زمین پربیٹھی ہوئی نِشاء اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھل رہی ہیں۔ جون کی گرم دوپہر کی وجہ سے زمین تپ رہی ہے۔ تمباکو اور اس کے سوکھے پتوں کی بُو فضا کو بوجھل بنا رہی ہے۔ تقریباً ۷۰۰ بیڑوں سے ۱۷ عدد کے حساب سے بنائے گئے ہر ایک بنڈل کو دکھاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’میں اس ہفتہ صرف اتنی ہی بیڑیاں بنا سکی۔ ان کی اجرت شاید ۱۰۰ روپے سے بھی کم ہوگی۔‘‘ نشاء (۳۲) اپنے پورے ہفتہ کے کام کے بارے میں بتاتی ہیں۔ مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں ایک ہزار بیڑی بنانے کی اجرت محض ۱۵۰ روپے ہے۔

ہر بدھ اور جمعہ کے روز بیڑی بنانے والی یہ خواتین اپنی بنائی ہوئی بیڑیاں لاتی ہیں، اور اگلے ہفتے تک بیڑی بنانے کے لیے خام مال لے جاتی ہیں۔ دموہ شہر کے مضافات میں کئی کارخانے ہیں، جہاں ٹھیکیداروں کو ملازمت پر رکھا گیا ہے، جو بنیادی طور پر بیڑی بنانے والی ان خواتین سے ٹھیکہ پر کام کراتے ہیں۔

خواتین یہاں سے خام مال اٹھائیں گی اور کٹے ہوئے تمباکو کے ساتھ تیندو کے پتوں کو گھما کر اور باریک دھاگوں سے بیڑیوں کے صاف کٹّوں (بنڈلوں) میں باندھ کر کام کریں گی۔ یہ کام وہ گھریلو کام مکمل کرنے کے بعد کرتی ہیں، تاکہ ان کی اوسط ماہانہ گھریلو آمدنی میں تقریباً ۱۰ سے ۲۰ ہزار روپے کا اضافہ ہو سکے۔ ان کے ذمہ ۱۰-۸ لوگوں پر مشتمل خاندان کی کفالت ہے۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین زرعی مزدور ہیں یا ان کے پاس چھوٹے موٹے کاروبار ہیں۔

نشاء بتاتی ہیں، ’’تیندو کے خشک پتوں کو اس وقت تک پانی میں بھگونے کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک کہ پتوں کے نشانات واضح نہ ہو جائیں۔ پھر، فرما [لوہے کی اسٹینسل] کا استعمال کرتے ہوئے پتوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے۔ زردہ [ذائقہ دار تمباکو] کو ان کے اندر ڈالا جاتا ہے اور پھر پتوں کو بیڑی میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔‘‘ ہر ایک کو رنگین دھاگے سے بھی باندھا جاتا ہے، تاکہ اس کے برانڈ اور کمپنی کا پتہ چل سکے۔

اس کے بعد انہیں بیچنے کے لیے بیڑی ’فیکٹری‘ لایا جاتا ہے۔ جس جگہ بیڑی کے برانڈ کی پروسیسنگ اور پیکیجنگ ہوتی ہے اور جہاں بیڑیوں کا ذخیرہ کیا جاتا ہے، اس جگہ کو ’فیکٹری‘ کہتے ہیں۔ بیڑی بنانے والی خواتین اپنا کام مکمل کرنے کے بعد تیارہ شدہ بیڑیاں ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیتی ہیں، جو انہیں فیکٹری لے جا کر ان کی اجرت دلواتے ہیں یا پھر خود ہی ان خواتین کو رقم ادا کر دیتے ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Kuhuo Bajaj

چھندواڑہ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں تیندوکے جنگلات ہیں جہاں سے  وافر مقدار میں تیندو کے پتے مل جاتے ہیں۔ انہی پتوں کے اندر تمباکو بھر کر بیڑی بنائی جاتی ہے۔ دائیں: نشاء اپنے گھریلو کام کے درمیان بیڑیاں بناتی ہیں

یہاں بیڑی بنانے والوں میں زیادہ ترمسلم خواتین ہیں، لیکن دیگر برادریوں کی خواتین بھی اس پیشہ سے منسلک ہیں۔

مدھیہ پردیش کے آس پاس کے اضلاع میں تیندو کے متعدد جنگلات کے قریب ہونے کی وجہ سے دموہ میں تقریباً ۲۵ فیکٹریاں قائم ہو گئی ہیں، جو جنگلات کے رقبہ کا ۳۱ فیصد ہے۔ سیونی، منڈلا، سیہور، رائسین، ساگر، جبل پور، کٹنی اور چھندواڑہ سے وافر مقدار میں تیندو کے پتّے مل جاتے ہیں۔ انہی پتوں کے اندر تمباکو بھر کر بیڑی بنائی جاتی ہے۔

*****

گرمیوں کی ایک گرم دوپہر میں، چمکدار رنگ کی شلوار-قمیض میں ملبوس نصف درجن خواتین اپنی بیڑیوں کی گنتی کروانے کا انتظار کر رہی ہیں۔ قریب میں ہی واقع مسجد سے آپ جمعہ کی نماز کی آواز اور ٹھیکیدار کے ساتھ ان کی بحث کو سن سکتے ہیں۔ خواتین وہاں پورے ہفتہ بنائی گئی بیڑیوں کو تسلوں (لوہے کی کڑاہی جیسا برتن) میں لیے بیٹھی ہیں۔

آمنہ (بدلا ہوا نام) گنتی سے ناخوش ہیں: وہ کہتی ہیں، ’’بہت ساری [بیڑیاں] تھیں، لیکن ٹھیکیدار نے چھانٹتے وقت انہیں لینے سے منع کر دیا۔‘‘ یہ خواتین اپنے آپ کو بیڑی مزدور بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ۱۰۰۰ بیڑیاں بنانے کی اجرت محض ۱۵۰ روپے طے کرنا ان کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔

’’اس سے اچھا تو سلائی بُنائی کا کام ہے۔ اس میں زیادہ کمائی ہوگی،‘‘ جانو کہتی ہیں، جو دموہ سے تعلق رکھنے والی ایک سابق بیڑی مزدور ہیں۔ حالانکہ، ۱۴ سال کی عمر میں جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا تو بقول ان کے، ’’اس وقت میرے پاس نہ تو زیادہ مہارت تھی اور نہ ہی کوئی دوسرا متبادل۔‘‘

PHOTO • Kuhuo Bajaj

زردہ (بائیں) کو تیندو کے پتوں میں لپیٹ کر بیڑیاں (دائیں) بنائی جاتی ہیں

مسلسل بیڑی بناتے بناتے ان خواتین کو کمر اور گردن میں درد کی شکایت ہو گئی ہے اور ان کے بازو شَل ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں گھریلو کام کاج کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ ایک تو ان عورتوں کو کوئی معاوضہ یا طبی امداد نہیں ملتی، اوپر سے فیکٹری کے مالک ان کی مشکلوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے: ان میں سے ایک نے اس رپورٹر سے کہا بھی کہ ’’یہ عورتیں گھر میں بیٹھے بیٹھے بیڑیاں ہی تو بناتی ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ انہیں مزدوروں کی محنت سے جڑے جسمانی مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

’’یہ ایک ہفتہ میں ۵۰۰ روپے تک کما لیتی ہیں،‘‘ اس کے مطابق گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لحاظ سے یہ ایک اچھا ’سودا‘ ہے۔ حالانکہ، اس فیکٹری مالک کے تخمینہ کے مطابق ۵۰۰ روپے کمانے کے لیے کسی مزدور کو ایک ہفتہ میں ۴۰۰۰ بیڑیاں بنانی پڑیں گی، جس میں آج کل ایک مہینہ لگ جاتے ہیں۔

ہم نے جتنی عورتوں سے بات کی، سب نے اپنے جسم سے جڑے مسائل کی شکایت کی۔ گیلے پتوں کو لگاتار لپیٹنے اور مسلسل تمباکو کے رابطہ میں رہنے کی وجہ سے کئی بار انہیں جلد کے امراض بھی ہو جاتے ہیں۔ ’’ہاتھ ایسے کٹے رہتے ہیں، نشان تک پڑ جاتے ہیں،‘‘ اپنی دونوں ہتھیلیاں مجھے دکھاتے ہوئے ایک بیڑی مزدور کہتی ہیں۔ دس سالوں سے یہ کام کرتے ہوئے ان پر گٹھّے اور چھالے پڑ گئے ہیں۔

ایک دوسری مزدور سیما (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں کہ لگاتار گیلے پتے چھونے سے جلد کو ہونے والے نقصان کی تلافی کرنے کے لیے وہ سونے سے پہلے ہتھیلیوں پر بورولین لگاتی ہیں، ’’ورنہ تمباکو اور گیلی پتیوں سے رابطہ کے سبب میری جلد پھٹنے لگتی ہے۔‘‘ تقریباً ۴۰ سال کی سیما مزید کہتی ہیں، ’’میں تمباکو نہیں استعمال کرتی ہوں، لیکن اب مجھے اس کی مہک سے کھانسی ہونے لگتی ہے۔‘‘ اس لیے ۱۳-۱۲ سال پہلے سیما نے یہ کام چھوڑ دیا اور اب دموہ شہر میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں، جس سے انہیں مہینہ میں ۴۰۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔

رضیہ (بدلا ہوا نام) کو ٹھیک سے یاد بھی نہیں ہے کہ وہ کب سے بیڑی بنانے کے کام میں لگی ہیں۔ وہ تیندو پتّہ تولنے والے ٹھیکیدار کے ساتھ الجھ رہی ہیں، ’’یہ کس طرح کے پتّے آپ ہمیں دے رہے ہیں؟ ان سے اچھی بیڑیاں کیسے بنیں گی؟ جب ہم آپ کو بیڑی بنا کر دیں گے، تو آپ ہی انہیں خراب کہہ کر نہیں لیں گے۔‘‘

’’ہم نے جب بیڑی بنانے کا کام شروع کیا تھا تب ۴۰ روپے ملتے تھے ۱۰۰۰ بنانے پر،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

PHOTO • Kuhuo Bajaj

بدھ اور جمعہ کے دن بیڑی مزدور فیکٹریوں میں خام مال – تیندو کے پتے اور زردہ – لینے کے لیے آتی ہیں

مانسون الگ قسم کی پریشانیاں لے کر آتا ہے۔ ’’جو وہ بارش کے ۴ مہینے لگتے تھے، گویا پوری بیڑی کچرے میں جاتی تھی۔‘‘ تیندو کے گیلے پتوں میں لپٹا تمباکو ٹھیک سے سوکھتا نہیں ہے اور اس میں پھپھوند لگ جاتی ہے، جس کی وجہ سے پورا بنڈل خراب ہو جاتا ہے۔ ’’بارش کے دنوں میں ہم اپنے کپڑے بھی مشکل سے سُکھا پاتے ہیں، لیکن بیڑیوں کو خشک کرنا ہمارے لیے ضروری ہوتا ہے،‘‘ ورنہ ان کی کمائی بند ہو جائے گی۔

جب ٹھیکیدار کسی بیڑی کو مسترد کر دیتا ہے، تب اس میں لگی محنت اور وقت کے علاوہ اس بیڑی کو بنانے کے لیے ضروری خام مال میں لگا پیسہ بھی آمدنی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔ ’’خوب لمبی لائن لگتی تھی گنتی کے دن۔ جیسے تیسے نمبر آتا تھا، تب آدھی بیڑی تو نکال ہی دیتے تھے،‘‘ انتظار کے وقت کو یاد کرتے ہوئے جانو کہتی ہیں۔

بیڑیوں کو لمبائی، موٹائی، پتّوں کی قسم اور ان کو لپیٹنے کے طریقے جیسے کئی پیمانوں پر مسترد کیا جاتا ہے۔ ’’اگر پتّے تھوڑے نازک ہوں اور لپیٹتے وقت وہ ذرا سا بھی پھٹ جائیں یا جس دھاگے سے انہیں باندھا جاتا ہے وہ تھوڑے ڈھیلے ہو جائیں، تب بھی بیڑیاں مسترد کر دی جاتی ہیں،‘‘ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کی ایک بیڑی مزدور بتاتی ہیں۔ مزدوروں کے مطابق ٹھیکیدار مسترد کی گئی بیڑیوں کو اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور اور سستی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ ’’لیکن ہمیں ان کے عوض کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ نہ ہی ہمیں مسترد کی گئی وہ بیڑیاں ہی مل پاتی ہیں۔‘‘

*****

مرکزی حکومت نے بیڑی ورکرز ویلفیئر فنڈ ایکٹ، ۱۹۷۶ کے تحت سال ۱۹۷۷ میں بیڑی بنانے کے کام میں لگے سبھی مزدوروں کے لیے بیڑی کارڈ بنانے کی شروعات کی تھی۔ حالانکہ، بیڑی کارڈ کا بنیادی مقصد بیڑی مزدوروں کو پہچان دلانا ہے، تاکہ انہیں سرکاری اسپتال میں مفت علاج، زچگی سے متعلق سہولیات، متوفی کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے نقد ادائیگی، آنکھوں کی جانچ اور چشمے کی سہولت، اسکول جانے والے بچوں کے لیے وظیفہ اور یونیفارم وغیرہ جیسی سرکاری اسکیموں کا فائدہ مہیا کرایا جا سکے۔ بیڑی اینڈ سگار ورکرز (کنڈیشنز آف امپلائمنٹ) ایکٹ، ۱۹۶۶ ان مزدوروں کو مذکورہ سہولیات کا حق دیتا ہے۔ بیڑی مزدور عموماً ان کارڈوں کا استعمال کچھ خاص دواخانوں سے مفت یا رعایتی قیمتوں پر دوائیں حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔

’’زیادہ کچھ نہیں، لیکن بدن درد، بخار کی دوائی تو مل جاتی ہے،‘‘ دموہ کی بیڑی کارڈ ہولڈر ۳۰ سالہ خوشبو راج کہتی ہیں۔ وہ گزشتہ ۱۱ سالوں سے بیڑی بنا رہی تھیں۔ لیکن حال ہی میں وہ اس کام کو چھوڑ کر دموہ شہر میں چوڑیوں کی ایک چھوٹی سی دکان میں سیلز اسسٹنٹ کا کام کرنے لگی ہیں۔

PHOTO • Kuhuo Bajaj

بیڑی کارڈ سے مزدوروں کو پہچان ملتی ہے

کارڈ کئی طرح کے فائدوں کا وعدہ کرتا ہے، لیکن زیادہ تر بیڑی مزدور کارڈ کا استعمال خاص دواخانوں سے مفت یا رعایتی قیمتوں پر دوا حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ کارڈ کو حاصل کرنے کا عمل پریشان کرنے والا ہو سکتا ہے

کارڈ کی سہولت حاصل کرتے رہنے کے لیے، ’’ہمیں افسروں کے سامنے کچھ بیڑیاں بنانی پڑتی ہیں،‘‘ خوشبو کہتی ہیں۔ ’’سرکاری افسر دیکھتے ہیں کہ ہم سے واقعی میں بیڑی بنتی بھی ہے یا صرف ایسے ہی کارڈ بنوا رہے ہیں،‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں۔

’’ہمارا کارڈ بن جانے کے بعد، وہ فنڈ کے پیسے کاٹنے لگتے ہیں،‘‘ ایک خاتون مزدور کہتی ہیں۔ ان کا بیڑی کارڈ ان کے پرانے گاؤں میں بنا تھا اور وہ کسی قسم کی گڑبڑی کے تئیں بہت محتاط رہتی ہیں۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ فیکٹری مالک مزدوروں کی اجرت سے پیسے کاٹ کر اسے فنڈ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ۱۹۷۶ ایکٹ کے تحت اس فنڈ میں حکومت کے ذریعہ اتنی ہی رقم دی جاتی ہے۔ مزدور اس رقم کو مذکورہ بالا کسی اسکیم کے تحت نکال سکتا ہے یا پھر جب وہ یہ کام ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے، تب اپنے مستقبل کے لیے ان جمع کیے ہوئے پیسوں کو یک مشت نکال سکتا ہے۔

دو مہینے پہلے جب خوشبو نے بیڑی بنانا بند کر دیا، تو ان کو فنڈ سے کل ۳۰۰۰ روپے ملے۔ کچھ مزدوروں کو فنڈ کا یہ نظام فائدہ مند لگتا ہے، لیکن کئی دیگر مزدوروں کو ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنی محنت کے مقابلے پہلے سے بھی کم پیسے مل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ انہیں مستقبل میں یہ پیسے واپس ملیں گے ہی۔

حالانکہ، بیڑی کارڈ فائدہ مند محسوس ہوتا ہے، لیکن اسے بنوانے کے عمل پر صحیح سے نظر نہ رکھنے کی وجہ سے کچھ مزدوروں کے لیے یہ پریشانی سے بھرا کام بھی ہے۔ ان میں سے ایک مزدور نے اپنی آپ بیتی سنائی، جب وہ مقامی مرکز میں اپنا بیڑی کارڈ بنوانے گئی تھی اور وہاں موجود صاحب (افسر) نے ان کا جنسی استحصال کیا تھا۔ ’’اس نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور مجھے دوسرے دن بلایا۔ جب میں وہاں دوسرے دن گئی، تو اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے گئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں اپنے بھائی کو ساتھ کیوں لے آئی، مجھے وہاں اکیلے آنا چاہیے تھا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

جب انہوں نے کارڈ بنوانے سے منع کر دیا، تو اس نے انہیں گھورنا اور پریشان کرنا جاری رکھا۔ ’’اس کے بھی دوسرے دن جب میں اس راستے سے ہو کر گزر رہی تھی، تو اس نے مجھے دیکھ کر بلانا شروع کر دیا۔ اس نے اچھا خاصا تماشہ بنا دیا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’یہ مت سمجھنا کہ میں کوئی معصوم عورت ہوں۔ میں یہاں تمہارے گندے ارادوں میں شامل ہونے کے لیے نہیں آئی۔ اگر تم نے اپنی یہ حرکتیں جاری رکھیں، تو میں تمہارا تبادلہ کروا دوں گی،‘‘ انہوں نے کہا۔ واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی مٹھیاں بھنچی ہوئی ہیں اور ان کی آواز تیز ہو گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’بہت ہمت لگی تھی تب۔ تبادلہ کیے جانے سے پہلے یہ کام اس نے دو تین دوسری عورتوں کے ساتھ بھی کیا تھا۔‘‘

*****

PHOTO • Kuhuo Bajaj
PHOTO • Kuhuo Bajaj

بائیں: بیڑیاں باندھے جانے کے بعد پیک کرنے اور بیچے جانے کے لیے تیار ہیں۔ دائیں: پہلے کبھی بیڑی مزدور رہیں انیتا (بائیں) اور جین وتی (دائیں) بڑی بنانے کے اپنے تجربات شیئر کر رہی ہیں

جب عورتیں بیڑی بیچنے کے لیے جمع ہوتی ہیں، تو وہ اپنی باری کا انتظار کرتے وقت ہنسی مذاق کرتی ہیں، اور اپنی پیٹھ اور ہاتھوں کا درد بھول جاتی ہیں۔ ہفتہ میں دو بار ہونے والی ان ملاقاتوں نے ان میں اجتماعیت کا جذبہ بھی پیدا کیا ہے۔

’’ان ملاقاتوں میں سب کو ہنستا بولتا ہوا دیکھ کر مجھے بھی اچھا محسوس ہوتا ہے۔ میں گھر سے نکل سکتی ہوں،‘‘ کچھ خواتین نے اس رپورٹر سے کہا۔

’’ہماری ترنم اب بوڑھی ہونے لگی ہے، اس لیے اس کی ہتھیلیاں پوری روکھی ہو گئی ہیں۔ شہجا، ترنم کو چھیڑتے ہوئے کہتی ہیں۔ ترنم بھی ان کی بات کاٹتی ہوئی کہتی ہیں، ’’تمہارے ہاتھ بھی تو ایسے ہی ہیں، تم تو جوان ہو۔‘‘

ماحول میں ایک گرمجوشی ہے۔ عورتیں کسی نئے فیملی ڈرامے (ٹی وی شو) کے بارے میں بات چیت کرنے میں مشغول ہیں۔ کچھ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے نخروں کی بات کر رہی ہیں۔ کچھ عورتوں کے من میں ایک دوسرے کی صحت کو لے کر جائز تشویشیں ہیں۔ سیما سب کو بتا رہی ہیں کہ کیسے ان کے چار سال کے پوتے کو ان کی گائے نے لات ماری ہے، کیوں کہ جب اس کی ماں صبح کے وقت گائے کا دودھ نکال رہی تھی، تب وہ گائے کو تنگ کر رہا تھا؛ اس درمیان ان میں سے ایک اپنی پڑوسن کی بیٹی کی شادی سے جڑی تازہ خبر سنانے لگ جاتی ہیں۔

لیکن جب وہ اپنے اپنے گھر لوٹنے لگتی ہیں، تو ان کی خوشی چھوٹی سی آمدنی سے گھر چلانے کی فکرمندیوں کے آگے دم توڑ دیتی ہے۔ جب یہ عورتیں اپنی کڑی محنت اور کمزور ہوتی صحت کے عوض ہر ہفتے بیحد معمولی کمائی ہاتھ میں لے کر لوٹتی ہیں، تو یہ کہیں سے بھی مناسب نظر نہیں آتا ہے۔

سیما آج بھی اس درد اور مشکلوں کو یاد کرتی ہیں جس کا سامنا انہیں کرنا پڑا: ’’پیٹھ، ہتھیلیاں اور بازو… جسم کے ہر حصے میں خطرناک درد اٹھتا تھا۔ آپ یہ جو انگلیاں دیکھ رہے ہیں وہ بیڑیوں کو باندھنے کی وجہ سے دبلی ہوتی گئیں اور ان میں گانٹھیں پڑ گئی تھیں۔‘‘

اپنے مسائل اور فکرمندیوں کے بعد بھی مدھیہ پردیش کی یہ بیڑی مزدور کڑی محنت کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتی ہیں۔ وہ کم از کم مزدوری پر بھی گزر بسر کرنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ جیسا کہ ان میں سے ایک کا کہنا ہے، ’’اب کیا کریں، سب کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔‘‘

اسٹوری میں شامل کچھ کرداروں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

مترجم: سبطین کوثر

Student Reporter : Kuhuo Bajaj

Kuhuo Bajaj is an undergraduate student of Economics, Finance and International Relations at Ashoka University. She is keen to cover stories on rural India.

Other stories by Kuhuo Bajaj
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser