’’میرا شوہر پیر کو اتنی مقدار میں شراب کی بوتلیں خریدتا ہے،‘‘ کنکا اپنا پورا ہاتھ کھول کر بتاتی ہیں۔ ’’وہ اگلے دو تین دنوں تک اس کو پیتا ہے اور جب بوتلیں ختم ہو جاتی ہیں، تب واپس کام پر جاتا ہے۔ کھانے کے لیے کبھی بھی پورا پیسہ نہیں رہتا۔ میں خود کو اور اپنے بچے کو مشکل سے کچھ کھلا پاتی ہوں، اور میرے شوہر کو دوسرا بچہ چاہیے۔ مجھے ایسی زندگی نہیں چاہیے!‘‘ وہ مایوسی سے کہتی ہیں۔

کنکا (بدلا ہوا نام) ۲۴ سال کی بیٹا کرومبا آدیواسی ماں ہیں، جو گڈلور کے آدیواسی اسپتال میں ڈاکٹر کا انتظار کر رہی ہیں۔ گڈلور شہر کا یہ  ۵۰ بستروں والا اسپتال، اُدگ منڈلم (اوٹی) سے ۵۰ کلومیٹر دور، تمل ناڈو کے نیلگری ضلع کے گڈلور اور پنتھلور تعلقوں کے ۱۲ ہزار سے زیادہ آدیواسیوں کو خدمات فراہم کرتا ہے۔

پتلی دبلی اور بے رنگ ہو چکی سنتھیٹک ساڑی پہنے، کنکا اپنے اکلوتے بچے، ایک لڑکی، کے لیے یہاں آئی ہیں۔ پچھلے مہینے اسپتال سے ۱۳ کلومیٹر دور، ان کی اپنی بستی میں کی گئی ایک باقاعدہ جانچ کے دوران، نیلگری میں صحت سے متعلق فلاحی تنظیم (اشونی) کی ایک صحت کارکن، جو اسپتال سے جڑی ہوئی ہیں، یہ دیکھ کر فکرمند ہو گئیں کہ کنکا کی دو سال کی بچی کا وزن صرف ۷ء۲ کلوگرام ہے (دو سال کے بچے کے لیے مثالی وزن ۱۰-۱۲ کلو ہے)۔ اس وزن کی وجہ سے وہ کم غذائیت کے خطرناک درجہ میں آ گیا ہے۔ صحت کارکن نے کنکا اور ان کی بیٹی سے فورا اسپتال جانے کی اپیل کی۔

جس حد تک کنکا کو اپنی فیملی کی آمدنی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے بچے کا کم غذائیت کا شکار ہونا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ ان کا شوہر، جس کی عمر بھی تقریباً ۲۰-۳۰ سال کے درمیان ہے، ارد گرد کے چائے، کافی، کیلا اور مرچ کے باغات میں ہفتہ کے کچھ دن کام کرکے روزانہ کے تقریباً ۳۰۰ روپے کماتا ہے۔ ’’وہ کھانے پینے کے لیے مجھے مہینہ کے صرف ۵۰۰ روپے دیتا ہے،‘‘ کنکا کہتی ہیں۔ ’’ان روپیوں سے ہی مجھے پورے گھر کے لیے کھانا بنانا پڑتا ہے۔‘‘

کنکا اور ان کا شوہر اس کے چچا اور چچی کے ساتھ رہتے ہیں، دونوں تقریباً ۵۰ سال کی عمر کے یومیہ مزدور ہیں۔ دونوں کنبوں کے ملاکر ان کے پاس دو راشن کارڈ ہیں، جس کی وجہ سے ان کو ہر مہینے ۷۰ کلوگرام تک مفت چاول، دو کلو دال، دو کلو چینی اور دو لیٹر تیل رعایتی قیمتوں پر ملتے ہیں۔ ’’کبھی کبھی میرا شوہر ہمارے راشن کے چاول کو بھی شراب خریدنے کے لیے بیچ دیتا ہے،‘‘ کنکا بتاتی ہیں۔ ’’کچھ دنوں تو ہمارے یہاں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں رہتا۔‘‘

The Gudalur Adivasi Hospital in the Nilgiris district –this is where young women like Kanaka and Suma come seeking reproductive healthcare, sometimes when it's too late
PHOTO • Priti David
The Gudalur Adivasi Hospital in the Nilgiris district –this is where young women like Kanaka and Suma come seeking reproductive healthcare, sometimes when it's too late
PHOTO • Priti David

نیلگری ضلع میں گڈلور آدیواسی اسپتال – اس جگہ پر کنکا اور سوما جیسی نوجوان عورتیں افزائشی صحت کی نگرانی سے متعلق صلاح لینے آتی ہیں، کئی بار کافی دیر ہو جانے کے بعد

ریاست کے غذائیت سے متعلق پروگرام بھی کنکا اور ان کی بیٹی کی کم غذائیت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ گڈلور میں ان کی بستی کے پاس انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ اسکیم (آئی سی ڈی ایس) بالواڑی میں کنکا اور دوسری حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو ہر ہفتے ایک انڈا اور ہر مہینے دو کلو کا خشک ستھو ماوو (گیہوں، ہرے چنے، مونگ پھلی، چنا اور سویا کا دلیا) کا پیکیٹ ملتا ہے۔ تین سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی ستھو ماوو کا پیکیٹ ملتا ہے۔ تین سال کی عمر کے بعد، بچوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ناشتے، دوپہر کے کھانے اور گڑ اور مونگ پھلی کے شام کے ناشتے کے لیے آئی سی ڈی ایس مرکز جائیں۔ سنگین طور پر کم غذائیت کے شکار بچوں کو روزانہ مزید مونگ پھلی اور گڑ دیا جاتا ہے۔

جولائی ۲۰۱۹ سے حکومت نے نئی ماؤں کو امّا اٹّ چاٹھو پیٹّگم غذائی اجناس دینا شروع کیا ہے، جس میں ۲۵۰ گرام گھی اور ۲۰۰ گرام پروٹین پاؤڈر ہوتا ہے۔ لیکن اشونی میں ۳۲ سالہ کمیونٹی ہیلتھ پروگرام کی معاون، جی جی ایلمانا کہتی ہیں، ’’پیکیٹ بس ان کے گھر کی الماری میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدیواسی لوگ اپنے کھانے میں دودھ اور گھی کا استعمال نہیں کرتے، اس لیے وہ گھی چھوتے ہی نہیں ہیں۔ اور انہیں پروٹین پاؤڈر اور ہرے آیورویدک پاؤڈر کا استعمال کرنا نہیں آتا، اس لیے وہ اسے ہٹاکر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔

کسی زمانے میں نیلگری کے آدیواسی قبیلے کھانے کا سامان جمع کرنے کے لیے آسانی سے جنگل جا سکتے تھے۔ ’’آدیواسیوں کو اپنے جمع کیے گئے طرح طرح کے قند، جامن، ہرے پتے اور مش روموں کے بارے میں بہت معلومات ہیں،‘‘ ماری مارسل ٹھیکے کار بتاتی ہیں، جو ۴۰ برسوں سے گڈلور کی آدیواسی برادریوں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ’’وہ لوگ کھانے کے لیے پورے سال مچھلیاں پکڑتے ہیں یا چھوٹے جانوروں کا شکار بھی کرتے ہیں۔ بارش کے دن کے لیے زیادہ تر گھروں میں آگ کے اوپر تھوڑا گوشت سکھایا جاتا ہے۔ لیکن پھر محکمہ جنگلات نے جنگل میں ان کے داخلہ کو محدود کرنا شروع کر دیا اور پھر پوری طرح سے روک لگا دی۔‘‘

۲۰۰۶ کے حق جنگلات قانون کے تحت عوامی وسائل پر مشترکہ حقوق کی بحالی کے باوجود، آدیواسی لوگ اپنی غذا کو پورا کرنے کے لیے پہلے کی طرح جنگل سے وسائل جمع نہیں کر پا رہے ہیں۔

گاؤں میں کم ہوتی آمدنی بھی بڑھتی ہوئی کم غذائیت کا سبب ہے۔ آدیواسی مونیتر سنگم کے سکریٹری، کے ٹی سبرامنیم کہتے ہیں کہ گزشتہ ۱۵ سال سے آدیواسیوں کے لیے یومیہ مزدوری کے متبادل کم ہوئے ہیں کیوں کہ یہاں کے جنگل محفوظ شدہ مدو ملائی وائلڈ لائف  پناہ گاہ بن گئے ہیں۔ اس پناہ گاہ کے اندر آنے والے باغات اور پراپرٹی – جہاں زیادہ تر آدیواسیوں کو کام ملتا تھا – فروخت کر دیے گئے ہیں یا پھر منتقل کر دیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ چائے کے بڑے باغات یا کھیتوں میں غیر مستقل کام ڈھونڈنے کے لیے مجبور ہیں۔

Adivasi women peeling areca nuts – the uncertainty of wage labour on the farms and estates here means uncertain family incomes and rations
PHOTO • Priti David

آدیواسی عورتیں سُپاری چھیلتے ہوئے – کھیتوں اور باغات میں یومیہ مزدوری کی غیر یقینیت کا مطلب ہے کہ کنبوں کی آمدنی اور راشن کی غیر یقینی صورتحال

جہاں کنکا انتظار کر رہی ہیں، اسی گڈلور آدیواسی اسپتال (جی اے ایچ) میں ۲۶ سالہ سوما (بدلا ہوا نام) وارڈ میں آرام کر رہی ہیں۔ وہ پاس ہی کے پنتھلور تعلقہ کی پنین آدیواسی ہیں، اور انہوں نے حال ہی میں اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا ہے، جو کہ ان کی پہلے کی دو اور ۱۱ سال کی بیٹیوں کی طرح ہی ایک لڑکی ہے۔ سوما نے اس اسپتال میں جنم نہیں دیا تھا، لیکن زچگی کی دیکھ بھال اور نس بندی کرانے کے لیے یہاں آئی ہیں۔

’’میرا حمل زچگی کی مقررہ تاریخ سے اوپر کا ہو گیا تھا، لیکن روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس اسپتال میں زچگی نہیں کروا پائے،‘‘ وہ اپنی بستی سے یہاں تک آنے کے خرچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، جس کی دوری جیپ سے ایک گھنٹہ کی ہے۔ ’’گیتا چیچی [اشونی کی صحت کارکن] نے ہمیں آنے جانے اور کھانے کے لیے ۵۰۰ روپے دیے، لیکن میرے شوہر نے سارا پیسہ شراب پر خرچ کر دیا۔ اس لیے میں گھر پر ہی رہی۔ تین دن بعد، درد اور بھی بڑھ گیا اور ہمیں نکلنا پڑا، لیکن اسپتال جانے کے لیے بہت دیر ہو گئی تھی اس لیے گھر کے پاس والے ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) میں زچگی ہوئی۔‘‘ اگلے دن ابتدائی طبی مرکز کی نرس نے ۱۰۸ نمبر (ایمبولینس سروِس) پر فون کیا اور سوما اور اس کی فیملی آخرکار جی اے ایچ کے لیے نکل گئی۔

چار سال پہلے سوما کا انٹرا یوٹیرائن گروتھ ریسٹرِکشن (آئی یو جی آر) کی وجہ سے ساتویں مہینے میں اسقاط ہو گیا تھا، اس حالت میں حمل اپنی حمل ٹھہرنے کی عمر سے چھوٹا یا کم بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ اکثر یہ حالت ماں میں ہونے والی کم غذائیت، خون اور فولیٹ کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ سوما کا اگلا حمل بھی آئی یو جی آر سے متاثر ہوا اور ان کا دوسرا بچہ، لڑکی، کا وزن پیدائش کے وقت خطرناک طور پر کم تھا (۱ء۳ کلوگرام، جب کہ پیدائش کے وقت اصولی وزن ۲ کلوگرام ہوتا ہے)۔ بچے کی عمر کے مطابق وزن کا گراف سب سے کم فیصد کی لائن سے کافی نیچے ہے، چارٹ میں ’سنگین طور پر کم غذائیت‘ کے درجہ میں نشان زد۔

’’اگر ماں کم غذائیت کی شکار ہے، تو بچہ بھی کم غذائیت کا شکار ہوگا،‘‘ جی اے ایچ میں دو کی ماہر، ۴۳ سالہ ڈاکٹر مردولا راؤ بتاتی ہیں۔ ’’سوما کے بچے کو ماں کی کم غذائیت کا اثر جھیلنا پڑ سکتا ہے؛ اس کا جسمانی، ذہنی اور اعصابی فروغ اس کی عمر کے دوسرے بچوں کے مقابلے دھیرے ہوگا۔‘‘

سوما کا مریض ریکارڈ دکھاتا ہے کہ اپنے تیسرے حمل کے دوران ان کا صرف پانچ کلو ہی وزن بڑھا۔ وزن میں یہ اضافہ عام وزن والی حاملہ عورتوں کے مقررہ وزن میں اضافہ کے آدھے سے کم ہے، اور سوما جیسی کم وزن والی عورتوں کے حساب سے آدھے سے بہت ہی زیادہ کم ہے – نو مہینے کے حمل پر وہ صرف ۳۸ کلو کی ہیں۔

PHOTO • Priyanka Borar

خاکہ: پرینکا بورار

۲۰۰۶ کے حق جنگلات قانون کے تحت عوامی وسائل پر مشترکہ حقوق کی بحالی کے باوجود، آدیواسی لوگ اپنی غذا کو پورا کرنے کے لیے پہلے کی طرح جنگل سے وسائل جمع نہیں کر پا رہے ہیں۔

’’میں ہفتے میں کئی بار حاملہ ماں اور بچے کو دیکھنے کے لیے جاتی تھی،‘‘ جی اے ایچ کی ہیلتھ اینی میٹر (آؤٹ ریچ کارکن)، ۴۰ سالہ گیتا کنن یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔ ’’میں دیکھتی تھی کہ بچہ صرف انڈرویئر پہنے اپنی دادی کی گود میں افسردہ بیٹھا ہوا ہے۔ گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا، اور پڑوس کے لوگ بچے کو کھانا کھلایا کرتے تھے سوما لیٹی رہتی تھی، کمزور نظر آتی تھی۔ میں سوما کو ہمارا اشونی ستھوماوو (راگی اور دالوں کا پاؤڈر) دیتی تھی اور اس سے کہتی تھی کہ اپنی اور اپنے بچے، جس کو وہ دودھ پلاتی ہے، کی صحت کے لیے ٹھیک سے کھانا کھایا کرے۔ لیکن سوما کہتی تھی کہ ابھی بھی اس کا شوہر جو کچھ بھی یومیہ مزدوری میں کماتا ہے، اس میں سے زیادہ تر شراب پینے میں خرچ کر رہا ہے۔‘‘ گیتا تھوڑا رک کر بولتی ہیں، ’’سوما نے بھی شراب پینا شروع کر دیا تھا۔‘‘

ویسے تو گڈلور کے زیادہ تر کنبوں کی یہی کہانی ہے، لیکن اس بلاک کے طبی اشاریوں میں لگاتار اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اسپتال کے ریکارڈ بتاتے ہیں کہ ۱۹۹۹ میں ۱۰ء۷ (فی ۱۰۰۰۰۰ زندہ پیدائش پر) کی زچہ کی شرح اموات (ایم ایم آر) ۲۰۱۸-۱۹ تک ۳ء۲ تک نیچے گر گئی تھی، اور اسی دوران بچوں کی شرح اموات (آئی ایم آر) ۴۸ (فی ۱۰۰۰ زندہ پیدائش پر) سے گھٹ کر ۲۰ ہو گئی تھی۔ ریاستی پلاننگ کمیشن کی ضلعی فروغ انسانی کی رپورٹ ۲۰۱۷ ( ڈی ایچ آر ۲۰۱۷ ) کے مطابق، نیلگری ضلع میں آئی ایم آر ۱۰ء۷ ہے، ریاست کے ۲۱ کے اوسط سے بھی کم، اور گڈلور تعلقہ میں اور بھی کم، ۴ء۰ ہے۔

لیکن یہ اشاریے پوری کہانی نہیں بتاتے ہیں، ڈاکٹر پی شیلجا دیوی سمجھاتی ہیں، جو پچھلے ۳۰ سالوں سے گڈلور کی آدیواسی خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ’’اموات کے اشاریے جیسے ایم ایم آر اور آئی ایم آر ضرور بہتر ہوئے ہیں، لیکن مرض بڑھ گیا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ہمیں موت اور مرض میں فرق کرنا پڑے گا۔ کم غذائیت کی شکار ایک ماں کم غذائیت والے بچے کو ہی جنم دے گی جسے بیماریاں لگنے کا کافی خطرہ ہے۔ ایسا تین سال کا بچہ دست (ڈائریا) جیسے مرض سے بہت جلدی مر جائے گا، اور اس کی ذہنی نشوونما دھیرے ہوگی۔ یہ ہی آدیواسیوں کی اگلی نسل ہوگی۔‘‘

اس کے علاوہ، عام شرح اموات کے اشاریوں میں ہوئے اضافہ کو اس علاقے کی آدیواسی برادریوں میں بڑھتی ہوئی شراب کی لت کی وجہ سے کم سمجھا جا رہا ہے، اور یہ اضافہ آدیواسیوں کی آبادی میں موجود بڑے پیمانے پر کم غذائیت پر پردہ ڈال سکتی ہے۔ (جی اے ایچ شراب کی لت اور کم غذائیت کے باہمی تعلق پر ایک مضمون لکھنے میں مصروف ہے؛ وہ ابھی عوامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔) جیسا کہ ڈی ایچ ڈی آر ۲۰۱۷ کی رپورٹ دکھاتی ہے، ’’شرحِ اموات کے کنٹرول میں ہونے پر بھی، غذائیت کی سطح میں شاید بہتری نہ آئے۔‘‘

جب ہم موت کے دوسرے اسباب جیسے ڈائریا اور ڈسینٹری کو کنٹرول کر رہے تھے، اور تمام زچگی اسپتال میں کروا رہے تھے، برادری میں شراب کی لت ان سب کو برباد کر رہی تھی۔ ’’ہم نوجوان ماؤں اور بچوں میں ذیلی سہارا سطح کی کم غذائیت اور کمزور غذائی سطح دیکھ رہے ہیں،‘‘ زچگی اور خواتین کے امراض کی ماہر، ڈاکٹر شیلجا (۶۰) کہتی ہیں، جو جنوری ۲۰۲۰ میں جی اے ایچ سے باقاعدہ طور پر ریٹائر ہو گئی تھیں، لیکن ابھی بھی ہر صبح اسپتال میں مریضوں کو دیکھتے ہوئے اور ساتھیوں کے ساتھ کیس پر غوروفکر کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔ ’’اور ۵۰ فیصد بچے اوسط یا سنگین طور سے کم غذائیت کے شکار ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’دس سال پہلے [۲۰۱۱-۱۲]، اوسط کم غذائیت ۲۹ فیصد تھی اور سنگین کم غذائیت ۶ فیصد۔ اس لیے، یہ ایک بہت ہی زیادہ پریشان کن صورتحال ہے۔‘‘

Left: Family medicine specialist Dr. Mridula Rao and Ashwini programme coordinator Jiji Elamana outside the Gudalur hospital. Right: Dr. Shylaja Devi with a patient. 'Mortality indicators have definitely improved, but morbidity has increased', she says
PHOTO • Priti David
Left: Family medicine specialist Dr. Mridula Rao and Ashwini programme coordinator Jiji Elamana outside the Gudalur hospital. Right: Dr. Shylaja Devi with a patient. 'Mortality indicators have definitely improved, but morbidity has increased', she says
PHOTO • Priti David

بائیں: فیملی میڈیسن کی ماہر ڈاکٹر مردولا راؤ اور اشونی پروگرام کی معاون جی جی ایلمانا گڈلور اسپتال کے باہر۔ دائیں: ڈاکٹر شیلجا دیوی مریض کے ساتھ۔ ’موت کے اشاریے ضرور بہتر ہوئے ہیں، لیکن مرض بڑھ گیا ہے‘، وہ کہتی ہیں

کم غذائیت کے واضح اثرات کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر راؤ کہتی ہیں، ’’پہلے، جب مائیں جانچ کروانے کے لیے باہری مریض کے شعبہ میں آتی تھیں، تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتی تھیں۔ اب وہ بس افسردگی کے ساتھ بیٹھی رہتی ہیں، اور بچے بھی بہت سست لگتے ہیں۔ یہ افسردگی بچوں اور خود کی غذائی صحت کے تئیں نگرانی میں کمی میں بدل رہی ہے۔‘‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-۴ ( این ایف ایچ ایس-۴ ، ۲۰۱۵-۱۶) دکھاتا ہے کہ نیلگری کے دیہی علاقوں میں ۶ سے ۲۳ مہینے کی عمر کے ۶۳ فیصد بچوں کو مناسب غذا نہیں ملتی ہے، جب کہ ۶ مہینے سے ۵ سال کی عمر کے ۵۰ء۴ فیصد بچوں میں خون کی کمی ہے (۱۱ گرام فی ڈیسی لیٹر سے نیچے کا ہیموگلوبن – مناسب کم از کم ۱۲ ہے)۔ تقریباً آدھی (۴۵ء۵ فیصد) دیہی ماؤں میں خون کی کمی ہے، جو ان کے حمل پر مضر اثرات ڈالتی ہے۔

’’ہمارے یہاں ابھی بھی ایسی آدیواسی خواتین آتی ہیں، جن کے اندر بالکل بھی خون نہیں ہوتا – ۲ گرام فی ڈیسی لیٹر ہیموگلوبن! جب خون کی کمی کی جانچ کرتے ہیں تب ہائڈروکلورک ایسڈ رکھتے ہیں اور خون ڈالتے ہیں، تو کم از کم ۲ گرام فی ڈیسی لیٹر تک کا ہی ناپ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس سے کم بھی ہو سکتا ہے، لیکن ناپا نہیں جا سکتا،‘‘ ڈاکٹر شیلجا بتاتی ہیں۔

خون کی کمی اور زچہ کی شرحِ اموات میں ایک قریبی رشتہ ہے۔ ’’خون کی کمی کی وجہ سے زچگی کے دوران حد سے زیادہ خون کا بہنا، حرکت قلب کا رک جانا اور موت ہو سکتی ہے،‘‘ جی اے ایچ کی ڈاکٹر نمرتا میری جارج (۳۱) کہتی ہیں، جو زچگی اور خواتین کے امراض کی ماہر ہیں۔ ’’اس کی وجہ سے بچے میں بین حمل افزائشی رخنہ بھی ہوتا ہے اور پیدائش کے وقت کم وزن کی وجہ سے نوزائیدہ کی موت بھی ہوتی ہے۔ بچے کی نشوونما نہیں ہو پاتی اور وہ طویل مدتی کم غذائیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

کم عمر میں شادی اور حمل ٹھہرنا بچے کی صحت کو اور بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ این ایف ایچ ایس- ۴ کے مطابق، نیلگری کے دیہی علاقوں میں صرف ۲۱ فیصد لڑکیوں کی ہی شادی ۱۸ سال سے کم کی عمر میں ہوتی ہے، لیکن یہاں کے صحت کارکن اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ زیادہ تر آدیواسی لڑکیوں کی شادی ۱۵ سال یا پھر جیسے ہی انہیں حیض آنا شروع ہوتا ہے، ویسے ہی کر دیتے ہیں۔ ’’ہمیں شادی اور ان کے پہلے حمل کو ملتوی کرنے کے لیے اور بھی کوششیں کرنی ہوں گی،‘‘ ڈاکٹر شیلجا کہتی ہیں۔ ’’جب ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر میں لڑکیاں حاملہ ہو جاتی ہیں، پوری طرح سے بالغ ہونے سے پہلے ہی، تب ان کی غذائیت کی خراب سطح نوزائیدہ بچے کی صحت پر خراب اثر ڈالتی ہے۔‘‘

An Alcoholics Anonymous poster outside the hospital (left). Increasing alcoholism among the tribal communities has contributed to malnutrition
PHOTO • Priti David
An Alcoholics Anonymous poster outside the hospital (left). Increasing alcoholism among the tribal communities has contributed to malnutrition
PHOTO • Priti David

اسپتال کے باہر شراب کی لت والے نامعلوم شخص (الکحلکس انانیمس) کا ایک پوسٹر (بائیں)۔ آدیواسی قبیلوں میں بڑھتی ہوئی شراب کی لت نے کم غذائیت کو بڑھایا ہے

شایلا چیچی (’بڑی بہن‘)، جس نام سے انہیں مریض اور ساتھی کارکن دونوں بلاتے ہیں، ان کو آدیواسی خواتین کے ایشوز کے بارے میں بے پناہ علم ہے۔ ’’فیملی کی صحت غذائیت سے جڑی ہوئی ہے، اور حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کو مغوی غذا کی کمی کے سبب دوگنا خطرہ ہے۔ اجرت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن پیسہ فیملی تک نہیں پہنچ پا رہا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہم ایسے آدمیوں کے بارے میں جانتے ہیں جو اپنے راشن کا ۳۵ کلوگرام چاول لیتے ہیں اور بغل والی دکان پر شراب خریدنے کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ ان کے بچوں میں کم غذائیت کیسے نہیں بڑھے گی؟‘‘

’’برادری کے ساتھ ہماری جو بھی ملاقات ہوگی، کسی بھی ایشو پر، اسی مسئلہ کے ساتھ ختم ہوگی: کنبوں میں بڑھتی ہوئی شراب کی لت،‘‘ اشونی میں نفسیاتی صحت کی صلاح کار، وینا (۵۳) بتاتی ہیں۔

اس علاقے میں رہنے والے آدیواسی قبیلے زیادہ تر کٹّونائکن اور پنین کے ہیں، جو خاص طور سے کمزور قبائلی برادریوں میں سے ہیں۔ آدیواسی تحقیقی مرکز، اُدگ منڈلم کے ذریعے کیے گئے مطالعہ کے مطابق، ان میں سے ۹۰ فیصد سے زیادہ باغات اور کھیتوں میں زرعی مزدور ہیں۔ یہاں بنیادی طور سے باقی برادریاں ایرولر، بیٹا کرومبا، اور مُلّو کرومبا ہیں، جو درج فہرست قبائل میں شامل ہیں۔

’’ہم جب ۸۰ کی دہائی میں یہاں آئے تھے، تب ۱۹۷۶ کے بندھوا مزدور سسٹم (خاتمہ) قانون کے باوجود، پنین برادری کے لوگ دھان، باجرا، کیلا، مرچ اور سابودانہ کے باغات میں بندھوا مزدوری کرتے تھے،‘‘ ماری ٹھیکے کار بتاتی ہیں۔ ’’وہ لوگ گھنے جنگلوں کے بیچ چھوٹے باغات میں تھے، اس بات سے بے خبر کہ جس زمین پر وہ کام کر رہے ہیں وہ زمین انہی کی ہے۔‘‘

ماری اور ان کے شوہر اسٹین ٹھیکے کار نے آدیواسیوں کو درپیش مسائل کو مخاطب کرنے کے لیے ۱۹۸۵ میں اکارڈ (عوامی تنظیم، باز رہائش اور ترقی کے لیے کارروائی) قائم کیا۔ وقت کے ساتھ، خیرات سے چلنے والے این جی او نے کئی تنظیموں کا ایک نیٹ ورک بنا لیا ہے – سنگم (کونسل) قائم کیے گئے اور ان کو آدیواسی مُنّیتر سنگم کے ماتحت لایا گیا، آدیواسیوں کے ذریعے چلایا اور کنٹرول کیا گیا۔ سنگم نے آدیواسی زمین کو دوبارہ پانے میں کامیابی حاصل کی، چائے کے باغات لگائے گئے اور آدیواسی بچوں کے لیے اسکول قائم کیا۔ اکارڈ نے بھی نیلگری میں صحت سے متعلق فلاحی ادارہ (اشونی) کی شروعات کی، اور ۱۹۹۸ میں گڈلور آدیواسی اسپتال قائم ہوا۔ اب یہاں چھ ڈاکٹر ہیں، ایک تجربہ گاہ ہے، ایکسرے کمرہ، دوا کی دکان اور بلڈ بینک ہیں۔

Left: Veena Sunil, a mental health counsellor of Ashwini (left) with Janaki, a health animator. Right: Jiji Elamana and T. R. Jaanu (in foreground) at the Ayyankoli area centre, 'Girls in the villages approach us for reproductive health advice,' says Jaanu
PHOTO • Priti David
Left: Veena Sunil, a mental health counsellor of Ashwini (left) with Janaki, a health animator. Right: Jiji Elamana and T. R. Jaanu (in foreground) at the Ayyankoli area centre, 'Girls in the villages approach us for reproductive health advice,' says Jaanu
PHOTO • Priti David

بائیں: اشونی کی ایک نفسیاتی صحت کی صلاح کار، وینا سنیل (بائیں) ایک ہیلتھ اینی میٹر، جانکی کے ساتھ۔ دائیں: جی جی ایلمانا اور ٹی آر جانو (سامنے) ایّن کولی ایریا سینٹر پر، ’گاؤں کی لڑکیاں ہمارے پاس تولیدی صحت سے متعلق صلاح لینے آتی ہیں،‘ جانو کہتی ہیں

’’۸۰ کے عشرے میں، سرکاری اسپتالوں میں آدیواسیوں کے ساتھ دوئم درجہ کے شہریوں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا اور وہ بھاگ جاتے تھے۔ صحت کی حالت خراب تھی: حمل کے دوران عورتیں لگاتار مر رہی تھیں، اور بچوں کو دست (ڈائریا) ہو رہے تھے اور ان کی موت ہو رہی تھی،‘‘ ڈاکٹر روپا دیوداسن یاد کرتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر، ڈاکٹر این دیوداسن اشونی کے ان سرکردہ ڈاکٹروں میں سے ہیں، جو آدیواسی علاقوں میں گھر گھر جاتے تھے۔ ’’ہمیں بیمار یا حاملہ مریضوں کے گھر میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ بہت ساری باتوں اور یقین دہانیوں کے بعد ہی ان برادریوں نے ہم پر یقین کرنا شروع کیا۔‘‘

صحت عامّہ اشونی کا بنیادی مقصد ہے، جس کے پاس ۱۷ ہیلتھ اینی میٹر (صحت کارکن) ہیں اور ۳۱۲ صحت رضاکار – سبھی آدیواسی ہیں – جو گڈلور اور پنتھلور تعلقوں میں بڑے پیمانے پر گھومتے ہیں، گھر گھر جاکر صحت اور غذائیت سے متعلق صلاح دیتے ہیں۔

پچاس سال سے زیادہ کی ہو چکی ٹی آر جانو، جو مُلّور کرومبا برادری کی ہیں، اشونی میں تربیت یافتہ پہلی ہیلتھ اینی میٹر تھیں۔ پنتھلور تعلقہ میں چیرن گوڈے پنچایت کی ایّن کولی بستی میں ان کا دفتر ہے، اور آدیواسی کنبوں میں ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور ٹی بی کی لگاتار جانچ کرتی ہیں، اور ابتدائی علاج کے ساتھ ساتھ صحت عامّہ اور غذائیت کے بارے میں صلاح بھی دیتی ہیں۔ وہ حاملہ عورتوں اور دودھ پلانے والی ماؤں کا بھی خیال رکھتی ہیں۔ ’’گاؤں کی لڑکیاں حمل کے کافی مہینے ہو جانے پر ہمارے پاس تولیدی صحت سے متعلق صلاح کے لیے آتی ہیں۔ فولیٹ کی کمی کے لیے حمل کے پہلے تین مہینے میں ہی دوا دینا ضروری ہے، جس سے بین حمل افزائشی رخنہ کو روکا جا سکے، نہیں تو یہ کام نہیں کرتی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

حالانکہ، سوما جیسی نوجوان عورتوں کے لیے آئی یو جی آر نہیں روکا جا سکا۔ اسپتال میں ہمارے ملنے کے کچھ دنوں بعد ان کی نس بندی پوری ہو چکی تھی اور وہ اور ان کی فیملی گھر جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ ان کو نرسوں اور ڈاکٹروں سے صلاح ملی تھی۔ ان کو سفر کے لیے اور اگلے ہفتے کے کھانے کے لیے روپئے دیے گئے تھے۔ ’’اس بار ہمیں امید ہے کہ جیسے بتایا گیا ہے ویسے ہی روپیوں کا استعمال ہوگا،‘‘ ان کے جانے کے وقت جی جی ایلمانا کہتی ہیں۔

کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Editor : Hutokshi Doctor
Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez