ایک بار کی بات ہے۔ کیتھرین کور، بودھی مرمو اور محمد تلسی رام نام کے تین پڑوسی ہوا کرتے تھے۔ کیتھی ایک کسان تھیں، بودھی جوٹ مل میں کام کرتے تھے، اور محمد تلسی رام چرواہے تھے۔ شہر کے دانشوروں میں ہندوستانی آئین کو لے کر کافی ہنگامہ مچا ہوا تھا، لیکن ان تینوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ موٹی کتاب کس کام آتی ہے۔ کیتھی نے اسے بیکار بتا دیا، وہیں بودھی کو لگا کہ شاید یہ کوئی صحیفہ ہے، اور محمد نے تو سوال کر دیا کہ ’’کیا یہ ہمارے بچوں کا پیٹ بھر دے گی؟‘‘

تینوں ہی اس بات سے بے خبر تھے کہ ملک میں ایک داڑھی والے راجہ کو مسند اقتدار پر فائز کر دیا گیا تھا۔ لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں تھی، ’’آخر اتنا وقت کس کے پاس ہے؟‘‘ اور پھر بارش نہیں ہوئی، قرض چڑھنے لگا، اور کیتھرین کو حشرہ کش کی ایک بوتل مل گئی، جو ان کا نام پھسپھسا رہی تھی۔ اس کے بعد، جوٹ مل نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ پولیس نے احتجاج کر رہے کارکنوں پر آنسو گیس کے گولے داغے اور تحریک کی قیادت کرنے کی وجہ سے بودھی مرمو پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر دیے گئے۔ آخر میں محمد تلسی رام کی باری آئی۔ ایک خوبصورت سناتنی (مقدس) شام کے وقت جب ان کی گائیں گھر لوٹیں، تو ان کے پیچھے پیچھے دو پیروں والے بچھڑے بھی چلے آئے، جن کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ ’’گئو ماتا کی جے! گئو ماتا کی جے!‘‘ کے نعروں سے آسمان گونج اٹھا۔

ان شیطانی نعروں کے درمیان، کہیں کچھ صفحات پھڑپھڑائے اور ایک نیلا سورج نمودار ہوا۔ ایک لڑکھڑاتی پھسپھساہٹ سنائی دینے لگی: ’’ہم، بھارت کے لوگ، متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں…‘‘

جوشوا بودھی نیترا کی آواز میں یہ نظم سنیں



A constitutional lament

1.
Our land is sovereign ,
so is our thirst, trapped in a
cloud as red as rust.

2.
Socialist
bandish ,
why do we dream? Under the
sun our workers scream.

3.
Mandir, masjid, church,
and a tomb — tridents lodged in
a secular womb.

4.
O Democracy !
Just for a vote, 'Death is a
debt,' our pundits wrote.

5.
Once a republic
swears in a king, Buddhas fall
and bayonets sing.

6.
Under the eye-patch
justice wore, there are no eyes —
well, not anymore.

7.
Farm-fresh liberties
sold in a mall, packed in jars
of sweet folidol.

8.
Sacred cows and black
black steaks — that is a bread our
égalité bakes.

9.
Fraternity harks —
shudras sigh in a field of
rye, and brahman barks.


آئین کا نوحہ

۱.
ملک آزاد ہے،
ہماری پیاس بھی آزاد ہے
منڈلاتے سرخ بادلوں کی قید میں آباد ہے۔

۲.
سماج واد کی دُھن پر،
تپتی دھوپ میں جلتے مزدور چیختے ہیں،
آخر، ہم خواب کیوں دیکھتے ہیں؟

۳.
مندر، مسجد، چرچ،
اور ایک مقبرہ –
سیکولرازم کے سینے میں ترشول گڑا۔

۴.
جمہوریت کے جنازے میں ووٹ چڑھتے ہیں
جانکار اس منظر کو
موت کا قرض لکھتے ہیں۔

۵.
کسی جمہوریہ میں
حلف برداری ہوتی ہے، بدھ مارے جاتے ہیں
اور سنگین راگ درباری گاتے ہیں۔

۶.
انصاف کی مورتی پر بندھی پٹی کے نیچے
پھوٹ چکی ہیں آنکھیں
ٹوٹ چکا ہے انصاف کا بھرم۔

۷.
زراعت پر منحصر ملک میں جینے کی آزادی
بڑے سے مال میں بِکتی ہے، چمچماتے مرتبانوں میں
فولی ڈول (حشرہ کش) کی مٹھائی سجتی ہے۔

۸.
برابری کا نعرہ ہے، کام خوب سارا ہے –
گائے کو بچانا ہے
انسان کو جلانا ہے۔

۹.
کون سی رواداری، کاہے کا بھائی چارہ
برہمن تو کاٹتا ہے
شودر ٹھہرا دُکھیارا۔

شاعر، اسمتا کھٹور کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہوئی پرمغز بحثوں کے نتیجہ میں اس نظم کی تخلیق ہوئی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Joshua Bodhinetra

Joshua Bodhinetra has an MPhil in Comparative Literature from Jadavpur University, Kolkata. He is a translator for PARI, and a poet, art-writer, art-critic and social activist.

Other stories by Joshua Bodhinetra
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique