جب اونچی ذات کے نوجوانوں نے باجرے کے کھیت میں بھنوری دیوی کی ۱۳ سالہ بیٹی کی عصمت دری کی، تو وہ لاٹھی اٹھا کر خود زانیوں سے مقابلہ کرنے نکل پڑیں۔ انہیں پولیس اور عدالتوں پر کوئی بھروسہ نہیں تھا، کیوں کہ اہیروں کا رام پورہ گاؤں کی طاقتور ذاتوں نے ان دونوں جگہوں سے انہیں انصاف حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’گاؤں کی ذات پنچایت نے مجھ سے انصاف کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کی بجائے، انہوں نے مجھے اور میرے کنبے کو رام پورہ سے گاؤں بدر کر دیا۔‘‘ عصمت دری کے تقریباً ایک دہائی بعد بھی اجمیر ضلع کے اس گاؤں میں کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے۔

حالانکہ راجستھان میں اس کا کوئی زیادہ مطلب نہیں ہے۔ اس ریاست میں اوسطاً ہر ۶۰ گھنٹے میں ایک دلت خاتون کی عصمت دری ہوتی ہے۔

درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے قومی کمیشن کی رپورٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۹۱ سے ۱۹۹۶ کے درمیان درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے جنسی استحصال کے تقریباً ۹۰۰ واقعات پولیس میں درج کرائے گئے تھے، یعنی ایک سال میں تقریباً ۱۵۰ واقعات یا ہر ۶۰ گھنٹے میں ایک واقعہ۔ (صدر راج کے چند مہینوں کو چھوڑ کر، اس عرصے میں، اس ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔) اعداد و شمار حقیقت کو اجاگر نہیں کرتے۔ اس ریاست میں اس طرح کے جرائم کی کم رپورٹنگ کی حد شاید ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

دھولپور ضلع کے نکسوڑا میں انتہائی ڈرامائی مظالم کا شکار ایک شخص گاؤں چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اپریل ۱۹۹۸ میں دلت برادری سے تعلق رکھنے والے رامیشور جاٹو نے اونچی ذات کی گوجر برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے اپنے ۱۵۰ روپے واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن یہ مصیبت کو دعوت دینے جیسا تھا۔ ان کی ہمت سے مشتعل ہو کر گوجروں کے ایک گروہ نے ان کی ناک میں سوراخ کیا اور ان کے نتھنوں میں ایک میٹر لمبے اور ۲ ملی میٹر موٹے جوٹ کے دو دھاگوں کی نکیل ڈال دی۔ پھر نکیل پکڑ کر گاؤں میں ان کا پریڈ کرایا۔

یہ واقعہ سرخیوں میں چھایا رہا اور قومی غم و غصہ کا باعث بھی بنا۔ بیرونی ممالک میں بھی پرنٹ اور ٹیلی ویژن دونوں میڈیا نے اس کی بڑے پیمانے پر رپورٹنگ کی۔ تاہم، ان تمام چیزوں کا انصاف پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ گاؤں کے اندر دہشت اور زمینی سطح پر مخالف نوکرشاہی نے اسے یقینی بنایا۔ سنسنی خیزی اور انوکھا پن کے زائل ہوتے ہی پریس کی بھی اس معاملے میں دلچسپی نہیں رہی۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا رویہ بھی بظاہر ویسا ہی رہا۔ متاثرین نے میڈیا کی خاموشی کے بعد کے عتاب کا اپنے طور پر سامنا کیا۔ رامیشور نے عدالت میں اپنا موقف مکمل طور پر بدل دیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ظلم ہوا تھا۔ تاہم، ان کی شکایت میں نامزد چھ افراد وہ نہیں تھے جنہوں نے یہ کام کیا تھا۔ وہ مجرموں کی شناخت نہیں کر سکے۔

سنئیر میڈیکل آفیسر، جنہوں نے ان کی زخموں کی تفصیلات درج کی تھی، اب وہ سب بھولنے لگے تھے۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ رامیشور زخمی حالت میں ان کے پاس آئے تھے، لیکن وہ اس بات کو یاد کرنے سے قاصر ہیں کہ آیا مظلوم نے انہیں بتایا تھا یا نہیں کہ انہیں یہ غیرمعمولی زخم کیسے لگے۔

Mangi Lai Jatav and his wife in Naksoda village in Dholupur district. A man and a woman standing outside a hut
PHOTO • P. Sainath

نکسوڑا گاؤں میں اپنے گھر پر رامیشور جاٹو کے والدین، جہاں جاٹو کے نتھنے میں جوٹ کی نکیل کس کر پریڈ کرایا گیا تھا: ’ہم یہاں دہشت میں رہتے ہیں‘

رامیشور کے والد منگی لال خود اپنی گواہی سے مکر گئے ہیں۔ ’’آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے نکسوڑا میں مجھ سے پوچھا۔ ’’ہم یہاں دہشت میں رہتے ہیں۔ حکام پوری طرح ہمارے خلاف تھے۔ گوجر ہمیں کسی بھی وقت ختم کر سکتے ہیں۔ کئی طاقتور لوگوں اور کچھ پولیس اہلکاروں نے ہمیں اس بات کے لیے مجبور کیا۔‘‘ رامیشور گاؤں چھوڑ چکے ہیں۔ مقدمے کے اخراجات پورا کرنے کے لیے منگی لال نے اب تک کنبے کی تین بیگھہ زمین میں سے ایک بیگھہ فروخت کر دی ہے۔

دنیا کے لیے یہ ایک وحشیانہ فعل تھا۔ یہ راجستھان کے ’آئی پی سی‘ (انڈین پینل کوڈ) کے دیگر ہزاروں مقدمات میں سے صرف ایک مقدمہ ہے۔ جس کا مطلب ہے قتل، عصمت دری، آتش زنی یا شدید زخم پہنچانے کے علاوہ دیگر مقدمات۔ سال ۱۹۹۱-۹۶ کے درمیان ہر چار گھنٹے میں ایسا ایک مقدمہ درج ہوتا تھا۔

بھرت پور ضلع کے سینتھری کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہاں سات سال سے کوئی شادی نہیں ہوئی ہے۔ کم از کم مردوں کی تو بالکل بھی نہیں ہوئی ہے۔ ایسا جون ۱۹۹۲ کے بعد سے ہے، جب سینتھری پر اونچی ذات کے ایک ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں چھ افراد کا قتل اور کئی گھر تباہ کر دیے گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بٹورا (گوبر اور ایندھن کی لکڑی کا ذخیرہ) میں چھپے ہوئے تھے اور جس میں جان بوجھ کر آگ لگا دی گئی تھی۔

A pile of dung cakes
PHOTO • P. Sainath
A pile of dung cakes
PHOTO • P. Sainath

سینتھری گاؤں کے ایک شیڈ میں اسی طرح کے گوبر اور ایندھن کی لکڑی کے بِٹورا پر اونچی ذات کے حملہ آور ہجوم نے دھاوا بول دیا تھا، جس میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے

بھگوان دیوی کہتی ہیں، ’’سینتھری کی خواتین کی شادیاں تو ہو جاتی ہیں، کیونکہ وہ گاؤں چھوڑ کر چلی جاتی ہیں، لیکن مردوں کی نہیں ہوتی۔ کچھ مردوں نے شادی کرنے کے لیے اس گاؤں کو چھوڑ دیا ہے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو یہاں نہیں بھیجنا چاہتے۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر ہم پر دوبارہ حملہ ہوا تو کوئی بھی ہماری مدد نہیں کرے گا، نہ پولیس اور نہ ہی عدالت۔‘‘

ان کی کلبیت حقیقت پر مبنی ہے۔ قتل کے سات سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔

فرد جرم عائد کرنے کا بھی کوئی خاص مطلب نہیں ہے۔ اس ریاست میں ہر نو دن میں ایک دلت کا قتل ہو جاتا ہے۔

اسی گاؤں میں بٹّورا کی آگ کی زد سے زندہ بچ جانے والے تان سنگھ (کور تصویر دیکھیں) بھی رہتے ہیں۔ میڈیکل ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعے میں ان کا جسم ۳۵ فیصد جھلس گیا تھا۔ ان کی قوت سماعت کم و بیش تباہ ہو چکی ہے۔ انہیں معاوضے کی جو قلیل رقم ملی تھی (کیونکہ ان کے بھائی بھی ہلاک شدگان میں شامل تھے) وہ بہت پہلے طبی اخراجات پر خرچ ہو چکی ہے۔ اس تباہ حال نوجوان کا کہنا ہے، ’’مجھے اخراجات پورا کرنے کے لیے اپنی زمین کا چھوٹا سا پلاٹ بیچنا پڑا۔‘‘ اس میں وہ کئی سو روپے شامل ہیں جو جے پور کے بار بار کے دوروں پر اکیلے سفر کرنے پر خرچ ہوئے۔

تان سنگھ محض ایک عدد بن کر رہ گئے ہیں۔ اس ریاست میں ہر ۶۵ گھنٹے کے بعد ایک دلت دردناک زخم کا شکار ہوتا ہے۔

ٹونک ضلع کے راہولی میں مقامی اسکول کے اساتذہ کے اکسانے پر دلتوں پر ہوئے ایک حملے میں آتشزدگی کے کئی واقعات سامنے آئے تھے۔ ’’بڑا نقصان ہوا تھا،‘‘ انجو پھلواریا کہتی ہیں۔ وہ (دلت) سرپنچ منتخب ہوئی تھیں، لیکن، وہ کہتی ہیں، ’’مجھے جھوٹے الزامات کے تحت عہدے سے معطل کر دیا گیا تھا۔‘‘ انہیں حیرانی نہیں ہے کہ کسی کو اس فعل کی سزا نہیں دی گئی۔

راجستھان میں ہر پانچ دن میں اوسطاً ایک دلت گھر یا اس کے املاک کو آتشزدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہر زمرے میں مجرموں کو سزا ملنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

راجستھان حکومت کے نرم گفتار چیف سکریٹری ارون کمار دلتوں کے خلاف منظم تعصب کے خیال سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اس طرح کے مقدمات کے اندراجات ریاست کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’’یہ ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں اس قسم کے معاملے درج نہ کرنے کے بارے میں شاید ہی کوئی شکایت ہو۔ چونکہ ہم اس کو لے کر مستعد ہیں، اس لیے زیادہ مقدمے ہیں اور اس طرح جرائم کے اعداد و شمار بھی زیادہ ہیں۔‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ راجستھان میں سزا کی شرح ملک کے بقیہ حصوں سے بہتر ہے۔

Anju Phulwaria, the persecuted sarpanch
PHOTO • P. Sainath

انجو پھلواریا، راہولی کی منتخب دلت سرپنچ تھیں۔ لیکن، وہ کہتی ہیں، ’جھوٹے الزامات کے تحت مجھے میرے عہدہ سے معطل کر دیا گیا‘

اعداد و شمار کیا بتاتے ہیں؟ جنتا دل کے سابق رکن پارلیمنٹ تھان سنگھ ۹۰ کی دہائی کے اوائل میں دلتوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے رکن تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی جے پور کی رہائش گاہ پر بتایا، ’’سزا کی شرح تقریباً تین فیصد تھی۔‘‘

دھولپور ضلع میں عدالتوں کا دورہ کرنے کے بعد میں نے اسے اور بھی کم پایا۔ سال ۱۹۹۶ اور ۱۹۹۸ کے درمیان مجموعی طور پر ایسے ۳۵۹ مقدمات سیشن کورٹ کے سامنے پیش کیے گئے تھے۔ کچھ معاملوں کو دوسری عدالتوں میں منتقل کر دیا گیا تھا یا وہ زیر التواء تھے۔ لیکن یہاں سزا کی شرح ۵ء۲  فیصد سے کم تھی۔

دھولپور کے ایک سینئر پولیس افسر نے مجھے بتایا: ’’مجھے صرف یہ افسوس ہے کہ عدالتیں بہت سارے جھوٹے معاملات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ ۵۰ فیصد سے زیادہ ایس سی/ایس ٹی شکایات جھوٹی ہیں۔ ایسے معاملات سے لوگوں کو بلاوجہ ہراساں کیا جاتا ہے۔‘‘

راجستھان کے پولیس افسران، جو عام طور پر اونچی ذات سے تعلق رکھتے ہیں، کے درمیان یہ موقف عام ہے۔ (ایک سینئر سرکاری اہلکار اس فورس کو ایس آر پی یعنی ’’چرانگ-راجپوت پولیس‘‘ کہتے ہیں۔ ۹۰ کی دہائی تک پولیس فورس میں ان دو طاقتور ذاتوں کا غلبہ تھا۔)

پولیس کے اندر اس خیال کی جڑیں بہت گہرائی تک پیوست ہیں کہ عام لوگ، خاص طور پر غریب اور کمزور، جھوٹے ہوتے ہیں۔ تمام برادریوں میں عصمت دری کے معاملات کا جائزہ لیں، تو قومی سطح پر ایسے معاملوں کی تحقیقات کے بعد جھوٹے پائے جانے کا اوسط  تقریباً پانچ فیصد ہے۔ راجستھان میں عصمت دری کے واقعات کو ’’جھوٹے‘‘ قرار دیے جانے کا اوسط ۲۷ فیصد ہے۔

اس کے معنی یہ بھی نکالے جا سکتے ہیں کہ اس ریاست کی خواتین ملک کے باقی حصوں کی خواتین کے مقابلے پانچ گنا زیادہ جھوٹ بولتی ہیں۔ اس کی ممکنہ وضاحت کیا ہو سکتی ہے؟ دراصل خواتین کے خلاف تعصب نظام میں گہرائی تک سرایت کر گیا ہے۔ اگرچہ ’جھوٹی عصمت دری‘ کے اعداد و شمار کا تعلق تمام برادریوں سے ہے، تاہم ایک تفصیلی سروے سے یہ ثابت ہوگا کہ دلت اور آدیواسی اس تعصب کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو ان پر ہونے والے مظالم کی شرح دوسری برادریوں سے کہیں زیادہ ہے۔

راجستھان میں جہاں بھی گیا مجھے یقین دلایا گیا کہ دلت عموماً قانون کا اور خاص طور پر ایس سی اور ایس ٹی کے خلاف مظالم کی روک تھام کے قانون، ۱۹۸۹ کی دفعات کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس قانون کی انتہائی خوفناک دفعہ ۳ کا، جس کے تحت دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف ذات پات کے بھید بھاؤ کے جرائم کے قصورواروں کو جرمانے کے ساتھ پانچ سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔

حقیقت میں مجھے ایک بھی ایسا معاملہ نہیں ملا، جہاں مجرموں کو ایسی سنگین سزا سنائی گئی ہو۔

خود دھولپور میں ہی عام طور پر دلتوں کے خلاف ہوئے جرائم کے مقدمات میں سنائی گئی چند سزاؤں سے قصورواروں کو روکنا ممکن نہیں لگتا ہے۔ ان پر ۱۰۰ روپے یا ۲۵۰ روپے یا ۵۰۰ روپے کے جرمانے سے ایک ماہ تک کی  عام قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سب سے سخت سزا جس کا مجھے علم ہوا، وہ چھ ماہ کی عام قید کی سزا تھی۔ ایک معاملے میں مجرم کو ضمانت کے ساتھ ’’پروبیشن‘‘ پر رکھا گیا تھا۔ ایسے معاملات میں پروبیشن کے تصور سے یہ رپورٹر ناواقف تھا۔

دھولپور کی مثال کوئی انوکھی مثال نہیں ہے۔ ٹونک ضلع کے صدر مقام میں ایس سی/ایس ٹی خصوصی عدالت میں ہمیں معلوم ہوا کہ سزا سنائے جانے کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے۔

اعداد و شمار پر تو کافی گفتگو ہو چکی۔ لیکن کسی دلت کو عدالت سے رجوع کرنے کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں، اس عمل میں اسے کن خطرات کا سامنا ہے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔

دو حصوں پر مشتمل یہ اسٹوری سب سے پہلے ۱۳ جون ۱۹۹۹ کو دی ہندو میں شائع ہوئی تھی۔ اس اسٹوری کو انسانی حقوق کی صحافت کے لیے پہلے ایمنیسٹی انٹرنیشنل گلوبل ایوارڈ سے اس کے افتتاحی سال ۲۰۰۰ میں نوازا گیا تھا ۔

مترجم: شفیق عالم

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam