں کا پہلا تذکرہ تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہندوستانی کھانوں میں مرچیں اس قدر رس بس گئی ہیں کہ یہ ’’یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ موجود نہیں تھیں۔‘‘ دراصل اس گیت سے مرچوں کی ہندوستان میں آمد کی تاریخ کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔  یہ تخلیق ’’جنوبی ہند کے عظیم موسیقار پورندر داس کی ہے۔ ان کا زمانہ ۱۴۸۰ اور ۱۵۶۴ کے درمیان گزرا ہے۔‘‘

گیت میں آگے کہا گیا ہے:

’’غریبوں کی نجات دہندہ، اچھے کھانے کا ذائقہ بڑھانے والی، کاٹنے پر آگ اگلتی ہے، اِس کے بعد (دیوتا) پانڈورنگ وِٹل کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔‘‘

سنیتا گوگاٹے اور سنیل جلیہل اپنی کتاب ’رومانسنگ دی چلی‘ میں کہتے ہیں کہ مرچ، جسے کیپسیکم اینم کے نام سے جانا جاتا ہے، ’’پرتگالیوں کے ساتھ ہندوستان آئی۔ پرتگالی اسے اپنی جنوبی امریکہ کی فتوحات سے ہندوستان کے ساحلوں تک لے آئے تھے۔‘‘

A popular crop in the district, mundu chillies, ripe for picking
PHOTO • M. Palani Kumar

ضلع کی مرچوں کی ایک مشہور قسم، منڈو مرچ کی فصل توڑنے کے لیے تیار ہو چکی ہے

A harvest of chillies drying in the sun, red carpets of Ramanathapuram
PHOTO • M. Palani Kumar

رام ناتھ پورم کی سرخ قالین، دھوپ میں خشک ہونے کے لیے رکھی مرچیں

اچایہ کا کہنا ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد، اس نے کالی مرچ کو تیزی سے پیچھے چھوڑ دیا۔ اس وقت تک کالی مرچ واحد مسالا تھی جسے کھانے میں تیکھاپن لانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ مرچ کو ’’پورے ملک میں اگایا جا سکتا تھا… اور کالی مرچ کے مقابلے اس میں زیادہ تنوع ہے۔‘‘ شاید اسی وجہ سے کئی ہندوستانی زبانوں میں مرچ کا نام کالی مرچ کے اوپر رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر، تمل میں کالی مرچ کو ’مِلہو‘ کہتے ہیں؛ مرچ ’مِلہائی‘ بن گئی۔ دراصل دو آوازوں نے براعظموں اور صدیوں کو آپس میں ملا دیا۔

نیا مسالا ہمارا اپنا مسالا بن گیا۔ آج ہندوستان خشک سرخ مرچ کی پیداوار کے معاملے میں دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں شامل ہے۔ سال ۲۰۲۰ میں ۱۷ لاکھ ٹن کی پیداوار کے ساتھ یہ ایشیا پیسیفک خطے میں سرفہرست ہے۔ یہ تھائی لینڈ اور چین سے تقریباً پانچ گنا زیادہ مرچیں پیدا کرتا ہے، جو دوسرے اور تیسرے مقام پر آتے ہیں۔ ہندوستان میں مرچوں کی پیداوار کے معاملے میں آندھرا پردیش ’سب سے گرم‘ ریاست ہے۔ مرچ کی پیداوار میں اس کی حصہ داری سال ۲۰۲۱ میں ۸ لاکھ ۳۶ ہزار ٹن تھی، جب کہ تمل ناڈو کی پیداوار اس سال ۲۵ ہزار ۶۴۸ ٹن تھی۔ ریاست کے اندر رام ناتھ پورم اس معاملے میں سر فہرست ہے۔ تمل ناڈو میں ہر چار ہیکٹیئر میں سے ایک ہیکٹیئر (یعنی ۵۴۲۳۱ میں سے ۱۵۹۳۹) مرچ کی کاشت اس ضلع میں ہوتی ہے۔

میں نے رام ناتھ پورم کی مرچوں اور مرچ کے کسانوں کے بارے میں سب سے پہلے صحافی پی سائی ناتھ کی کلاسک کتاب ’ایوری باڈی لوز اے گڈ ڈراؤٹ‘ (یعنی، ہرشخص کو اچھی خشک سالی پسند ہے) کے ایک باب ’’ٹائرنی آف دی ترگر‘‘ میں پڑھی تھی۔ کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے: ’’ ترگر (کمیشن ایجنٹ) ایک چھوٹے کسان کی جانب سے اس کے سامنے رکھی گئی دو بوریوں میں سے ایک میں ہاتھ ڈال کر ایک کلو مرچ نکالتا ہے، اور اسے سامی وَٹّل (خدا کا حصہ) کہہ کر لاپرواہی سے ایک طرف کو پھینک دیتا ہے۔‘‘

پھر سائی ناتھ، ششدر و حیران راما سوامی سے ہمارا تعارف کراتے ہیں، ’’مرچ اگانے والا یہ کسان ایک ایکڑ کے تین چوتھائی حصے پر گزارہ کرتا ہے۔‘‘ وہ اپنی پیداوار کسی اور کو نہیں بیچ سکتا، کیونکہ ایجنٹ نے ’’فصل تیار بونے سے قبل ہی خرید لی تھی۔‘‘ جب سائی ناتھ نے ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں اپنی کتاب کے لیے ملک کے دس غریب ترین اضلاع کا دورہ کیا تھا، تو کسانوں پر ترگر کا ایسا ہی قبضہ تھا۔

سال ۲۰۲۲ کی اپنی سیریز ’لیٹ دیم ایٹ رائس‘ (یعنی، انہیں چاول کھانے دیا جائے) کے سلسلے میں، اور یہ جاننے کے لیے کہ مرچ کے کاشتکاروں کی زندگی کیسے گزر رہی ہے، میں واپس رام ناتھ پورم گئی۔

*****

’’کم پیداوار کی وجوہات ہیں: مئیل، مویَل، ماڈو، مان (تمل زبان میں – مور، خرگوش، گائے، اور ہرن)۔ اور پھر بہت زیادہ یا بہت ہی کم بارش۔‘‘
وی گووند راجن، مرچ کے کاشتکار، مومڑی ساتان، رام ناتھ پورم

رام ناتھ پورم قصبے میں مرچ کے تاجر کی دکان کے اندر خواتین اور مرد نیلامی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کسانوں نے ٹیمپو اور بسوں میں سوار ہوکر اس منڈی تک کا سفر طے کیا ہے۔ یہ مویشیوں کے چارے (’ڈبل ہارس‘ برانڈ) کی بوریوں پر بیٹھ کر اپنے پلّو اور تولیوں سے خود کو ہوا کر رہے ہیں۔ یہاں شدید گرمی ہے، لیکن انہیں اس بات کا اطمینان ہے کہ یہاں کم از کم کچھ سایہ تو ہے۔ ان کے کھیتوں میں تو کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ مرچ کے پودے سایے میں نہیں پھلتے ہیں۔

Mundu chilli harvest at a traders shop in Ramanathapuram
PHOTO • M. Palani Kumar
Govindarajan (extreme right) waits with other chilli farmers in the traders shop with their crop
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: رام ناتھ پورم میں ایک تاجر کی دکان پر منڈو مرچ کی پیداوار۔ دائیں: گووند راجن (سب سے دائیں) مرچ کے دیگر کسانوں کے ہمراہ اپنی فصل کے ساتھ تاجر کی دکان میں انتظار کر رہے ہیں

وی گووند راجن (۶۹ سال) لال مرچ کی تین بوریاں اپنے ساتھ لائے ہیں، جن میں سے ہر ایک کا وزن ۲۰ کلو ہے۔ ’’اس سال فصل اچھی نہیں رہی۔‘‘ مَگسول ، یعنی فصل توڑنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ اپنا سر ہلاتے ہیں۔ ’’لیکن جو دوسرے اخراجات ہیں وہی کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ فصل بذات خود کافی سخت جان ہے۔ مَلّی گئی (چنبیلی) جیسی دیگر منہ زور فصلوں کے مقابلے، ملہائی پر حشرہ کُش کا چھڑکاؤ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

گووند راجن کھیتی کے عمل کے بارے میں مزید بات کرتے ہیں۔ وہ مجھے کھیت کی جوتائی کی تعداد کی گنتی کرواتے ہیں: سات (یعنی دو گہری جوتائی اور پانچ موسم گرما کی جوتائی)۔ اس کے بعد کھاد کا نمبر آتا ہے۔ یعنی ایک ہفتے تک ہر رات ۱۰۰ بکریوں کو کھیت میں باندھنا، تاکہ ان کی کھاد سے مٹی کی زرخیزی میں اضافہ ہو سکے۔ اس پر انہیں ایک رات کا ۲۰۰ روپے خرچ آتا ہے۔ بیج کی قیمت اور ۴ سے ۵ بار نرائی گڑائی کا خرچ اس کے اوپر سے ہے۔ ’’میرے بیٹے کے پاس ٹریکٹر ہے، اس لیے وہ مفت میں میرا کھیت تیار کردیتا ہے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’دوسرے کسانوں کو کام کے لحاظ سے ۹۰۰ روپے سے ۱۵۰۰ روپے فی گھنٹہ کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے۔‘‘

ہم جہاں بات کر رہے ہیں وہاں کچھ اور کسان جمع ہو جاتے ہیں۔ مرد دھوتی اور لنگی میں ملبوس، کندھوں پر تولیہ رکھے یا پگڑیاں باندھے کھڑے ہیں۔ خواتین نائلون کی چمکدار پھولوں والی ساڑیاں پہنے ہوئے ہیں۔ ان کے سروں پر نارنجی رنگ کی کڑکامبرم اور خوشبودار مَلّی گئی کے گجرے (پھولوں کی لڑیاں) ہیں۔ گووند راجن میرے لیے چائے منگواتے ہیں۔ سورج کی روشنی، روشن دانوں اور ٹائل کی چھت میں پڑی دراڑوں کے ذریعہ اندر داخل ہو کر سرخ مرچوں کے ڈھیر پر گر رہی ہے۔ مرچیں بڑے، موٹے یاقوت کی طرح چمکتی ہیں۔

رام ناتھ پورم بلاک کی کونیری بستی کی ۳۵ سالہ کسان، اے واسوکی، اپنے تجربات بیان کر رہی ہیں۔ وہاں موجود دیگر خواتین کی طرح ان کا دن بھی مردوں سے پہلے شروع ہوتا ہے۔ وہ صبح ۷ بجے (جب وہ بازار کے لیے نکلتی ہیں) سے بہت پہلے بیدار ہو جاتی ہیں، اور اپنے اسکول جانے والے بچوں کے لیے لنچ پکا کر پیک کرتی ہیں۔ اور جب واپس آتی ہیں تب تک پورے ۱۲ گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود گھر کے دوسرے کاموں کے لیے ان کے پاس وقت رہتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سال ان کی فصل خراب ہو گئی تھی۔ ’’کچھ خامی تھی جس کی وجہ سے مرچوں کے پودے بڑھے ہی نہیں۔ امبوتُم کوٹّی ڑُچّو (یعنی، سب کچھ گر گیا تھا)۔‘‘ وہ اپنے ساتھ ۴۰ کلو مرچیں لے کر آئی ہیں – جو کہ ان کی فصل کا نصف حصہ ہے – اور وہ سیزن کے اختتام پر مزید ۴۰ کلو کی پیداوار حاصل کرنے کی توقع کر رہی ہیں۔ تھوڑی بہت آمدنی حاصل کرنے کے لیے، انہوں نے نریگا کے تحت ملنے والے کام سے اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔

Vasuki (left) and Poomayil in a yellow saree in the centre waiting for the auction with other farmers
PHOTO • M. Palani Kumar

واسوکی (بائیں) اور زرد ساڑی میں ملبوس پومائیل (درمیان میں)  دوسرے کسانوں کے ساتھ نیلامی کا انتظار کر رہی ہیں

Govindrajan (left) in an animated discussion while waiting for the auctioneer
PHOTO • M. Palani Kumar

گووند راجن (بائیں) نیلام کنندہ کا انتظار کرتے ہوئے ایک گرما گرم بحث میں مشغول ہیں

۵۹ سالہ پی پومئایل کے لیے اپنی بستی، مومڑی ساتان سے ۲۰ کلومیٹر کا سفر کرنا خاص رہا۔ صبح کے اس سفر کے لیے انہوں نے کرایہ ادا نہیں کیا۔ دراصل، وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن کی قیادت والی ڈی ایم کے حکومت نے سال ۲۰۲۱ میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ٹاؤن کی بسوں میں خواتین کے لیے مفت سفر والی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔

پومائیل مجھے اپنا ٹکٹ دکھاتی ہیں۔ اس پر مَگلیر (خواتین)، اور مفت ٹکٹ لکھا ہے۔ ہم ان کی ۴۰ روپے کی بچت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ادھر کچھ مرد کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی مفت سفر کرنا چاہیں گے۔ اس پر سبھی ہنستے ہیں، خاص طور پر خواتین۔

جب گووند راجن کم پیداوار کی وجوہات بتانے لگتے ہیں، تو سب کی ہنسی غائب ہو جاتی ہے۔ وہ ان وجوہات کو تمل میں گناتے ہیں – مئیل، مویَل، ماڈو، مان (یعنی مور، خرگوش، گائے اور ہرن)۔ ’’اور پھر یا تو بہت زیادہ بارش ہوتی ہے یا بہت کم۔‘‘ جب پھولوں کے کھلنے اور پھلوں کے لگنے میں اچھی بارش کی ضرورت ہوتی ہے تب نہیں ہوتی۔‘‘ وہ چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پہلے مرچ کی پیداوار بہت زیادہ  ہوتی تھی، وہاں تک... ایک آدمی اوپر کھڑا ہو کر اسے چاروں طرف تب تک ڈالتا تھا جب تک کہ وہ ایک پہاڑی کی شکل نہ اختیار کر لیں۔‘‘

اب ڈھیر چھوٹے ہو کر ہمارے گھٹنوں تک پہنچ گئے ہیں۔ ان کی قسمیں الگ ہیں، کچھ کا رنگ گہرا سرخ ہے، تو کچھ چمکدار ہیں۔ لیکن سب تیز ہیں۔ ہر وقت یہاں کسی نہ کسی کو چھینک آتی رہتی ہے، کوئی نہ کوئی کھانستا رہتا ہے۔ کورونا وائرس عالمی سطح پر اب بھی ایک خطرہ بنا ہوا ہے، لیکن یہاں تاجر کی دکان کے اندر کھانسی اور چھنیک کے لیے مرچیں ذمہ دار ہیں۔

The secret auction that will determine the fate of the farmers.
PHOTO • M. Palani Kumar
Farmers waiting anxiously to know the price for their lot
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: خفیہ نیلامی جو کسانوں کی قسمت کا تعین کرے گی۔ دائیں: کسان اپنے مال کی قیمت جاننے کے لیے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں

نیلام کنندہ ایس جوزف سینگول کے اندر داخل ہوتے ہی ہر شخص بے چین ہو جاتا ہے۔ اچانک مزاج تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لوگ مرچ کے ڈھیروں کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ جوزف کے ساتھ آنے والا گروہ مرچوں پر چلتا ہے، ڈھیروں کے اوپر کھڑا ہوتا ہے، اور ان کا قریبی معائنہ کرتا ہے۔ پھر وہ اپنے دائیں ہاتھ پر تولیہ رکھ لیتے ہیں۔ ایک شخص (تمام خریدار مرد ہیں) خفیہ نیلامی کے لیے اس کی انگلیاں پکڑتا ہے۔

کسی باہری شخص کے لیے یہ خفیہ زبان حیران کن ہے۔ لیکن ہتھیلی چھوکر، انگلی پکڑ کر، یا انہیں دبا کر، یہ لوگ اعداد بتاتے ہیں، یعنی اس لاٹ کی کیا قیمت ہوگی۔ اگر وہ ’کوئی بولی‘ نہیں لگانا چاہتے، تو ہتھیلی کے بیچ میں ایک صفر کا نشان بنا دیتے ہیں۔ نیلام کنندہ کو اس کام کے لیے تین روپے فی بیگ کے حساب سے کمیشن ملتا ہے۔ اور تاجر نیلامی کی سہولت فراہم کرنے کے عوض کل فروخت کا ۸ فیصد کسان سے لیتا ہے۔

جب ایک خریدار اپنی بولی لگا لیتا ہے، تو دوسرا نیلام کنندہ کے سامنے آتا ہے، اور تولیے کے اندر اس کی انگلی دباتا ہے۔ اور پھر تیسرا، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ ہر خریدار اپنی بولی نہ لگا لے۔ پھر سب سے زیادہ بولی لگانے والے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سائز اور رنگ (جن سے معیار کا تعین ہوتا ہے) کے اعتبار سے اس دن سرخ مرچیں ۳۱۰ سے ۳۸۹ روپے کلو تک فروخت ہوئی تھیں۔

اس کے باوجود کسان ناخوش ہیں۔ کم پیداوار کی بڑی قیمت صرف نقصان کو ہی یقینی بناتی ہے۔ گووند راجن کہتے ہیں، ’’ہم سے کہا گیا ہے کہ اگر ہم بہتر کمائی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ویلو ایڈیشن (یعنی قدر میں اضافہ) کرنا چاہیے۔ لیکن آپ ہی بتائیں، ہمارے پاس وقت کہاں ہے؟ ہم مرچوں کو پیس کر ان کے پیکٹ بیچیں یا کھیتی کریں؟‘‘

جب ان کا لاٹ نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے، تو ان کا غصہ تناؤ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ’’یہاں آئیں، یہاں سے آپ اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں،‘‘ وہ مجھے بلاتے ہیں۔ ’’یہ آپ کے امتحان کے نتائج کے انتظار کے مترادف ہے،‘‘ تولیے کا کونہ دانتوں تلے دبائے، اپنے جسم میں موجود تناؤ کے ساتھ خفیہ مصافحہ کا گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے ۳۳۵ روپے فی کلو ملے ہیں،‘‘ قیمت کے اعلان کے بعد وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کے بیٹے کی مرچیں، جو قدرے بڑی سائز کی تھیں، ان سے ۳۰ روپے زیادہ پر فروخت ہوئی ہیں۔ واسوکی کو ۳۵۹ روپے فی کلو ملے ہیں۔ کسانوں کا تناؤ ختم ہو گیا ہے۔ لیکن ان کا کام مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس کے بعد، انہیں مرچیں تولنا ہے، پیسے لینے ہیں، کچھ کھانا پینا ہے، کچھ خریداری کرنی ہے اور آخر میں بس پکڑ کر گھر واپس جانا ہے…

Adding and removing handfuls of chillies while weighing the sacks.
PHOTO • M. Palani Kumar
Weighing the sacks of chillies after the auction
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: بوریوں کا وزن کرتے وقت مٹھی بھر مرچیں ڈالتے اور نکالتے ہوئے۔ دائیں: نیلامی کے بعد مرچ کی بوریوں کا وزن کرتے ہوئے

*****

’’ہم پہلے سنیما جایا کرتے تھے۔ لیکن میں نے تھیٹر میں آخری فلم ۱۸ سال پہلے دیکھی تھی۔ فلم کا نام تھا: تُلّات مڑمم تُلُّم
ایس امبیکا، مرچ کی کاشتکار، میلیا کوڑی، رام ناتھ پورم

ایس امبیکا ہمیں بتاتی ہیں، ’’ایک شارٹ کٹ کے ذریعہ کھیت تک پیدل چل کر صرف آدھے گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن سڑک کے ذریعہ زیادہ وقت لگتا ہے۔‘‘ سڑک کے راستے کئی موڑوں اور گمھاؤ کے بعد ساڑھے تین کلومیٹر کی دوری طے کر کے ہم پرم کوڑی بلاک میں واقع میلایا کوڑی گاؤں کے مرچ کے کھیتوں تک پہنچے۔ دور سے پودے سرسبز نظر آتے ہیں۔ پودوں پرزمرد جیسے سبز رنگ کے پتے لگے ہوئے ہیں۔ ہر شاخ تیار ہونے کے مختلف مراحل میں پھلوں سے لدی ہوئی ہے۔ کسی کا رنگ یاقوتی سرخ ہے، کسی کا رنگ ہلدی جیسا زرد ہے اور کوئی ریشم کی ساڑیوں کے خوبصورت اَرکّو (گہرا سرخ ) رنگ جیسا ہے۔ نارنجی رنگ کی تتلیاں اِدھر اُدھر ایسے اُڑتی پھر رہی ہیں، جیسے کچی مرچوں کے پنکھ لگ گئے ہوں۔

دس منٹ کے اندر یہ خوبصورتی ہم سے دور ہو جاتی ہے۔ ابھی صبح کے دس بھی نہیں بجے ہیں، لیکن سورج کی تیزی اپنے شباب پر ہے، مٹی خشک ہے اور پیشانی کا پسینہ آنکھوں میں اتر کر چبھنے لگا ہے۔ ضلع میں ہر جگہ ہمیں زمین میں دراڑیں پڑی نظر آتی ہیں، جیسے رام ناتھ پورم کی زمین بارش کے پانی کے لیے پیاسی ہو۔ امبیکا کا مرچ کا پلاٹ دوسروں سے مختلف نہیں ہے۔ زمین پر دراڑوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لیکن وہ نہیں مانتیں کہ یہ اتنا خشک ہے۔ اپنے پیر کے انگوٹھے سے – دوسرے میں چاندی کے میٹّی (انگوٹھیاں) ہیں) – وہ مٹی کھودتی ہیں اور پوچھتی ہیں ’’یہ دیکھیں، کیا اس میں نمی نہیں ہے؟‘‘

امبیکا کی فیملی کئی پشتوں سے روزی روٹی کے لیے کھیتی پر منحصر ہے۔ ان کی عمر۳۸ سال ہے، اور ان کے ساتھ آنے والی ان کی بھابھی، ایس رانی، ۳۳ سال کی ہیں۔ دونوں فیملی کے پاس ایک ایک ایکڑ زمین ہے۔ وہ مرچ کے ساتھ ساتھ آگتی ، ایک قسم کی پالک، اگاتی ہیں، جو ان کی بکریوں کے لیے بہت اچھا چارہ مہیا کرتی ہے۔ کبھی کبھی، وہ بھنڈی اور بیگن کی کھیتی بھی کر لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے ان کے کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن کیا انہیں آمدنی کی ضرورت نہیں ہے؟

فصل کی حفاظت کے لیے یہ عورتیں روزانہ صبح ۸ بجے کھیت میں آتی ہیں اور شام ۵ بجے تک وہاں رہتی ہیں۔ ’’ورنہ بکریاں پودے کھا جائیں گی!‘‘ ہر صبح، وہ ۴ بجے اٹھتی ہیں، گھر کی صفائی کرتی ہیں، پانی لاتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، بچوں کو جگاتی ہیں، برتن دھوتی ہیں، کھانا پیک کرتی ہیں، مویشیوں اور مرغیوں کو چارہ  ڈالتی ہیں، کھیت میں جاتی ہیں، وہاں کام کرتی ہیں، جانوروں کو پانی پلانے کے لیے کبھی دوپہر کو بھی گھر واپس آ جاتی  ہیں۔ پھر، مرچ کے پودوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں، ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں، اور اسی ’شارٹ کٹ‘ سے آدھا گھنٹہ پیدل چلتی ہیں، جہاں ایک کتیا کے بچے اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ بہرحال، کم از کم وہ ماں تھوڑی دیر کے لیے بھاگ تو سکتی تھی…

Ambika wearing a purple saree working with Rani in their chilli fields
PHOTO • M. Palani Kumar

امبیکا جامنی رنگ کی ساڑی پہنے رانی کے ساتھ اپنے مرچ کے کھیتوں میں کام کر رہی ہیں

Ambika with some freshly plucked chillies
PHOTO • M. Palani Kumar

کچھ تازہ توڑی ہوئی مرچوں کے ساتھ امبیکا

امبیکا کا بیٹا انہیں کال کر رہا ہے۔ ’’ اینّڑا ،‘‘ جب فون تیسری بار کالر ٹیون سناتا ہے تو وہ پوچھتی ہیں، ’’تمہیں کیا چاہیے؟‘‘ اس کی بات سنتے ہی ان کی بھوئیں تن جاتی ہیں اور وہ اسے ہلکی ڈانٹ پلانے کے بعد فون کاٹ دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گھر میں بچوں کے بھی مطالبات ہوتے ہیں۔ ’’ہم چاہے جو پکائیں، انہیں انڈے اور آلو ہی چاہئیں۔ لہٰذا ہم کچھ چیزیں فرائی بھی کرتے ہیں۔ اتوار کو ان کی پسند کا گوشت خریدتے ہیں۔‘‘

ہماری بات چیت کے دوران یہ اور پڑوس کے کھیت کی عورتیں مرچیں توڑنے میں مشغول ہیں۔ وہ تیزی سے کام کر رہی ہیں، شاخوں کو احتیاط سے اٹھا تی ہیں اور ان سے مرچیں توڑتی ہیں۔ جب ان کی مٹھی بھر جاتی ہے تو وہ انہیں پینٹ کی بالٹی میں ڈال دیتی ہیں۔ امبیکا کہتی ہیں کہ اس سے پہلے وہ کھجور کے پتوں کی ٹوکریاں استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب یہ پلاسٹک کی مضبوط بالٹی ہے جو کئی فصلوں تک کام آتی ہے۔

اُدھر، گھر کی چھت پر امبیکا کی فصل آگ اگلتے سورج کے نیچے پڑی ہے۔ وہ سرخ مرچوں کو بڑے احتیاط سے پھیلاتی ہیں اور انہیں اکثر الٹتی پلٹتی ہیں، تاکہ وہ یکساں طور پر سوکھ جائیں۔ وہ چند مرچوں کو اٹھا کر ہلاتی ہیں۔ ’’جب یہ تیار ہو جائیں گی، تو ان سے گَڑ گَڑا کی  آواز آئے گی۔‘‘ یہ وہ بیج ہیں جو پھلوں کے اندر بجتے ہیں۔ اس مرحلے میں وہ مرچوں کو اکٹھا کرکے بوریوں میں رکھ کر تولتی  ہیں، اور گاؤں کے کمیشن ایجنٹ کے پاس لے جاتی ہیں۔ یا تھوڑی بہتر قیمت حاصل کرنے کے لیے وہ خود ہی پرم کوڑی یا رام ناتھ پورم کے بازار میں لے جاتی ہیں۔

سیڑھیوں سے نیچے بنے باورچی خانہ میں، امبیکا مجھ سے پوچھتی ہیں، ’’کیا آپ کلر (ایک بوتل بند مشروب) لیں گی۔‘‘

وہ مجھے قریب کے کھیت میں بکریوں کا باڑا دکھانے لے جاتی ہیں۔ وہاں کسانوں کے محافظ کتے تاروں کی باڑ کے نیچے سوئے ہوئے ہیں۔ جاگتے ہی ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ قریب مت آنا۔ ’’جب میرے شوہر کسی تقریب میں کھانا تقسیم کرنے جاتے ہیں، تو میرا کتا میری بھی حفاظت کرتا ہے۔ میرے شوہر کسان بھی ہیں اور کام ملنے پر مزدوری بھی کرتے ہیں۔‘‘

کم عمری کی اپنی شادی کو یاد کرکے وہ شرما جاتی ہیں۔ ’’اس وقت ہم سنیما جایا کرتے تھے۔ لیکن میں نے تھیٹر میں آخری فلم ۱۸ سال پہلے دیکھی تھی۔ فلم کا نام تھا: تُلّات مڑمم تُلُّم (یعنی، نہ دھڑکنے والا دل بھی دھڑکنے لگے گا)۔ فلم کا نام سن کر ہم دونوں ہنسنے لگے۔

Women working in the chilli fields
PHOTO • M. Palani Kumar

مرچ کے کھیتوں میں کام کرتی عورتیں

Ambika of Melayakudi village drying her chilli harvest on her terrace
PHOTO • M. Palani Kumar

میلایا کوڑی گاؤں کی امبیکا، اپنی چھت پر مرچ سُکھا رہی ہیں

*****

’’چھوٹے کاشتکار اپنی مرچ کی فصل فروخت کرنے کی کوشش میں ۱۸ فیصد آمدنی کھو دیتے ہیں‘‘
کے گندھی راسو، ڈائرکٹر، مُنڈو مرچ کاشتکار ایسو سی ایشن، رام ناتھ پورم

گندھی راسو کہتے ہیں، ’’جن کسانوں کے پاس مرچ کی پانچ یا دس بوریاں ہیں، ان کی بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ان کو اپنے گاؤں سے منڈی تک فصل پہنچانے کے لیے ٹیمپو/ دیگر ٹرانسپورٹ کے کرایے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ دوسرے، وہاں تاجر آکر قیمت طے کریں گے اور کمیشن کے طور پر آٹھ فیصد لے لیں گے۔ تیسرے، تاجروں کے حق میں وزن میں فرق ہو سکتا ہے۔ اگر وہ فی بوری آدھا کلو بھی کم کر دیں تو اس میں کسانوں کا نقصان ہے۔ بہت سے کسان اس کی شکایت کرتے ہیں۔‘‘

مزید برآں، ایک شخص کو پورا دن کھیت سے دور منڈی میں گزارنا پڑتا ہے۔ اگر تاجروں کے پاس پیسے ہیں، تو وہ فوراً ادا کر دیں گے۔ اگر نہیں ہیں، تو وہ انہیں دوبارہ آنے کو کہیں گے۔ اگر کوئی شخص بازار جاتا ہے، تو وہ عموماً دوپہر کا کھانا اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔ وہ ہوٹل میں کھائے گا۔ ان تمام چیزوں کا حساب لگانے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی کل آمدنی کا ۱۸ فیصد حصہ یہیں خرچ ہوجاتا ہے۔

گندھی راسو ایک کسان پیداوار تنظیم (ایف پی او) چلاتے ہیں۔ سال ۲۰۱۵ کے بعد سے، رام ناد مُنڈو مرچ پروڈکشن کمپنی لمیٹڈ نے کسانوں کی آمدنی بڑھانے کی غرض سے کام کیا ہے۔ وہ اس تنظیم کے چیئرمین اور ڈائرکٹر ہیں۔ ان سے ہماری ملاقات مُڈوکولاتور قصبہ میں، ان کے دفتر میں ہوتی ہے۔ ’’آپ آمدنی کیسے بڑھاتے ہیں؟ سب سے پہلے آپ کاشت کی لاگت کم کرتے ہیں۔ دوسرے، پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔ اور تیسرے، مارکیٹنگ کی مداخلت مہیا کراتے ہیں۔ ابھی، ہم مارکیٹنگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔‘‘ رام ناتھ پورم ضلع میں انہیں مداخلت کی فوری ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہاں لوگ بہت زیادہ نقل مکانی کر رہے ہیں۔‘‘

حکومتی اعداد و شمار ان کے بیان کی تائید کرتے ہیں۔ تمل ناڈو رورل ٹرانسفارمیشن پروجیکٹ کی رام ناتھ پورم ضلع کے لیے تشخیصی رپورٹ کا تخمینہ ہے کہ ہر سال ۳ سے ۵ ہزار کسان نقل مکانی کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں دلالوں کے اثر و رسوخ، ناقص آبی وسائل، خشک سالی، اور کولڈ اسٹوریج کی کمی کو بھی پیداواری صلاحیت میں رکاوٹوں کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔

گندھی راسو کہتے ہیں کہ پانی گیم چینجر ہے۔ ’’آپ کاویری ڈیلٹا کے علاقے یا مغربی تمل ناڈو کے کھیتوں میں جائیں۔ وہاں آپ کیا دیکھیں گے؟‘‘ وہ اپنی بات میں اثر پیدا کرنے کے لیے رکتے ہیں۔ ’’وہاں بجلی کے کھمبے ہیں، کیونکہ ہر جگہ بورویل ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ رام ناتھ پورم میں بہت کم بورویل ہیں۔ بارش سے ہونے والی آبپاشی کے اپنے حدود ہیں، جو موسم کی بے ترتیبی سے مشروط ہے۔

Gandhirasu, Director, Mundu Chilli Growers Association, Ramanathapuram.
PHOTO • M. Palani Kumar
Sacks of red chillies in the government run cold storage yard
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: گندھی راسو، ڈائرکٹر، منڈو مرچ کاشتکار ایسوسی ایشن، رام ناتھ پورم۔ دائیں: سرکاری کولڈ اسٹوریج یارڈ میں رکھی ہوئی لال مرچ کی بوریاں

ایک بار پھر، سرکاری اعداد و شمار – اس دفعہ ضلعی شماریاتی ہینڈبک – سے ان کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ رام ناتھ پورم میں بجلی کی تقسیم کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع میں سال ۲۰۱۸-۱۹ میں صرف ۹۲۴۸ پمپ سیٹ تھے۔ ظاہر ہے یہ ریاست کے کل ۱۸ لاکھ پمپ سیٹوں کا ایک معمولی سا حصہ ہے۔

تاہم رام ناتھ پورم کے مسائل میں شاید ہی کچھ نیا ہو۔’ ایوری باڈی لوز اے گڈ ڈراؤٹ‘ (۱۹۹۶ میں شائع) میں صحافی پی سائی ناتھ نے مشہور مصنف (آنجہانی) میلن مئی پُونّوسوامی کا انٹرویو کیا تھا۔ ’’عام خیال کے برعکس اس ضلع میں اچھی زرعی صلاحیتیں موجود ہیں۔ لیکن کیا کسی نے کبھی اسے ذہن میں رکھ کر کام کیا ہے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’رام ناد میں ۸۰ فیصد سے زیادہ زمینیں دو ایکڑ سے بھی کم ہیں اور کئی وجوہات کی بناپر غیر اقتصادی ہیں۔ اس فہرست میں سب سے اوپر آبپاشی کی کمی ہے۔‘‘

زرعی صلاحیتوں کے بارے میں پُونّوسوامی کا نظریہ بالکل درست ہے۔ سال ۲۰۱۸-۱۹میں، رام ناتھ پورم ضلع میں ۴۴۲۶ اعشاریہ ۶۴ میٹرک ٹن مالیت کی مرچوں کی تجارت ہوئی، جس کی قیمت ۳۳ کروڑ ۶۰ لاکھ روپے تھی۔ (دھان جو زیادہ تر سیراب شدہ زمین پر اگایا جاتا ہے، اس کی پیداوار صرف ۱۵ کروڑ ۸۰ لاکھ روپے کے برابر ہوئی)۔

گندھی راسو خود ایک کسان کے بیٹے ہیں اور اپنی ماسٹر ڈگری کی پڑھائی کے دوران زراعت سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ مرچ کے پیداوار کے امکانات کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کی کاشتکاری کی معاشیات میں ڈوب جاتے ہیں۔ عموماً، ایک چھوٹا کسان ایک ایکڑ زمین پر اس فصل کو اگاتا ہے۔ فصل کی کٹائی کے دوران، وہ کچھ مزدوروں کو کام پر لگاتا ہے اور باقی کام فیملی عام طور پر خود سنبھال لیتی ہے۔ ’’ مُنڈو مرچ کی ایک ایکڑ کاشت کی لاگت ۲۵ ہزار سے ۲۸ ہزار روپے کے درمیان آتی ہے۔ فصل توڑنے کے بعد اس میں مزید ۲۰ ہزار روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ۱۰ سے ۱۵ لوگوں کی مزدوری پر، جو اسے چار بار توڑتے ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ہر مزدور روزانہ مرچ کی ایک بوری جمع کر سکتا ہے۔ جب پودے گھنے ہوتے ہیں تو یہ مشکل کام ہوتا ہے۔

مرچ چھ ماہ کی فصل ہے۔ اسے اکتوبر میں بویا جاتا ہے، اور اس کے دو بوگم (پیداوار) ہوتے ہیں۔ پہلا پھل تائی میں تیار ہوتا ہے، جو تمل مہینہ ہے اور جنوری کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرا چِتّی رئی (اپریل کے وسط سے شروع ہوتا ہے) میں ختم ہوتا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں بے موسم بارش نے فصل کی پوری سائیکل کو درہم برہم کر دیا تھا۔ پودوں کی پہلی کھیپ مر گئی، پھول آنے میں تاخیر ہوئی، اور پھل بھی بہت کم لگے۔

بہرحال، ناقص سپلائی اور اچھی مانگ کی بدولت قیمت پچھلے زیادہ تر سالوں سے بہتر رہی ہے۔ رام ناتھ پورم اور پرم کوڑی کے بازاروں کے کسان مارچ کے ابتدائی دنوں میں مرچ کی غیرمعمولی قیمتوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ پہلی کھیپ ۴۵۰ روپے فی کلو فروخت ہوئی تھی۔ وہاں اس کے ۵۰۰ روپے فی کلو تک پہنچنے کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔

Ambika plucks chillies and drops them in a paint bucket. Ramnad mundu, also known as sambhar chilli in Chennai, when ground makes puli kozhambu (a tangy tamarind gravy) thick and tasty
PHOTO • M. Palani Kumar

امبیکا مرچیں توڑ کر پینٹ کی بالٹی میں ڈالتی ہیں۔ رام ناد مُنڈو ، جسے چنئی میں سامبھر مرچ بھی کہا جاتا ہے، یہ پسنے کے بعد پُلی کولمب (املی کی چٹک دار گریوی) کو گاڑھا اور لذیذ بناتی ہے

A lot of mundu chillies in the trader shop. The cultivation of chilli is hard because of high production costs, expensive harvesting and intensive labour
PHOTO • M. Palani Kumar

تاجر کی دکان میں بہت ساری مُنڈو مرچیں۔ زیادہ پیداواری لاگت، مہنگی کٹائی اور سخت محنت کی وجہ سے مرچ کی کاشت مشکل ہے

گندھی راسو ان اعداد وشمار کو ’سونامی‘ کہتے ہیں۔ وہ ایک کلو مُنڈو مرچ کی قیمت کم و بیش ۱۲۰ روپے فی کلو بتاتے ہیں۔ ایک ایکڑ میں ۱۰۰۰ کلو پیداوار کے ساتھ ایک کسان تقریباً ۵۰ ہزار روپے کے منافع کی امید کر سکتا ہے۔ ’’دو سال پہلے، مرچیں صرف ۹۰ یا ۱۰۰ روپے فی کلو فروخت ہوتی تھیں۔ آج کا ریٹ بہت اچھا ہے۔ لیکن ہم ۳۵۰ روپے فی کلو کی قیمت پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ایک انحراف ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ مُنڈو مرچ ضلع کی ایک مقبول فصل ہے۔ یہ ایک ’عجیب‘ قسم ہے، جو چھوٹے ٹماٹر کے بالکل مشابہ ہوتی ہے۔ ’’ رام ناد مُنڈو کو چنئی میں سامبھر مرچ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس کی جلد موٹی ہوتی ہے، اس لیے اگر آپ اسے پیس کر پُلی کولمب (املی کی چٹکدار گریوی) میں ملائیں تو وہ گاڑھی ہو جاتی ہے۔ اور ذائقہ بھی لاجواب ہوتا ہے۔

ہندوستان اور بیرون ملک مُنڈو کا بہت بڑا بازار ہے۔ جیسا کہ فوری آن لائن سرچ سے انکشاف ہوتا ہے۔ مئی کے وسط تک آمازون پر منڈو مرچ ۷۹۹ روپے فی کلو کی شاندار قیمت پر فروخت ہو رہی تھی، وہ بھی ۲۰ فیصد کی پرکشش رعایت کے بعد۔

’’ہمیں نہیں معلوم کہ اس کے لیے کیسے لابنگ کی جائے،‘‘ گندھی راسو تسلیم کرتے ہیں۔ ’’مارکیٹنگ ایک مسئلہ ہے۔‘‘ اس کے علاوہ، ۱یف پی او کے تمام اراکین (۱۰۰۰ سے زیادہ کسان) اپنی پیداوار اس تنظیم کو فروخت نہیں کرتے ہیں۔ ’’ہم ان کی تمام فصلوں کو خریدنے کے لیے نہ تو اس قسم کے فنڈز جمع کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ذخیرہ کر سکتے ہیں۔‘‘

اچھی قیمت کے انتظار میں ایف پی او کے ذریعہ فصل کا ذخیرہ کرنا اس لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ کئی مہینوں تک مرچوں کا ذخیرہ کرنے سے ان کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے اور ان کے پاؤڈر کیڑوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہم رام ناتھ پورم قصبے سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور حکومت کے زیر انتظام ایک کولڈ اسٹوریج کی سہولت میں موجود ریفریجریٹر والے حصہ میں گئے تھے۔ وہاں پچھلے سال مرچوں کی بوریاں رکھی گئی تھیں۔ حالانکہ انتظامیہ تاجروں اور پروڈیوسروں دونوں کو ایک ہی مقام پر لانے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن کسان پس و پیش میں مبتلا تھے۔ وہ اپنی پیداوار کو اس سہولت تک پہنچانے اور وہاں سے لے جانے کے عمل کے بارے میں غیر یقینی کا شکار تھے۔

ایف پی او اپنے طور پر، کسانوں کو کیڑوں پر قابو پانے کے روایتی طریقے آزمانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ’’اس خطے میں آمڑکّو (ارنڈی) کے پیڑ عام طور پر مرچوں کے کھیتوں کے ارد گرد اگائے جاتے تھے، کیونکہ یہ ملہائی پر حملہ کرنے والے ہر طرح کے کیڑوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ارنڈی کا پیڑ بڑا ہوتا ہے اور چھوٹے پرندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ بھی کیڑے کھاتے ہیں۔ یہ ایک اوئیرویلی (ایک زندہ باڑ) کی طرح ہے۔

Changing rain patterns affect the harvest. Damaged chillies turn white and fall down
PHOTO • M. Palani Kumar

بارش کے پیٹرن میں تبدیلی فصل کو متاثر کر رہی ہے۔ خراب مرچیں سفید ہو کر گر جاتی ہیں

A dried up chilli plant and the cracked earth of Ramanathapuram
PHOTO • M. Palani Kumar

مرچ کا ایک سوکھا پودا اور رام ناتھ پورم کی پھٹی ہوئی زمین

انہیں اپنی ماں کا کھیت کے کنارے دھاریوں پر آمڑکّو اور آگتی (پالک کی ایک مشہور قسم جسے اگست ٹری بھی کہتے ہیں) اگانا یاد ہے۔ ’’جب وہ مرچوں کی دیکھ بھال کے لیے جاتی تھیں تو ہماری بکریاں بھی ان کے پیچھے بھاگتی تھیں۔ وہ انہیں ایک طرف باندھ کر آگتی اور آمڑکّو کے پتے کھلاتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں، اگر ملہائی ایک بڑی فصل تھی تو آمڑکّو ایک چھوٹی فصل۔ مرچ کی پیداوار سے پیسے میرے والد کو ملتے تھے۔ میری ماں ارنڈی سے آنے والی رقم اپنے پاس رکھ لیتی تھیں۔‘‘

ماضی کی مثالوں کے علاوہ، گندھی راسو مدد کے لیے مستقبل اور سائنس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں رام ناتھ پورم میں مرچوں کے تحقیقی مرکز کی ضرورت ہے، خاص طور پر موڈوکولاتور میں۔ دھان، کیلا، الائچی، ہلدی سبھی کے تحقیقی مراکز ہیں۔ اگر آپ کے پاس اسکول اور کالج ہیں تو ہی آپ اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے وہاں بھیجیں گے۔ جب کوئی مرکز ہوگا، تبھی آپ اپنے مسائل کے حل کے لیے اس سے رجوع کریں گے۔ اس کے بعد مرچ کی کھیتی ’اگلی سطح‘ پر پہنچ جائے گی۔‘‘

فی الحال ایف پی مُنڈو کی قسم کے لیے جغرافیائی نشان کے ٹیگ پر کام کر رہا ہے۔ ’’اس مرچ کی خصوصیات کے بارے میں بات کرنی ہی ہوگی۔ شاید ہمیں اس کے بارے میں ایک کتاب کی ضرورت ہے؟‘‘

گندھی راسو کا کہنا ہے کہ قدر میں اضافے کو تمام زرعی مسائل کے حل کے طور پر پیش کرنے کے تمام دعوں سے مرچ کا کام نہیں چلے گا۔ ’’آپ دیکھیں گے کہ ہر شخص کے پاس مرچ کی ۵۰ یا ۶۰ بوریاں ہیں۔ وہ اس سے کیا کر سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ ایف پی او اجتماعی طور پر مسالا کمپنیوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان سے سستا مرچ پاؤڈر فروخت نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ، ان کا مارکیٹنگ بجٹ کروڑوں میں جاتا ہے۔‘‘

گندھی راسو کا کہنا ہے کہ مستقبل کا بنیادی مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی ہوگا۔

وہ دریافت کرتے ہیں، ’’ہم اس سے نمٹنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ تین دن پہلے طوفان کا خطرہ تھا۔ میں نے مارچ میں طوفان کے بارے میں کبھی نہیں سنا! اگر پانی زیادہ ہو تو مرچ کے پودے مر جائیں گے۔ کسانوں کو اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔‘‘

*****

’’خواتین اپنی ضرورت کے مطابق، یا ضرورت سے کم قرض لیتی ہیں۔ تعلیم، شادی، بچے کی پیدائش جیسے کاموں کے لیے ہم قرض دینے سے کبھی انکار نہیں کریں گے۔ زراعت ان سب کاموں کے بعد آتی ہے۔‘‘
جے اڈکّل چیلوی، مرچ کی کاشتکار اور ایس ایچ جی لیڈر پی موتو وجیہ پورم، رام ناتھ پورم

’’آپ کو ڈر ہے کہ آپ پودے کو نوچ لیں گے، ہے نا؟‘‘ اڈکّل چیلوی ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے پڑوسی کے کھیت میں کام پر لگا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کام کرنے والوں کی کمی ہے اور وہ کچھ اضافی مدد کے لیے دعا کر رہے تھے۔ انہیں جلد ہی اپنے شکریے پر افسوس کرنا پڑتا ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا ہے۔ اس دوران اڈکّل چیلوی نے ایک بالٹی اٹھا کر  اپنے تیسرے پودے سے مرچیں توڑنا شروع کر دیا ہے۔ میں اپنے پہلے پودے کے پاس بیٹھتی ہوں اور ایک موٹی مرچ توڑ لیتی ہوں۔ تنا موٹا اور سخت ہے۔ یہ میرے گھر میں موجو میری انجل پیٹّی (مسالے کا ڈبہ) میں سوکھی لال مرچوں کی طرح نہیں ہے۔ اور مجھے ڈر ہے کہ میں شاخ توڑ دوں گی۔

Adaikalaselvi adjusting her head towel and working in her chilli field
PHOTO • M. Palani Kumar

اڈکّل چیلوی مرچ کے کھیت میں کام کرنے کے دوران اپنے سر کے تولیہ کو درست کر تے ہوئے

چند عورتیں تماشا دیکھنے کے لیے آس پاس جمع ہو جاتی ہیں۔ پڑوس کے کھیت کا مالک سر ہلاتا ہے۔ اڈکّل چیلوی حوصلہ افزا آوازیں نکالتی ہیں۔ ان کی بالٹی بھر رہی ہے، میری ہتھیلی میں تقریباً آٹھ سرخ پھل ہیں۔ ’’آپ کو چیلوی کو اپنے ساتھ چنئی لے جانا چاہیے،‘‘ پڑوسی کسان کہتا ہے۔ ’’وہ کھیت سنبھال سکتی ہے، اور دفتر بھی سنبھال سکتی ہے۔‘‘ وہ مجھے کوئی کام نہیں دیتا۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ میں ان کی نظروں میں کھری نہیں اتر پائی ہوں۔

اڈکّل چیلوی اپنے گھر میں ایک دفتر سنبھالتی ہیں۔ اسے ایف پی او نے قائم کیا ہے۔ اس میں کمپیوٹر اور زیروکس مشین ہیں۔ ان کا کام کاغذات کی فوٹو کاپیاں نکالنا اور لوگوں کو پَٹوں (زمین کی خرید و فروخت) کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے۔ ’’میرے پاس مزید کچھ کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ بکریاں اور مرغیاں بھی ہیں جن کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔‘‘

ان کی ذمہ داریوں میں مَگلیر منڈرم یا خواتین کا سیلف ہیلپ گروپ چلانا بھی شامل ہے۔ گاؤں میں اس کے ساٹھ ممبران ہیں، جو پانچ گروپوں میں بٹی ہوئی ہیں اور ہر ایک کی دو تلائیوی (رہنما) ہیں۔ اڈکّل چیلوی انہی دس میں سے ایک ہیں۔ ان کی سرگرمیوں میں پیسہ جمع کرنا اور تقسیم کرنا شامل ہے۔ ’’لوگ زیادہ سود پر قرض لیتے ہیں: رینڈ وٹّی ، انجو وٹّی (یعنی ۲۴ سے ۶۰ فیصد سالانہ پر)۔ ہمارے مَگلیر منڈرم قرضے اورو وَٹّی ہیں یعنی ہر ایک لاکھ کے لیے ۱۰۰۰ روپے۔ یہ تقریباً ۱۲ فیصد سالانہ ہے۔ ’’لیکن ہم جو رقم جمع کرتے ہیں وہ صرف ایک شخص کو نہیں دیتے۔ یہاں ہر کوئی ایک چھوٹا کسان ہے، ان سب کو مصیبت کے وقت کچھ پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، ہے نا؟‘‘

عورتیں اپنی ضرورت کے مطابق یا ضرورت سے کم قرضے لیتی ہیں۔ عموماً ان کی تین ترجیحات ہوتی ہیں، وہ وضاحت کرتی ہیں۔ ’’تعلیم، شادی، بچے کی پیدائش۔ ان کاموں کے لیے ہم قرض دینے سے انکار نہیں کریں گے۔ زراعت کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔‘‘

قرضوں کی ادائیگی کے معاملے میں اڈکّل چیلوی نے ایک اہم تبدیلی کو متعارف کرایا۔ ’’پہلے، ایسا ہوا کرتا تھا کہ آپ کو ہر ماہ ایک مقررہ رقم ادا کرنی پڑتی تھی۔ میں نے ان سے کہا: ہم سب کسان ہیں۔ ہمارے پاس کچھ مہینوں تک پیسے نہیں ہوں گے، اور فصل بیچنے کے بعد، ہمارے پاس کچھ نقد رقم آئے گی۔ لوگوں کو اس وقت تک ادائیگی کی مہلت دی جائے جب وہ ادائیگی کر سکیں۔ ہر ایک کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، ہے نا؟‘‘ یہ جامع بینکنگ کے طریقوں کی ایک مثال ہے، جو مقامی اور زندہ حقیقتوں کو مدنظر رکھتی ہے۔

Adaikalaselvi, is among the ten women leaders running  women’s self-help groups. She is bringing about changes in loan repayment patterns that benefit women
PHOTO • M. Palani Kumar

اڈکّل چیلوی ان دس خواتین لیڈروں میں شامل ہیں جو خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ چلا رہی ہیں۔ وہ قرض کی ادائیگی کے طریقوں میں ایسی تبدیلیاں لا رہی ہیں جن سے خواتین کو فائدہ پہنچے

مَگلیر منڈرم ۳۰ سال قبل ان کی شادی سے پہلے بھی گاؤں میں موجود تھا۔ یہ گاؤں کے لیے پروگرام بھی منعقد کرتا ہے۔ مارچ میں ہمارے دورے کے بعد ہفتے کے آخر میں، انہوں نے یوم خواتین  منانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ’’چرچ میں اتوار کے اجتماع کے بعد، ہم کیک تقسیم کریں گے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ بارش کے لیے دعائیں بھی کریں گے، پونگل منائیں گے اور سب کو کھلائیں گے۔

چونکہ وہ بے باک اور آزادانہ طور پر اپنی بات رکھتی ہیں، اس لیے اگر گاؤں کے مرد شراب پیتے ہیں یا اپنی بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو اڈکّل چیلوی ان مردوں کو سمجھاتی ہیں۔ موٹر سائیکل چلا کر یا کئی دہائیوں سے خود اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کر کے وہ دوسری خواتین کے لیے بھی ایک مثال پیش کر رہی ہیں۔ ’’سبھی نوجوان خواتین ہوشیار ہیں، وہ بائیک چلاتی ہیں، تعلیم یافتہ ہیں۔ لیکن،‘‘ وہ تلخ لہجے میں پوچھتی ہیں، ’’نوکریاں کہاں ہیں؟‘‘

اب جب کہ ان کے شوہر واپس آ گئے ہیں ، وہ کھیتی کے کاموں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے پاس جو وقت بچتا ہے اس کا استعمال وہ کسی دوسرے کام میں کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر کپاس سے متعلق۔ وہ کپاس کی کھیتی بھی کرتی ہیں۔ ’’پچھلے دس سالوں سے، میں کپاس کا بیج نکال کر فروخت کر رہی ہوں۔ اس بیج کی قیمت ۱۰۰ روپے فی کلو ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے کپاس کے بیج خریدتے ہیں، کیونکہ میرے بیج میں بہت اچھے کونپل آتے ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ پچھلے سال میں نے ۱۵۰ کلو بیج بیچے تھے۔‘‘ وہ ایک پلاسٹک کا تھیلا کھولتی ہیں، اور ایک جادوگر اور اس کے خرگوش کی طرح تین لفافے نکالتی ہیں اور مجھے مختلف قسم کے بیج دکھاتی ہیں۔ بیج کے تحفط کی یہ ایک اور ذمہ داری ہے جسے وہ بغیر کسی ہنگامے کے نبھاتی ہیں۔

مئی کے آخر تک ان کی مرچ کی فصل تیار ہو جاتی ہے، اور ہم فون پر سیزن کے بارے میں ان سے بات کرتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتی ہیں، ’’قیمتیں ۳۰۰ روپے سے گر کر ۱۲۰ روپے فی کلو ہو گئی ہیں۔ قیمتوں میں مسلسل گراوٹ آئی ہے۔‘‘ ان کے ایک ایکڑ کھیت میں مرچوں کی پیداوار صرف ۲۰۰ کلو رہی ہے۔ ان کی فروخت پر انہوں نے ۸ فیصد کمیشن ادا کیا ہے، نیز ہر ۲۰ کلو پر ۱ کلو کا نقصان اٹھایا ہے، کیونکہ تاجر ۲۰۰ گرام کی بوری پر ۸۰۰ گرام کی اضافی کٹوتی لگا دیتے ہیں۔ اس سال بھی ان کی کمائی نہیں ہوئی، حالانکہ قیمت زیادہ بری نہیں تھی۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ بارش نے پودوں کے ساتھ گڑبڑ کر دی، اور پیداوار کم ہوگئی۔

تاہم، کسانوں کا کام کبھی کم نہیں ہو پاتا۔ یہاں تک کہ ایک مرچ کی خراب فصل کو بھی توڑنا پڑتا ہے، اور اسے خشک کرکے تھیلے میں رکھ کر بیچنا پڑتا ہے۔ اور اڈکّل چیلوی اور ان کے ساتھیوں کی محنت سانبھر کے ہر ایک چمچ کا ذائقہ بڑھاتی ہے…

اس اسٹوری میں مدد بہم پہنچانے کے لیے یہ رپورٹر رام ناد مُنڈو مرچ پروڈکشن کمپنی کے، کے شیوکمار اور بی سوگنیہ کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔

اس تحقیقی مطالعہ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی کی طرف سے اپنے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے حصہ کے طور پر مالی تعاون حاصل ہے۔

کور فوٹو: ایم پلانی کمار

مترجم: شفیق عالم

Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam