۱۹۸۰ کی دہائی میں بنی بالی ووڈ فلم کا ایک گانا، لاؤڈ اسپیکر پر زور سے بجتے ہوئے ہواؤں میں تیرنے لگتا ہے۔ رانی کا کرتب دیکھنے والے اس بار عام ناظرین سے الگ ہیں۔ اس میں سنگھو بارڈر پر احتجاج کرنے والے کسانوں کا ایک گروپ شامل ہے، جن کی تفریح کے لیے وہ ۴۵ منٹ کا ایک اور پرفارمینس کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں:

یہ آنسو، یہ جذبات تم بیچتے ہو
غریبوں کے حالات تم بیچتے ہو
امیروں کی شام غریبوں کے نام

یہ ستمبر ۲۰۲۱ ہے۔ کووڈ۔۱۹ کی دوسری مہلک لہر رک گئی ہے اور ۲۶ سال کے وکرم نٹ، ان کی ۲۲ سالہ بیوی لِل، اور ان کی ۱۲ سال کی سالی، رانی ایک ساتھ مل کر دہلی-ہریانہ سرحد، یعنی سنگھو پر اپنا کرتب دکھا رہے ہیں۔

اپریل ۲۰۲۱ میں وہ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کی شروعات کے بعد، دوسری بار چھتیس گڑھ میں واقع اپنے گاؤں، بڑگاؤں گئے تھے۔ تقریباً ایک مہینہ بعد جب میں ان سے پہلی بار ملا تھا، تب میں کسانوں کے احتجاجی مظاہرہ کو کور کر رہا تھا۔ وہ کسانوں کے لیے پرفارم کرنے، مارچ میں سنگھو چلے آئے تھے۔ وہ اب بھی یہی کرتے ہیں۔

رانی اپنے ہاتھوں میں تقریباً چار کلو کی لکڑی کا ۱۶ فٹ لمبا ڈنڈا پکڑتی ہیں۔ وہ دو کھمبوں (ستونوں) کے درمیان بندھی ۱۸-۲۰ فٹ کی ایک ڈگمگاتی رسی پر ننگے پاؤں چلتی ہیں، اور اپنے سر پر رکھے تین پیتل کے برتنوں کا توازن بناتی ہیں۔ پیتل کے برتنوں کے اوپر ایک چھوٹا پرچم لہراتا رہتا ہے، جس پر لکھا ہے: ’نو فارمرس، نو فوڈ‘ (یعنی کسان نہیں، تو کھانا نہیں)۔

Rani Nat gets ready to walk on the wobbling cable with a plate beneath her feet. She moves with a long wooden staff, balancing brass pots on her head
PHOTO • Amir Malik
Rani Nat gets ready to walk on the wobbling cable with a plate beneath her feet. She moves with a long wooden staff, balancing brass pots on her head
PHOTO • Amir Malik

رانی نٹ اپنے پیروں کے نیچے ایک پلیٹ لیکر ڈگمگاتے کیبل پر چلنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے سر پر پیتل کے برتنوں کو متوازن کرتے ہوئے، لکڑی کی ایک لمبی لاٹھی کے ساتھ چلتی ہیں

دو تین قدم چلنے کے بعد، رانی اپنے پیروں کے نیچے ایک پلیٹ رکھتی ہیں اور، اس اونچی بندھی رسی کے اوپر سائیکل کے پہیہ سے کرتب دکھانے سے پہلے، اسی فاصلہ کو دوبارہ پار کرنے کے لیے اپنے گھٹنوں پر بیٹھ جاتی ہیں۔ اس عارضی رسی پر جو زمین سے ۱۰ فٹ کی اونچائی پر ہے، بار بار وہ تیزی سے اور ایک تال میں، پختہ یکسوئی کے ساتھ، ہوا میں جھولنے لگتی ہیں۔

وکرم نے مجھے بھروسہ دلایا، ’’وہ گرے گی نہیں۔‘‘ وہ موسیقی اور لاؤڈ اسپیکر کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’یہ ہمارا صدیوں پرانا روایتی رقص ہے۔ ایک ایسی قابلیت جو ہمیں کئی نسلوں سے وراثت میں ملی ہے۔ ہم اس میں ماہر ہیں۔‘‘

وکرم اور ان کی فیملی دہلی سے ۱۲۰۰ کلومیٹر دور، چھتیس گڑھ کے جانج گیر چامپا ضلع سے اپنی قلا بازی کے ہنر کے لیے مشہور مہاجر فنکاروں کی دلت برادری، نٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔

وکرم کی بیوی، لِل رسی کے نیچے چل رہی ہیں۔ وہ مجھے یقین دلاتے ہیں کہ رانی کے گرنے کی حالت میں اسے پکڑنے میں وہ ماہر ہے۔ لِل کہتی ہیں، ’’جب میں رانی کی عمر کی تھی، تو میں بھی رسیوں پر ناچتی تھی۔ لیکن اب اور نہیں۔ میرا جسم اب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔‘‘ لِل کے پاس اس کا کافی تجربہ ہے اور ان کے حصے میں بھی رسیوں سے کئی بار گرنا آیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’رانی نے تین سال کی عمر سے مشق کرنی شروع کی اور جلد ہی پرفارم کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘

جہاں تک وکرم کو یاد ہے، بڑگاؤں کے نٹ محلہ میں، وکرم کی فیملی ان چنندہ لوگوں میں شامل رہی ہے، جو پانچ نسلوں سے اس رسی ڈانس کی مشق اور مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ وہ راجستھان، پنجاب اور مدھیہ پردیش میں بھٹکتے رہے ہیں، اور ٹریفک لائٹ پر پرفارم کرکے گزر بسر کر رہے ہیں۔

Left: Lil, Rani (centre) and Vikram moved to Singhu early this year. Right: Rani, 12, started practicing the high-wire dance when she was 3 years old
PHOTO • Amir Malik
Left: Lil, Rani (centre) and Vikram moved to Singhu early this year. Right: Rani, 12, started practicing the high-wire dance when she was 3 years old
PHOTO • Amir Malik

بائیں: لِل، رانی (درمیان میں)، اور وکرم اس سال کی شروعات میں سنگھو چلے آئے۔ دائیں: ۱۲ سال کی رانی نے ۳ سال کی عمر سے ہائی وائر ڈانس کی مشق شروع کر دی تھی

وکرم بمشکل نو سال کے تھے، جب انہوں نے پہلی بار دہلی میں اپنے دادا کو جوائن کیا۔ دہلی میں سینئر فنکار بہت پہلے سے پرفارم کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب نہرو اپنے کوٹ پر گلاب کے ساتھ گھومتے تھے، تب سے۔‘‘

پچھلے سال، وکرم اور ان کی فیملی، مغربی دہلی کے پٹیل نگر ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک جھگی بستی میں رہ رہی تھی، لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں پورے ملک میں لاک ڈاؤن کے اعلان سے کچھ وقت پہلے وہ اپنے گاؤں واپس چلے گئے تھے۔ وکرم کہتے ہیں، ’’ہم نے سنا کہ کوئی کورونا وائرس آیا ہے۔ اور ہمارے جیسے غریب لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی اسپتال یا ڈاکٹر تو ہوگا نہیں۔ وہ امیروں کے علاج میں لگے رہیں گے۔ اس کے علاوہ، بھلے ہی ہمیں مرنا پڑے، ہم اپنے گھروں میں مرنا پسند کرتے ہیں، جہاں ہمارے والدین اور اہل خانہ رہتے ہیں۔‘‘

وکرم نے بتایا کہ جب ان کی فیملی نومبر ۲۰۲۰ میں دہلی واپس آئی، اس سے پہلے اپنے آبائی گاؤں میں ان کے پاس آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا۔ انہوں نے منریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون) کے تحت کام کیا اور پیسہ کمایا، لیکن وہ کافی نہیں تھا۔ بقول وکرم، ’’میں ایک کمرے کے برابر مٹی کھودتا تھا اور اس کے بدلے مجھے مزدوری کے طور پر ۱۸۰ روپے ملتے تھے۔ ہم بچے ہوئے چاول میں پانی ملا کر کھاتے تھے۔ کسی طرح نو مہینے میں آٹھ سے نو ہزار روپے بچا پایا۔ ہم نے اُس سارے پیسے کا استعمال ٹرین سے دہلی واپس آنے کے لیے کیا۔ ٹرین سے آنے کے دوران، جب بھی ہمیں بھوک لگتی تھی، ہم بہت کم کھاتے تھے، تاکہ کھانا جلدی ختم نہ ہو۔‘‘

سال ۲۰۲۱ کے ابتدائی مہینوں میں وکرم اور ان کی فیملی، غازی آباد میں رسی پر کرتب دکھا رہے تھے، لیکن جب انہوں نے دہلی کے سنگھو اور ٹیکری بارڈر پر کسانوں کے احتجاج کے بارے میں سنا، تو وہ لوگ سنگھو بارڈر پر آ گئے۔ انہوں نے سنگھو بارڈر کے احتجاج کے مقام کے پاس ہی ایک کمرہ ۲۰۰۰ روپے ماہانہ کرایے پر لیا۔ فیملی یہیں رہ کر اپنا کرتب دکھانے لگی۔ حالانکہ، وکرم اور ان کی فیملی زراعت سے جڑی ہوئی نہیں ہے، لیکن وکرم کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کی اس لڑائی کو سمجھتے ہیں۔ وکرم نے بتایا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے پاس زمین تھی یا نہیں، لیکن ہماری فیملی میں کہتے تھے کہ ہمارے آباء و اجداد کاشت کاری کیا کرتے تھے۔ ہمارے آباء و اجداد نے زمینوں کو فروخت کر دیا یا پھر دوسرے لوگوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: سنگھو بارڈر پر کرتب دکھاتے ہوئے: چھتیس گڑھ کے نٹ فنکار، کسانوں کی احتجاجی تحریک میں پرفارم کرتے ہوئے

لِل بتاتی ہیں کہ عام طور پر لوگ ان کے ساتھ غلط طریقے سے پیش آتے ہیں، لیکن سنگھو بارڈر پر ان کا تجربہ بالکل الگ رہا ہے۔ ’یہاں کسان بہت پیار سے ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں‘

وکرم نے بتایا کہ پہلے وہ رسی پر چلنے والا کرتب دکھا کر، عام طور پر روزانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے کما پا رہے تھے، لیکن سنگھو بارڈر پر وہ ایک دن میں ۸۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ لِل نے بتایا، ’’ہم یہاں پیسہ کمانے آئے تھے، لیکن اب ہم کسانوں کا ساتھ دینے کی ضرورت کو سمجھ چکے ہیں۔ ہم کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ میں بھگوان سے پرارتھنا کرتی ہوں کہ جن مطالبات کو لیکر کسانوں کو یہاں آنا پڑا ہے، وہ سبھی مطالبات پورے ہو جائیں۔‘‘ وکرم نے بتایا کہ وہ سنگھو بارڈر پر پورے دل سے کسان تحریک کے تئیں یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے پرفارم کر رہے ہیں۔ سبھی کسان ستمبر ۲۰۲۰ میں پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے سبھی زرعی قوانین کی پرزور مخالفت کر رہے ہیں۔‘‘

احتجاج کے مقام پر موجود کسان ان کے ساتھ دہلی کے دیگر لوگوں کی طرح بھید بھاؤ نہیں کرتے ہیں۔ انہیں وہ وقت یاد آتا ہے، جب رانی پہلی بار شہر آئی تھیں اور میٹرو کی سواری کرنا چاہتی تھیں، لیکن وہ کئی بار کوشش کرنے کے بعد بھی انہیں میٹرو ٹرین میں نہیں لے جا سکے۔ وکرم کے مطابق، ’’میٹرو اسٹیشن پر تعینات سیکورٹی گارڈ نے ہمیں اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ’تم لوگ گندے دکھائی دیتے ہو‘۔‘‘ ایسا تب ہوا، جب انہوں نے صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے اور صرف اسی لیے آئے تھے کہ کسی طرح میٹرو ٹرین میں سواری کر پائیں۔ لیکن انہیں میٹرو ٹرین میں بیٹھنے کو نہیں ملا۔ اس کے بعد انہوں نے خود ہی گاڑی جوڑی اور اس میں ایک موٹر لگا دیا، جس سے اپنے ساز و سامان لے جا سکیں۔ وکرم کہتے ہیں، ’’یہ ہماری میٹرو کی سواری تھی۔ ہمارے پاس اپنی گاڑی ہے، اور ہم اس میں بیٹھ کر دہلی دیکھ لیتے ہیں۔‘‘

وکرم نے اپنی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، ’’ہم جب بھی پارکوں اور بازار میں اپنا کرتب دکھاتے ہیں، تو لوگ ہمیں وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔ جب ٹریفک لائٹ پر گاڑیاں رکتی ہیں، تو اس وقت ہم سڑک کے کنارے کرتب دکھاتے ہیں۔ لوگ ہمارے کرتب کو دیکھ کر، ہمیں ۱۰ روپے دیتے ہیں، جسے پا کر ہی ہم خوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن، کئی بار ہمیں اتنا پیسہ بھی نہیں مل پاتا ہے، کیوں کہ لوگ ہمیں وہاں سے بھگا دیتے ہیں۔‘‘

حالانکہ، یہاں سنگھو بارڈر پر اس فیملی کا تجربہ بالکل الگ رہا ہے۔ جہاں دوسری طرف لوگ ان سے برے طریقے سے پیش آتے ہیں، لِل کا کہنا ہے کہ ’’یہاں آندولن کرنے والے کسان بہت پیار سے ہماری مہمان نوازی کرتے ہیں۔ کسان ہمیں ایسا کھانا کھلاتے ہیں، جیسے ہم ان کی فیملی سے ہوں۔ دوسری جگہوں پر ہمیں ڈانٹ کر بھگا دیا جاتا ہے، لیکن یہاں پر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔ جتنی عزت ہمیں یہاں ملی ہے، اتنی کہیں اور نہیں ملی۔‘‘

A flag fluttering on the pots atop Rani's head says, 'No Farmers, No Food'. It expresses the Nat family's solidarity with the protesting farmers
PHOTO • Amir Malik

تصویر میں رانی کے سر پر رکھے برتنوں کے اوپر ایک پرچم لہرا رہا ہے، جس پر لکھا ہے، ’نو فارمرس، نو فوڈ‘ (یعنی کسان نہیں، تو کھانا نہیں)۔ یہ تحریک چلا رہے کسانوں کے ساتھ نٹ فیملی کی یکجہتی کو دکھاتا ہے

لِل کہتی ہیں، ’’دنیا ہمارے جذبات کو نہیں سمجھتی۔ میڈیا کے لوگ بھی ہم سے کنارہ کرتے ہیں۔ اس لیے، ہم ان سے بات نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں برے تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس ہمیں جیلوں میں بند کر دیتی ہے۔ جیل کے اندر صرف ہمارا جسم ہوتا ہے اور ان کی لاٹھیاں ہوتی ہیں۔‘‘

وکرم نے شکایت بھرے لہجہ میں بتایا، ایک بار وہ لوگ سنگھو بارڈر سے تقریباً ۷ کلومیٹر دور نریلا میں رسی پر کرتب دکھا رہے تھے، ’’تبھی پولیس آئی اور ہماری دو دن کی کمائی یہ کہہ کر ہم سے چھین لی کہ ہم اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔‘‘ ایک بار تو ایسا ہوا کہ پولیس انہیں چوری کے شک میں غازی آباد کی جیل میں لے گئی۔ انہوں نے پولیس کو کہا کہ ’’اگر چرانا ہوگا تو امبانی کا المیرہ چرائیں گے۔ لیکن پولیس والوں نے مجھے بے رحمی سے پیٹا۔‘‘

کسان دوسروں سے بالکل الگ ہیں۔ وکرم نے بتایا، ’’وہ نہ تو ہمیں کبھی الٹا سیدھا بولتے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہاں سے بھگاتے ہیں۔ صرف جب اسٹیج پر گرو گرنتھ صاحب کا پاٹھ ہوتا ہے، تو وہ نرمی سے ہمیں ہمارے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کم کرنے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘

سنگھو بارڈر پر وہ صرف ۵ مہینے ہی رُک پائے، کیوں کہ کورونا وبائی مرض کی دوسری لہر سے بچنے کے لیے انہیں گاؤں جانا پڑا۔ حالانکہ، ستمبر میں جب وہ واپس آئے، تو وہ کمرہ اب خالی نہیں ہے جسے انہوں نے کرایے پر لیا تھا۔ احتجاج کے مقام پر کسانوں نے جو چھوٹے گھر اور ٹینٹ بنا رکھے تھے، وہ ابھی بھی اسی جگہ پر ہیں۔ ٹریکٹر اور ٹرالی سے لوگ ابھی بھی وہاں آنا جانا جاری رکھتے ہیں۔ لیکن، ابھی کھیتی کا سیزن چل رہا ہے، اس لیے پہلے کے مقابلے یہاں پر کم لوگ ہیں۔ اس وجہ سے اب وکرم کی فیملی کی کمائی گھٹ گئی ہے۔

اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے وکرم کی فیملی کو آس پاس کے علاقوں میں جا کر کرتب دکھانا پڑتا ہے۔ حالانکہ، ابھی بھی وہ سنگھو بارڈر کے پاس ہی رہتے ہیں۔ ہفتہ میں تین دن وہ کسانوں کے لیے رسی پر کرتب دکھاتے ہیں، تاکہ کسانوں کی طویل عرصے سے چل رہی اس لڑائی کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique