سوہن سنگھ ٹیٹا ایک ایسے انسان ہیں جو لوگوں کی جان بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، چاہے وہ زمین پر ہو یا پانی میں۔ بھولے چک گاؤں اور اس کے آس پاس کی سڑکوں پر، اپنی موٹر بائک پر سوار وہ اکثر کسی بھگوان جیسی شبیہ کی طرح دھوئیں یا گرد و غبار کے بادل سے باہر آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سبزیاں بیچنے کا کام کرتے ہیں، لیکن اس پورے علاقے میں وہ ایک ماہر غوطہ خور کے طور پر مشہور ہیں۔ پنجاب کے گرداس پور ضلع سے تعلق رکھنے والے سوہن، اکثر اپنے گاؤں کے قریب سے بہنے والی نہروں میں غوطہ لگا کر لوگوں کو بحفاظت باہر نکالتے ہیں۔

گزشتہ ۲۰ سالوں سے اس کام کو انجام دے رہے ۴۲ سالہ سوہن کہتے ہیں، ’’لوگوں کو ڈوبنے سے بچانا میرا کام نہیں ہے۔ پھر بھی، میں یہ کام کرتا ہوں۔‘‘ ان سالوں میں انہوں نے پانی سے بے شمار لاشیں باہر نکالی ہیں، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوہن کہتے ہیں، ’’آپ سوچتے ہیں کہ ’پانی تو زندگی ہے‘۔ لیکن میں نے ایک ہزار بار دیکھا ہے کہ یہ تو موت ہے۔‘‘

گرداس پور اور اس کے پڑوسی ضلع پٹھان کوٹ میں جب بھی کوئی آدمی نہر میں گرتا ہے، یا کسی کی لاش پانی سے نکالنی ہوتی ہے، تو سب سے پہلے سوہن کو ہی بلایا جاتا ہے۔ سوہن بتاتے ہیں کہ جب بھی ایسی کوئی کال آتی ہے تو وہ یہ جاننے کا انتظار نہیں کرتے کہ وہ آدمی حادثاتی طور پر وہاں پہنچا تھا یا خودکشی کرنے گیا تھا، بلکہ ’’مجھے جیسے ہی یہ خبر ملتی ہے کہ کوئی آدمی پانی میں گر گیا ہے، تو میں فوراً اس میں کود جاتا ہوں۔‘‘ لیکن اگر وہ آدمی مردہ حالت میں ملا تو، ’’میں چاہتا ہوں کہ اس کے رشتہ دار آخری بار اس کا چہرہ دیکھ سکیں۔‘‘ سوہن کی باتوں سے ہزاروں زندگیوں کے ضائع ہونے کا صدمہ صاف طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔

سوہن ہر مہینے ان نہروں سے کم از کم ۳-۲ لاشیں نکالتے ہیں۔ وہ اپنے تجربات کو فلسفیانہ انداز میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں، ’’زندگی ایک طوفان کی مانند ہے۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کا آغاز و اختتام بیک وقت ہوتا ہے۔‘‘

PHOTO • Amir Malik

سوہن سنگھ ٹیٹا سبزیوں کا ٹھیلہ اپنی موٹربائک سے کھینچتے ہیں اور گرداس پور ضلع کے بھولے چک گاؤں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جا کر ان سبزیوں کو بیچتے ہیں

بھولے چک میں بہنے والی نہر دراصل اُس اپر بڑی دوآب نہر (یو بی ڈی سی) سے جڑی ۲۴۷ نہروں کے ایک نیٹ ورک کا حصہ ہے، جن کے ذریعے دریائے راوی کا پانی گرداس پور اور پٹھان کوٹ سمیت پنجاب کے کئی ضلعوں میں پہنچتا ہے۔ راوی اور بیاس ندیوں کے درمیان میں پڑنے والے بڑی دوآب خطہ (دو ندیوں کے درمیان میں پڑنے والی زمین کو ’دوآب‘ کہتے ہیں) میں پانی پہنچانے کا کام کرنے والی نہروں کے اس نظام کی تاریخی طور پر کافی اہمیت ہے۔

آج یہاں پر جو نہر دکھائی دے رہی ہے، اسے سب سے پہلے مغل حکمراں شاہجہاں نے ۱۷ویں صدی میں بنوایا تھا۔ بعد میں، مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں اسے کئی اور علاقوں تک پھیلایا گیا، اور پھر ۱۹ویں صدی میں برطانوی دور حکومت میں اس نہر کو سینچائی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ آج، یو بی سی ڈی دوآب کے متعدد ضلعوں سے ہوکر گزرتی ہے، اور ۷۳ء۵ لاکھ ہیکٹیئر زمین کی سینچائی کر سکتی ہے۔

بھولے چک کے لوگ اسے ’بڑی نہر‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سوہن چونکہ اسی کے قریب رہتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کا اس نہر کے آس پاس وقت گزارنا ایک فطری بات ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اپنے دوستوں کے ساتھ نہر میں تیرتا تھا۔ اس وقت ہم بچے تھے، اور ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ یہ نہریں اور پانی کا تیز بہاؤ کتنا جان لیوا ہو سکتا ہے۔‘‘

پہلی بار وہ سال ۲۰۰۲ میں کسی کی لاش ڈھونڈنے کے لیے نہر میں اترے تھے۔ کوئی آدمی نہر میں ڈوب گیا تھا، لہٰذا گاؤں کے سرپنچ نے سوہن سے اس کی لاش ڈھونڈنے کے لیے کہا تھا۔ سوہن بتاتے ہیں، ’’میں نے وہ لاش ڈھونڈی اور اسے پانی سے نکال کر نہر کے کنارے لے آیا۔ یہ ایک لڑکا تھا۔ میں نے اس کی لاش کو جیسے ہی اپنے ہاتھوں میں اٹھایا، پانی کے ساتھ میرا رشتہ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گیا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ پانی بہت زیادہ بھاری ہے اور اس کی وجہ سے میرا دل میں بھاری ہو گیا۔ اُس دن مجھے سمجھ میں آیا کہ چاہے وہ ندی ہو، نہر ہو، سمندر یا کوئی اور آبی ذخیرہ، یہ ہم سے قربانی مانگتا ہے۔ وہ ہماری زندگی مانگتا ہے۔‘‘ پھر سوہن سوال کرتے ہیں، ’’کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا؟‘‘

بٹالا، مکیریاں، پٹھان کوٹ اور تِبّڑی، یہ سبھی ان کے گاؤں سے ۵۰ کلومیٹر کے دائرے میں پڑتے ہیں، اور وہاں کے لوگوں کو جب بھی ضرورت پڑتی ہے، وہ مدد حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے سوہن کے پاس آتے ہیں۔ زیادہ دور سے بلائے جانے پر، سوہن کو کسی اور کی موٹر سائیکل سے وہاں لے جایا جاتا ہے۔ لیکن، حادثہ اگر کہیں آس پاس ہوا ہو، تو وہ خود اپنی سبزیوں کے ٹھیلے والی موٹر بائک پر سوار ہو کر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں۔

PHOTO • Amir Malik
PHOTO • Amir Malik

بائیں: سبزیاں بیچنا سوہن کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ دائیں: بھولے چک سے تقریباً دو کلومیٹر دور، تبڑی کی اپر بڑی دوآب نہر

سوہن بتاتے ہیں کہ کسی ڈوبتے ہوئے آدمی کی جان بچانے یا پانی سے لاش نکالنے پر ان کے رشتہ دار بعض دفعہ ۵۰۰۰ سے ۷۰۰۰ روپے تک کی پیشکش کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ پیسے لینا پسند نہیں کرتے۔ وہ سبزیاں بیچ کر ایک دن میں جو ۴۰۰-۲۰۰ روپے کماتے ہیں، یہی ان کی واحد آمدنی ہے۔ ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ آٹھ سال پہلے بیوی سے ان کا طلاق ہو گیا تھا، جس کے بعد وہ اپنی ۱۳ سال کی ایک بیٹی، اور ۶۲ سال کی اپنی ماں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

سوہن کہتے ہیں کہ کئی بار کسی غیر متوقع سمت سے بھی خطرہ سامنے آ جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ تین سال پہلے جب انہوں نے تبڑی میں (جو کہ بھولے چک سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے) ایک عورت کو نہر میں کودتے ہوئے دیکھا، تو اسے بچانے کے لیے وہ بھی نہر میں فوراً کود پڑے۔ سوہن بتاتے ہیں، ’’اس کی عمر ۴۰ سال سے زیادہ تھی۔ وہ مجھے خود کو بچانے نہیں دے رہی تھی۔ اس نے مجھے پکڑ کر نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔‘‘ کسی کی زندگی بچانے کی اُس ۲۰-۱۵ منٹ کی جدوجہد کے دوران، سوہن نے اس عورت کے بال پکڑ لیے اور اس طرح اسے پانی سے باہر نکالا۔ ’’باہر آنے کے بعد، وہ بیہوش ہو گئی تھی۔‘‘

سوہن کی مہارت یہ ہے کہ وہ پانی کے اندر دیر تک اپنی سانسیں روک کر رکھ سکتے ہیں۔ ’’بیس سے تیس سال کی عمر میں، پانی کے اندر میں اپنی سانسیں چار منٹ سے زیادہ وقت تک روک سکتا تھا۔ اب یہ کم ہو کر صرف تین منٹ رہ گیا ہے۔‘‘ لیکن وہ آکسیجن سیلنڈر کا استعمال نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کہاں سے لاؤں؟ وہ بھی، ایمرجنسی کی حالت میں۔‘‘

ضلع کرائم ریکارڈ بیورو کے انچارج، اسسٹنٹ سب انسپکٹر راجندر کمار بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۲۰ میں پولیس نے گرداس پور کی اپر بڑی دوآب نہر سے چار لاشیں نکالنے میں غوطہ خوروں کی مدد لی تھی۔ اس کے بعد، ۲۰۲۱ میں غوطہ خوروں نے پانچ لاشوں کو پانی سے باہر نکالنے میں پولیس کی مدد کی۔ ان معاملوں میں، کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) کی دفعہ ۱۷۴ کے تحت ایک کیس درج کیا گیا تھا۔ اس سے پولیس کو اس بات کی تفتیش کرنے میں مدد ملی کہ آیا موت کی وجہ قتل یا خودکشی تھی، یا حادثاتی موت ہوئی تھی، یا مشکوت حالات میں تو موت نہیں ہوئی تھی۔

سب انسپکٹر راجندر کمار کہتے ہیں، ’’لوگ خودکشی کرنے کے لیے ندیوں یا نہروں میں کود جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں تیرنا نہیں آتا، لیکن نہانے کے لیے وہ پانی میں اتر جاتے ہیں اور اس طرح اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ بعض دفعہ، پھسل کر گرنے سے وہ پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جو یہ بتاتا ہو کہ ماضی قریب میں کسی کو پانی میں ڈؑبو کر مارا گیا ہے۔‘‘

PHOTO • Amir Malik

ہندی کے ایک اخبار میں سوہن سنگھ ٹیٹا کا ایک پروفائل۔ وہ بتاتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے کام کے بارے میں اچھی طرح معلوم ہے، باوجود اس کے سرکار نے ابھی تک غوطہ خوروں کو کوئی بھی مدد فراہم نہیں کی ہے

سال ۲۰۲۰ میں پولیس نے گرداس پور کی اپر بڑی دوآب نہر سے چار لاشیں نکالنے میں غوطہ خوروں کی مدد لی تھی

سوہن بتاتے ہیں کہ ان نہروں میں ڈوبنے سے زیادہ تر موتیں گرمیوں کے دنوں میں ہوتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’گاؤں کے لوگ شدید گرمی سے بچنے کے لیے پانی میں اترتے ہیں، اور حادثاتی طور پر ڈوب جاتے ہیں۔ لاشیں عام طور سے تیرنے لگتی ہیں، اور نہر میں انہیں تلاش کرنے میں کافی مشکل پیش آتی ہے۔ اس لیے میں پانی کے بہاؤ کی سمت میں، انہیں مختلف جگہوں پر تلاش کرتا ہوں۔ یہ ایک مشکل کام ہے، جس میں مجھے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔‘‘

خطرے کے باوجود، سوہن اس کام کو لگاتار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کسی لاش کو تلاش کرنے کے لیے جب بھی پانی میں غوطہ لگایا، تو کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹا۔ مجھے امید ہے کہ سرکار ان لوگوں کو ایک نہ ایک دن ضرور نوکری دے گی جو لوگوں کو پانی میں ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ اس سے میرے جیسے لوگوں کو کافی مدد ملے گی۔‘‘

پنجاب میں دیگر پس ماندہ طبقہ میں شامل لبانا سکھّ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سوہن مزید بتاتے ہیں، ’’میرے گاؤں میں ایک درجن سے زیادہ غوطہ خور ہیں۔‘‘ پھر وہ غصے سے کہتے ہیں، ’’پیسہ دنیا تو دور کی بات ہے، حکومت کی نظر میں یہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔‘‘

لاش کا پتہ لگانے میں جب زیادہ دقتیں پیش آتی ہیں، تو سوہن کے ساتھ کم از کم چار سے پانچ غوطہ خور پانی میں کودتے ہیں۔ انہی میں سے ایک، ۲۳ سالہ گگن دیپ سنگھ ہیں۔ ان کا تعلق بھی لبانا سکھ کمیونٹی سے ہے۔ لاش کو باہر نکالنے کے لیے وہ سوہن کے ساتھ پہلی بار ۲۰۱۹ میں نہر میں کودے تھے۔ اس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’لاش کو باہر نکالنے کے لیے جب میں پہلی بار پانی میں داخل ہوا، تو مجھے بہت ڈر لگا تھا۔ اپنے اس خوف پر قابو پانے کے لیے میں نے ’واہے گرو‘ (دعائیہ کلمہ) کا نام لیا۔‘‘

PHOTO • Amir Malik
PHOTO • Amir Malik

بائیں: سوہن گزشتہ ۲۰ سالوں سے گرداس پور اور پٹھان کوٹ کی نہروں میں غوطہ خوری کر رہے ہیں۔ دائیں: گگن دیپ سنھ نے اس کام میں ۲۰۱۹ سے سوہن کی مدد کرنی شروع کی تھی

ایک ۱۰ سال کے لڑکے کی لاش کو پانی میں ڈھونڈنا میرے لیے بہت زیادہ ڈرا دینے والا کام تھا۔ گگن دیپ بتاتے ہیں، ’’وہ گھوٹ پوکھر کا رہنے والا تھا، جو پاس ہی کا ایک گاؤں ہے۔ اس کی ماں نے اسے ’پب جی‘ کھیلتے ہوئے دیکھ لیا تھا، جس کے بعد اسے کافی ڈانٹ پڑی اور پڑھائی نہ کرنے پر ماں نے اسے تھپڑ بھی مار دیے۔ اسی سے ناراض ہو کر وہ غازی کوٹ گیا اور نہر میں کود گیا۔‘‘

اس دن دو اور غوطہ خور گگن دیپ کے ساتھ تھے۔ ان میں سے ایک دھاری وال گاؤں سے آیا تھا، جو کہ بھولے چک سے تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور ہے، اور اپنے ساتھ ایک آکسیجن سیلنڈر بھی لایا تھا۔ ’’اس نے سیلنڈر مجھے دے دیا، جسے لے کر میں پانی میں اترا تھا۔ میں تقریباً دو گھنٹے تک پانی کے اندر رہا۔ پھر، دن بھر تلاش کرنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ لاش سڑ چکی ہے اور پل کے نیچے پھنسی ہوئی ہے…وہ ایک خوبصورت لڑکا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ اور دو بہنوں کو پیچھے چھوڑ گیا تھا۔‘‘ اس سے پہلے گگن دیپ بھی آن لائن گیم کھیلا کرتے تھے، لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے اسے کھیلنا چھوڑ دیا۔ ’’میرے فون پر ’پب جی‘ موجود ہے، لیکن اب میں اسے نہیں کھیلتا ہوں۔‘‘

گگن دیپ، نہروں سے ابھی تک تین لاشیں نکال چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس کے لیے میں کوئی پیسہ نہیں لیتا۔ اگر وہ دیتے بھی ہیں، تو میں لینے سے منع کر دیتا ہوں۔‘‘ وہ آرمی میں جانا چاہتے ہیں اور اپنے ماں باپ کے ساتھ دو کمرے کے ایک گھر میں رہتے ہیں۔ گگن دیپ گیس تقسیم کرنے والی ایک مقامی ایجنسی میں کام کرتے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں سیلنڈر پہنچانے کا کام کرتے ہوئے ہر مہینہ ۶۰۰۰ روپے کماتے ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ گندم اور گھاس اگاتے ہیں، اور کچھ بکریاں پالتے ہیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ کے ہو چکے ان کے والد کے پاس ایک آٹو رکشہ ہے، جسے کبھی کبھی گگن دیپ بھی چلاتے ہیں۔

نہروں میں کچرا زیادہ جمع ہونے کی وجہ سے غوطہ خوروں کو کافی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اور لاشوں کو تلاش کرنے میں انہیں اکثر کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

سال ۲۰۲۰ میں، ایک بار جب دھاری وال گاؤں کی نہر کو پار کرتے وقت ۱۹ سال کا ایک لڑکا اس میں ڈوب گیا تھا، تب پولیس نے اس کی لاش ڈھونڈ کر نکالنے کے لیے گگن دیپ کو بلایا تھا۔ ’’ڈوبنے کے کئی گھنٹے بعد میں وہاں پہنچا،‘‘ گگن دیپ یاد کرتے ہیں۔ ’’میں نے اسے صبح میں ۱۰ بجے تلاش کرنا شروع کیا، لیکن شام کے ۴ بجے تک تلاش نہیں کر سکا۔‘‘ گگن دیپ کو نہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیوار سے ایک رسی باندھنی پڑی، پھر انہوں نے تین لوگوں کی ایک انسانی زنجیر بنائی۔ اس کے بعد سبھی لوگ ایک ساتھ پانی میں کودے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’لڑکے کی لاش کو ڈھونڈنے میں کافی پریشانی ہو رہی تھی، کیوں کہ پانی میں کافی کچرا بھرا ہوا تھا۔ ایک بڑا پتھر لاش کو آگے بڑھنے سے روک رہا تھا۔‘‘

PHOTO • Amir Malik

تبڑی میں گگن دیپ پل کے اوپر کھڑے ہو کر نہر کو دیکھ رہے ہیں۔ ’کئی بار میں خود سے پوچھتا ہوں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں…لیکن اسے چھوڑنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا‘

اس کام سے انہوں نے طبیعیات (فزکس) کے اصول بھی سیکھے ہیں۔ سال ۲۰۲۱ میں تبڑی کی نہر سے ۱۶ سال کے ایک لڑکے کی لاش کو نکالنے کے اپنے تجربے کو یاد کرتے ہوئے گگن دیپ کہتے ہیں، ’’لاش کو پانی کی سطح پر آنے میں کم از کم ۷۲ گھنٹے لگتے ہیں۔ اور پھر وہ آگے کی طرف تیرنے لگتی ہے۔ اگر کسی نے نقطہ ’اے‘ پر پانی میں چھلانگ لگائی ہے، تو وہ اسی جگہ پر نہیں ملے گا۔ میں نے اس لڑکے کی لاش پہلے اسی جگہ پر تلاش کرنی شروع کی، جہاں اس نے چھلانگ لگائی تھی۔ لیکن، وہ وہاں پر نہیں ملا۔ پھر، میں نے اپنی ناک میں ایک ٹیوب لگایا اور اسے ایک پائپ سے جوڑ دیا، تاکہ پانی کے اندر رہنے کے دوران میری سانس نہ رک جائے۔‘‘

اُس دن، لاش کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے شام ہو گئی۔ گگن دیپ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’وہ نہر کے دوسری طرف تھی، تقریباً ۲۵ فٹ گہرے پانی میں۔ سوہن اور میں، دونوں ہی اسے تلاش کر رہے تھے۔ ہم نے جب اسے ڈھونڈ لیا، تو سوہن نے کہا کہ ہم اگلے دن آکر اسے پانی سے باہر نکالیں گے۔ لیکن اگلے دن جب ہم وہاں پہنچے، تو وہ لاش اس جگہ سے غائب ہو چکی تھی۔ وہ دوسرے کنارے کی طرف چلی گئی تھی اور نہر کی نچلی سطح پر جا کر پڑی ہوئی تھی۔‘‘ اسے باہر نکالنے میں غوطہ خوروں کو تین گھنٹے لگ گئے۔ گگن دیپ کہتے ہیں، ’’ہم نے اس دن کم از کم ۲۰۰ بار پانی کے اندر غوطہ لگایا ہوگا۔ کئی بار میں خود سے پوچھتا ہوں کہ میں یہ کیا کر رہا ہوں…لیکن اسے چھوڑنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتا۔ اگر میری قسمت میں انسانوں کی سیوا [خدمت] کرنا لکھا ہے، تو میں اسے مٹا نہیں سکتا۔‘‘

لیکن، سوہن پانی میں زندگی کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہیں۔ اسی لیے ہر شام کو، اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے، وہ تبڑی کے پل پر جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’تیرنے میں اب مجھے مزہ نہیں آتا ہے۔ میں ہر [المناک] واقعہ کی یاد کو اپنے دل سے مٹا دیتا ہوں۔ ہم جب بھی کسی کی لاش کو پانی سے باہر نکالتے ہیں، تو اس آدمی کے رشتہ دار کو تھوڑا بہت مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ روتے ہیں اور اس پشیمانی کے ساتھ لاش کو لے جاتے ہیں کہ – ایسی موت نہیں ہونی چاہیے تھی۔‘‘

سوہن کی نفسیات میں نہر اور اس کے پانی کا ایک اہم مقام ہے۔ سال ۲۰۰۴ میں، جب انہیں مراکش میں رہنے اور وہاں کام کرنے کا موقع ملا تھا، تو شمالی افریقہ کے اس ملک کی سرحد پر واقع بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم انہیں اپنے گاؤں کی جانی پہچانی نہر کی یاد اکثر دلایا کرتے تھے۔ وہاں پر چھوٹے موٹے کام کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے وہ چار سال کے اندر ہی اپنے ملک واپس لوٹ آئے۔ اپنے دن کے کام کی شروعات کرنے سے پہلے وہ کہتے ہیں، ’’جب میں وہاں تھا، تو مجھے تبڑی کی بہت یاد آتی تھی۔ آج بھی، میں خالی وقت نہر کے پاس ہی گزارتا ہوں، بس اسے دیکھتا رہتا ہوں۔‘‘ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد وہ آلو، پیاز، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں سے بھرے ہوئے ٹھیلہ سے جڑی موٹر بائک کو لے کر اگلی گلی میں موجود اپنے گاہکوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

مضمون نگار اس اسٹوری میں مدد کرنے کے لیے سومیدھا متل کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اگر آپ کے ذہن میں خودکشی کا خیال آ رہا ہو یا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو ذہنی دباؤ کا شکار ہے، تو قومی ہیلپ لائن، کرن، کے 0019-599-1800 (چوبیسوں گھنٹے ٹال فری) پر کال کریں، یا اپنے آس پاس کے ان میں سے کسی بھی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔ دماغی صحت سے وابستہ پیشہ وران اور خدمات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے، براہ کرم ایس پی آئی ایف کی مینٹل ہیلتھ ڈائریکٹری ملاحظہ کریں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Editor : S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique