’’ہم بھوکے رہ سکتے ہیں، لیکن اپنی پارٹی کے جھنڈے کے ساتھ ہی چلیں گے۔ ہمیں چلنا ہی چاہیے۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے،‘‘ تالوپورو کے ایم نارائن سوامی کہتے ہیں۔ وہ اس گاؤں میں راشن کی دکان چلاتے ہیں۔ ان کا گاؤں اننت پور ضلع کے راپتاڈو اسمبلی حلقہ کے تحت آتا ہے۔ وہ اس انتخابی مہم  کی بات کر رہے ہیں جس کے تحت آج ۱۱ اپریل کو ریاستی اسمبلی اور لوک سبھا دونوں کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں لوگوں کی سوچ کیا ہے، وہ کیسے ووٹ دیں گے، وہ کس کو ووٹ دیں گے اور کیوں دیں گے۔

یہاں زمینی سطح پر زیادہ تر توجہ اور گفتگو کا مرکز راپتاڈو اورپُلی ویندولا اسمبلی حلقے ہیں جو بالترتیب ہندو پور اور کڈپا لوک سبھا حلقوں کے تحت آتے ہیں۔

راپتاڈو میں مقابلہ حکمراں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی پاریتالا شری رام اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی (وائی ایس آر سی پی) کے تھوپودُرتھی پرکاش ریڈی کے درمیان ہے۔ ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۴ میں شری رام کی ماں پاریتالا سُنیتا نے اس سیٹ سے ریڈی کو شکست دی تھی ۔ پُلی ویندولا میں وائی ایس آر سی پی لیڈر جگن موہن ریڈی کا مقابلہ ٹی ڈی پی کے ایس وی ستیش کمار ریڈی سے ہے۔ اگلے وزیر اعلی کے ممکنہ دعویدار کے طور پر بہتوں کی نظر میں جگن موہن کو سبقت حاصل ہے۔

ہندو پور لوک سبھا حلقہ میں مقابلہ ٹی ڈی پی کی نِمّلا کِستپّا اور وائی ایس آر سی پی کے گورنٹلا مادھو کے درمیان ہے۔ کڈپا لوک سبھا سیٹ سے وائی ایس آر سی پی کے موجودہ رکن پارلیمنٹ (ایم پی) وائی ایس اویناش ریڈی اپنے اصل حریف ٹی ڈی پی کے آدی نارائن ریڈی کے مد مقابل ہیں۔

بہرحال، اننت پور کے گاؤوں میں لوگوں کا جھکاؤ الگ الگ امیدواروں کی بجائے پارٹی اور گروہی وفاداریوں کی طرف زیادہ ہے۔ راپتاڈو میں ہم نے جن گاؤں والوں سے بات چیت کی انہوں نے یہ احساس دلایا کہ ان کی توجہ ہندو پور لوک سبھا سیٹ کے مقابلے اسمبلی انتخاب پر زیادہ ہے (حالانکہ وہ دونوں کے لیے ووٹ ڈالیں گے)۔ درحقیقت، ان حلقوں میں ہر جگہ ووٹروں کی دلچسپی ریاستی اسمبلی انتخابات میں کہیں زیادہ ہے۔

Bags with Chandrababu Naidu’s image, are given at ration stores in Andhra Pradesh.
PHOTO • Rahul M.
A farmer, who supports Naidu's TDP, watches as a TDP leader campaigns in Anantapur city
PHOTO • Rahul M.

بائیں: چندر بابو نائیڈو کی تصویر والے یہ تھیلے آندھرا پردیش میں راشن کی دکانوں پر تقسیم کیے گئے ہیں۔ دائیں: نائیڈو کی ٹی ڈی پی کا ایک حامی اننت پور شہر میں ٹی ڈی پی لیڈر کی انتخابی مہم کو دیکھ رہا ہے

اننت پور میں نارائن سوامی اور دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کی وابستگی آپ کے ذاتی خدشات اور آپ کے حلقے کے مسائل دونوں کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔ اس ضلع کے گاؤوں میں کارکنان اکثر اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں یا بھوکے رہتے ہیں اور اپنی جماعتوں یا گروہوں کے لیے جی توڑ محنت کرتے ہیں۔

نارائن سوامی کہتے ہیں کہ ’’ہمیشہ ووٹروں کی ایک ایسی اقلیت ہوتی ہے،‘‘ جو کسی کے ساتھ نہیں ہوتی، لیکن ہرایک سے کچھ نہ کچھ حاصل کر لینے کی فراق میں رہتی ہے۔ ’’ایسے لوگوں کے لیے ہماری حکومت نے ایک روپیہ کا بھی فائدہ نہیں پہنچایا۔‘‘ بہت سے دوسرے لوگ پارٹی، گروہ اور ذات کے خطوط پر منقسم ہو کر ووٹ دے سکتے ہیں۔ نارائن سوامی خود ایک پرعزم ٹی ڈی پی ووٹر ہیں۔

جو لوگ اننت پور سے واقف نہیں ہیں ان کے لیے گروہی اور سیاسی وابستگی، اور فلمی ستاروں سے عقیدت الجھن کا باعث ہو سکتی ہے۔ اس گروہ بندی نے اس ضلع کو سیاسی تنازعات اور تشدد کا ایک سلسلہ بھی دیا ہے۔ اس ضلع کے ایک سے زیادہ ایم ایل اے (ممبر آف لیجسلیٹو اسمبلی) گزشتہ برسوں میں خونی موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ ووٹر اتنے نادان نہیں ہیں کہ انہیں اپنے حلقے اور علاقے کے مسائل کی خبر نہ ہو۔ پھر بھی ان میں سے کئی اس بنیاد پر ووٹ نہیں دے سکتے ہیں۔ وہ صرف اپنی وابستگی کی بنیاد پر ووٹ دیں گے۔

اننت پور میں آپ کی سیاسی وابستگی ہی آپ کا مدعا بن جاتی ہے۔

رائل سیما علاقے (اننت پور جس کا ایک حصہ ہے) کے بہت سے گاؤوں کی یہی حقیقت ہے، خاص طور پر انتخابی سال میں۔ ٹی ڈی پی کے دور حکومت میں فلاحی پروگراموں کا تعین سیاسی وفاداریوں کی بنیاد پر ہوا ہے۔ ایسا دوسری جماعتوں کے دور حکومت میں بھی ہوتا تھا، لیکن پچھلے پانچ سالوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے ٹی ڈی پی کی حمایت تو کی ہے، لیکن ٹی ڈی پی حکومت  سے فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ لوگ اب بھی اس پارٹی کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ دوسرے لوگ، جیسے کسی فلمی ستارے کے پکے مداح اپنے ہیرو کے ساتھ جائیں گے۔ کئی ایسے بھی ہوں گے جو کسی خاص ذات سے وابستہ گروہ کی حمایت کر سکتے ہیں۔

A TDP admirer in Anantapur is excited about an N. T. Rama Rao biopic.
PHOTO • Rahul M.
A poster of the biopic features Paritala Sunitha and Paritala Sreeram and other TDP leaders
PHOTO • Rahul M.

آندھرا پردیش میں عوام کی وابستگی گروہی یا سیاسی بھی ہو سکتی ہے اور کسی فلمی ستارے کے معاملے میں عقیدت مندانہ بھی ہوسکتی ہے، اور اسی بنیاد پر ان کے ووٹوں کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ بائیں: اننت پور میں ٹی ڈی پی کا ایک مداح این ٹی راما راؤ کی بایوپک کو لے کر پرجوش ہے۔ دائیں: بائیوپک کے ایک پوسٹر میں پاریتالا سنیتا اور پاریتالا شری رام اور دیگر ٹی ڈی پی لیڈروں کو دکھایا گیا ہے

ایسی وابستگی حکمراں ٹی ڈی پی کے اندر بھی کام کرتی ہے۔ راپتاڈو حلقہ میں ٹی ڈی پی کا ایک چھوٹا لیڈر مایوس ہے، کیونکہ قرض حاصل کرنے میں اس کی پارٹی نے اس کی مدد نہیں کی۔ اسے قرض کی سخت ضرورت تھی۔ سیاسی کارکن یہاں اس بات کا اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی وابستگی کس طرح فوائد کے حصول کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اندر طاقت کے ڈھانچے کا تعین کر سکتی ہے۔ وفاداری اور ذات پات  کے لحاظ سے جو قیادت کے سب سے زیادہ قریب ہوں گے، وہ سب سے زیادہ فائدے میں رہیں گے۔ لیکن عام طور پر ایسا اسی پارٹی کے دوسرے لوگوں کے مفاد سے سمجھوتہ کر کے ہوتا ہے۔

’’انہیں [چھوٹے لیڈر کو] قریب قریب وہ قرض مل گیا تھا، لیکن آخر میں اسے نامنظور کر دیا گیا تھا۔ تاہم، اگر ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں، تو یہ اچھا نہیں لگتا،‘‘ ٹی ڈی پی کے کارکن وضاحت کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں سرکاری قرض یا اسکیم کی منظوری کے امکانات درخواست دہندگان کی سیاسی وابستگی پر منحصر ہوتے ہیں۔

راپتاڈو پچھلے کچھ برسوں سے ٹی ڈی پی کا گڑھ رہا ہے۔ لیکن ریاستی سطح پر حکومت کی تبدیلی گاؤں میں سیاسی طاقت کی سمت بدل سکتی ہے۔ پاریتالا سُنیتا، راپتاڈو کی ایم ایل اے  ہیں جن کے شوہر، پاریتالا رویندر کو ۲۰۰۴ کے اسمبلی انتخابات میں ٹی ڈی پی کی شکست کے بعد، ایک سال کے اندر دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔

یہ قتل آپسی رنجش والے دو خاندانوں کے درمیان ساڑھے چار دہائیوں کی گروہی جنگ کا حصہ تھا۔ دو نسلوں پر پھیلی ہوئی یہ ایک ایسی کہانی تھی جس نے رام گوپال ورما کو دو حصوں والی فلم ’رکت چرتر‘ (خونی تاریخ) بنانے کی ترغیب دی۔ فلم کا اختتام مقتول ایم ایل اے پاریتالا رویندر سے متاثر کردار کے قتل کے فوراً بعد ایک بچے کی پیدائش پر ہوتا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پاریتالا کے بیٹے، شری رام اسی راپتاڈو حلقہ سے ٹی ڈی پی کے ٹکٹ پر انتخابی میدان میں ہیں اور آندھرا پردیش کی سیاست میں داخل ہو رہے ہیں۔

YSRCP activists in a village in Raptadu constituency
PHOTO • Rahul M.
YSRCP activists in a village in Raptadu constituency
PHOTO • Rahul M.

راپتاڈو حلقہ کے ایک گاؤں میں وائی ایس آر سی پی کے کارکن

آزادی کے بعد رائل سیما خطے کی سیاسی تاریخ قتل و غارت گری اور تشدد سے عبارت ہے۔ ان برسوں کے دوران اپنی سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے درجنوں قاتل بنے یا قتل کیے گئے۔ اس خطے کا کڈپا ضلع (سال ۲۰۱۰ میں اس کا نام بدل کر وائی ایس آر ضلع کر دیا گیا تھا) وائی ایس آر سی پی لیڈر جگن موہن ریڈی کا آبائی ضلع ہے، یہاں بھی گروہ بندی کی اپنی جنگ ہے۔ جگن موہن ریڈی آنجہانی وزیر اعلی وائی ایس راج شیکھر ریڈی (وائی ایس آر کے نام سے مشہور) کے بیٹے ہیں، جن کی ۲۰۰۹ میں ایک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔ اور جگن موہن ریڈی کی پارٹی، جسے انہوں نے کانگریس سے نکلنے کے بعد بنائی تھی اور جسے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کہا جاتا ہے، آندھرا پردیش کے اسمبلی انتخابات میں اقتدار کی بڑی دعویدار ہے۔

دراصل اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے یہاں طاقتور لوگوں کا بھی قتل ہوا ہے۔ وائی ایس آر کے والد، وائی ایس راجا ریڈی کو ۱۹۹۹ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ایک موجودہ ایم ایل اے پی شیوا ریڈی کا ۱۹۹۳ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ایک سابق وزیر پر مقدمہ چلایا گیا اور اس قتل کے لیے مجرم قرار دیا گیا، لیکن بعد میں ہائی کورٹ نے انہیں بری کر دیا۔ اس سال مارچ میں وائی ایس آر کے بھائی وویکانند ریڈی کو پُلی ویندولا میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا تھا۔ جگن موہن ریڈی اس حلقہ سے موجودہ ایم ایل اے ہیں اور اس دفعہ بھی یہاں سے انتخاب میں قسمت آزما رہے ہیں۔

کڈپا سے وائی ایس آر سی پی کے موجودہ ایم پی اویناش ریڈی نے ۲۰۱۴ میں اس لوک سبھا سیٹ سے ٹی ڈی پی کے امیدوار کو تقریباً ۲ لاکھ ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ سال ۲۰۱۱ میں اس سیٹ سے جگن موہن ریڈی جیتے تھے۔ انہوں نے کانگریس کے اپنے نزدیکی حریف کو تقریباً ۵ لاکھ ۵۰ ہزار ووٹوں کے ریکارڈ فرق سے شکست دی تھی۔ تاہم، اس بار عوام کی زیادہ دلچسپی پلی ویندولا (جو کڈپا میں ہے) اسمبلی سیٹ کو لے کر ہے۔

At the entrance to Talupuru village.
PHOTO • Rahul M.
TDP/YSRCP campaign autos in Anantapur city
PHOTO • Rahul M.

بائیں: تالوپورو گاؤں کا دروازہ۔ دائیں: اننت پور شہر میں ٹی ڈی پی/ وائی ایس آر سی پی کے انتخابی مہم کے آٹوز

رائل سیما میں ہونے والے قتل کبھی کبھی ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ اقتدار کھونے کے بعد انتقام کا اندیشہ اننت پور میں بہت سے ٹی ڈی پی کارکنوں کو پریشان کر رہا ہے۔ وہی وابستگی جو ان کے لیے فلاح و بہبود اور سیاسی طاقت کا باعث تھی اب انہیں خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ وائی ایس آر سی پی کے کارکن اس انتخاب کو لے کر محتاط طور پر پراعتماد ہیں۔ وائی ایس آر سی پی کے ایک کارکن جنہوں نے مجھے ٹی ڈی پی کا حامی سمجھ لیا تھا، پولیس سے میری شکایت کرنا چاہتے تھے، کیونکہ میں ’پوچھ گچھ‘ کر رہا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ میں راپتاڈو اسمبلی حلقہ میں ان کے گاؤں ووڈی پلی میں کسانوں کا انٹرویو کرنا بند کر دوں۔

بہرحال، وائی ایس آر سی پی کا اعتماد ان ووٹروں سے آتا ہے، جنہیں ٹی ڈی پی نے منظم طریقے سے فلاح و بہبود اور ترقی سے محروم رکھا تھا۔ یہ وہ ووٹر ہیں جن کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہے۔

آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے ٹوکری ساز، ساکے گنگنّا کا تعلق کسی پارٹی یا دھڑے سے نہیں ہے۔ سڑک کی توسیع کے منصوبے میں ان کی جھونپڑی چلی گئی تھی۔ اسی جھنپڑی کے سامنے ٹی ڈی پی کے حامیوں کو زمین الاٹ کی گئی۔ ’’جب میں نے گزارش کی کہ ’بھائی، براہ کرم مجھے زمین دے دو‘، تو انہوں نے کہا کہ وہ نہیں دیں گے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں انکار کر دیا۔‘‘ گنگنا اس بار وائی ایس آر سی پی کو ووٹ دیں گے۔

وہ ٹوکریاں یا لکڑی کی دوسری مصنوعات فروخت کرنے کے لیے روزانہ تقریباً ۵۰ کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ گنگنّا کہتے ہیں، ’’ہمارا پیشہ دستکاری پر مبنی ہے۔ ہمارے پاس کوئی زمین نہیں ہے، بھائی۔ ہمیں سیاسی لیڈروں کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم کسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ اگر وائی ایس آر سی پی غلطی کرتی ہے تو ہم اس پر تنقید بھی کریں گے۔‘‘ بہت ممکن ہے کہ سرکاری اسکیموں میں نظرانداز کیے گئے گنگنا جیسے لوگوں کے ووٹ آندھرا پردیش میں حکومت کی تبدیلی کا سبب بنیں۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul M.

Rahul M. is an independent journalist based in Andhra Pradesh, and a 2017 PARI Fellow.

Other stories by Rahul M.
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam