جب میں گاندھی نگر اور الگ پوری پہنچا، تو وہاں ایک بے چین اور بھاری بھیڑ موجود تھی۔ ان دو دلت (درج فہرست ذات) گاؤوں کے درمیان صرف ایک سڑک حائل ہے۔ اس دن وہاں پولیس اہلکاروں اور ان کی گاڑیوں کی بھاری نفری موجود تھی۔ شیو کاشی قصبہ کی کنشک فائر ورکس کمپنی میں آتشزدگی کے حادثہ میں ۱۴ مزدوروں کی دردناک موت کی خبر نے یہاں مقامی برادری کو کافی جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ صرف گاندھی نگر گاؤں میں چھ موتیں ہوئیں، اور مرنے والے سبھی افراد کا تعلق دلت برادری سے تھا۔

حادثہ کے شکار اپنے عزیزوں کے لیے لوگ سڑکوں پر ماتم کر رہے تھے۔ کچھ فون پر تھے اور دوسرے قصبوں اور ویرودھو نگر ضلع کے دوسرے گاؤوں میں رشتہ داروں کو اطلاع دے رہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد بھیڑ شمشان کی جانب بڑھنے لگی۔ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ پورا گاؤں باہر نکل آیا تھا۔ وہ گاؤں کے چھ مزدوروں کو الوداع کہنے شمشان کی جانب گامزن تھے، جن کی موت ۱۷ اکتوبر، ۲۰۲۳ کو ہوئے حادثہ کے دوران ہو گئی تھی۔ جلی ہوئی لاشوں کو ہٹانے کا انچارج ایک فائر فائٹر پوسٹ مارٹم میں پیش آنے والی دشواری کی وضاحت کر رہا تھا۔

آخرکار، رات میں تقریباً ساڑھے آٹھ بجے جیسے ہی چھ ایمبولینس شمشان میں داخل ہوئیں، چیخ و پکار کرتا ہجوم ان کی طرف دوڑ پڑا۔ ایک لمحہ کے لیے میں اپنا کام بھول گیا۔ مجھے اپنا کیمرہ نکالنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ شمشان رات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور روشنی کے گرد اڑتے پروانے ایسے لگ رہے تھے جیسے گاؤں والوں کی طرح وہ بھی وہاں اکٹھے ہو گئے ہوں۔

جیسے ہی لاشوں کو باہر نکالا گیا بھیڑ پیچھے ہٹ گئی – جلی ہوئی لاشوں کی بدبو ناقابل برداشت تھی۔ بعض کو ابکائیاں آنے لگیں۔ لاشوں کی شناخت صرف اس لیے ہو سکی، کیونکہ ان پر مرنے والوں کے نام کا لیبل لگا ہوا تھا۔ جب بھیڑ چھٹ گئی تو شمشان تنہا رہ گیا۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: شیو کاشی میں کنشک پٹاخہ فیکٹری کے ایک حادثہ میں ۱۴ مزدور جاں بحق ہو گئے۔ دائیں: حادثہ کے متاثرین میں سے ایک، ایم بال مروگن کے گھر پر جمع لوگ

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مرنے والے کے رشتہ دار اور دوست شمشان کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دائیں: اندھیرا پھیل جانے کے باوجود لوگ لاشوں کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں

طالبہ ایم سندھیا (۱۴) نے سائنسداں بننے کا خواب دیکھا تھا۔ حادثہ میں اپنی ماں مُنیشوری کو کھونے کے بعد، وہ اب اپنے خوابوں پر دوبارہ غور کر رہی ہے۔ سندھیا کی ماں پچھلے آٹھ سالوں سے فیکٹری میں کام کر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اوور ٹائم کام کیا تھا۔ سندھیا کی دیکھ بھال کرنے والی ان کی پاتی (دادی) کہتی ہیں کہ ایک تنہا ماں کے طور پر، اس نے سب کچھ کیا۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ میری پاتی کب تک میری دیکھ بھال کر سکیں گی۔ وہ شدید طور پر ذیابیطس سے متاثر ہیں،‘‘ سندھیا نے کہا۔

پنچ ورنم نے اس المناک حادثہ میں اپنے شوہر کو کھو دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’باہر رکھے ہوئے پٹاخوں کے نمونوں میں آگ لگ گئی تھی۔ چونکہ میں باہری دروازے کے قریب بیٹھی تھی، اس لیے میں بچ گئی، لیکن دھوئیں کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکے۔‘‘

وہ مجھے آبلے اور خراشیں دکھاتی ہیں، جو انہیں فرار ہوتے وقت آئی تھیں۔ انہوں نے بتایا، ’’عام طور پر، جب صارفین بڑی مقدار میں خریداری کرتے ہیں، تو وہ سیمپل (نمونے) دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ نمونے کی جانچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو انھیں فیکٹری سے کم از کم ایک کلومیٹر دور جانا پڑتا۔ لیکن حادثے کے دن انھوں نے نمونے کی جانچ  فیکٹری کے احاطہ کے قریب ہی کی تھی۔ جانچ کے دوران اڑنے والی چنگاریاں ہر طرف پھیل گئیں۔ ان میں سے کچھ فیکٹری کی چھت پر گریں اور وہاں سے پٹاخوں تک پہنچ گئیں۔ وہاں مزدور کام کر رہے تھے۔ چشم زدن میں پورے کمرے میں  آگ لگ گئی اور ۱۵ میں سے ۱۳ مزدور آگ کی زد میں آ گئے۔ وہ تین مزدور جو تھرڈ ڈگری برن (جسم کے باہری چمڑے اور ٹھیک نیچے کی سطح کا جل جانا) کے ساتھ زندہ بچ سکیں وہ اس وقت بیت الخلاء میں تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھی حادثہ کا شکار ہو گئی ہوتیں۔ جب وہ باہر بھاگیں، تو ان کی ساڑیوں میں آگ لگ گئی تھی۔‘‘

پنچ ورنم اور ان کے شوہر بال مُروگن کی آمدنی کا انحصار ان کی مزدوری کے اوقات پر ہے۔ اپنی محنت کی کمائی سے، انہوں نے ایک بیٹی کی پرورش کی ہے، جو بی ایس سی نرسنگ کے پہلے سال میں ہے، اور ایک بیٹا جس نے آئی ٹی آئی میں ڈپلومہ کیا ہے۔ اپنے شوہر بال مُروگن کو یاد کرتے ہوئے، پنچ ورنم کہتی ہیں، ’’وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔‘‘ ان کی بیٹی بھوانی نے کہا، ’’وہ ہمیشہ ایک چیز پر اصرار کرتے تھے: اور وہ تھی تعلیم۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں بھی ان کی طرح تکلیف اٹھانی پڑے۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

رات ساڑھے آٹھ بجے پہلی ایمبولینس (بائیں) شمشان میں داخل ہوئی؛ اس کے بعد پانچ اور (دائیں) داخل ہوئیں

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مرنے والے مزدوروں کی شناخت ان کے کپڑوں پر لکھے گئے نمبروں سے کی جا سکتی ہے، جن میں وہ لپٹے ہوئے ہیں۔ دائیں: غمزدہ خاندان اور دوست احباب ایمبولینس سے لاشیں اترتے ہوئے دیکھ رہے ہیں

اب آتش زدگی اور اس کے بعد کے ہسپتال کے اخراجات کی وجہ سے پنچ ورنم اور ان کا کنبہ قرض میں ڈوب گیا ہے۔ گردے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اب تک ان کی پانچ سرجری ہو چکی ہے۔ انہیں ایسی دوا تجویز کی گئی ہے جس کے لیے انہیں مہینہ میں ۵۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے ابھی تک اپنی بیٹی کی کالج کی فیس [۲۰ ہزار روپے] ادا نہیں کی ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ دیوالی کے بونس سے ادا کر دیں گے۔‘‘ پنچ ورنم کے لیے صحت کی جانچ بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے نمک کی مقدار کو برقرار رکھنے کے لیے گولیاں کھا کر اپنے دن گزار رہی ہیں۔

بال مروگن اور پنچ ورنم کی سب سے چھوٹی اولاد، بھوانی (۱۸) اب بھی اپنے والد کی موت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ’’انہوں نے ہمارا خیال بہت اچھی طرح رکھا، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہم گھر کا کوئی کام نہ کریں۔ وہ ہمارے گھر کا سارا کام خود ہی کر لیا کرتے تھے۔ چونکہ ہماری والدہ بیمار ہیں، اس لیے وہ نہ تو گھر کی صفائی کر سکتی ہیں اور نہ کھانا بنا سکتی ہیں۔ یہ سب کام میرے والد کرتے تھے اور مجھ سے کبھی کوئی کام کرنے کے لیے نہیں کہتے تھے۔‘‘ بہن بھائی اپنے والد پر بہت زیادہ منحصر تھے، اور اس سانحہ سے ابرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومت نے تین لاکھ روپے کا معاوضہ دیا ہے، جس کا چیک انہوں نے کلکٹر کے دفتر سے حاصل کیا۔ اور فیکٹری کی جانب سے اکتوبر میں انہیں چھ لاکھ روپے کا معاوضہ ملا۔ پنچ ورنم کو یقین تھا کہ وہ مدد کریں گے کیونکہ وہ اور بال مروگن دونوں وفادار ملازم تھے اور گزشتہ ۱۲ سالوں سے اس کمپنی میں کام کر رہے تھے۔

گاندھی نگر گاؤں میں عورتیں اور مرد زیادہ تر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں جو عموماً کھیتوں یا پٹاخہ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ پنچ ورنم فیملی نے مؤخر الذکر متبادل کا انتخاب کیا کیونکہ فیکٹری زمین مالکان سے کچھ زیادہ ادائیگی کرتی ہے۔

ان کے ۱۹ سالہ بیٹے پانڈیا راجن جب سے جائے حادثہ پر گئے ہیں، خوف اور غم سے نڈھال ہیں۔ ان کی بہن کا کہنا ہے کہ اس حادثہ نے انہیں متزلزل کر دیا ہے۔ پانڈیا راجن کہتے ہیں، ’’اس دن آخری بار انہوں نے [اس کے والد] مجھے فون کیا تھا۔ وہ یہ جاننے کے لیے فون کر رہے تھے کہ آیا میں نے اپنا لنچ کیا یا نہیں۔ آدھے گھنٹے بعد ان کے ساتھی مزدور نے مجھے فون کر کے اس حادثہ کی اطلاع دی۔ میں جلدی سے موقع پر پہنچا، لیکن انہوں نے مجھے اندر نہیں جانے دیا۔ ہسپتال پہنچنے کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔‘‘

بھوانی کہتی ہیں، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ اب ہم کیسے زندگی گزاریں گے۔ ہماری ماں ہم سے جو بھی کہیں گی ہم وہ کرنے کو تیار ہیں۔ اگر وہ ہمیں خودکشی کرنے کے لیے بھی کہیں گی، تو ہم کریں گے۔ کب تک ہمارے رشتہ دار ہمیں پناہ دیں گے اور ہماری دیکھ بھال کریں گے؟‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: لوگ اپنے موبائل ٹارچ کی روشنی کو آخری رسومات کی جگہ تیار کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ دائیں: سبھی چھ لاشوں کو ایک ساتھ جلا دیا گیا

PHOTO • M. Palani Kumar

رشتہ داروں اور دوستوں کے چلے جانے کے بعد بھی دیر رات تک چتائیں جلتی رہیں

تمل سیلوی ۵۷ سال کی تھیں، جب آتش زدگی کا شکار ہوئیں۔ انہوں نے ۲۳ سال قبل پٹاخہ فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا تھا اور روزانہ ۲۰۰ روپے کماتی تھیں، جو بتدریج بڑھ کر ۴۰۰ روپے ہو گئی تھی۔

ان کے سب سے چھوٹے بیٹے ٹی ایشوَرن نے کہا، ’’میرے والد کی موت اس وقت واقع ہوگئی تھی جب میں صرف دو سال کا تھا، تب سے میری والدہ نے میرے بڑے بھائی اور میری پرورش کی ہے۔‘‘ وہ اور ان کے بھائی دونوں گریجویٹ ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کی، جب کہ میرے بھائی نے بی ایس سی کیا ہے۔‘‘

تمل سیلوی کا بڑا بیٹا اب تروپور میں پولیس افسر ہے۔ ’’اس نے اپنی پوری زندگی اپنے بیٹے کی بہتری کے لیے کام کیا، لیکن اب وہ اس کی کامیابیوں کو نہیں دیکھ سکے گی،‘‘ ان کے رشتہ داروں نے کہا۔

حادثہ میں زندہ بچ جانے والی کورُومّا کا کہنا ہے کہ کیمیائی مادوں کو خشک کرنے، کاغذ میں رول کرنے اور انہیں دھماکہ خیز کیمیکل سے بھرنے اور آخر میں ایک ساتھ باندھنے کے کام کے لیے تقریباً ۲۵۰ روپے یومیہ اجرت ملتی ہے۔ یہ رقم انہیں ہفتہ کے آخر میں ہی دی جاتی ہے۔ ان کی اجرت میں باقاعدگی سے اضافہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بجائے انہیں بونس ملتا ہے۔ بغیر چھٹی کے فیکٹری میں کام کرنے پر وہ ہر چھ ماہ بعد ۵۰۰۰ روپے کے بونس کی حقدار بن جاتی ہیں۔

اس گاؤں کی بہت سی خواتین سخت حالات کے باوجود ان فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں، کیونکہ زیادہ تر کنبے ان کی آمدنی پر منحصر ہیں۔ آگ میں جھلس کر ہلاک ہونے والی آنجہانی کوروامّل ایک ایسی ہی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے کندھوں پر اپنے کنبے کی کفالت کا بار اٹھا رکھا تھا۔ ان کے شوہر سُبّو کانی، بورویل پر کام کرتے ہوئے آتش زدگی کے اسی طرح کے حادثہ میں اپنی بینائی جزوی طور پر کھو چکے ہیں۔ وہ یومیہ اجرت پر کام نہیں کر سکتے، اور اب کوروامّل کے چلے جانے کے بعد، تین افراد پر مشتمل یہ فیملی تباہی کے دہانے پر ہے۔ ’’وہ میرے لیے روشنی کی طرح تھی جو میری بینائی کھو جانے کے بعد مجھے راستہ دکھاتی تھی،‘‘ سبو کانی نے نم آنکھوں سے کہا۔

PHOTO • M. Palani Kumar

بال مُروگن کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ، پنچ ورنم اور ان کے بچے، پانڈیا راجن اور بھوانی شامل ہیں

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: بال مُروگن اپنے اہل خانہ کو سیر کے لیے لے جاتے تھے۔ یہ تصویر کنیا کماری کے سفر پر لی گئی تھی۔ دائیں: بھوانی کے فون میں بال مروگن کی تصویر

خوفناک آتش زدگی کی ایک اور شکار اندرانی تھیں، جو گھٹنے کے شدید درد میں مبتلا تھیں، اور ۳۰ منٹ سے زیادہ کھڑے رہنا ان کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے شوہر، جو مرگی کے مرض میں مبتلا تھے، اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے خود کو کام کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ چار افراد پر مشتمل ان کا کنبہ ایک کمرے کے گھر میں زندگی بسر کرتا تھا اور انہوں نے قرض لے کر دوسرا کمرہ تعمیر کروایا تھا۔

’’میں اور میری والدہ اگلے چھ مہینوں میں اپنے قرضوں کا تصفیہ کرنے کا ارادہ کر رہے تھے۔ وہ میری شادی کو لے کر بھی فکرمند تھیں۔ ایک غریب لڑکی سے کون شادی کرنا چاہے گا، جس کے باپ مرگی کے مریض ہوں اور ماں بیمار ہو؟‘‘ اندرانی کی بیٹی کارتیشوری کہتی ہیں۔ وہ اس سال سرکاری ملازمت کے لیے گروپ ۴ کے امتحانات میں حصہ لینے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ ’’کوچنگ سنٹر کی فیس ادا کرنے کی استطاعت مجھ میں نہیں ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

دسمبر ۲۰۲۳ میں اس فیملی کو والد کی موت کا سانحہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ان کے والد کرسمس کے ستارے باندھتے وقت پھسل کر گر گئے تھے، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اب نوعمر کارتیشوری اپنے خاندانی قرضوں اور گروپ ۴ کی نوکری کی امید کے ساتھ تنہا ہیں۔

گورو ومّا جیسی گاؤں کی کچھ خواتین ماچس کی فیکٹری میں کام کرتی تھیں۔ انہیں ۱۱۰ ماچس کے ڈبوں کو کاٹنے اور پیک کرنے کے لیے صرف تین روپے ملتے تھے۔ خواتین کو احساس ہوا کہ انہیں بہت کم اجرت مل رہی ہے اور ان کا استحصال کیا جا رہا ہے اور انہوں نے اجتماعی طور پر پٹاخہ فیکٹری میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: مُنیشوری کی ہفتہ وار اجرت کا حساب کتاب۔ ان کی ہفتہ وار آمدنی کبھی بھی ۱۰۰۰ روپے تک نہیں پہنچی۔ دائیں: منیشوری کے ساتھ سندھیا کی ایک تصویر جو انہوں نے تروچِیندور میں لی تھی

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: سندھیا کی جانب سے حادثے کی شکار اپنی ماں منیشوری کو لکھا گیا ایک خط۔ دائیں: سندھیا اپنی دادی کے ساتھ

اس گاؤں میں روزگار کا دوسرا متبادل زراعت ہے، لیکن یہ اب دستیاب نہیں ہے، کیونکہ خشک سالی اور قحط نے زرعی زمینوں کو ناقابل کاشت بنا دیا ہے۔ کچھ علاقوں میں جہاں وافر مقدار میں زیر زمین پانی ہے، وہاں زمیندار مناسب اجرت نہیں دیتے۔ لہٰذا، کورو ومّا جیسی خواتین نہ صرف فیکٹری میں کام کرتی ہیں بلکہ بھیڑ اور مویشی بھی پالتی ہیں۔ تاہم، وہاں بھی انہیں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ خشک سالی کی وجہ سے مویشیوں کے لیے گھاس کے میدان نہیں ہیں۔

گاؤں والوں کے لیے کام کا واحد دستیاب متبادل منریگا ہے، جسے ریاست میں نور نال ویلئی (۱۰۰ دن کا کام) کہا جاتا ہے۔ ٹی مہندرن، جنہوں نے اپنی بیوی تنگ مالئی کو کھو دیا، کہتے ہیں کہ اگر حکومت ۱۰۰ دن کام کرنے والی اسکیم کو ۳۶۵ دنوں تک بڑھا دے تو یہ گاؤں کی خواتین کے لیے سودمند ہوگا۔

مہندرن کا کہنا ہے کہ علاقے میں پٹاخہ بنانے والی کمپنیوں کے پاس مناسب لائسنس نہیں ہیں اور انہوں نے الزام لگایا کہ جن سرکاری اہلکاروں کو ان کی نگرانی کرنی ہے وہ ان فیکٹریوں کو چھ ماہ سے زیادہ معطل کرنے کی ہمت نہیں کرتے۔ نتیجتاً ساتویں مہینے میں ایک فیکٹری دوبارہ کھل جاتی ہے۔ اور یہ پہلا حادثہ نہیں ہے: اکتوبر ۲۰۲۳ میں کرشناگیری میں آٹھ دلت بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ پڑھیں: ’ہر گھر میں قبرستان جیسی خاموشی ہے‘

یہ دل دوز حادثہ، جو غم، نقصان اور پسماندگان کو درپیش تلخ حقیقتوں سے عبارت ہے، سماجی اور حکومتی مدد کی فوری ضرورت کا تقاضہ کرتا ہے۔ متاثرہ افراد کی کہانیاں کام کے بہتر حالات، حفاظتی اقدامات، اور ایک جامع سماجی تحفظ کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ یہ ایک واضح انتباہ ہے کہ ہر المناک واقعہ کے پس پشت انسانی زندگیاں ہوتی ہیں، خواب ہوتے ہیں، جدوجہد ہوتی ہے اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا تباہ کن نقصان ہوتا ہے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

حاثہ میں ایس کوروومّل (بائیں) کی موت ہوگئی۔ ان کے شوہر سبو کانی کو اپنی بینائی کا مسئلہ ہے اور یہ کوروومل ہی تھیں جو فیملی کی کفالت کے لیے فیکٹری میں کام کرتی تھیں

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: حادثہ میں اندرانی کی موت ہوگئی۔ یہ ویڈیو ان کی بیٹی کارتیشوری نے بنائی تھی، جب وہ اپنی ماں کے ساتھ اپنی چھٹیوں میں فیکٹری گئی تھیں۔ دائیں: اندرانی اپنے شوہر مروگانندم کی نگہداشت کرنے والی واحد شخص تھیں۔ ان کی موت کے بعد مروگانندم کی صحت بگڑ گئی۔ دسمبر ۲۰۲۳ میں وہ کرسی سے نیچے گرے اور ان کی موت ہو گئی

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: وہ ساڑی جسے اندرانی نے اپنی موت سے پہلے پہنی تھی۔ دائیں: اندرانی کے تعمیر کردہ ایک چھوٹے سے کمرے میں کھڑی کارتیشوری

PHOTO • M. Palani Kumar

ایس مروگئی حادثہ میں جھلس گئی تھیں، لیکن ان کی جان بچ گئی

PHOTO • M. Palani Kumar

تنگمالئی کے شوہر ان کی تصویر تلاش کر رہے ہیں۔ اس حادثہ میں ان کی موت ہو گئی تھی

PHOTO • M. Palani Kumar

متولکشمی کے شوہر ان کے ساتھ لی گئی آخری تصویر پکڑے ہوئے ہیں

PHOTO • M. Palani Kumar

فوٹوگرافر پلانی کمار کہتےہیں، ’مجھے یقین ہے کہ حادثہ کی تصاویر پر مبنی یہ کہانی کارتیشوری کی زندگی میں کچھ روشنی لے کر آئے گی‘

مترجم: شفیق عالم

M. Palani Kumar

M. Palani Kumar is Staff Photographer at People's Archive of Rural India. He is interested in documenting the lives of working-class women and marginalised people. Palani has received the Amplify grant in 2021, and Samyak Drishti and Photo South Asia Grant in 2020. He received the first Dayanita Singh-PARI Documentary Photography Award in 2022. Palani was also the cinematographer of ‘Kakoos' (Toilet), a Tamil-language documentary exposing the practice of manual scavenging in Tamil Nadu.

Other stories by M. Palani Kumar
Editor : Rajasangeethan

Rajasangeethan is a Chennai based writer. He works with a leading Tamil news channel as a journalist.

Other stories by Rajasangeethan
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam