مغربی اڑیسہ کے نیامگیری کے گھنے جنگلوں میں مقامی لوگوں کے لیے سیدھا اور مفید مطلب سوال یہ ہے کہ پہاڑ میں کان کنی کی جانی چاہیے یا نہیں۔ انہیں اس بات سے مطلب نہیں کہ مئی ۲۰۱۴ کے بعد ہندوستان پر کون حکومت کرے گا۔

پچھلے سال جولائی اور اگست کے مانسون کے دنوں میں جنگلوں میں رہنے والے گوڈا اور کوندھ برادریوں کی ۱۲ گرام سبھاؤں نے، جنہیں سپریم کورٹ کے حکم سے قائم کیا گیا تھا، باکسائٹ کی کان کنی کے لیے ہموار پہاڑی سلسلے کو کھودنے کے منصوبے کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ ۷ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلی اس کان سے لنجی گڑھ میں واقع ریفائنری کو ۷۲ ملین ٹن خام باکسائٹ فراہم کیا جانا تھا۔ اس ریفائنری کو سال ۲۰۰۷ میں ویدانتا ایلومینیم لمیٹڈ کے زیر اہتمام کمیشن کیا گیا تھا، جس کا منصوبہ نیامگیری میں کان کنی کرکے اور پھر اسے ۶۰ کلومیٹر کے دائرے میں باکسائٹ سے بھرپور دیگر پہاڑی چوٹیوں تک وسعت دے کر ایلومینیم کی سالانہ پیداوار ایک سے ۶ ملین ٹن تک بڑھانے کا منصوبہ تھا۔

اجیروپا ان بستیوں میں سے ایک ہے، جہاں گرام سبھا نے نیامگیری کی کان کنی کو مسترد کر دیا تھا۔ یہاں کی ایک حالیہ صبح کے دوران قومی انتخابات کا کوئی نشان نظر نہیں آیا۔ ان انتخابات کو ہندوستان کے اہم ترین انتخابات میں سے ایک کہا جا رہا ہے اور ان کی ووٹنگ میں محض چند دن باقی ہیں۔ سرخی مائل بھورے مٹی کے گھروں کی دیواروں پر کسی امیدوار کے پوسٹر نہیں چپکائے گئے ہیں۔ نہ تو اس گاؤں میں بجلی، پینے کا پانی یا پکی سڑک ہے اور نہ ہی ہر رات شور مچانے والے پرائم ٹائم ٹیلی ویژن کے مباحثے ہیں۔

PHOTO • Chitrangada Choudhury

اجیروپا کی رہنے والی پاروتی گوڈا نے زمین پر بچھے ہلکے پیلے رنگ کے مہوا کے پھلوں کی چادر کو ان کی مسحور کن میٹھی خوشبو کے درمیان اکٹھا کرتے ہوئے یہ کہنے کے لیے وقفہ لیا تھا کہ وہ اپنے پارلیمانی حلقے کے ۱۵ امیدواروں سے لاعلم تھیں۔ پہاڑوں، جنگلوں اور ۴۰۰۰ سے زیادہ گاؤں کا ایک وسیع دیہی علاقہ اور اس کی بستیاں کالاہانڈی اور نواپاڑہ کے اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ’’میں کہنا چاہوں گی کہ ہم نہیں چاہتے کہ ویدانتا ہم سے ہمارا پہاڑ چھین لے۔‘‘ گوڈا کا کنبہ اپنے پہاڑی کھیتوں میں کپاس، سورج مکھی، چاول اور سبزیاں کاشت کرتا ہے، پانی کے کسی دوسرے ذرائع کی عدم موجودگی میں سال بھر بہنے والی دھارائیں ان کی فصل کو سیراب کرتی ہیں۔ جنگل خوراک اور آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں، جبکہ مذہبی عقائد اور اعمال فطرت کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کا ماحولیات پر انحصار بہت گہرا ہے۔

پھولڈومر کی اونچی پہاڑیاں مکمل طور پر ڈونگریا کوندھ قبائل سے آباد ہیں۔ عام طور پر خاموش رہنے والے یہ لوگ انتخابات کے بارے میں سوالات کرنے پر بے حسی اور ویدانتا کے بارے میں غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ ’’کسے ووٹ دینا چاہیے:  ہاتھ یا شنکھ یا ہاتھی کو (یہ بالترتیب کانگریس، بیجو جنتا دل اور بہوجن سماج پارٹی کے انتخابی نشان ہیں)،‘‘ کُوئی میں اپنے دائیں کندھے پر کلہاڑی رکھے ایک نوجوان نے پوچھا۔ اس دوران پوجا کے لیے گاؤں کے ڈھول کی تھاپ فضا میں گونج رہی تھی۔ ’’ویدانتا کے خلاف کون ہے؟‘‘ ابھی تک کوئی امیدوار یہاں ووٹ مانگنے کے لیے نہیں آیا تھا۔ اس بستی کی طرف جانے والی کچی سڑکوں سے متصل جو تین عمارتیں ویدانتا کے سی ایس آر آوٹ ریچ کے تحت بنوائی گئی تھیں، ٹوٹی پھوٹی اور لاوارث حالت میں کھڑی تھیں۔ مشتعل دیہاتیوں نے ان پر  بظاہر کلہاڑیوں سے حملہ کیا تھا۔

نیچے لانجی گڑھ میں انتخابی مہم کی ایک جیپ سڑکوں پر کبھی کبھی دوڑتی نظر آ جاتی تھی، جس میں نصب لاؤڈ اسپیکروں سے گانے بجائے جا رہے تھے۔ ان گانوں میں امیدواروں کی بجائے دیہی ووٹروں میں رسمی خواندگی کی عدم موجودگی کے حوالے سے علامتوں پر زور دیا گیا تھا۔ لانجی گڑھ پولیس اسٹیشن میں سی آر پی ایف کی بیرکوں کے سامنے اور ریفائنری سے تھوڑے فاصلے پر، تھکے ماندے پولیس والوں نے خبروں سے نظر ہٹا کر اس چارٹ کو دکھایا جس میں پہاڑوں میں پولنگ والے علاقوں کو ایچ ایس، یعنی انتہائی حساس یا نکسل سے متاثرہ علاقے کے طور پر نشان زد کیا گیا تھا۔ کالاہانڈی حلقہ کے ۲۴ مکمل طور پر ناقابل رسائی بوتھوں میں سے ۲۲ لانجی گڑھ حلقہ میں آتے ہیں۔

PHOTO • Chitrangada Choudhury

نیامگیری کی گرام سبھا نے کئی معنوں میں ہندوستان کی پہلی ماحولیاتی استصواب رائے حاصل کی ہے، اور سابقہ درجہ بندی (ہائی رارکی) کے خاتمے اور ایک باضابطہ طاقت کے ابھرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ گرام سبھا میں لوگوں کے اظہار خیال نے آخر کار اس جنوری میں ماحولیات اور جنگلات کی وزارت کو باکسائٹ کی کان کنی کی اجازت کو مسترد کرنے پر مجبور کیا۔  اِسترداد کے اس عمل سے بشمول اڑیسہ ملک کے متعدد وسائل سے مالا مال علاقوں میں ایک وسیع تر تنازعہ کو بہت بڑی راحت ملی ہے۔

ایک دہائی پر محیط یو پی اے کے دور حکومت کے ذریعہ منظور شدہ دو نئے قوانین، حقوق جنگلات قانون (جس کے تحت سپریم کورٹ نے گرام سبھا کے قیام کا حکم دیا تھا) اور حق اطلاعات قانون، مقامی برادریوں کو سوالات اٹھانے اور رائے دینے کے لیے بااختیار بنا کر فیصلہ سازی کے عمل کو مزید جمہوری بنایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں غیرمنظم اور غیر متوقع بھی بنا رہے ہیں۔ غیر ریاستی اداکاروں کی طرف سے کارپوریٹ کارگزاریوں کی زیادہ جانچ پڑتال مقامی آبادیوں کے خلاف دھاندلی اور ان کے وسائل کے یکطرفہ حصول میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔

مزید یہ کہ حکومتیں اور کمپنیاں بڑے اقتصادی منصوبوں کے تحت معدنیات سے بھرپور علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کچھ وسائل، جیسے کوئلہ، ہندوستان کی بڑھتی ہوئی صنعتی اور صارفین کی بجلی کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ دیگر، مثلاً خام لوہا، منافع بخش خام برآمدات کے ذریعے دولت اور طاقت کے حصول کا ایک غیر قانونی اور فوری راستہ پیش کرتے ہیں، جیسا کہ اڑیسہ، کرناٹک اور گوا کے لیے قائم شاہ کمیشن کے نتائج نے اشارہ کیا ہے۔

کالاہانڈی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ اور کانگریس امیدوار بھکت چرن داس کے مطابق بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ تنازعات بھی ناگزیر ہو گئے ہیں۔ ’’لیکن گرام سبھائیں حکومت اور صنعت کی توجہ مبذول کراتی ہیں۔‘‘

سال ۱۹۹۶ میں لوک سبھا میں اپنی ایک تقریر میں چندر شیکھر حکومت میں ریلوے کے سابق وزیر بکت چرن داس نے کالاہانڈی میں ایلومینیم پلانٹ لگانے کی پرزور وکالت کی تھی۔ انہوں نے اب کہا کہ وہ نیامگیری میں کان کنی کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کی بجائے زرعی بنیادوں پر مبنی صنعتوں کی حمایت کرتے ہیں، ’’جو ضلع کی سالانہ زرعی پیداوار کی ۶۰۰۰ کروڑ روپے کی مالیت میں اضافہ کر سکتی ہے۔‘‘ بھکت چرن، جو راہل گاندھی کو ۲۰۰۸ میں نیامگیری کے اجیروپا جیسے علاقوں کے دورے پر لے آئے تھے، نے اپنے بدلے ہوئے موقف کا دفاع کیا: ’’میں نے کبھی نہیں کہا کہ صنعت کاری کو اندھا اور سفاک ہونا چاہیے۔ جب میں نے تقریر کی تھی تو مجھے غربت میں کمی کی فکر تھی۔ جب میں نے قبائل کے بے ساختہ احتجاج کو دیکھا اور ان جنگلات کا دورہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ان کی قیمت پر کان کنی نہیں ہو سکتی۔‘‘

یہ صرف دور افتادہ خود کفالتی جنگل کی معیشتیں ہی نہیں ہیں جو ہندوستان کی سب سے زیادہ کان کنی والی ریاست (جہاں ملک کے باکسائٹ کا ۶۰ فیصد، اس کے لوہے کا ایک تہائی اور کوئلہ کا ایک چوتھائی حصہ ہے) میں بھاری سرمایہ کاری والی بڑی صنعتوں کے لیے چیلنج پیش کر رہی ہیں، بلکہ خوشحال زرعی آبادی والے گاؤں بھی کان کنی کے لیے اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے خواہاں نہیں ہیں، جیسا کہ ریاست کے ساحلی علاقوں میں دیکھا گیا ہے۔ یہاں پوہانگ اسٹیل کمپنی یا پوسکو کے ذریعے اسٹیل پلانٹ کی تعمیر کے لیے تحویل میں لیے جانے والے گاؤوں میں آٹھ سال سے احتجاج جاری ہے۔ یہ منصوبہ ملک کی سب سے بڑی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے، اور اسے وزیر اعظم کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

پچھلے ہفتے، وہاں سے مغرب کی جانب، کوئلے سے مالا مال انگل ضلع کے چھینڈی پاڑہ بلاک میں، ۹ گاؤوں نے اجتماعی طور پر فیصلہ کیا کہ وہ ۱۰ اپریل کو ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ ان کے مطالبے پر توجہ مبذول کرانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا کہ زمین کے حصول کے نئے قانون کے تحت ان کے علاقے میں گرام سبھا کا قیام عمل میں آنا چاہیے، جہاں وہ کوئلے کی کان کے لیے اپنی زمینوں کے حصول کی مخالفت کا باضابطہ اظہار کر سکیں۔ یکم جنوری ۲۰۱۴ سے لاگو ہو رہے نئے قانون میں زمین مالکان کی رضامندی کے اہتمام کو متعارف کرایا گیا ہے۔

کوئلے کی وزارت کے دستاویزات میں، ۲۵۰۰ سے زیادہ رہائشیوں والے ۹ گاؤوں کو مستطیل نما ماچھاکاٹ کول بلاک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس بلاک کی کان کنی گجرات میں واقع اڈانی کے صنعتی گھرانے کے ذریعے کی جائے گی۔ اس کا مقصد مہاراشٹر اور گجرات کے لیے بجلی پیدا کرنا ہوگا۔ سال ۲۰۱۲ کے ایک چھوٹے آن لائن پریزنٹیشن میں اڈانی کے منصوبے کے تحت پچھلے سال ماچھاکاٹ میں پیداوار کی شروعات کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت کمپنی کے کوئلے کی کان کنی اور تجارت کو ۲۰۱۲ میں ۳۶ ملین ٹن سالانہ سے بڑھا کر ۲۰۲۰ میں ۳۰۰ ملین ٹن سالانہ تک کرنا ہے۔

چِھنڈی پاڑہ کے کسانوں کے خیالات کچھ اور ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں سڑکوں پر رکاوٹیں اور رہائشیوں کے احتجاج، جو اکثر پرتشدد ہو جاتے ہیں، نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انتظامیہ کان کے لیے ماحولیاتی کلیئرنس کے طریقہ کار کے حصے کے طور پر عوامی سماعت منعقد کرنے سے قاصر ہے۔

نیامگیری کے کوندھوں کے بالکل برعکس، جن میں سے بہت کم لوگوں نے اسکول کی تعلیم حاصل کی تھی یا وہ قانون کی باریکیوں اور حکومت سے مقابلہ کرنے والے حربوں میں دلچسپی رکھتے تھے، بگڈیا کے کالج کے تعلیم یافتہ باشندوں نے پالیسی میں تبدیلیوں کو قریب سے دیکھا۔ انہوں نے انٹرنیٹ سرف کیا، معلومات کے حق کی درخواستیں دائر کیں، عدالتوں کا رخ کیا اور یہ ٹریک کیا کہ کون سی پارٹی کیا کہہ رہی ہے۔ ’’حصول اراضی کا نیا قانون پاس ہو چکا ہے، لیکن ہمارے مقامی کانگریس ایم پی اس کی حمایت کیوں نہیں کر رہے؟‘‘ بگڈیا کے رہائشی اور انجینئرنگ لیکچرر ستیہ برت پردھان نے ایک حالیہ دوپہر کو ایک انٹرویو میں وضاحت کی کہ ان کے گاؤں سمیت ۹ دیگر گاؤوں اپریل میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کریں گے۔ ’’نئے قانون کے تحت گرام سبھا کی رضامندی کی شق کو ہم پر لاگو ہونے دیں۔ اگر ۷۰ فیصد باشندے کان کے لیے ہاں کہتے ہیں، تو ہم بے گھر ہونے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

PHOTO • Chitrangada Choudhury

بگڈیا دھان اور سبزیوں کے کھیتوں اور آم اور کاجو کے بڑے باغات پر مشتمل ہے، جن میں ملحقہ کوسل ریزرو فاریسٹ سے ہاتھیوں کے جھنڈ اکثر آتے رہتے ہیں۔ آج دوپہر کو یہاں کے باشندوں کی عوامی دعوت تھی۔ اس دعوت میں انہوں نے گاؤں کے مندر کے باہر صاف ستھرے صفوں میں بیٹھ کر پتوں کی پلیٹوں میں چاول، دال کے ساتھ سبزی یا دالما اور ٹماٹر کی چٹنی کھائی تھی۔ اپنے پکے مکانات اور دو اور چار پہیوں والی گاڑیوں کے ساتھ احتجاج کرنے والے کسان ایک دیہی متوسط طبقے کی نمائندگی کرتے تھے، جو غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی پر اتنی ہی حقارت کا اظہار کر رہے تھے، جتنی پارٹیوں کے سیاست دانوں اور صنعت کاروں کے نجی سودے پر، جس میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے ایک دوسرے کو امیر بنا رہے تھے (’’مودی اڈانی کا جیٹ کیوں استعمال کرتے ہیں؟‘‘ ایک مقامی باشندے نے میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا)۔

’’ہم ہیرا کنڈ (مغربی اڑیسہ کا بڑا ڈیم جسے آزادی کے بعد تعمیر کیا گیا تھا) کے دور سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ اس وقت کسانوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ ملک کے لیے قربانی دیں اور بے دخل ہو جائیں،‘‘ یہ کہنا ہے کالاہانڈی کے رہنے والے اور کاشتکاروں کے قومی کمیشن کے سابق ممبر جگدیش پردھان کا، جو دیہی اڑیسہ میں خواہشات اور حقوق کی بدلتی ہوئی بنیادوں کا حوالہ دے رہے تھے۔ ’’اب ایک احساس بڑھ رہا ہے کہ کان کنی وہ ملازمتیں یا خوشحالی پیدا نہیں کرتی جس کا مقامی لوگوں سے وعدہ کیا جاتا ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۲-۱۳ کے اقتصادی سروے کے ریاستی اعداد و شمار جگدیش پردھان کی دلیل کی تائید کرتے ہیں۔ ریاست میں پیدا ہونے والی معدنیات کی قیمت ۲۰۰۱-۲ میں ۲۷۷۶ کروڑ روپے سے دس گنا بڑھ کر ۲۰۱۱-۱۲ میں ۳۰۲۰۴  کروڑ روپے ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق، اسی مدت میں اس شعبے کی ملازمتیں ۵۲۹۳۷ سے کم ہو کر ۴۸۲۳۹ پر آگئیں، جو کہ مشینوں کے استعمال میں اضافہ کی عکاسی کرتی ہے۔

’’اگر آپ ہماری زمین لینا چاہتے ہیں تو ہمیں متبادل زمین دیں، اور ہم وہاں سے چلے جائیں گے،‘‘ بگڈیا کے باشندے ۳۴ سالہ کسان سجیت گرنائک کہتے ہیں۔ ’’کوئلے کی کان میں عارضی ملازمت کے عوض ہم اس چیز کو کیوں ترک کر دیں جو چیز ہمیشہ ہماری کفالت کرے گی؟‘‘

زیویئر انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے پروفیسر اور ریاستی منصوبہ بندی بورڈ کے سابق رکن بنی کانت مشرا نے دلیل دی کہ حکومت کے سامنے ملازمتیں پیدا کرنے کا سب سے بڑا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی دہائی کے دوران ریاستی حکومت نے اپنے خزانے کے لیے کان کنی کی رائلٹی سے ملنے والی فوری آمدنی پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہے، جبکہ ایک وسیع تر اور زیادہ پائیدار بنیاد کے ساتھ ترقی کا ماڈل تیار کرنے کے زیادہ مشکل کام سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ بنی کانت کہتے ہیں، اگر نوین پٹنائک وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنی چوتھی میعاد کے لیے مئی میں اقتدار میں واپس آئے تو ’’مجھے امید ہے کہ وہ ملازمتوں اور آمدنیوں، خاص طور پر زراعت اور دیہی مہارتوں سے متعلق ملازمتوں، پر زیادہ توجہ مرکوز کریں گے، بجائے اس کے کہ میڈیا کی سرخیاں بننے والے کان کنی کے ایک بڑے پروجیکٹ پر دھیان دیں۔‘‘

اجیروپا کی پاروتی گوڈا سے جب پوچھا گیا کہ وہ اپنے منتخب نمائندے سے کیا چاہتی ہیں تو انہوں نے کہا، ’’ہمارے گاؤں میں ایک کنواں، جس سے ہم ایک بڑی پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔ سورج مکھی کے تیل کے دو ٹِن (ڈبے)، چار ٹن بن جائیں گے۔‘‘

اس کا ایک ورژن ۸ اپریل ۲۰۱۴ کو ’منٹ‘ اخبار میں شائع ہوا، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Chitrangada Choudhury

Chitrangada Choudhury is an independent journalist.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam