’’[کسانوں کی] تحریک نے مجھے سامنے آ کر اپنی لڑائی خود سے لڑنا سکھایا۔ اس نے ہمیں عزت بخشی۔‘‘ لفظ ’ہمیں‘ سے راجندر کور کی مراد اپنے جیسی اُن عورتوں سے ہے، جنہوں نے ستمبر ۲۰۲۰ میں پاس کیے گئے زرعی قوانین کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ پنجاب کے پٹیالہ ضلع سے تعلق رکھنے والی ۴۹ سالہ راجندر ایک کسان ہیں، جو ۲۲۰ کلومیٹر کی دوری طے کرکے کسانوں کے احتجاج کے مقام، سنگھو تک اکثر جایا کرتیں اور وہاں پر تقریریں کرتی تھیں۔

دَون کلاں گاؤں میں اُن کی پڑوسن، ۵۰ سالہ ہرجیت کور نے دہلی-ہریانہ سرحد پر واقع سنگھو کے احتجاجی مقام پر ۲۰۵ دن گزارے تھے۔ ۳۶ سال سے کاشتکاری کر رہی ہرجیت کہتی ہیں، ’’مجھے ایسا کوئی زمانہ یاد نہیں ہے، جب میں نے اناج نہ اُگایا ہو۔ اپنی ہر فصل کاٹنے کے ساتھ ہی میں بڑی ہوتی گئی۔ لیکن، یہ پہلی بار تھا جب میں نے ایسی کوئی تحریک دیکھی اور اس میں شرکت کی تھی۔ میں نے بچوں، بزرگوں اور عورتوں کو وہاں آ کر احتجاج میں شامل ہوتے دیکھا۔‘‘

مرکزی حکومت سے ان متنازع قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے، لاکھوں کسان ملک کی راجدھانی کے پاس آکر جمع ہو گئے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر کسان پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے تھے، جو نومبر ۲۰۲۰ میں وہاں پہنچ کر خیمہ زن ہوئے اور نومبر ۲۰۲۱ میں ان قوانین کے منسوخ ہونے تک وہیں ڈٹے رہے۔ کسانوں کا یہ ایک تاریخی احتجاج تھا، اور عصر حاضر کی عوامی تحریکوں میں سے یہ ایک سب سے بڑی تحریک بھی تھی۔

پنجاب کی عورتیں اس تحریک (آندولن) میں سب سے آگے تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُس وقت انہیں جس قسم کی یکجہتی کا تجربہ ہوا، وہ آج بھی قائم ہے۔ اس کے علاوہ، تحریک میں شرکت کرنے کی وجہ سے انہیں جو ہمت ملی اور آزادی حاصل ہوئی، وہ اور بھی مضبوط ہوئی ہے۔ منسا ضلع سے تعلق رکھنے والی، ۵۸ سالہ کلدیپ کور کہتی ہیں، ’’وہاں [احتجاجی مظاہرے میں] جانے پر مجھے گھر کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ اب یہاں واپس آنے کے بعد، مجھے اُس تحریک کی بہت یاد آتی ہے۔‘‘

بدھ لاڈا تحصیل کے رالی گاؤں میں واقع اپنے گھر پر انہیں مزہ نہیں آتا، اور کام کے بوجھ کی وجہ سے اکثر موڈ خراب رہتا ہے۔ کلدیپ کہتی ہیں، ’’یہاں مجھے ایک کے بعد ایک، کوئی نہ کوئی کام کرتے رہنا پڑتا ہے، یا گھر پر آنے والے مہمانوں کی خاطر مدارات کرنی پڑتی ہے۔ وہاں پر میں آزاد تھی۔‘‘ احتجاج کے مقامات پر وہ اجتماعی باورچی خانہ کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں وہ زندگی بھر کام کر سکتی تھیں۔ ’’بزرگوں کو دیکھ کر مجھے یہی لگتا تھا کہ میں اپنے والدین کے لیے کھانا پکا رہی ہوں۔‘‘

Harjeet Kaur is farming
PHOTO • Amir Malik
Kuldip Kaur mug short
PHOTO • Amir Malik
Rajinder Kaur in her house
PHOTO • Amir Malik

بائیں سے: ہرجیت کور، کلدیپ کور اور راجندر کور، جو ۲۰۲۰ میں مرکزی حکومت کے ذریعے لائے گئے زرعی قوانین کے خلاف چلائی گئی تحریک میں سب سے آگے تھیں


شروع میں، جب کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا تو کلدیپ کسانوں کی کسی بھی یونین میں شامل نہیں ہوئیں۔ لیکن سمیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) بننے کے بعد، کلدیپ نے ایک پوسٹر تیار کیا۔ اس پوسٹر پر انہوں نے اپنے ہاتھ سے یہ نعرہ لکھا، ’کسان مورچہ زندہ باد‘ اور پھر اسے لے کر سنگھو گئیں۔ احتجاج کے مقامات پر موجود عورتوں نے کیمپوں میں مختلف قسم کے مسائل کی وجہ سے اُنہیں وہاں دوبارہ آنے سے منع کیا، لیکن کلدیپ نہیں مانیں۔ ’’میں نے اُن سے کہا کہ مجھے تو آنا ہی ہے۔‘‘

جب وہ سنگھو پہنچیں، تو وہاں عورتوں کو بڑے چولہے میں روٹیاں بناتے ہوئے دیکھا۔ ’’انہوں نے دور سے مجھے بلایا اور کہا، ’اے بہن! روٹیاں بنانے میں ہماری مدد کرو‘۔‘‘ ٹیکری میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، جہاں انہیں رہنے کے لیے منسا کی ایک ٹریکٹر ٹرالی مل گئی۔ وہاں بھی چولہے کے پاس بیٹھی ایک تھکی ہوئی حیرت نے ان سے مدد کیلئے کہا۔ کلدیپ یاد کرتی ہیں، ’’میں نے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت تک روٹیاں بنائیں۔‘‘ ٹیکری سے وہ شاہجہاں پور کے کیمپ میں چلی گئیں، جو کہ ہریانہ-راجستھان سرحد پر واقع ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’وہاں کے آدمیوں نے جب مجھے کام کرتے ہوئے دیکھا، تو انہوں نے مجھ سے اپنے لیے بھی روٹیاں بنانے کو کہا۔‘‘ اور پھر ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں جہاں کہیں بھی جاتی، لوگ مجھ سے صرف اسی کام کے لیے مدد مانگتے۔ میں سوچتی کہ میری پیشانی پر تو یہ کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ میں روٹیاں بناتی ہوں!‘‘

اُدھر گاؤں میں، دوست و احباب اور پڑوسی، کسان تحریک میں کلدیپ کے اس کام سے کافی متاثر ہوئے اور ان سے درخواست کرنے لگے کہ اگلی بار جب وہ وہاں جائیں، تو انہیں بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ ’’وہ سوشل میڈیا پر ڈالی گئی تصویریں دیکھتے اور مجھ سے کہتے کہ اگلی بار وہ بھی وہاں جانا چاہتے ہیں۔‘‘ ایک سہیلی نے کہا کہ انہیں یہ فکر ستا رہی ہے کہ اگر وہ وہاں نہیں گئیں، تو اُن کے پوتا پوتی کیا کہیں گے!

کلدیپ نے اپنی زندگی میں پہلے نہ تو کبھی کوئی ٹی وی سیریل دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی فلم، لیکن احتجاج کے مقامات سے گھر لوٹنے کے بعد وہ ٹی وی پر خبر دیکھنے لگیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’یا تو میں خود ہی وہاں موجود رہتی یا اس کے بارے میں خبر دیکھتی تھی۔‘‘ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے وہ کافی تناؤ میں رہنے لگیں۔ بے چینی دور کرنے کے لیے انہیں دوائیں لینی پڑیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سر گھومنے لگتا تھا۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کہا کہ خبریں دیکھنا بند کر دو۔‘‘

کلدیپ خود کو ہمت ور نہیں سمجھتی تھیں، لیکن کسانوں کی اس تحریک نے انہیں ہمت عطا کی۔ کار یا ٹریکٹر ٹرالی سے سفر کرنے پر پہلے انہیں ڈر لگتا تھا، لیکن اب یہ ڈر بھی چلا گیا۔ انہوں نے سینکڑوں کلومیٹر طے کرکے، دہلی کا کئی بار سفر کیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’بہت سے کسانوں کی حادثے میں موت ہو رہی تھی۔ اور مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر میں بھی ایسے ہی کسی حادثہ کی زد میں آ کر مر گئی، تو اپنی فتح نہیں دیکھ پاؤں گی۔‘‘

Kuldip at the protest site in Shahjahanpur
PHOTO • Courtesy: Kuldip Kaur
Kuldip in a protest near home
PHOTO • Courtesy: Kuldip Kaur
Kuldip making rotis during protest march
PHOTO • Courtesy: Kuldip Kaur

بائیں اور درمیان میں: کلدیپ، شاہجہاں پور کے احتجاجی مقام پر؛ گھر کے قریب ایک احتجاجی مظاہرہ میں (درمیان میں)، جہاں پس منظر میں دکھائی دے رہے ایک پوسٹر میں اُس نوجوان آدمی کی تصویر ہے، جس کی موت پہلے کی ایک میٹنگ کے دوران ہوئے حادثہ میں ہو گئی تھی۔ دائیں: کلدیپ (کیمرے کی جانب منہ کرکے بیٹھی ہوئیں)، شاہجہاں پور کے اجتماعی باورچی خانہ میں روٹیاں بنا رہی ہیں

گھر واپس لوٹنے کے بعد، کلدیپ اپنے ہوم ٹاؤن میں چل رہے احتجاجی مظاہرے میں شامل ہو گئیں۔ وہ ایک جلسہ کو یاد کرتی ہیں، جب احتجاج میں باقاعدگی سے شرکت کرنے والا ایک نو عمر لڑکا، جو اُن کے بغل میں کھڑا تھا، ایک تیز رفتار گاڑی کے نیچے آ جانے کی وجہ سے مر گیا۔ اس حادثہ کی وجہ سے اس کے بغل میں کھڑے ایک دوسرے آدمی کی بھی موت ہو گئی تھی، جب کہ تیسرا آدمی زندگی بھر کے لیے معذور ہو گیا۔ کلدیپ، جنہیں اس تحریک میں اپنی جان کی قربانی دینے والے ۷۰۰ سے زیادہ احتجاجی کسانوں کی موت کا بھی غم ہے، کہتی ہیں، ’’میں اور میرے شوہر مرنے سے بال بال بچے تھے۔ اس کے بعد، میرے اندر سے حادثہ کے دوران موت ہو جانے کا ڈر ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ جس دن ان قوانین کو ردّ کیا گیا تھا، اس دن مجھے اپنے بغل میں کھڑے اُس لڑکے کی بہت یاد آئی اور میں رونے لگی تھی۔‘‘

کسانوں کی تحریک میں پورے جوش و خروش سے جڑنے اور ضروری تعاون فراہم کرنے کے باوجود – جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کو ان متنازع قوانین کو ردّ کرنا پڑا تھا – پنجاب کی عورتوں کو لگتا ہے کہ سیاسی فیصلہ سازی کے عمل میں انہیں حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے۔ اس کا ثبوت، بقول اُن کے، یہ ہے کہ ۲۰ فروری ۲۰۲۲ کو ہونے والے قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں سیاسی پارٹیوں نے بہت کم عورتوں کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔

پنجاب میں ووٹروں کی کل تعداد ۲ کروڑ ۱۴ لاکھ ہے، جن میں سے تقریباً نصف عورتیں ہیں۔ لیکن ۱۱۷ اسمبلی حلقوں میں ہونے والے انتخابات میں صرف ۹۳ عورتوں کو کھڑا کیا گیا تھا – عورتوں کی یہ تعداد انتخاب لڑنے والے کل ۱۳۰۴ امیدواروں کا صرف ۷ اعشاریہ ۱۳ فیصد ہے۔

پنجاب کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی، شرومنی اکالی دل نے صرف ۵ خواتین کو الیکشن میں کھڑا کیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے ۱۱ خواتین کو ٹکٹ دیا تھا۔ کانگریس کا اتر پردیش میں ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ کا نعرہ پنجاب میں کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی نے کانگریس سے صرف ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ۱۲ عورتوں کو ٹکٹ دیے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، شرومنی اکالی دل (سمیُکت) اور نو تشکیل پنجاب لوک کانگریس – جو قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کا حصہ ہیں – نے مجموعی طور پر ۹ خواتین امیدوار کھڑے کیے تھے (جن میں سے ۶ بی جے پی کی طرف سے تھیں)۔

*****

راجندر کور سے میری ملاقات جاڑے کے ایک سرد اور نمی والے دن ہو رہی ہے۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھی ہیں؛ ان کے پیچھے جل رہے بلب کی روشنی مدھم ہے، لیکن ان کا حوصلہ مضبوط ہے۔ میں اپنی ڈائری کھولتا ہوں، اور وہ اپنا دل۔ ان کی آنکھوں سے نکلنے والے شعلے کی تپش ان کی آواز میں جھلکتی ہے، جو خواتین کی قیادت میں ایک انقلاب کی امید بندھا رہی ہے۔ ان کے گھٹنوں کا درد بتا رہا ہے کہ انہیں اکثر آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہوگی، لیکن راجندر کہتی ہیں کہ کسانوں کی اس تحریک نے ان کے اندر ایک جوش پیدا کیا – وہ کھل کر بولنے لگیں اور لوگ ان کی باتوں پر توجہ دینے لگے۔

Rajinder in her farm
PHOTO • Amir Malik
Harjeet walking through the village fields
PHOTO • Amir Malik

بائیں: راجندر کور، دون کلاں میں واقع اپنے گھر کے باغ میں۔ دائیں: گاؤں کے کھیتوں سے گزرتی ہوئی ہرجیت۔ وہ کہتی ہیں، ’تین قوانین نے ہمیں متحد کر دیا تھا‘

راجندر کہتی ہیں، ’’اب یہ فیصلہ میں کروں گی [کہ کسے ووٹ دینا ہے]۔ پہلے، میرے سسر اور میرے شوہر مجھے بتاتے تھے کہ اِس پارٹی کو ووٹ دینا ہے یا اُس پارٹی کو۔ لیکن اب، کسی کے بھی اندر مجھ سے یہ کہنے کی ہمت نہیں ہے۔‘‘ راجندر کے والد شرومنی اکالی دَل کی حمایت کرتے تھے، لیکن شادی کے بعد جب وہ دون کلاں گاؤں آ گئیں، تو یہاں اُن کے سسر نے کانگریس پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے کہا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے ہاتھ کے پنجے [پارٹی کے نشان] کو ووٹ دیا تھا، لیکن ایسا لگا کہ کسی نے میرے سینے میں گولی مار دی ہو۔‘‘ اب، راجندر کے شوہر جب ان سے کسی پارٹی کو ووٹ دینے کیلئے کہتے ہیں، تو وہ انہیں روک دیتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’خاموش ہو جاؤ۔‘‘

انہیں سنگھو کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے ہی انہوں نے اسٹیج پر اپنی تقریر ختم کی تھی۔ پورے فخر اور خوشی کے ساتھ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’گھٹنے کو آرام دینے کے لیے میں قریب کے ایک ٹینٹ میں پہنچی ہی تھی کہ وہاں کھانا بنا رہے ایک آدمی نے پوچھا، ’کیا تم نے اُس عورت کو سنا جو کچھ دیر پہلے یہاں تقریر کر رہی تھی؟‘ ٹینٹ میں داخل ہونے والے ایک دوسرے آدمی نے مجھے پہچان لیا اور کہا، ’ارے، یہی تو تھوڑی دیر پہلے تقریر کر رہی تھیں‘۔ وہ میرا حوالہ دے رہے تھے۔‘‘

پڑوس میں رہنے والی ہرجیت کہتی ہیں، ’’ان تین قوانین نے ہمیں متحد کر دیا تھا۔‘‘ لیکن، وہ اس لڑائی کے نتیجہ سے مطمئن نہیں ہیں اور کہتی ہیں، ’’احتجاج کی وجہ سے قوانین کو بھلے ہی ردّ کر دیا گیا ہو، لیکن ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔ ایم ایس پی [کم از کم امدادی قیمت] کا مطالبہ پورا کیے بغیر [ایس کے ایم کے ذریعے] تحریک واپس لے لی گئی۔ اسے یہ یقینی بنانا چاہیے تھا کہ لکھیم پور کھیری میں مرنے والے کسانوں کو انصاف ملے۔‘‘

کلدیپ مایوسی سے کہتی ہیں، ’’تحریک کے دوران کسانوں کی تنظیمیں بھلے ہی متحد رہی ہوں، لیکن اب وہ تقسیم ہو چکی ہیں۔‘‘

پنجاب میں جاری ۲۰۲۲ کے اسمبلی انتخابات میں، اس رپورٹر نے جتنے بھی لوگوں سے بات کی اُن میں سے کوئی بھی کسی پارٹی کے حق میں کھڑا ہوا دکھائی نہیں دیا – سَنیُکت سماج مورچہ (ایس ایس ایم) کے حق میں بھی نہیں، جو سَمیُکت کسان مورچہ کا حصہ رہ چکیں کسانوں کی کچھ تنظیموں کے ذریعے دسمبر ۲۰۲۱ میں بنائی گئی ایک نئی پارٹی ہے۔ ( آزاد امیدواروں کے طور پر لڑنے والے اس پارٹی کے امیدواروں کی فہرست میں چار عورتوں کے نام شامل تھے۔) انتخابی مہم شروع ہوتے ہی، تمام پارٹیوں کے قائدین اور کیڈر نے ابھی کچھ مہینے پہلے ہی ختم ہوئی کسانوں کی تحریک میں اپنی جان گنوانے والے شہیدوں پر خاموشی اختیار کر لی۔

Jeevan Jyot, from Benra, Sangrur, says political parties showed no concern for the villages.
PHOTO • Amir Malik
Three-year-old Gurpyar and her father, Satpal Singh
PHOTO • Amir Malik

بائیں: سنگرور کے بینرا سے تعلق رکھنے والی جیون جیوت کا کہنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے گاؤوں کے بارے میں کوئی فکرمندی نہیں دکھائی ہے۔ دائیں: تین سال کی گرپیار اور اس کے والد، ستپال سنگھ

سنگرور ضلع کے بینرا گاؤں سے تعلق رکھنے والی نوجوان خاتون، جیون جیوت کہتی ہیں، ’’ایس ایس ایم اور عام آدمی پارٹی تک نے گاؤوں کے بارے میں کوئی دلچسپی یا فکرمندی نہیں دکھائی ہے۔‘‘ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’[سیاسی] پارٹیوں کے لوگوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ کون زندہ ہے اور کون مر گیا۔‘‘

۲۳ سال کی جیون جیوت ایک اسکول ٹیچر ہیں، اور اب اپنے گھر پر بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں سے ان کی ناراضگی نے اُس وقت شدت اختیار کر لی، جب ان کے پڑوس میں رہنے والی پوجا کی موت زچگی کے دوران ہو گئی تھی۔ ’’مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس بات کی ہے کہ اس فیملی کو کم از کم دلاسہ ہی دینے کے لیے نہ تو کسی پارٹی کا کوئی لیڈر آیا اور نہ ہی گاؤں کا سرپنچ۔‘‘ ایسے میں جیوت نے آگے بڑھ کر اس فیملی کی مدد کی، جہاں اس نوزائیدہ بچی اور اس کی تین سال کی بہن گُر پیار کی دیکھ بھال ان کے والد ستپال سنگھ کر رہے تھے، جن کی عمر ۳۲ سال ہے اور جو ایک دہاڑی مزدور ہیں۔

جیون جیوت سے جب میری ملاقات بینرا میں ہوئی، تو اس وقت گرپیار ان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ جیون نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ اب میں ہی اس کی ماں ہوں۔ میں اسے گود لینا چاہتی ہوں۔ مجھے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ لوگ افواہ پھیلائیں گے کہ میں یہ سب اس لیے کر رہی ہوں کیوں کہ میں خود بچے پیدا نہیں کر سکتی۔‘‘

کسانوں کی تحریک میں شامل ہونے والی خواتین نے جیون جیوت جیسی نوجوان عورتوں کو امید بندھائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے غلبہ والی دنیا عورتوں کو مختلف لڑائیوں میں جھونک دیتی ہے، اور زرعی قوانین کے خلاف ہونے والی یہ لڑائی بھی اسی کا ایک سلسلہ تھا۔

کسانوں کی اس تحریک کے دوران پنجاب سے مضبوط آواز بن کر ابھرنے والی عورتیں، ابھی خود کو نظر انداز کیے جانے سے خوش نہیں ہیں۔ ہرجیت کہتی ہیں، ’’عورتوں کو زمانۂ قدیم سے ہی گھروں میں محدود کرکے رکھا جاتا رہا ہے۔‘‘ پیچھے دھکیلے جانے اور عوامی حصہ داری سے دور کیے جانے کی وجہ سے، ان عورتوں کو اب یہ فکر ستانے لگی ہے کہ انہوں نے جو عزت کمائی تھی، وہ کہیں تاریخ کے حاشیہ میں گم نہ ہو جائے۔

نامہ نگار، اس اسٹوری کی رپورٹنگ میں مدد کرنے کے لیے مشرف اور پرگٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique