بیاسی سالہ باپو سوتار کو ۱۹۶۲ کا وہ دن واضح طور پر یاد ہے، جب انہوں نے اپنا لکڑی کا ٹریڈل (پیر سے چلنے والا) ہینڈ لوم بیچا تھا۔ اپنی ورکشاپ میں تیار سات فٹ لمبے اس ہینڈ لوم کو کولہاپور کے سنگاؤں کسبا گاؤں کے ایک بُنکر کے ہاتھوں فروخت کر کے انہوں نے ۴۱۵ روپے کی ایک بڑی رقم حاصل کی تھی۔

یہ ان کے لیے ایک خوشگوار یاد ہوتی اگر یہ ہینڈ لوم ان کے ہاتھ کا بنا ہوا آخری ہینڈ لوم نہ ہوتا۔ اس کے بعد ان کے آرڈر آنے بند ہو گئے تھے۔ اب ہاتھ کے بنے لکڑی کے ہینڈ لومز کا کوئی خریدار نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ تیاویلی سگلا موڈلا [اس کے بعد سب کچھ دیکھتے دیکھتے ختم ہوگیا]۔‘‘

آج چھ دہائیوں بعد مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے رینڈل گاؤں کے بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ باپو ٹریڈل لوم بنانے والے گاؤں کے آخری کاریگر ہیں۔ یا یہ کہ کسی زمانے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ گاؤں کے سب سے پرانے بُنکر ۸۵ سالہ وسنت تامبے کہتے ہیں، ’’رینڈل اور آس پاس کے گاؤں میں ہینڈ لوم بنانے والے جتنے بھی کاریگر تھے، ان میں اب ایک بھی زندہ نہیں بچا ہے۔‘‘

لکڑی کے ہینڈلوم بنانا بذات خود رینڈل کی ایک کھوئی ہوئی روایت ہے۔ باپو کہتے ہیں، ’’اب وہ [آخری] ہینڈ لوم بھی موجود نہیں ہے۔‘‘ اپنے چھوٹے سے گھر کے آس پاس کی ورکشاپوں میں پاور لومز کی کھٹ پٹ کی آوازوں کے درمیان ہماری بات سننے کے لیے انہیں اپنی سماعت پر زور دینا پڑ رہا تھا۔

باپو کا ایک کمرے کا روایتی ورکشاپ ان کے گھر کے اندر واقع ہے۔ اس ورکشاپ نے ایک دور کو گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ورکشاپ میں بھورے رنگوں کا مرکب، جن میں سیاہ، سیپیا، حنائی، سیڈل، زردی مائل، مہوگنی، سرخی مائل اور دوسرے رنگ شامل ہیں، آہستہ آہستہ ماند پڑ رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی چمک مدھم ہوتی جا رہی ہے۔

Bapu's workshop is replete with different tools of his trade, such as try squares  (used to mark 90-degree angles on wood), wires, and motor rewinding instruments.
PHOTO • Sanket Jain
Among the array of traditional equipment and everyday objects at the workshop is a kerosene lamp from his childhood days
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: باپو کی ورکشاپ ان کے سے جڑے مختلف اوزاروں سے بھری پڑی ہے، جیسے کہ ٹرائی اسکوائر (اسے لکڑی پر ۹۰ ڈگری کے زاویوں کو نشان زد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے)، تاریں، اور موٹر کی مرمت سے جڑے آلات۔ دائیں: ورکشاپ میں روایتی آلات اور روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں سے ایک ان کے بچپن کی یاد دلاتا مٹی کے تیل والا لیمپ

The humble workshop is almost a museum of the traditional craft of handmade wooden treadle looms, preserving the memories of a glorious chapter in Rendal's history
PHOTO • Sanket Jain

اس چھوٹی سی ورکشاپ کو ہاتھ سے تیار ہونے والے لکڑی کے ٹریڈل لومز کی روایتی دستکاری کا ایک میوزیم کہا جا سکتا ہے۔ اس میں رینڈل کی تاریخ کے ایک شاندار باب کی یادوں کو محفوظ کیا گیا ہے

*****

رینڈل، مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے اپنی کپڑا صنعت کے لیے مشہور شہر، اچلکرنجی سے تقریباً ۱۳ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں بہت سے ہینڈ لومز اِچلکرنجی شہر کے لیے بنائے گئے تھے۔ یہ پہلے ریاست اور بعد میں کپڑے کے معاملے میں ہندوستان کے سب سے مشہور مراکز میں سے ایک بن گیا تھا۔ اِچلکرنجی سے قربت کے باعث رینڈل بھی کپڑے کا ایک چھوٹا مینوفیکچرنگ سنٹر بن گیا۔

یہ ۱۹۲۸ کی بات ہے جب باپو کے آنجہانی والد، کرشنا سوتار نے پہلی مرتبہ ۲۰۰ کلو سے زیادہ وزنی دیو ہیکل لوم بنانا سیکھا تھا۔ باپو کا کہنا ہے کہ اِچلکرنجی کے ایک ماہر کاریگر آنجہانی داتے دھولپّا سوتار نے کرشنا کو لوم بنانا سکھایا تھا۔

باپو کی یادداشت کسی باریکی سے بُنے ہوئے دھاگے کی طرح بالکل واضح ہے۔ ان کو یاد ہے، ’’۱۹۳۰ کی دہائی کے اوائل میں اِچلکرنجی میں ہینڈ لوم بنانے والی صرف تین فیملی تھی۔‘‘ تھوڑا رک کر وہ کہتے ہیں، ’’آس پاس کے علاقے میں نئے نئے ہینڈ لوم تیزی سے لگ رہے تھے، اسی لیے میرے والد نے انہیں بنانے کا طریقہ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ ان کے دادا، آنجہانی کلپّا سوتار، آبپاشی کے لیے موئَت (چرخی) بنانے کے علاوہ، درانتی، کدال اور کولَو (ایک قسم کا ہل) جیسے زرعی اوزار بناتے تھے۔

بچپن میں باپو کو اپنے والد کی ورکشاپ میں وقت گزارنا اچھا لگتا تھا۔ انہوں نے اپنا پہلا لوم ۱۹۵۴ میں ۱۵ سال کی عمر میں بنایا تھا۔ وہ مسکرانے لگتے ہیں، ’’ہم تینوں نے اس پر چھ دنوں میں ۷۲ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگایا تھا۔ ہم نے اسے رینڈل کے ایک بنکر کو ۱۱۵ روپے میں فروخت کیا تھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی رقم تھی، کیونکہ اس وقت ایک کلو چاول کی قیمت ۵۰ پیسے تھی۔

۱۹۶۰ کی دہائی کے اوائل تک ہاتھ سے بنے ہینڈ لوم کی قیمت بڑھ کر ۴۱۵ روپے تک پہنچ گئی تھی۔ ’’ہم ایک مہینے میں کم از کم چار ہینڈ لوم بنا لیتے تھے۔‘‘ لیکن انہیں کبھی بھی ایک یونٹ کے طور پر فروخت نہیں کیا جا سکا۔ وہ وضاحت کرتے ہیں، ’’ہم لوم کے مختلف حصوں کو بیل گاڑی پر لاد کر لے جاتے تھے اور انہیں بُنکر کی ورکشاپ میں ایک دوسرے سے جوڑ دیتے تھے۔‘‘

جلد ہی، باپو نے ڈابی بنانا سیکھ لیا۔ یہ لوم کے اوپری حصے سے باہر سے منسلک ہوتی تھی۔ کپڑا بنتے وقت اس سے کپڑے پر پیچیدہ ڈیزائن اور پیٹرن بنانے میں مدد ملتی تھی۔ باپو کو ساگوان کی  اپنی پہلی ڈابی بنانے میں تین دنوں میں ۳۰ گھنٹے لگ گئے۔ وہ یاد کرتے ہوتے بتاتے ہیں، ’’میں نے اسے رینڈل کے ایک بُنکر، لِنگپّا مہاجن کو مفت میں صرف اس لیے دے دیا، تاکہ یہ چیک کیا جا سکے کہ آیا وہ ڈھیک سے کام کر رہی ہے یا نہیں۔‘‘

Sometime in the 1950s, Bapu made his first teakwood ‘dabi’ (dobby), a contraption that was used to create intricate patterns on cloth as it was being woven. He went on to make 800 dobbies within a decade
PHOTO • Sanket Jain
Sometime in the 1950s, Bapu made his first teakwood ‘dabi’ (dobby), a contraption that was used to create intricate patterns on cloth as it was being woven. He went on to make 800 dobbies within a decade
PHOTO • Sanket Jain

باپو نے ۱۹۵۰ کی دہائی میں کسی وقت ساگوان کی لکڑی سے اپنی پہلی ’ڈابی‘ بنائی تھی، یہ ایک کام چلاوٴ پرزہ تھا جو کہ کپڑے پر پیچیدہ پیٹرن بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ انہوں نے ایک دہائی کے اندر ۸۰۰ ڈابیاں بنائی تھیں

Bapu proudly shows off his collection of tools, a large part of which he inherited from his father, Krishna Sutar
PHOTO • Sanket Jain

باپو بڑے فخر سے اپنے اوزاروں کا ذخیرہ دکھاتے ہیں، جس کا ایک بڑا حصہ انہیں اپنے والد کرشنا سوتار سے ورثے میں ملا تھا

دو کاریگروں کو ۱۰ کلو وزن والی تقریباً ایک فٹ لمبی ڈابی بنانے کے لیے دو دن کام کرنا پڑتا تھا۔ باپو نے ایک دہائی میں اس طرح کی ۸۰۰ ڈابیاں بنائیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’۱۹۵۰ کی دہائی میں ایک ڈابی ۱۸ روپے میں فروخت ہوتی تھی، جو ۱۹۶۰ کی دہائی تک بڑھ کر ۳۵ روپے فی ڈابی تک پہنچ گئی۔‘‘

بنکر وسنت کہتے ہیں کہ ۱۹۵۰ کی دہائی کے اواخر میں رینڈل میں تقریباً ۵۰۰۰ ہینڈ لوم تھے۔ وسنت اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’نوواری [نو گز کی] ساڑیاں انہیں لومز پر تیار ہوتی تھیں۔‘‘ وسنت ۶۰ کی دہائی میں ایک ہفتہ میں ۱۵ سے زیادہ ساڑیاں بنا لیتے تھے۔

ہینڈ لوم بنیادی طور پر ساگوان کی لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔ لکڑی کے تاجر کرناٹک کے دانڈیلی شہر سے لکڑی لاتے تھے اور اسے اِچلکرنجی میں فروخت کرتے تھے۔ باپو بتاتے ہیں، ’’مہینے میں دو بار بیل گاڑی پر لاد کر ہم اِچلکرنجی سے [رینڈل تک] لکڑیاں لاتے تھے۔‘‘ ان کے مطابق، ایک طرف کا سفر تین گھنٹوں کا ہوتا تھا۔

باپو ایک کیوبک (مکعب) فٹ ساگوان کی لکڑی ۷ روپے میں خریدتے تھے، جو ۱۹۶۰ کی دہائی میں بڑھ کر ۱۸ روپے فی کیوبک فٹ ہو گئی تھی اور آج اس کی قیمت ۳۰۰۰ روپے فی کیوبک فٹ ہے۔ اس کے علاوہ سالی (لوہے کی پٹی)، پٹّیا (لکڑی کے تختے)، نٹ بولٹ اور پیچ بھی استعمال ہوتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہر ہینڈ لوم کے لیے تقریباً چھ کلو لوہا اور سات کیوبک فٹ ساگوان کی ضرورت ہوتی تھی۔‘‘ ۱۹۴۰ کی دہائی میں لوہے کی قیمت تقریباً ۷۵ پیسے فی کلو تھی۔

باپو کی فیملی نے اپنے ہینڈ لومز کولہاپور کے ہاتکننگلے تعلقہ کے دیہاتوں اور کرناٹک کے سرحدی ضلع بیلگاوی کے چِکوڈی تعلقہ کے دیہاتوں کرداگا، کوگنولی اور بورگاؤں میں بیچے تھے۔ یہ دستکاری اس قدر پیچیدہ تھی کہ ۱۹۴۰ کی دہائی کے اوائل میں رینڈل میں صرف تین کاریگر – رامو سوتار، باپو بالیسو سوتار، اور کرشنا سوتار [جو رشتہ دار تھے] ہی ہینڈ لوم بناتے تھے۔

ہینڈ لوم بنانا ذات پر مبنی پیشہ تھا۔ اس پیشے کو زیادہ تر سوتار ذات کے لوگوں نے اختیار کیا تھا۔ اس ذات کو مہاراشٹر میں دیگر پسماندہ طبقے کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ باپو کہتے ہیں، ’’صرف پانچال سوتار [ایک ذیلی ذات] ہی ہینڈ لومز بناتے تھے۔‘‘

Bapu and his wife, Lalita, a homemaker, go down the memory lane at his workshop. The women of  Rendal remember the handloom craft as a male-dominated space
PHOTO • Sanket Jain

باپو اور ان کی اہلیہ، للیتا، جو ایک گھریلو خاتون ہیں، اپنی ورکشاپ میں پچھلے زمانے کو یاد کرتے ہیں۔ رینڈل کی خواتین ہینڈ لوم کی دستکاری کو مردوں کے تسلط والے کام کے طور پر یاد کرتی ہیں

During the Covid-19 lockdown, Vasant sold this handloom to raise money to make ends meet
PHOTO • Sanket Jain

فریم والا لوم (کرگھا) جسے کبھی وسنت تامبے استعمال کرتے تھے۔ تامبے رینڈل کے سب سے پرانے بُنکر اور باپو سوتار کے ہم عمر ہیں۔ کووڈ ۱۹ کے لاک ڈاؤن کے دوران، وسنت نے گزر بسر کے لیے یہ ہینڈ لوم بیچ دیا تھا

اس پیشے پر بھی مردوں کا غلبہ تھا۔ باپو کی والدہ، آنجہانی سونا بائی ایک کسان اور گھریلو خاتون تھیں۔ ان کی اہلیہ، ۶۵ سالہ للیتا سوتار بھی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ وسنت کی ۷۷ سالہ بیوی ومل بتاتی ہیں، ’’رینڈل میں عورتیں چرخہ کات کر دھاگہ بناتی تھیں اور اسے شٹل پر لپیٹتی تھیں۔ اس کے بعد مرد ہی کپڑا بُنتے تھے۔‘‘ حالانکہ، چوتھی آل انڈیا ہینڈ لوم مردم شماری (۲۰-۲۰۱۹) کے مطابق، ہندوستان میں ۲۵ لاکھ ۴۶ ہزار ۲۸۵ یا ۳ء۷۲ فیصد ہینڈ لوم ورکر خواتین ہیں۔

باپو آج بھی ۵۰ کی دہائی کے ماہر کاریگروں سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کبنور گاؤں [کولہاپور ضلع] کے کلپّا سوتار کو حیدر آباد اور سولاپور سے لوم کے آرڈر ملتے تھے۔ یہی نہیں، ان کے پاس نو مزدور بھی تھے۔‘‘  ایک ایسے زمانے میں جب صرف فیملی کے ممبران ہی لوم بنانے میں مدد کرتے تھے اور اجرت پر مزدور حاصل کرنے کا کوئی بمشکل ہی متحمل ہوسکتا تھا، کلپّا کا نو مزدور رکھنا کوئی معمولی کامیابی نہیں تھی۔

باپو ۲ ضرب ۵ء۲ فٹ کے ساگوان کے باکس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ باکس انہیں بہت پسند ہے اور اس باکس کو وہ اپنی ورکشاپ میں مقفل کرکے رکھتے ہیں۔ وہ بظاہر جذباتی ہوکر کہتے ہیں، ’’اس میں ۳۰ سے زیادہ مختلف قسم کی رِنچ (اسپینر) اور دیگر دھاتی اوزار ہیں۔ یہ دوسروں کے لیے عام آلات کی طرح لگ سکتے ہیں، لیکن میرے لیے یہ میرے فن کی یادگار ہیں۔‘‘ باپو اور ان کے بڑے بھائی، آنجہانی وسنت سوتار کو اپنے والد سے ۹۰ رنچ ورثے میں ملے تھے۔

باپو کی عمر کے ہی دو پرانے لکڑی کے ریک ہیں، جن میں چھینی، دستی رندا، دستی برما اور بریسز، آری، بنسولہ اور شکنجہ، رکھانی، ٹرائی اسکوائر، روایتی دھاتی ڈیوائڈر اور کمپاس، مارکنگ گیج، مارکنگ چاقو، اور بہت کچھ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ فخریہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’مجھے یہ اوزار اپنے دادا اور والد سے ورثے میں ملے ہیں۔‘‘

باپو کو وہ دن یاد ہے جب انہوں نے کولہاپور کے ایک فوٹوگرافر کو مدعو کیا تھا (کیونکہ ۱۹۵۰ کی  دہائی میں رینڈل میں کوئی فوٹوگرافر نہیں تھا)، تاکہ وہ اپنے فن کی یادوں کو محفوظ رکھ سکیں۔ شیام پاٹل نے ان سے چھ تصویروں اور سفر کے اخراجات کے لیے ۱۰ روپے وصول کیے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آج رینڈل میں کئی فوٹوگرافر ہیں، لیکن کوئی بھی روایتی فنکار تصویر کھنچوانے کے لیے زندہ نہیں ہے۔‘‘

The pictures hung on the walls of Bapu's workshop date back to the 1950s when the Sutar family had a thriving handloom making business. Bapu is seen wearing a Nehru cap in both the photos
PHOTO • Sanket Jain
Bapu and his elder brother, the late Vasant Sutar, inherited 90 spanners each from their father
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: باپو کی ورکشاپ کی دیواروں پر لٹکی ہوئی تصویریں ۱۹۵۰ کی دہائی کی ہیں، جب سوتار فیملی کا ہینڈ لوم بنانے کا کاروبار زوروں پر تھا۔ باپو دونوں تصویروں میں نہرو ٹوپی پہنے نظر آ رہے ہیں۔ دائیں: باپو اور ان کے بڑے بھائی آنجہانی وسنت سوتار، دونوں کو اپنے والد سے ۹۰ رِنچ ورثے میں ملے تھے

Bapu now earns a small income rewinding motors, for which he uses these wooden frames.
PHOTO • Sanket Jain
A traditional wooden switchboard that serves as a reminder of Bapu's carpentry days
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: باپو اب موٹروں کی مرمت اور وائنڈنگ کرکے ایک معمولی آمدنی حاصل کرتے ہیں، جس کے لیے وہ لکڑی کے ان فریموں کا استعمال کرتے ہیں۔ دائیں: لکڑی کا ایک روایتی سوئچ بورڈ جو باپو کے کارپینٹری کے دنوں کی یادگار ہے

*****

باپو نے اپنا آخری ہینڈ لوم ۱۹۶۲ بیچا تھا۔ اس کے بعد آنے والے سال ان کے (اور دوسروں کے لیے بھی) لیے مشکلوں بھرے تھے۔

رینڈل بذات خود اُس دہائی کے دوران بڑی تبدیلیوں سے گزرا۔ سوتی ساڑیوں کی مانگ میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، جس کی وجہ سے بنکروں کو قمیض کے کپڑے بُننے پر مجبور ہونا پڑا۔ وسنت تامبے کہتے ہیں، ’’ہم نے جو ساڑیاں بنائیں وہ سادہ تھیں۔ وقت کے ساتھ ان ساڑیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آخرکار، ان کی مانگ گر گئی۔‘‘

معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا۔ تیزی سے پیداوار، زیادہ منافع اور مزدوری میں کمی کے اپنے دعوے کے ساتھ پاور لومز نے ہینڈ لوم کی جگہ لینا شروع کر دیا۔ رینڈل میں تقریباً تمام ہینڈ لومز بند ہو گئے ۔ آج صرف دو بُنکر – ۷۵ سالہ سراج مومن اور ۷۳ سالہ بابو لال مومن، ہینڈ لوم استعمال کرتے ہیں۔ وہ بھی اسے جلد ہی ترک کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

باپو خوش ہوکر یاد کرتے ہیں، ’’مجھے ہینڈ لومز بنانا پسند تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں ۴۰۰ سے زیادہ لومز کے فریم بنائے تھے۔ یہ سارا کام ہاتھ سے کیا تھا، بغیر کسی تحریری ہدایات کے۔ نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ان کے والد نے لومز کی پیمائش یا ڈیزائن نوٹ کی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ ماپا ڈوکیات باسلیلی۔ تونڈپاتھ جھالا ہوتا [تمام ڈیزائن میرے دماغ میں تھے۔ تمام پیمائشوں کو میں دل سے جانتا تھا]۔‘‘

جب پاورلومز نے بازار پر قبضہ کر لیا، تو چند بنکر ایسے تھے جو ان کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے سیکنڈ ہینڈ ہتھ کرگھے خریدنا شروع کردیا۔ ۱۹۷۰ کی دہائی کے دوران استعمال شدہ ہینڈ لوم کی قیمت بڑھ کر ۸۰۰ روپے فی لوم تک پہنچ گئی تھی۔

Bapu demonstrates how a manual hand drill was used; making wooden treadle handlooms by hand was an intense, laborious process
PHOTO • Sanket Jain

دستی برمے کے استعمال کا طریقہ بتاتے ہوئے باپو۔ لکڑی کے ٹریڈل ہینڈ لوم کو ہاتھ سے بنانا ایک نہایت ہی محنت طلب کام تھا

The workshop is a treasure trove of traditional tools and implements. The randa, block plane (left), served multiple purposes, including smoothing and trimming end grain, while the favdi was used for drawing parallel lines.
PHOTO • Sanket Jain
Old models of a manual hand drill with a drill bit
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: یہ ورکشاپ روایتی آلات اور اوزاروں کا خزانہ ہے۔ رندا (بائیں) سے متعدد مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، جیسے اوپری سطح کو ہموار کرنا اور تراشنا، جب کہ فیوڈی (گیج) کا استعمال متوازی لکیریں کھینچنے کے لیے ہوتا تھا۔ دائیں: دستی برمے کا پرانا ماڈل

باپو بتاتے ہیں، ’’اُس وقت ہینڈ لوم بنانے والا کوئی نہیں تھا۔ خام مال کی قیمتیں بھی بڑھ گئی تھیں، اس لیے [لوم بنانے کی] لاگت بھی بڑھ گئی تھی۔ اس کے علاوہ، کئی بنکروں نے سولاپور ضلع [ایک اور اہم ٹیکسٹائل سنٹر] کے بنکروں کو اپنے ہینڈ لوم فروخت کر دیے۔‘‘ لاگت اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بڑھنے کے ساتھ ہینڈ لوم بنانا اب فائدہ کا سودا نہیں رہ گیا تھا۔

یہ پوچھے جانے پر کہ آج ایک ہینڈ لوم بنانے پر کتنا خرچ آئے گا، باپو ہنس دیتے ہیں۔ ’’اب کسی کو ہینڈ لوم کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ خرچ کا تخمینہ لگانے سے قبل وہ کچھ حساب لگاتے ہیں۔ ’’کم از کم ۵۰ ہزار روپے۔‘‘

باپو ۱۹۶۰ کی دہائی کے اوائل تک لوم کی مرمت کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کرتے تھے۔ وہ لوم کی مرمت کے سلسلے میں ایک دورے کے لیے ۵ روپے وصول کرتے تھے۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لوم میں آئی خرابی کی بنیاد پر ہم اپنے نرخوں میں اضافہ بھی کر لیا کرتے تھے۔‘‘ ۱۹۶۰ کی دہائی کے وسط میں ایک بار جب نئے لومز کے آرڈر آنا بند ہو گئے، تو باپو اور ان کے بھائی وسنت نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے طریقے تلاش کرنا شروع کر دیے۔

وہ کہتے ہیں، ’’ہم کولہاپور گئے، جہاں ایک میکینک دوست نے ہمیں چار دنوں میں موٹر کو ریوائنڈ اور مرمت کرنے کا طریقہ سکھایا۔‘‘ انہوں نے پاور لومز کی مرمت کا طریقہ بھی سیکھا۔ ریوائنڈنگ ایک آرمیچر وائنڈنگ کا عمل ہے جو موٹر کے جل جانے کے بعد کیا جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں باپو کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے مانگور، جنگم واڑی اور برگاؤں کے دیہاتوں اور مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع کے رنگولی، اِچلکرنجی اور ہاپوری میں موٹروں، سبمرسیبل پمپوں اور دیگر مشینوں کی ریوائنڈ کرنے کے لیے جاتے تھے۔ ’’رینڈل میں صرف میں اور میرے بھائی جانتے تھے کہ یہ کام کیسے کرنا ہے، اس لیے ہمارے پاس اس وقت بہت کام تھا۔‘‘

آج، ۶۰ سال گزرنے کے بعد جب کام مشکل سے ملتا ہے، تو کمزور اور لاغر باپو موٹروں کی مرمت کے لیے اِچلکرنجی اور رنگولی گاؤں (رینڈل سے ۲ء۵ کلومیٹر دور) سائیکل چلا کر جاتے ہیں۔ ایک موٹر کی ریوائنڈنگ کے لیے وہ کم از کم دو دن لیتے ہیں اور مہینے میں تقریباً ۵۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں آئی ٹی آئی [انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ گریجویٹ] نہیں ہوں، لیکن مجھے موٹر ریوائنڈ کرنا آتا ہے۔‘‘

Once a handloom maker of repute, Bapu now makes a living repairing and rewinding motors
PHOTO • Sanket Jain

باپو کسی زمانے میں ہینڈ لوم کے جانے مانے کاریگر تھے، اب موٹروں کی مرمت اور ریوائنڈنگ کرکے گزارہ کرتے ہیں

Bapu setting up the winding machine before rewinding it.
PHOTO • Sanket Jain
The 82-year-old's hands at work, holding a wire while rewinding a motor
PHOTO • Sanket Jain

بائیں: باپو ریوائنڈنگ سے پہلے وائنڈنگ مشین کو درست کر رہے ہیں۔ دائیں: ۸۲ سالہ بزرگ اپنے کام پر، موٹر کو ریوائنڈ کرتے وقت ہاتھ سے تار پکڑے ہوئے

وہ اپنی ۲۲ گُنٹھا (۵ء۰ ایکڑ) زمین پر گنا، جوندھالا (جوار کی ایک قسم) اور بھوئی مُگ (مونگ پھلی) کاشت کرکے کچھ اضافی رقم کما لیتے ہیں۔ لیکن بڑھتی ہوئی عمر کے مدنظر وہ اپنے کھیتوں پر زیادہ محنت کرنے سے قاصر ہیں۔ بار بار آنے والے سیلاب کی وجہ سے ان کی پیداوار اور آمدنی بہت معمولی ہی رہتی ہے۔

کووڈ ۱۹ کی وبا اور لاک ڈوان کی وجہ سے باپو کی آمدنی اور کام دونوں متاثر ہوئے۔ گزشتہ دو سال ان کے لیے بطور خاص مشکلوں بھرے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کئی مہینوں تک مجھے کوئی آرڈر نہیں ملا۔‘‘ انہیں اپنے گاؤں کے آئی ٹی آئی گریجویٹس اور میکینکس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی مسابقت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، ’’آج کے موٹر اچھے معیار کے ہوتے ہیں اور انہیں زیادہ ریوائنڈنگ کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔‘‘

ہینڈ لوم سیکٹر میں بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ہینڈ لوم کی مردم شماری ۲۰۱۹۔۲۰ کے مطابق، مہاراشٹر میں ہینڈ لوم ورکرز کی تعداد ۳۵۰۹ رہ گئی ہے۔ ۱۹۸۷۔۸۸ میں جب ہینڈ لوم کی پہلی مردم شماری ہوئی تو ہندوستان میں ۳۹ء۶۷ لاکھ ہینڈ لوم ورکرز تھے۔ ۲۰۱۹۔۲۰۲۰ تک یہ تعداد کم ہو کر ۲۲ء۳۵ لاکھ ورکرز تک پہنچ گئی ہے۔ ہندوستان ہر سال اپنے ایک لاکھ سے زیادہ ہینڈ لوم ورکرز کو کھو رہا ہے۔

بنکروں کو بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ ان کی مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے ۴۵ء۳۱ لاکھ ہینڈ لوم گھرانوں میں سے ۹۴۲۰۱ گھرانے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہینڈ لوم ورکرز کے ایک سال میں اوسطاً ۲۰۷ کام کے دن ہوتے ہیں۔

پاور لومز کی تیزیسے بڑھتی تعداد اور ہینڈ لوم کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے ہاتھ سے بنائی کرنے والے اور لوم بنانے والے، دونوں کاریگر بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ باپو ان حالات سے دکھی ہیں۔

وہ پوچھتے ہیں، ’’جب کوئی بھی ہاتھ سے بنائی کرنا [ہینڈ لوم چلانا] سیکھنا نہیں چاہتا، تو یہ پیشہ کیسے زندہ رہے گا؟ حکومت کو کم عمر طلباء کے لیے [ہینڈ لوم] کے تربیتی مراکز شروع کرنے چاہئیں۔‘‘ بدقسمتی سے رینڈل میں کسی نے بھی باپو سے لکڑی کے ہینڈ لوم بنانے کا ہنر نہیں سیکھا ہے۔  ۸۲ سال کی عمر میں وہ دستکاری کے اس ہنر سے متعلق تمام علم کے واحد محافظ ہیں، جنہوں نے چھ دہائی قبل کام کرنا بند کردیا تھا۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی ایک اور ہینڈلوم بنانا چاہیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ [ہینڈ لوم] آج خاموش ہو گئے ہیں، لیکن لکڑی کے روایتی آلات موجود ہیں اور میرے ہاتھ اب بھی سلامت ہیں۔‘‘ وہ اخروٹ کی بھورے لکڑی کے ڈبے کو دیکھتے ہیں اور دھیمے سے مسکراتے ہیں۔ ان کی نگاہیں اور ان کی یادیں بھورے رنگ میں ماند پڑنے لگتی ہیں۔

Bapu's five-decade-old workshop carefully preserves woodworking and metallic tools that hark back to a time when Rendal was known for its handloom makers and weavers
PHOTO • Sanket Jain

باپو کی پانچ دہائیوں پرانی ورکشاپ میں چوبکاری (ووڈ ورکنگ) اور دھاتی اوزاروں کو احتیاط سے محفوظ رکھا گیا ہے جو اس وقت کی یادگار ہیں  جب رینڈل اپنے ہینڈ لوم بنانے والے کاریگروں اور بنکروں کے لیے جانا جاتا تھا

Metallic tools, such as dividers and compasses, that Bapu once used to craft his sought-after treadle looms
PHOTO • Sanket Jain

دھات کے اوزار، جیسے کہ ڈیوائیڈرز اور کمپاس، جن سے باپو کبھی اپنے بہترین ہینڈلوم تیار کرتے تھے

Bapu stores the various materials used for his rewinding work in meticulously labelled plastic jars
PHOTO • Sanket Jain

باپو اپنے ریوائنڈنگ کے کام کے لیے استعمال میں آنے والی مختلف چیزوں کو احتیاط سے لیبل کیے گئے پلاسٹک کے جاروں میں محفوظ کرتے ہیں

Old dobbies and other handloom parts owned by Babalal Momin, one of Rendal's last two weavers to still use handloom, now lie in ruins near his house
PHOTO • Sanket Jain

پرانی ڈابیز اور ہینڈ لوم کے دیگر پرزے بابا لال مومن کی ملکیت ہیں، جو رینڈل کے آخری دو بُنکروں میں سے ایک ہیں جو اب بھی ہینڈ لوم استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ ان کے گھر کے قریب بیکار پڑے ہیں

At 82, Bapu is the sole keeper of all knowledge related to a craft that Rendal stopped practising six decades ago
PHOTO • Sanket Jain

۸۲ سال  کی عمر میں باپو اس ہنر سے متعلق تمام علم کے واحد محافظ ہیں، رینڈل نے یہ کام چھ دہائیوں قبل چھوڑ دیا تھا

یہ اسٹوری دیہی کاریگروں پر سنکیت جین کے ذریعے لکھی جا رہی ایک سیریز کا حصہ ہے، جسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

Other stories by Sangeeta Menon
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam