لکشدیپ جزائر کے تمام جزیرے ناریل کے بے شمار درختوں سے بھرے ہوئے ہیں، اور ان کے خشک چھلکوں سے ریشہ (کوائر) نکالنا یہاں کی ایک بڑی صنعت ہے۔

مچھلی پکڑنے اور ناریل کی پیداوار کرنے کے ساتھ ساتھ ناریل کے ریشوں کی کتائی یہاں کے لوگوں کا بنیادی پیشہ ہے۔ (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق) لکشدیپ میں ناریل کے چھلکے نکالنے کی کل ۷، اس کے ریشے سے رسی بنانے کی ۶ اور فائبر کرلنگ کی ۷ اکائیاں ہیں۔

پورے ملک میں ناریل کے ریشے سے رسی بنانے کے اس شعبہ میں سات لاکھ سے بھی زیادہ مزدور کام کر رہے ہیں، جن میں خواتین کارکنوں کی تعداد تقریباً ۸۰ فیصد ہے۔ یہ عورتیں بنیادی طور پر ناریل کے ریشے نکالنے اور ان کی کتائی کرکے رسی بنانے کے کاموں میں لگی ہوئی ہیں۔ ٹیکنالوجی اور مشینوں کے استعمال کے باوجود، ناریل کے ریشے سے رسی بنانے کا کام ابھی بھی بنیادی طور پر محنت پر مبنی ہے۔

لکشدیپ کے کورتّی میں واقع کوائر کی پیداوار اور نمائش مرکز میں ۱۴ خواتین کا ایک گروپ ۶ مشینوں کے استعمال سے ریشہ نکال کر اس سے رسیاں بناتا ہے۔ یہ عورتیں پیر سے لے کر سینچر تک روزانہ آٹھ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتی ہیں، جس سے انہیں ۷۷۰۰ روپے کی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔ پہلی شفٹ میں وہ رسیاں بناتی ہیں اور دوسری شفٹ میں وہ آلات اور مشینوں کی صفائی کرتی ہیں۔ یہ بات ۵۰ سالہ خاتون کارکن، رحت بیگم بی بتاتی ہیں۔ رسیوں کو کیرالہ میں کوائر بورڈ کے ہاتھوں ۳۵ روپے فی کلو کے حساب سے بیچا جاتا ہے۔

ریشے نکالنے اور ان کی کرلنگ کرنے کی اکائیوں کی شروعات سے پہلے، ناریل کے چھلکے کے ریشے روایتی طور پر ہاتھوں سے چھیل کر نکالے جاتے تھے۔ اس کے بعد ان ریشوں کو گونتھ کر ان سے چٹائیاں، پائیدان، رسیاں اور جالیاں بنائی جاتی تھیں۔ فاطمہ بتاتی ہیں، ’’ہمارے دادا دادی صبح پانچ بجے ہی جاگ جاتے تھے اور ناریلوں کو سمندر کے قریب ریت میں گاڑنے کے لیے کوَرتّی کے شمال کی طرف نکل جاتے تھے۔ ناریل مہینے بھر اسی طرح ریت میں گڑے رہتے تھے۔‘‘

وہ مزید بتاتی ہیں، ’’اس کے بعد، وہ اس طرح ناریلوں کے ریشے کی رسیاں بناتے تھے…‘‘ ۳۸ سال کی فاطمہ، جو آل انڈیا ریڈیو، کوَرتّی میں نیوز ریڈر ہیں، رسی بنانے کے عمل کو سمجھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’آج جو رسی بنتی ہے، اس کا معیار بہت اچھا نہیں ہوتا ہے، وہ بہت ہلکی ہوتی ہیں۔‘‘

لکشدیپ کے بِٹر گاؤں کے عبد القادر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کیسے وہ اپنے ہاتھ سے کوائر کی رسی بناتے تھے۔ ان رسیوں کا استعمال کشتیوں کو باندھنے کے کام میں ہوتا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: لکشدیپ سے غائب ہوتی مونگے کی چٹانیں

نیچے کے ویڈیو میں عبد القادر اور کورَتّی کوائر پروڈکشن سینٹر کے کارکن ناریل کے ریشوں سے روایتی اور جدید – دونوں طریقوں سے رسیاں بناتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: ’لکشدیپ میں ناریل سے کوائر تک کا سفر‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga
Editor : Siddhita Sonavane

Siddhita Sonavane is Content Editor at the People's Archive of Rural India. She completed her master's degree from SNDT Women's University, Mumbai, in 2022 and is a visiting faculty at their Department of English.

Other stories by Siddhita Sonavane
Video Editor : Urja

Urja is Senior Assistant Editor - Video at the People’s Archive of Rural India. A documentary filmmaker, she is interested in covering crafts, livelihoods and the environment. Urja also works with PARI's social media team.

Other stories by Urja
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique