کھیت کے کنارے کھڑے ہو کر وہ اپنی فصل کو لگاتار دیکھے جا رہے تھے، جو موسلادھار بارش کی وجہ سے گھٹنوں کے برابر پانی میں ڈوبنے کے بعد چاندی جیسے سفید رنگ کی ہو چکی ہے۔ ودربھ کے علاقہ میں وجے ماروتّر کی کپاس کی فصل پوری طرح برباد ہو چکی ہے۔ وجے (۲۵ سالہ) کہتے ہیں، ’’میں نے اس فصل میں تقریباً ایک لاکھ ۲۵ ہزار روپے لگائے تھے۔ میری فصل پوری طرح برباد ہو چکی ہے۔‘‘ یہ ۲۰۲۲ کا ستمبر مہینہ تھا اور وجے کے لیے کھیتی کا پہلا سیزن تھا۔ اور بدقسمتی سے اس بار ایسا کوئی بھی نہیں تھا جس کے ساتھ وہ اپنا دُکھ بانٹ سکتے۔

ان کے والد گھن شیام ماروتّر نے پانچ مہینے پہلے ہی خودکشی کر لی تھی، اور ان کی ماں تقریباً دو سال پہلے اچانک دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی تھیں۔ موسم کی غیر یقینی صورتحال اور قرض کے بڑھتے بوجھ کے سبب ان کے والدین گہرے تناؤ اور بے چینی کا سامنا کر رہے تھے۔ ودربھ علاقہ کے بہت سے دوسرے کسان بھی اسی قسم کے ذہنی تناؤ سے گزر رہے تھے، اور ان کو بھی کسی قسم کی مدد نہیں مل پا رہی تھی۔

حالانکہ، وجے اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اپنے والد کی طرح ٹوٹ جانے سے ان کا کام نہیں چلنے والا ہے۔ لہٰذا، اگلے دو مہینے تک انہوں نے خود کو کھیت سے پانی نکالنے کے کام میں لگا دیا۔ روزانہ دو گھنٹے تک اپنے ہاتھ میں بالٹی اٹھائے وہ کیچڑ سے بھرے اپنے کھیت سے پانی نکالنے میں مصروف رہے۔ ان کی ٹریک پینٹ گھٹنے تک مڑی ہوتی اور ان کی ٹی شرٹ پسینے سے سرابور ہو جاتی۔ ہاتھوں سے پانی نکالنے کی وجہ سے ان کی کمر ٹوٹ جاتی تھی۔ وجے بتاتے ہیں، ’’میرا کھیت ڈھلان پر واقع ہے۔ اس لیے، بھاری بارش ہونے پر میں سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہوں۔ آس پاس کے کھیتوں کا پانی بھی میرے ہی کھیت میں داخل ہو جاتا ہے اور اس مسئلہ سے چھٹکارہ پانا بہت مشکل ہے۔‘‘ اس تجربہ نے انہیں کافی خوفزدہ کر دیا ہے۔

حد سے زیادہ بارش، لمبے عرصے تک خشک سالی، اور ژالہ باری جیسے سخت موسمیاتی حالات کی وجہ سے جب سنگین زرعی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہو، تب حکومت کے ذریعے ذہنی صحت سے متعلق مسائل کی اندیکھی کسانوں کی مشکلوں کو بڑھانے کا ہی کام کرتی ہے۔ (پڑھیں ودربھ: کسانوں کی ذہنی صحت پر زرعی بحران کا اثر )۔ ذہنی تناؤ اور عارضے میں مبتلا افراد تک ذہنی حفظان صحت کا قانون، ۲۰۱۷ کے تحت ملنے والی طبی خدمات کی کوئی معلومات یا اس سے متعلق التزامات کی کوئی جانکاری وجے یا ان کے والد گھن شیام کو کبھی نہ مل سکی۔ اور نہ کبھی انہیں ۱۹۹۶ میں شروع ہوئے ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام کے تحت منعقدہ طبی کیمپوں میں ہی لے جایا گیا۔

نومبر ۲۰۱۴ میں، حکومت مہاراشٹر نے ’پریرنا پرکلپ فارمر کاؤنسلنگ ہیلتھ سروس پروگرام‘ کی شروعات کی تھی۔ یہ پہل ضلع کلیکٹریٹ کے دفتر اور یوتمال کی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او)، اندرا بائی سیتا رام دیش مکھ بہو اُدیشیہ سنستھا کے توسط سے شروع کی گئی، اور اس کا مقصد دیہی علاقوں میں علاج کی کمیوں کو پبلک (سول سوسائٹی)-پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر پورا کرنا ہے۔ لیکن سال ۲۰۲۲ میں، جب وجے نے اپنے والد کو کھویا، مبینہ طور پر مشہور پریرنا پروجیکٹ کے غبارے کی ہوا بھی پوری طرح سے نکل چکی تھی۔

Vijay Marottar in his home in Akpuri. His cotton field in Vidarbha had been devastated by heavy rains in September 2022
PHOTO • Parth M.N.

اکپوری میں واقع اپنے گھر پر وجے ماروتّر۔ ستمبر ۲۰۲۲ میں، ودربھ میں کپاس کا ان کا کھیت موسلا دھار بارش کی وجہ سے پوری طرح تباہ ہو گیا

اس علاقے کے مشہور ماہر نفسیات پرشانت چکروار، جنہوں نے اس پروجیکٹ کا خاکہ تیار کیا تھا، کہتے ہیں، ’’ہم نے ریاستی حکومت کو بحران سے نمٹنے کی کثیر جہتی حکمت عملی مہیا کرائی تھی۔ ہم نے اپنی پوری توجہ پروجیکٹ کے طریقہ کار پر مرکوز کر رکھی تھی اور جذباتی طور پر تعلیم یافتہ ان کارکنوں کو ٹریننگ دی جو سنگین معاملوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اس کی رپورٹ ضلع کمیٹی کو دیتے تھے۔ ہم نے اس معاملے میں آشا کارکنوں کی بھی مدد لی، کیوں کہ وہ کمیونٹی کے سیدھے رابطہ میں ہوتی ہیں۔ کاؤنسلنگ کے علاوہ ہماری کوششوں میں علاج اور دوائیں بھی شامل تھیں۔‘‘

سال ۲۰۱۶ میں، یوتمال میں اس منصوبہ کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے، اور دیگر بحران زدہ علاقوں کے مقابلے خودکشی کے معاملوں میں اچھی گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ ریاست کے ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ سال ۲۰۱۶ کے پہلے تین مہینوں میں اس ضلع کے اندر خودکشی کی تعداد گھٹ کر ۴۸ ہو گئی، جب کہ پچھلے سال اسی مدت میں یہ تعداد ۹۶ تھی۔ دوسرے متاثرہ ضلعوں میں، زرعی خودکشی کے واقعات میں یا تو اضافہ ہوا تھا یا تعداد پہلے جیسی ہی بنی ہوئی تھی۔ یوتمال کی اس کامیابی نے اُسی سال پریرنا پروجیکٹ کو ۱۳ دیگر ضلعوں میں بھی نافذ کرنے کے لیے حکومت کو آمادہ کیا۔

حالانکہ، یہ پروجیکٹ اور اس کی کامیابی زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا اثر ختم ہوتا گیا۔

چکّروار کہتے ہیں، ’’پروجیکٹ کی شروعات اس لیے اچھی رہی کیوں کہ سول سوسائٹی کو نوکرشاہی کی اچھی مدد ملی تھی۔ یہ ایک پبلک۔پرائیویٹ پارٹنرشپ تھی۔ پوری ریاست میں اس پروجیکٹ کی شروعات ہونے کے بعد جلد ہی انتظامیہ اور تال میل سے متعلق مسائل نے سر اٹھانے شروع کر دیے۔ آخرکار سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بھی ایک ایک کرکے اپنے ہاتھ کھینچ لیے، اور پریرنا پروجیکٹ مکمل طور پر سرکاری کنٹرول والا ایک پروگرام بن کر رہ گیا، جس نے نفاذ کی سطح پر اپنی تمام خوبیاں گنوا دیں۔‘‘

اس پروجیکٹ نے ’آشا‘ کارکنوں کی مدد اس لیے لی تھی، تاکہ بے چینی اور تناؤ کے ممکنہ مریضوں کی تلاش کی جا سکے اور اس اضافی ذمہ داری کے عوض کارکنوں کو الگ سے اجرت اور بھتہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن جب حکومت نے ان کی اضافی رقم ادا کرنے میں تاخیر کی، تب آشا کارکنوں نے بھی اس میں دلچسپی لینا بند کر دیا۔ چکروار کے مطابق، ’’اور پھر، اپنے علاقے میں صحیح طریقے سے سروے کرنے کی بجائے انہوں نے فرضی معاملوں کی جانکاری دینی شروع کر دی۔‘‘

Left: Photos of Vijay's deceased parents Ghanshyam and Kalpana. Both of whom died because of severe anxiety and stress caused by erratic weather, crop losses, and mounting debts .
PHOTO • Parth M.N.
Right: Vijay knew he could not afford to break down like his father
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: وجے کے آنجہانی ماں باپ کلپنا اور گھن شیام کی تصویریں۔ دونوں کی موت کا سبب موسم کی بے یقینی، فصلوں کی بربادی اور قرض کے بوجھ کی وجہ سے پیدا ہوا حد سے زیادہ تناؤ اور فکرمندی تھا۔ دائیں: وجے جانتے ہیں کہ اپنے والد کی طرح حوصلہ چھوڑنے سے ان کا کام نہیں چلنے والا ہے

سال ۲۰۲۲ میں جس وقت گھن شیام ماروتّر کی خودکشی کی وجہ سے موت ہوئی، اس وقت پریرنا پروجیکٹ سرکار کا ایک ناکام منصوبہ بن چکا تھا۔ ماہر نفسیات اور دیگر پیشہ وروں کے زیادہ تر عہدے خالی پڑے تھے۔ مقامی رضاکاروں اور تربیت یافتہ آشا کارکنوں نے بھی پروجیکٹ میں دلچسپی لینا تقریباً بند کر دیا تھا۔ دوسری طرف، یوتمال میں کسان پھر سے زراعت سے متعلق پریشانیوں سے گھرے دکھائی دینے لگے، جن سے تنگ آ کر اُس سال وہاں تقریباً ۳۵۵ کسانوں نے خودکشی کر لی۔

ذہنی صحت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں سرکار کی نا اہلی کا سیدھا مطلب تھا کہ اس علاقے میں ایک سے زیادہ غیر منافع بخش تنظیموں کی مداخلت شروع ہو چکی تھی۔ ٹاٹا ٹرسٹ نے مارچ ۲۰۱۶ سے جون ۲۰۱۹ تک، یوتمال اور گھاٹنجی تعلقہ کے ۶۴ گاؤوں میں ’ودربھ سائیکولوجیکل سپورٹ اینڈ کیئر پروگرام‘ نام کا ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا۔ پروجیکٹ کے سربراہ، پرفل کاپسے کہتے ہیں، ’’ہماری پہل نے لوگوں میں مدد مانگنے کی ذہنیت کو فروغ بخشا۔ ہمارے پاس اپنے مسائل کو لے کر زیادہ لوگ آنے لگے، جب کہ پہلے وہ ذہنی عارضے کا علاج کروانے کے لیے تانترکوں اور اوگھڑوں کے پاس جایا کرتے تھے۔‘‘

سال ۲۰۱۸ کے خریف کے موسم میں ٹاٹا ٹرسٹ کے ایک ماہر نفسیات، ۶۴ سالہ کسان شنکر پاتنگوار کے پاس پہنچے۔ شنکر دادا کے پاس گھاٹنجی تعلقہ کے ہاتگاؤں میں تین ایکڑ قابل کاشت زمین تھی۔ وہ ذہنی تناؤ کے شکار تھے اور ان کے دماغ میں بار بار خودکشی کے خیال آتے رہتے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’میں نے ایک مہینہ سے بھی زیادہ عرصے سے اپنا کھیت نہیں دیکھا تھا۔ میں کئی کئی دن اپنی جھونپڑی میں سویا رہتا تھا۔ میں نے پوری زندگی ایک کسان کے طور پر گزار دی، اور مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی اتنا لمبا وقت گزرا ہو، جب میں اپنے کھیت پر نہیں گیا۔ جب ہم اپنی جان اور دل…اپنا سب کچھ اپنے کھیتوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور بدلے میں ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا ہے، تو آپ افسردگی کے شکار کیسے نہیں ہوں گے؟‘‘

کپاس اور تور اُگانے والے شنکر دادا کو فصلوں کے لگاتار دو یا تین سیزن میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اور، اس طرح جب ۲۰۱۸ میں مئی کا مہینہ آیا، تب اگلے سیزن کی پھر سے تیاری کرنے کا خیال انہیں فضول لگا۔ انہیں لگا کہ کچھ بھی کرنے کا کوئی مطلب نہیں بچا ہے۔ شنکر دادا کہتے ہیں، ’’میں نے تب اپنے آپ سے کہا کہ میں امید نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر میں ٹوٹ جاؤں گا، تو میری فیملی بھی بکھر جائے گی۔‘‘

Shankar Pantangwar on his farmland in Hatgaon, where he cultivates cotton and tur on his three acre. He faced severe losses for two or three consecutive seasons
PHOTO • Parth M.N.

شنکر پاتنگوار، ہاتگاؤں کے اپنے تین ایکڑ کے کھیت میں بیٹھے ہیں، جہاں وہ کپاس اور تور کی کھیتی کرتے ہیں۔ انہیں لگاتار دو یا تین سیزن میں کھیتی میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا

شنکر دادا کی بیوی انوسویا ۶۰ سال کی ہیں اور موسم کی بے رخی کی وجہ سے کھیتی کی حالت سنگین ہونے کے سبب مجبوراً انہیں دہاڑی مزدوری کا کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کے دو بچے ہیں۔ بڑی بیٹی رینوکا (۲۲ سالہ) کی شادی ہو چکی ہے، اور ان کا ۲۰ سال کا بیٹا ذہنی معذوری کا شکار ہے۔ ان سب کی خاطر شنکر دادا نے یہ طے کیا کہ وہ اپنے اندر موجود خوف اور تناؤ جیسے خیالات سے لڑیں گے، کیوں کہ ۲۰۱۸ کے خریف کا موسم بس آنے ہی والا تھا۔

یہی وہ وقت تھا، جب ٹاٹا ٹرسٹ کے ماہر نفسیات ان سے ملے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’وہ سبھی آتے تھے اور میرے ساتھ تین چار گھنٹے تک بیٹھے رہتے تھے۔ میں اپنی تمام پریشانیاں ان کے ساتھ شیئر کرتا تھا۔ ان سے بات چیت کرتے ہوئے میں اپنے برے وقت سے باہر نکل آیا۔‘‘ اگلے کچھ مہینوں تک چلی ان با قاعدہ ملاقاتوں نے ان کو وہ سکون بخشا، جس کی انہیں سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ’’میں ان سے بلا جھجک بات کر سکتا تھا۔ اپنے جذبات کے بارے میں کسی سے بات چیت کرنا بہت اچھا لگتا ہے، خاص طور پر تب، جب آپ پر کسی قسم کا پہرہ نہ ہو۔‘‘ وہ اپنی بات واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر یہ سب میں اپنی فیملی اور دوستوں سے شیئر کروں، تو وہ بلا وجہ فکرمندی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ میں ان کو پریشانی میں کیوں ڈالوں؟‘‘

شنکر دادا کو دھیرے دھیرے ہر مہینے دو مہینے پر ہونے والی اس بات چیت کی جیسے عادت لگ گئی، لیکن ایک دن انہوں نے اچانک آنا بند کر دیا۔ انہوں نے نہ تو کوئی وجہ بتائی اور نہ ہی اس کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع دی۔ ’’انتظامی وجوہات کے سبب ان کا آنا بند ہو گیا،‘‘ پروجیکٹ کے سربراہ کاپسے بس یہی بتا پائے۔

اپنی آخری ملاقات کے وقت نہ تو ان ماہرین نفسیات کو پتہ تھا اور نہ شنکر دادا کو یہ معلوم تھا کہ اب وہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں مل سکیں گے۔ آج بھی شنکر دادا ان سے ہوئی بات چیت کو بہت یاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے وہ دوبارہ تناؤ میں رہنے لگے ہیں اور انہوں نے ایک نجی سود خور سے ۵ فیصد ماہانہ یا ۶۰ فیصد کی سالانہ شرح سود پر ۵۰ ہزار روپے بھی قرض لے رکھے ہیں۔ وہ کسی سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان کے پاس واحد راستہ ۱۰۴ نمبر ڈائل کرنے کا بچا ہے۔ یہ ٹول فری سرکاری ہیلپ لائن نمبر ہے، جو ۲۰۱۴ میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا شکار ہونے پر مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ یہ نمبر بھی موجودہ ناکارہ طبی خدمات کی طرح ہی اب پوری طرح سے ٹھپ پڑ چکا ہے۔

'When we pour our heart and soul into our farm and get nothing in return, how do you not get depressed?' asks Shankar. He received help when a psychologist working with TATA trust reached out to him, but it did not last long
PHOTO • Parth M.N.

شنکر دادا پوچھتے ہیں، ’جب ہم اپنی جان اور دل…اپنا سب کچھ اپنے کھیتوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور بدلے میں ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا ہے، تو آپ افسردگی کے شکار کیسے نہیں ہوں گے؟‘ انہیں ٹاٹا ٹرسٹ سے جڑے ماہرین نفسیات کے ذریعے کافی مدد ملی، لیکن بدقسمتی سے یہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ پایا

ستمبر ۲۰۲۲ میں ایک ریاستی روزنامہ، دِویہ مراٹھی، نے خودکشی کا ارادہ کر چکے ایک پریشان حال کسان کی شکل اختیار کرکے جب ۱۰۴ نمبر کو فون ملایا، تو ہیلپ لائن کی طرف سے جواب ملا کہ کاؤنسلر ابھی کسی دوسرے مریض کے ساتھ مصروف ہیں۔ فون کرنے والے سے کہا گیا کہ مریض اپنا نام، ضلع اور تعلقہ کا نام درج کرا دیں اور آدھا گھنٹہ کے بعد دوبارہ فون کریں۔ کاپسے کہتے ہیں، ’’ایسا بھی ہوتا ہے کہ مدد چاہنے والے مریض کو بات چیت کے ذریعے تھوڑی راحت محسوس ہو جائے۔ لیکن اگر مریض نے بہت پریشانی کی حالت میں مدد مانگی ہے، جب اس کے اندر خودکشی کرنے کا خیال بہت زیادہ قوی ہو چکا ہے، تب ایسے میں کاؤنسلر کو مریض کو سمجھاتے ہوئے اس بات کے لیے راضی کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ ۱۰۸ نمبر پر کال کرکے ایمبولنس سروس کو بلائے۔ ہیلپ لائن کا انتظام دیکھنے والے کاؤنسلروں کو ایسے حالات کے لیے تربیت دیا جانا ضروری ہے۔‘‘

ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، ہیلپ لائن نے سال ۱۶-۲۰۱۵ میں مہاراشٹر کے الگ الگ حصوں سے سب سے زیادہ (۱۳۴۳۷) کالیں موصول کیں۔ اگلے چار سالوں تک کال آنے کی اوسط تعداد ۹۲۰۰ سالانہ کے آس پاس درج کی گئی۔ لیکن، جب ۲۱-۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ نے پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا، اور ذہنی صحت کے معاملے بہت تیزی سے بڑھے، تب آنے والی کالوں میں ۶۱ فیصد کی زبردست گراوٹ دیکھی گئی، اور کال کی تعداد گھٹ کر ایک سال میں صرف ۳۵۷۵ رہ گئی۔ اگلے سال ان میں مزید کمی آئی اور یہ گھٹ کر صرف ۱۹۶۳ رہ گئی۔ یہ گراوٹ گزشتہ چار برسوں کے اعداد و شمار کے مقابلے ۷۸ فیصد کی تھی۔

دوسری طرف، پورے مہاراشٹر میں دیہی علاقوں میں بحران کی حالت اپنے عروج پر تھی، اور ریاست میں کسانوں کی خودکشی کے معاملے بھی پچھلے اعداد و شمار کو مات دے رہے تھے۔ حکومت مہاراشٹر کے ایک اعداد و شمار کے مطابق، جولائی ۲۰۲۲ سے جنوری ۲۰۲۳ کے درمیان خودکشی کی وجہ سے ۱۰۲۳ کسانوں کی موت ہو گئی تھی۔ حالت جولائی ۲۰۲۲ سے پہلے کے ڈھائی سالوں کی مدت سے کہیں زیادہ بدتر ہو چکی تھی، جب خودکشی کی وجہ سے ۱۶۶۰ کسانوں کی موت ہوئی تھی۔

مرکزی حکومت نے ۳۰ اکتوبر، ۲۰۲۲ کو ایک نئی ہیلپ لائن – ۱۴۴۱۶ کا اعلان کیا، جو دھیرے دھیرے ۱۰۴ کی جگہ لینے والی ہے۔ نئی ہیلپ لائن کتنی کارگر ہے، یہ کہنا ابھی جلد بازی ہوگی۔ بہرحال، کسانوں کی مشکلیں ویسی کی ویسی بنی ہوئی ہیں۔

Farming is full of losses and stress, especially difficult without a mental health care network to support them. When Vijay is not studying or working, he spends his time reading, watching television, or cooking.
PHOTO • Parth M.N.
Right: Vijay knew he could not afford to break down like his father
PHOTO • Parth M.N.

کھیتی اب تناؤ اور نقصان سے بھرا پیشہ ہے، اور خاص طور پر ذہنی صحت سے متعلق سہولیات کی کمی کے سبب کافی مشکل ہو گیا ہے۔ وجے جب کام یا پڑھائی نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تب وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں یا ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں یا پھر کھانا پکا رہے ہوتے ہیں

ستمبر ۲۰۲۲ میں ہوئی موسلادھار بارش میں شنکر دادا کی پوری فصل برباد ہو گئی۔ انہیں ابھی بھی اپنا بقایا قرض چُکانا ہے، جو بڑھ کر اب تقریباً ایک لاکھ روپے ہو چکا ہے۔ وہ اب ایک مزدور کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں، تاکہ اپنی بیوی کی آمدنی میں تعاون کر سکیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک ساتھ مل کر دونوں اتنے پیسے جمع کر لیں گے کہ ۲۰۲۳ میں خریف کی اگلی فصل لگانے کی سوچ سکیں۔

ادھر اکپوری میں، وجے نے اپنے لیے ایک نیا منصوبہ بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے طے کیا ہے کہ اب وہ کپاس نہیں لگائیں گے، بلکہ اس کی جگہ سویابین اور چنے جیسی زیادہ لچکدار فصل بوئیں گے۔ یہ فصلیں قدرتی طور پر چھوٹی موٹی موسمی تبدیلیوں کو جھیلنے کے قابل ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایک ہارڈ ویئر اسٹور میں بھی کام کرنا شروع کر دیا ہے، جہاں سے ان کی ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اپنی ایم اے کی ڈگری کے لیے پڑھائی شروع کر دی ہے۔ وجے جب کام یا پڑھائی نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تب وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں یا ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں یا پھر کھانا پکا رہے ہوتے ہیں۔

اپنی ۲۵ کی عمر کے حساب سے زیادہ سمجھدار وجے کو مجبوراً کھیتی یا گھریلو ذمہ داریاں خود ہی سنبھالنی پڑ رہی ہیں۔ وہ اپنے دماغ کو ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتے ہیں، کیوں کہ وہ ان خیالات کو دماغ میں لانے سے ڈرتے ہیں جن کا سامنا کرنا ان کے لیے مشکل ہوگا۔

وہ کہتے ہیں، ’’میں نے نوکری صرف پیسوں کے لیے نہیں کی۔ اس سے میرا دماغ مصروف رہتا ہے۔ میں پڑھائی میں کڑی محنت کرنا چاہتا ہوں اور ایک مستقل نوکری حاصل کرنا چاہتا ہوں، تاکہ میں کھیتی کا کام چھوڑ کر اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکوں۔ میں وہ ہرگز نہیں کروں گا، جو میرے والد نے کیا۔ لیکن، میں ہمیشہ موسم کی غیر یقینی صورتحال کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا ہوں۔‘‘

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کے آزاد صحافتی گرانٹ کی مدد سے صحت عامہ اور شہری آزادی کے موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی طرح کا ادارتی کنٹرول استعمال نہیں کیا ہے۔

اگر آپ کے ذہن میں خودکشی کا خیال آتا ہے یا آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیں جو بحران کا شکار ہے، تو براہ کرم نیشنل ہیلپ لائن ’کرن‘ کو 1800-599-0019 (چوبیسوں گھنٹے ٹول فری) پر یا ان میں سے کسی بھی نزدیکی ہیلپ لائن پر کال کریں۔ ذہنی صحت کے شعبہ میں کام کر رہے لوگوں اور خدمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے، براہ کرم ایس پی آئی ایف کی ذہنی صحت کی ڈائرکٹری دیکھیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique