’’ہم آج پیچھے نہیں ہٹیں گے،‘‘ تُکا رام ولوی نے کہا۔ ’’یہ سرکار ہمارے اوپر حملہ کر رہی ہے۔ اگر ہم وہ ۱۰ ایکڑ زمین دینے کو کہتے ہیں، جس پر ہم سالوں سے کھیتی کر رہے ہیں، تو وہ ہمیں صرف ۱۰ گُنٹھا [ایک چوتھائی ایکڑ] دیتے ہیں۔ اگر ہم پانچ ایکڑ مانگتے ہیں، تو وہ ہمیں تین گُنٹھا دیتے ہیں۔ ہم اپنی زمین کے بغیر کیسے کھائیں گے؟ ہمارے پاس نہ پیسہ ہے، نہ کام ہے اور نہ ہی کھانا ہے۔‘‘

وارلی آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے ۶۱ سالہ ولوی، جو پالگھر ضلع کے واڈا تعلقہ کے گرگاؤں کی ایک بستی میں تین ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں، اس ہفتہ پالگھر کے مختلف گاؤوں کے (اندازاً) ۳ ہزار کسانوں اور زرعی مزدوروں کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کر رہے تھے، جس میں وارلی برادری کے کئی کسان بھی شامل تھے۔

انہوں نے ’’ملک میں زرعی شعبہ میں تبدیلی پیدا کرنے اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے مقصد سے‘‘ ۲۷ ستمبر کو پاس کیے گئے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ۲۶ نومبر کو واڈا کے کھنڈیشوری ناکہ پر راستہ روکو تحریک چلائی تھی۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین زرعی شعبہ کو پرائیویٹ سرمایہ کاروں اور عالمی بازاروں کے لیے کھول دیں گے۔ ان قوانین کے پاس ہونے کے بعد ستمبر سے ہی کسانوں کے ذریعہ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ شروع ہو گئے ہیں – خاص طور پر ہریانہ، پنجاب اور مغربی اتر پردیش میں۔

حالیہ دنوں میں ہریانہ اور دہلی کی سرحدوں پر کسانوں نے جو لڑائی لڑی ہے، میڈیا اپنی پوری توجہ اسی پر مبذول کیے ہوئے ہے، جب کہ ان کسانوں کے مطالبات کو اپنی حمایت دینے کے ساتھ ہی کچھ دیگر علاقائی مطالبات کو لیکر ملک کی کئی دیگر ریاستوں کے کسان جو احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں، اس پر میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔ مثال کے طور پر، مہاراشٹر میں ۲۵-۲۶ نومبر کو سلسلہ وار احتجاجی مظاہروں میں – ناسک سے پالگھر اور رائے گڑھ تک – کم از کم ۶۰ ہزار کسانوں نے شرکت کی۔ ان ضلعوں کے اندر بھی، مختلف تعلقوں میں کئی مراکز پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔

اس ہفتہ واڈا میں آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے ذریعہ منعقد ریلی میں ولوی کی تشویش – زمین کا مالکانہ حق – کئی مطالبات میں سے ایک تھا۔ مہاراشٹر میں آدیواسی کسانوں کے ذریعہ گزشتہ چند برسوں سے کیے جا رہے احتجاجی مظاہروں میں یہ مطالبہ شامل رہا ہے۔ ولوی اپنی زمین کا مالکانہ حق حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ۱۵ برسوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ’’[ہمارے] گاؤوں میں، جنگلاتی زمین پر کھیتی کرنے والوں کو محکمہ جنگلات کے ذریعہ ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’ہم ان معاملوں کو عدالت میں لڑنا ہوگا۔ ہمارے پاس اپنی ضمانت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہم غریب لوگ اتنا پیسہ کہاں سے لائیں گے؟‘‘

Top left: Tukaram Valavi: 'We will not back down today'. Top right: Rama Tarvi: 'The forest department does not let us cultivate our land'. Bottom left: Suganda Jadhav: 'The government has forced us to come out on the streets'. Bottom right: Sunita Savare has been trying to get her Aadhaar card for years, and said: 'I don’t understand what the people at the card office say,” she said. “I can’t read or write. I don’t know what form to fill. They ask me to go here, go there, come at this date, that date. I am tired'
PHOTO • Shraddha Agarwal

اوپر بائیں: تُکارام ولوی: ’ہم آج پیچھے نہیں ہٹیں گے‘۔ اوپر دائیں: رما تاروی: ’محکمہ جنگلات ہمیں اپنی زمین پر کھیتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے‘۔ نیچے بائیں: سُگندا جادھو: ’سرکار نے ہمیں سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور کیا ہے‘۔ نیچے دائیں: سنیتا ساورے، جو برسوں سے اپنا آدھار کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، نے کہا: ’کارڈ کے دفتر میں لوگ جو کہتے ہیں وہ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ میں پڑھ لکھ نہیں سکتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس فارم کو بھرنا ہے۔ وہ مجھے یہاں جانے، وہاں جانے، اس تاریخ کو آنے، اُس تاریخ کو آنے کے لیے کہتے ہیں۔ میں تھک چکی ہوں‘

یہ کسان ۲۶ نومبر کی ریلی میں اپنے ۲۱ مطالبات کی ایک فہرست لیکر آئے تھے، جسے انہوں نے واڈا تعلقہ کے تحصیل دار دفتر میں جمع کرایا۔ وہاں ہر کوئی ماسک پہن کر آیا تھا یا انہوں نے اپنے چہرے رومال سے ڈھانپ رکھے تھے، اور اے آئی کے ایس کے کچھ رضاکاروں نے احتجاج کرنے والوں کو ماسک اور صابن تقسیم کیے۔

ان کے ۲۱ مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ حال ہی میں پاس کیے گئے زرعی قوانین کو واپس لیا جائے۔ دیگر مطالبات کی ایک وسیع فہرست میں ۲۰۰۶ کے جنگلات کے حق کا قانون ( ایف آر اے ) کا سختی سے نفاذ، بے موسم بارش کے سبب فصل کے نقصان کا مناسب معاوضہ، (کووڈ- ۱۹ کے سلسلے میں) صحت عامہ کے نظام میں اصلاح، اور آن لائن کلاسز کو ختم کرنا شامل ہے۔

فہرست میں ہر ایک فیملی کو ۷۵ ہزار روپے کی آمدنی کی مدد، اور اس وبائی امراض کے دوران چھ مہینے کے لیے فیملی کے ہر ایک رکن کو ۱۰ کلو راشن کا مطالبہ شامل ہے – جس کے بارے میں ریلی میں کئی کسانوں نے بات کی۔

’’ہمارے علاقے کی کچھ عورتوں کو آمدنی حاصل کرنے کے لیے روزانہ چار گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے،‘‘ کنچڑ گاؤں کی رہنے والی ۵۴ سالہ اے آئی کے ایس کارکن، رما تاروی نے کہا، جن کی فیملی دو ایکڑ کھیت میں چاول، جوار، باجرا اور گیہوں اُگاتی ہے۔ ’’دن بھر کام کرنے کے بعد انہیں ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ ہمارے پاس زمین ہے لیکن محکمہ جنگلات ہمیں اس پر کھیتی نہیں کرنے دیتا۔ کووڈ کے دوران پہلے سے ہی کوئی کام نہیں ہے...‘‘

’’[ایف آر اے] زمین ہمارے معاش کا واحد ذریعہ ہے، پھر بھی کووڈ کے دوران وہ ہمیں اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر باہر آنے اور ہمیں ان زمینوں [کے حقوق] کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس پر ہم سالوں سے کھیتی کرتے آئے ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ سُگندا جادھو نے کہا؛ ان کی فیملی دو ایکڑ میں چاول، باجرا، اُڑد اور باجرا اُگاتی ہے۔ ’’ہم نے کئی بار احتجاج و مظاہرہ کیا ہے، لیکن سرکار نہیں سنتی ہے۔ سرکار نے ہمیں دوبارہ سڑکوں پر اترنے کے لیے مجبور کیا ہے۔‘‘

PHOTO • Shraddha Agarwal

کسان ۲۶ نومبر کو، راستہ روک تحریک کے لیے واڈا تعلقہ میں کھنڈیشوری ناکہ کی طرف جانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

واڈا تعلقہ کے کیراولی ناکہ پر، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) کے دفتر کے باہر انتظار کرتے ہوئے

PHOTO • Shraddha Agarwal

رینوکا کالو رام (دائیں جانب، ہرے رنگ کی ساڑے میں) پالگھر کے کرنجے گاؤں میں ایک زرعی مزدور کے طور پر یومیہ ۱۵۰ روپے کماتی ہیں۔ ان کے تین چھوٹے بچے ہیں جو مقامی آنگن واڑی میں جاتے ہیں: ’ہم چاہتے ہیں کہ سرکار آن لائن پڑھائی بند کرے۔ ہمارے بچے آن لائن کچھ بھی نہیں سیکھ رہے ہیں۔ ہمارے پاس بڑے فون نہیں ہیں اور ہمارے علاقے میں کوئی سگنل نہیں ہے

Left: Gulab Dongarkar, an agricultural labourer from Kanchad village: We have been sitting here since 10 a.m. It’s been very hard for us to get work during Covid. We want the government to give us at least 10 kilos of rations [instead of five, which too many did cannot access]'. Right: Janki Kangra  and her 11-member family cultivate rice, jowar, bajra and millets on three acres, while battling, she said, the forest department's strictures
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Gulab Dongarkar, an agricultural labourer from Kanchad village: We have been sitting here since 10 a.m. It’s been very hard for us to get work during Covid. We want the government to give us at least 10 kilos of rations [instead of five, which too many did cannot access]'. Right: Janki Kangra  and her 11-member family cultivate rice, jowar, bajra and millets on three acres, while battling, she said, the forest department's strictures
PHOTO • Shraddha Agarwal

بائیں: کنچڑ گاؤں کی ایک زرعی مزدور، گلاب ڈرنگرکر: ’ہم صبح ۱۰ بجے سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کووڈ کے دوران کام کرنا ہمارے لیے بہت مشکل رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرکار ہمیں کم از کم ۱۰ کلو راشن [پانچ کے بجائے، جو بہت سے لوگوں تک نہیں پہنچتا] دے‘۔ دائیں: جانکی کانگڑا اور ان کی ۱۱ رکنی فیملی تین ایکڑ میں چاول، جوار، باجرا اور کودی اگاتی ہے، لیکن محکمہ جنگلات کی سختی کا سامنا کر رہی ہے، انہوں نے کہا

PHOTO • Shraddha Agarwal

واڈا تعلقہ کے کیراولی ناکہ پر واقع کمیونسٹ پارٹی آف انڈی (مارکسوادی) کے دفتر کے باہر تعینات پولس دستہ

PHOTO • Shraddha Agarwal

آل انڈیا کسان سبھا کے رکن احتجاجی مظاہرہ میں آدیواسی کسانوں کو ماسک اور صابن تقسیم کر رہے ہیں

Left: Sukhi Wagh, a construction labourer, carries her three-year-old grandson Sainath on her shoulder as they march towards Khandeshwari Naka for the rasta roko protest. 'Give us rations, we have no work', she said. Right: Protestors walking towards Khandeshwari Naka
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Sukhi Wagh, a construction labourer, carries her three-year-old grandson Sainath on her shoulder as they march towards Khandeshwari Naka for the rasta roko protest. 'Give us rations, we have no work', she said. Right: Protestors walking towards Khandeshwari Naka
PHOTO • Shraddha Agarwal

بائیں: راستہ روکو تحریک کے لیے کھنڈیشوری ناکہ کی طرف مارچ کرتے کسانوں کے ساتھ، تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرنے والی سُکھی واگھ اپنے تین سالہ پوتے سائی ناتھ کو اپنے کندھے پر لادکر لے جا رہی ہیں۔ ’ہمیں راشن دو، ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہے‘، انہوں نے کہا۔ دائیں: کھنڈیشوری ناکہ کی طرف بڑھتے احتجاجی مظاہرین

PHOTO • Shraddha Agarwal

راستہ روک تحریک کے لیے پالگھر ضلع میں کیراولی ناکہ سے کھنڈیشوری ناکہ تک دو کلومیٹر لمبی سڑک پر

PHOTO • Shraddha Agarwal

واڈا تعلقہ میں کھنڈیشوری ناکہ پر احتجاجی مظاہرہ کی قیادت کرتے ہوئے آل انڈیا کسان سبھا کے رکن چندو دھن گڑا

PHOTO • Shraddha Agarwal

۲۶ نومبر کی ریلی میں، احتجاجی مظاہرین کے پاس ۲۱ مطالبات کی ایک فہرست تھی، جسے انہوں نے واڈا تعلقہ کے تحصیل دار دفتر میں جمع کرایا

Left: Asha Gaware, who cultivates rice, bajra, jowar and millets on two acres said, 'Our crops were destroyed this year due to heavy rains. We suffered losses of nearly 10,000 rupees. Nobody is ready to loan us money anymore. We want the government to give us compensation or else we will never recover from these losses'. Right: Dev Wagh, from Palghar’s Kanchad village, demanded that electricity charges be waived off:  'We have not even worked on our fields and we are getting such a high bill. We want that for six months we shouldn’t be asked to pay the electricity bills'. The charter of 21 demands included a call to scrap the new Electricity (Amendment) Bill, 2020, that will bring steeply higher tariffs for farmers and others in rural India. Many were also protesting against highly increased (or inflated) bills since April this year.
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Asha Gaware, who cultivates rice, bajra, jowar and millets on two acres said, 'Our crops were destroyed this year due to heavy rains. We suffered losses of nearly 10,000 rupees. Nobody is ready to loan us money anymore. We want the government to give us compensation or else we will never recover from these losses'. Right: Dev Wagh, from Palghar’s Kanchad village, demanded that electricity charges be waived off:  'We have not even worked on our fields and we are getting such a high bill. We want that for six months we shouldn’t be asked to pay the electricity bills'. The charter of 21 demands included a call to scrap the new Electricity (Amendment) Bill, 2020, that will bring steeply higher tariffs for farmers and others in rural India. Many were also protesting against highly increased (or inflated) bills since April this year.
PHOTO • Shraddha Agarwal

بائیں: دو ایکڑ میں چاول، باجرا، جوار اور کودی کی کھیتی کرنے والی آشا گاورے نے کہا، ’بھاری بارش کے سبب اس سال ہماری فصلیں برباد ہو گئیں۔ ہمیں تقریباً ۱۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اب ہمیں کوئی بھی قرض دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سرکار ہمیں معاوضہ دے ورنہ ہم ان نقصانات سے کبھی باہر نہیں نکل پائیں گے‘۔ دائیں: پالگھر کے کنچڑ گاؤں کے دیو واگھ نے مطالبہ کیا کہ بجلی بل معاف کر دیا جائے: ’ہم نے اپنے کھیتوں پر کام بھی نہیں کیا اور ہمارا بل اتنا زیادہ آ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چھ مہینے تک ہمیں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے کے لیے نہ کہا جائے‘۔ ۲۱ مطالبات کی فہرست میں نئے بجلی (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کو خارج کرنے کی مانگ شامل ہے، جو دیہی ہندوستان میں کسانوں اور دیگر لوگوں کے لیے اونچا ٹیرف لائے گی۔ کئی لوگ اس سال اپریل سے حد سے زیادہ بڑھے (یا بڑھائے گئے) بلوں کی مخالفت بھی کر رہے تھے

PHOTO • Shraddha Agarwal

واڈا تعلقہ کے کھنڈیشوری ناکہ پر امید، پختہ عزم اور اتحاد

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

Shraddha Agarwal is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Shraddha Agarwal
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez