سرد ہوا چل رہی ہے۔ بارش کی وجہ سے سڑک پر جمے گرد و غبار کیچڑ بن چکے ہیں۔ سنگھو کے احتجاجی مقام تک جانے والے تنگ راستے میں کہیں کہیں پانی جما ہوا ہے۔ لوگ اس راستے پر پانی اور کیچڑ سے بچ نہیں سکتے جس سے ان کے جوتے اور سینڈل گندے ہو جاتے ہیں۔

جب لوگ ہریانہ-دہلی بارڈر پر واقع، سنگھو کے احتجاجی مقام پر موجود مختلف کسان تنظیموں کے گروہ ’سنیکت کسان مورچہ‘ کے اسٹیج کو پار کرتے ہیں، تو انہیں کچھ راحت ملتی ہے۔ احتجاج کے مقام سے تقریباً ۱۰۰ میٹر پر جسوندر سنگھ سینی اور پرکاش کور ان کی خدمت میں پورے انہماک سے لگے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے گندے جوتوں کی صفائی اور پالش کرتے ہیں۔

۶۲ سالہ جسوندر دستکاری کے سامانوں کے ایکسپورٹر ہیں۔ جسوندر کہتے ہیں، ’’سال ۱۹۸۶ میں جب ہم ماں باپ بنے تھے، اسی دن میں نے خود کو انسانیت کے تئیں وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘‘

تقریباً ۳۵ سالوں سے، یہ جوڑا گرودواروں میں خدمت کرنے جاتے ہیں۔ وہ خاص طور سے وہاں آنے والے عقیدت مندوں کے جوتے صاف کرتے ہیں۔ ان کی فیملی میں کل چار لوگ ہیں اور وہ سب دہلی میں رہتے ہیں۔ ہریانہ کے انبالہ ضلع کے نارائن گڑھ میں ان کی ۲۰ ایکڑ زمین ہے۔

کئی دہائیوں سے ’سیوا دار‘ (گرودواروں یا عوامی پروگراموں میں خدمات انجام دینے والے رضاکار) کی طرح کام کرنے والے جسوندر کہتے ہیں، ’’میری بیوی، میری شریک حیات نے امید سے زیادہ خدمت کی ہے۔‘‘ جس وقت جسوندر بات کر رہے تھے، پرکاش کور، جن کی عمر ۵۰ سال کے آس پاس ہے، ایک جوڑی جوتوں کی صفائی میں لگی ہوئی تھیں۔

ویڈیو دیکھیں: سنگھو بارڈر پر خدمت کے طور پر متعدد جوتوں کی مفت صفائی

یہ جوڑا انسانیت کی مثال بنے ان بے شمار لوگوں میں شامل ہے جو دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے کسانوں کے درمیان الگ الگ طرح سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سینی فیملی کی طرح تمام رضاکار اور خود کسانوں کے ذریعے کی جا رہی خدمات بھی یکجہتی ظاہر کرنے کا ذریعہ بن چکی ہیں۔

سنگھو اور دہلی کے آس پاس احتجاج کے دیگر مقامات پر، لاکھوں کسان تین زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ پر مبنی تین قوانین ہیں۔

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

ان قوانین کی مخالفت میں احتجاج کر رہے کسان گزشتہ دو مہینے سے ملک کی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ریاستی امداد کی تجویزوں کو ٹھکرا دیا ہے، اور حالیہ برسوں کے سب سے سرد دنوں میں وہ ایک دوسرے کو روٹی کھلا رہے ہیں اور آپسی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ایسے مشکل وقت میں یہاں فراہم کی جانے والی ہر خدمت انمول ہے۔

'I cannot usually sit for one hour straight. But once we come here, I clean shoes for six hours and feel no pain while doing so,' says Jaswinder, who suffers from chronic back pain. 'I am a daughter of farmers. I cannot see them in pain. I polish their shoes', says Prakash
PHOTO • Amir Malik
'I cannot usually sit for one hour straight. But once we come here, I clean shoes for six hours and feel no pain while doing so,' says Jaswinder, who suffers from chronic back pain. 'I am a daughter of farmers. I cannot see them in pain. I polish their shoes', says Prakash
PHOTO • Amir Malik

لمبے عرصے سے پیٹھ درد سے پریشان جسوندر کہتے ہیں، ’عام طور پر، میں لگاتار ایک گھنٹہ تک سیدھا نہیں بیٹھ سکتا۔ لیکن ایک بار جب ہم یہاں آ جاتے ہیں، تو میں چھ گھنٹے تک جوتے صاف کرتا ہوں اور ایسا کرتے ہوئے مجھے کوئی درد نہیں ہوتا۔‘ پرکاش کہتی ہیں، ’میں کسانوں کی بیٹی ہوں۔ میں انہیں درد میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں ان کے جوتے پالش کرتی ہوں‘

جسوندر کہتے ہیں، ’’ہر کوئی کچھ نہ کچھ کرکے یا کسی کام میں لوگوں کی خدمت کر رہا ہے – کسانوں کے لیے لنگر، طبی نگہداشت، ٹینٹ، رین کوٹ، اور دیگر ضروری چیزوں کا انتظام کرکے۔ ہم جو کام گزشتہ تین دہائیوں سے کر رہے ہیں اور جو کام ہمیں سب سے بہتر طریقے سے کرنا ہے، اسی کے سہارے کسانوں کی خدمت کر رہے ہیں۔‘‘

پرکاش کہتی ہیں، ’’میں کسانوں کی بیٹی ہوں۔ میں انہیں درد میں نہیں دیکھ سکتی۔ میں ان کے جوتے پالش کرتی ہوں۔‘‘ پرکاش کے والدین اور ان کی فیملی ہریانہ کے کروکشیتر میں رہتی ہے۔

لمبے عرصے سے پیٹھ درد سے پریشان رہنے والے جسوندر کہتے ہیں، ’’میں عام طور پر ایک گھنٹہ تک سیدھے نہیں بیٹھ سکتا۔ لیکن ایک بار جب ہم یہاں آتے ہیں، تو میں چھ گھنٹے تک جوتے صاف کرتا ہوں اور ایسا کرنے میں کوئی درد نہیں ہوتا ہے۔‘‘

جسوندر، پاس سے گزرنے والے لوگوں سے ان کے جوتے مانگتے رہتے ہیں، جن میں سے کچھ شروع میں جھجکتے اور شرماتے ہیں – ’’اوئے، جوتوں کی اپنی جوڑی یہاں دے دو۔ چمکا دوں گا۔ اوئے، لاؤ دو!‘‘

جسوندر ایک بزرگ کسان کو آواز لگاتے ہیں، جو پس و پیش میں ہیں کہ اپنے جوتے انہیں دیں یا نہ دیں: ’’بابا جی، لاؤ جی لاؤ، کوئی گل نہیں جی [بابا جی، انہیں مجھے دے دو، کوئی دقت نہیں ہے]۔‘‘ وہ ان کے جوتوں کو اچھی طرح پالش کرکے چمکا دیتے ہیں۔

جسوندر، پاس سے گزرنے والے لوگوں سے کہتے ہیں، ’’تم ایک انسان ہو اور میں بھی ایک انسان ہوں۔ گندے جوتے کیوں پہنتے ہو؟‘‘ مان جانے پر، وہ اپنے جوتے اتار کر انہیں دے دیتے ہیں۔ ان کو ایسا کرتا دیکھ جسوندر اور پرکاش اپنی اس چھوٹی سی کامیابی پر ان کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہیں۔

دونوں کو اس طرح خدمت کرتے دیکھ کچھ کسان بھی ان کا ساتھ دینے آ گئے ہیں۔ سنگھو بارڈر پر پنجاب کے دو نوجوان اور دوسرے بزرگ لوگ بھی ہیں، جو لوگوں کے جوتے صاف کرتے ہیں۔ یہ ان کی یکجہتی کے جذبے کو علامتی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔

Their helping hands are among countless forms of free sewa – service to humanity – on offer at the gates of Delhi. These are now services in solidarity too, from the farmers themselves and from other volunteers like the Sainis
PHOTO • Amir Malik
Their helping hands are among countless forms of free sewa – service to humanity – on offer at the gates of Delhi. These are now services in solidarity too, from the farmers themselves and from other volunteers like the Sainis
PHOTO • Amir Malik

یہ جوڑا انسانیت کی مثال بنے ان بے شمار لوگوں میں شامل ہے جو دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے کسانوں کے درمیان الگ الگ طرح سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سینی فیملی کی طرح تمام رضاکار اور خود کسانوں کے ذریعے کی جا رہی خدمات بھی یکجہتی ظاہر کرنے کا ذریعہ بن چکی ہیں

جسوندر خود کو تاجر اور کسان دونوں مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’نوٹ بندی، جی ایس ٹی [گڈس اینڈ سروسز ٹیکس] جیسے قدموں اور بڑے کاروباروں کے لیے راستہ آسان کرنے کے ساتھ، سرکار نے ثابت کر دیا ہے کہ اسے صرف بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی پرواہ ہے۔‘‘

جسوندر آگے کہتے ہیں، ’’وجے مالیہ، نیرو مودی، اور ایسے دوسرے لوگ مفرور کی طرح ملک سے بھاگ گئے اور یہ اب تین قانون امبانی اور اڈانی کے لیے بنائے گئے ہیں، جس سے وہ ہماری جان لے سکیں۔ سرکار کو انسانیت کی پرواہ نہیں ہے۔ ہم کسان ہیں، ہمیں پرواہ ہے۔‘‘

پرکاش کہتی ہیں، ’’ہمارے مرنے کے بعد، کیا ہمارا پیسہ ہمارے ساتھ جاتا ہے؟ نہیں، صرف کرم (یعنی اعمال) جاتے ہیں۔ اس لیے ہم خدمت کرتے ہیں۔‘‘

’’اور گرو گووند سنگھ نے ہمیں سکھایا کہ اگر کسی کے خلاف کوئی ظلم کیا جا رہا ہے، تو ہمیں اس کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے، تو ہمیں اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔ کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ، ظلم و استحصال کے خلاف لڑائی ہے۔‘‘

صفائی کے لیے اپنے جوتے دینے والے لوگ، جوتے صاف ہونے کے دوران بغل میں رکھے گتے پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کے پیروں میں کیچڑ نہیں لگتا۔ جوتے پالش کرنے کے بعد آدمی کو ان کے جوتے واپس کرتے ہوئے، جسوندر اور پرکاش احترام میں اپنا سر جھکا لیتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez