وکاش یادو اور لکشمن سنگھ جب اپنی بیل گاڑیوں سے کملا مارکیٹ پہنچے، تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن کے قریب اس پرشور ٹرانسپورٹ مرکز میں وہ تقریباً ہر روز مختلف قسم کے تجارتی مال پہنچاتے ہیں۔ یہ مال وہ عام طور پر شمال وسطی دہلی کے سبزی منڈی ریلوے اسٹیشن کے نزدیک واقع پرتاپ نگر سے لے کر آتے ہیں۔

ان دونوں علاقوں کے درمیان تقریباً چھ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس فاصلے کو کم کرنے کے لیے ٹرانسپورٹرز جو مال ٹرینوں اور ٹرکوں کے ذریعہ لاتے ہیں، ان کی ڈھلائی کے لیے وہ کرایے کی بیل گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہاں لدھیانہ سے سائیکل کے پرزے، آگرہ سے جوتے، پنجاب اور مدھیہ پردیش سے گندم، جنوبی ہندوستان سے موٹر کے پرزے وغیرہ لائے جاتے ہیں۔

سامان لادنے اور اتارنے کی ذمہ داری بھی گاڑی وانوں کے ہی کندھوں پر ہوتی ہے۔ ۲۳ سالہ وکاش کہتے ہیں، ’’ ٹیمپو والا ہر ایک کھیپ کے لیے ۱۰۰۰ روپے بطور کرایہ وصول کرتا ہے۔ بیل گاڑی کا کرایہ سستا ہے، ورنہ کوئی اسے پوچھے گا ہی نہیں۔ ہم روزانہ دو کھیپ مال پہنچاتے ہیں اور تقریباً ۸۰۰ سے ۹۰۰ روپے کی کمائی کرتے ہیں۔‘‘

ٹرانسپورٹرز اپنے گوداموں سے قریبی بازاروں میں واقع اپنی دکانوں تک سامان پہنچانے کے لیے بھی بیل گاڑیوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اور بہت سے دکاندار بیل گاڑیوں کو اپنا سامان شہر کے دوسرے حصوں میں بھیجنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

اگرچہ دہلی ٹریفک پولیس کے قوانین کے تحت بیل گاڑیوں کی نقل و حرکت کی اجازت صرف چنندہ علاقوں میں اور مقررہ اوقات کے اندر ملتی ہے، لیکن ۲۷ سالہ لکشمن کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا سخت قانون نہیں ہے۔ ’’ہمیں کسی اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم ٹریفک پولیس کو کوئی چالان [جرمانہ] ادا کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم اس کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

Bholu Singh lives in Delhi's Motia Khan area, and owns three carts, there oxen and a calf. Now 64, he started plying a cart when he was 12
PHOTO • Sumit Kumar Jha
Bholu Singh lives in Delhi's Motia Khan area, and owns three carts, there oxen and a calf. Now 64, he started plying a cart when he was 12
PHOTO • Sumit Kumar Jha

بھولو سنگھ دہلی کے موتیا خان علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس تین بیل گاڑیاں، تین بیل اور ایک بچھڑا ہے۔ وہ ۱۲ سال کی عمر سے گاڑی ہانک رہے ہیں اور اب ۶۴ سال کے ہو چکے ہیں

کملا مارکیٹ سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر گنجان آبادی والے موتیا خان کی تنگ گلیوں میں وکاش، لکشمن اور دوسرے گاڑی وانوں کے بیل (جو اوپر کی کور تصویر میں دکھائے گئے ہیں) بندھے کھڑے ہیں۔ بہت سے گاڑی مالکان وسطی دہلی کے پہاڑ گنج کے اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ وہ گاڑیاں جو شہر میں کام پر نہیں گئی ہیں، فٹ پاتھوں پر کھڑی ہیں۔ ان کے گاڑی وان یا تو آرام کر رہے ہیں، گپ شپ کر رہے ہیں یا اپنے مویشیوں کو چارہ کھلا رہے ہیں۔

انہیں میں سے ایک بھولو سنگھ ہیں، جنہوں نے ۱۲ سال کی عمر میں موتیا خان میں بیل گاڑی چلانا شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کبھی اسکول نہیں گیا۔ خود گاڑی ہانکنے سے قبل میں اپنے والد کے ساتھ ان کی گاڑی پر جایا کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے [پہاڑ گنج کے] صدر بازار میں کچھ سامان لے جانے کو کہا اور اس کے بعد میں کبھی نہیں رکا۔‘‘ اب ان کے پاس تین گاڑیاں، تین بیل اور ایک بچھڑا ہے۔

چونسٹھ سال کے ہو چکے بھولو، موتیا خان میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دادا اور دادی راجستھان کے چتور گڑھ کے ایک گاؤں سے اس وقت دہلی آئے تھے جب ان کے والد کی عمر تقریباً ۱۲ سال کی تھی۔ بھولو کے دادا نے اپنی کچھ جائیداد فروخت کرکے ایک گاڑی خریدی اور اسی گاڑی پر سوار ہوکر شہر میں روزی کمانے کے لیے دہلی پہنچے تھے۔

وکاش اور لکشمن کی طرح بھولو بھی اپنی گاڑی سے روزانہ دو کھیپ سامان پہنچاتے ہیں۔ وہ عموماً وسطی دہلی یا اس کے آس پاس کے علاقوں میں پہنچانے والے ہر کھیپ کے دوران ۷ سے ۱۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ اس فاصلے کو طے کرنے میں کتنا وقت لگے گا اس بات کا انحصار ٹریفک پر ہوتا ہے، لیکن انہیں ایک طرف کی دوری طے کرنے میں عموماً ۴۵ سے ۶۰ منٹ کا وقت لگتا ہے، اور ان کی روزانہ کی آمدنی ۸۰۰ سے ۹۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ سردیوں میں چونکہ جانور کم تھکتے ہیں، اس لیے وہ ایک اضافی کھیپ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے ان کی آمدنی میں مزید ۳۰۰ سے ۶۰۰ روپے تک کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن میں ایک پیسہ بھی نہیں بچا پاتا ہوں۔ آدھی رقم  بیلوں کی دیکھ بھال میں خرچ ہو جاتی ہے اور باقی ہماری روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے میں۔‘‘

The densely-packed Motia Khan locality is home to many bullock carts owners, who park their animals and carts on the streets (left); among them is 18-year-old Kallu Kumar (right), who says, 'I had to follow in my father’s footsteps and ride the cart'
PHOTO • Sumit Kumar Jha
The densely-packed Motia Khan locality is home to many bullock carts owners, who park their animals and carts on the streets (left); among them is 18-year-old Kallu Kumar (right), who says, 'I had to follow in my father’s footsteps and ride the cart'
PHOTO • Sumit Kumar Jha

بہت سے بیل گاڑی مالکان کی رہائش گنجان آبادی والے موتیا خان کے علاقہ میں ہے۔ یہ اپنے جانوروں اور گاڑیوں کو سڑکوں پر کھڑی کرتے ہیں (بائیں)؛ ان میں سے ایک ۱۸ سالہ کلّو کمار (دائیں) بھی ہیں، جو کہتے ہیں، ’مجھے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنا تھا اور گاڑی ہانکنی تھی‘

موتیا خان میں بھولو کا ایک مکان بھی ہے۔ اس مکان کو انہوں نے تقریباً ۳۰ سال قبل اپنی بچت سے تعمیر کرایا تھا۔ لیکن وہ اپنے بیلوں کے پاس رہنے کے لیے سڑک کنارے ٹن اور ترپال سے بنے ایک کمرے کی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ ان کی ۶۰ سالہ بیوی، کملا بائی بھی جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے وہیں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ ۳۰ سال سے زیادہ کی عمر کے ان کے تینوں بیٹوں نے شادی کے بعد مزید پیسہ کمانے کی کوشش میں بیل گاڑی چلانا چھوڑ دیا ہے۔ اب وہ تعمیراتی مقامات پر، پہاڑ گنج اور شاہدرہ کی ری سائیکلنگ فیکٹریوں میں یا پھر سامان لادنے والے کے طور پر یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ وہ بھولو کے بنائے ہوئے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ اکٹھے رہتے ہیں۔

موتیا خان کے دوسرے کئی نوجوانوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنا جاری رکھا ہے۔ ۱۸ سالہ کلّو کمار تیسری نسل کے گاڑی وان ہیں۔ انہوں نے اسکول چھوڑنے کے بعد گاڑی چلانے کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں پڑھتا تھا تو اسکول کے بعد میں اپنے والد کے ساتھ ڈیلیوری کے لیے جایا کرتا تھا اور بیلوں کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔‘‘ کلّو نے ۱۰ویں جماعت کے امتحان میں فیل ہونے کے بعد اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے اپنے والد کی گاڑی چلانا شروع کیا، کیوں کہ مجھے اسکول بھیجنے کے لیے میری فیملی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ اب میں روزانہ اوسطاً ۵۰۰ سے ۶۰۰  روپے کماتا ہوں۔‘‘

کلّو کو اسکول چھوٹنے کا افسوس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں پیسہ کماتا ہوں اور میری فیملی اس سے خوش ہے۔ مجھے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر گاڑی چلانا تھا۔‘‘ کلو کے ۲۲ سالہ بھائی سریش بھی گاڑی چلاتے ہیں، اور ان کے ۱۴ سالہ چھوٹے بھائی چندن، جو آٹھویں جماعت میں پڑھتے ہیں، کبھی کبھی ان کے ساتھ کام پر آجاتے ہیں۔

کلّو کے گھر سے نزدیک ہی وجے کمار سنگھ کا گھر ہے۔ ان کے پاس دو بیل گاڑیاں اور دو بیل ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے پاس کام کے دوسرے متبادل ہوں۔ اپنے ۱۱ سالہ بیٹے راجیش کی طرف دیکھتے ہوئے، وہ کہتے ہیں، ’’میں اسے اسکول بھیج رہا ہوں اور اس کی پڑھائی کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میرے والد کے پاس بہت زیادہ وسائل نہیں تھے، لیکن میں اس کے لیے گاڑی چلا کر کوشش کروں گا۔‘‘ راجیش اور ان کے آٹھ سالہ بھائی سریش پہاڑ گنج کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔

'We know the price we pay for living with tradition. But we love our oxen. They are our family', says Vijay Kumar Singh, siting on the cart (left); he   never went to school, but wants his son Rajesh (right) to get a good education
PHOTO • Sumit Kumar Jha
'We know the price we pay for living with tradition. But we love our oxen. They are our family', says Vijay Kumar Singh, siting on the cart (left); he   never went to school, but wants his son Rajesh (right) to get a good education
PHOTO • Sumit Kumar Jha

اپنی بیل گاڑی پر بیٹھے وجے کمار سنگھ (بائیں) کہتے ہیں، ’جو روایتی زندگی ہم گزارتے ہیں اس کی قیمت کیا ہوتی ہے ہم ہی جانتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے بیلوں سے پیار کرتے ہیں۔ وہ ہماری فیملی کا حصہ ہیں‘؛ وہ کبھی اسکول نہیں گئے، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا راجیش (دائیں) اچھی تعلیم حاصل کرے

وجے کی عمر ۳۲ سال ہے، جب انہوں نے بیل گاڑی چلانا شروع کیا تھا، اس وقت ان کی عمر بمشکل ۱۲ سال تھی۔ وہ بیگن تحصیل کے دولت پورہ گاؤں میں رہائش پذیر اپنے ماموں کی کھیتی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم شہر میں رہتے ہیں، لیکن اپنی روزی روٹی کا انتظام روایتی ذرائع سے کرتے ہیں۔ چتور گڑھ میں میرے ماموں کے پاس کاشتکاری کے لیے ایک بیل ہوا کرتا تھا، لیکن اب وہ بھی ٹریکٹر کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بہتر ہنر والے پیشے سے ان کی فیملی کو مزید پیسے مل سکتے ہیں: ’’جو روایتی زندگی ہم گزارتے ہیں اس کی قیمت کیا ہوتی ہے ہم ہی جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں اپنے بیلوں سے پیار ہے۔ وہ ہماری فیملی کا حصہ ہیں۔‘‘

وجے اور ان کی بیوی ۳۰ سالہ سُمن، دونوں اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ بیلوں کو کھانے کے لیے ہر صبح، دوپہر اور شام کو گندم یا چاول کا بھوسا اور کابلی چنے کے ڈنٹھل دیے جاتے ہیں۔ گرمیوں کی اونچی درجہ حرارت سے نمٹنے اور توانائی بحال کرنے میں مدد کے لیے جانوروں کی خوراک میں گڑ، دودھ، مکھن اور آملہ کا مربہ شامل کیا جاتا ہے۔

بیل گاڑی مالکان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات مندر کے ٹرسٹ یا مذہبی تنظیموں کے ذریعے چلائی جانے والی گوشالائیں جانوروں کے لیے خوراک یا ادویات فراہم کر کے مدد بہم پہنچاتی ہیں۔ تاہم یہ تنظیمیں صرف گایوں کو ہی پناہ دیتی ہیں، اس لیے جب بیل ۱۷ یا ۱۸ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، تو بہت سے گاڑی مالکان انھیں ہریانہ اور اتر پردیش کے علاقوں میں کھلا چھوڑ دیتے ہیں، جہاں سے قصاب انھیں پکڑ کر لے جاتے ہیں۔

وکاش کا کہنا ہے کہ بیل گاڑی مالکان ان دو ریاستوں کے علاوہ راجستھان سے نوعمر بیل خریدتے ہیں۔ بھولو وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جانور کی قیمت اس کی عمر پر منحصر ہے۔ ایک سال کے بچھڑے کی قیمت ۱۵ ہزار روپے ہوتی ہے، جبکہ سات سال کے بیل (جو کسی بیل کی سب سے زیادہ پیداواری عمر ہوتی ہے) کے لیے ۴۰ سے ۴۵ ہزار روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یہ رقم یا تو بچت سے آتی ہے یا ٹرانسپورٹرز سے قرض کی شکل میں، جو ماہانہ ڈیڑھ سے ڈھائی فیصد کی شرح پر سود وصول کرتے ہیں۔

The oxen are given a feed of chaff of wheat or rice, and straw of Bengal gram every morning, afternoon and evening. In summer, to help the animals cope with the high temperature and recover energy, jaggery, milk, butter and amla murabba (preserve) are added to the feed
PHOTO • Sumit Kumar Jha
The oxen are given a feed of chaff of wheat or rice, and straw of Bengal gram every morning, afternoon and evening. In summer, to help the animals cope with the high temperature and recover energy, jaggery, milk, butter and amla murabba (preserve) are added to the feed
PHOTO • Sumit Kumar Jha

بیلوں کو کھانے کے لیے ہر صبح، دوپہر اور شام کو گندم یا چاول کا بھوسا اور کابلی چنے کا ڈنٹھل دیا جاتا۔ گرمیوں کی اونچی درجہ حرارت سے نمٹنے اور توانائی بحال کرنے میں مدد کے لیے جانوروں کی خوراک میں گڑ، دودھ، مکھن اور آملہ کا مربہ شامل کیا جاتا ہے

نئی بیل گاڑی کی قیمت ۵۰ سے ۶۰ ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔ گاڑی مالکان یہ کام پہاڑ گنج یا شاہدرہ کے لوہاروں کے سپرد کرتے ہیں، جو مقامی بڑھئی کے ساتھ مل کر آم، نیم یا ببول کے درختوں کی لکڑی سے گاڑیاں بناتے ہیں۔ شیشم کی لکڑی کی گاڑی پر زیادہ خرچ آتا ہے۔ بیرنگ اور دھرے (ایکسل) لوہے سے بنتے ہیں (جو سستے ہوتے ہیں)، یا اسٹیل یا ایلومینیم سے بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ گاڑیاں ہریانہ یا راجستھان سے خریدی جاتی ہیں، جہاں ان کی قیمت کم ہے۔

بھولو اور وکاش کا اندازہ ہے کہ دارالحکومت میں ۴۵۰ سے ۵۰۰ بیل گاڑیاں چلتی ہیں۔ حالانکہ دہلی ٹریفک پولیس کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، کیونکہ جانوروں سے کھینچی جانے والی گاڑیوں کا رجسٹریشن نہیں ہوتا ہے۔

تاہم، موٹر والی گاڑیوں سے بڑھتے مقابلے کی وجہ سے بیل گاڑی مالکان کی کمائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ بھولو کہتے ہیں، ’’پہلے میں فتح پور [اتر پردیش میں، تقریباً ۵۵۰ کلومیٹر دور] تک سامان لے جاتا تھا۔ لیکن اب ٹرانسپورٹرز لمبی دوری تک سامان لے جانے کا یہ کام منی ٹرکوں کو دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ۴ سے ۵ کلومیٹر تک کے سامان بھی وہ چیمپئن [تین پہیوں والی موٹر گاڑی] پر لوڈ کرتے ہیں۔‘‘

انہیں یاد ہے کہ ۱۹۹۰ کی دہائی میں وہ صرف ۷۰ روپے یومیہ کماتے تھے، لیکن کام کی تلاش میں انہیں کہیں جانا نہیں پڑتا تھا۔ وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی گاڑی پر بیٹھ کر شہر کی سڑکوں پر گھوم سکتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں تب زیادہ خوش تھا۔ مجھے ہر روز کام ملتا تھا، لیکن اب مجھے کبھی کبھی گھر پر بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘

پھر شام ہو جاتی ہے۔ وجے اور کالو اپنے بیلوں کو باندھ کر بھولو اور دو دیگر گاڑی وانوں کے ساتھ  بیل گاڑی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بھولو نے بیڑی سلگائی اور پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے ارد گرد بیل گاڑیاں دیکھ کر بڑا ہوا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے پوتے بھی کم از کم ان گاڑیوں کو دیکھ سکیں۔‘‘ باقیوں نے خاموشی کے ساتھ سر ہلا دیا۔

مترجم: شفیق عالم

Sumit Kumar Jha

Sumit Kumar Jha is studying for a Master's degree in Communication at the University of Hyderabad. He is from Sitamarhi district in Bihar.

Other stories by Sumit Kumar Jha
Editors : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Editors : Vinutha Mallya

Vinutha Mallya is a journalist and editor. She was formerly Editorial Chief at People's Archive of Rural India.

Other stories by Vinutha Mallya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam