’’دو جمع دو – کتنا؟ پرتیک، کیا تمہیں یاد ہے کہ تم اسے کیسے جوڑتے تھے؟‘‘

پرتیک راؤت کے استاد، موہن ٹالیکر ایک سلیٹ پر لکھے ہندسوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ۱۴ سالہ بچے سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ انہیں پہچانتا ہے۔ بچہ سلیٹ پر نظریں جما دیتا ہے۔ اس کے چہرے سے ہندسوں کی پہچان کے کوئی آثار نمایاں نہیں ہوتے ہیں۔

آج ۱۵ جون، ۲۰۲۲ ہے اور ہم مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کے کرمالا تعلقہ میں پرتیک کے اسکول، گیان پربودھن متیمند نواسی ودیالیہ میں ہیں، جہاں وہ دو سال کے وقفے کے بعد واپس آیا ہے۔ دو سال کا وقفہ کافی طویل ہوتا ہے۔

’’پرتیک کو ہندسے یاد نہیں ہیں۔ وبائی مرض سے پہلے وہ اعداد جوڑ سکتا تھا اور مراٹھی اور انگریزی حروف تہجی مکمل طور پر لکھ سکتا تھا،‘‘ اس کے استاد بتاتے ہیں۔ ’’اب ہمیں اسے شروع سے سب کچھ سکھانا پڑے گا۔‘‘

اکتوبر ۲۰۲۰ میں جب اس رپورٹر نے احمد نگر ضلع کے راشین گاؤں میں واقع پرتیک کے گھر کا دورہ کیا تھا، تب پرتیک کی عمر ۱۳ سال کی تھی۔ وہ اس وقت بھی حروف تہجی کے کچھ حروف لکھ لیتا تھا۔ تاہم دسمبر ۲۰۲۰ تک اس نے لکھنا چھوڑ دیا۔

پرتیک نے ۲۰۱۸ سے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اگلے دو سالوں کی مسلسل مشق کے بعد اس نے ہندسے اور الفاظ پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔ مارچ ۲۰۲۰ میں جس وقت اس کی تدریس اگلے مرحلے میں داخل ہونے والی تھی اسی وقت کووڈ۔۱۹ آ گیا۔ وہ ذہنی طور پر معذور ان ۲۵ طلباء میں سے ایک تھا جن کی عمریں ۶ سے ۱۸ سال کی تھیں اور جنہیں ان کے گھر والوں کے پاس واپس بھیج دیا گیا تھا۔ ان کا رہائشی اسکول دو سال تک بند رہا۔

Prateek Raut on the porch of his home in Rashin village and writing in a notebook, in October 2020. He is learning the alphabet and numbers from the beginning at his school now
PHOTO • Jyoti Shinoli
Prateek Raut on the porch of his home in Rashin village and writing in a notebook, in October 2020. He is learning the alphabet and numbers from the beginning at his school now
PHOTO • Jyoti Shinoli

اکتوبر ۲۰۲۰ میں راشین گاؤں میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھ ا پرتیک را ؤ ت نوٹ بک میں کچھ لکھتا ہوا ۔ اب وہ اپنے اسکول میں شروع سے حروف تہجی اور ہندسے  لکھنا سیکھ رہ ا ہ ے

اسکول کے پروگرام کوآرڈینیٹر روہت باگڑے کہتے ہیں، ’’ان طلباء کی پیشرفت کم از کم دو مرحلے تک کم ہو گئی ہے۔ اب ہر بچہ ایک الگ طرح کا چیلنج پیش کر رہا ہے۔‘‘ تھانے کے ایک این جی او، شرمک مہیلا منڈل کے زیر انتظام چل رہا یہ اسکول اپنے طلباء کو مفت تعلیم اور رہائش فراہم کرتا ہے۔

جب پرتیک کے اسکول کے ساتھ اور کئی دوسرے اسکول بھی وبائی مرض کے پیش نظر بند ہوگئے تھے، تو انہیں مہاراشٹر حکومت کی جانب سے ہدایات موصول ہوئیں کہ طلباء کی تعلیم کا نقصان نہ ہو۔ ۱۰ جون ۲۰۲۰ کو کمشنریٹ برائے معذور افراد کی طرف سے محکمہ سماجی انصاف اور خصوصی امداد کو لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا ہے: ’’بچوں کو خصوصی تعلیم فراہم کرنے کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی امپاورمنٹ آف پرسنز آف انٹلیکچوئل ڈس ایبلٹیز ، کھارگھر، نوی ممبئی، ضلع تھانے کی ویب سائٹ پر دستیاب تعلیمی مواد کو استعمال کیا جائے اور ان کے والدین کے ذریعہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے اقدام کیے جائیں اور ساتھ میں حسب ضرورت والدین کو یہ تعلیمی مواد فراہم کیے جائیں۔‘‘

اگرچہ آن لائن تعلیم زیادہ تر اسکول جانے والے بچوں کے لیے ایک چیلنج رہی ہے، لیکن یہ ذہنی طور پر معذور بچوں کے لیے زیادہ رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ دیہی ہندوستان میں ذہنی طور پر معذور ۵-۱۹ سال کی عمر کے تقریباً ۴ لاکھ بچوں (پورے ہندوستان میں ان کی تعداد ۵ لاکھ سے زیادہ ہے) میں سے صرف ۱۸۵۰۸۶ ہی کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کررہے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)۔

حکومتی ہدایت کے مطابق پرتیک کے اسکول، گیان پربودھن ودیالیہ نے اس کے والدین کو جو تدریسی مواد بھیجا تھا ان میں حروف تہجی، ہندسوں اور اشیاء کا چارٹ؛ نظموں اور گیتوں سے متعلق مشقیں؛ اور تدریس کی دیگر معاون چیزیں شامل تھیں۔ اس کے بعد اسکول اسٹاف نے والدین کے ساتھ فون پر بات چیت کی تاکہ وہ تعلیمی مواد کے استعمال میں ان کی رہنمائی کرسکیں۔

Left: Prateek with his mother, Sharada, in their kitchen.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: Prateek and Rohit Bagade, programme coordinator at Dnyanprabodhan Matimand Niwasi Vidyalaya
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: پرتیک اپنی ماں شاردا کے ساتھ باورچی خان ہ میں۔ دائیں: پرتیک گیان پربودھن متیمند نواسی ودیالیہ کے پروگرام کوآرڈینیٹر روہت باگڑے کے ساتھ

باگڑے کہتے ہیں، ’’والدین کو [تدریسی مواد کی فراہمی میں مدد کے لیے] بچے کے ساتھ بیٹھنا ضروری ہے، لیکن بچے کے ساتھ گھر میں رہنے سے ان کی یومیہ اجرت متاثر ہوتی ہے۔‘‘ پرتیک کے والدین کے ساتھ ساتھ تمام ۲۵ طلباء کے والدین بھی اینٹ بھٹہ مزدور، زرعی مزدور یا معمولی کسان ہیں۔

پرتیک کے والدین، شاردا اور دتاتریہ راؤت، خریف کے موسم (جون سے نومبر) میں اپنے کنبے کی خوراک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جوار اور باجرے کی کاشت کرتے ہیں۔ شاردا کہتی ہیں، ’’ہم نومبر سے مئی تک  مہینے کے ۲۰-۲۵ دن دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔‘‘ ان کی کل ماہانہ آمدنی ۶۰۰۰ روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ ماں باپ میں سے کوئی بھی اپنے بیٹے کی مدد کے لیے گھر پر بیٹھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے ان کی پہلے سے چلی آ رہی مالی تنگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

’’لہذا، پرتیک اور دیگر بچوں کے پاس بیکار بیٹھے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے،‘‘ باگڑے کہتے ہیں۔ ’’[اسکول میں] روزانہ کی سرگرمیوں اور کھیلوں نے ان کے اندر خود انحصاری پیدا کی اور ان کے چڑچڑاپن اور جارحیت کو قابو میں رکھا۔ [لیکن] ایسی سرگرمیوں کو آن لائن کرنا مشکل ہے کیونکہ بچوں کو ذاتی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

اسکول میں چار اساتذہ صبح ۱۰ بجے سے شام ساڑھے ۴ بجے تک، پیر سے جمعہ (اور ہفتہ کے دن کچھ گھنٹوں) تک ان کا خیال رکھتے ہیں۔ اس دوران انہیں اسپیچ تھیراپی، جسمانی ورزش، خود کی دیکھ بھال، کاغذی دستکاری، زبان کی مہارت، الفاظ، اعداد، آرٹ اور دیگر سرگرمیاں سکھائی جاتی ہیں۔ اسکول بند ہونے سے ان کی زندگیوں سے یہ سب کچھ چلا گیا۔

Vaibhav Petkar and his mother, Sulakshana, who is seen cooking in the kitchen of their one-room house
PHOTO • Jyoti Shinoli
This is the last year of school for 18-year-old Vaibhav
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: ویبھو پیٹکر اور ان کی ماں، سلکشنا، جو اپنے ایک کمرے کے گھر کے باورچی خان ہ میں کھانا پکاتی نظر آ رہی ہیں۔ دائیں: ۱۸ سالہ ویبھو کے لیے یہ اسکول کا آخری سال ہے

اب دو سال کے وقفے کے بعد اسکول میں واپسی پر بچوں کو پرانے معمولات کے مطابق ڈھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ باگڑے کہتے ہیں، ’’ہم نے ان کے روزمرہ کے عادات و اطوار، بات چیت اور توجہ میں مجموعی کمی کا مشاہدہ کیا ہے۔ کچھ بچے جارحیت پسند، بے صبر اور پرتشدد ہو گئے ہیں کیونکہ ان کا معمول اچانک پھر سے بدل گیا ہے۔ وہ تبدیلی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘

حالانکہ پرتیک کے پاس تعلیم کے نقصان کی بھرپائی کے لیے ابھی کچھ سال باقی ہیں، لیکن ۱۸ سالہ ویبھو پیٹکر کے لیے یہ اسکول کا آخری سال ہے۔ معذور افراد (مساوی مواقع، حقوق کا تحفظ اور مکمل شرکت) کا قانون، ۱۹۹۵ کے مطابق ’ہر معذور بچے کو اٹھارہ سال کی عمر تک مناسب ماحول میں مفت تعلیم تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔‘

باگڑے کہتے ہیں، ’’اس کے بعد وہ عام طور پر گھر پر ہی رہتے ہیں، کیونکہ ان کے اہل خانہ پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

نو سال کی عمر میں ویبھو کی ’شدید ذہنی معذوری‘ کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ بول نہیں سکتے اور مرگی کے بار بار آنے والے دوروں کا شکار ہیں، جس کے لیے انہیں باقاعدہ دوائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ابتدائی مداخلت اور خصوصی تعلیم ۸-۷ سال کی عمر میں بچے کی نشوونما، اس کی نئی مہارتیں حاصل کرنے کی صلاحیت، روزمرہ کی زندگی کے کام کاج، اور رویے پر کنٹرول کو مضبوط کرتی ہے،‘‘ ڈاکٹر مونا گجرے کہتی ہیں، جو بچوں کی نیورولوجسٹ، ڈیولپمنٹ ڈس آرڈر کی ماہر، اور شمال وسطی ممبئی کے ساین میں واقع لوک مانیہ تلک میونسپل جنرل ہسپتال کی پروفیسر ہیں۔

Left: Vaibhav with his schoolteacher, Mohan Talekar.
PHOTO • Jyoti Shinoli
With his family: (from left) sister Pratiksha, brother Prateek, Vaibhav, father Shivaji, and mother Sulakshana
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: ویبھو اپنے اسکول ٹیچر موہن ٹا لیکر کے ساتھ۔ دائیں: اپنے کبنے کے ساتھ: (بائیں سے) بہن پرتیکش ا ، بھائی پرتیک، ویبھو، والد شواجی، اور ماں سلکشنا

ویبھو نے ۲۰۱۷ میں ۱۳ سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا تھا۔ تقریباً تین سال کی مشق اور تربیت کے بعد انہوں نے خود کی دیکھ بھال کی عادت، رویے پر بہتر کنٹرول، اور کچھ مہارتیں جیسے کہ رنگ بھرنا سیکھا تھا۔ باگڑے بتاتے ہیں، ’’شغلی علاج کے بعد اس میں کافی بہتری آئی تھی۔ وہ پینٹ کرتا تھا اور کافی انٹرایکٹو ہوا کرتا تھا۔ وہ دوسرے بچوں سے پہلے تیار ہو جاتا تھا۔‘‘ جب انہیں مارچ ۲۰۲۰ میں گھر واپس بھیجا گیا تو ویبھو جارحانہ رویے کا بھی شکار نہیں تھے۔

ویبھو کے والدین، شواجی اور سلکشنا، ان کے دادا دادی کی ملکیت والے دو ایکڑ زمین پر سال بھر کام کرتے ہیں۔ خریف کے موسم میں مکئی، جوار اور بعض اوقات پیاز کی کاشت کرتے ہیں۔ ربیع کے موسم میں، دسمبر سے مئی تک، وہ زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ احمد نگر ضلع کے کرجت تعلقہ کے کوریگاؤں میں اپنے ایک کمرے کے مکان میں تنہا بیٹھے ویبھو کے پاس جانے کا انہیں وقت نہیں ملتا۔

باگڑے کہتے ہیں، ’’دو سال تک اسکول بند ہونے کی وجہ سے وہ چڑچرا اور ضدی ہوگیا ہے اور اسے نیند نہیں آتی ہے۔ لوگوں کو اپنے نزدیک دیکھ کر پھر سے اس کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ رنگوں کو بھی نہیں پہچانتا۔‘‘ دو سال گھر میں رہنا اور نقلی اسمارٹ فون کے ساتھ کھیلنا ویبھو کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔

گیان پربودھن متیمند نواسی ودیالیہ کے اساتذہ اس حقیقت سے متفق ہیں کہ انہیں اب سب کچھ دوبارہ پڑھانا شروع کرنا پڑے گا۔ باگڑے کہتے ہیں، ’’اب ہماری ترجیح بچوں کو اسکول کے ماحول اور معمولات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ہے۔‘‘

پرتیک اور ویبھو کو وہ تمام مہارتیں اور علم دوبارہ حاصل کرنی ہوں گی جنہیں انہوں نے وبائی مرض سے پہلے حاصل کیا تھا۔ چونکہ انہیں وبائی مرض شروع ہونے کے فوراً بعد گھر بھیج دیا گیا تھا، اس لیے کووڈ۔۱۹ کے ساتھ رہنا ان کی نئی تعلیم کا ایک اہم حصہ ہوگا۔

Left: Rohit Bagade says children are finding it difficult to readjust to their old routine after the two-year break.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: Dnyanprabodhan Matimand Niwasi Vidyalaya, in Karmala taluka of Maharashtra’s Solapur district, where Bagade is the programme coordinator
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: روہت باگڑے کہتے ہیں کہ دو سال کے وقفے کے بعد بچوں کو اپنے پرانے معمولات سے ہم آہنگ ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ دائیں: مہاراشٹر کے سولاپور ضلع کے کرمالا تعلقہ میں واقع گیان پربودھن متیمند نواسی ودیالیہ، جہاں باگڑے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں

ریاستی محکمہ صحت کے مطابق، ۱۵ جون ۲۰۲۲ کو مہاراشٹر میں ۴۰۲۴ نئے کورونا وائرس کے معاملے درج کیے گئے، جو پچھلے دن کے مقابلے میں ۳۶ فیصد زیادہ تھے۔ مہاراشٹر میں کووڈ کے معاملے بڑھنے کے ساتھ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ بچوں کو وائرس سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

باگڑے بتاتے ہیں، ’’ہمارا پورا اسٹاف مکمل طور پر ویکسین شدہ ہے۔ ہمارے پاس اپنے مددگاروں اور اساتذہ کے لیے ماسک اور پی پی ای کٹس ہیں، کیونکہ ہمارے بچوں کو پہلے سے ہی صحت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اگرچہ ماسک بچوں کے ساتھ تعمل کو مشکل بنا دیں گے، کیونکہ جب وہ چہرے کے تاثرات دیکھتے ہیں تو وہ چیزوں کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو یہ سکھانا ایک چیلنج ہوگا کہ انہیں ماسک کیوں پہننا چاہیے، اسے پہننے کا صحیح طریقہ کیا ہے اور انہیں اسے کیوں نہیں چھونا چاہیے۔

ڈاکٹر گجرے کہتی ہیں، ’’جب ذہنی طور پر معذور بچوں کو کچھ نیا سکھانے کی بات آتی ہے، تو ہم ہر عمل کو مرحلہ وار، بہت صبر کے ساتھ، اور بار بار کرتے ہیں تاکہ انہیں آسانی سے یاد کرنے میں مدد ملے۔‘‘

گیان پربودھن متیمند نواسی ودیالیہ کے طلباء نے اسکول واپس آنے کے بعد سب سے پہلے ہاتھ دھونا سیکھا تھا۔

ویبھو بار بار کھانے کی فرمائش کرتے ہیں، ’’ کھایل ا… کھایلا جیون [کھانا…کھانا…جیون…]۔‘‘ باگڑ ے کہتے ہیں، ’’ہمارے بہت سے بچوں کے لیے، ہاتھ دھونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ کھانے کا وقت ہے۔ لہذا، ہمیں انہیں [کووڈ کے اوقات میں] بار بار ہاتھ دھونے کے معنی کو سمجھانے ہوں گے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam