دہلی میں سردیوں کی ایک بوجھل دوپہر تھی۔ جنوری کا سورج برآمدے میں کسی مہمان کی طرح براجمان تھا، جب قمر تبریز نے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور اپنی ماں کو فون کیا۔ ۷۵ سالہ شمیمہ خاتون کے ساتھ اپنی بات چیت کے دوران وہ بہار کے سیتامڑھی ضلع کے بری پھلوریہ گاؤں میں اپنے بچپن کے گھر میں پہنچ گئے۔

آپ اگر فون کی دونوں جانب کی آوازیں سنتے، تو آپ کو یقیناً کچھ عجیب سا احساس ہوا ہوتا۔ خالص اردو میں بات کرتے ہوئے قمر پوچھتے ہیں، ’’امی ذرا یہ بتائیے گا کہ بچپن میں جو میرے سر پہ زخم نکلتے تھے ان کا علاج کیسے کرتی تھیں آپ؟‘‘

’’سیر میں جو ہو جاہئی – توروہو  ہولا رہا – بتکھورا کہا ہئی اوکو ادھر۔ ریہہ، چکنی مٹی لگاکے دھولیا رہا، مگر لگا ہئی بہت۔ تا چھوٹ گیلئی‘‘ [جو سر میں نکلتا ہے – تمہیں بھی نکلتا تھا – اسے یہاں بتکھورا کہتے ہیں۔ میں تمہارے سر کو ریہہ اور چکنی مٹی  سے دھویا کرتی تھی، لیکن اس سے بہت درد ہوتا ہے۔ آخرمیں وہ زخم ٹھیک ہو جاتے تھے]،‘‘ علاج کا اپنا گھریلو نسخہ بتاتے ہوئے وہ کھل کر ہنستی ہیں، لیکن ان کی زبان قمر کی زبان سے بالکل مختلف ہے۔

ان کی بات چیت میں کوئی غیرمعمولی چیز نہیں تھی۔ قمر اور ان کی والدہ ہمیشہ ایک دوسرے سے اسی طرح دو الگ زبانوں میں بات کرتے ہیں۔

’’میں ان کی بولی سمجھتا ہوں، لیکن اس میں بات نہیں کر سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ اردو میری ’مادری زبان‘ ہے، لیکن میری ماں مختلف بولی بولتی ہیں،‘‘ وہ اگلے دن پاری بھاشا میٹنگ میں کہتے ہیں، جہاں ہم مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنی اسٹوری کے موضوع پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’اس زبان کا نام کسی کو معلوم نہیں ہے، نہ تو امّی کو اور نہ ہی میرے خاندان میں کسی اور شخص کو، یہاں تک کہ اسے بولنے والے دیگر افراد کو بھی نہیں۔‘‘ وہ مرد (بشمول قمر، ان کے والد اور بھائی کے) جو گاؤں سے تعلیم یا کام کی تلاش میں ہجرت کر گئے تھے وہ کبھی یہ بولی نہیں بولتے۔ قمر کے بچوں کے لیے یہ بولی اور زیادہ اجنبی ہے۔ وہ اپنی دادی کی زبان نہیں سمجھتے ہیں۔

A board at the entrance to the w restling school in rural western Maharashtra says taleem (Urdu for education). But the first thing you see within is an image of Hanuman, the deity of wrestlers (pehelwans) here. It's an image that speaks of a syncretic blend of cultures
PHOTO • P. Sainath

مغربی مہاراشٹر کے ایک گاؤں میں کشتی بازی کے ایک اسکول کے داخلی دروازہ پر آویزاں بورڈ پر تعلیم (اردو لفظ) لکھا ہے۔ لیکن پہلی چیز جو آپ کو اس میں نظر آتی ہے وہ ہنومان کی تصویر ہے، جو یہاں پہلوانوں کے دیوتا ہیں۔ یہ ایک ایسی تصویر ہے جو ثقافتوں کی ہم آہنگی کے باہمی امتزاج کو ظاہر کرتی ہے

’’میں نے مزید جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی،‘‘ قمر کہتے ہیں۔ ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ماہر لسانیات محمد جہانگیر وارثی اسے ’میتھلی اردو‘ کہتے ہیں۔ جے این یو سے تعلق رکھنے والے ایک اور پروفیسر رضوان الرحمن کہتے ہیں کہ بہار کے اس خطہ کے مسلمان سرکاری دستاویز میں اردو کو اپنی مادری زبان درج کرواتے ہیں، لیکن گھر میں الگ بولی بولتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی مادری زبان کی زبان اردو، فارسی، عربی، ہندی اور میتھلی کا مرکب ہے، جو اسی خطے میں پروان چڑھی ہے۔‘‘

یہ مادری زبان ہر آنے والی نسل کے ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے۔

بس اتنا ہی کافی تھا! قمر نے ہمیں لفظوں کی تلاش کے سفر پر روانہ کر دیا۔ ہم سب اپنی مادری زبانوں کے کچھ بھولے بسرے الفاظ کے نقش قدم کا تعاقب کرتے اشاروں اور نشانات (جو فراموشی کی وضاحت کرتے ہیں) کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اور اس سے پہلے کہ ہمیں کچھ معلوم ہو، ہم بورخس کے الف میں داخل ہو جاتے ہیں۔

*****

سب سے پہلے راجا نے بات کی۔ ’’تمل میں ایک مشہور محاورہ سے متعلق تیروکُرل کا ایک شعر ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’مئیر نیپّن واڑا کوَریما انّار
اوئیر نیپّر مانم ورین‘‘[ کُرَل # ۹۶۹ ]

اس کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا: جب ہرن کے جسم سے بال نوچ لیے جاتے ہیں، تو وہ مر جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اپنی عزت کھو دیتے ہیں وہ شرم سے مر جاتے ہیں۔

’’اس شعر میں انسانوں کی عزت نفس کا موازنہ ہرن کے بالوں سے کیا گیا ہے۔ کم از کم ایم یو وردراسنار کے ترجمہ سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے،‘‘ راجا جھجکتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’لیکن اگر بال اکھڑجائیں تو ہرن کیوں مرے گا؟ بعد میں ماہرِ ہندیات، آر بال کرشنن کے مضمون، وادی سندھ میں تمل گاؤوں کے نام پڑھنے کے بعد مجھ پر منکشف ہوا کہ اس شعر میں جس ’کوریما‘ کا ذکر ہے وہ تمل میں ’یاک‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ کہ ’کوَریمن‘ ، یعنی ہرن کے لیے۔

’’یاک؟ لیکن بالائی ہمالیہ میں پائے جانے والے اس جانور کا تمل شاعری میں کیا کام، یہ تو ملک کے دوسرے سرے پر آباد لوگوں کی زبان ہے۔ آر بال کرشنن تہذیبی مہاجرت کے ذریعے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وادی سندھ کے لوگ اپنے مقامی الفاظ، طرز زندگی، اور جگہ کے ناموں کے ساتھ جنوب کی طرف ہجرت کر کے آئے ہوں گے۔‘‘

A full grown Himalayan yak (left) and their pastoral Changpa owners (right). Kavarima, a word for yak, missing in modern Tamil dictionaries, is found in Sangam poetry
PHOTO • Ritayan Mukherjee
A full grown Himalayan yak (left) and their pastoral Changpa owners (right). Kavarima, a word for yak, missing in modern Tamil dictionaries, is found in Sangam poetry
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک بالغ ہمالیائی یاک (بائیں) اور ان کے چرواہا چانگپا مالکان (دائیں)۔ کوَریما ، یاک کا مترادف لفظ، جو جدید تمل لغات میں شامل نہیں ہے، لیکن سنگم شاعری میں موجود ہے

راجا کہتے ہیں، ’’وی آراسو ایک اور اسکالر ہیں جن کا خیال ہے کہ کسی شخص کو برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کو آج کے قومی ریاست یا ملکی تصور کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت ممکن ہے کہ برصغیر پاک و ہند کا پورا خطہ کبھی دراوڑی زبانیں بولنے والے لوگوں سے آباد رہا ہو۔ ایسے میں شمال میں وادی سندھ سے لے کر جنوب میں سری لنکا تک کے پورے خطے میں آباد رہنے کے بعد یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ تملوں کے پاس ہمالیہ میں رہنے والے جانور کے لیے کوئی لفظ موجود ہے۔‘‘

’’ کوَریما ایک حیرت انگیز لفظ ہے!‘‘ راجا تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ مشہور تمل لغت کریا میں لفظ کوَریما کا اندراج نہیں ہے۔‘‘

*****

ہم میں سے بہتوں کے پاس ایسے الفاظ کی کہانیاں تھیں جو اب لغات میں نہیں ملتے۔ جوشوا نے اسے معیار سازی کی سیاست کا نام دیا۔

’’صدیوں سے بنگال کے کسانوں، کمہاروں، گھریلو خواتین، شاعروں، کاریگروں نے اپنی علاقائی بولیوں میں اپنی باتیں کہی اور لکھی ہیں۔ ایسی علاقائی بولیوں میں راڑھی ، وریندری ، من بھومی ، رنگ پوری وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن، انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں بنگال کی نشاۃ ثانیہ کے دستک کے ساتھ۔ بنگلہ زبان اپنے زیادہ تر علاقائی اور عربی و فارسی کے الفاظ سے محروم ہو گئی۔ معیار کاری اور جدید کاری کی یکے بعد دیگرے آنے والی کئی لہریں، سنسکرت کاری اور اینگلو فونک، یورپی زبان کے الفاظ اور محاوروں کی آمد کے ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ ان لہروں نے بنگلہ زبان کو اس کے تکثیری کردار سے محروم کر دیا۔ اس کے بعد اب آدیواسی زبانوں جیسے سنتھالی، کرمالی، راجبونگشی، کروکھ، نیپالی وغیرہ سے منسلک الفاظ کو ٹکسال باہر کیا جا رہا ہے۔‘‘

یہ کہانی صرف بنگال کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ اس پرانی کہاوت ’’بار گو اے  بولی بدلے‘‘ (ہر ۱۲-۱۵ کلومیٹر پر بولی بدل جاتی ہے) کا اطلاق ہندوستان کی ہر زبان پر ہو سکتا ہے۔ دراصل، ہندوستان کی ہر ریاست، نوآبادیات کے دوران، آزادی کے بعد اور پھر ریاستوں کی لسانی بنیاد پر تقسیم کے دوران، اسی طرح کی بردگی کے عمل سے گزری ہے۔ ہندوستان میں ریاستی زبان کی کہانی تاریخی طور پر ثقافتی اور سیاسی اثرات سے لبریز رہی ہے۔

جوشوا کا کہنا ہے کہ ’’میرا تعلق بنکورہ سے ہے، جو سابقہ ملوبھوم راج کا دل ہے۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جس میں متعدد نسلی اور لسانی گروہوں کا اشتراک ہے، جس کے نتیجے میں زبان، رسم و رواج اور دیگر شعبوں میں تقریباً ہمیشہ اختلاط ہوتا رہا ہے۔ اس خطے کی ہر زبان نے کرمالی، سنتھالی، بھومیج اور بیرہوری کے متعدد الفاظ اور لہجے مستعار لیے ہیں۔‘‘

The story of the state language in India is historically fraught with cultural and political implications
PHOTO • Labani Jangi

ہندوستان میں ریاستی زبان کی کہانی تاریخی طور پر ثقافتی اور سیاسی اثرات سے لبریز ہے

’’لیکن معیار کاری اور جدید کاری کے نام پر ارہا (زمین)، جُمرا کوچا (جلی ہوئی لکڑی)، کاکتی (کچھوا)، جورہ (نالہ)، اگرہا (کھوکھلا)، بِلاتی بیگُن (ٹماٹر) جیسے بہت سے الفاظ کو نوآبادیاتی کولکاتا کے اعلیٰ طبقے اور اونچی ذاتوں کے لوگوں کے ذریعہ تیار کردہ انتہائی سنسکرت زدہ اور یورپی زبانوں کے فقروں سے مستقل طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے،‘‘ جوشوا کہتے ہیں۔

*****

لیکن جب کوئی لفظ ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ اور کیا کھوتا ہے؟ خود وہ لفظ یا اس لفظ کے معنی؟ یا سیاق و سباق، جو زبان میں ایک خلا پیدا کر دیتا ہے؟ لیکن اس نقصان کی وجہ سے پیدا شدہ خلا میں کیا کچھ نیا نہیں آتا؟

جب ایک نیا لفظ، ’اڑال پُل‘ (اُڑتا ہوا پل)، فلائی اوور کے لیے نیا بنگالی مترادف بن جاتا ہے، تو کیا ہم کچھ کھوتے ہیں، یا کچھ حاصل کرتے ہیں؟ اور وہ جو اس عمل میں کھو گیا تھا وہ کیا اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہم نے اب شامل کیا ہے؟ اسمیتا گہرائی سے سوچ رہی تھیں۔

وہ بنگلہ کے روایتی روشن دانوں کے لیے ایک پرانے لفظ، ’گُھل گھلی‘ کو یاد کرتی ہیں، جسے چھت کے نیچے ہوا اور روشنی کے لیے بنایا جاتا تھا۔ ’’اب وہ ہمارے پاس نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’تقریباً ۱۰ صدی پہلے ایک دانشمند خاتون کہانا نے اپنے دوہوں کا مجموعہ ’کھانر باچن‘ تیار کیا تھا۔ ضرب المثل بن چکے ان بنگالی دوہوں میں زراعت، صحت اور طب، موسمیات، اور گھر کی تعمیر کے بارے میں حیران کن عملیت پسندی موجود ہے۔

آلو ہوا بیدھو نا
روگے بھوگے مورو نا

[بغیر ہوا اور روشنی کے کوئی کمرہ نہ بناؤ

تم بیماری سے مر سکتے ہو۔]

پیرے اُنچو میجھے کھال
تار دُکھّو سربو کال

[فرش باہر کی زمین سے نیچے ہے

یہ دکھ اور درد کو کبھی چھپا نہیں سکتا۔]

’’ہمارے آباء و اجداد نے کہانا کی دانشمندی پر بھروسہ کیا اور ہمارے گھروں میں گھل گھُلی کے لیے جگہ چھوڑ دی،‘‘ اسمیتا مزید کہتی ہیں۔ ’’لیکن جدید دور کے ایک جیسے دکھائی دینے والے ہاؤسنگ پروجیکٹوں میں، جہاں عام لوگ ریاستی سماجی تحفظ کے ذریعے شروع کی گئی مختلف ہاؤسنگ اسکیموں کے تحت گھر حاصل کرتے ہیں، روایتی حکمت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دیواروں میں بنے طاق، اور کولنگی نام سے جانے جانے والی کوٹھری، چاتال جیسی کھلی جگہ اب متروک خیالات بن گئے ہیں۔ گھل گھلیوں کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی روزمرہ کی لغت سے باہر ہوگئے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

Changing architectural designs mean that words in Bangla like ghulghuli ( traditional ventilator), kulungi ( shelves) and alcoves embeded in walls, and chatal ( open spaces), are no longer part of our daily lexicon
PHOTO • Antara Raman

عمارتوں کے ڈیزائن میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ بنگلہ زبان کے الفاظ جیسے گھل گھلی (روایتی روشن دان)، کولنگی (طاق) اور دیواروں میں بنے شہ نشین (الکووز)، اور چاتال (کھلی جگہ)، اب ہماری روزمرہ کی لغت کا حصہ نہیں رہے

لیکن یہ صرف الفاظ یا گھل گھلی کا معاملہ ہی نہیں ہے کہ جس کو لے کر وہ اس وقت افسوس کر رہی ہیں، یہاں تو گھر ہی کبوتروں کے دربوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اسمیتا اس نازک رشتے کے ٹوٹنے پر بھی اظہار افسوس کر رہی ہیں جو کبھی ہمارے اور  دوسری مخلوقات کے درمیان تھا: فطرت کے ساتھ، ان گھریلو چڑیوں کے جھنڈ کے ساتھ جنہوں نے کبھی ان روشن دانوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے گھونسلے بنائے تھے۔

*****

کمل جیت کہتی ہیں، ’’موبائل ٹاوروں کی تباہی کے ساتھ ساتھ باہر سے بند پکے مکانات، ہمارے بند کچن، اور ہمارے کھیتوں میں گھاس مار اور کیڑے مار ادویات کا بے تحاشہ استعمال، وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے گھروں، باغوں اور گانوں سے گھریلو گوریوں کی موجودگی ختم ہو رہی ہے۔‘‘

وہاں! انہوں نے لسانی اور ماحولیاتی تنوع کے درمیان ایک اہم تعلق کی وضاحت کی تھی۔ پنجابی شاعر وارث شاہ کے چند مصرعے نقل کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:

’’چری چگدی نال جا تورے پاندھی
پئیاں دودھ دے وِچ مدھانیاں نی۔‘‘

[گوریا جیسے ہی چہچہاتی ہے مسافر نکل پڑتے ہیں،

بالکل ویسے ہی جیسے عورتیں دودھ متھ کر مکھن نکالتی ہیں۔]

ایک وقت تھا جب کسان اپنے دن کا اور مسافر اپنے سفر کا آغاز گوریوں کی چہچہاہٹ سے کرتے تھے۔ وہ ہمارے قدرتی چھوٹے الارم سسٹم تھے۔ آج کل میں اپنے فون پر ان کی چہچہاہٹ کی ریکارڈ شدہ آواز پر جاگتی ہوں۔ کسان موسموں کی پیشین گوئی اور اپنی فصلوں کا دورانیہ ان پرندوں کے رویے کی بنیاد پر طے کرتے تھے۔ ان کے پروں کی کچھ حرکات خوش آئند ( کسانی کا شگن ) سمجھی جاتی تھیں۔

چریاں کھمبھ کھلیرے
وسن میہ بہتیرے

[جب کبھی کوئی گوریا پنکھ پھیلاتی ہے

تو آسمان سے بارش آتی ہے۔]

House sparrows were once routinely spotted in our homes, fields and songs. Movement of their wings were auspicious – kisani ka shugun
PHOTO • Atharva Vankundre

گھریلو گوریا کبھی ہمارے گھروں، کھیتوں اور گانوں میں معمول کے مطابق دیکھی جاتی تھی۔ ان کے پروں کی حرکت خوش آئند (کسانی کا شگن) ہوا کرتی تھی

یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ پودوں، جانوروں اور پرندوں کی معدوم ہوتی نسلوں کی بڑے پیمانے پر حیاتیاتی فنا کے درمیان ہمیں اپنے لسانی اور ثقافتی تنوع میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر گنیش دیوی نے ۲۰۱۰ کے اپنے پیپلز لنگوئسٹک سروے آف انڈیا میں اس خطرناک شرح کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ ہندوستان میں گزشتہ ۶۰ برسوں سے تقریباً ۲۵۰ زبانیں معدوم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔

جب ماہرین طیور پنجاب میں گوریوں کی کم ہوتی تعداد کے بارے میں آواز اٹھا رہے ہیں، تو کمل جیت کو شادی کے وقت گایا جانے والا ایک پرانا لوک گیت یاد آ جاتا ہے۔

ساڈا چریاں دا چمبا وے،
بابل اساں اڑ جانا۔

[ہم بھی گوریوں کی طرح ہیں،

ایک دن اپنا گھونسلا چھوڑ کر آسمان میں پرواز کرنا ہوگا۔]

’’گوریوں کا ذکر ہمارے لوک گیتوں میں باقاعدگی سے ہوتا تھا۔ لیکن افسوس، اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

*****

پنکج کا خیال ہے کہ آب و ہوا کے بحران اور مہاجرت کی طرح ختم ہوتے روزگار کے مواقع کا تعلق بھی زبان سے ہے۔ ’’آج کل رنگیا، گوریشور اور دیگر تمام بازار دوسری ریاستوں سے برآمد شدہ مشین سے بنے سستے گمچھوں (پتلے، موٹے سوتی کپڑے جو روایتی طور پر تولیہ، اسکارف یا پگڑی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں) اور چادر میکھیلہ (خواتین کے ذریعہ کمر پر لپیٹا جانے والا روایتی لباس) سے بھرے پڑے ہیں۔ آسام میں روایتی ہتھ کرگھے کی صنعت ختم ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ہماری مقامی مصنوعات اور بُنائی سے متعلق الفاظ بھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’اکشے داس کی عمر ۷۲ سال ہے۔ ان کا خاندان اب بھی آسام کے بھیہ باڑی گاؤں میں ہتھ کرگھے سے بُنائی کا کام کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ہنر اب ختم ہو گیا ہے۔ نوجوان کام کے لیے گاؤں سے ۶۰ کلومیٹر دور گوہاٹی کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ بُنائی کی روایت سے منقطع ہوکر وہ ’چیریکی‘ جیسے الفاظ نہیں جان سکیں گے‘۔‘‘ اکشے بانس سے بنے ایک کمربند کا حوالہ دے رہے تھے، جو موہورا (ایک چرخی) کے گرد دھاگے کے چھوٹے چھوٹے گھیرے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جسے ’جوٹر‘ کہتے تھے۔

Distanced from the traditional weaving practice, the young generation in Assam don't know words like sereki , or what it means to 'dance like a sereki' when we sing a Bihu song
PHOTO • Priyanka Borar

بُنائی کے روایتی ہنر سے دور ہوتی آسام کی نوجوان نسل چیریکی جیسے الفاظ سے، یا جب ہم بیہو گانا گاتے ہیں تو ’چیریکی کی طرح ناچنے‘ کے مطلب سے ناواقف ہے

پنکج کہتے ہیں، ’’مجھے ایک بیہو گیت یاد ہے: چیریکی گُھرادی ناس (ایک گھومتی ہوئی چیریکی کی طرح رقص کریں)۔ کوئی نوجوان جو اس سیاق و سباق سے واقف نہیں ہے وہ اس سے کیا معنی اخذ کرے گا؟‘‘ اکشے کی ۶۷ سالہ بھابھی، بِلاٹی داس (بڑے بھائی آنجہانی نارائن داس کی بیوی) ایک اور گیت گا رہی تھیں:

ٹیٹیلیر ٹولوٹے، کاپور بوئی آسیلو، سورائے سیگیلے ہوتا

[میں املی کے درخت کے نیچے بُنائی کر رہی تھی، پرندوں نے دھاگے توڑ دیے۔]

مجھے بنائی کے تانے بانے کے عمل کو سمجھاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے نئے اوزار اور مشینیں مارکیٹ میں آ رہی ہیں بہت سے مقامی اوزار اور تکنیکیں ضائع ہوتی جا رہی ہیں۔

*****

نرمل ایک پراسرار قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم سروناش ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘

نرمل اپنی کہانی سنانا شروع کرتے ہیں، ’’حال ہی میں، میں چھتیس گڑھ میں اپنے گاؤں پاٹن دادر میں ایک ضروری کام سے گیا ہوا تھا۔ میں پوجا کے لیے دوب ( سینوڈون ڈیکٹائیلان یا برموڈا گھاس) کی تلاش میں تھا۔ میں سب سے پہلے گھر کے پچھواڑے میں کچن گارڈن میں گیا، لیکن دوب کا کوئی تنکا بھی دکھائی نہیں دیا۔ پھر میں کھیتوں میں گیا۔‘‘

’’یہ فصل کی کٹائی سے چند مہینے پہلے کا وقت تھا، جب دھان کے خالی دانے دودھ کے میٹھے رس سے بھر جاتے ہیں اور کسان پوجا کرنے کے لیے اپنے کھیتوں میں آتے ہیں۔ وہ بھی اسی مقدس گھاس کا استعمال کرتے ہیں۔ میں کھیتوں میں سے گزرا لیکن وہ زمین جو میرے پاؤں کے نیچے مخمل کی طرح ہونی چاہیے تھی، وہاں خشک گھاس کے گچھوں پر شبنم کے قطرے چمک رہے تھے۔ برموڈا گھاس، عام گھاس، کاندی (سبز چارہ)، سب کچھ ختم ہو چکے تھے۔ ہر ایک تنکا مرجھا کر خشک ہو چکا تھا!‘‘

’’کھیت میں کام کرنے والے ایک شخص سے جب میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا، ’ سروناش ڈالا گیا ہے، اس لیے (کیونکہ ’سب کچھ ختم کرنے والے‘ کا چھڑکاؤ کیا گیا ہے)۔ مجھے یہ معلوم کرنے میں تھوڑا وقت لگا کہ وہ کسی خاص برانڈ کے نام سے گھاس مار دوا کا حوالہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے نندا ناشک (گھاس مار دوا) نہیں کہا جیسا کہ چھتیس گڑھی میں کہا جاتا ہے، یا گھاس مارا جسے ہم اکثر اڑیہ میں کہتے ہیں، یا کھر پتوار ناشک اور چارہ مار جیسے کچھ ہندی بولنے والے علاقوں میں کہا جاتا ہے۔ سروناش نے ان سب کی جگہ لے لی تھی!‘‘

Increasing use of pesticides, chemical fertilisers and technologies have come to dominate agriculture, destroying India's rich diversity that farmers like Syed Ghani Khan, in Karnataka's Kirigavalu is trying to preserve. His house walls (right) are lined with paddy flowers with details about each variety. A loss of agricultural diversity can be seen to be linked to the loss in linguistic diversity
PHOTO • Sanket Jain
Increasing use of pesticides, chemical fertilisers and technologies have come to dominate agriculture, destroying India's rich diversity that farmers like Syed Ghani Khan, in Karnataka's Kirigavalu is trying to preserve. His house walls (right) are lined with paddy flowers with details about each variety. A loss of agricultural diversity can be seen to be linked to the loss in linguistic diversity
PHOTO • Manjula Masthikatte

کیڑے مار ادویات، کیمیائی کھادوں اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال نے زراعت پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، جس سے ہندوستان کا بھرپور حیاتیاتی تنوع تباہ ہو رہا ہے جسے کرناٹک کے کریگاوالو کے کسان سید غنی خان جیسے کسان محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے گھر کی دیواریں (دائیں) ہر قسم کے دھان کے پھولوں سے اپنی تفصیلات کے ساتھ سجی ہوئی ہیں۔ زرعی تنوع کے نقصان کو لسانی تنوع کے نقصان سے جوڑا جا سکتا ہے

ہر ایک انچ زمین کے ٹکڑے کا استحصال کرنے اور اسے اپنی بقا کے لیے ایک پیداواری کھیت میں تبدیل کرنے کی بشری منطق نے کیمیائی کھادوں، کیڑے مار ادویات اور ٹیکنالوجی کو زراعت پر غلبہ حاصل کرنے کی وجہ دے دی ہے۔ نرمل کا کہنا ہے کہ جن کسانوں کے پاس بمشکل ایک ایکڑ زمین ہے، وہ بھی روایتی اوزاروں  کے استعمال کی بجائے ٹریکٹر کرایہ پر لینے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔

’’دن رات چلنے والے ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں اور ہماری دھرتی ماں کو بنجر بنا رہے ہیں۔ ماٹی مہتاری کا رحم (اوپر کی مٹی) ہر چھ ماہ بعد حاملہ ہونے پر مجبور ہے،‘‘ وہ تکلیف دہ آواز میں کہتے ہیں۔ ’’وہ ’سروناش‘ جیسے زہریلے کیمیا کو کب تک برداشت کر سکتی ہے؟ زہر سے بھری فصلیں جلد ہی انسانی خون میں سرایت کر جائیں گی۔ میں اپنی ہی آنے والے ’تباہی‘ کو محسوس کر سکتا ہوں!‘‘

نرمل مزید کہتے ہیں، ’’جہاں تک زبان کا تعلق ہے، تو ایک ادھیڑ عمر کے کسان نے ایک بار مجھے ناگر (ہل)، باکھر (گھاس نکالنے کا آلہ)، کوپر (مٹی کے ڈھیلوں کو توڑنے کے لیے استعمال میں آنے والا لکڑی کا ڈنڈا) کے بارے میں بتایا تھا، یہ نام اب کسی کو بھی معلوم نہیں ہیں۔ اور دونری بیلن (مٹی برابر کرنے کا ہینگا) مکمل طور پر کسی اور دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘

’’بالکل میٹیکمبا کی طرح،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔

’’مجھے وہ کھمبا یاد ہے جسے میٹیکمبا کہا جاتا ہے، اور جو کرناٹک کے اڈوپی کے ونڈسے گاؤں میں ہمارے صحن میں ہوا کرتا تھا،‘‘ شنکر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اس کے لفظی معنی زراعت کے کھمبے کے ہیں۔ ہم اس کے ساتھ ایک بینچ ( ہدی منچ باندھتے تھے)، اس پر چاول الگ کرنے کے لیے دھان کے پودوں کو پیٹتے تھے۔ دھان کے پودوں سے باقی دانوں کو بیلوں کے قدموں سے کچل کر الگ کرنے کے لیے اسے میخ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ اب یہ کھمبا غائب ہو گیا ہے۔ فصل کی کٹائی کی جدید مشینوں نے اس عمل کو آسان کر دیا ہے،‘‘ شنکر کہتے ہیں۔

’’اپنے گھر کے سامنے میٹیکمبا رکھنا فخر کی بات سمجھی جاتی تھی۔ سال میں ایک بار ہم اس کی پوجا کرتے تھے اور کچھ واقعی ذائقہ دار کھانوں کا لطف اٹھاتے تھے! کھمبا، پوجا، دعوت، اور دیگر الفاظ، ایک پوری دنیا اب معدوم ہو چکی ہے۔‘‘

*****

سورن کانتا کہتی ہیں، ’’بھوجپوری میں ایک گیت ہے، ہردی ہرد پور جئی ہا اے بابا، سونے کے کدالی ہردی کوڑی ہا اے بابا (بابو جی، سونے کے کدال سے کھود کر میرے لیے ہرد پور سے ہلدی لے آئیے)۔ یہ گیت بھوجپوری بولنے والے علاقوں میں شادیوں میں بنّی (دولہن) کو اُبٹن (ہلدی کا پیسٹ) لگانے کی تقریب کے دوران گایا جاتا تھا۔ پہلے لوگ اپنے رشتہ داروں کے گھر جا کر جانتا (چکّی) کا استعمال کرتے ہوتے ہلدی پیستے تھے۔ اب ان کے گھروں میں پیسنے کی چکی نہیں ہے، اور یہ رسم بھی ختم چکی ہے۔‘‘

In Bhojpuri they sing a song during ubtan (haldi) ceremony in a wedding, 'hardi hardpur jaiha e baba, sone ke kudaali hardi korih e baba, [ father, please bring me turmeric from Hardpur, dig the turmeric up with a golden spade ]
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بھوجپوری میں شادی کی تقریب میں اُبٹن (ہلدی) لگانے کی تقریب کے دوران ایک گیت گایا جاتا ہے، ’ہردی ہرد پور جَئی ہا اے بابا، سُونے کے کدالی ہردی کوڑی ہا اے بابا (بابو جی، سونے کے کدال سے کھود کر میرے لیے ہرد پور سے ہلدی لے آئیے)

There are no silaut ( flat grinding stone), no lodha ( type of pestle), no khal-moosal ( mortar and pestle) in modern, urban kitchens nor in our songs
PHOTO • Aakanksha
There are no silaut ( flat grinding stone), no lodha ( type of pestle), no khal-moosal ( mortar and pestle) in modern, urban kitchens nor in our songs
PHOTO • Aakanksha

جدید شہری باورچی خانوں میں اور نہ ہی ہمارے گانوں میں کوئی سلوٹ (سل) ہے، کوئی لوڑھا (بٹہ) ہے، اور نہ ہی کوئی کھل موسل (اوکھلی موسل) ہے

’’ابھی حال میں، میں اور میری بھابھی بات کر رہے تھے کہ کس طرح بھوجپوری کے بہت سے الفاظ ایک اُبٹن کے گانے سے وابستہ ہیں، لیکن اب کدال، کوڑنا (کھودنا)، اُبٹن (ہلدی کا پیسٹ)، سنہورا (کمکم کا ڈبہ)، دوبھ (دوب) جیسے الفاظ سنائی نہیں دیتے۔ سلوٹ (سل)، لوڑھا (بٹہ)، کھل موسل (اوکھلی اور موسل) جدید کچن یا ہمارے گانوں میں نہیں پائے جاتے۔‘‘ سورن کانتا شہری ہندوستان میں ثقافتی زیاں کے احساس پر بات کر رہی تھیں۔

*****

ہم سب اپنی اپنی موضوعی، مقامی، ثقافتی اور طبقاتی سطح سے بات کر رہے تھے۔ اس کے باوجود ہم سبھی الفاظ کی اس گمشدگی اور ان کے تنگ ہوتے مفہوم کے بارے میں فکر مند تھے۔ یہ گمشدگی اپنی جڑوں، ماحولیات، فطرت، گاؤوں، اور جنگلات کے ساتھ ہمارے کمزور ہوتے رشتے کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ کہیں نہ کہیں ہم نے ’ترقی‘ کے نام پر ایک بہت ہی الگ طرح کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا تھا۔

کھیلوں کی بات کریں تو وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو چکے ہیں۔ سدھامئی اور دیویش اسی موضوع پر ایک دوسرے سے بات چیت میں مصروف تھے۔ ’’اگر آپ نے مجھ سے ان کھیلوں کے بارے میں دریافت کیا، جو اب بچے نہیں کھیلتے تو میں آپ کو ایک فہرست دوں گی،‘‘ سدھامئی کہتی ہیں: گچّا کایلو یا ولانچی ، جس میں کنکریوں کو ہوا میں اچھالتے ہیں اور انہیں اپنی ہتھیلی کی پشت پر روکتے ہیں؛ اومنا گُنتالو ، جسے کوڑیوں یا املی کے بیجوں اور میز پر بنی دو قطاروں میں چودہ سوراخوں یا گڑھوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے؛ کلانگٹالو ، جو ایک پکڑنے والا کھیل ہے جس میں پکڑنے والے کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ہے، اور دوسرے بہت سارے کھیل،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

دیویش کہتے ہیں، ’’میری یادیں ’ستیلو‘ جیسے کھیلوں سے وابستہ ہیں،‘‘ اس میں دو ٹیمیں ہوتی ہیں اور سات پتھر کے ٹکڑے تلے اوپر سجائے جاتے ہیں۔ ایک ٹیم سجائے ہوئے پتھروں کو گرانے کے لیے گیند پھینکتی ہے اور دوسری ٹیم کو آؤٹ ہوئے بغیر ان ٹکڑوں کو دوبارہ تلے اوپر سجانا پڑتا ہے۔ جب کبھی ہم لڑکے تنگ ہو جاتے، تو ’گینا بھڑبھڑ‘ نامی کھیل ایجاد کر لیتے۔ اس میں کوئی حتمی ہدف نہیں تھا، نہ ہی کوئی ٹیم ہوتی تھی۔ سبھی ایک دوسرے کو گیند سے نشانہ بناتے تھے! اس کھیل میں کسی کسی کو چوٹ بھی لگ جاتی تھی، اس لیے اسے ’لڑکوں کا کھیل‘ کہا جاتا تھا۔ لڑکیاں گینا بھڑبھڑ نہیں کھیلتی تھیں۔‘‘

سدھامئی کہتی ہیں، ’’میں نے جن کھیلوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے میں نے کوئی کھیل کبھی نہیں کھیلا،‘‘ میں نے ان کے متعلق اپنی نانی گجولاورتی ستیہ ویدم سے سنا ہے۔ ان کا تعلق چِنّا گدیلاورو سے تھا، جو کولاکالورو میں میرے گاؤں سے تقریباً ۱۷ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ میں اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی، لیکن مجھے ان کھیلوں کی کہانیاں یاد ہیں جو انہوں نے مجھے کھانا کھلانے یا سونے کے وقت سنائی تھیں۔ میں کھیل نہیں سکی، کیونکہ مجھے اسکول جانا پڑا تھا!‘‘

دیویش کہتے ہیں، ’’ہمارے محلے کی لڑکیاں پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے ’گِٹّی‘ کھیلتی تھیں یا ’بش امرت‘ (زہر حیات)۔ اس میں مقصد صرف دوسری ٹیم کو پکڑنا یا بچانا تھا۔ مجھے ’لنگڑی ٹانگ‘ نامی ایک کھیل بھی یاد ہے، جس میں کھلاڑی زمین پر بنے نو چوکور خانوں کے اندر ایک ٹانگ پر جست لگاتے تھے۔ یہ کھیل ہاپو ٹاپو (ہاپ اسکاچ) کا ایک روپ ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’’بچے اپنے ہاتھوں میں ڈیجیٹل ڈیوائس لے کر بڑے نہیں ہوتے۔ یہ ان سے ان کا بچپن اور ان کی زبان دونوں چھین لیتے ہیں۔ آج بکھیرا میں رہنے والے میرے ۵ سالہ بھتیجے ہرشت کو اور گورکھپور میں مقیم میری ۶ سالہ بھتیجی بھیروی کو ان کھیلوں کے نام تک نہیں معلوم۔‘‘

Devesh has a vivid memory of playing sateelo as a child, but his young niece and nephew today do not even know the name of the game
PHOTO • Atharva Vankundre

دیویش کو بچپن میں ستیلو کھیلنا اچھی طرح یاد ہے، لیکن ان کے چھوٹے بھتیجے اور بھتیجی کو آج اس کھیل کا نام تک نہیں معلوم

Young boys in Kivaibalega village of Chattisgarh playing horse riding. The game is known as ghodondi in the Halbi and Gondi languages
PHOTO • Purusottam Thakur

چھتیس گڑھ کے کیوئی بلیگا گاؤں میں چھوٹے لڑکے گھڑ سواری کھیل رہے ہیں۔ اس کھیل کو ہلبی اور گونڈی زبانوں میں گھوڈونڈی کہتے ہیں

*****

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نقصان کی کچھ مقدار ناگزیر نہیں ہے؟ پرنیتی اسی ادھیڑ بن میں ہیں۔ کیا بعض شعبوں میں ہونے والی تبدیلیاں ہماری زبان کو از خود نہیں بدل دیتیں؟ سائنسی علم میں تیزی رفتار ترقی، مثلاً متعدد بیماریوں، ان کی وجوہات اور روک تھام سے متعلق عوام میں آگاہی کا پھیلاؤ ان کی جانب دیکھنے کے انداز کو یا کم از کم جس طرح سے وہ ان کی شناخت کرتے ہیں، اس کو بدل دیتی ہے۔ نہیں تو پھر اوڈیشہ میں مقامی زبانوں میں داخل ہونے والی مخصوص سائنسی اصطلاحوں کی وضاحت اور کیسے کی جائے؟

وہ کہتی ہیں، ’’ایک زمانے میں گاؤوں میں بیماریوں کے مختلف نام ہوتے تھے۔ چیچک ’بڑی ماں‘ تھی۔ چکن پاکس ’چھوٹی ماں‘ تھی؛ ڈائریا یا تو ’بڑی‘، ہیجہ ، یا اماشیہ تھی؛ ٹائیفائیڈ کو آنترک جُوَر کہا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس ذیابیطس کے لیے بہوموتر ، گٹھیا کے لیے گانٹھی بات ، اور جذام کے لیے بڑا روگ جیسی اصطلاحیں موجود تھیں۔ لیکن آج لوگ آہستہ آہستہ ان اڑیہ اصطلاحوں کو کنارے لگاتے جا رہے ہیں، اور انگریزی الفاظ کے لیے اپنی ذخیرہ الفاظ میں جگہ بناتے جا رہے ہیں۔ کیا اسے لے کر افسوس کرنا چاہیے؟ مجھے نہیں معلوم۔‘‘

خواہ ہم ماہر لسانیات ہوں یا نہیں ہوں، ہم جانتے ہیں کہ زبان جامد نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایسی ندی ہے جو ہمیشہ مقام، سماجی گروہوں، اور وقت کے درمیان میں بہتی رہتی ہے۔ یہ ندی ہمیشہ بدلتی، پھیلتی، ضم ہوتی، سکڑتی، دھندلاتی، اور اختراع کرتی رہتی ہے۔ پھر یاداشت کے زیاں کو لے کر اتنا ہنگامہ کیوں؟ کیا کچھ باتوں کا بھول جانا اچھا نہیں ہوتا؟

*****

’’میں متعدد سماجی ڈھانچوں کے بارے میں سوچ رہی ہوں جو ہماری زبانوں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں۔ مرداد مٹن جیسے لفظ کو ہی لے لیں،‘‘ میدھا کہتی ہیں۔ ’’ہم اکثر اسے کسی ایسے شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جو ’ضدی‘ ہوتا ہے، جو کسی لفظ یا صورتحال سے متاثر نہیں ہوتا، جیسے مردار گوشت جسے گاؤوں کے بہت سے دلت کھانے پر مجبور تھے۔ ایسی اصطلاحیں کہاں سے آتی ہیں۔‘‘

راجیو ملیالم کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کسی زمانے میں کیرالہ میں نچلی ذات کے لوگوں کی رہائش کو چِیٹّا (جھونپڑی) کہا جاتا تھا۔ یہ گالی گلوچ کی ایک اصطلاح بھی بنی کیونکہ اس گالی میں ایسے گھروں میں رہنے والے نچلی ذات کے لوگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ انہیں اپنی رہائش گاہوں کو پورا یا ویڑو کہنے کی اجازت نہیں تھی، یہ اصطلاحیں اعلیٰ ذاتوں کے گھروں کے لیے مخصوص تھیں۔ ان کے نوزائیدہ بچے اونچی ذات کے لوگوں کے بچوں کی طرح اُنّی نہیں تھے، بلکہ چِیکّن یعنی بدمعاش تھے۔ یہاں تک کہ انہیں اونچی ذات کے لوگوں کی موجودگی میں خود کو ادیان ، یعنی ’آپ کا فرماں بردار خادم‘ کہہ کر مخاطب کرنا پڑتا تھا۔ یہ الفاظ اب چلن میں نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Unjust social structures are also embeded in our languages. We need to consciously pull out and discard the words that prepetrate injustice from our vocabulary
PHOTO • Labani Jangi
Unjust social structures are also embeded in our languages. We need to consciously pull out and discard the words that prepetrate injustice from our vocabulary
PHOTO • Labani Jangi

غیر منصفانہ سماجی ڈھانچے بھی ہماری زبانوں میں پیوست ہیں۔ ہمیں اپنے الفاظ کے ذخیرے سے شعوری طور پر ان الفاظ کو نکالنے اور ترک کرنے کی ضرورت ہے جو ناانصافی کو فروغ دیتے ہیں

’’کچھ الفاظ اور ان کے استعمال کا ہمیشہ کے لیے متروک ہو جانا بہتر ہے،‘‘ میدھا کہتی ہیں۔ ’’مراٹھواڑہ سے تعلق رکھنے والے دلت لیڈر، ایڈووکیٹ ایکناتھ آواد ایک ایسی زبان کے بارے میں بات کرتے ہیں، جسے انہوں نے اور ان کے دوستوں نے ان کی سوانح عمری میں بنائی تھی [جیری پنٹو نے جس کا ترجمہ ’اسٹرائک اے بلو ٹو چینج دی ورلڈ‘ کے نام سے کیا ہے]۔ ان کا تعلق ماتنگ اور دیگر دلت ذاتوں سے ہے۔ وہ سخت غربت میں زندگی بسر کرتے تھے اور کھانا چوری کرتے تھے۔ ان کی خفیہ زبان کا مقصد انہیں زندہ رہنے میں مدد پہنچانا، ایک دوسرے کو خبردار کرنا اور پکڑے جانے سے پہلے بھاگنا تھا۔ ’جیجا‘، جیسا کہ انہیں احتراماً مخاطب کیا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ ’اس زبان کو بھُلا دینا چاہیے۔ کسی کو بھی اسے نہیں سیکھنا چاہیے اور اسے دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔‘‘

دیپالی بھوسنر اور سولاپور ضلع کے سانگولا سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ نتن واگھمارے نے بہت سے الفاظ اور کہاوتوں کی فہرست تیار کی ہے، جیسے کائے مانگ گروڑی اسراکھا رہاتوئی ؟ [آپ ماتنگ یا گروڑی کیوں لگتے ہیں؟] اس جملے سے دلتوں میں ذاتی رکھ رکھاؤ اور صفائی کی کمی کا اظہار ہوتا ہے، جو انتہائی غربت اور ذات پات کے امتیاز کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ذات پات کے ڈھانچے میں گھری ہوئی زبان میں کسی شخص کو پاردھی، منگ، مہار کہہ کر مخاطب کرنا توہین کی انتہا ہے۔ ہمیں ایسے الفاظ کو ترک کر دینا چاہیے۔‘‘

*****

کچھ تو ہونا چاہیے جس کو بچانے کی ضرورت پیش آئے۔ ہماری زبانوں کا بحران کوئی خیالی بحران نہیں ہے۔ اگر پیگی موہن کی زبان میں کہیں تو یہ ’کوئلے کی کان میں پہلی کینری (ایک پرندہ)‘ کی طرح ہے۔ کیا حالات اس سے بھی بدتر ہونے والے ہیں؟ کیا ہم بحیثیت قوم اور بطور ثقافت اپنے تنوع کے وسیع پیمانے پر خاتمہ کی جانب گامزن ہیں؟ کیا اس کی شروعات ہمیں ان زبانوں میں ملتی ہے؟ یہ کہاں ختم ہو اور اس سے کیسے نجات حاصل ہو؟

’’ہماری اپنی زبانوں کے علاوہ اور کہاں،‘‘ ۶۹ سالہ جینت پرمار کہتے ہیں، جو ایک دلت گجراتی شاعر ہیں اور اردو میں لکھتے ہیں۔

’’ایسے بہت سے اردو الفاظ تھے جن کا استعمال ماں اپنی گجراتی میں کرتی تھیں،‘‘ اس زبان سے اپنے اور اپنی ماں دہی بین پرمار کے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھ سے کوئی برتن مانگتے ہوئے وہ کہتیں، ’ جا، کاڈو لائی آو کھاوا کادھو‘ ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح کے برتنوں کا آج کوئی وجود ہے یا نہیں، جن برتنوں میں ہم چاول ملا کر کھاتے تھے۔ غالب (اردو کے شاعر) کو پڑھنے کے بعد مجھے لفظ کاڑا کا مطلب معلوم ہوا‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

There was a time when people from all communities lived together inside the walled cities; the climate was not communal, and there was a lot of give and take that reflected in cultures, architecture, literature and language
PHOTO • Jayant Parmar

ایک وقت تھا جب تمام برادریوں کے لوگ شہر کی فصیلوں کے اندر ایک ساتھ رہتے تھے۔ ماحول فرقہ وارانہ نہیں تھا، اور آپسی لین دین کے لیے بہت کچھ تھا، جن کا عکس ثقافتوں، فن تعمیر، ادب اور زبان میں نظر آتا تھا

’’ایسے بہت سے جملے تھے جیسے تارا ’’دیدار‘‘ تو جو [ذرا اپنی شکل پر دھیان دو]، تارو ’خامیس‘ دھووا آپ [مجھے اپنی قمیض دھونے کے لیے دو]، مونہ ماتھی ایک ’حرف‘ کادھوتو ناتھی [کیا تم اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے؟] یا وہ کہتیں، مولانے تیانتھی ’گوش‘ لائی آو [جاؤ ملا کے گھر سے گوشت لے آؤ]۔ لفظ ’گوشت‘ ہے لیکن ہماری بولی میں ہم اسے ’گوش‘ کہتے ہیں۔ یہ الفاظ جو ہماری بولی کا حصہ تھے اب فراموش کیے جا رہے ہیں۔ جب بھی میں اردو نظموں میں یہ الفاظ دیکھتا ہوں تو مجھے وہاں اپنی ماں کی تصویر نظر آتی ہے۔‘‘

اب حالات مختلف ہیں، آب و ہوا مختلف ہے، شہر کا جغرافیہ مختلف ہے۔ ’’اس زمانے میں تمام برادریوں کے لوگ احمد آباد کے فصیل والے شہر کے اندر ایک ساتھ رہتے تھے۔ ماحول فرقہ وارانہ نہیں تھا۔ دیوالی کے دوران ہمارے مسلمان دوستوں کو ہمارے گھر سے مٹھائیاں اور لذیذ کھانے ملتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کو گلے لگا لیتے۔ ہم سب محرم میں تعزیہ کا جلوس دیکھنے جایا کرتے تھے۔ کچھ تعزیوں میں حوروں کے لیے خوبصورتی اور باریک سجائے گئے گنبد ہوتے تھے۔ چھوٹے بچے ان کے نیچے سے گزرتے اور اپنی خوشی اور صحت کی دعا مانگتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’آدان پردان‘  یا مفت لین دین ایک حقیقی عمل تھا۔ ’’ہم اب کسی الگ آب و ہوا میں جی رہے ہیں اور یہ ہماری زبانوں میں بھی ظاہر ہوتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن امید شاعری میں ہے۔ میں مراٹھی، پنجابی، بنگالی جانتا ہوں اور ان میں سے بہت سے الفاظ اردو میں مستعار لیتا ہوں۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اسے صرف شاعری میں ہی بچایا جا سکتا ہے۔‘‘

ریت کے ذروں کے اندر جس طرح پوری دنیا کو دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح الفاظ میں پوری کائنات آباد ہے۔

یہ کثیر مقامی اسٹوری پاری بھاشا کے ان ممبران کے تعاون سے ممکن ہوئی ہے: دیویش (ہندی)، جوشوا بودھی نیترا (بنگلہ)، کمل جیت کور (پنجابی)، میدھا کالے (مراٹھی)، محمد قمر تبریز (اردو)، نرمل کمار ساہو (چھتیس گڑھی)، پنکج داس (آسامی)، پرنیتی پریدا (اڑیہ)، راجا سنگیتن (تمل)، راجیو چیلانات (ملیالم)، اسمیتا کھٹور (بنگلہ)، سورن کانتا (بھوجپوری)، شنکر این کینچنورو (کنڑ)، اور سدھامئی ستیناپلّی (تیلگو)۔

ہم جینت پرمار (اردو میں لکھنے والے گجراتی دلت شاعر)، آکانکشا، انترا رمن، منجولا مستھی کٹّے، پی سائی ناتھ، پرشوتم ٹھاکر، رتائن مکھرجی، اور سنکیت جین کا ان کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اس اسٹوری کو پرتشتھا پانڈیہ نے پی سائی ناتھ، پریتی ڈیوڈ، اسمیتا کھٹور اور میدھا کالے کے تعاون سے ایڈٹ کیا ہے۔ ترجمے کی معاونت: جوشوا بودھی نیترا۔ فوٹو ایڈیٹنگ اور لے آؤٹ: بنائیفر بھروچا۔

مترجم: شفیق عالم

PARIBhasha Team

PARIBhasha is our unique Indian languages programme that supports reporting in and translation of PARI stories in many Indian languages. Translation plays a pivotal role in the journey of every single story in PARI. Our team of editors, translators and volunteers represent the diverse linguistic and cultural landscape of the country and also ensure that the stories return and belong to the people from whom they come.

Other stories by PARIBhasha Team
Illustrations : Atharva Vankundre

Atharva Vankundre is a storyteller and illustrator from Mumbai. He has been an intern with PARI from July to August 2023.

Other stories by Atharva Vankundre
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Illustrations : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Illustrations : Jayant Parmar

Jayant Parmar is a Sahitya Akademi Award winning Dalit poet from Gujarat, who writes in Urdu and Gujarati. He is also a painter and calligrapher. He has published sevel collections of his Urdu poems.

Other stories by Jayant Parmar
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam