نومبر کے آتے ہی، ماجولی جزیرہ کا گرمور بازار تین دنوں تک رنگ برنگی روشنی اور مٹی کے دیوں (چراغ) سے جگمگانے لگتا ہے۔ ابتدائی سردی کی شام ڈھلتے ہی ڈھول نقارہ بجنے لگتا ہے۔ چاروں طرف لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے کی آواز، اور تال جھانجھ منجیرا کی تھاپ گونجنے لگتی ہے۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ راس مہوتسو کی شروعات ہو چکی ہے۔

پورنیما کے روز جب چاند پورا نکلتا ہے، آسام کے کٹی-اگھون مہینے (اکتوبر اور نومبر کے درمیان) میں راس مہوتسو شروع ہو جاتا ہے۔ یہ جشن دو دنوں تک چلتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے ہرسال زائرین اور سیاح بڑی تعداد میں اس جزیرہ پر آتے ہیں۔

بورون چتادار چُک گاؤں میں اس تہوار کا اہتمام کرنے والی کمیٹی کے سکریٹری، راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’ہم لوگ اگر اسے ہر سال نہ منائیں، تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ کھو گیا ہے۔ یہ [راس مہوتسو] ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ لوگ سال بھر اس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔‘‘

بہترین کپڑوں میں ملبوس یہاں کے سینکڑوں باشندے گرمور سارو سترا – آسام میں ویشنو فرقہ کے کئی مٹھوں (عبادت گاہوں) میں سے ایک – کے قریب جمع ہو جاتے ہیں۔

PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی کا گرمور سارو سترا، جو آسام کے ۶۰ سے زیادہ مقامات میں سے ایک ہے جہاں سال ۲۰۲۲ میں یہ مہوتسو منایا گیا تھا۔ کرشن دتّہ (کھڑے ہوئے) اسٹیج کو سجانے کا کام کر رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا میں اساطیری سانپ، ’کالیو ناگ‘ کے پانچ سر دیوار کے سہارے کھڑا کرکے رکھے گئے ہیں۔ ہاتھ سے بنائے گئے ایسے سامان تہوار کے دوران پرفارمنس میں اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں

راس مہوتسو (کرشن کے رقص کا تہوار) میں رقص، ڈرامہ اور منظوم پیشکش کے ذریعے بھگوان کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران اسٹیج پر ایک ہی دن میں ۱۰۰ سے زیادہ کرداروں کو اسٹیج پر اتارا جا سکتا ہے۔

اسٹیج پر کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو دکھایا جاتا ہے – جیسے کہ ورندا وَن میں گزرا ان کا بچپن اور راس لیلا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گوپیوں کے ساتھ رقص کیا تھا۔ اس بار کے ڈراموں میں ’انکیا ناٹ‘ (تنہا اداکاری) کی مختلف شکلیں پیش کی گئی تھیں، جیسے کہ شنکر دیو کے ذریعے تحریر کردہ ’کیلی گوپال‘ اور ان کے شاگر مادھو دیو کو وقف ’راس جھومور‘۔

گرمور مہوتسو میں وشنو کا کردار نبھانے والے مکتا دتّہ کہتے ہیں کہ رول ملتے ہی انہیں کچھ چیزوں پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے: ’’جس دن ہمیں کرشن، نارائن یا وشنو کا رول ملتا ہے، عام طور پر اسی دن سے ہم سبزی خور ہو جاتے ہیں اور گوشت یا مچھلی نہیں کھا سکتے۔ راس کے پہلے دن، ہم بروت (روزہ) رکھتے ہیں۔ پہلے دن کی پیشکش ختم ہونے کے بعد ہی ہم اپنا بروت (یا برت) توڑتے ہیں۔‘‘

برہم پتر ندی آسام میں تقریباً ۶۴۰ کلومیٹر تک بہتی ہے۔ ماجولی اس ندی کا ایک بڑا جزیرہ ہے۔ یہاں کے سترا (مٹھ یا عبادت گاہ) ویشنو مذہب کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کے بھی مرکز ہیں۔ سماجی مصلح اور سادھو، شری منت شنکر دیو کے ذریعے ۱۵ویں صدی میں قائم کیے گئے ان سترا نے آسام میں نئی ویشنو بھکتی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

ماجولی میں ایک زمانے میں ۶۵ سترا ہوا کرتے تھے، جن میں سے اب صرف ۲۲ ہی بچے ہیں۔ بقیہ تمام سترا دنیا کے سب سے بڑے طاس والے علاقے، یعنی برہم پتر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بہہ گئے۔ دراصل، موسم گرما اور مانسون کے مہینوں میں ہمالیہ کی جو برف پگھلتی ہے، وہ مختلف ندیوں سے ہوتے ہوئے دریائے برہم پتر میں ہی آ کر گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال وہاں سیلاب آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مانسون کے دوران ماجولی میں ہونے والی بارش سے بھی زمین دھنس جاتی ہے۔

PHOTO • Prakash Bhuyan

وشنو کا کردار نبھانے والے مکتا دتہ اپنا میک اپ کروا رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

سال ۲۰۱۶ کے راس مہوتسو میں اپنی اداکاری کے لیے تیار ہوتے اتر کملا باڑی سترا کے بھکشو

راس مہوتسو عموماً سترا میں منایا جاتا ہے، جب کہ اس جزیرہ پر آباد مختلف برادریوں کے لوگ کمیونٹی ہال، کھلے میدانوں یا اسکول کے میدان میں بنائے گئے اسٹیج پر اپنی تقریبات اور پرفارمنس کا اہتمام کرتے ہیں۔

گرمور سارو سترا کے برعکس، اتر کملا باڑی سترا کی پیشکش میں عموماً عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ اس میں سترا کے برہمچاری بھکشو حصہ لیتے ہیں، جنہیں بھکت کہا جاتا ہے۔ ان بھکتوں کو مذہبی اور ثقافتی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور یہ جن ڈراموں میں حصہ لیتے ہیں، وہ سبھی کے لیے مفت ہوتا ہے اور وہاں ہر کوئی آ سکتا ہے۔

اندرنیل دتہ (۸۲ سالہ)، گرمور سارو سترا کے راس مہوتسو کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے سترادھیکار (سترا کے سربراہ) پیتامبر دیو گوسوامی نے ۱۹۵۰ میں صرف مردوں کو اس میں شامل کرنے کی روایت ختم کر دی اور اس کے دروازے خواتین اداکاروں کے لیے بھی کھول دیے۔

وہ بتاتے ہیں، ’’پیتامبر دیو نے [روایتی مقام] نامگھر [عبادت گاہ] سے باہر اسٹیج بنوایا۔ نامگھر چونکہ پوجا کرنے کی جگہ تھی، اس لیے ہم لوگ اسٹیج کو باہر لے گئے۔‘‘

یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ جن ۶۰ جگہوں پر یہ مہوتسو منایا گیا تھا، ان میں سے ایک گرمور بھی ہے۔ ناٹک کا اہتمام آڈیٹوریم میں کیا جاتا ہے، جہاں تقریباً ۱۰۰۰ لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کو ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔

PHOTO • Prakash Bhuyan
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: گرمور سترا میں مہوتسو شروع ہونے سے دو ہفتے پہلے اس کا ریہرسل کرتے اداکار۔ دائیں: گوپا بالک [گوالوں کے لڑکے] کے اپنے رول کی ریہرسل کرتے بچے۔ ایک ماں اپنے بچے کی دھوتی ٹھیک کر رہی ہے، جو کہ اس کے لباس کا ایک حصہ ہے

یہاں پیش کیے جانے والے ناٹک (ڈرامے) ویشنو روایت میں شنکر دیو اور دیگر لوگوں کے ذریعے تحریر کردہ ڈراموں کی الگ الگ شکلیں ہیں، جنہیں تجربہ کار فنکار آج کے ماحول کے مطابق ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ اندرنیل دتہ بتاتے ہیں، ’’جب میں ڈرامے لکھتا ہوں، تو اس میں لوک سنسکرتی [مقامی ثقافت] سے جڑی چیزیں ڈال دیتا ہوں۔ ہمیں اپنی جاتی [کمیونٹی] اور سنسکرتی [ثقافت] کو زندہ رکھنا ہے۔‘‘

مُکتا دتّہ بتاتے ہیں، ’’ریہرسل دیوالی کے اگلے دن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اداکاروں کو تیار ہونے کے لیے دو ہفتے سے بھی کم وقت فراہم کرتا ہے۔ ’’جو لوگ پہلے اداکاری کر چکے ہیں وہ الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں۔ انہیں اکٹھا کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے،‘‘ مُکتا دتّہ کہتے ہیں، جو اداکار ہونے کے علاوہ، گرمور سنسکرت ٹول (اسکول) میں انگریزی بھی پڑھاتے ہیں۔

کالج اور یونیورسٹیوں کے امتحان بھی اکثر مہوتسو کے انہی دنوں میں پڑتے ہیں۔ ’’پھر بھی وہ [طلباء] آتے ہیں، ایک دن کے لیے ہی سہی۔ وہ راس میں اپنا رول ادا کرتے ہیں اور اگلے دن لوٹ جاتے ہیں تاکہ اپنا امتحان دے سکیں،‘‘ مُکتا بتاتے ہیں۔

مہوتسو کا انتظام کرنے کا خرچ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ گرمور میں، سال ۲۰۲۲ میں اس پر تقریباً ۴ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ مُکتا کہتے ہیں، ’’ہم ٹیکنیشین کو پیسے دیتے ہیں۔ اداکاری کرنے والے تمام لوگ رضاکار ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے ۱۵۰ کے آس پاس ہے – یہ تمام لوگ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔‘‘

بورون چتادار چُک میں راس مہوتسو اسکول میں منایا جاتا ہے اور اس کا اہتمام میسنگ کمیونٹی (جسے آسام میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے) کے لوگ کرتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے، نوجوان نسل کی عدم دلچسپی اور اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی مہاجرت کی وجہ سے اداکاروں کی تعداد گھٹنے لگی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود یہ مہوتسو ختم اب بھی جاری ہے۔ راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’اگر ہم اس کا اہتمام نہیں کریں گے، تو گاؤں میں کچھ امنگل [ناخوشگوار واقعہ] ہو جائے گا۔ گاؤں کے لوگوں کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘

PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی میں راس مہوتسو دیکھنے کے لیے زائرین اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ برہم پتر ندی پر واقع کملا باڑی گھاٹ ایک بڑا فیری اسٹیشن ہے، جہاں تہوار کے دوران کافی گہما گہمی رہتی ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

بستاؤ سیکیا، گزشتہ ۱۱ سالوں سے تہوار میں سیٹ سنبھالنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ ناگاؤں ضلع سے ماجولی آتے ہیں۔ یہاں پر وہ کنس کے تخت کے پیچھے لگایا جانے والا پوسٹر تیار کر رہے ہیں، جسے گرمور کی پیشکش میں استعمال کیا جائے گا

PHOTO • Prakash Bhuyan

بچوں کے ماں باپ اور سرپرست مقامی پرائمری اسکول کے ٹیچر، انل سرکار (درمیان میں) سے ان کا میک اپ کرانے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

اسٹیج کے پیچھے، گوپا بالک کے لباس میں اپنے حصہ کی اداکاری کا انتظار کرتے بچے

PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا کے تہوار میں کنس کا کردار ادا کرنے والے مِردو پاون بھوئیاں کا انٹرویو لیتے نامہ نگار

PHOTO • Prakash Bhuyan

اسٹیج کے پیچھے نیند سے پریشان ایک بچے کو خاموش کراتے مکتا دتّہ

PHOTO • Prakash Bhuyan

عورتیں کالیو ناگ کی تصویر کے پاس دیا (مٹی کا چراغ) اور اگربتی جلا رہی ہیں۔ مہوتسو شروع ہونے سے پہلے پوجا کرتے وقت یہ رسم ادا کی جاتی ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا کے دروازے کے قریب تصویریں کھنچواتے لوگ

PHOTO • Prakash Bhuyan

پرستاونا – ڈرامے کا پہلا منظر – میں برہما (دائیں)، مہیشور (درمیان میں)، وشنو اور لکشمی (بائیں) زمین کے حالات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

راکشسی پوتونا (درمیان میں) جوان عورت (موہنی پوتونا) کی شکل میں کنس (بائیں) سے وعدہ کر رہی ہے کہ وہ چھوٹے کرشن کو ہلاک کر سکتی ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

جوان لڑکیاں گوپیوں (گوالن) کے لباس میں اسٹیج کے پیچھے نندوتسو سین کی تیاری کر رہی ہیں۔ نندوتسو میں ورنداون کے لوگ کرشن کے پیدا ہونے کا جشن مناتے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

راس مہوتسو میں رقص، ڈرامہ اور منظوم پیشکش کے ذریعے بھگوان کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران ایک ہی دن میں ۱۰۰ سے زیادہ کرداروں کو اسٹیج پر اتارا جا سکتا ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

راکشسی پوتونا چھوٹے کرشن کو اپنا زہریلا دودھ پلا کر مارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن، وہ خود ہی مر جاتی ہے۔ یشودا (بائیں) سین میں داخل ہو رہی ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

ورندا ون میں گوپیوں کے ساتھ رقص کرتے چھوٹے بھگوان کرشن

PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا میں، بچے ناٹک کا وہ سین پیش کر رہے ہیں جہاں چھوٹے کرشن نے سارس کی شکل میں آئے راکشس بوکاسُر کو شکست دینے کے بعد ہلاک کر دیا ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

کرشن اور ان کے بھائی بلرام کا کردار نبھا رہے بچے، اور دھینوکا سُر ودھ – راکشس دھینوکا کے مارے جانے کا منظر

PHOTO • Prakash Bhuyan

آسام کے ماجولی میں منائے جانے والے گرمور سارو سترا راس مہوتسو میں بچے بڑی تعداد میں اداکاری کرتے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

کالیو دمن سین، جس میں کرشن یمنا ندی میں رہنے والے کالیو ناگ کو شکست دینے کے بعد اس کے سر پر سوار ہو کر رقص کر رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

ایک کونے سے پرفارمنس کا لطف لے رہے اداکار اور سامعین

PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا میں، سال ۲۰۱۶ میں بھکشو لوگ کیلی گوپال ناٹک کے ریہرسل کی تیاری کر رہے ہیں، جسے مہوتسو میں پیش کیا جائے گا۔ سال ۱۹۵۵ میں اس آڈیٹوریم کی تعمیر سے پہلے، یہ ناٹک نامگھر (عبادت گاہ یا پوجا گھر) میں پیش کیا جاتا تھا

PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا میں راس مہوتسو کے لیے ریہرسل کا آخری دن

PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا کے بھکشو، نرنجن سیکیا (بائیں) اور کرشن جودو مونی سیکیا (دائیں) اپنے بوہا (کوارٹر) میں۔ کاسٹیوم پہننے میں کافی وقت لگتا ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

پرفارمنس میں استعمال ہونے والے ماسک (مکھوٹا) اور انہیں بنانے کا عمل، راس مہوتسو کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہاں، اسُر اور دانب کے رول کے لیے تیار کئے گئے ماسک کو پہن کر اداکار اسٹیج پر آ رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

بورون چتادار چُک گاؤں میں مہوتسو کی جگہ پر کالیو ناگ کا ماسک تیار کیا جا رہا ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

بورون چتادار چُک میں مہوتسو کا افتتاح کرنے کے لیے مُنیم کامن (درمیان میں)، دومودر ملی کی تصویر کے سامنے چراغ اور اگربتیاں جلا کر پوجا کر رہے ہیں۔ کئی دہائی پہلے وفات پا چکے دومودر ملی نے ہی گاؤں کے لوگوں کو راس کا اہتمام کرنے کے بارے میں سکھایا تھا

PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی کے بورون چتادار چُک میں ایک اسٹیج

PHOTO • Prakash Bhuyan

اپوربو کامن (درمیان میں) اپنے پرفارمنس کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ بورون چتادار چُک مہوتسو میں گزشتہ کئی برسوں سے کنس کا رول ادا کر رہے ہیں

PHOTO • Prakash Bhuyan

ایک نوجوان لڑکا پرفارمنس میں استعمال کیے جانے والے ایک ماسک کو پہننے کی کوشش کر رہا ہے

PHOTO • Prakash Bhuyan

سؤر کا بھونا ہوا گوشت اور میسنگ کمیونٹی کے ذریعے چاول کا روایتی بیئر، اپونگ کو بورون چتادار چُک مہوتسو کے دوران لوگ کافی پسند کرتے ہیں

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کے ذریعے فراہم کردہ فیلوشپ کی مدد سے کی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Prakash Bhuyan

Prakash Bhuyan is a poet and photographer from Assam, India. He is a 2022-23 MMF-PARI Fellow covering the art and craft traditions in Majuli, Assam.

Other stories by Prakash Bhuyan
Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez