نومبر کے آتے ہی، ماجولی جزیرہ کا گرمور بازار تین دنوں تک رنگ برنگی روشنی اور مٹی کے دیوں (چراغ) سے جگمگانے لگتا ہے۔ ابتدائی سردی کی شام ڈھلتے ہی ڈھول نقارہ بجنے لگتا ہے۔ چاروں طرف لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے کی آواز، اور تال جھانجھ منجیرا کی تھاپ گونجنے لگتی ہے۔

یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ راس مہوتسو کی شروعات ہو چکی ہے۔

پورنیما کے روز جب چاند پورا نکلتا ہے، آسام کے کٹی-اگھون مہینے (اکتوبر اور نومبر کے درمیان) میں راس مہوتسو شروع ہو جاتا ہے۔ یہ جشن دو دنوں تک چلتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے ہرسال زائرین اور سیاح بڑی تعداد میں اس جزیرہ پر آتے ہیں۔

بورون چتادار چُک گاؤں میں اس تہوار کا اہتمام کرنے والی کمیٹی کے سکریٹری، راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’ہم لوگ اگر اسے ہر سال نہ منائیں، تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ کھو گیا ہے۔ یہ [راس مہوتسو] ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ لوگ سال بھر اس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔‘‘

بہترین کپڑوں میں ملبوس یہاں کے سینکڑوں باشندے گرمور سارو سترا – آسام میں ویشنو فرقہ کے کئی مٹھوں (عبادت گاہوں) میں سے ایک – کے قریب جمع ہو جاتے ہیں۔

The Garamur Saru Satra is one of the more than 60 venues in Majuli, Assam where the mahotsav was held in 2022. Krishna Dutta, (standing) works on stage decorations
PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی کا گرمور سارو سترا، جو آسام کے ۶۰ سے زیادہ مقامات میں سے ایک ہے جہاں سال ۲۰۲۲ میں یہ مہوتسو منایا گیا تھا۔ کرشن دتّہ (کھڑے ہوئے) اسٹیج کو سجانے کا کام کر رہے ہیں

The five hoods of the mythical snake Kaliyo Naag rest against the wall at the Garamur Saru Satra. Handmade props such as these are a big part of the festival performances.
PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا میں اساطیری سانپ، ’کالیو ناگ‘ کے پانچ سر دیوار کے سہارے کھڑا کرکے رکھے گئے ہیں۔ ہاتھ سے بنائے گئے ایسے سامان تہوار کے دوران پرفارمنس میں اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں

راس مہوتسو (کرشن کے رقص کا تہوار) میں رقص، ڈرامہ اور منظوم پیشکش کے ذریعے بھگوان کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران اسٹیج پر ایک ہی دن میں ۱۰۰ سے زیادہ کرداروں کو اسٹیج پر اتارا جا سکتا ہے۔

اسٹیج پر کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو دکھایا جاتا ہے – جیسے کہ ورندا وَن میں گزرا ان کا بچپن اور راس لیلا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گوپیوں کے ساتھ رقص کیا تھا۔ اس بار کے ڈراموں میں ’انکیا ناٹ‘ (تنہا اداکاری) کی مختلف شکلیں پیش کی گئی تھیں، جیسے کہ شنکر دیو کے ذریعے تحریر کردہ ’کیلی گوپال‘ اور ان کے شاگر مادھو دیو کو وقف ’راس جھومور‘۔

گرمور مہوتسو میں وشنو کا کردار نبھانے والے مکتا دتّہ کہتے ہیں کہ رول ملتے ہی انہیں کچھ چیزوں پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے: ’’جس دن ہمیں کرشن، نارائن یا وشنو کا رول ملتا ہے، عام طور پر اسی دن سے ہم سبزی خور ہو جاتے ہیں اور گوشت یا مچھلی نہیں کھا سکتے۔ راس کے پہلے دن، ہم بروت (روزہ) رکھتے ہیں۔ پہلے دن کی پیشکش ختم ہونے کے بعد ہی ہم اپنا بروت (یا برت) توڑتے ہیں۔‘‘

برہم پتر ندی آسام میں تقریباً ۶۴۰ کلومیٹر تک بہتی ہے۔ ماجولی اس ندی کا ایک بڑا جزیرہ ہے۔ یہاں کے سترا (مٹھ یا عبادت گاہ) ویشنو مذہب کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کے بھی مرکز ہیں۔ سماجی مصلح اور سادھو، شری منت شنکر دیو کے ذریعے ۱۵ویں صدی میں قائم کیے گئے ان سترا نے آسام میں نئی ویشنو بھکتی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

ماجولی میں ایک زمانے میں ۶۵ سترا ہوا کرتے تھے، جن میں سے اب صرف ۲۲ ہی بچے ہیں۔ بقیہ تمام سترا دنیا کے سب سے بڑے طاس والے علاقے، یعنی برہم پتر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بہہ گئے۔ دراصل، موسم گرما اور مانسون کے مہینوں میں ہمالیہ کی جو برف پگھلتی ہے، وہ مختلف ندیوں سے ہوتے ہوئے دریائے برہم پتر میں ہی آ کر گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال وہاں سیلاب آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مانسون کے دوران ماجولی میں ہونے والی بارش سے بھی زمین دھنس جاتی ہے۔

Mukta Dutta, who plays the role of Vishnu is getting his makeup done
PHOTO • Prakash Bhuyan

وشنو کا کردار نبھانے والے مکتا دتہ اپنا میک اپ کروا رہے ہیں

Monks of the Uttar Kamalabari Satra getting ready for their 2016 performance at the Raas Mahotsav
PHOTO • Prakash Bhuyan

سال ۲۰۱۶ کے راس مہوتسو میں اپنی اداکاری کے لیے تیار ہوتے اتر کملا باڑی سترا کے بھکشو

راس مہوتسو عموماً سترا میں منایا جاتا ہے، جب کہ اس جزیرہ پر آباد مختلف برادریوں کے لوگ کمیونٹی ہال، کھلے میدانوں یا اسکول کے میدان میں بنائے گئے اسٹیج پر اپنی تقریبات اور پرفارمنس کا اہتمام کرتے ہیں۔

گرمور سارو سترا کے برعکس، اتر کملا باڑی سترا کی پیشکش میں عموماً عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ اس میں سترا کے برہمچاری بھکشو حصہ لیتے ہیں، جنہیں بھکت کہا جاتا ہے۔ ان بھکتوں کو مذہبی اور ثقافتی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور یہ جن ڈراموں میں حصہ لیتے ہیں، وہ سبھی کے لیے مفت ہوتا ہے اور وہاں ہر کوئی آ سکتا ہے۔

اندرنیل دتہ (۸۲ سالہ)، گرمور سارو سترا کے راس مہوتسو کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے سترادھیکار (سترا کے سربراہ) پیتامبر دیو گوسوامی نے ۱۹۵۰ میں صرف مردوں کو اس میں شامل کرنے کی روایت ختم کر دی اور اس کے دروازے خواتین اداکاروں کے لیے بھی کھول دیے۔

وہ بتاتے ہیں، ’’پیتامبر دیو نے [روایتی مقام] نامگھر [عبادت گاہ] سے باہر اسٹیج بنوایا۔ نامگھر چونکہ پوجا کرنے کی جگہ تھی، اس لیے ہم لوگ اسٹیج کو باہر لے گئے۔‘‘

یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ جن ۶۰ جگہوں پر یہ مہوتسو منایا گیا تھا، ان میں سے ایک گرمور بھی ہے۔ ناٹک کا اہتمام آڈیٹوریم میں کیا جاتا ہے، جہاں تقریباً ۱۰۰۰ لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کو ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔

Left: The rehearsals at the Garamur Satra begin two weeks before the mahotsav
PHOTO • Prakash Bhuyan
Right: Children rehearse for their roles as gopa balaks [young cowherds]. A mother fixes her child's dhoti which is part of the costume
PHOTO • Prakash Bhuyan

بائیں: گرمور سترا میں مہوتسو شروع ہونے سے دو ہفتے پہلے اس کا ریہرسل کرتے اداکار۔ دائیں: گوپا بالک [گوالوں کے لڑکے] کے اپنے رول کی ریہرسل کرتے بچے۔ ایک ماں اپنے بچے کی دھوتی ٹھیک کر رہی ہے، جو کہ اس کے لباس کا ایک حصہ ہے

یہاں پیش کیے جانے والے ناٹک (ڈرامے) ویشنو روایت میں شنکر دیو اور دیگر لوگوں کے ذریعے تحریر کردہ ڈراموں کی الگ الگ شکلیں ہیں، جنہیں تجربہ کار فنکار آج کے ماحول کے مطابق ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ اندرنیل دتہ بتاتے ہیں، ’’جب میں ڈرامے لکھتا ہوں، تو اس میں لوک سنسکرتی [مقامی ثقافت] سے جڑی چیزیں ڈال دیتا ہوں۔ ہمیں اپنی جاتی [کمیونٹی] اور سنسکرتی [ثقافت] کو زندہ رکھنا ہے۔‘‘

مُکتا دتّہ بتاتے ہیں، ’’ریہرسل دیوالی کے اگلے دن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اداکاروں کو تیار ہونے کے لیے دو ہفتے سے بھی کم وقت فراہم کرتا ہے۔ ’’جو لوگ پہلے اداکاری کر چکے ہیں وہ الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں۔ انہیں اکٹھا کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے،‘‘ مُکتا دتّہ کہتے ہیں، جو اداکار ہونے کے علاوہ، گرمور سنسکرت ٹول (اسکول) میں انگریزی بھی پڑھاتے ہیں۔

کالج اور یونیورسٹیوں کے امتحان بھی اکثر مہوتسو کے انہی دنوں میں پڑتے ہیں۔ ’’پھر بھی وہ [طلباء] آتے ہیں، ایک دن کے لیے ہی سہی۔ وہ راس میں اپنا رول ادا کرتے ہیں اور اگلے دن لوٹ جاتے ہیں تاکہ اپنا امتحان دے سکیں،‘‘ مُکتا بتاتے ہیں۔

مہوتسو کا انتظام کرنے کا خرچ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ گرمور میں، سال ۲۰۲۲ میں اس پر تقریباً ۴ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ مُکتا کہتے ہیں، ’’ہم ٹیکنیشین کو پیسے دیتے ہیں۔ اداکاری کرنے والے تمام لوگ رضاکار ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے ۱۵۰ کے آس پاس ہے – یہ تمام لوگ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔‘‘

بورون چتادار چُک میں راس مہوتسو اسکول میں منایا جاتا ہے اور اس کا اہتمام میسنگ کمیونٹی (جسے آسام میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے) کے لوگ کرتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے، نوجوان نسل کی عدم دلچسپی اور اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی مہاجرت کی وجہ سے اداکاروں کی تعداد گھٹنے لگی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود یہ مہوتسو ختم اب بھی جاری ہے۔ راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’اگر ہم اس کا اہتمام نہیں کریں گے، تو گاؤں میں کچھ امنگل [ناخوشگوار واقعہ] ہو جائے گا۔ گاؤں کے لوگوں کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘

The Raas festival draws pilgrims and tourists to Majuli every year. The Kamalabari Ghat situated on the Brahmaputra river, is a major ferry station and is even busier during the festival
PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی میں راس مہوتسو دیکھنے کے لیے زائرین اور سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ برہم پتر ندی پر واقع کملا باڑی گھاٹ ایک بڑا فیری اسٹیشن ہے، جہاں تہوار کے دوران کافی گہما گہمی رہتی ہے

For the last 11 years, Bastav Saikia has been travelling to Majuli from Nagaon district to work on sets for the festival. Here, he is painting the backdrop for Kansa's throne to be used at the Garamur performance
PHOTO • Prakash Bhuyan

بستاؤ سیکیا، گزشتہ ۱۱ سالوں سے تہوار میں سیٹ سنبھالنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ ناگاؤں ضلع سے ماجولی آتے ہیں۔ یہاں پر وہ کنس کے تخت کے پیچھے لگایا جانے والا پوسٹر تیار کر رہے ہیں، جسے گرمور کی پیشکش میں استعمال کیا جائے گا

Parents and guardians assemble to have their children's makeup done by Anil Sarkar (centre), a teacher in the local primary school
PHOTO • Prakash Bhuyan

بچوں کے ماں باپ اور سرپرست مقامی پرائمری اسکول کے ٹیچر، انل سرکار (درمیان میں) سے ان کا میک اپ کرانے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں

Backstage, children dressed as gopa balaks prepare for their scenes
PHOTO • Prakash Bhuyan

اسٹیج کے پیچھے، گوپا بالک کے لباس میں اپنے حصہ کی اداکاری کا انتظار کرتے بچے

Reporters interviewing Mridupawan Bhuyan, who plays the role of Kansa, at the Garamur Saru Satra's festival
PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا کے تہوار میں کنس کا کردار ادا کرنے والے مِردو پاون بھوئیاں کا انٹرویو لیتے نامہ نگار

Mukta Dutta comforts a sleepy child backstage
PHOTO • Prakash Bhuyan

اسٹیج کے پیچھے نیند سے پریشان ایک بچے کو خاموش کراتے مکتا دتّہ

Women light diyas and incense sticks around a figure of Kaliyo Naag. The ritual is part of the prayers performed before the festival begins
PHOTO • Prakash Bhuyan

عورتیں کالیو ناگ کی تصویر کے پاس دیا (مٹی کا چراغ) اور اگربتی جلا رہی ہیں۔ مہوتسو شروع ہونے سے پہلے پوجا کرتے وقت یہ رسم ادا کی جاتی ہے

People take photographs near the gates of the Garamur Saru Satra
PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا کے دروازے کے قریب تصویریں کھنچواتے لوگ

In the prastavana – the first scene of the play – Brahma (right), Maheshwara (centre), Vishnu and Lakshmi (left) discuss the state of affairs on earth
PHOTO • Prakash Bhuyan

پرستاونا – ڈرامے کا پہلا منظر – میں برہما (دائیں)، مہیشور (درمیان میں)، وشنو اور لکشمی (بائیں) زمین کے حالات کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں

The demoness or rakshasi Putona (centre) in her form as a young woman (Mohini Putona) promises Kansa (left) that she can kill the baby Krishna
PHOTO • Prakash Bhuyan

راکشسی پوتونا (درمیان میں) جوان عورت (موہنی پوتونا) کی شکل میں کنس (بائیں) سے وعدہ کر رہی ہے کہ وہ چھوٹے کرشن کو ہلاک کر سکتی ہے

Young women dressed as gopis (female cowherds) prepare backstage for the nandotsav scene where the people of Vrindavan celebrate the birth of Krishna
PHOTO • Prakash Bhuyan

جوان لڑکیاں گوپیوں (گوالن) کے لباس میں اسٹیج کے پیچھے نندوتسو سین کی تیاری کر رہی ہیں۔ نندوتسو میں ورنداون کے لوگ کرشن کے پیدا ہونے کا جشن مناتے ہیں

The Raas Mahotsav celebrates the life of Lord Krishna through dance, drama and musical performances. More than 100 characters may be depicted on stage during a single day of the festival
PHOTO • Prakash Bhuyan

راس مہوتسو میں رقص، ڈرامہ اور منظوم پیشکش کے ذریعے بھگوان کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران ایک ہی دن میں ۱۰۰ سے زیادہ کرداروں کو اسٹیج پر اتارا جا سکتا ہے

The demoness Putona tries to poison the infant Krishna by breastfeeding him. Instead, she is herself killed. Yashoda (left) walks in on the scene
PHOTO • Prakash Bhuyan

راکشسی پوتونا چھوٹے کرشن کو اپنا زہریلا دودھ پلا کر مارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن، وہ خود ہی مر جاتی ہے۔ یشودا (بائیں) سین میں داخل ہو رہی ہیں

A young Lord Krishna dances with gopis in Vrindavan
PHOTO • Prakash Bhuyan

ورندا ون میں گوپیوں کے ساتھ رقص کرتے چھوٹے بھگوان کرشن

At the Garamur Saru Satra, children acting out the scene where a young Krishna defeats and kills the demon Bokasur, who takes the form of a crane
PHOTO • Prakash Bhuyan

گرمور سارو سترا میں، بچے ناٹک کا وہ سین پیش کر رہے ہیں جہاں چھوٹے کرشن نے سارس کی شکل میں آئے راکشس بوکاسُر کو شکست دینے کے بعد ہلاک کر دیا ہے

Young actors playing Krishna and his brother Balaram perform the scene of the Dhenukasura badh – death of the demon Dhenuka
PHOTO • Prakash Bhuyan

کرشن اور ان کے بھائی بلرام کا کردار نبھا رہے بچے، اور دھینوکا سُر ودھ – راکشس دھینوکا کے مارے جانے کا منظر

Children make up a large number of the performers at the Garamur Saru Satra Raas Mahotsav held in Majuli, Assam
PHOTO • Prakash Bhuyan

آسام کے ماجولی میں منائے جانے والے گرمور سارو سترا راس مہوتسو میں بچے بڑی تعداد میں اداکاری کرتے ہیں

The Kaliyo daman scene shows Krishna defeating the Kaliyo Naag living in the Yamuna river and dancing on his head
PHOTO • Prakash Bhuyan

کالیو دمن سین، جس میں کرشن یمنا ندی میں رہنے والے کالیو ناگ کو شکست دینے کے بعد اس کے سر پر سوار ہو کر رقص کر رہے ہیں

Actors and audience members enjoy the performances from the wings
PHOTO • Prakash Bhuyan

ایک کونے سے پرفارمنس کا لطف لے رہے اداکار اور سامعین

At the Uttar Kamalabari Satra in 2016, monks prepare for the rehearsal of the Keli Gopal play set to be performed at the mahotsav. Before this auditorium was built in 1955, performances happened in the namghar (prayer house)
PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا میں، سال ۲۰۱۶ میں بھکشو لوگ کیلی گوپال ناٹک کے ریہرسل کی تیاری کر رہے ہیں، جسے مہوتسو میں پیش کیا جائے گا۔ سال ۱۹۵۵ میں اس آڈیٹوریم کی تعمیر سے پہلے، یہ ناٹک نامگھر (عبادت گاہ یا پوجا گھر) میں پیش کیا جاتا تھا

The last day of rehearsals at the Uttar Kamalabari Satra for the Raas Mahotsav
PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا میں راس مہوتسو کے لیے ریہرسل کا آخری دن

Niranjan Saikia (left) and Krishna Jodumoni Saika (right) – monks from the Uttar Kamalabari Satra – in their boha (quarters). Getting into costumes is an elaborate process
PHOTO • Prakash Bhuyan

اتر کملا باڑی سترا کے بھکشو، نرنجن سیکیا (بائیں) اور کرشن جودو مونی سیکیا (دائیں) اپنے بوہا (کوارٹر) میں۔ کاسٹیوم پہننے میں کافی وقت لگتا ہے

The masks used in the performances and the process of making them are an integral part of the Raas Mahotsav. Here, actors step onto the stage in masks made for the roles of asuras and danabs
PHOTO • Prakash Bhuyan

پرفارمنس میں استعمال ہونے والے ماسک (مکھوٹا) اور انہیں بنانے کا عمل، راس مہوتسو کا ایک لازمی حصہ ہے۔ یہاں، اسُر اور دانب کے رول کے لیے تیار کئے گئے ماسک کو پہن کر اداکار اسٹیج پر آ رہے ہیں

A Kaliyo Naag mask is painted at the Borun Chitadar Chuk village's venue for the festival
PHOTO • Prakash Bhuyan

بورون چتادار چُک گاؤں میں مہوتسو کی جگہ پر کالیو ناگ کا ماسک تیار کیا جا رہا ہے

Munim Kaman (centre) lights a lamp in front of Domodar Mili's photograph at the prayers marking the beginning of the festival in Borun Chitadar Chuk. Mili, who passed away a decade ago, taught the people of the village to organise raas
PHOTO • Prakash Bhuyan

بورون چتادار چُک میں مہوتسو کا افتتاح کرنے کے لیے مُنیم کامن (درمیان میں)، دومودر ملی کی تصویر کے سامنے چراغ اور اگربتیاں جلا کر پوجا کر رہے ہیں۔ کئی دہائی پہلے وفات پا چکے دومودر ملی نے ہی گاؤں کے لوگوں کو راس کا اہتمام کرنے کے بارے میں سکھایا تھا

The stage at Borun Chitadar Chuk in Majuli
PHOTO • Prakash Bhuyan

ماجولی کے بورون چتادار چُک میں ایک اسٹیج

Apurbo Kaman (centre) pepares for his performance. He has been performing the role of Kansa at the Borun Chitadar Chuk festival for several years now
PHOTO • Prakash Bhuyan

اپوربو کامن (درمیان میں) اپنے پرفارمنس کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ بورون چتادار چُک مہوتسو میں گزشتہ کئی برسوں سے کنس کا رول ادا کر رہے ہیں

A young boy tries out one of the masks to be used in the performance
PHOTO • Prakash Bhuyan

ایک نوجوان لڑکا پرفارمنس میں استعمال کیے جانے والے ایک ماسک کو پہننے کی کوشش کر رہا ہے

Roasted pork and apong , a traditional rice beer made by the Mising community, are popular fare at the Borun Chitadar Chuk mahotsav
PHOTO • Prakash Bhuyan

سؤر کا بھونا ہوا گوشت اور میسنگ کمیونٹی کے ذریعے چاول کا روایتی بیئر، اپونگ کو بورون چتادار چُک مہوتسو کے دوران لوگ کافی پسند کرتے ہیں

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کے ذریعے فراہم کردہ فیلوشپ کی مدد سے کی گئی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Prakash Bhuyan

Prakash Bhuyan is a poet and photographer from Assam, India. He is a 2022-23 MMF-PARI Fellow covering the art and craft traditions in Majuli, Assam.

Other stories by Prakash Bhuyan
Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Photo Editor : Binaifer Bharucha

Binaifer Bharucha is a freelance photographer based in Mumbai, and Photo Editor at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Binaifer Bharucha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez