چنبیلی ایک شور شرابہ والا پھول ہے۔ اس کی موتیوں جیسی کلیوں سے بھری بوریاں ہر روز صبح سویرے مدورئی کے مٹو توانی بازار پہنچ جاتی ہیں، جہاں پلاسٹک کی چادروں پر انہیں انڈیلتے وقت ’’ واڑی، واڑی [ہٹو، ہٹو]،‘‘ کی آواز لگا رہے مزدوروں کی آواز چاروں طرف گونج رہی ہوتی ہے۔ بیچنے والے ان نازک پھولوں کو ہلکے ہاتھوں سے لوہے کے ترازو پر تولتے ہیں اور ایک ایک کلو کی مقدار میں گاہکوں کو بیچنے کے لیے پلاسٹک کی تھیلی میں رکھتے جاتے ہیں۔ اِدھر کوئی قیمت پوچھتا ہے، تو اُدھر کوئی چیخ کر ریٹ بتا رہا ہوتا ہے۔ ترپال کی چادر پر گندے گیلے پیروں کے داغ، پرانے باسی پھولوں کے انبار، خرید و فروخت کا حساب کتاب رکھنے والے ایجنٹ، تیز نگاہیں، ایک نوٹ بک پر جلد بازی میں درج کیا گیا حساب، اور اس درمیان پھر کسی کی اونچی آواز کانوں میں پڑتی ہے، ’’مجھے پانچ کلو چاہیے…‘‘

عورتیں سب سے اچھے پھولوں کی تلاش میں بازار میں گھوم رہی ہیں۔ وہ مٹھی میں پھولوں کو بھرتے ہوئے انہیں اپنی انگلیوں کے درمیان سے گراتی ہیں۔ پھولوں کے معیار کو پرکھنے کا یہ ان کا طریقہ ہے۔ چنبیلی کی کلیاں بارش کی بوندوں کی طرح واپس اپنے ڈھیر پر گر رہی ہیں۔ ایک پھول بیچنے والی بڑے احتیاط سے گلاب اور گیندے کے پھول کے جوڑے لگا رہی ہے۔ اس کے دانتوں میں ایک ہیئر پن پھنسا ہوا ہے، جس میں وہ دونوں پھولوں کو چھید کر اپنے جوڑوں میں ٹانک لیتی ہے۔ پھر وہ شفاف سفید چنبیلی، اور چٹخ رنگوں والے گیندے اور گلاب کے پھولوں سے بھری ٹوکری اپنے سر پر اٹھائے شور شرابہ سے بھرے اس بازار سے باہر نکل جاتی ہے۔

سڑک کے کنارے، ایک چھوٹے سے چھاتے کے سایہ میں وہ ان پھولوں کو دھاگوں میں پروتی ہے اور انہیں گنتی کے حساب سے بیچنے لگتی ہے – چنبیلی کی کلیاں سبز رنگ کے سوتی دھاگے کے دونوں طرف پروئی گئی ہیں، ان کا رخ باہر کی طرف ہے، جب کہ ان کی خوشبو پنکھڑیوں کے اندر جمع ہیں۔ اور جب یہ کلیاں کسی (بال کی) چوٹی میں، کار کے اندر، بھگوان کی تصویر کے اوپر لگے لوہے کی کیل پر کھلیں گی، تو اپنی خوشبوں سے اس بات کا اعلان کریں گی کہ یہ مدورئی کی مَلّی ہیں۔

پاری نے تین سالوں کے دوران، مٹوتوانی بازار کا تین بار دورہ کیا۔ پہلا دورہ ستمبر ۲۰۲۱ میں بھگوان گنیش کے یوم پیدائش، ونائک چترتھی سے چار دن پہلے کیا گیا تھا۔ یہ دورہ پھولوں کی تجارت کے بارے میں ایک بنیادی جانکاری کی طرح تھا۔ یہ دورہ مٹوتوانی کے بس اسٹینڈ پر ختم ہوا تھا، کیوں کہ تب کووڈ سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے پھولوں کا یہ بازار عارضی طور پر اسی بس اسٹینڈ کے پیچھے لگایا گیا تھا۔ یہ انتظام سماجی دوری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا۔ لیکن بھیڑ میں کوئی کمی نہیں تھی۔

مدورئی پھول بازار ایسوسی ایشن کے صدر نے میری کلاس شروع کرنے سے پہلے، اپنے نام کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’میں پوکڈئی رام چندرن ہوں…اور یہ میری یونیورسٹی ہے،‘‘ انہوں نے پھولوں کے بازار کی طرف ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔

Farmers empty sacks full of Madurai malli at the flower market. The buds must be sold before they blossom
PHOTO • M. Palani Kumar

پھولوں کے بازار میں مدورئی ملّی سے بھری بوریوں کو خالی کرتے کسان۔ ان کلیوں کو کھلنے سے پہلے بیچنا ضروری ہے

Retail vendors, mostly women, buying jasmine in small quantities. They will string these flowers together and sell them
PHOTO • M. Palani Kumar

کم مقدار میں چنبیلی خریدتے پرچون فروش، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ وہ انہیں دھاگوں میں پرو کر بیچیں گی

رام چندرن (۶۳) پچاس سال سے بھی زیادہ عرصے سے چنبیلی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ نوجوانی کی عمر میں پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے یہ کام شروع کر دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرا خاندان تین نسلوں سے اس تجارت میں شامل ہے۔‘‘ اسی لیے وہ خود کو پوکڈئی کہتے ہیں۔ تمل زبان میں پھولوں کے بازار کو ’پوکڈئی‘ کہتے ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں، ’’مجھے اپنا کام پسند ہے، میں اس کی عزت کرتا ہوں، اس کی پوجا کرتا ہوں۔ اسی کی وجہ سے میں نے سب کچھ کمایا ہے، وہ کپڑا بھی جسے میں پہنتا ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ کسانوں سے لے کر تاجر تک، ہر کوئی ترقی کرے۔‘‘

حالانکہ، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ چنبیلی کی تجارت اس کی قیمت اور پیداوار کے اتار چڑھاؤ پر منحصر ہے، جو بہت ہی زیادہ اور تباہ کن بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو آبپاشی، ان پٹ لاگت اور ناقابل اعتبار ہوتی جا رہی بارش کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن اس کاروبار کے لیے بے حد نقصاندہ ثابت ہوا۔ غیر ضروری مصنوعات کی فہرست میں رکھے جانے کی وجہ سے چنبیلی کی تجارت متاثر ہوئی، اور کسانوں کے ساتھ ساتھ ایجنٹوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے کسان پھولوں کی کھیتی چھوڑ کر ساگ سبزیاں اگانے لگے۔

لیکن رام چندرن کا اصرار ہے کہ آس پاس کام کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ خود بھی ایک ساتھ کئی کام کرنے کے ماہر ہیں۔ وہ کسانوں اور ان کی پیداور، خریداروں اور مالا بنانے والوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کاموں میں سستی برتنے والے کسی بھی آدمی پر بیچ بیچ میں چیختے بھی رہتے ہیں – ’’ دیئی [اے]۔‘‘ چنبیلی [جیسمن سیمبیک] کی پیداوار اور خوردہ (رٹیل) اور تھوک (ہول سیل) کاروبار کو بڑھانے کے بارے میں ان کے ذریعے اپنائے گئے طریقہ پوری طرح سے اصولوں پر مبنی ہیں، جن میں مدورئی میں واقع عطر بنانے والی ایک سرکاری فیکٹری سے رابطہ بنائے رکھنا اور عطر کی برآمد کو بغیر کسی رکاوٹ کے یقینی بنانا اہم ہیں۔

وہ پورے اعتماد سے کہتے ہیں، ’’اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو مدورئی ملّی منگڈھا ملّیا ایروکم [مدورئی کی ملّی اپنی چمک کبھی نہیں کھوئے گی]۔‘‘ ایک ایسی چمک جو پھول کی چمک سے کہیں زیادہ ہے اور خوشحالی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ رام چندرن اس لائن کو کئی بار دہراتے ہیں۔ گویا وہ اپنے پسندیدہ پھول کے سنہرے مستقبل کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔

*****

Left: Pookadai Ramachandran, president of the Madurai Flower Market Association has been in the jasmine trade for over five decades
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Jasmine buds are weighed using electronic scales and an iron scale and then packed in covers for retail buyers
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مدورئی پھول بازار ایسوسی ایشن کے صدر پوکڈئی رام چندرن پچاس سال سے بھی زیادہ عرصے سے چنبیلی کی تجارت کر رہے ہیں۔ دائیں: چنبیلی کی کلیوں کو الیکٹرانک اور لوہے کے ترازو پر تول کر خوردہ خریداروں کے لیے انہیں تھیلیوں میں پیک کر دیا جاتا ہے

In Madurai, jasmine prices vary depending on its variety and grade
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی میں، چنبیلی کی قیمتیں اس کی قسم اور معیار کے حساب سے طے ہوتی ہیں

دس گیارہ بجے تک چنیبلی کا کاروبار تیزی پکڑنے لگتا ہے۔ شور شرابہ سے بازار بھر جاتا ہے۔ پھولوں کی خوشبو کی طرح ہوا میں تیرتی آوازوں کے درمیان اپنی بات کسی کے کانوں تک پہنچانے کے لیے ہمیں زور سے چیخنا پڑتا ہے۔

رام چندرن ہمارے لیے چائے منگواتے ہیں۔ اور جب ہم پسینے و حبس سے بھری اس صبح گرما گرم اور میٹھی چائے کی چسکیاں لے رہے ہوتے ہیں، وہ اپنی بات کہنا جاری رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ کسان صرف کچھ ہزاروں کا ہی کاروبار کرتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی کسان ہیں جو ۵۰ ہزار روپے تک کماتے ہیں۔ ’’یہ وہ کسان ہوتے ہیں جنہوں نے کئی ایکڑ میں چنبیلی کی کھیتی کی ہوئی ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے ہی جب پھولوں کی قیمت بڑھ کر ۱۰۰۰ روپے کلو تک جا پہنچی تھی، تب ایک کسان بازار میں ۵۰ کلو چنبیلی لے کر آ گیا تھا۔ اس دن تو گویا اس کی لاٹری ہی نکل پڑی – ایک دن میں ۵۰ ہزار روپے کی کمائی!‘‘

بازار کے بارے میں کیا خیال ہے، روزانہ کتنے کا کاروبار ہوتا ہوگا؟ رام چندرن اندازہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ  یہ ۵۰ لاکھ سے ایک کروڑ روپے کے درمیان تو ہوگا ہی۔ ’’یہ ایک نجی بازار ہے۔ یہاں پر ۱۰۰ دکانیں ہیں، اور ان میں سے ہر ایک دکان پر روزانہ ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ اب آپ خود ہی حساب لگا لیں۔‘‘

رام چندرن بتاتے ہیں کہ تاجروں کو پھولوں کی فروخت پر ۱۰ فیصد کا منافع ہوتا ہے۔ ’’اس میں کئی دہائیوں سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اور یہ خطروں سے بھرا ہوا کاروبار ہے۔‘‘ کسان جب رقم ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے، تب یہ نقصان بھی تاجروں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کووڈ۔۱۹ کے دوران ایسے کئی معاملے دیکھنے کو ملے۔

ہم نے اپنا دوسرا دورہ بھی اگست ۲۰۲۲ میں ونائک چترتھی سے ٹھیک پہلے ہی کیا تھا۔ پھول بازار میں دو چوڑے راستے والی سہولت آمیز عمارت بن چکی ہے، جس کے دونوں طرف دکانیں ہیں۔ روز آنے والے گاہک یہاں کے طور طریقوں سے واقف ہیں۔ لین دین اب تیزی سے ہونے لگا ہے۔ بوری کی بوری چنبیلی یہاں اترتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کسی اور ٹکھانے پر بھیج دی جاتی ہے۔ دو دکانوں کے درمیان کی خالی جگہوں پر باسی چنبیلیوں کے ڈھیر پڑے ہیں۔ پیروں سے کچلتے ہوئے مرجھائے پھولوں کی باسی مہک اور تازہ پھولوں کی خوشبو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ اس عجیب سی مہک کی وجہ کچھ کیمیائی مرکبات کا ارتکاز تھا۔ یہاں اس کی وجہ انڈول ہے، جو پیشاب پاخانہ، تمباکو کے دھوئیں اور کوئلہ ٹار کے علاوہ چنبیلی میں بھی قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔

کم ارتکاز پر انڈول سے پھولوں کی خوشبو آتی ہے، جب کہ زیادہ ارتکاز سے سڑنے جیسی بدبو آنے لگتی ہے۔

Other flowers for sale at the market
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بازار میں بیچنے کے لیے رکھے گئے دوسرے پھول

*****

رام چندرن ہمیں پھولوں کی قیمت کو طے کرنے والے بنیادی محرکات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ چنبیلی کے پھولنے کی شروعات فروری کے وسط سے ہو جاتی ہے۔ ’’اپریل کے آنے تک فصل اچھی ہوتی ہے، لیکن قیمت کم ہوتی ہے – ۱۰۰ سے لے کر ۳۰۰ روپے فی کلو کے درمیان۔ مئی کے آخری عشرہ سے موسم بدلنے لگتا ہے اور تیز ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ پیداوار بھی اب تک بہت بڑھ چکی ہوتی ہے۔ اگست اور ستمبر پیداوار کے بالکل درمیان کا موسم ہوتا ہے۔ پیداوار گر کر آدھی ہو جاتی ہے اور قیمت بڑھ کر دوگنی ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب چنبیلی کی قیمت ۱۰۰۰ روپے فی کلو تک پہنچ جاتی ہے۔ سال کے آخری دو مہینوں – نومبر اور دسمبر میں چنبیلی کی اوسط پیداوار گھٹ کر صرف ۲۵ فیصد رہ جاتی ہے۔ اس وقت چنبیلی کی قیمت حیرت انگیز طریقے سے بڑھ جاتی ہے۔ ’’ایک کلو کے بدلے تین، چار یا پانچ ہزار روپے کی قیمت بھی لگ چکی ہے۔ تائی ماسم [۱۵ جنوری سے ۱۵ فروری تک] شادی بیاہ کا موسم ہوتاہ ے اور اس وقت چنبیلی کی مانگ بہت بڑھ جاتی ہے، جب کہ سپلائی بہت کم ہوتی ہے۔‘‘

رام چندرن کے مطابق، مٹوتوانی کے بازار میں جہاں کسان اپنی پیداوار لے کر خود پہنچتے ہیں، اوسطاً ۲۰ ٹن چنبیلی کی سپلائی ہوتی ہے۔ یہ ۲۰ ہزار کلو کے آس پاس ہوتی ہے۔ چنبیلی کے علاوہ دوسرے پھول ۱۰۰ ٹن کی مقدار میں یہاں اترتے ہیں۔ تمل ناڈو کے پڑوسی ڈنڈیگل، تینی، ویرودو نگر، شیو گنگئی اور پڈوکوٹئی جیسے ضلعوں میں پھول یہیں سے جاتے ہیں۔

حالانکہ، اس کی پیداوار ’گھنٹی جیسے دائرہ‘ (بیل کَرو) کے اقتصادی ضابطوں کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ ’’یہ پوری طرح سے بارش اور آبپاشی پر منحصر ہے۔‘‘ ایک ایکڑ کی ملکیت والا کوئی کسان اپنی ایک تہائی زمین پر اگر اس ہفتہ سینچائی کرتا ہے، تو دوسرے تہائی حصہ پر اگلے ہفتے کرتا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایسا کرنے سے پیداوار میں ایک تسلسل برقرار رہتا ہے۔ لیکن بارش ہونے کی صورت میں سبھی کسانوں کے کھیتوں میں ایک ساتھ سینچائی ہو جاتی ہے اور سبھی پودے ایک ہی ساتھ پھول دینے لگتے ہیں۔ ’’قیمتوں میں گراوٹ کی یہی سب سے بڑی وجہ بنتی ہے۔‘‘

رام چندرن کے پاس تقریباً ۱۰۰ کسان اپنی چنبیلی کے پھول بیچنے آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں خود بہت زیادہ چنبیلی نہیں اگاتا ہوں۔ یہ بہت محنت کا کام ہے۔‘‘ ایک کلو چنبیلی کو صرف توڑنے اور منڈی تک پہنچانے کی لاگت ۱۰۰ روپے آتی ہے۔ اس کح تقریباً دو تہائی کے برابر رقم تو مزدوروں کو دی جاتی ہے۔ ایسے میں چنبیلی کی قیمت میں جب گراوٹ آتی ہے، تو کسانوں کو اس کا بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

کسان اور تاجر کا رشتہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ ترومنگلم تعلقہ کے میلوپّلی گنڈو گاؤں کے چنبیلی اگانے والے کسان پی گنپتی (۵۱) اپنے پھول رام چندرن کو بیچتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ بڑے تاجروں کے پاس ’’اڈئی کلم‘‘ یا پناہ لیتے ہیں۔ ’’چنبیلی کے کھلنے کا موسم جب اپنے عروج پر ہوتا ہے، تب میں بوریوں میں پھولوں کو بھر کر صبح، دوپہر یا شام تک کئی کئی بار منڈی جاتا ہوں۔ مجھے اپنی پیداوار کو بیچنے کے لیے تاجروں کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ پڑھیں: تمل ناڈو: چنبیلی کی خوشبو کے پیچھے کی جدوجہد

پانچ سال پہلے گنپتی نے رام چندرن سے کچھ لاکھ روپے اُدھار لیے تھے اور بدلے میں انہیں پھول فروخت کرکے چکایا تھا۔ ایسی حالت میں کمیشن کی شرح تھوڑی اونچی ہوتی ہے – ۱۰ کی بجائے ۵ء۱۲ فیصد کے آس پاس۔

Left: Jasmine farmer P. Ganapathy walks between the rows of his new jasmine plants.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: A farmer shows plants where pests have eaten through the leaves
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: اپنے نئے پودوں کی قطاروں کے درمیان چہل قدمی کرتے ہوئے چنبیلی کسان پی گنپتی۔ دائیں: ایک کسان چنبیلی کے ان پودوں کو دکھا رہے ہیں جن کے پتے کیڑوں کا نوالہ بن گئے

چنبیلی کی قیمت کون طے کرتا ہے؟ رام چندر ہمیں اس کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’لوگ ہی ہمارے بازار کی قسمت طے کرتے ہیں۔ بازار میں پیسے کا آنا جانا ان کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے، اور یہ بہت متحرک ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’قیمت ۵۰۰ روپے فی کلو پر کھل سکتی ہے۔ اگر دام تیزی سے بڑھنے لگتے ہیں، تو ہم ۶۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے پھول خرید لیتے ہیں۔ مانگ کو دیکھتے ہوئے ہم ان پھولوں کی قیمت ۸۰۰ روپے بھی لگا سکتے ہیں۔‘‘

جب وہ نوعمر تھے، تب ’’۱۰۰ پھول بمشکل ۲ آنے، ۴ آنے یا زیادہ سے زیادہ ۸ آنے میں مل جایا کرتے تھے۔‘‘

گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے پھولوں کو ادھر سے ادھر لے جایا جاتا تھا۔ اور، ڈنڈیگل اسٹیشن سے دو مسافر ٹرینوں میں پھول بھیجے جاتے تھے۔ ’’انہیں بانس اور تاڑ کے پتوں کی بنی ٹوکریوں میں رکھ کر بھیجا جاتا تھا، جن سے پھولوں کو ہوا مل جاتی تھی اور انہیں ملائم سہارا بھی ملتا تھا، تاکہ وہ جلدی خراب نہ ہوں۔ تب چنبیلی اُگانے والے کسان بہت کم تھے۔ اور، خواتین کسانوں کی تعداد بھی بہت کم تھی۔‘‘

اپنے بچپن کے دنوں کے گلابوں کی خوشبو کو یاد کرتے ہوئے رام چندرن کہتے ہیں، ’’پنر روز [گلاب کی ایک بہت ہی خوشبودار نسل]…اب وہ نہیں ملتے ہیں! ان پر ہمیشہ شہد کی مکھیاں منڈلاتی رہتی تھیں، اور مجھے آج بھی ان کا ڈنک مارنا یاد ہے!‘‘ لیکن ان کی آواز میں کوئی غصہ نہیں دکھائی دیتا، بس ایک حیرانی نظر آتی ہے۔

وہ مجھے اپنے فون پر پھولوں کی تصویریں بھی دکھاتے ہیں، جو انہوں نے الگ الگ مندروں کو تہواروں میں عطیہ کیے ہیں۔ یہ پھول ایشور اور رتھوں اور پالکیوں کو سجانے کے کام میں آتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے یہ تمام تصویریں دکھاتے ہیں۔ ہر تصویر پہلی سے زیادہ خوبصورت اور شاندار ہے۔

حالانکہ، وہ ماضی میں جینے والے آدمی نہیں ہیں۔ ان کی آنکھیں مستقبل پر ٹکی ہیں۔ ’’زیادہ منافع اور کاروبار میں نئی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اس تجارت میں دلچسپی لیں۔‘‘ رام چندرن کے پاس بیشک کسی کالج یا یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہے، اور نہ ہی وہ نوجوان ہیں۔ لیکن ان کے تجربات دونوں لحاظ سے بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

*****

Ramachandran holds up (left) a freshly-made rose petal garland, the making of which is both intricate and expensive as he explains (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Ramachandran holds up (left) a freshly-made rose petal garland, the making of which is both intricate and expensive as he explains (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

گلاب کی تازہ پنکھڑیوں سے بنائی گئی ایک مالا کو ہاتھوں میں اٹھائے رام چندرن (بائیں) وہ بتاتے ہیں (دائیں) کہ اس مالا کو بنانا بہت ہنر کا کام ہے اور اس کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے

پہلی نظر میں پھولوں کی لڑیاں، مالائیں اور ان کی خوشبو کوئی بڑا اور فائدہ مند کاروباری خیال محسوس نہیں ہوتے، لیکن یہ کوئی معمولی خیال نہیں ہے۔ ہر مالا اپنے آپ میں ایک تخلیقیت کی کہانی کہتی ہے۔ ایک کہانی، جو پھولوں کے کھلنے سے لے کر بازار تک آنے کا سفر، اور لڑیوں میں پروئے جانے، تعریف کیے جانے، گلے یا بالوں میں پہنے جانے اور استعمال کے بعد سڑ گل کر برباد ہونے کی ذیلی کہانیوں سے گزرتی ہے۔

ایس جیہ راج (۳۸) روزانہ مدورئی اپنے کام پر پہنچنے کے لیے شیو گنگئی سے بس پکڑتے ہیں۔ وہ مالا بنانے کے ہنر کے بارے میں بہت باریکی سے جانتے ہیں، کیوں کہ گزشتہ ۱۶ برسوں سے وہ اسی کام میں لگے ہیں۔ وہ کوئی بھی تصویر دیکھ کر کسی بھی ڈیزائن کی مالا بنا سکتے ہیں۔ جب وہ یہ بات کہتے ہیں، تو ان کی آواز میں فخر کا ایک احساس جھلکتا ہے۔ ان کے پاس اپنے بھی بنیادی ڈیزائن ہیں، ایک جوڑی گلاب کی پنکھڑیوں کی مالا کے بدلے وہ ۱۲۰۰ سے لے کر ۱۵۰۰ روپے بطور محنتانہ کماتے ہیں۔ چنبیلی کی ایک عام مالا بنانے کے عوض وہ ۲۰۰ سے ۲۵۰ روپے لیتے ہیں۔

ہمارے دورہ سے ٹھیک دو دن پہلے پھولوں کی لڑیاں اور مالائیں بنانے والے کاریگروں کی کافی کمی ہو گئی تھی۔ یہ بات ہمیں رام چندرن نے بتائی۔ ’’اسے بنانے کے لیے آپ کو باقاعدہ تربیت یافتہ ہونے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ کام آپ کو اچھا خاصا منافع دینے کے قابل ہے،‘‘ وہ زور ڈالتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’کوئی عورت کچھ پیسے لگا کر اگر دو کلو چنبیلی خرید لے اور ان کی لڑیاں بنا کر بیچے، تو ایک دن میں وہ ۵۰۰ روپے تک کما سکتی ہے۔‘‘ اس میں اس کے وقت اور محنت دونوں کی قیمت شامل ہے۔ ایک کلو مدورئی ملی کی لڑیاں تیار کرنے میں ۱۵۰ روپے کی لاگت آتی ہے۔ ایک کلو میں مدورئی ملّی کی ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ کلیاں چڑھتی ہیں۔ ساتھ ہی پھولوں کو خوردہ بیچ کر بھی مناسب منافع کمایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ۱۰۰ پھولوں کو تھوک میں لیا جاتا ہے، جسے ’کورو‘ کہا جاتا ہے، اور یہ ان پھولوں کو بیچنے کی ایک عام اکائی ہے۔

پھولوں کی لڑیوں کو تیار کرنے میں مہارت کے ساتھ ساتھ تیزی کی بھی اہمیت ہے۔ رام چندرن ہمیں پورے عمل کو تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بائیں ہاتھ میں کیلے کے تنے کا ایک ریشہ ہے، وہ دائیں ہاتھ کی مدد سے تیزی سے چینبلی کی کلیوں کو اٹھاتے ہیں اور انہیں ایک ایک کر قطار میں رکھتے جاتے ہیں۔ سبھی کلیاں ایک سمت میں ہیں۔ اس کے بعد وہ ان کلیوں کی ایسی ہی دوسری قطار تیار کرتے ہیں۔ پھر کیلے کے دھاگے سے انہیں سوئی کے سہارے گوندھ لیتے ہیں اوریہی عمل دوسری قطار کے ساتھ بھی دہراتے ہیں۔ اس طرح سے چنبیلی کی ایک مالا تیار ہو جاتی ہے…

وہ پوچھتے ہیں کہ لڑیاں اور مالائیں بنانے کے طریقے یونیورسٹی میں کیوں نہیں پڑھائے جا سکتے ہیں۔ ’’اس کا تعلق سیدھے روزگار سے جڑا ہے۔ یہ پڑھائی میں بھی کرا سکتا ہوں۔ میں اس کا ذریعہ بن سکتا ہوں…کیوں کہ مجھ میں یہ ہنر ہے۔‘‘

The Thovalai flower market in Kanyakumari district functions under a big neem tree
PHOTO • M. Palani Kumar

کنیا کماری ضلع میں تووالئی پھول بازار نیم کے ایک بڑے درخت کے نیچے لگتا ہے

رام چندرن بتاتے ہیں کہ کنیا کماری میں تووالئی کے پھول بازار میں کلیوں کو پرونے کا کام ایک منافع والی گھریلو صنعت مانی جاتی ہے۔ ’’یہاں سے پھولوں کی لڑیوں کو کئی دوسرے قصبوں اور شہروں میں بھیجا جاتا ہے۔ خاص کر کیرالہ کے قریبی شہر ترواننت پورم، کولم، اور کوچی ان میں اہم ہیں۔ اس ماڈل کو دوسری جگہوں پر کیوں نہیں اپنایا جا سکتا ہے؟ اگر زیادہ سے زیادہ تعداد میں عورتوں کو اس کام کے لیے ٹریننگ دی جائے گی، تو اس سے حاصل ہونے والی محصولات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چنبیلی کے اپنے آبائی علاقے میں اس ماڈل کو کیوں نہیں اپنایا جانا چاہیے؟‘‘

فروری ۲۰۲۳ میں، پاری نے شہر کی معیشت کو سمجھنے کے ارادے سے تووالئی کے بازار کا دورہ کیا۔ تووالئی شہر ناگرکوئل سے زیادہ دور نہیں ہے اور یہ چاروں طرف سے پہاڑیوں اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے، جن میں اونچی اونچی ہوائی چکیاں (ونڈ ملز) لگی ہیں۔ یہ بازار ایک بڑے سے نیم کے درخت کے نیچے اور اس کے آس پاس لگتا ہے۔ چنبیلی کی لڑیوں کو تاڑ کے پتوں سے بنی ٹوکری میں رکھے کمل کے پتوں میں پیک کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ پھول تمل ناڈو کے ترونیل ویلی اور خود کنیا کماری ضلعوں سے آتے ہیں، جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ بات یہاں کے تاجر – سبھی مرد – بتاتے ہیں۔ فروری کے ابتدائی دنوں میں یہاں چنبیلی کی قیمت ۱۰۰۰ روپے فی کلو ہے۔ لیکن یہ سب سے بڑا کاروبار پھولوں کی ان لڑیوں کا ہے جنہیں عورتیں تیار کرتی ہیں۔ لیکن وہ خود اس بازار سے غائب ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں، تو مرد پیچھے کی گلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اپنے اپنے گھروں میں۔‘‘

اور، انھیں گلیوں میں مجھے آر مینا مل گئیں۔ مینا (۸۰) بڑی نزاکت سے چنبیلی ( پتچی یا جاتی ملّی قسم) کے پھول اٹھاتی ہیں اور انہیں ایک دھاگے میں پروتی ہیں۔ ان کی آنکھوں پر چشمہ نہیں ہے۔ میرے اس تجسس پر وہ کچھ پل کے لیے ہنسنے لگتی ہیں۔ ’’میں ان پھولوں کو چھو کر پہچان لیتی ہوں، لیکن لوگوں کے چہرے میں قریب سے دیکھ کر ہی پہچان پاتی ہوں۔‘‘ ان کی انگلیاں تجربے اور عادت کے سہارے کام کرنے میں اہل ہیں۔

حالانکہ، مینا کو ان کے اس ہنر کے مطابق محنتانہ نہیں ملتا ہے۔ ان کے سامنے تقریباً ۲۰۰۰ چنبیلی کی کلیاں رکھی ہیں، جنہیں وہ بمشکل ایک گھنٹہ میں پرو لیں گی۔ مینا کو پِتچی قسم کی چنبیلی کی ۲۰۰ گرام کی ایک لڑی پرونے کے عوض صرف ۳۰ روپے ملتے ہیں۔ ایک کلو کلیاں (۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ کلیاں) پرونے کے عوض انہیں صرف ۷۵ روپے ہی ملیں گے۔ یہی کام اگر وہ مدورئی میں کر رہی ہوتیں، تو ان کی آمدنی دوگنی ہوتی۔ لیکن تووالئی میں جس دن وہ ۱۰۰ روپے کما لیتی ہیں، اس دن بہت مطمئن رہتی ہیں۔ چنبیلی کے پھولوں کا ایک نرم، خوبصورت اور خوشبودار گولہ بناتی ہوئی وہ ہم سے کہتی ہیں۔

اس کے مقابلے مالا بنانے کا کام زیادہ منافع بخش ہے۔ اور یہ کام مردوں نے اپنے ماتحت رکھا ہے۔

Seated in her house (left) behind Thovalai market, expert stringer Meena threads (right) jasmine buds of the jathi malli variety. Now 80, she has been doing this job for decades and earns a paltry sum for her skills
PHOTO • M. Palani Kumar
Seated in her house (left) behind Thovalai market, expert stringer Meena threads (right) jasmine buds of the jathi malli variety. Now 80, she has been doing this job for decades and earns a paltry sum for her skills
PHOTO • M. Palani Kumar

تووالئی پھول بازار کے پیچھے اپنے گھر (بائیں) میں بیٹھیں مینا، جو جاتی ملّی قسم کی چنبیلی (دائیں) کی لڑیاں بنانے کے کام میں ماہر ہیں۔ اب ۸۰ سال کی ہو چکیں مینا یہ کام کئی دہائیوں سے کر رہی ہیں، لیکن اس جی توڑ اور باریک کام کے عوض انہیں بہت کم پیسے ملتے ہیں

رام چندرن بتاتے ہیں کہ مدورئی اور اس کے آس پاس کے علاقے میں روزانہ تقریباً ۱۰۰۰ کلو چنبیلی کے پھولوں کی لڑیاں اور مالائیں بنانے کا کاروبار ہوتا ہے۔ لیکن، ان دنوں کافی مشکلیں بھی آنے لگی ہیں۔ لڑیوں کو تیزی سے پرونا پڑتا ہے، کیوں کہ ’موٹّو ویدی چدم‘ یعنی دوپہر کی کڑی دھوپ میں وہ جلدی مرجھا جاتے ہیں۔ تب ان کی قیمت کچھ نہیں رہ جاتی، وہ بتاتے ہیں۔ ’’ان عورتوں کو کام کرنے کے لیے ’سپکاٹ‘ [دی اسٹیٹ انڈسٹریز پروموشن کارپوریشن آف تمل ناڈو] جیسی کوئی جگہ کیوں نہیں مہیا کرائی جاتی ہے۔ اس کام کے لیے جگہ کا ایئر کنڈیشنڈ ہونا ضروری ہے، تاکہ پھول تازہ رہیں اور عورتیں تیزی سے انہیں پرو سکیں۔ ہے کہ نہیں؟‘‘ رفتار کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے، کیوں کہ جب انہیں باہر کے ممالک میں بھیجا جائے، تو پھولوں کی لڑیاں سلامت اور تازہ رہیں۔

’’میں نے چنبیلی کو کناڈا اور دبئی تک بھیجا ہے۔ کناڈا تک پھول پہنچنے میں ۳۶ گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ تب تک ان کا تازہ پن برقرار رہنا چاہیے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

پھولوں کی برآمد کے اس کام میں وہ کیسے آئے، کیوں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پھولوں کو کئی بار چڑھایا اتارا جاتا ہے۔ چنئی اور کوچی یا ترواننت پورم پہنچنے کے لیے ان پھولوں کو لمبا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ وہاں سے انہیں ہوائی جہازوں کے ذریعے ان کی منزل تک بھیجا جاتا ہے۔ رام چندرن زور دے کر کہتے ہیں کہ مدورئی کو چنبیلی کی برآمد کا مرکز بنایا جانا چاہیے۔

ان کے بیٹے پرسنّا درمیان میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمیں ایک ایکسپورٹ کوریڈور اور کچھ رہنما خطوط کی ضرورت ہے۔ کسانوں کو بھی مارکیٹنگ میں مدد چاہیے۔ ساتھ ہی، یہاں اتنے پیکر بھی دستیاب نہیں ہیں جتنے برآمد کے کاروبار کے لیے ضروری ہیں۔ اس کام کے لیے ہمیں کنیا کماری کے تووالئی یا چنئی جانا پڑتا ہے۔ ہر ملک میں برآمدات کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ ان سے متعلق رہنما خطوط کے بارے میں کسانوں کو بتا کر ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔

حالانکہ، مدورئی ملّی کو ۲۰۱۳ سے ہی جغرافیائی نشان (جی آئی ٹیگ) ملا ہوا ہے، لیکن پرسنّا کی نظر میں چھوٹے کسانوں اور تاجروں کے لیے ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

’’دوسرے علاقے کی چنبیلی کی متعدد قسموں کو مدورئی ملّی کے طور پر منظوری دے دی گئی ہے۔ میں نے کئی بار اس کی شکایت درج کرائی ہے۔‘‘

Left: The jasmine flowers being packed in palm leaf baskets in Thovalai.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Varieties of jasmine are packed in lotus leaves which are abundant in Kanyakumari district. The leaves cushion the flowers and keep them fresh
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: تووالئی کے پھول بازار میں تاڑ کے پتوں سے بنی ٹوکریوں میں پیک کیے جا رہے چنبیلی کے پھول۔ دائیں: چنبیلی کی الگ الگ قسمیں کنیا کماری ضلع میں کثرت سے دستیاب کمل کے پتوں میں پیک کی جاتی ہیں۔ ان پتوں میں پھول محفوظ اور تازہ بنے رہتے ہیں

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے رام چندرن ہر ایک کسان اور تاجر کی یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ مدورئی میں اپنی خود کی عطر فیکٹری ہونی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس فیکٹری کا بندوبست سرکار کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔ چنبیلی کے اس ملک میں اپنے سفر کے دوران میں نے یہ بات اتنی بار سنی ہے گویا ان پھولوں سے عطر بنا لینے سے اس علاقے کے تمام مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اب تو دوسرے لوگ بھی کچھ حد تک یہ بات ماننے لگے ہیں۔

ہم سے پہلی ملاقات کے تقریباً ایک سال بعد، رام چندرن ۲۰۲۲ میں اپنی بیٹی کے ساتھ رہنے کے لیے امریکہ چلے گئے۔ لیکن چنبیلی اور اس کے کاروبار پر ان کی پکڑ ذرہ برابر بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ ان کو اور ان کے ملازمین کو چنبیلی بیچنے والے کسان بھی یہ کہتے ہیں کہ رام چندرن ایکسپورٹ کو منافع بخش اور سہولت آمیز بنانے کے لیے کڑی محنت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ بیرون ملک رہ کر بھی اپنے کاروبار اور بازار پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

*****

ایک ادارہ کے طور پر بازار کی تاریخ بہت پرانی ہے، جس کے ذمہ کئی ضروری کام ہیں اور یہ کاروباری اشیاء کا ایکسچینج کرتا ہے۔ جنیوا گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ میں ’آزاد ہندوستان میں اقتصادی پالیسی بنانے کی تاریخ‘ موضوع پر تحقیق کر رہے رگھوناتھ ناگیشورن پوری تفصیل سے اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ ’’لیکن گزشتہ ایک صدی میں اسے ایک مضبوط اور سیلف ریگولیٹنگ ادارہ کے طور پر پیش کیے جانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اسے ایک خاص مقام پر فائز کیا جا رہا ہے۔

’’اپنے آپ میں قابل نظر آ رہے اس ادارہ کو آزاد چھوڑ دینے کا خیال اب آہستہ آہستہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ اور، بازار کے کسی بھی غیر مؤثر نتیجہ کے لیے ضروری طور پر ریاست کی مداخلت کو کریڈٹ دیا جانے لگا ہے۔ بازار کی ایسی پیشکش تاریخی نقطہ نظر سے غلط ہے۔‘‘

رگھوناتھ اس ’’نام نہاد آزاد بازار‘‘ کے بارے میں سمجھاتے ہیں، جس میں ’’الگ الگ مصنوعات کو الگ الگ سطح کی آزادی حاصل ہے۔‘‘ اگر آپ بازار کے لین دین میں کوئی سرگرم رول ادا کرنا چاہتے ہیں، تو آپ اس کے طور طریقوں سے گزرے بنا نہیں رہ سکتے ہیں۔ ’’بیشک یہاں ایک نام نہاد خفیہ ہاتھ ہے، لیکن ان مٹھیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جو دکھائی دے رہی ہیں اور جو بازار میں اپنی طاقت دکھانے کے لیے بیچین ہیں۔ بازار کی سرگرمیوں کے مرکز میں تاجر ہوتے ہیں، لیکن ان کی صلاحیت اور طاقت کو پہچاننا ضروری ہے، کیوں کہ وہ اہم معلومات کا ذخیرہ ہوتے ہیں۔‘‘

رگھوناتھ کہتے ہیں کہ طاقت کے ذریعہ کے طور پر ’’اطلاعات کے تنوع کی اہمیت کو درست طریقے سے سمجھنے کے لیے‘‘ کسی اکیڈمک تحقیقی مقالہ کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اطلاعات تک یہ غیر مساوی پہنچ ہی دراصل ہماری ذات، طبقہ اور جنسی عناصر کو اجاگر کرتی ہے۔ جب ہم کسی کھیت یا فیکٹری سے کوئی طبعی سامان خریدتے ہیں، تو اس کے بارے میں پہلی جانکاری ہمارے پاس ہی ہوتی ہے۔ یہ بات ان ایپس پر بھی نافذ ہوتی ہے، جنہیں ہم اپنے اسمارٹ فون پر ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں یا جب ہم کسی میڈیکل سروس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

Left: An early morning at the flower market, when it was functioning behind the Mattuthavani bus-stand in September 2021, due to covid restrictions.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Heaps of jasmine buds during the brisk morning trade. Rates are higher when the first batch comes in and drops over the course of the day
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ستمبر ۲۰۲۱ میں طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت، جب پھول بازار کووڈ۔۱۹ کی پابندیوں کے سبب کچھ وقت کے لیے مٹوتوانی بس اسٹینڈ میں منتقل ہو گیا تھا۔ دائیں: صبح سویرے کاروبار کے وقت بازار میں پڑے چنبیلی کے پھولوں کے انبار۔ جب پیداوار کی پہلی کھیپ آتی ہے، تب چنبیلی کی قیمت بہت بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے بعد قیمت آہستہ آہستہ گرنے لگتی ہے

Left: Jasmine in an iron scale waiting to be sold.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: A worker measures and cuts banana fibre that is used to make garlands. The thin strips are no longer used to string flowers
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: فروخت کے لیے تیار لوہے کے ترازو پر رکھے چنبیلی کے پھول۔ دائیں: ایک مزدور کیلے کے فائبر کے دھاگے ناپ کر کاٹ رہا ہے۔ ان دھاگوں کو مالا بنانے کے کام میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان باریک دھاگوں کو لڑیوں میں استعمال نہیں کیا جاتا ہے

اشیاء کی طرح خدمات فراہم کنندہ بھی بازار کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ مصنوعات کی قیمتیں طے کی جا سکیں۔ عام تصور یہی ہے کہ پیداوار کرنے والے قیمتوں کے تعین کو کنٹرول کرنے کے معاملے میں بہت قابل نہیں ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے ذہن میں مانسون اور بازار کے خطروں کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہاں ہم زرعی مصنوعات پیدا کرنے والوں یعنی کسانوں کی بات کر رہے ہیں۔

رگھوناتھ بتاتے ہیں، ’’کسانوں کے بھی الگ الگ طبقے ہیں۔ اس لیے ہمیں تفصیل سے سب کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تناظر کو سمجھنے کے لیے، مثال کے طور پر چنبیلی کے پھولوں پر مبنی اس رپورٹ کو لیا جا سکتا ہے۔ کیا سرکار کو براہ راست عطر کی صنعت کو کنٹرول کرنا چاہیے؟ یا اسے مارکیٹنگ کو سہولت آمیز بنانے اور قدر میں اضافہ والی مصنوعات کے لیے ایک برآمدی مرکز بنا کر مداخلت کرنی چاہیے، تاکہ چھوٹے کاروباریوں کو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو سکے؟‘‘

*****

چنبیلی ایک قیمتی پھول ہے۔ تاریخی طور پر ان کے خوشبو والے حصوں – کلیوں، پھولوں، شاخوں، جڑوں، پتیوں اور تیلوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے، اور ان کا وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا آیا ہے۔ پوجا کے مقامات سے لے کر خواب گاہوں اور باورچی خانوں تک ہم انہیں ہر جگہ موجود پاتے ہیں۔ کہیں وہ سپردگی کی علامت ہیں تو کہیں ذائقہ اور منت کے۔ چندن، کپور، الائچی، زعفران، گلاب اور چنبیلی – دیگر عطریات کی طرح یہ بھی ہماری زندگی میں ایک جانی پہچانی اور تاریخی خوشبو لے آتے ہیں۔ چونکہ یہ عام طور پر استعمال ہوتے ہیں اور آسانی سے دستیاب ہیں، اس لیے یہ نایاب محسوس نہیں ہوتے۔ لیکن عطر کی صنعت دوسری ہی کہانی بیان کرتی ہے۔

عطر کی صنعت میں کام کرنے کی ہماری تعلیم ابھی شروع ہی ہوئی ہے۔

پہلا اور ابتدائی مرحلہ ’ارتکاز‘ کا ہوتا ہے جہاں ان پھولوں کا عرق ایک غذائی محلول کا استعمال کرکے نکالا جاتا ہے۔ یہ عرق نیم ٹھوس اور موم سے لیس ہوتا ہے۔ جب ان سے پورا موم نکال دیا جاتا ہے، تب یہ پوری طرح سے ’ایبسولیوٹ‘ (غیر محلول) رقیق میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر استعمال کرنے لائق ہو جاتا ہے اور الکحل میں گھل جاتا ہے۔

ایک کلو غیر محلول شدہ چنبیلی کے عرق کی قیمت تقریباً ۳ لاکھ ۲۶ ہزار روپے ہوتی ہے۔

Jathi malli strung together in a bundle
PHOTO • M. Palani Kumar

ایک بنڈل میں ساتھ رکھی ہوئیں ’جاتی‘ ملّی کی لڑیاں

راجہ پلانی سوامی، جیسمن سی ای پرائیویٹ لمیٹڈ (جے سی ای پی ایل) کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ دنیا بھر میں چنبیلی سمیت مختلف قسم کے پھولوں کے عرق – محلول اور غیر محلول دونوں – نکالنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک کلو جیسمن سیمبیک ایبسولیوٹ حاصل کرنے کے لیے آپ کو ایک ٹن گنڈو ملّی یا مدورئی ملّی کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنئی میں واقع اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے وہ مجھے عالمی عطر صنعت کے بارے میں ایک مختصر جانکاری دیتے ہیں۔

سب سے پہلے وہ بتاتے ہیں، ’’ہم عطر نہیں بناتے ہیں۔ ہم صرف قدرتی سامان بناتے ہیں، جو عطر بنانے میں استعمال ہونے والے دیگر اجزاء میں سے ایک ہیں۔‘‘

جن چار قسموں کی چنبیلی کی وہ پروسیسنگ کرتے ہیں، ان میں دو اہم ہیں – جیسمن گرینڈی فلورم (جاتی ملّی) اور جیسمن سیمبیک (گنڈو ملّی)۔ جاتی ملّی ایبسولیوٹ کی قیمت ۳۰۰۰ امریکی ڈالر فی کلو ہے، جب کہ گنڈو ملّی ایبسولیوٹ تقریباً ۴۰۰۰ امریکی ڈالر فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتی ہے۔

راجہ پلانی سوامی کہتے ہیں، ’’ٹھوس اور ’ایبسولیوٹ‘ قسموں کی قیمت پوری طرح پھولوں کی قیمت پر منحصر ہے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ پھول کی قیمت میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ درمیان کے کسی سال میں ایک دو بار قیمت میں گراوٹ آئی ہو سکتی ہے، لیکن عموماً یہ بڑھی ہی ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی ایک سال میں ۱۰۰۰ سے ۱۲۰۰ ٹن مدورئی ملّی [گنڈو ملّی] کی پروسیسنگ کرتی ہے، جس سے ۱ سے ۲ء۱ ٹن کے درمیان جیسمن سیمبیک ’ایبسولیوٹ‘ تیار ہوتا ہے، جو ۵ء۳ ٹن کی عالمی مانگ کے ایک تہائی حصے کو پورا کرنے کے قابل ہے۔ مجموعی طور پر ہندوستان کی کل عطر صنعت – جس میں راجہ کی تمل ناڈو میں واقع دو فیکٹریاں اور کچھ دیگر صنعتیں شامل ہیں – میں کل سیمبیک پھولوں کی پیداوار کا ۵ فیصد ’ایبسولیوٹ‘ کی کھپت ہوتی ہے۔

جس طرح ہر کسان اور ایجنٹ نے عطر فیکٹریوں کی تعداد کے بارے میں بتایا تھا، اسے دیکھتے ہوئے حقیقی تعداد اور اس پیشہ میں ان کی اہمیت سے متعارف ہونا واقعی میں مسحور کن تھا۔ راجہ مسکراتے ہیں، ’’ایک صنعت کے طور پر ہم ان پھولوں کے ایک چھوٹے سے صارف ہیں، لیکن ہمارا رول کسانوں کے لیے کم از کم قیمت برقرار رکھنے کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ اس سے کسانوں کے منافع کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ کسان اور تاجر بیشک سال بھر اونچی قیمتوں پر پھول بیچنا چاہتے ہیں، لیکن آپ جانتی ہی ہیں کہ خوشبو اور خوبصورتی کا یہ کاروبار اپنی نوعیت کے حساب سے بہت ہی غیر مستحکم ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم بہت منافع کماتے ہیں، لیکن سچی یہی ہے کہ یہ ایک مال کے بازار کا معاملہ ہے۔‘‘

Pearly white jasmine buds on their way to other states from Thovalai market in Kanyakumari district
PHOTO • M. Palani Kumar

موتی جیسی سفید چنبیلی کی کلیاں کنیا کماری ضلع کے تووالئی بازار سے دوسری ریاستوں میں بھیجی جانے والی ہیں

یہ بحث بہت سی جگہوں پر چل رہی ہوتی ہیں۔ ہندوستان سے لے کر فرانس تک، اور مدورئی ضلع کے چنبیلی بازار سے لے کر ان کے گاہکوں تک – جن میں ڈیور، گورلین، لش، بلغاری جیسی دنیا کی بڑی عطر بنانے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ میں ان دو دنیا کے بارے میں تھوڑا بہت سیکھ پائی ہوں، جو کافی الگ ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے پوری طرح جڑی ہوئی ہیں۔

راجہ بتاتے ہیں کہ فرانس کو عطر کی گلوبل راجدھانی مانا جاتا ہے۔ انہوں نے پانچ دہائی قبل چنبیلی کا عرق ہندوستان سے منگوانا شروع کیا تھا۔ وہ یہاں جیسمن گرینڈی فلورم یا جاتی ملّی کے لیے آئے تھے۔ ’’اور یہاں ان کو الگ الگ پھولوں کی الگ الگ قسموں کا خزانہ ہی مل گیا۔‘‘

اس سلسلے میں فرانسیسی برانڈ ’جے اڈور‘ کی شروعات کو اہم مانا جا سکتا ہے، جس کا اعلان ۱۹۹۹ میں ڈیور نے کیا تھا۔ اپنے پروڈکٹ کے بارے میں کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر بطور نوٹ یہ لکھا ہے ’’ انوینٹس اے فلاور دیٹ ڈز ناٹ ایگزسٹ، این آئیڈیل [اس مثالی پھول کی دریافت جس کا وجود نہیں ہے]۔‘‘ راجہ بتاتے ہیں کہ یہ مثالی پھول جیسمن سیمبیک ہے، جو ’’سبز اور تازہ موجودگی کے ساتھ یہاں دکھائی دے رہی ہے، اور بعد میں یہ رواج کا حصہ بن گئی۔‘‘ اور مدورئی مَلّی یا جیسا کہ ڈیور اسے کہتا ہے ’’بیش قیمتی جیسمن سیمبیک‘‘ نے سونے کی انگوٹھی والی ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل میں فرانس اور دوسرے ممالک میں اپنی جگہ پختہ کر لی۔

حالانکہ، اس کے بہت پہلے سے پھولوں کو مدورئی اور ارد گرد کے پھول بازاروں سے حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ ہر دن نہیں ہوتا۔ سال کے زیادہ تر دنوں میں جیسمن سیمبیک کی قیمت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا عرق نہیں نکالا جاتا ہے۔

راجہ کہتے ہیں، ’’ہمیں ان تمام عناصر کو صاف صاف سمجھنے کی ضرورت ہے، جو ان پھول بازاروں میں پھولوں کی مانگ اور سپلائی کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمارا ایک خریدار/ رابطہ کار بازار میں موجود رہتا ہے اور وہ بازار میں قیمتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس بازار کے لیے مناسب قیمت بھی ہوتی ہے، اور وہاں ہم قیمت کے طے ہونے کا انتظار کرتے ہیں، مثلاً ۱۲۰ روپے فی کلو کی قیمت۔ قیمت طے کرنے میں ہمارا کوئی رول نہیں ہوتا ہے۔‘‘ وہ ہمیں بتاتے ہوئے صاف صاف کہتے ہیں کہ بازار ہی ان قیمتوں کو طے کرتا ہے۔

’’ہم صرف بازار پر نظر رکھتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ چونکہ پھولوں کی زیادہ مقدار حاصل کرنے کے بارے میں ہمارے پاس ۱۵ سے بھی زیادہ برسوں کا تجربہ ہے، اس لیے ہمیں پورے سیزن کے دوران قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہماری کمپنی ۱۹۹۱ میں ہی قائم ہوئی تھی، اس لیے ہم اپنی خریداری اور پیداوار کو بڑھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

Brisk trade at the Mattuthavani flower market in Madurai
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی کے مٹوتوانی پھول بازار میں پھلتا پھولتا چنبیلی کے پھولوں کا کاروبار

راجہ کہتے ہیں کہ اسی ماڈل کی وجہ سے ان کی صلاحیت کا بھرپور استعمال نہیں ہو پا رہا ہے۔ ’’آپ کو وافر اور مستحکم مقدار میں روزانہ پھول نہیں ملتے ہیں۔ یہ اسٹیل کے کارخانہ کی طرح نہیں ہیں، جہاں سال بھر کی باقاعدہ پیداوار کے لیے وافر مقدار میں کچے مال کا ذخیرہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں پھولوں کا روزانہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہماری صلاحیت پوری طرح سے ان خوشنما دنوں پر منحصر ہے جب پیداوار کی صحیح صحیح مقدار فروخت کے لیے بازار تک پہنچ جائے۔‘‘

راجہ کے مطابق، سال بھر میں ایسے دن بمشکل ۲۰ یا ۲۵ ہی ہوتے ہیں۔ ’’ان دنوں میں ہم روزانہ ۱۲ سے ۱۵ ٹن پھولوں کی پروسیسنگ کرتے ہیں۔ باقی بچے دنوں میں ہمیں کم مقدار میں پھول مل پاتے ہیں، جو عموماً ایک ٹن سے ۳ ٹن کے درمیان ہوتے ہیں، اور کبھی کبھی تو بالکل ہی نہیں۔‘‘

راجہ میرے اس سوال کا جواب دینا جاری رکھتے ہیں کہ کسانوں کو پھولوں کی ایک مستحکم قیمت مل سکے اس کے لیے سرکار سے ایک فیکٹری قائم کرنے کی ان کی مانگ کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں۔ راجہ دلیل دیتے ہیں، ’’مانگ میں استحکام اور غیریقینی صورتحال سرکار کو اس کاروبار میں آنے سے روکنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسانوں اور تاجروں کے لیے کاروباری امکانات سے بھرے اس کام کو سرکار شاید کاروباری نقطہ نظر سے نہ بھی دیکھتی ہو۔ جب تک وہ بقیہ لوگوں کو پھول اگانے سے نہیں روکیں گے اور اس کی پیداوار پر اپنی اجارہ داری قائم نہیں کریں گے، تب تک ان کی حیثیت بھی بقیہ پیداوار کرنے والوں کی طرح عام ہی مانی جائے گی۔ سرکار بھی انھیں کسانوں سے پھول خریدے گی جن سے دوسرے تاجر خریدتے ہیں، اور انھیں گاہکوں کو پھولوں کے عرق بیچے گی جنہیں دوسرے لوگ بیچتے ہیں۔‘‘

سب سے بہتر خوشبو پانے کے لیے چنبیلی کے پھول کھلتے ہی اس کی پروسیسنگ ضروری ہے۔ یہ بات بھی راجہ ہی بتاتے ہیں۔ ’’ایک مسلسل کیمیائی ردعمل کے بعد ہی عطر سے وہ خوشبو نکلتی ہے جو چنبیلی کے ٹھیک کھلنے کے وقت نکلتی ہے۔ یہی پھول جب باسی ہو جاتے ہیں، تو ان کی خوشبو بھی خراب ہو جاتی ہے۔‘‘

اس عمل کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے راجہ مجھے اس سال فروری کی شروعات میں اپنی فیکٹری آنے کی دعوت دیتے ہیں، جو مدورئی کے پاس ہی ہے۔

*****

A relatively quiet day at the Mattuthavani flower market in Madurai
PHOTO • M. Palani Kumar

مدورئی کے مٹوتوانی پھول بازار میں نسبتاً کم چہل پہل بھرا ایک دن

فروری ۲۰۲۳ میں ہمارے دورہ کا پہلا دن مدورئی شہر کے مٹوتوانی بازار کی ایک مختصر سیر سے شروع ہوتا ہے۔ مدورئی کا یہ میرا تیسرا دورہ ہے۔ اور، اتفاق سے آج بازار میں بہت زیادہ گہما گہمی نہیں ہے۔ پھول بازار میں بہت کم مقدار میں چنبیلی کے پھول اترے ہیں۔ ان کے مقابلے کئی دوسرے رنگین پھولوں کے ڈھیر زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ گلاب سے بھری ٹوکریاں، رجنی گندھا اور گیندے کی بوریاں، مرجورم کے ڈھیر اور بہت سارے دوسرے پھول اور نباتات۔ سپلائی میں گراوٹ کے باوجود چنبیلی کے پھول حیران کن طریقے سے ۱۰۰۰ روپے کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی مبارک موقع نہ ہو کر ایک عام سا دن ہے۔ لیکن تاجروں کے لیے یہ ایک چبھنے والی بات ہے۔

مدورئی شہر سے ہم سڑک کے ذریعے پڑوس کے ڈنڈیگل ضلع کے نلکوٹئی تعلقہ کی جانب نکل پڑتے ہیں۔ ہمیں ان کسانوں سے ملنا ہے جو راجہ کی کمپنی کو چنبیلی کی دو قسمیں – گرینڈی فلورم اور سیمبیک کی سپلائی کرتے ہیں۔ یہاں مجھے سب سے زیادہ حیران کر دینے والی کہانی سننے کا موقع ملتا ہے۔

ماریہ ویلانکنّی نام کے ایک ترقی پسند کسان، جن کے پاس بیس سال سے بھی زیادہ عرصے سے ملّی کی کھیتی کرنے کا تجربہ ہے، مجھ سے اچھی پیداوار کا راز شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ بکریاں چنبیلی کے پودوں کے پرانے پتوں کو چبا جائیں۔

وہ ایک ایکڑ کے چھٹے حصے میں لگے اپنے ہرے بھرے پودوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ ترکیب صرف مدورئی ملّی کے معاملے میں کارگر ہے۔ اس سے فصل دوگنی، اور کبھی کبھی تین گنی تک ہو سکتی ہے۔‘‘ یہ طریقہ غیر یقینی طور پر آسان ہے – بکروں کے ایک جھنڈ کو ہانکتے ہوئے چنبیلی کے کھیت میں لے جائیے اور انہیں پتیاں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیجئے۔ اس کے بعد کھیت کو دس دنوں کے لیے سوکھنے دیجئے، پھر اس میں کھاد ڈالیے۔ تقریباً پندرہویں دن شاخوں پر نئی کونپلیں دکھائی دینے لگیں گی اور پچیسویں دن آپ کے سامنے چنبیلی کے پھولوں سے لدے پودے لہلہا رہے ہوں گے۔

وہ مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں یہ ایک عام بات ہے۔ ’’بکریوں کے پتے کھانے سے پھولوں کے کھلنے کا سیدھا رشتہ ہے اور اس روایتی طریقہ کو یہاں بچہ بچہ جانتا ہے۔ اسے سال میں تین بار دہرایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں بکریاں گرمیوں کے دنوں میں چنبیلی کے پتے کھاتی ہیں۔ ان کے چرنے کی وجہ سے کھیت کی اچھی طرح گڑائی ہونے کے ساتھ ہی ٹوٹ کر ادھر ادھر بکھری ہوئی پتیاں بعد میں مٹی کی زرخیزی کو بڑھانے کے نقطہ نظر سے بہت کارآمد ہوتی ہیں۔ چرواہے اس کے لیے کوئی اجرت نہیں لیتے۔ ان کے استقبال کے لیے بس چائے اور وڈا کافی ہے۔ البتہ رات میں یہی خدمت فراہم کرنے کے سلسلے میں کچھ ایک سو بکریوں کو چرانے کے عوض ۵۰۰ روپے تک وصول کرتے ہیں۔ لیکن اس سے آخری فائدہ چنبیلی اگانے والے کسانوں کو ہی ہوتا ہے۔‘‘

Left: Maria Velankanni, a progressive farmer who supplies JCEPL.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Kathiroli, the R&D head at JCEPL, carefully choosing the ingredients to present during the smelling session
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ماریہ ویلانکنّی ایک ترقی پسند کسان ہیں، جو جے سی ای پی ایل کو چنبیلی سپلائی کرتے ہیں۔ دائیں: جے سی ای پی ایل میں آر اینڈ ڈی کے سربراہ کتیرولی اسمیلنگ سیشن (مہکنے) کے دوران پیش کرنے کے لیے احتیاط سے پھولوں کا انتخاب کر رہے ہیں

Varieties of jasmine laid out during a smelling session at the jasmine factory. Here 'absolutes' of various flowers were presented by the R&D team
PHOTO • M. Palani Kumar
Varieties of jasmine laid out during a smelling session at the jasmine factory. Here 'absolutes' of various flowers were presented by the R&D team
PHOTO • M. Palani Kumar

چنبیلی کا عرق بنانے والی فیکٹری میں اسمیلنگ سیشن کے دوران رکھی گئی چنبیلی کی الگ الگ قسمیں۔ یہاں پر مختلف پھولوں کے ’ایبسولیوٹ‘ کو آر اینڈ ڈی ٹیم کے ذریعے پیش کیا گیا تھا

جے سی ای پی ایل کے ڈنڈیگل کارخانہ کے دورہ کے وقت کئی اور چیزیں ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ ہمیں صنعتی پروسینگ یونٹ لے جایا گیا جہاں کرین، پُلی، ڈسٹلر اور کولر کی مدد سے ’کانکریٹ‘ اور ’ایبسولیوٹ‘ تیار کیے جا رہے تھے۔ جب ہم وہاں گئے، تو وہاں چنبیلی کے پھول نہیں تھے۔ فروری کے ابتدائی دنوں میں پھول کی پیداوار بہت کم ہوتی ہے اور وہ بہت مہنگے بھی ملتے ہیں۔ لیکن دوسری خوشبوؤں کے عرق حسب معمول نکالے جا رہے تھے اور چمچماتی ہوئی اسٹین لیس اسٹیل کی مشینیں معمولی شور کے ساتھ اپنا کام کر رہی تھیں۔ ان مشینوں سے نکلنے والی خوشبو کو ہم اپنی ناک میں بھرتے جا رہے تھے۔ یہ خوشبو بہت تیز تھی۔ ہم سبھی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

وی کتیرولی (۵۱)، جو جے سی ای پی ایل میں آر اینڈ ڈی کے منیجر ہیں، مسکرا کر ہمارا خیر مقدم کرتے ہیں اور ہمیں ’ایبسولیوٹ‘ کے سیمپل سونگھنے کے لیے دیتے ہیں۔ وہ ایک لمبی سی میز کے پیچھے کھڑے ہیں۔ میز پر پھولوں سے بھری بید کی کئی ٹوکریاں رکھی ہوئی ہیں۔ کچھ لیمنیٹ کیے ہوئے چارٹ بھی پڑے ہیں جن میں ان خوشبوؤں سے متعلق معلومات درج ہیں۔ کچھ بہت چھوٹی بوتلیں ہیں جن میں الگ الگ خوشبوؤں کی ’ایبسولیوٹ‘ رکھی ہوئی ہیں۔ وہ ہمیں بڑے جوش کے ساتھ ان ’ایبسولیوٹ‘ کے سیمپل دیتے ہیں اور ہمارے ردعمل کو ایک کاغذ پر نوٹ کرتے جاتے ہیں۔

ان خوشبوؤں میں ایک چمپا کی ہے – میٹھی اور مدہوش کرنے والی۔ اور، دوسری رجنی گندھا کی ہے – تیز اور تیکھی۔ اس کے بعد وہ دو قسم کے گلاب کے ’ایبسولیوٹ‘ دیتے ہیں – پہلا بالکل ہلکا اور تازہ ہے، اور دوسرے کی خوشبو دوب جیسی نرم اور مخصوص۔ پھر اس کے بعد گلابی اور سفید رنگ کے کمل۔ ان دونوں سے ہی کسی ملائم اور خوشبودار پھول سی مہک آتی ہے۔ اور، گل داؤدی – جس کی خوشبو سے قدرتی طور پر کسی ہندوستانی شادی کی تقریب یاد آ جاتی ہے۔

کچھ مہنگے اور شناسا مسالے اور جڑی بوٹیاں ہیں۔ میتھی کی مہک گرما گرم تڑکے کی یاد دلاتی ہے۔ اسی طرح کری کی پتیوں کی مہک سے مجھے میری دادی ماں کے ہاتھوں کا بنا کھانا یاد آتا ہے۔ لیکن چنبیلی کی خوشبو ان سبھی پر بھاری ہے۔ میں ان خوشبوؤں کی تعریف کرنے میں جب پھنسنے لگتی ہوں، تب کتیرولی میری مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ’’پھول کی خوشبو میٹھی، اینیملک [مویشیوں کے جسم کی طرح، جیسے کستوری]، ہریالی، پھلوں کی خوشبو، ہلکی تیکھی،‘‘ وہ بغیر رکے کہتے جاتے ہیں۔ آپ کی پسندیدہ خوشبو کیا ہے، میں ان سے پوچھتی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ وہ کسی پھول کا ہی نام لیں گے۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ونیلا‘‘۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ پوری تحقیق کرنے کے بعد کمپنی کے لیے بہترین ونیلا خوشبو تیار کی ہے۔ اگر انہیں اپنا مخصوص عطر بنانا ہوتا، تو انہوں نے مدورئی ملّی کا ہی بنایا ہوتا۔ وہ عطر کی صنعت کے لیے بہترین مرکبات بنانے والی سرکردہ کمپنی کے طور پر اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں۔

مدورئی شہر سے نکلتے ہی سرسبز کھیتوں میں کسان چنبیلی کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ جگہ فیکٹری سے بہت دور بھی نہیں ہے۔ ان پودوں میں پھول کھلنے کے بعد چنبیلی کی قسمت ہے کہ وہ کہاں جائے گی – بھگوان کے قدموں میں، کسی شادی بیاہ کی تقریب میں، کسی نازک چھوٹی سی ٹوکری میں یا کسی راستے میں گری پڑی۔ لیکن جہاں بھی ہوں گی ان کے ساتھ ان کی مقدس خوشبو بھی موجود ہوگی۔

اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Photographs : M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique