جج: …بتائیں، آپ نے کوئی کام کیوں نہیں کیا؟
برادسکی: میں نے کام کیا۔ میں نے نظمیں لکھیں۔

جج: برادسکی، بہتر ہوگا کہ آپ عدالت کو بتائیں کہ آپ نے نوکریوں کے وقفہ کے دوران کام کیوں نہیں کیا۔
برادسکی: میں نے نظمیں لکھیں۔ میں نے کام کیا۔

سال ۱۹۶۴ میں چلے مقدمہ کی دو لمبی سماعت کو صحافی فریدہ وگدوروا نے انتہائی توجہ کے ساتھ درج کیا تھا۔ ان میں ۲۳ سال کے روسی شاعر ایئوسف (جوزف) الیکساندرووِچ برادسکی نے اپنے ملک اور مستقبل کی نسلوں کے لیے اپنی شاعری کی افادیت کا دفاع کیا تھا۔ مگر جج اس سے مطمئن نہیں تھے اور انہوں نے بدگمانی کے ساتھ سماجی طفیلی پن کے لیے براڈسکی کو پانچ سال کی اندرونی جلاوطنی اور کڑی محنت کی سزا سنائی تھی۔

جس سال کو ہم الوداع کہنے والے ہیں، اس میں پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا نے اور زیادہ نظمیں شائع کیں، کئی اور گلوکاروں کو منظر عام پر لے کر آیا، لوک گیتوں کا ایک نیا مجموعہ تیار کیا، اور موجودہ مجموعوں میں مزید گیتوں کا اضافہ کیا۔

سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم شاعری کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ کیا یہ واقعی میں ’کام‘ ہو سکتا ہے؟ یا اسے سماجی طفیلی پن کہا جائے گا، جیسا کہ برادسکی پر ظلم ڈھانے والوں کا دعویٰ تھا؟

کسی شاعر کے ’کام‘ کے جواز، اس کی افادیت و اہمیت پر سوال اٹھانا فلسفیوں اور سیاسی قائدین کے درمیان طویل عرصے سے چلتا آ رہا ہے۔ اکیڈمک دنیا اور اس کے باہر بھی بہت سے لوگ بڑی تیزی اور آسانی سے شاعری کو نظر انداز کرتے ہیں، اسے علم کے زیادہ سائنسی ثبوتوں پر مبنی ماخذ سے کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسے میں دیہی صحافت کے ایک زندہ آرکائیو کے ذریعہ شاعری، موسیقی اور گیتوں کو اتنی جگہ اور اہمیت دینا انتہائی انوکھی کوشش لگتی ہے۔

پاری میں ہر قسم کے تخلیقی اظہار کو جگہ دی جاتی ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ ان کے ذریعہ دیہی ہندوستان کے تجربات اور زندگی کو درج کرتی الگ الگ قسم کی اسٹوریز پیش کی جا سکتی ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ کہانی بیان کرنے کے نئے طریقے سامنے لاتی ہیں۔ ذاتی تجربات اور اجتماعی یادداشت سے پیدا ہونے والے تخلیقی تصور کے سہارے ہمیں تاریخ اور صحافت سے الگ ہٹ کر انسانی علم تک رسائی حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ ملا ہے۔ یہ ہمارے دور میں عوامی زندگی سے متعلق سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی عمل کو درج کرنے اور ان کا مجموعہ تیار کرنے کا ایک اور طریقہ ہے۔

اس سال پاری نے کئی زبانوں میں نظمیں شائع کیں – جیسے پنچ مہالی بھیلی، انگریزی، ہندی اور بنگالی۔ وسیع انسانی تجربات کے لحاظ سے یہ نظمیں ہمارے دور کی گواہ ہیں۔ ان میں سے کچھ نے ذاتی تجربات میں شامل تناؤ اور الجھن کو سامنے رکھا، جیسے شہر میں رہتے اور گاؤں کی آگ میں جلتے… ۔ کچھ میں زبانوں کی پدرانہ فطرت پر ناراضگی دکھائی دی اور انہوں نے اپنے اندر مزاحمت کی نئی جگہ بنائی، جیسے نفرت کے اس دور میں زندگی اور مادری زبانیں ۔ کچھ دیگر نظموں نے تاناشاہوں کا جھوٹ اجاگر کیا، جیسے اَنّ داتا اور سرکار بہادر ۔ کچھ نظموں نے بے خوف ہو کر ایک تاریخی و اجتماعی حقیقت بیان کی، جیسے: ایک کتاب کا قصہ اور تین پڑوسی ۔

لکھنا ایک سیاسی عمل ہے، اور جب کوئی چکّی کے گانے سنتا ہے، تو اسے احساس ہوتا ہے کہ نظم، گیت یا او وی کو باہمی وابستگی، ہم آہنگی اور مزاحمت کے جذبے کے ساتھ بُنا جاتا ہے ۔ یہ گیت کسی کی دنیا کو سمجھنے، زبان میں ان تمام چیزوں کو اتارنے کا طریقہ ہے جو وقت، ثقافت اور جذبات کی طرح تغیر پذیر ہے۔ پاری نے دیہی مہاراشٹر اور کرناٹک کے ایک لاکھ گیت شامل کیے ہیں، جسے تیس ہزار سے زیادہ عورتوں نے اپنے ارد گرد کی دنیا سے متعلق متعدد موضوعات پر گائے ہیں۔

اس سال کچھّی لوک گیتوں کے ایک نئے ملٹی میڈیا آرکائیو ، رن کے گیت کے ساتھ پاری کے تنوع میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ کچھّ مہیلا وکاس سنگٹھن (کے ایم وی ایس) کے تعاون سے شروع کیے گئے اس مجموعہ میں محبت، انتظار، فراق، شادی، عقیدت، مادر وطن، جنسی بیداری اور جمہوری حقوق سے متعلق موضوعات پر گیت جمع کیے گئے ہیں۔ لوک موسیقی کا یہ مجموعہ اتنا ہی متنوع ہے جتنا کہ وہ سرزمین، جہاں کے یہ گیت ہیں۔ اس آرکائیو میں ۳۴۱ گیتوں کا ایک بیش قیمتی مجموعہ ہے، جسے گجرات کے ۳۰۵ گلوکاروں اور موسیقاروں کے ایک غیر پیشہ ور گروپ نے موسیقی کی کئی شکلوں میں فراہم کیا ہے، اور کچھّ کی ختم ہو چکی زبانی روایت کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں، جو کسی زمانے میں کافی مضبوط ہوا کرتی تھی۔

پاری پر نظموں کی اشاعت نے اس نظریہ کو چیلنج کیا ہے کہ شاعری کسی اشرافیہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کی ملکیت نہیں ہے، اور نہ ہی وہ الفاظ و زبان کی ساحری سے جڑی کوئی چیز ہے۔ شاعری اور لوک گیتوں کے درمیان فرق نہ کرتے ہوئے، ہم اس متنوع روایت کے حقیقی محافظوں اور تخلیق کاروں کے تعاون کو تسلیم کرتے ہیں، جس میں سبھی طبقہ، ذات، صنف کے عام لوگ شامل ہیں۔ چاہے کڈو بائی کھرات یا شاہیر دادو سالوے جیسے لوگ ہوں، جو عام لوگوں کے رنج و غم اور جدوجہد کے ساتھ، برابری اور امبیڈکر نواز گیت گاتے ہیں، سیاسی خیالات کے ساتھ نظم کو عوام کے درمیان لے جاتے ہیں۔ شانتی پور کے لنکا پاڑہ کے عام ناریل فروش سُکمار بسواس روحانیت سے بھرے خوبصورت گیت گاتے ہیں۔ بیشک ان کے گیت ۱۹۷۱ کی بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد ہندوستان میں قیام کے ان کے تجربات سے متعلق ہیں۔ مغربی بنگال کے پیرڑا گاؤں کے مجاہد آزادی لوکھی کانت مہتو ۹۷ سال کی عمر میں بھی مترنم آواز میں گاتے ہیں۔ ان کے گیت بتاتے ہیں کہ کیسے گیت و موسیقی نے ہندوستان میں جدوجہد آزادی کو امید اور جوش سے بھر دیا تھا، جس کی اس دور میں کافی ضرورت تھی۔

حالانکہ، نظم یا گیت صرف الفاظ میں ہی بیان نہیں ہوتے۔ خاکہ نگاری نے پاری پر شائع ہونے والی ہماری بہت سی اسٹوریز میں رنگ و آہنگ جوڑے ہیں۔ کئی فنکاروں نے اپنے منفرد انداز کے ساتھ قابل غور تخلیقات پیش کی ہیں، جو اب ان شائع ہو چکی اسٹوریز کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکی ہیں۔

پاری میں اظہار کے لیے خاکوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے ایسی اسٹوریز شائع کی ہیں، جن میں کسی کہانی کو سلجھانے کے لیے خاکہ نگاری کا استعمال کیا گیا۔ کبھی کبھی ہم نے انہیں اخلاقی وجوہات سے کہانی کے ساتھ رکھا، جیسے بچوں کی گم شدگی ہر سال بڑھتی جا رہی ہے… ایک اسٹوری کی مصنف، جو خود ایک خاکہ نگار ہیں، نے کہانی کو نہیں طاقت اور معنویت بخشنے کے لیے تصویروں کی بجائے خاکوں کا استعمال کیا۔ جب فنکار پاری پر کسی شاعر یا گلوکار کی سطروں کے ساتھ اپنے خاکے جوڑتے ہیں، تو وہ صفحہ پر پہلے سے ہی موجود خوبصورت کینوس میں معنی کے نئے رنگ بھر دیتے ہیں۔

آئیے اور پاری کے اس تانے بانے کو محسوس کیجئے جو اس کے خوبصورت کینوس کو تیار کرتا ہے۔

اس اسٹوری میں شامل تصویروں کی ایڈٹنگ میں مدد کے لیے رِکِن سنکلیچا کا شکریہ۔

اگر آپ کو ہمارا کام پسند ہے، اور آپ پاری میں تعاون کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم ہمیں [email protected] پر لکھیں۔ ہمارے ساتھ کام کرنے کے لیے آزاد قلم کاروں، صحافیوں، فوٹوگرافروں، فلم سازوں، ترجمہ نگاروں، ایڈیٹروں، خاکہ نگاروں اور محققین کا خیر مقدم ہے۔

پاری ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور ہم ان لوگوں کے مالی تعاون پر منحصر ہیں، جو ہماری کثیر لسانی آن لائن ویب سائٹ اور آرکائیو کو پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ پاری کی مالی مدد کرنا چاہتے ہیں، تو براہ کرم یہاں کلک کریں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Joshua Bodhinetra

Joshua Bodhinetra has an MPhil in Comparative Literature from Jadavpur University, Kolkata. He is a translator for PARI, and a poet, art-writer, art-critic and social activist.

Other stories by Joshua Bodhinetra
Archana Shukla

Archana Shukla is a Content Editor at the People’s Archive of Rural India and works in the publishing team.

Other stories by Archana Shukla
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique