نومبر کی ایک خوشگوار دوپہر کو جب ہم ماجولی کے ایک چھوٹے سے قصبہ گرمور میں سڑک پر چہل قدمی کر رہے تھے، تو پارتھ پرتیم بروا نے مجھ سے کہا، ’’میرے اندر پڑھائی کا اب زیادہ شوق نہیں بچا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے کبھی نوکری نہیں مل پائے گی۔‘‘ ۱۶ سالہ پارتھ پرتیم، ضلع کے گرمور سارو سترا کے نوجوان گاین-واینوں میں سے ایک ہیں۔

سترا ثقافت کا ایک اہم پہلو گاین – واین مذہبی لوک پرفارمنس ہے، جس کی مشق عام طور پر آسام کے ستروں (ویشنو مٹھوں) میں ہوتی ہے۔ اس لوک پرفارمنس کے گلوکاروں کو ’گاین‘ کہا جاتا ہے، جو تال (جھانجھ) بھی بجاتے ہیں، جب کہ ساز یعنی کھول ڈرم اور بانسری بجانے والوں کو ’واین‘ کہا جاتا ہے۔ ماجولی میں گاین یا واین کوئی پیشہ نہیں ہے، بلکہ ایک روایت ہے جس پر لوگ فخر کرتے ہیں اور اسے اپنی شناخت کا حصہ مانتے ہیں۔

’’اگر مجھے اسکول کے بعد نوکری نہیں ملی، اگر وہ میری قسمت میں نہ ہوئی، تو میں کیا کروں گا؟‘‘ پارتھ سیدھا سوال کرتے ہیں۔ وہ ۱۲ویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد موسیقی کو بطور پیشہ اپنانا چاہتے ہیں۔ ان کی بڑی بہن پہلے ہی اتر پردیش کے ایک گاؤں میں میوزک ٹیچر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

پارتھ کہتے ہیں، ’’میرے ممی پاپا نے بھی [گوہاٹی میں میوزک اسکول میں داخلہ لینے کے] خیال کی حمایت کی ہے۔ ان کی حمایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر میں موسیقی کو کیسے آگے بڑھاؤں گا؟‘‘ ان کے والد چاول اور جلاون (لکڑی) بیچنے کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ ان کے خیال سے متفق ہیں، لیکن ان کی ماں اس سے بہت خوش نہیں ہیں۔ انہیں پڑھائی کے لیے پارتھ کا گھر سے دور جانے کا خیال صحیح نہیں لگتا۔

جب پرفارمنس کا وقت ہوتا ہے، تو بطور فنکار پارتھ پرانا سفید کرتا، دھوتی اور سر پر ’پاگ‘ ٹوپی پہنتے ہیں اور جسم پر ’سلینگ‘ نام کا کپڑا باندھتے ہیں۔ وہ ’موٹامونی‘ موتیوں کی مالا بھی پہنتے ہیں اور ان کی پیشانی پر چندن کا تلک لگایا جاتا ہے۔

پارتھ اُن کئی نوجوان فنکاروں میں سے ایک ہیں، جن کا میں پرفارمنس کے لیے جانے سے پہلے انٹرویو لے رہا ہوں۔ اسٹیج کے پیچھے ’پاگ‘ باندھتے اور پن کے ذریعہ ’سلینگ‘ کو ٹھیک سے لگانے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہوئے وہ پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔

Left: Backstage at the Garamur Saru Satra, Partha Pratim Baruah, 16, checks his motamoni mala .
PHOTO • Prakash Bhuyan
Right: Manash Dutta (in blue t-shirt) helps Subhashish Borah tie the traditional headgear called paag
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: گرمور سارو سترا میں اسٹیج کے پیچھے ۱۶ سالہ پارتھ پرتیم بروا اپنی موٹامونی مالا کی جانچ کر رہے ہیں۔ دائیں: مانس دتّہ (نیلی ٹی شرٹ میں) سبھاشیش بورا کو ’پاگ‘ نام کی روایتی پگڑی باندھنے میں مدد کر رہے ہیں

The young gayan-bayans of the satra perform with taals and khols . In Majuli, being a gayan or bayan is not a profession but a part of people’s identity
PHOTO • Prakash Bhuyan
The young gayan-bayans of the satra perform with taals and khols . In Majuli, being a gayan or bayan is not a profession but a part of people’s identity
PHOTO • Prakash Bhuyan

سترا کے نوجوان گاین – واین تال اور کھول کے ساتھ پرفارم کر رہے ہیں۔ ماجولی میں گاین یا واین کوئی پیشہ نہیں، بلکہ لوگوں کی شناخت کا حصہ ہے

دس سال بڑے مانس دتّہ اس گروپ میں واین ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے گوہاٹی میں ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے لیے جونیئر ایڈیٹر کے طور پر کام کرنا شروع کیا ہے۔

نو سال کی عمر میں انہوں نے اپنے چچا اور دوسرے بڑے لوگوں کے ساتھ سیکھنا شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’چونکہ ہم سترا کے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہم چھوٹی عمر سے دیکھ کر ہی سیکھ جاتے ہیں،‘‘ اور اس طرح انہوں نے میٹرک کے امتحان میں بیٹھنے سے پہلے ہی ڈھول بجانے میں ’سنگیت وشارد‘ امتحان پاس کر لیا تھا۔

ان کی فیملی میں گاین – واین چلتا ہے اور ان کے چچا اندرنیل دتّہ گرمور سارو سترا کی ثقافتی زندگی میں ایک بڑی شخصیت ہیں۔ ’’وہ اب تقریباً ۸۵ سال کے ہیں۔ اب بھی جب کوئی کھول بجانے لگتا ہے، تو وہ خود کو ناچنے سے نہیں روک پاتے۔‘‘

گاین – واین کی پیشکش کا انداز تال، مان، راگ اور مُدرا کی تعداد اور قسم کی بنیاد پر مختلف ستروں میں الگ الگ ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک طرز ہے دُھرا، جو گرمور سارو سترا اور گرمور بوڑ سترا میں انوکھی چیز ہوتی ہے، جہاں یہ سال میں صرف ایک بار بورکھوباہ کے دن ہوتا ہے۔ بورکھوباہ آسامی مہینہ اہار میں منایا جانے والا سالانہ اجتماعی تہوار ہے، جو عام طور پر جون – جولائی کے مہینے میں پڑتا ہے۔ دو اور عام طرز ہیں ماجولی کے بارپیٹا سترا کی برپیٹیا اور کملا باری سترا کی کملا بریا۔ ماجولی کے زیادہ تر سترا کملا بریا طرز کے مطابق چلتے ہیں۔ ان میں پرفارم کرنے والے فنکار سبھی جگہوں سے آتے ہیں۔

گاین – واین کے بعد ’سوتر دھاری‘ رقص کیا جاتا ہے۔ اسے ’بھاؤنا‘ (روایتی لوک ناٹک) شروع کرنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ مانس مجھے بتاتے ہیں، ’’ان کے بغیر کوئی بھی بھاؤنا کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ سوتر دھار، بھاؤنا کی تمہید بیان کرتا ہے اور کہانی کا خلاصہ بتاتا ہے۔ آج کل سوتر دھاری ہماری مادری زبان آسامی میں بھی ہوتا ہے، مگر اس کی بنیادی زبان برجاولی ہے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: آسام کا گاین – واین

’اگر دوسرے لوگوں کو سیکھنا ہوگا، تو انہیں کافی وقت لگے گا۔ چونکہ ہم اسی ماحول میں پیدا ہوئے ہیں اور بہت کم عمر سے ہی [اس فن کو] دیکھا ہے، تو ہمیں آ جاتا ہے‘

*****

سترا میں تقریباً تین سال کی عمر سے بچے اس فن میں قدم رکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی ایک شروعات ہوتی ہے راس کے دوران جو ماجولی کا ایک بڑا تہوار ہے۔ تب مشق کے دوران بچے اپنے والدین کے ساتھ ہال میں جاتے ہیں۔ پڑھیں: ماجولی کا راس مہوتسو اور سترا

گروپ کے ایک اور رکن اور واین سبھاشیش بورا (۱۹) کا سفر تب شروع ہوا جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔ مانس کے ایک رشتہ دار سبھاشیش نے بھی اپنے چچاؤں کو دیکھ کر سیکھا، جن میں سے ایک کھیرود دتّہ بوڑ واین ہیں۔ یہ لقب سترا کی طرف سے ماہر واینوں کو دیا جاتا ہے۔

حالانکہ، انہوں نے راس اُتسو میں رقص کیا تھا اور ایک بچہ کے طور پر چھوٹے بھگوان کرشن کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ سبھاشیش نے تقریباً ۱۰ دوسرے چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ میوزک اسکول میں ’کھول‘ سیکھا تھا۔ سال ۱۹۷۹ میں قائم کردہ شری شری پیتامبر دیو سانسکرتک مہا ودیالیہ اکثر و بیشتر بند رہتا ہے۔ سال ۲۰۱۵ میں اساتذہ کی کمی کے سبب یہ پھر بند ہو گیا تھا۔

سبھاشیش نے ۱۹ سال کے پریہ برت ہزاریکا اور ۲۷ دوسرے طلباء کے ساتھ ۲۰۲۱ میں شروع ہوئی مانس اور کھیرود دتہ کی گاین – واین کلاسوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ پریہ برت نے تین سال ’کھول‘ کی پڑھائی مہا ودیالیہ بند ہونے تک کی تھی۔

وہ کہتے ہیں، ’’اگر مجھے ایک سال اور سیکھنے کا موقع ملتا، تو میں آخری مرحلہ یعنی ’وشارد‘ تک پہنچ جاتا۔ مجھے لگا تھا کہ اسکول ابھی چلے گا۔‘‘

Left: Priyabrat Hazarika (left), Subhashish (right) and Xuruj Jyoti Borah (centre) help fellow bayan Nabajyoti Borah (sitting) tie his paag .
PHOTO • Prakash Bhuyan
Right: Priyabrat helps Siddhartha Borah pin the seleng sador to his shoulder. The seleng is a long, rectangular piece of cloth draped over the body and makes an essential part of the performance attire
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: پریہ برت ہزاریکا (بائیں)، سبھاشیش (دائیں) اور سُروج جیوتی بورا (درمیان میں) ساتھی باین نب جیوتی بورا (بیٹھے ہوئے) کی ’پاگ‘ باندھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ دائیں: پریہ برت ’سلینگ سادور‘ کو کندھے پر پن کرنے میں سدھارتھ بورا کی مدد کر رہے ہیں۔ ’سلینگ‘ جسم پر لپیٹے جانے والے کپڑے کا ایک لمبا، مستطیل ٹکڑا ہے اور پوشاک کا ایک ضروری حصہ ہوتا ہے

وہ آگے سمجھاتے ہیں کہ گاین یا واین سیکھنے کے لیے ایک روایتی نصاب میں کیا کیا شامل ہوتا ہے۔ طلباء کو سب سے پہلے الگ الگ تال سکھائی جاتی ہے، جنہیں وہ اپنی ہتھیلیوں پر بجانا سیکھتے ہیں۔ اسی ابتدائی مرحلہ میں رقص اور کھول بجانے کی بنیادی باتیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔ طلباء ’ماٹی اکھورا‘ بھی سیکھتے ہیں۔

مانس بتاتے ہیں، ’’ماٹی اکھورا ہماری طبعی ثقافت کا طریقہ ہے۔ یہ ورزش کی طرح ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اس کے جسم کی سبھی ۲۰۶ ہڈیاں درست اور ٹھیک رہیں گی۔‘‘ کئی الگ الگ قسم کے ’اکھورا‘ ہوتے ہیں، جن کا نام پرندوں اور جانوروں کے ذریعہ کیے جانے والے اشاروں کی بنیاد پر رکھا گیا ہے – مورائے پانی کھووا، کسائے پانی کھووا، ٹیل توپی ان میں سے کچھ ہیں۔

اگلے مرحلہ میں طلباء کو اپنے مضامین کے مطابق اُن گروپوں میں رکھا جاتا ہے، جنہیں وہ سیکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ رقص سیکھتے ہیں، کچھ کھول اپناتے ہیں اور کچھ بورگیت سیکھتے ہیں۔ جو گاین بننا چاہتے ہیں وہ اس مرحلہ میں تال بجانا سیکھتے ہیں۔

مانس کہتے ہیں، ’’اگر کچھ دوسرے لوگ یہ تعلیمات سیکھنا اور سمجھنا چاہیں گے، تو انہیں کافی وقت لگے گا۔ چونکہ ہم اسی ماحول میں پیدا ہوئے ہیں، یہیں ہماری پرورش و پرداخت ہوئی ہے اور بہت چھوٹی عمر سے ہی (فن) دیکھتے آئے ہیں، تو ہمیں آ جاتا ہے، لیکن جو لوگ اس ماحول سے نہیں ہیں انھیں ٹھیک سے سیکھنے میں کئی سال لگیں گے۔‘‘

Khol, an asymmetric drum played by the bayan is central to the performance. A screen is held up as the group, along with their mentors, offers a prayer before beginning.
PHOTO • Prakash Bhuyan
Khol, an asymmetric drum played by the bayan is central to the performance. A screen is held up as the group, along with their mentors, offers a prayer before beginning.
PHOTO • Prakash Bhuyan

کھول کو واین بجاتے ہیں۔ یہ ایک سڈول ڈرم ہے، جس کا پرفارمنس میں اہم رول ہوتا ہے۔ جب گروپ اپنے استادوں کے ساتھ شروعات سے پہلے پرارتھنا کرتا ہے، تو ایک اسکرین کھڑی کی جاتی ہے

حالیہ برسوں میں گاین – واین کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ فن پہلے صرف ستروں میں رائج تھا۔ آج یہ آسام کے گاؤوں میں بھی دکھایا جاتا ہے۔ پھر بھی گاین اور واین سیکھنے والے لوگوں کی تعداد لگاتار گھٹ رہی ہے۔ نوجوان نسل بہتر معاش کی تلاش میں ماجولی سے نقل مکانی کر رہی ہے۔

پریہ برت مجھ سے کہتے ہیں، ’’یہ ڈر من میں آ ہی جاتا ہے کہ ایک دن یہ سب ختم ہو جائے گا۔‘‘

شنکر دیو کی زیادہ تر موسیقی تخلیقات ان کی زندگی میں ہی تباہ ہو گئی تھیں۔ جو کچھ وراثت میں ملا تھا وہ مکمل کا صرف چھوٹا سا حصہ تھا، جسے ایک نسل اگلی نسل کو سکھاتی تھی۔ اس وراثت کے بارے میں مانس کافی حساس ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’ایک کے بعد دوسری نسلیں ختم ہو جائیں گی، مگر شنکر دیو کی تخلیقات کبھی نہیں ختم ہوں گی۔ وہ اسی طرح ہمارے اندر زندہ رہیں گے۔ یہ میرے لیے بڑی بات ہے کہ میری پیدائش ماجولی میں ہوئی۔ [یہ روایت] ماجولی میں زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ یہ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں۔‘‘

Tulasi Borah (centre) and Priyabrat (right) help Jyotishman Dutta roll his paag in the namghar (prayer house) of the Garamur Saru Satra
PHOTO • Prakash Bhuyan

تلسی بورا (درمیان میں) اور پریہ برت (دائیں) گرمور سارو سترا کے نام گھر (پرارتھنا گھر) میں جیوتشمان دتّہ کی ’پاگ‘ سمیٹنے میں مدد کر رہے ہیں

Xuruj, a gayan in the group, arranges the motamoni mala around the neck of his fellow artist Subhashish
PHOTO • Prakash Bhuyan

گروپ کا ایک گاین سُروج ساتھی فنکار سبھاشیش کے گلے میں پہنی ہوئی ’موٹامونی‘ مالا ٹھیک کر رہا ہے

A chain of bakul flowers (Indian Medlar) adorns the paag of gayan Samudra Hazarika. It is part of the traditional attire worn by performers
PHOTO • Prakash Bhuyan

بکول پھولوں کی لڑی گاین سمُدر ہزاریکا کے ’پاگ‘ پر سجائی جا رہی ہے۔ یہ فنکاروں کے ذریعہ پہنی گئی روایتی پوشاک کا حصہ ہوتے ہیں

Anurag Saikia, one of the youngest in the group, waits near the wings of the stage. The children in the satra start their lessons early
PHOTO • Prakash Bhuyan

گروپ کے سب سے کم عمر کے لوگوں میں سے ایک انوراگ سیکیا اسٹیج کے پاس انتظار کر رہے ہیں۔ سترا میں بچے اپنا سبق جلدی شروع کرتے ہیں

Shantanu Bhuyan poses for a portrait on the first evening of the Raas Mahotsav, one of the major festivals in Majuli
PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی کے بڑے تہواروں میں سے ایک ’راس مہوتسو‘ کی پہلی شام شانتنو بھوئیاں ایک فوٹو کے لیے پوز دیتے ہوئے

Thirteen-year-old bayan Jyotishman Dutta waits to perform during Raas Mahotsav
PHOTO • Prakash Bhuyan

راس مہوتسو کے دوران پیشکش کا انتظار کر رہے ۱۳ سالہ واین جیوتشمان دتّہ

Riki Bora will be the sutradhar (narrator) who describes the context of the Bhaona (folk play) and narrates the gist of the story ahead
PHOTO • Prakash Bhuyan

رکی بورا ’سوتر دھار‘ ہوں گے، جو ’بھاؤنا‘ کی تمہید بیان کرتے ہیں اور کہانی کا خَلاصہ بتاتے ہیں

Nityananda Dutta applies mrittika tilak on Jyotishman as the group of young gayan-bayans gets ready to go on stage
PHOTO • Prakash Bhuyan

نوجوان گاین – واین گروپ کے اسٹیج پر جانے کی تیاری کے دوران نتیہ نند دتّہ نے جیوتشمان کو ’مرتیکا‘ تلک لگایا

Subhashish Borah, Priyabrat Hazarika and Jyotishman Dutta pose for a portrait in traditional attire
PHOTO • Prakash Bhuyan

سبھاشیش بورا، پریہ برت ہزاریکا اور جیوتشمان دتہ روایتی پوشاک میں فوٹو کے لیے پوز دیتے ہوئے

Samudra Hazarika offers a prayer during the performance of the Nri Simha Jatra Bhaona in the namghar of the Garamur Saru Satra
PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا کے نام گھر میں نرسمہا جاترا بھاؤنا کی پیشکش کے دوران پرارتھنا کرتے سمدر ہزاریکا

The group prays to the Nri Simha mask before their performance
PHOTO • Prakash Bhuyan

اپنی پیشکش سے پہلے نرسمہا مکھوٹے کے سامنے پرارتھنا کرتے ہوئے گروپ

Nabajyoti Borah checks the khol held by Priyabrat as their fellow bayans Jyotishman (left) and Partha (right) look on
PHOTO • Prakash Bhuyan

نب جیوتی بورا، پریہ برت کے ذریعہ پکڑے ہوئے کھول کی جانچ کر رہے ہیں اور ان کے ساتھی واین جیوتشمان (بائیں) اور پارتھ (دائیں) دیکھ رہے ہیں

Performance at the namghar; a traditional gayan-bayan curriculum begins with learning to play different taals on the palm of your hands
PHOTO • Prakash Bhuyan

نام گھر میں پرفارمنس: روایتی گاین – واین نصاب کی شروعات ہتھیلی پر الگ الگ تال بجانا سیکھنے سے ہوتی ہے

The style of performing differs across satras on the basis of the number and types of taal, maan, raga and mudra
PHOTO • Prakash Bhuyan

تال، مان، راگ اور مدرا کی تعداد اور قسم کی وجہ سے ستروں میں پیشکش کا انداز الگ الگ ہوتا ہے

In the initial stages of study, the students are also taught the basics of nrityo . Later, students are grouped according to their choice of discipline – nrityo, khol and borgeet among others.
PHOTO • Prakash Bhuyan

مطالعہ کے ابتدائی مراحل میں طلباء کو رقص کی بنیادی باتیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔ بعد میں طلباء کو ان کی پسند کے رقص، کھول اور بوڑ گیت وغیرہ کے مطابق گروپوں میں رکھا جاتا ہے

Debojit Dutta (centre) sings with the group of gayans to provide the background music in the folk play, Nri Simha Jatra
PHOTO • Prakash Bhuyan

دیبو جیت دتہ (درمیان میں) لوک ناٹک نرسمہا جاترا میں بیک گراؤنڈ میں موسیقی دینے کے لیے گاین گروپ کے ساتھ گاتے ہیں

Riki Bora performs the sutradhari nritya without which a Bhaona is never complete
PHOTO • Prakash Bhuyan

رکی بورا سوتر دھاری نرتیہ (رقص) کرتے ہیں، جس کے بغیر بھاؤنا کبھی پورا نہیں ہوتا

Riki holds up a xorai as he exits the stage after his performance
PHOTO • Prakash Bhuyan

پیشکش کے بعد اسٹیج سے باہر نکلتے وقت رکی نے زورائی پکڑ رکھی ہے

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت کی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Prakash Bhuyan

Prakash Bhuyan is a poet and photographer from Assam, India. He is a 2022-23 MMF-PARI Fellow covering the art and craft traditions in Majuli, Assam.

Other stories by Prakash Bhuyan
Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique