ہندوستان کے پہلے وزیر قانون ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں چل رہی کارروائیوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے۔ آخرکار، انہوں نے ہی کہا تھا، ’’اگر مجھے آئین کا غلط استعمال ہوتا نظر آیا، تو اسے جلانے والا میں پہلا شخص ہوں گا۔‘‘

پاری لائبریری سال ۲۰۲۳ میں پارلیمنٹ میں منظور کیے گئے اہم نئے قوانین پر ایک نظر ڈال رہی ہے، جن کی وجہ سے شہریوں کے آئینی حقوق پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔

تحفظ جنگلات کا (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۳ کو ہی لے لیں۔ ہندوستان کے جنگلات اگر سرحدوں کے نزدیک ہیں، تو وہ اپنی اصلی حالت میں نہیں رہ سکتے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے شمال مشرقی علاقے پر غور کریں، جو متعدد ممالک کے ساتھ بین الاقوامی سرحدوں کا اشتراک کرتا ہے۔ شمال مشرق کے ’غیر درجہ بند جنگلات‘ ریکارڈ شدہ جنگلاتی علاقوں کا ۵۰ فیصد سے زیادہ ہیں، جنہیں اب قانون میں ترمیم کے بعد فوجی اور دیگر استعمال کے لیے تحویل میں لیا جا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل رازداری کے شعبہ میں لایا گیا ایک نیا قانون – بھارتیہ ناگرک سرکشا (دوئم) سنہتا – تفتیش کے دوران شہریوں کی رازداری کے بنیادی حق کو خطرہ میں ڈال کر تفتیشی ایجنسیوں کے لیے فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیجیٹل آلات کو ضبط کرنا آسان بناتا ہے۔ اسی طرح نیا ٹیلی مواصلات کا قانون، ٹیلی کمیونیکیشن سروسز کے مجاز اداروں کو بائیو میٹرک پر مبنی قابل تصدیق شناخت کا استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ بائیو میٹرک ریکارڈز کا حصول اور ان کا ذخیرہ کرنا رازداری اور سائبرسیکورٹی کے خدشات کو جنم دیتے ہیں۔

قانون سازی کے یہ نئے اقدامات ۲۰۲۳ میں ہندوستان کے پارلیمانی اجلاس میں کیے گئے تھے۔ پارلیمنٹ کی ۷۲ سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ دسمبر ۲۰۲۳ میں منعقدہ سرمائی اجلاس میں حزب اختلاف کے ۱۴۶ اراکین پارلیمنٹ (ایم پی) کو ایوان سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ یہ ایک اجلاس میں معطلی کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

راجیہ سبھا کے ۴۶ اراکین اور لوک سبھا کے ۱۰۰ ارکین کے معطل ہونے کے بعد جب فوجداری قانون میں ترمیم پر بحث ہوئی، تو حزب اختلاف کی سیٹیں خالی نظر آئیں۔

بحث کے دوران ہندوستانی فوجداری قوانین کی اصلاح اور ان کو نوآبادیاتی عناصر سے پاک کرنے کے مقصد سے لوک سبھا میں تین بل پیش کیے گئے: تعزیرات ہند، ۱۸۶۰؛ ضابطہ فوجداری، ۱۹۷۳؛ اور قانون شہادت ہند، ۱۸۷۲۔ بھارتیہ نیائے (دوئم) سنہتا، ۲۰۲۳ (بی این ایس)، بھارتیہ ناگرک سرکشا (دوئم) سنہتا، ۲۰۲۳ (بی این ایس ایس)، اور بھارتیہ ساکشیہ (دوئم) بل، ۲۰۲۳ (بی ایس بی) نے بالترتیب ان قوانین کی جگہ لے لی۔ پاس ہونے کے ۱۳ دنوں کے اندر ان بلوں کو ۲۵ دسمبر کو صدارتی منظوری مل گئی اور یہ یکم جولائی ۲۰۲۴ سے لاگو ہو جائیں گے۔

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

حالانکہ بھارتیہ نیائے (دوئم) سنہتا، ۲۰۲۳ ( بی این ایس ) قانون بنیادی طور پر موجودہ دفعات کی تشکیل نو کرتا ہے، لیکن بی این ایس بل کی دوسری تشکیل کے ذریعے قابل ذکر ترامیم متعارف کرائی گئیں جو اپنے پیش رو، تعزیرات ہند، ۱۸۶۰ ( آئی پی سی ) سے انحراف کرتی ہیں۔

اس قانون نے غداری کے جرم کو برقرار رکھا ہے (اب اسے ایک نئی اصطلاح سے نامزد کیا گیا ہے)۔ اس کے دائرہ کار کو وسیع کرتے ہوئے اسے ’’ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی سرگرمیاں‘‘ پر محمول کیا گیا ہے۔ مجوزہ دفعہ ۱۵۲ غداری کا الزام عائد کرنے کے سابقہ معیار ’’تشدد کو ہوا دینے‘‘ یا ’’عوامی نظم و نسق میں خلل پیدا کرنے‘‘ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ دراصل، یہ کسی بھی ایسے عمل کو مجرمانہ عمل قرار دیتا ہے، جو ’’علیحدگی یا مسلح بغاوت، یا تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دیتا ہے، یا ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

بی این ایس قانون (دوئم) میں ایک اور قابل ذکر ترمیم آئی پی سی کی دفعہ ۳۷۷ کا اخراج ہے: ’’جو کوئی بھی کسی مرد، عورت یا جانور کے ساتھ غیر فطری طریقے سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے، تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی […]۔‘‘ تاہم، نئے قانون میں ضروری دفعات کی عدم موجودگی دوسری صنف کے افراد کو جنسی زیادتی کے خلاف تحفظ فراہم نہیں کرتی ہے۔

سال ۲۰۲۳ کا بھارتیہ ناگرک سرکشا (دوئم) سنہتا قانون، جسے بی این ایس ایس قانون کہا جاتا ہے، ۱۹۷۳ کے ضابطہ فوجداری کی جگہ لے چکا ہے۔ اس میں موجودہ قانون سے ایک اہم انحراف ہے۔ یہ پولیس حراست کی اجازت کی مدت کو شروعاتی ۱۵ دنوں سے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ ۹۰ دنوں تک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ حراست کی توسیعی مدت کا اطلاق خاص طور پر سنگین جرائم پر ہوتا ہے، جن میں سزائے موت، عمر قید، یا کم از کم ۱۰ سال کی قید کی سزا ہوتی ہے۔

مزید برآں، یہ قانون ایجنسیوں کو تحقیقات کے دوران فون اور لیپ ٹاپ جیسے ڈیجیٹل آلات کو ضبط کرنے کی اجازت دیتا ہے، جن سے ممکنہ طور پر رازداری کے حق کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

بھارتیہ ساکشیہ (دوئم) قانون ، ۲۰۲۳ بہت حد تک ۱۸۷۲ کے قانون شہادت ہند کے ڈھانچے کو کم سے کم ترامیم کے ساتھ محفوظ رکھتا ہے۔

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

تحفظ جنگلات کا (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۳ جنگلات (کے تحفظ) کا قانون، ۱۹۸۰ کی جگہ لیتا ہے۔ ترمیم شدہ قانون اپنی دفعات کے تحت مخصوص قسم کی اراضی کو استثنیٰ قرار دیتا ہے۔ ان میں شامل ہیں:

’’(الف) ایسی جنگلاتی زمین جو ریلوے لائن یا حکومت کے زیر انتظام عوامی سڑک سے ملحق ہو، جو کسی رہائش، یا ریلوے تک، اور سڑک کے کنارے کی سہولت تک ہر حال میں زیادہ سے زیادہ ۱۰ء۰ ہیکٹیئر رقبہ تک رسائی فراہم کرتی ہو؛

(ب) زمین پر اگائے گئے درخت، کی گئی شجرکاری یا باز شجرکاری جن کا ذیلی دفعہ (۱) کی شق (الف) یا شق (ب) میں ذکر نہیں ہے؛ اور

(ج) جنگلات کی ایسی زمین جو:

(۱) بین الاقوامی سرحدوں یا لائن آف کنٹرول یا لائن آف ایکچوئل کنٹرول سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہو، جسے قومی اہمیت اور قومی سلامتی سے متعلق دفاعی نوعیت کے لکیری منصوبے کے لیے استعمال کرنے کی تجویز ہے؛ یا

(۲)دس ہیکٹیئر تک ہے، اور سلامتی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کی تجویز ہے؛ یا

(۳) دفاع سے متعلق پروجیکٹ یا نیم فوجی دستوں کے کیمپ یا عوامی افادیت کے منصوبوں کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کی تجویز ہے […]۔‘‘

غور طلب ہے کہ اس ترمیم میں موسمیاتی بحران اور ماحولیاتی انحطاط کے خدشات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔

PHOTO • Design courtesy: Dipanjali Singh

پارلیمنٹ نے ٹیلی مواصلات کا قانون ۲۰۲۳ ، ڈیجیٹل ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کا قانون ۲۰۲۳ ( ڈی پی ڈی پی قانون )، اور نشریاتی خدمات کی ضابطہ کاری کا بل ۲۰۲۳ کی منظوری کے ساتھ ہندوستان کے ڈیجیٹل شعبے پر اہم اثرات مرتب کرنے والے قانون سازی کے کچھ اقدامات بھی متعارف کرائے ہیں۔ یہ اقدام شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق اور آئینی طور پر محفوظ رازداری کے حقوق پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں، اور آن لائن مواد کو کنٹرول کرتے ہیں اور ضابطہ کاری کے آلہ کے طور پر ٹیلی مواصلات کے نیٹ ورک کو زبردستی بند کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

حزب اختلاف کی آوازوں کی عدم موجودگی میں ٹیلی مواصلات کے بل کو لوک سبھا سے پاس کرنے کے بعد آناً فاناً میں صدر جمہوریہ کی میز پر پہنچا دیا گیا، جسے ۲۵ دسمبر کو منظوری مل گئی۔ انڈین ٹیلی گراف ایکٹ، ۱۸۸۵ اور انڈین وائرلیس ٹیلی گرافی ایکٹ، ۱۹۳۳ میں اصلاحات کی اپنی کوششوں میں یہ قانون ضابطہ کاری کے ڈھانچے کو جدید بنانے کی وکالت کرتا ہے، مثلاً:

’’(الف) […] کچھ مخصوص پیغامات یا خاص طرح کے پیغامات وصول کرنے کے لیے صارفین کی پیشگی رضامندی؛

(ب) ایک یا اس سے زیادہ رجسٹروں کی تیاری اور ان کا رکھ رکھاؤ، جسے ’’ڈو ناٹ ڈسٹرب (پریشان نہ کریں)‘‘ رجسٹر کہا جائے گا، تاکہ اس بات کو یقینی بنانے جا سکے کہ صارفین کو مخصوص پیغامات یا خاص طرح کے پیغامات بغیر پیشگی رضامندی کے موصول نہ ہوں؛ یا

(ج) صارفین کو اس سیکشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موصول ہونے والے کسی بھی میلویئر یا مخصوص پیغامات کی اطلاع دینے کے قابل بنانے کا طریقہ کار۔‘‘

PHOTO • Design courtesy: Siddhita Sonavane

یہ قانون حکومت کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ عوامی ہنگامی صورتحال کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں کو ہوا دینے سے روکنے کے لیے ’’کسی بھی ٹیلی کمیونیکیشن سروس یا ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک کو کسی مجاز ادارے سے عارضی طور پر اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔‘‘

یہ شق سرکاری حکام کو عوامی تحفظ کو قائم رکھنے کے نام پر ٹیلی کام نیٹ ورک پر مواصلات کی نگرانی اور ان کو منظم کرنے کے لیے خاطر خواہ اختیارات فراہم کرتی ہے۔

اصل قوانین میں ان اصلاحات کو ’شہری مرتکز‘ خیال کیا جاتا ہے، جیسا کہ ملک کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا تھا۔ شمال مشرق کی قبائلی برادریاں (ہمارے ملک کے شہری) ’غیر درجہ بند جنگلات‘ کے قریب رہتی ہیں، ممکنہ طور پر وہ اپنے معاش، ثقافت اور تاریخ سے محروم ہو سکتی ہیں۔ نئے تحفظ جنگلات کے (ترمیمی)  قانون کے تحت ان کے حقوق محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔

فوجداری قانون میں ترامیم شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے ساتھ ساتھ آئینی طور پر تحفظ شدہ رازداری کے حق کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ یہ قانون شہریوں کے حقوق اور فوجداری کی قانونی کارروائیوں کے درمیان توازن قائم کرنے میں چیلنج پیش کرتے ہیں، اسی لیے یہ ترامیم محتاط غور و فکر کا تقاضہ کرتی ہیں۔

ملک کے آئین کے معمار یقینی طور پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کی زبان میں ’شہری مرتکز‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے۔

کور ڈیزائن: سودیشا شرما

مترجم: شفیق عالم

PARI Library

The PARI Library team of Dipanjali Singh, Swadesha Sharma and Siddhita Sonavane curate documents relevant to PARI's mandate of creating a people's resource archive of everyday lives.

Other stories by PARI Library
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam