رات میں گہری اور اچھی نیند شیلا واگھمارے کے لیے اب صرف پرانے دنوں کی یاد بن کر رہ گئی ہے۔

فرش پر بچھی گودھڑی پر پالتھی لگائے بیٹھی ۳۳ سالہ شیلا کہتی ہیں، ’’رات میں گہری نیند سوئے مجھے نہ جانے کتنے سال ہو گئے۔‘‘ ان کی سرخ جلتی ہوئی آنکھوں سے گہری تکلیف کا اظہار ہو رہا ہے۔ بے نیند راتوں کے لمبے گھنٹوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کی ہچکیاں پھوٹ پڑتی ہیں اور پورا جسم بری طرح کانپنے لگتا ہے۔ وہ ضبط کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ’’میں رات بھر روتی رہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے…مجھے لگتا ہے کہ کوئی میری گردن دبا رہا ہے۔‘‘

شیلا، مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے راجوری گھوڑا گاؤں کے مضافات میں رہتی ہیں۔ بیڈ شہر سے یہ جگہ تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ اینٹ سے بنے اپنے دو کمروں کے گھر میں جب وہ اپنے شوہر، مانک اور تین بچوں، کارتک، بابو اور روتوجا کے بغل میں سونے کی کوشش میں کروٹیں بدلتی رہتی ہیں، تو ان کی سسکیوں سے اُن سب کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے رونے کی وجہ سے دوسروں کی نیندوں میں خلل پڑتا ہے۔ تب میں اپنی آنکھوں کو بند کرکے خاموشی سے سوئے رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

لیکن انہیں نیند نہیں آتی ہے، اور نہ ہی آنکھوں سے آنسو بند ہوتے ہیں۔

شیلا بتاتی ہیں، ’’میں ہمیشہ بے چین اور تناؤ میں رہتی ہوں۔‘‘ وہ تھوڑا جھجکتی ہیں، لیکن ان کے چہرے کی ناراضگی نہیں چھپتی۔ ’’یہ سب میری بچہ دانی نکالے جانے کے بعد ہی شروع ہوا۔ میری زندگی اب ہمیشہ کے لیے بدل گئی ہے۔‘‘ سال ۲۰۰۸ میں جب ایک آپریشن کے ذریعے ان کی بچہ دانی نکالی گئی تھی، تب وہ صرف ۲۰ سال کی تھیں۔ اس کے بعد سے وہ بے چینی، کم خوابی، چڑچڑے پن کے دورے اور کئی دوسری جسمانی تکلیفوں اور درد میں مبتلا ہیں، جو طویل عرصے تک ان کے ساتھ بنے رہتے ہیں۔

PHOTO • Jyoti Shinoli

شیلا واگھمارے، راجوری گھوڑکا گاؤں کے اپنے گھر میں۔ ’میں ہمیشہ بے چین اور تناؤ میں رہتی ہوں‘

’’کئی بار میں بچوں پر بلا وجہ غصہ کرنے لگتی ہوں۔ وہ اگر پیار سے بھی کچھ پوچھتے ہیں، تو میں چیخ کر ان کی باتوں کا جواب دیتی ہوں۔‘‘ شیلا جب یہ کہتی ہیں، تو ان کے چہرے کی بے بسی صاف جھلکتی ہے۔ ’’میں اپنے غصہ پر قابو پانے کی واقعی میں بہت کوشش کرتی ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ایسا برتاؤ کیوں کر رہی ہوں۔‘‘

مانک سے شادی کے وقت ان کی عمر صرف ۱۲ سال تھی، اور ۱۸ سال کی ہوتے ہوتے شیلا تین بچوں کی ماں بھی بن چکی تھیں۔

وہ اور مانک اُن تقریباً ۸ لاکھ اوس توڑ کامگار‘ (یعنی گنّا کاٹنے والے مزدور) میں شامل ہیں جو چھ مہینے کے گنّے کی کٹائی کے موسم میں مراٹھواڑہ علاقے سے یومیہ مزدور کے طور پر مہاجرت کرتے ہیں، اور مارچ سے اکتوبر تک مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کے گنّا کے کھیتوں میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ سال کے بقیہ مہینوں میں شیلا اور مانک، جن کے پاس اپنا کھیت نہیں ہے، اپنے یا آس پاس کے گاؤوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کا تعلق نیو بدھسٹ برادری سے ہے۔

سرجری کے ذریعے بچہ دانی نکلوانے کے بعد کی پیچیدگیاں اور بیماریاں، مہاراشٹر کے اس علاقے میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ سال ۲۰۱۹ میں ریاستی حکومت کے ذریعے قائم کردہ ایک سات رکنی کمیٹی کا مقصد اس علاقے میں غیر معمولی طور پر بڑھنے والی بچہ دانی سے متعلق امراض کے اسباب کا پتہ لگانا تھا۔ متاثرین میں زیادہ تر بیڈ میں گنّے کے کھیتوں میں مزدوری کرنے والی خواتین تھیں۔ آخر میں کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ متاثرہ خواتین ذہنی و جسمانی تناؤ میں مبتلا تھیں۔

کمیٹی کی صدر ڈاکٹر نیلم گورہے تھیں، جو اُس وقت مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر تھیں۔ کمیٹی نے اپنا سروے ۲۰۱۹ کے جون و جولائی مہینے میں کیا اور اس دوران ضلع میں گنّے کی کٹائی کے موسم میں کم از کم ایک بار آ چکی ۸۲ ہزار ۳۰۹ خواتین مزدوروں کا سروے کیا۔ سروے کے دوران یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن ۱۳ ہزار ۸۶۱ خواتین کی بچہ دانی نکالی گئی تھی، ان میں سے ۴۵ فیصد سے زیادہ، یعنی ۶۳۱۴ خواتین کو کسی نہ کسی ذہنی یا جسمانی پریشانیوں سے گزرنا پڑا تھا۔ ان میں عام طور پر کم خوابی، تناؤ، چڑچڑاپن، اور پیٹھ کے جوڑوں میں درد جیسی دقتیں شامل تھیں۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

شیلا اور ان کے بچے، کارتک اور روتوجا (دائیں)۔ گنے کی کٹائی کے موسم میں یہ پوری فیملی مہاجر مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے مہاجرت کرتی ہے

بچہ دانی نکالنے کی سرجری ایک پیچیدہ عمل ہے اور دیر سویر عورتوں کے جسم پر اس کا منفی اثر پڑنا لازمی ہے۔ یہ ممبئی کی خواتین کی امراض کی ماہر اور وی این دیسائی میونسپل جنرل ہاسپیٹل کی صلاح کار ڈاکٹر کومل چوہان کا کہنا ہے۔ ڈاکٹر چوہان آگے بتاتی ہیں، ’’طبی زبان میں یہ آپریشن کے سبب حیض کا بند ہو جانا (مینوپاز) ہے۔‘‘

سرجری کے بعد کے سالوں میں، شیلا جوڑوں کے درد، سر درد، پیٹھ درد، اور لگاتار تھکان جیسی جسمانی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہر دو تین دنوں کے بعد، مجھے کافی درد ہوتا ہے۔‘‘

درد کو روکنے والے مرہم اور کھانے والی گولیوں سے فوری راحت ہی ملتی ہے۔ وہ ’ڈِکلوفینیک جیل‘ کا ایک ٹیوب دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں اپنے گھٹنوں اور پیٹھ کے درد کے لیے، مہینہ میں اس کریم کے دو ٹیوب خریدتی ہوں۔‘‘ اس میں ہر مہینے ۱۶۶ روپے لگ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے ذریعے لکھی گئی کچھ گولیاں بھی انہیں کھانی ہوتی ہیں۔ انہیں مہینے میں دو بار نسوں کے ذریعے گلوکوز بھی چڑھایا جاتا ہے، تاکہ ان کی کمزوری اور تھکان میں راحت مل سکے۔

اپنے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور کے ایک پرائیویٹ کلینک سے صلاح و مشورہ اور دوائیں لینے کے عوض انہیں ہر مہینے ۱۰۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ بیڈ کا سول اسپتال ان کے گاؤں سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے، اس لیے پرائیویٹ کلینک میں علاج کرانا ان کے لیے زیادہ سستا اور آرامدہ ہے۔ ’’گاڑی گھوڑے (آنے جانے) میں اتنے پیسے خرچ کرکے اتنی دور کون جائے گا؟‘‘

دوائیں جذباتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنے میں کوئی کام نہیں آتیں۔ ’’اسا سگلا تراس اسلیاور کا مہنون جگاو واٹیل [ اتنی ساری پریشانیوں کے ساتھ زندہ رہنے کا کیا مطلب ہے؟]۔‘‘

ممبئی کے ماہر نفسیات، ڈاکٹر اویناش ڈیسوزہ کہتے ہیں کہ جسمانی انفیکشن کے علاوہ، بچہ دانی نکال دینے کے بعد ہارمون کی سطح میں جو عدم توازن پیدا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے مریض کو تناؤ اور بے چینی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ بچہ دانی کے آپریشن یا حمل کی خرابی سے متعلق امراض کی شدت ہر ایک مریض میں الگ الگ ہوتی ہے۔ ’’کچھ عورتوں پر اس کا منفی اثر زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور کچھ عورتوں میں اس کی معمولی علامت ہی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

کھانے والی گولیاں اور ڈکلوفینیک درد مزاحم مرہم شیلا کو فوری راحت ہی پہنچاتے ہیں۔ ’میں مہینہ میں مرہم کے دو ٹیوب استعمال کرتی ہوں‘

سرجری کے بعد بھی شیلا نے مہاجر مزدور کے طور پر کام کرنا جاری رکھا ہے۔ گنّے کی کٹائی کے ہر موسم میں وہ مانک کے ساتھ گنّے کی کٹائی کرنے مغربی مہاراشٹر جاتی ہیں۔ عموماً اپنی فیملی کے ساتھ وہ کولہاپور میں گنّے کی پیرائی کرنے والی ایک فیکٹری میں جاتی ہیں، جو بیڈ سے تقریباً ۴۵۰ کلومیٹر دور ہے۔

شیلا سرجری سے پہلے کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم پورے دن ۱۶ سے ۱۸ گھنٹے تک کام کرتے تھے اور تقریباً دو ٹن گنّا روزانہ کاٹ لیتے تھے۔‘‘ کاٹے گئے گنّے کے ایک ٹن کے بوجھ کے بدلے انہیں ۲۸۰ روپے ’کوئیٹا‘ کی شرح سے مزدوری ملتی تھی۔ ’کوئیٹا‘ کا لفظی معنی وہ مڑی ہوئی درانتی ہے، جو سات فٹ اونچے گنّے کی کٹائی میں استعمال ہوتی ہے۔ لیکن بول چال کی زبان میں یہ لفظ اس میاں بیوی کا ہم معنی بن گیا، جو ساتھ مل کر گنّے کی کٹائی کرتے ہیں۔ دو رکنی اس اکائی کو مزدوروں کے ٹھیکہ دار یک مشت رقم بطور پیشگی ادا کرتے ہیں۔

شیلا کہتی ہیں، ’’چھ مہینے میں ہم ۵۰ ہزار سے ۷۰ ہزار روپے کما لیتے تھے۔‘‘ لیکن بچہ دانی کی سرجری کے بعد میاں بیوی کے لیے روزانہ ایک ٹن گنّے کی کٹائی اور ڈھلائی کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ’’میں بھاری بوجھ اٹھا پانے میں لاچار ہوں، اور کٹائی کا کام بھی پہلے والی پھرتی (تیزی) کے ساتھ نہیں کر پاتی ہوں۔‘‘

لیکن شیلا اور مانک نے سال ۲۰۱۹ میں ۳۰ فیصد سالانہ شرح سود پر ۵۰ ہزار روپے پیشگی رقم کے طور پر لیے تھے، تاکہ اپنے مکان کی مرمت کرا سکیں۔ اُس قرض کو چکانے کے لیے ان کا کام کرتے رہنا ضروری ہے۔ شیلا کہتی ہیں، ’’یہ ختم ہی نہیں ہو رہا ہے۔‘‘

*****

عورتوں کے لیے ان کے حیض کے دنوں میں گنّے کے کھیتوں میں کڑی محنت والی مزدوری کرنا انتہائی چیلنج بھرا کام ہوتا ہے۔ ان کے لیے کھیتوں میں کوئی بیت الخلاء یا غسل خانہ نہیں ہوتا، ان کے رہنے کا انتظام بھی بے حد سطحی اور کام چلاؤ ہوتا ہے۔ ’کوئیٹا‘ جن کے ساتھ عام طور پر ان کے بچے بھی رہتے ہیں، گنّے کی فیکٹریوں اور کھیتوں کے پاس بنے ٹینٹ میں رہتے ہیں۔ شیلا یاد کرتی ہیں، ’’ پالی (حیض) کے دنوں میں کام کرنا بہت مشکل تھا۔‘‘

ایک دن کی چھٹی کی قیمت بھی چکانی پڑتی تھی، اور مکادم (مزدوروں کا ٹھیکہ دار) اس دن کا محنتانہ بطور ہرجانہ کام لیتا تھا۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: ٹن کا وہ باکس جس میں شیلا گنّے کے کھیت پر جانے کے لیے فیملی کا سامان رکھتی ہیں۔ دائیں: درانتی یا کوئیٹا، جس کا استعمال گنّوں کے سخت ڈنٹھل کو کاٹنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ اُس میاں بیوی کا بھی ہم معنی ہے جو ایک ساتھ گنّے کی کٹائی کرتے ہیں

شیلا بتاتی ہیں کہ کٹائی کرنے والی خواتین مزدور کھیتوں میں سوتی کے پرانے پیٹی کوٹ کے کپڑوں کا پیڈ پہن کر جاتی ہیں۔ وہ انہیں بدلے بغیر ۱۶ گھنٹے تک کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اسے پورا دن کام کرنے کے بعد بدلتی تھی۔ وہ پوری طرح سے بھیگ چکا ہوتا تھا اور اس سے خون کی بوندیں ٹپکتی رہتی تھیں۔‘‘

صفائی کا معقول انتظام نہ ہونے اور استعمال شدہ پیڈ کو دھونے کے لیے پانی کی کمی یا انہیں سکھانے کے لیے مناسب جگہ نہ ہونے کی وجہ سے، وہ اکثر گیلا پیڈ استعمال کر لیتی تھیں۔ ’’اس سے بدبو آتی تھی، لیکن انہیں دھوپ میں سُکھانا مشکل کام تھا؛ ارد گرد بہت سے مرد ہوتے تھے۔‘‘ انہیں سینیٹری پیڈ کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس کے بارے میں تو مجھے تب پتہ چلا، جب میری بیٹی کو حیض آنا شروع ہوا۔‘‘

وہ ۱۵ سال کی روتوجا کے لیے بازار سے سینیٹری پیڈ خریدتی ہیں۔ ’’میں اس کی صحت کے معاملے میں کوئی خطرہ اٹھانا نہیں چاہتی ہوں۔‘‘

سال ۲۰۲۰ میں خواتین کاشتکاروں کے حقوق کی بات کرنے والے پونہ کے مکام نام کے خواتین کی تنظیموں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم نے ایک سروے رپورٹ جاری کی، جس میں گنّا کی کٹائی کرنے والی ۱۰۴۲ خواتین کے انٹرویو کے نتائج بتائے گئے تھے۔ یہ انٹرویو مہاراشٹر کے آٹھ ضلعوں سے جمع کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، گنّے کی کٹائی کرنے والی ۸۳ فیصد عورتیں حیض کے دوران کپڑوں کا استعمال کر رہی تھیں۔ صرف ۵۹ فیصد عورتوں کے پاس اُن پیڈوں کو دھونے کے لیے پانی کی سہولت دستیاب تھی، جب کہ ۲۴ فیصد عورتیں گیلے پیڈ کو ہی دوبارہ استعمال کر رہی تھیں۔

یہ غیر صحت بخش طریقے ہی خواتین کے متعدد امراض اور دوسری پیچیدگیوں – مثلاً بہت زیادہ خون آنا اور تکلیف دہ حیض کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ شیلا کہتی ہیں، ’’میرے پیٹ کے نچلے حصے میں ناقابل برداشت درد رہتا تھا، اور اندام نہانی سے سفید گاڑھا سیال بھی نکلتا تھا۔‘‘

بغیر صفائی والے حیض سے انفیکشن پھیلنا بہت عام بات ہے، اور اسے معمولی علاج سے ٹھیک بھی کیا جا سکتا ہے، ایسا ڈاکٹر چوہان کہتی ہیں۔ ’’بچہ دانی کو نکال دینا سب سے بنیادی علاج نہیں ہے، لیکن کینسر، یوٹیرائن پرولیپس یا فائبروآیڈس کی حالت میں یہ آخری متبادل ہے۔‘‘

PHOTO • Labani Jangi

خواتین کے لیے ان کے حیض کے دنوں میں گنّے کے کھیتوں میں جی توڑ محنت کرنا انتہائی چیلنج بھرا ہوتا ہے۔ ان کے لیے کھیتوں میں بیت الخلاء یا غسل خانہ تک نہیں ہوتا، ان کے رہنے کا انتظام بھی سطحی اور کام چلاؤ ہوتا ہے

شیلا جو مراٹھی میں اپنا نام لکھنے کے علاوہ، لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتی ہیں، کو اس بارے میں معلوم ہی نہیں تھا کہ انفیکشن کا علاج کیا جا سکتا تھا۔ دوسری خواتین زرعی مزدوروں کی طرح وہ بھی بیڈ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں اس امید کے ساتھ گئیں کہ دوا لینے سے ان کے درد میں افاقہ ہوگا اور وہ اپنا کام بدستور جاری رکھ سکیں گی، اور مزدور ٹھیکہ دار کو جرمانہ دینے سے بھی بچی رہیں گی۔

اسپتال میں ایک ڈاکٹر نے انہیں متنبہ کیا کہ انہیں کینسر ہو سکتا ہے۔ شیلا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’کوئی خون کی جانچ نہیں یا کوئی سونوگرافی نہیں ہوئی۔ اس نے مجھے سیدھے کہا کہ میری بچہ دانی میں سوراخ ہے۔ اور میں پانچ چھ مہینے کے اندر کینسر سے مر جاؤں گی۔‘‘ بہرحال، ڈر کی وجہ سے انہوں نے سرجری کے لیے حامی بھر دی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اسی دن کچھ ہی گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر نے میرے شوہر کو میری نکالی ہوئی بچہ دانی دکھاتے ہوئے کہا کہ ان سوراخوں کو دیکھئے۔‘‘

شیلا نے اسپتال میں سات دن گزارے۔ مانک نے اپنی بچت کے پیسوں اور دوستوں و رشتہ داروں سے قرض لے کر علاج کے لیے ۴۰ ہزار روپے کا انتظام کیا تھا۔

بیڈ کے ایک سماجی کارکن اشوک تانگڑے کہتے ہیں، ’’ایسی زیادہ تر سرجری پرائیویٹ اسپتالوں میں ہی کی جاتی ہے۔‘‘ تانگڑے گنّا مزدوروں کی بہتری کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ ایک غیر انسانی عمل ہے کہ ڈاکٹر بغیر کسی ٹھوس طبی اسباب کے ایسی مہلک سرجری کرنے کا خطرہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

حکومت کے ذریعے قائم کردہ کمیٹی نے اس بات کی تصدیق کی کہ سروے میں شامل ہونے والی ۹۰ فیصد خواتین نے اپنی سرجری پرائیویٹ اسپتالوں میں کرائی ہے۔

شیلا نے ممکنہ منفی نتائج کے بارے میں کوئی طبی صلاح نہیں لی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں حیض کے مسائل سے اب پوری طرح آزاد ہو چکی ہوں، لیکن میں زندگی کے سب سے تکلیف دہ دنوں سے گزر رہی ہوں۔‘‘

مزدوری میں کٹوتی کا ڈر، مزدوروں کے ٹھیکہ داروں کی استحصال پر مبنی پالیسیوں، اور پیسوں کے لالچی پرائیویٹ سرجن کے جال میں پھنسی بیڈ ضلع کی خواتین گنّا مزدوروں کے پاس دوسروں سے شیئر کرنے کے لیے بس یہی کہانی ہے۔

*****

PHOTO • Jyoti Shinoli

لتا واگھمارے اپنے باورچی خانہ میں کھانا بناتے ہوئے۔ کام پر جانے سے پہلے، انہیں اپنے تمام گھریلو کام نمٹانے ہوتے ہیں

شیلا کے گھر سے چھ کلومیٹر دور کاٹھوڈا گاؤں کی لتا واگھمارے کی کہانی کوئی الگ نہیں ہے۔

لتا (۳۲ سال) کہتی ہیں، ’’مجھے اپنے زندہ ہونے کی کوئی خوشی نہیں ہے۔‘‘ انہیں اپنی بچہ دانی تبھی نکلوانی پڑی تھی، جب وہ صرف ۲۰ سال کی تھیں۔

اپنے شوہر رمیش کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے درمیان اب پیار جیسی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔‘‘ ان کے آپریشن کے ایک سال کے بعد سے ہی حالات بدلنے لگے۔ وہ ہمیشہ چڑچڑی رہنے لگیں اور انہوں نے اپنے شوہر سے دوری بنا لی۔

لتا بتاتی ہیں، ’’جب بھی وہ میرے قریب آنے کی کوشش کرتے تھے، میں ان سے منہ پھیر لیتی تھی۔ ہمارے درمیان اس بات کو لے کر جھگڑے ہوتے تھے اور ہم ایک دوسرے پر چیختے چلاتے تھے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ جسمانی ضرورت کے مسلسل ٹھکرائے جانے پر ان کے شوہر کو بھی لتا میں کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی۔ ’’اب تو وہ مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے ہیں۔‘‘

ایک زرعی مزدور کے طور پر کام پر نکلنے سے پہلے ان کا پورا وقت گھر کے چھوٹے بڑے کاموں میں گزر جاتا ہے۔ وہ اپنے ہی یا پڑوس کے کسی گاؤں میں دوسرے کے کھیتوں پر کام کرتی ہیں۔ اور انہیں ایک دن کے ۱۵۰ روپے دہاڑی میں ملتے ہیں۔ وہ گھٹنوں اور پیٹھ میں درد سے بے حد پریشان رہتی ہیں اور ہر دن انہیں شدید سر درد سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ راحت کے لیے وہ یا تو گولیاں کھاتی رہتی ہیں یا گھریلو نسخے آزماتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایسے میں، میں اپنے شوہر کے پاس کیسے جانا چاہوں گی؟‘‘

محض ۱۳ سال کی عمر میں شادی کر دیے جانے کے بعد، انہوں نے ایک سال کے اندر اپنے بیٹے آکاش کو جنم دیا تھا۔ اب ان کا بیٹا بھی ماں باپ کے ساتھ ہی گنّے کے کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے، جب کہ اس نے ۱۲ویں تک کی پڑھائی بھی کی ہے۔

PHOTO • Jyoti Shinoli

اُن مہینوں میں، جب لتا گنّا کٹائی کے لیے باہر کام کرنے نہیں گئی ہوتی ہیں، وہ اپنے گاؤں میں ہی زرعی مزدوری کرتی ہیں

لتا کی اگلی اولاد ایک بیٹی تھی، لیکن وہ معصوم بچی جب صرف پانچ مہینے کی تھی، تب گنّے کے کھیت میں ٹریکٹر کے پہیے کے نیچے آ گئی تھی۔ بچوں اور نوزائیدوں کے لیے بنیادی سہولیات نہیں ہونے کی وجہ سے، کٹائی کرنے والے میاں بیوی اپنے نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کو کھیتوں میں ہی رکھنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔

لتا کے لیے، اپنی زندگی کے اس غم کے بارے میں بات کرنا بہت مشکل ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’’میرا کام کرنے کا بالکل بھی من نہیں کرتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ کچھ نہ کروں اور خاموش بیٹھی رہوں۔‘‘ کام میں من نہیں لگنے کی وجہ سے ان سے اکثر غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ’’کئی بار تو میں دودھ یا سبزی چولہے پر رکھ کر بھول جاتی ہوں۔ یہاں تک کہ جب ان میں اُبال آنے لگتا ہے یا وہ جلنے لگتے ہیں، تب بھی مجھے ان کا پتہ نہیں چلتا ہے۔‘‘

اپنی بیٹی کو کھو دینے کے بعد بھی لتا اور رمیش، گنّے کی کٹائی کے موسم میں مہاجر مزدور کے طور پر مہاجرت کرنے سے خود کو نہیں روک سکے۔

لتا نے بعد میں تین بیٹیوں کو جنم دیا تھا – انجلی، نکیتا، اور روہنی۔ اور وہ اب بھی بچوں کو اپنے ساتھ کھیت لے جاتی ہیں۔ لتا کی آواز میں مایوسی ہے۔ ’’اگر میں کام نہیں کروں گی، تو بھوک سے بچوں کی جان چلی جائے گی۔ اگر ہم انہیں ساتھ لے جاتے ہیں، تو حادثہ کا ڈر بنا رہتا ہے۔ کسی بھی حال میں ہماری حالت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

وبائی مرض کے سبب اسکول بند ہونے اور اسمارٹ فون دستیاب نہ ہونے کے سبب آن لائن کلاسز کی دقتوں کے مدنظر ان کی بیٹیوں کو اپنی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑ دینے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ سال ۲۰۲۰ میں انجلی کی شادی ہو گئی تھی، اور نکیتا اور روہنی کے لیے لائق لڑکوں کی تلاش جاری ہے۔

PHOTO • Jyoti Shinoli
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: اپنی بیٹیوں، نکیتا اور روہنی کے ساتھ لتا۔ دائیں: باورچی خانہ میں کام کرتی ہوئی نکیتا۔ وہ کہتی ہے، ’میں پڑھنا چاہتی ہوں، لیکن اب پڑھ نہیں پاؤں گی‘

نکیتا کہتی ہے، ’’میں نے ساتویں کلاس تک پڑھائی کی ہے۔‘‘ وہ مارچ ۲۰۲۰ سے زرعی مزدور کے طور پر کام کرنے لگی ہے اور اپنے ماں باپ کے ساتھ گنّے کی کٹائی کرنے بھی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں پڑھنا چاہتی ہوں، لیکن اب پڑھ نہیں سکوں گی۔ میرے والدین میری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘‘

نیلم گورہے کی صدارت والی کمیٹی کی سفارشوں کے تین سال بعد بھی ان کے نفاذ کا عمل بہت ہی دھیما ہے۔ شیلا اور لتا کا معاملہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ گنّے کی کٹائی کرنے والے مزدوروں کے لیے پینے کا صاف پانی، بیت الخلاء، اور عارضی مکان دستیاب کرانے سے متعلق ہدایت صرف کاغذی خانہ پری ہے۔

شیلا تلخی سے ان اعلانات پر شک و شبہ کا اظہار کرتی ہیں، ’’کیسا بیت الخلاء اور کیسا گھر۔‘‘ انہیں شک ہے کہ ان کے حالات کبھی بدلیں گے بھی۔ ’’سب کچھ ویسا ہی ہے۔‘‘

کمیٹی کی دوسری سفارش آشا کارکنوں اور آنگ واڑی کارکنوں کے گروپ سے متعلق تھی، تاکہ خواتین گنّا مزدوروں کو طبی مسائل کے بارے میں بیدار کیا جا سکے اور ان سے بنیادی سطح پر نمٹا جا سکے۔

PHOTO • Jyoti Shinoli

کاٹھوڈا گاؤں میں لتا کے گھر کے اندر

مزدوری میں کٹوتی کا ڈر، مزدوروں کے ٹھیکہ داروں کی استحصال پر مبنی پالیسیوں، اور پیسوں کے لالچی پرائیویٹ سرجن کے جال میں پھنسی بیڈ ضلع کی خواتین گنّا مزدوروں کے پاس دوسروں سے شیئر کرنے کے لیے بس یہی کہانی ہے

یہ پوچھنے پر کہ کیا آشا کارکن کبھی ان کے پاس آتی ہیں، لتا جواب دیتی ہیں، ’’کوئی نہیں آتا ہے۔ کبھی نہیں۔ دیوالی کے بعد سے ہمیں گنّے کے کھیتوں میں آئے چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں میں تالے لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک نیو بدھسٹ فیملی ہونے کے ناطے وہ کاٹھوڈا کے مضافات میں آباد ۲۰ گھروں والے ایک دلت ٹولے میں رہتے ہیں اور ان کے ساتھ گاؤں والے اچھوت جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کوئی ہماری کھوج خبر لینے نہیں آتا ہے۔‘‘

تانگڑے، جو بیڈ کے ایک سماجی کارکن ہیں، کے مطابق کم عمری کی شادی کے مسئلہ اور گاؤں کے ابتدائی طبی مراکز میں تربیت یافتہ خواتین کے امراض کے ماہرین کی کمی جیسے مسائل کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’پھر خشک سالی کا بحران ہے، اور روزگار کے مواقع کی بھی بھاری قلت ہے۔ گنّا مزدوروں کا مسئلہ صرف ان کی مہاجرت تک ہی محدود نہیں ہے۔‘‘

بہرحال، شیلا، لتا اور ہزاروں دوسری خواتین ہر سال کی طرح اس موسم میں بھی گنّے کی کٹائی میں لگی ہیں۔ وہ پہلے کی طرح ہی پھٹے ہوئے خیموں میں رہتی ہیں – اپنے اپنے گھروں سے سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر دور، اور اب بھی صفائی اور سہولیات کی کمی کے سبب کپڑوں کے بنے پیڈ استعمال کرتی ہیں۔

شیلا کہتی ہیں، ’’اب بھی اپنی زندگی کے کئی برس کاٹنے باقی ہیں۔ میں نہیں جانتی، میں کیسے زندہ رہوں گی۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique