’’لڑکپن میں مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارا جزیرہ ایک بڑے مونگے پر ٹکا ہوا ہے۔ مونگا نیچے ہے، اسے پکڑے ہوئے ہے۔ اور ہمارے ارد گرد ایک لیگون (خلیج) ہے، جو ہمیں سمندر سے بچاتا ہے،‘‘ بِترا جزیرہ پر رہنے والے ۶۰ سالہ ماہی گیر، بی حیدر کہتے ہیں۔

’’جب میں چھوٹا تھا، تو مدوجزر کم ہونے پر ہم مونگے کو دیکھ سکتے تھے،‘‘ بِترا کے ایک دوسرے ماہی گیر، ۶۰ سالہ عبدالقادر کہتے ہیں۔ ’’یہ خوبصورت تھا۔ اب ان میں سے زیادہ کچھ نہیں بچا ہے۔ لیکن بڑی موجوں کو دور رکھنے کے لیے ہمیں اس مونگے کی ضرورت ہے۔‘‘

وہ مونگا – لکشدیپ کے جزائر کی کہانیوں، تصورات، زندگی، معاشی اور حیاتیاتی نظام کا مرکز – دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے، ساتھ ہی کئی دیگر تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں، جسے یہاں کے ماہی گیر دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔

’’اسے سمجھنا آسان ہے۔ فطرت بدل گئی ہے،‘‘ اگتّی جزیرہ کے ۶۱ سالہ ماہی گیر مُنیامِن کے کے بتاتے ہیں، جنہوں نے ۲۲ سال کی عمر سے ہی مچھلی پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ ’’اُن دنوں، مانسون صحیح وقت پر [جون میں] آتا تھا، لیکن آج ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ مانسون کب آئے گا۔ ان دنوں مچھلیاں کم ہیں۔ اُن دنوں ہمیں مچھلیاں پکڑنے کے لیے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا تھا، مچھلیوں کے سبھی جھنڈ قریب میں ہی رہا کرتے تھے۔ لیکن اب مچھلیوں کی تلاش میں لوگ کئی دنوں تک غائب رہتے ہیں، کبھی کبھی ہفتوں تک۔‘‘

کیرالہ کے ساحل سے آگے، بحر ہند میں واقع ہندوستان کے سب سے چھوٹے مرکز کے زیر انتظام علاقہ (یونین علاقہ)، لکشدیپ میں اگتی اور بِترا کے درمیان کی دوری کشتی سے تقریباً سات گھنٹے کی ہے، جہاں سب سے ماہر ماہی گیر رہتے ہیں۔ ملیالم اور سنسکرت دونوں میں ’لکشدیپ‘ کا مطلب ہے ایک لاکھ جزیرے۔ لیکن ہمارے دور کی حقیقت یہ ہے کہ اب یہاں پر صرف ۳۶ جزیرے ہیں، جو کل ۳۲ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ، ان جزائر کا پانی ۴ لاکھ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے اور سمندری زندگی اور وسائل سے مالامال ہے۔

صرف ایک ضلع والے اس یونین علاقہ میں ہر ساتواں آدمی ایک ماہی گیر ہے – ۶۴۵۰۰ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) میں سے ۹ ہزار سے زیادہ لوگوں کا پیشہ مچھلی پکڑنا ہے۔

PHOTO • Sweta Daga

بِترا (اوپر) اور لکشدیپ کے بقیہ حصے ہندوستان کے واحد مونگے والے جزیرے ہیں۔ ’میں جب چھوٹا تھا، تو مدوجزر کم ہونے پر ہم مونگے ِ[پیش منظر، نیچے دائیں] کودیکھ سکتے تھے‘، بِترا کے ایک ماہی گیر عبدالقادر (نیچے بائیں) کہتے ہیں۔ ’اب ان میں سے زیادہ کچھ نہیں بچا ہے‘

جزائر کے بزرگ بتاتے ہیں کہ مانسون آنے پر وہ اپنے کیلنڈر سیٹ کر سکتے تھے۔ لیکن ’’اب سمندر میں کسی بھی وقت اتھل پتھل ہونے لگتی ہے – پہلے ایسا نہیں تھا،‘‘ ۷۰ سالہ ماہی گیر یوپی کویا کہتے ہیں، جن کے پاس مچھلی پکڑنے کا چار دہائیوں کا تجربہ ہے۔ ’’میں شاید ۵ویں کلاس میں تھا جب منیکائے جزیرہ [تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر دور] سے لوگ آئے اور ہمیں ’پول اور لائن‘ طریقہ سے مچھلی پکڑنا سکھایا۔ تب سے، لکشدیپ میں ہم زیادہ تر اسی طریقے سے مچھلی پکڑتے ہیں – ہم جال کا استعمال نہیں کرتے کیوں کہ وہ مونگے کی چٹانوں میں پھنس جاتی ہیں اور پھٹ جاتی ہیں۔ ہم پرندوں کی وجہ سے، اور اپنے قطب نما سے مچھلیاں ڈھونڈ پاتے ہیں۔‘‘

مچھلے پکڑنے کے ’پول اور لائن‘ طریقہ میں، ماہی گیر ریلنگ یا اپنی کشتیوں پر بنے مخصوص پلیٹ فارموں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ آخری سرے پر ایک مضبوط ہُک کے ساتھ ایک چھوٹی، مضبوط لائن پول سے جڑی ہوتی ہے، جو اکثر فائبر گلاس سے بنی ہوتی ہے۔ یہ مچھلی پکڑنے کا زیادہ مستقل طریقہ ہے، اور یہاں پر اس کا استعمال زیادہ تر پانی کی اوپری پرتوں میں رہنے والی ٹونا قسم کی مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگتّی اور لکشدیپ کے دیگر جزیروں پر لوگ کھانے میں عام طور سے ناریل اور مچھلی – زیادہ تر ٹونا – کا استعمال کرتے ہیں۔

بِترا سب سے چھوٹا – صفر اعشاریہ ۱۰۵ مربع کلومیٹر، یا تقریباً ۱۰ ہیکٹیئر – اور جزائر کے اس مجموعہ کے ۱۲ آباد جزیروں میں سے سب سے دور ہے۔ اس میں ملائم، سفید ریت والے سمندری ساحل، ناریل کے درخت ہیں، اور یہ پانی کے چار رنگوں – نیلا، فیروزی، ایکوا میرین اور سمندری ہرا – سے گھرا ہوا ہے۔ سیاحوں کو یہاں جانے کی اجازت نہیں ہے؛ یہاں پہنچ جانے کے بعد، چلنا ہی ایک واحد متبادل ہے، کوئی کار یا موٹربائک نہیں ہے، یہاں تک کہ سائیکلیں بھی نایاب ہیں۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، بترا میں صرف ۲۷۱ لوگ رہتے ہیں۔

حالانکہ، اس یونین علاقہ میں سب سے بڑا لیگون ہے – رقبہ میں تقریباً ۴۷ مربع کلومیٹر۔ اور بترا اور لکشدیپ کے بقیہ حصے ہندوستان میں واحد مونگے کے جزیرے ہیں۔ یعنی، یہاں کی تقریباً تمام آباد زمین درحقیقت مونگے کا جزیرہ ہے۔ اس کی مٹی موٹے طور پر مونگے سے آئی ہے۔

مونگے زندہ جاندار ہیں جو چٹان بناتے ہیں اور سمندری زندگی، خاص طور سے مچھلیوں کے لیے حیاتیاتی نظام فراہم کرتے ہیں۔ مونگے کی چٹانیں ایک قدرتی مزاحم ہیں، جو ان جزیروں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچاتی ہیں اور کھارے پانی کو محدود میٹھے پانی کے ذرائع سے باہر رکھتی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: کشتی سے چارہ مچھلی پکڑنے جاتے ہوئے ماہی گیر

اندھا دھند مچھلی پکڑنے، خاص طور سے جال والی میکنائزڈ کشتیوں کے ذریعے گہرائی میں جاکر مچھلی پکڑنے سے چارہ مچھلی کم ہو رہی ہے اور مونگے کی چٹانوں اور متعلقہ بائو ڈائیورسٹی کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے

مونگے کی چٹانوں میں چھوٹی چارہ مچھلیاں (بیٹ فش) بھی ہوتی ہیں جو ٹونا اور لیگون کی درجنوں انواع کو لبھانے کے لیے پکڑی جاتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی پر ۲۰۱۲ کے یو این ڈی پی لکشدیپ ایکشن پلان کے مطابق، ہندوستان میں مجموعی طور پر جتنی مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں ان میں سے ۲۵ فیصد یہی بھرپور پانی اور مونگے کی چٹانیں فراہم کرتی ہیں۔ اور ٹونا قسم کی مچھلیوں کو پکڑنے میں ان چارہ مچھلیوں کا مرکزی رول ہے۔

’’ہم چارہ مچھلیوں کو ان کے ذریعے اپنے انڈے جمع کر لینے کے بعد ہی پکڑتے تھے، لیکن اب لوگ انہیں کبھی بھی پکڑ لیتے ہیں،‘‘ ۵۳ سالہ ماہی گیر عبدالرحمن کہتے ہیں، جو بِترا سے تقریباً ۱۲۲ کلومیٹر دور، ضلع ہیڈکوارٹر کورتّی میں رہتے ہیں اور ۳۰ برسوں سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔ ’’کشتیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، لیکن مچھلیاں کم ہو گئی ہیں۔‘‘ اندھا دھند مچھلی پکڑنے، خاص طور سے جال والی میکنائزڈ کشتیوں کے ذریعے گہرائی میں جاکر مچھلی پکڑنے سے چارہ مچھلی کم ہو رہی ہے اور مونگے کی چٹانوں اور متعلقہ بایو ڈائیورسٹی کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

اور یہ مسئلہ کا صرف ایک پہلو ہے۔

ایل نینو جیسے سنگین ماحولیاتی پیٹرن سمندر کی سطح کے درجہ حرارت کو بڑھاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ’کورل بلیچنگ‘ – مونگے کی چٹانوں کے رنگ اور زندگی کو چھیننا اور جزیروں کی حفاظت کرنے کی ان کی صلاحیت کو کم کرنا – کا سبب بنتے ہیں۔ لکشدیپ نے تین بڑی کورل بلیچنگ دیکھی ہے – ۱۹۹۸، ۲۰۱۰ اور ۲۰۱۶ میں۔ میسورو واقع غیر منافع بخش وائلڈ لائف تحفظ اور تحقیقی تنظیم، نیچر کنزرویشن فاؤنڈیشن (این سی ایف) کے ۲۰۱۸ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مونگے کی چٹانیں خطرے میں ہیں۔ مطالعہ سے پتا چلا کہ ۱۹۹۸ سے ۲۰۱۷ کے درمیان – صرف ۲۰ برسوں میں – لکشدیپ میں مونگے کی چٹانوں کا رقبہ ۵۱ اعشاریہ ۶ فیصد سے گھٹ کر ۱۱ فیصد ہو گیا۔

بِترا کے ایک ماہی گیر، ۳۷ سالہ عبدالکویا کہتے ہیں: ’’ہم جب ۴ یا ۵ سال کے تھے، تب مونگے کو پہچان لیتے تھے۔ پانی میں جانے سے پہلے ہی ہم اسے کنارے پر تیرتا ہوا دیکھ لیتے تھے۔ اس کا استعمال ہم اپنا گھر بنانے میں کرتے تھے۔‘‘

کورتّی میں سائنس اور ٹیکنالوجی شعبہ کے سائنسداں، ڈاکٹر کے کے ادریس بابو کم ہوتے مونگے کے بارے میں بتاتے ہیں: ’’اونچی سمندری سطح کے درجہ حرارت اور مونگے کی چٹانوں کے درمیان ایک تعلق ہے۔ ۲۰۱۶ میں، سمندر کا درجہ حرارت ۳۱ ڈگری سیلسیس اور اس سے بھی زیادہ تھا!‘‘ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ ۲۰۰۵ تک، مونگے کی چٹانوں کے علاقے میں ۲۸ اعشاریہ ۹۲ سیلسیس درجہ حرارت دیکھا گیا تھا۔ ۱۹۸۵ میں یہ ۲۸ اعشاریہ ۵ سیلسیس تھا۔ گرمی اور آبی سطح میں اضافہ ان جزیروں میں تشویش کا موضوع ہے، جہاں کی اوسط اونچائی سمندر کی سطح سے ۱-۲ میٹر اوپر ہے۔

PHOTO • Rohan Arthur, Nature Conservation Foundation, Mysuru

اوپر کی قطار: ایل نینو جیسے سنگین ماحولیاتی پیٹرن سمندر کی سطح کے درجہ حرارت کو بڑھاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر ’کورل بلیچنگ‘ – مونگے کی چٹانوں کے رنگ اور زندگی کو چھیننا اور جزیروں کی حفاظت کرنے کی ان کی صلاحیت کو کم کرنا – کا سبب بنتے ہیں۔ نیچے کی قطار: ۲۰۱۴ میں پاوونا کلیوس کورل کا ایک بڑا کنارہ، آلو کے ٹکڑے جیسا حیاتیاتی نظام اور ریف مچھلی کے لیے ایک پناہ گاہ۔ لیکن ۲۰۱۶ کے ایل نینو واقعہ کے دوران، جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا گیا، مونگے میں موجود جانداروں نے اپنی کائی کو باہر نکال دیا اور سفید ہو گئے

کورتّی میں سب سے بڑی کشتی – ۵۳ فٹ لمبی – کے مالک، ۴۵ سالہ نظام الدین کے بھی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روایتی علم کے کھو جانے سے ان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے: ’’میرے والد، ایک ماہی گیر، یہ جانتے تھے کہ مچھلی کہاں ملے گی، [اُس نسل] کے پاس وہ جانکاری تھی۔ ہم نے وہ کھو دی اور اکثر ایف اے ڈی [زیادہ مچھلیاں پکڑنے والے آلات] پر بھروسہ کرنے لگے۔ ہمیں جب ٹونا نہیں ملتی، تو ہم لیگون مچھلی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‘‘ ایف اے ڈی، ایک بیڑا یا تیرتا ہوا لکڑی کا ٹکڑا ہو سکتا ہے – جو مچھلیوں کو متوجہ کرتا ہے، جو تب چاروں طرف یا اس کے نیچے جمع ہو جاتی ہیں۔

لکشدیپ پر ۲۰ سالوں تک کام کر چکے سمندری بایولوجسٹ اور سائنسداں، ڈاکٹر روہن آرتھر کہتے ہیں، ’’حالانکہ، اس وقت میری بنیادی تشویش مونگے کی چٹانوں کا حیاتیاتی تنوع نہیں ہے، لیکن ان کا عملی مقصد ضرور ہے۔ یہاں کے لوگوں کا وجود انہی پر منحصر ہے۔ چٹانوں کا تعلق صرف مونگے سے نہیں ہے، بلکہ یہ مکمل حیاتیاتی نظام کی تعمیر کرتی ہیں۔ اسے پانی کے نیچے کے جنگل کے طور پر دیکھیں – اور جنگل کا مطلب صرف درخت نہیں ہیں۔

ڈاکٹر آرتھر جو این سی ایف میں ساغر اور ساحل پروگرام کے صدر ہیں، نے ہمیں کورتّی میں بتایا کہ ’’لکشدیپ کی چٹانوں نے لچیلاپن کے اشارے دکھائے ہیں، لیکن بحالی کی موجودہ شرح ماحولیاتی تبدیلی کے واقعات کے ساتھ رفتار بنائے رکھنے میں ناکام ہیں۔ اور وہ بھی بنا (غور کیے) انسانوں کی وجہ سے تناؤ میں اضافہ کیے، جیسے کہ حد سے زیادہ مچھلی پکڑنا۔‘‘

ماحولیات کے واقعات اور کارروائیوں نے، بلیچنگ کے واقعات کے علاوہ، دیگر اثرات بھی ڈالے ہیں۔ سمندری طوفانوں – ۲۰۱۵ میں میگھ اور ۲۰۱۷ میں اوکھی – نے بھی لکشدیپ کو برباد کیا ہے۔ اور ماہی پروری محکمہ کا فشریز ڈیٹا مچھلی پکڑنے کی مقدار میں تیز گراوٹ کو دکھاتا ہے، جو ۲۰۱۶ کے تقریباً ۲۴ ہزار ٹن (سبھی ٹونا قسمیں) سے گر کر ۲۰۱۷ میں ۱۴ ہزار ٹن ہو گئی – یعنی ۴۰ فیصد کی گراوٹ۔ ۲۰۱۹ میں، یہ پچھلے سال کے ۲۴ ہزار ٹن سے گھٹ کر ۱۹ ہزار ۵۰۰ ٹن ہو گئی۔ بہت اچھے سال بھی رہے ہیں، لیکن جیسا کہ ماہی گیروں کا کہنا ہے، پورا عمل غیر یقینی اور غیر متوقع ہو گیا ہے۔

اور گزشتہ ایک دہائی سے ریف مچھلیوں کی عالمی مانگ میں اضافہ کے سبب، یہاں کے ماہی گیروں نے مقامی سطح پر چمّم کے نام سے مشہور بڑی شکاری مچھلیوں کی تلاش تیز کر دی ہے۔

PHOTO • Sweta Daga

بائیں: ’کشتیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے، لیکن مچھلیاں کم ہو گئی ہیں‘، کورتّی جزیرہ کے ماہی گیروں کا کہنا ہے؛ یہاں پر، وہ ٹونا لیکر آ رہے ہیں۔ دائیں: بِترا جزیرہ پر عبدالکویا اپنی مچھلیاں سُکھا رہے ہیں

اگتّی جزیرہ کے ۳۹ سالہ عمیر ایس – جو ۱۵ سال سے مچھلی پکڑنے اور کشتیاں بنانے کا کام کر رہے ہیں – بتاتے ہیں کہ وہ بڑی شکاری مچھلیاں کیوں پکڑتے ہیں۔ ’’پہلے بہت ساری ٹونا مچھلیاں لیگون کے پاس ہوا کرتی تھیں، لیکن اب ہمیں انہیں پکڑنے کے لیے ۴۰-۴۵ میل دور جانا پڑتا ہے۔ اور اگر ہمیں دیگر جزیروں پر جانے کی ضرورت پڑی، تو اس میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اس لیے میں اتنے وقت میں چمّم پکڑتا ہوں۔ ان کے لیے بازار ہے، لیکن یہ مشکل کام ہے، کیوں کہ صرف ایک چمّم پکڑنے میں آپ کو ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

اس علاقے کی ترقی پر مطالعہ کرنے والی ایک سائنسداں، روچا کرکرے نے ہمیں بِترا میں بتایا، ’’مونگے کی گرتی صحت کے ساتھ ہی بڑی شکاری مچھلیوں (چمّم) کی تعداد میں پچھلے کچھ سالوں میں گراوٹ آئی ہے۔ اور ماہی گیر غیر یقینی اور ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجہ میں، جب ٹونا دستیاب نہیں ہوتی، تو ریف مچھلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، جس سے ان کی تعداد مزید گھٹ رہی ہے۔ ہم نے صلاح دی تھی کہ وہ  اس مہینے میں پانچ دن مچھلیاں نہ پکڑیں، جس مہینے میں مچھلیاں انڈے دیتی ہیں۔‘‘

بِترا کے ماہی گیروں نے ان دنوں میں اپنی سرگرمیاں روکنے کی کوشش کی، لیکن پایا کہ دیگر لوگ ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

’’کلتن جزیرہ کے لڑکے یہاں بِترا آتے اور رات میں مچھلیاں پکڑتے تھے،‘‘ عبدالکویا کہتے ہیں، جو اپنی سوکھی ہوئی مچھلیوں کو چھانٹتے ہوئے ہم سے باتیں کر رہے ہیں۔ ’’اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے... ایسا اکثر ہوتا ہے اور بیٹ فش، ریف اور ٹونا سبھی کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

’’مین لینڈ سے، کئی دیگر ممالک سے بھی بڑی کشتیاں آ رہی ہیں، جن کے پاس بڑی جال ہوتی ہے،‘‘ بی حیدر کہتے ہیں، جو بِترا پنچایت کے سربراہ بھی ہیں۔ ’’ہم اپنی چھوٹی کشتیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‘‘

دریں اثنا، موسم اور ماحولیاتی تبدیلی کے واقعات زیادہ غیر یقینیت کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ ’’مجھے ۴۰ سال کی عمر تک صرف دو سمندری طوفان یاد ہیں،‘‘ حیدر کہتے ہیں۔ ’’لیکن پچھلے کچھ سالوں میں وہ زیادہ بار آ چکے ہیں، اور وہ چٹانوں کو توڑ دیتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Sweta Daga

بائیں: ’ہم چارہ مچھلی کو ان کے ذریعے اپنے انڈے جمع کر لینے کے بعد ہی پکڑتے تھے، لیکن اب لوگ انہیں کبھی بھی پکڑ لیتے ہیں‘، کورتّی جزیرہ کے ماہی گیر عبدالرحمن کہتے ہیں۔ دائیں: کورتّی کی سب سے بڑی کشتی کے مالک نظام الدین کے بھی تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں

کورتّی میں، عبدالرحمن بھی سمندری طوفان کے اثر کی بات کرتے ہیں، ’’پہلے ہمیں اچھلنے والی ٹونا مچھلیاں مونگے کی چٹانوں کے قریب ہی مل جاتی تھیں، لیکن اوکھی کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے۔ ۱۹۹۰ کی دہائی میں، ہم سمندر میں صرف ۳-۴ گھنٹے گزارتے تھے۔ ہمارے پاس کوئی میکنائزڈ آلہ نہیں ہوتا تھا، لیکن سپلائی اتنی زیادہ تھی کہ ہم جلد ہی اپنا کام ختم کر سکتے تھے۔ اب ہمیں پورے دن یا اس سے زیادہ وقت کے لیے باہر رہنا پڑتا ہے۔ ہم ریف مچھلیاں پکڑنے کے لیے نہیں جانا چاہتے، لیکن اگر ٹونا دستیاب نہیں ہوتی ہے، تو ہم کبھی کبھی ریف مچھلیوں کے لیے جاتے ہیں۔‘‘

رحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’کشتیوں کی تعداد – اور اب تو بہت بڑی بڑی ہیں – بڑھ گئی ہے۔ لیکن مچھلیاں کم ہو گئی ہیں، اور ہماری آپریشن لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔‘‘

ڈاکٹر آرتھر کہتے ہیں کہ ماہی گیروں کی کمائی کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے اوریہ ہر مہینے الگ الگ ہوتی ہے۔ ’’ان میں سے کئی لوگ دیگر نوکریاں بھی کرتے ہیں، اس لیے وہاں سے ہونے والی کمائی کو مچھلی پکڑنے سے ہونے والی آمدنی سے الگ کرنا مشکل ہے۔‘‘ لیکن یہ واضح ہے کہ ’’پچھلی دہائی نے آمدنی میں بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ لکشدیپ میں ’’ایک ہی وقت میں دو بڑی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے مونگے کی چٹانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جس سے مچھلی کی سپلائی متاثر ہو رہی ہے، اور اس طرح سے ماہی گیر اور ان کا ذریعہ معاش متاثر ہو رہا ہے۔ حالانکہ، لکشدیپ میں وہ صلاحیت ہے، جسے ہم ’تابناک مقام‘ کہتے ہیں۔ اگر ہم سمندری زندگی کے حیاتیاتی نظام کی حفاظت کرکے چٹانوں کو ٹھیک کرنے میں مدد کرنے میں کامیاب رہے، تو ہمارے پاس انہیں لمبے وقت تک محفوظ کرنے کا موقع ہوگا۔‘‘

اُدھر کورتّی میں، نظام الدین کے کہتے ہیں، ’’بیس سال پہلے اتنی زیادہ مچھلیاں تھیں کہ ہم ۴ یا ۵ گھنٹے میں اپنا کام ختم کر لیتے تھے، لیکن اب ہمیں کشتی بھرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ مانسون آگے پیچھے ہو گیا ہے، اور ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ بارش کب ہوگی۔ سمندر میں مچھلی پکڑنے کے موسم میں بھی اتھل پتھل ہونے لگتی ہے۔ ہم جون میں اپنی کشتیوں کو پوری طرح سے کنارے پر لے آتے تھے – جو کہ ایک مشکل کام ہے – کیوں کہ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ اسی وقت مانسون آئے گا۔ لیکن پھر، مانسون ایک مہینہ آگے ہو گیا! ہماری کشتیاں کنارے پر ہی اٹک گئیں، اور ہمیں نہیں معلوم کہ انہیں پھر سے لے جانا ہے یا انتظار کرنا ہے۔ اس لیے ہم بھی پھنس گئے ہیں۔‘‘

موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Reporter : Sweta Daga

Sweta Daga is a Bengaluru-based writer and photographer, and a 2015 PARI fellow. She works across multimedia platforms and writes on climate change, gender and social inequality.

Other stories by Sweta Daga

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Series Editors : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez