چنئی میں منعقد ریاست تمل ناڈو کی یومِ جمہوریہ تقریبات میں رانی ویلو نچیار اُن مشہور تاریخی شخصیات میں سے ایک تھیں، جن پر باتیں بھی خوب ہوئیں اور جن کی کافی تصویریں کھینچی گئیں۔ انہیں وی او چدمبرم پلئی، سبرامنیم بھارتی، اور مروتھو بندھو جیسی تمل شخصیات کے ساتھ ایک جھانکی (نمائش) میں دیکھا گیا۔

’جدوجہد آزادی میں تمل ناڈو‘ کی ترجمانی کرنے والی اُس جھانکی کو مرکزی حکومت کے ’ماہرین‘ کی کمیٹی کے ذریعے نئی دہلی میں منعقد ہونے والی یومِ جمہوریہ پریڈ میں شامل کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے وزیر اعظم سے وزیر اعظم سے مداخلت کرنے کی اپیل بھی کی، لیکن اس پر غور نہیں کیا گیا۔ آخرکار، اسے چنئی میں ریاست کی طرف سے منعقد ہونے والی یومِ جمہوریہ کی تقریبات میں جگہ دی گئی، جو سب سے زیادہ مقبول رہی۔

مرکز کے ’ماہرین‘ کی کمیٹی کے ذریعے دیے گئے دیگر اسباب کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی پیش کی گئی کہ ان شخصیات کو ’قومی سطح پر کوئی نہیں جانتا‘۔ اکشیہ کرشن مورتی اس سے متفق نہیں ہیں۔ وہ مانتی ہیں کہ ان کا ’ویلو نچیار‘ کے ساتھ ذاتی طور پر گہرا رشتہ ہے، جنہوں نے انگریزوں سے لڑائی لڑی اور ۱۷۹۶ میں اپنی موت تک شیو گنگا (اب تمل ناڈو کا ایک ضلع) پر حکومت کی تھی۔

وہ کہتی ہیں، ’’میری زندگی کا سب سے یادگار لمحہ وہ تھا، جب میں نے ۱۱ویں کلاس میں اپنے اسکول کے ایک پروگرام میں ویلو نچیار کا کردار ادا کیا تھا۔‘‘

اکشیہ مزید کہتی ہیں، ’’لیکن، یہ صرف اداکاری اور رقص سے جڑی بات نہیں تھی۔‘‘ انہوں نے اپنے اندر ’ویر منگئی‘ کی طاقت اور ہمت کو محسوس کیا۔ رانی ویلو نچیار کو گیتوں اور اقوال میں ویر منگئی کے نام سے پکارا جاتا رہا ہے۔ اکشیہ ایک تربیت یافتہ کلاسیکی رقاصہ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اسکول کے اس مقابلہ کے دن ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ یہ اداکاری کر بھی پائیں گی یا نہیں۔ لیکن انہوں نے اپنی پوری طاقت لگا دی۔

اسٹیج سے اترنے کے بعد، وہ بیہوش ہو گئیں۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا، اور وہاں انہیں سلائن ڈرِپ چڑھایا گیا۔ ’’ہم دوسرے مقام پر رہے۔ اپنے آئی وی لائن (ڈرپ کی سوئی) والے ہاتھوں سے میں نے اپنا انعام لیا۔‘‘ اس واقعہ نے انہیں اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا سکھایا۔ ان کے اندر ’’ہمت‘‘ نے جنم لیا، اور اس کے بعد انہوں نے موٹر سائیکل اور کار چلانا سیکھا۔

Tamil Nadu's tableau for the Republic Day parade, with Rani Velu Nachiyar (left), among others. The queen is an inspiration for Akshaya Krishnamoorthi
PHOTO • Shabbir Ahmed
Tamil Nadu's tableau for the Republic Day parade, with Rani Velu Nachiyar (left), among others. The queen is an inspiration for Akshaya Krishnamoorthi
PHOTO • Shabbir Ahmed

تمل ناڈو کی یوم جمہوریہ تقریبات میں شامل ایک جھانکی، جس میں رانی ویلو نچیار (بائیں) اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ رانی ویلو نچیار، اکشیہ کرشن مورتی کے لیے ایک رول ماڈل ہیں

اکشیہ اپنی فیملی میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے والی پہلی رکن ہیں۔ وہ ایک صنعت کار (تاجر)، انوویٹر اور پرجوش مقرر ہیں۔

مخص ۲۱ سال کی عمر میں وہ یہ سب کرتی ہیں۔

اکشیہ اپنے والدین، چھوٹے بھائی، پھوپھی، ایک کتے، اور کئی پرندوں (بڈگریگرز یا عام طوطے) کے ساتھ تمل ناڈو کے ایروڈ ضلع میں ستیہ منگلم کے پاس اپنے آبائی قصبہ، اری یپّم پَلیَم میں رہتی ہیں۔ ریاست کے نقشہ پر دیکھیں تو یہ ایک بہت چھوٹی جگہ ہے۔ لیکن بزنس ایڈمنسٹریشن میں گریجویشن کر چکیں اکشیہ اس علاقے کو ایک دن قومی منظرنامہ پر ابھرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔

کوئمبٹور، کرور اور تریپور سمیت تمل ناڈو کے اس پورے علاقے کی تاریخ یہ ہے کہ یہاں کمزور طبقہ نے صنعت کاری کو فروغ بخشا ہے۔ اکشیہ، جن کے والدین دسویں جماعت سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کر پائے، اسی پرانی روایت کو آگے لے کر چل رہی ہیں۔

پاری (پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا) نے جب اکتوبر ۲۰۲۱ میں اکشیہ سے ملاقات کی، تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میری عمر، میری طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔‘‘ ہم ہلدی کے کسان تیرو مورتی کے کھیتوں سے واپس لوٹ کر ان کے گھر میں چائے پینے بیٹھے تھے، اور بجّی (پکوڑے) کھا رہے تھے۔ ہماری ملاقات یادگار تھی۔ اپنے بڑے اور سنہرے خوابوں کے بارے میں پوری وضاحت سے بات کرتے ہوئے اکشیہ اپنے چھوٹے بالوں کو چہرے سے جھٹکتی جا رہی تھیں۔

ان کا پسندیدہ قول بھی اسی سے متعلق ہے، ’’آج ہی من کا کام کرو اور اپنے خوابوں کو جیو۔‘‘ وہ کالج میں دی گئی اپنی حوصلہ افزا تقریروں میں اس قول کا خوب استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی، اپنے کاروبار میں اس کا استعمال کرتی ہیں، جب کہ وہ اپنی برانڈ ’سروکوپئی فوڈز‘ کی جڑیں جمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تمل میں سروکوپئی لفظ ’رسی والی تھیلی‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جو ہمیں پرانے دور کی یاد دلانے کے ساتھ ساتھ کفایت شعاری کا ہنر سکھاتی ہے، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ ماحولیات کے موافق بھی ہے۔

ان کے اندر اپنے دَم پر کچھ کر گزرنے کا جذبہ پہلے سے ہی ہے۔ ’’کالج میں، میں نے اور میرے دوستوں نے اولی ئن اُرووَم ٹرسٹ قائم کیا، جو مجسمہ ساز کے ہتھوڑے کے نام پر مبنی تھا۔ یہ طلباء کی قیادت میں چلائی جا رہی ایک تنظیم ہے، جسے ہم نے چھوٹے شہروں کے طلباء کی زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد کرنے کے لیے قائم کیا تھا۔ ہمارا خواب ہے کہ ہم ۲۰۲۵ تک ۲۰۲۵ لیڈروں کو تیار کریں۔‘‘ یہ مشکل خواب لگتا ہے، لیکن یہ اکشیہ کی آرزوؤں کے سامنے بہت چھوٹا ہے۔

Akshaya in Thiru Murthy's farm in Sathyamangalam. She repackages and resells the turmeric he grows
PHOTO • M. Palani Kumar

ستیہ منگلم میں تیرو مورتی کے کھیت میں کھڑی اکشیہ۔ وہ تیرو مورتی کے ذریعے اگائی گئی ہلدی کو خرید کر اسے سروکوپئی فوڈز برانڈ کے ایک پروڈکٹ کے طور پر فروخت کرتی ہیں

وہ ہمیشہ سے ایک تاجر بننا چاہتی تھیں۔ لیکن مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ان کے سامنے چند متبادل ہی رہ گئے تھے۔ وہ گریجویشن کا ان کا آخری سال تھا۔ اسی دوران وہ تیرو مورتی سے ملیں، جو ستیہ منگلم کے پاس اُپّو پلّم گاؤں میں آرگینک کھیتی کرتے ہیں۔ وہ ان کی فیملی کے پرانے دوست اور ان کے گھریلو آلات کی دکان کے گاہک تھے۔ اکشیہ بتاتی ہیں، ’’وہ لوگ ایک دوسرے کو تب سے جانتے ہیں، جب پاپا ریڈیو کیسٹ کی دکان چلاتے تھے۔‘‘

تیرو مورتی، جنہیں اکشتیہ ’انکل‘ کہہ کر بلاتی ہیں، ہلدی کا کاروبار کرتے ہیں، اور ہلدی اور ہلدی سے بنائی گئی اشیاء وہ براہ راست اپنے صارفین کو فروخت کرتے ہیں۔ اکشیہ کو لگا کہ وہ ان کی پیداوار کی ڈبہ بندی کرکے اسے فروخت کر سکتی ہیں۔ تیرو مورتی نے ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’ ایڈوتو پنّوں گا ۔ یعنی اسے لو اور کرو۔‘‘ اکشیہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’’انکل ان کے کاروبار کے بارے میں بہت پر امید تھے۔‘‘ اور اس طرح سروکوپئی فوڈز کی شروعات ہوئی۔

اپنی نئی کمپنی کے ساتھ وہ جس پہلی نمائش میں گئیں، وہ کافی حوصلہ بخش تھی۔ ٹین فوڈ ۲۱ ایکسپو کے نام سے یہ نمائش فروری ۲۰۲۱ میں مدورئی میں منعقد کی گئی تھی۔ تقریباً ۲ ہزار لوگ ان کے اسٹال پر آئے تھے۔ مارکیٹ ریسرچ اور ان کے ردعمل سے انہیں برانڈنگ اور ڈبہ بندی کی اہمیت سمجھ میں آئی۔

اکشیہ بتاتی ہیں، ’’صارفین کا ہماری برانڈ کے نام کے ساتھ ذاتی رشتہ تھا۔ اس کے علاوہ ہمارا کاروبار بھی انوکھا تھا۔ اس سے پہلے تک، ہلدی صرف پلاسٹک کے پیکٹ میں بیچی جاتی تھی۔ کسی نے اسے کاغذ کے پیکٹ میں، ڈوری والی تھیلی میں فروخت ہوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا!‘‘ نہ تو ایف ایم سی جی کی بڑی کمپنیوں اور نہ ہی آرگینک اسٹور نے ایسے کسی آئیڈیا کے بارے میں سوچا تھا۔ ان کا یہ آسان سا آئیڈیا بہت کامیاب رہا۔ اور اب وہ مزید آگے بڑھنا چاہتی تھیں۔

اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے تمام لوگوں اور تنظیموں سے صلاح مانگی۔ ان میں ان کے اساتذہ اور پوٹن سپر فوڈز سے وابستہ ڈاکٹر ایم نچی مُتّو اور شنموگا سندرم بھی ہیں۔ اور مدورئی ایگری بزنس انکیوبیشن فورم (ایم اے بی آئی ایف) نے انہیں ٹریڈ مارک اور ایف ایس ایس اے آئی سرٹیفکیشن حاصل کرنے میں مدد کی۔ اور ہاں، اکشیہ کو جب بھی وقت ملتا ہے، وہ سیلف ہیلپ (ذاتی مدد) سے متعلق کتابیں ضرور پڑھتی ہیں۔ ان کے ذریعے پڑھی گئی آخری کتاب تھی: ’ایٹی ٹیوڈ اِز ایوری تھنگ۔‘

Akshaya's Surukupai Foods products on display in Akshaya Home Appliances, the store owned by her parents
PHOTO • M. Palani Kumar

سروکوپئی فوڈز کی مصنوعات اکشیہ ہوم اپلائنسز کی دکان پر سجی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ دکان ان کے والدین کی ہے

اکشیہ کہتی ہیں، ’’بی بی اے کی پڑھائی سے مجھے ایسی تعلیم یا عملی مہارت حاصل نہیں ہوئی ہے کہ میں اپنا ایک کاروبار شروع کر سکوں۔‘‘ وہ تعلیمی نظام کے مسائل پر بات کرتے ہوئے پوچھتی ہیں، ’’کالج میں ہمیں بینکوں کے عام لین دین کے بارے میں کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟ بی بی اے کے کورس میں بینک سے قرض لینے کے بارے میں کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟ ایسا کیوں ہے کہ اساتذہ اور منتظین کو حقیقی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے؟‘‘

وہ اپنی طرف سے ان خامیوں کو پُر کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ’’مجھے ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔‘‘

اسے اچھی طرح کرنے کے لیے وہ روزانہ ایک فہرست بناتی ہیں۔ اور دن بھر کے معمول سے متعلق کوئی ہدف پورا ہو جانے پر اسے فہرست سے ہٹا دیتی ہیں۔ ’’میں اپنی ڈائری میں دن بھر کے کاموں کے بارے میں لکھتی ہوں۔ اگر دن گزرتے گزرتے کوئی کام ادھورا رہ جاتا ہے، تو اسے میں اگلے دن کی فہرست میں ڈال دیتی ہوں۔‘‘ کسی کام کے ادھورا رہ جانے پر انہیں ’’افسوس‘‘ ہوتا ہے، اور بعد میں وہ اور بھی زیادہ محنت کرتی ہیں۔

اپنی کوششوں سے انہوں نے اپنے پوسٹ گریجویشن کے تین سیمیسٹر کی فیس جمع کر لی ہے۔ ان کے مضمون کا انتخاب بھی بڑا دلچسپ ہے۔ وہ فخر سے بتاتی ہیں، ’’میں فاصلاتی تعلیم کے ذریعے سوشل ورک میں پوسٹ گریجویشن کر رہی ہوں۔ ایک سیمیسٹر کی فیس ۱۰ ہزار روپے ہے اور امتحان کی فیس کے لیے ۵ ہزار روپے الگ سے جمع کرنے ہیں۔ شروع میں پاپا نے مجھے ۵ ہزار روپے دیے۔ اس کے بعد میں نے اپنی فیس خود بھری ہے۔‘‘ فیس کے بقیہ پیسے انہیں اپنے بزنس میں ہوئے ۴۰ ہزار کے منافع سے حاصل ہوئے ہیں، جس کے لیے انہوں نے دس ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔

ان کے صارفین ان سے تھوک میں سامان خریدتے ہیں۔ اور وہ انہیں کئی متبادل کی سہولتیں دیتی ہیں۔ فی الحال سب سے زیادہ مقبول متبادل ایک گفٹ ہیمپر ہے، جسے وہ شادی کے دعوت نامہ کے لیے لوگوں کو بھیجا جا سکتا ہے۔ اس ہیمپر میں آرگینک ہلدی سے بنی بہت سی مصنوعات شامل ہوتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ شاید وہ پہلی (اور اکلوتی) صنعت کار ہیں، جسے ایسی کسی سہولت کا متبادل سامنے رکھا ہے۔ ہر گفٹ ہیمپر میں ایک ڈوری والی تھیلی ہوتی ہے، ہلدی کے پیکٹ ہوتے ہیں، ۵ گرام کے کئی پیکٹ ہوتے ہیں، جس میں مقامی انواع کے بیگن، ٹماٹر، بھنڈی، ہری مرچ اور پالک کے بیج ہوتے ہیں، اور اس کے ساتھ ہی ایک شکریہ کا مکتوب ہوتا ہے۔‘‘

اکشیہ بتاتی ہیں، ’’جب لوگ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو کسی شادی کا دعوت نامہ دینے ان کے پاس جاتے ہیں، تو وہ دعوت نامہ کے ساتھ گفٹ ہیمپر بھی انہیں دیتے ہیں۔ یہ طریقہ مبارک اور صحت بخش تو ہے ہی، ماحولیات کے بھی موافق ہے۔‘‘ جب ان کے گاہک کسی بڑے تحفے کی مانگ کرتے ہیں، اور اس کے لیے زیادہ قیمت بھی ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں، تو اکشیہ خوبصورت شیشے کی بوتلوں میں بڑی مقدار میں ہلدی پاؤڈر پیک کرتی ہیں۔ وہ کئی شادیوں میں ان پیکجوں کی سپلائی کر چکی ہیں، اور زبانی تشہیر کے ذریعے انہیں کئی اور آرڈر مل چکے ہیں۔ ’’آخری آرڈر ایسے ۲۰۰ گفٹ ہیمپروں کے لیے تھا، جہاں ہر ایک ہیمپر کی قیمت ۴۰۰ روپے تھی۔‘‘

Left: Akshaya with a surukupai, or drawstring pouch, made of cotton cloth. Right: The Surukupai Foods product range
PHOTO • M. Palani Kumar
Left: Akshaya with a surukupai, or drawstring pouch, made of cotton cloth. Right: The Surukupai Foods product range
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: اکشیہ اپنے ہاتھوں میں سروکوپئی (سوتی کپڑے کی بنی تھیلی) لیے کھڑی ہیں۔ دائیں: سروکوپئی فوڈز کی مختلف مصنوعات

ستیہ منگلم کے اپنے سفر کے کئی مہینوں بعد، میں نے اکشیہ سے فون پر بات کی۔ کال کے درمیان انہوں نے اچانک کہا: ’’بینک مینیجر مجھے بلا رہا ہے۔‘‘ ایک گھنٹہ بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ایک تجزیہ سے متعلق کام تھا۔ انہیں ایک عوامی بینک سے دس لاکھ روپے کا قرض ملا ہے۔ انہوں نے اس قرض کی درخواست خود دی تھی، اس کے لیے تمام دستاویز خود تیار کیے تھے، اور بغیر کسی ضمانت کے انہیں یہ قرض ۹ فیصد کی شرح سود پر ملا ہے۔ وہ قرض کے پیسوں سے ایک صنعت قائم کرنا چاہتی ہیں، جہاں مشین کی مدد سے ہلدی کو پیسا اور پیک کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے کاروبار کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ اور تیزی سے۔

وہ بتاتی ہیں، ’’میرے پاس ایک ٹن ہلدی پاؤڈر کا ایک آرڈر آیا ہے۔ اس لیے مجھے تاجروں سے بازار میں فروخت ہونے والی ہلدی خریدنی پڑی۔‘‘ مشینوں کا انتظام کرنا مشکل ہے۔ ’’کالج میں، میں نے اشتہار دینے کے بارے میں سیکھا تھا۔ لیکن مکمل طور پر خودکار طریقے سے چلنے والی مشینوں میں لگے سنسر اور پیپر پُلنگ اور رول پلیسنگ کے بارے میں میں کچھ بھی نہیں جانتی۔ اگر یہ کام ٹھیک سے نہیں کیا گیا، تو پورا مال بیکار چلا جائے گا۔‘‘

انہوں نے ایسی کئی چیزوں کی فہرست بنائی ہے، جسے لے کر غلطیاں ہو سکتی ہیں، لیکن ان کا ماننا ہے کہ یہ خطرہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مشین لینے کے بعد، جسے چلانے کے لیے وہ پارٹ ٹائم معاون رکھنا چاہتی ہیں، مستقبل قریب میں ان کا کاروبار بڑھ کر ایک مہینہ میں ۲ لاکھ روپے کے ٹرن اوور تک پہنچ جائے گا۔ اور اس طرح سے ان کا منافع ان کی کالج ڈگری سے جڑی نوکریوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہو جائے گا۔

پھر بھی، اکشیہ کا کام اس کے ذاتی فائدہ سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ان کی کوششیں زرعی صنعتوں کے ڈھانچے کو پلٹ رہی ہیں، جہاں زیادہ تر کاروبار مردوں اور بڑی پرائیویٹ کمپنیوں کے ماتحت ہے۔

کرشی جننی، کنگایم میں واقع ایک سماجی صنعت ہے، جو منافع بخش اور باز پیدائشی زرعی حیاتیات کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کی بانی اور سی ای او اوشا دیوی وینکٹ چلم کا کہنا ہے، ’’جہاں ہلدی کی فصلیں اگائی جا رہی ہیں، وہیں قریب میں مقامی سطح پر ان کی پروسیسنگ ہو رہی ہے، یہ اپنے آپ میں ایک بہت اچھی خبر ہے۔ ساتھ ہی، زرعی پروسیسنگ صنعتوں میں نوجوان خواتین کی موجودگی ابھی بہت کم ہے۔ مشینائزیشن اور مرکوزیت کے نام پر خواتین کے کردار کو، خاص کر کٹائی کے بعد پروسیسنگ کے دوران، آہستہ آہستہ بہت محدود کر دیا جاتا ہے۔‘‘

اوشا بتاتی ہیں، ’’غذائی سپلائی چین سے جڑا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ مرکوز ہے اور اس کے سبب احمقانہ طریقے سے پروسیسنگ سے متعلق فیصلے لیے جاتے ہیں، جیسے امریکہ میں پیدا کیے گئے سیب کو پالشنگ کے لیے جنوبی افریقہ لے جایا جائے گا اور آخر میں فروخت کے لیے وہ ہندوستانی بازار میں لایا جائے گا۔ وبائی مرض کے بعد کی دنیا میں یہ ماڈل پائیدار نہیں ہے۔ اور پھر جب آپ نقل و حمل کی لاگت کو اس میں جوڑ لیں، تو پائیں گے کہ اس سے جڑا ماحولیاتی بحران اسے کتنا سنگین مسئلہ بنا دیا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر بجلی اور ایندھن کی کھپت میں۔

The biodegradable sachets in which Akshaya sells turmeric under her Surukupai Foods brand. She says she learnt the importance of branding and packaging early in her entrepreneurial journey
PHOTO • Akshaya Krishnamoorthi
The biodegradable sachets in which Akshaya sells turmeric under her Surukupai Foods brand. She says she learnt the importance of branding and packaging early in her entrepreneurial journey
PHOTO • Akshaya Krishnamoorthi
The biodegradable sachets in which Akshaya sells turmeric under her Surukupai Foods brand. She says she learnt the importance of branding and packaging early in her entrepreneurial journey
PHOTO • Akshaya Krishnamoorthi

بایو ڈیگریڈیبل پیکٹ، جس میں اکشیہ ہلدی اور سبزیوں کے بیج رکھ کر سروکوپئی فوڈز برانڈ کے نام سے بیچتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کاروبار کی شروعات میں ہی برانڈنگ اور پیکجنگ کی اہمیت کو پہچان لیا تھا

ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر اکشیہ کے منصوبے ان تمام امور پر کام نہ کریں۔ لیکن ہلدی سے چاکلیٹ اور چپس بنانے کا ان کا یہ انوکھا تجربہ روایتی بازار میں ہلچل پیدا کرنے کو کافی ہے۔ کم از کم مقامی سطح پر، انہیں ایسا لگتاہ ے کہ اسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔

میرے یہ پوچھنے پر کہ کیا یہ کچھ خاص لوگوں کی پسند تک محدود پیداوار نہیں ہے؛ اکشیہ کہتی ہیں، ’’مجھے لگتا ہے کہ اس کے صارفین موجود ہیں۔ لوگ پیپسی اور کولا پیتے ہیں۔ لیکن انہیں ننّاری شربت اور پنیر سوڈا بھی پسند ہے۔‘‘ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں، ’’ہلدی کی مصنوعات بھی ایسے ہی مقبول ہو جائیں گی۔ اور صحت کے لیے بھی اچھی ثابت ہوں گی۔‘‘

وہ دیہی بازاروں میں آنے والی اچھال پر اپنی نظر جمائے ہوئی ہیں، جس کے ۲۰۲۵ تک اپنے عروج پر پہنچنے کا امکان ہے۔ ’’اس کے لیے ان مصنوعات کو کم مقدار میں مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ سستا بھی کرنا ہوگا۔ ہلدی کے بڑے پیکٹ مہنگے ہوتے ہیں، جہاں ۲۵۰ گرام کے ایک پیکٹ کی قیمت ۱۶۵ روپے ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے اسے ایک بار استعمال میں آنے والے پیکٹ کے طور پر تیار کیا ہے۔‘‘

اپنی خاندانی دکان کی الماری سے وہ ایک سروکوپئی پیکٹ نکالتی ہیں، جس میں ۶ گرام ہلدی فیس پیک کے ۱۲ پیپر پیکٹ ہیں۔ ’’صارف اس پورے سیٹ کو ۱۲۰ روپے میں خرید سکتے ہیں، یا پھر دس روپے میں ایک پیکٹ لے جا سکتے ہیں۔‘‘ بڑی تھیلی موٹے سوتی کپڑے کی بنی ہے۔ یہ پیکٹ بایوڈیگریڈیبل ہے۔ یہ کاغذ سے بنے ہوئے پیکٹ ہیں، جس کی نمی کی سطح کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پلاسٹک کی بہت پتلی پرت لگائی گئی ہے۔

انہیں بنانے کا سارا کام تیرو مورتی نے کیا ہے۔ اس کے اوپر لگا سفید رنگ کا لیبل اکشیہ نے تیار کیا ہے۔ وہ اس کی خوبی بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’یہ کوڑے کا مسئلہ تو کم کرتا ہی ہے، نمی کو بھی قابو میں رکھتا ہے۔ صرف دس روپے میں کوئی گاہک اس کا استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ وہ لگاتار بولتی جاتی ہیں۔ ’’میرے پاس ہمیشہ اتنی توانائی ہوتی ہے۔‘‘ وہ ہنس دیتی ہیں۔

انہیں اپنے والدین کا تعاون بھی مل رہا ہے۔ ان کی ہوم اسپلائنس کی دکان (ان کے پاس دو اسٹور ہیں) وہ سب سے پہلی جگہ تھی، جہاں ان کی مصنوعات کی فروخت شروع ہوئی۔ اور وہ ان کی فصلوں اور ان کے کریئر کے انتخاب کا احترام کرتے ہیں۔ جب وہ اپنا کاروبار شروع کر رہی تھیں، تب بھی گھر والوں نے ان کی حمایت کی تھی۔

“I always have energy,” she says, laughing
PHOTO • M. Palani Kumar

وہ ہنستی ہوئی کہتی ہیں، ’میرے پاس ہمیشہ اتنی توانائی ہوتی ہے‘

کچھ سال پہلے جب انہوں نے قبیلہ کے دیوتا کے لیے اپنا سر منڈوا لیا، تو لوگوں نے بہت ہی تلخ ردعمل دیا تھا۔ لیکن ان کے ماں باپ ان کے ساتھ کھڑے رہے اور انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی ہر طرح سے خوبصورت لگتی ہے۔ اکشیہ بتاتی ہیں، ’’میں نے ایسا کیا، کیوں کہ میں لگاتار بیمار پڑ رہی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ میں اپنے بال کینسر کے متاثرین کو عطیہ کر دوں، لیکن تب میں ایسا نہیں کر سکی۔ اپنا سر منڈوانے کے بعد مجھ میں خود اعتمادی آئی۔ مجھے یہ سمجھ آ گیا کہ میری شناخت میرے بالوں سے نہیں جڑی ہے۔ اور میں خوش ہوں کہ میرے والدین مجھ سے ہر حال میں محبت کرتے ہیں۔‘‘

اور وہ ان کے خواب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ گریجویشن میں ان کے ساتھ پڑھنے والی کچھ ۶۰ خواتین ہم جماعتوں میں سے زیادہ تر کی اب شادی ہو چکی ہے۔ ’’لاک ڈاؤن کے سبب انہوں نے لڑکیوں کی شادی کر دی۔ ان میں سے کچھ نوکری کرتی ہیں۔ لیکن کسی نے اپنا کاروبار نہیں شروع کیا ہے۔‘‘

اوشا دیوی وینکٹ چلم کا ماننا ہے کہ اکشیہ کی کامیابی اس تصویر کو پلٹ سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس علاقے میں پیدا ہوئی ایک نوجوان لڑکی، جس کی آرزوئیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنانے کی ہے، مقامی سطح پر ایک پروسیسنگ یونٹ قائم کرنے کی سمت میں قدم بڑھا رہی ہے، یہی اپنے آپ میں سب سے حوصلہ افزا بات ہے۔ اور اس سے دیگر لوگ، خاص کر ان کے ساتھی کچھ سیکھیں گے۔‘‘

اکشیہ آگے چل کر ایم بی اے کرنا چاہتی ہیں۔ ’’کئی لوگ پہلے ایم بی اے کرتے ہیں اور پھر اپنا بزنس شروع کرتے ہیں۔ لیکن میرے معاملے میں یہ اُلٹا ہے۔‘‘ اور انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنا ان کے لیے اچھا رہے گا۔ وہ اپنے آبائی قصبہ میں رہ کر ہی اپنی برانڈ کو مزید مضبوط بنانا چاہتی ہیں۔ ان کی اپنی ایک ویب سائٹ ہے، انسٹا گرام اور لنکڈ ان پر اکاؤنٹ ہے۔ ان پلیٹ فارموں پر وہ ہیش ٹیگ (ٹرمک چائے جیسے دیگر ہیش ٹیگ) لگا کر اپنی ترکیب پوسٹ کرتی ہیں اور ایف پی او اور برآمد کاروں سے جڑنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’کسان اپنی پوری توجہ کھیتوں پر لگائے رکھ سکتے ہیں اور مجھ جیسے لوگ ان کی زرعی مصنوعات کو خریدنے کے لیے آگے آ سکتے ہیں۔‘‘ اس طرح سے کھیت، بازار اور گھر کے درمیان کی دوری کو مؤثر طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

وہ پرعزم لہجے میں کہتی ہیں، ’’آج کل سب کچھ آپ کی کہانی پر منحصر ہے۔ اگر گاہک میرے پیکج کو اپنے گھر پر رکھتے ہیں اور بچت کے پیسے جمع کرنے کے لیے اس تھیلی کا استعمال کرتے یں، تو ہماری برانڈ لگاتار ان کے ذہن میں بنی رہے گی۔‘‘ اور اس کے بدلے، جیسا کہ انہیں لگتا ہے، تمل ناڈو کی ہلدی دور دور تک پہنچے گی۔ بہت دور تک…

اس تحقیقی مقالہ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ گرانٹ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہوا ہے۔

کور فوٹو: ایم پلانی کمار

مترجم: محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique