یکم جون کو، مغربی مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع میں گوداوری ندی کے کنارے واقع بازار کے شہر پُنتامبا میں، آزاد ہندوستان میں پہلی بار کسانوں نے ہڑتال شروع کرکے تاریخ رقم کردی۔ تیرہ ہزارکی آبادی والے اس گاؤں کے کسانوں نے کئی طرح سے اپنا احتجاج درج کرایا – مثال کے طور پر سبزیوں کے اپنے اسٹاک کو فروخت نہ کرنا اور دودھ کو سڑکوں پر بہا کر ضائع کر دینا۔ انہوں نے ٹماٹر، پیاز، بیگن، مرچیں اور دیگر سبزیاں بھی سڑکوں پر پھینک کر اپنے غصے کا اظہار کیا۔

یہ احتجاج کئی دنوں تک سرخیوں میں رہا، کیوں کہ پُنتامبا کی ہڑتال ریاستی سطح پر کسانوں کے احتجاج میں بدل گئی۔ کسانوں کا سب سے اہم مطالبہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنا ہے کیونکہ انہیں کم از کم امدادی قیمت ملنی چاہیے جو پیداواری لاگت کے علاوہ ۵۰ فیصد کو پورا کرتی ہو۔ ہڑتال کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسٹاک کو ممبئی اور پونے کے بازاروں تک پہنچنے سے روکا جائے، تاکہ شہروں میں جو  لوگ زرعی بحران سے لاتعلق یا بے پرواہ  ہیں، وہ اس کی شدت کومحسوس کرسکیں۔

پُنتامبا سے تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر جنوب میں، اور مراٹھواڑہ کے عثمان آباد شہر سے ۱۲ کلومیٹر دور، کامٹھا گاؤں کے کسان بھی اسی دن، یعنی یکم جون کو احتجاج میں شامل ہو گئے۔ ’’گرام سبھا نے سب سے بات چیت کرنے کے بعد یہ فیصلہ لیا تھا،‘‘ وکاس پاٹاڈے بتاتے ہیں۔ ’’پُنتامبا کی خبر سننے کے بعد، ہم نے بھی اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

عثمان آباد کے کامٹھا گاؤں کے کسان وکاس پاٹاڈے اور ان کے بھائی شیواجی: ’ہم اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے تھے، خواہ یہ حصہ چھوٹاسا ہی کیوں نہ ہو‘

لیکن کامٹھا گاؤں کے کسان ایک ہفتہ سے زیادہ اپنا احتجاج جاری نہیں رکھ سکے۔ وکاس کہتے ہیں، ’’ہم سے جتنا بن پڑا ہم نے اسے آگے بڑھایا۔ صرف ایک ہفتے میں، ہم تینوں کا ۸۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا [کیونکہ ہم نے بازار میں اسٹاک بھیجنا بند کر دیا تھا]۔ وکاس (۴۳) اپنا اور اپنے دو بھائیوں کا حوالہ دے رہے تھے۔ ان کے پاس مشترکہ طور پر تقریباً ۲۰ ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ سبزیاں اگاتے ہیں اور دودھ کا پروڈکشن کرتے ہیں۔ ’’ہڑتال کے دوران ہونے والے نقصان کی تلافی کرنے میں ہمیں ایک سال لگ جائے گا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ پاٹاڈے برادران پر ۸ لاکھ روپے کا قرض ہے۔ اور اس طرح کا نقصان ان کے بوجھ کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔

لہٰذا ایک ہفتے کی دلیرانہ لڑائی کے بعد – ہڑتال کی وجہ سے عثمان آباد اور کلمب کے بازار سات دنوں تک بند رہے – کامٹھا کے کسانوں کو ہار ماننی پڑی۔ وکاس کہتے ہیں، ’’ہمارے اوپر اپنے گھر والوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘ گاؤں میں زیادہ تر سبزیوں کی کاشت کی جاتی ہے، اورایک اندازہ کے مطابق بازاروں میں ہر روز ۷۰ ہزار روپے کا مال بھیجا جاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایک ہفتے تک، ان کے پاس کوئی اسٹاک نہیں تھا۔ میں جانتا ہوں کہ ۱۷۰۰ لوگوں کی آبادی والا گاؤں [سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، تقریباً ۱۸۶۰ کی آبادی والا گاؤں] حکومت کوبہت زیادہ دباؤ میں نہیں ڈال سکتا۔ لیکن ہم اس تحریک کا حصہ بننا چاہتے تھے، چاہے وہ حصہ چھوٹا ساہی کیوں نہ ہو۔‘‘

احمد نگر اور ناسک اضلاع حالیہ ہڑتال کے مرکز بنے رہے، جب کہ مراٹھواڑہ ( اور ودربھ بھی) کے روایتی طور پر پریشان حال زرعی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے مورچے اور ہڑتالیں غصے کو کم کرنے کے لیے شروع ہوئیں۔

مراٹھواڑہ کی تحریک میں اتنی شدت اور پائیداری کیوں نہیں تھی؟ عثمان آباد کے کامٹھا جیسے گاؤں کو چھوڑ کر، مراٹھواڑہ کے دیگر پانچ اضلاع – بیڈ، اورنگ آباد، جالنہ، لاتور اور ناندیڑ – میں کسانوں کی ہڑتال پر ردعمل بہت معمولی تھا۔ مراٹھواڑہ کے صرف پربھنی اور ہنگولی اضلاع میں زیادہ شدید اور مسلسل احتجاج دیکھنے میں آئے۔

شاید اس کی  سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ خطہ ہڑتال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ناسک اور مغربی مہاراشٹر کے کسان دیگر علاقوں کے کسانوں سے نسبتاً بہتر حالت میں ہیں، جبکہ مراٹھواڑہ کے کسان ۲۰۱۲ سے ۲۰۱۵ تک مسلسل چار سال کی خشک سالی سے گزر رہے ہیں۔ پانی کی شدید قلت نے ان کو اور بھی مشکل حالات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

بیڈ کے لمب گنیش گاؤں کی ۴۵ سالہ مہانندا جادھو اپنے چار ایکڑ کے کھیت میں مونگ پھلی چننے میں مصروف تھیں، جب ایک روز دوپہر کے وقت میری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کی مالی حالت بہت اچھی نہیں ہے، اور ہڑتال ہونے پر ان کی حالت مزید خراب ہو جائے گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’گزشتہ سال ہمارا گیندے کا پھول مکمل طور پر سوکھ گیا تھا۔ اس سے ہمیں ۵۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ، ہم نے اپنے کھیت پر ڈرپ اریگیشن (فوارے سے آبپاشی) کی شروعات کی اور ایک بورویل بھی لگایا۔ ہمارے اوپر پہلے سے ہی بینک کے ۲ لاکھ روپے بقایا ہیں۔‘‘

جادھو نے بات چیت کے دوران بتایا کہ گیندے کی فصل خراب ہونے سے ایک اور مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا: ’’پچھلے سال ہم نے ارہر کی فصل لگائی تھی، لیکن سرکاری مراکز میں بد انتظامی کی وجہ سے اسے فروخت نہیں کر سکے۔ اگر ہم اسے فروخت کر دیتے، تو اگلی فصلوں کے لیے حشرہ کش دوائیں، بیج اور کھاد قرض لیے بغیر خرید سکتے تھے۔‘‘

جادھو کے دو بیٹے ہیں، جن کی عمر بالترتیب ۲۲ اور ۲۵ سال ہے، اور وہ بیڈ میں بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہڑتال میں حصہ لینے سے جادھو کو ان کی فیس ادا کرنے میں بھی دقت پیش آتی۔ ’’ہمیں ان میں سے ہر ایک کی تقریباً ایک لاکھ روپے [سالانہ] فیس ادا کرنی پڑتی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: بیڈ ضلع کے لمب گنیش گاؤں کی کسان مہانندا جادھو: ’[قرض کے لیے] مجھے کسی نہ کسی کا سہارا لینا پڑے گا‘

تاہم، پربھنی میں کسانوں کی معاشی حالت مستحکم ہونے کے باوجود صورتحال مختلف رہی ہے۔ پربھنی کے سینئر صحافی اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ آسارام لومٹے کا کہنا ہے کہ یہ ضلع تاریخی طور پر مراٹھواڑہ میں احتجاج کا مرکز رہا ہے۔ ’’ہمارے یہاں شیتکری سنگٹھن، سی پی آئی اور سی پی ایم کے کیڈر موجود ہیں، جو کھیتی کسانی سے متعلق مسائل کو اٹھاتے رہتے ہیں،‘‘ لومٹے بتاتے ہیں۔ ’’یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ مقامی رہنما اور کارکن کس طرح لوگوں کو متحرک کرتے ہیں اور عدم اطمینان کی موجودہ فضا کا کس طرح استعمال کرتے ہیں۔‘‘

عثمان آباد کے مقامی نامہ نگاروں کا بھی یہی خیال ہے۔ لوک ستہ اخبار کے عثمان آباد شہر کے ایک صحافی رویندر کیسکر کہتے ہیں، ’’جب نریندر دابھولکر کا [اگست ۲۰۱۳ میں پونے میں] قتل ہوا، تو یہاں بے ساختہ مارچ شروع ہوگیا تھا۔ اس احتجاج میں تقریباً ۲۵۰۰ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ یہاں کے شہری سماجی طور پر کافی متحرک ہیں، مقامی کارکنان ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘

لیکن کسانوں کی ہڑتال اب جا کر کیوں شروع ہوئی، خشک سالی کے دوران کیوں نہیں ہوئی، جب کاشتکاری کا بحران اپنے عروج پر تھا؟ زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت اور حالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ زرعی بحران موسم کے مزاج سے کہیں زیادہ بڑا ہے – اس کی جڑیں ایسی پالیسیوں میں پنہاں ہیں جن کے نتیجے میں منصفانہ کریڈٹ سسٹم یا امدادی قیمتوں کی عدم موجودگی کے درمیان پانی کی بدانتظامی اور ان پٹ لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

اس لئے مغربی مہاراشٹرا اور ناسک کی قیادت میں، اور مراٹھواڑہ اور ودربھ میں کبھی کبھی اچانک ہی احتجاج کے پھوٹ پڑنے کی وجہ سے، وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس کو کسانوں کے مطالبات کے سامنے جھکنا پڑا۔ انہوں نے ۱۲ جون کو دودھ کی قیمتوں میں اضافے اور قرضوں کی معافی کا وعدہ کرکے صورتحال کو عارضی طور پر سنبھال لیا۔ حالانکہ اس کے فوراً بعد وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے کہا تھا کہ ریاستوں کو قرض معافی کا انتظام خود ہی کرنا چاہیے۔

سوامی ناتھن کمیشن کی ۲۰۰۷ کی تفصیلی رپورٹ ایک دہائی سے مرکزی حکومت کے پاس پڑی ہے۔ تکنیکی طور پر، سفارشات کو نافذ کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قومی انتخابات سے پہلے، بھارتیہ جنتا پارٹی نے کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کی مہم چلائی تھی۔ لیکن ۲۰۱۴ میں منتخب ہونے کے فوراً بعد پارٹی نے اس کے برعکس موقف اختیار کیا نیز سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ سفارشات پر عمل درآمد کرنا اور اس کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔

فڑنویس مبینہ طور پر وزیر اعظم کے ساتھ اس مسئلہ پر بات کرنے کے لیے ایک وفد کو دہلی بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں کسانوں کے نمائندوں نے انہیں ۲۵ جولائی تک کا وقت دیا ہے کہ وہ قرض کی معافی کو حتمی شکل دیں اور دیگر مطالبات پر تفصیلات کے ساتھ سامنے آئیں – ان میں سب سے اہم سوامی ناتھن کمیشن کی کم از کم امدادی قیمت (پیداوار کی لاگت کے علاوہ ۵۰ فیصد) کی صلاح ہے۔ اگر ان مطالبات کو ۲۵ جولائی تک پورا نہ کیا گیا، تو کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ احتجاج دوبارہ شروع کر دیں گے۔

ویڈیو دیکھیں: عثمان آباد ضلع کے کھامس واڑی گاؤں کے کسان کارکن شرد شیلکے: ’ہم کس چیز کے لیے دن رات اپنے کھیتوں میں پسینہ بہا رہے ہیں؟‘

عثمان آباد کے کلمب تعلقہ کے کھامس واڑی گاؤں کے کسان کارکن شرد شیلکے کا کہنا ہے کہ کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے سے کسان ہمیشہ کے لیے با اختیار ہو جائیں گے۔ اور پھر انہیں قرض معافی کا مطالبہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’’صرف ۹-۸ سال پہلے، مہاراشٹر میں ۵۰ ہزار کروڑ کا قرض معاف کیا گیا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’پھر ہم دوبارہ اسی حالت میں آ گئے۔ ہمیں راحت کے عارضی اقدامات کی بجائے طویل مدتی حل کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔‘‘

شیلکے نے ۷۰۰۰ لوگوں کی آبادی والے گھامس واڑی گاؤں میں، دودھ پیدا کرنے والے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو دو روزہ ہڑتال کے لیے ۴ اور ۵ جون کو جمع کیا تھا، جب ان کسانوں نے سڑک پر دودھ بہا دیا تھا۔ پورے گاؤں نے ایک کلومیٹر لمبے خط پر دستخط کیا تھا، جس میں لکھا تھا: ’’آپ ہمیں امدادی قیمت کی یقین دہانی کرائیں اور ہم خودکشی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں گے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: عثمان آباد ضلع کے کھامس واڑی گاؤں کے چندرکانت پاٹل: ’میرے پاس وزیراعلیٰ کے لیے ایک چیلنج ہے‘

احتجاج کرنے والے کسانوں میں چندرکانت پاٹل (۳۲) بھی شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے دو دنوں میں ۸۰۰ روپے کا دودھ ضائع کردیا۔ لیکن ہر کسان کے سر پر قرض ہے۔ اور میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔ ہم صرف دو دنوں تک ہڑتال کر سکے۔ حکومت کو یہ معلوم ہے۔‘‘

پاٹل اپنی پانچ ایکڑ زمین پر گندم، جوار اور سویابین کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’آپ تصور نہیں کر سکتے کہ جب کسان اپنی پیداوار کو ضائع کرتا ہے، تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ لیکن کیا کریں؛ اپنی بات منوانے کے لیے ہمارے پاس یہی ایک آخری حربہ ہے۔ گیہوں یا جوار کی پیداواری لاگت ۲۰۰۰ روپے فی کوئنٹل ہے۔ لیکن مارکیٹ ریٹ ۱۵۰۰ سے ۱۷۰۰ روپے فی کوئنٹل کے ارد گرد گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے میں ہمارا گزارہ کیسے چلے گا؟‘‘

پاٹل کا کہنا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ کھیتی باڑی کے ذریعے ان کے خاندان کی دیکھ بھال کرنے کا انتظام کر دیتے ہیں تو وہ اپنی پانچ ایکڑ زمین فڑنویس کو عطیہ کر دیں گے۔ ’’گھر کے اخراجات، بچوں کی تعلیم اور دو وقت کا کھانا – اگر وزیراعلیٰ پانچ سال تک اس کا انتظام کر سکیں، تو میں اپنی زمین ان کے حوالے کر دوں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میری نسل کو اس لڑائی سے کچھ ملے گا بھی یا سب کچھ قربان ہو جائے گا، اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ قیمتوں کے تعین کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جانا چاہیے۔‘‘

مترجم: سبطین کوثر

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser