یہ مئی کی ایک گرم اور امس بھری دوپہر ہے، لیکن موہا میں واقع حضرت سید علوی رحمت اللہ علیہ کی درگاہ لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے۔ چالیس کنبے، جو مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے ہیں، اپنی سالانہ عبادت اور کندوری نامی دعوت میں مصروف ہیں۔ ڈھوبلے فیملی ان میں سے ایک ہے اور میں اور میری فیملی ضلع عثمان آباد کے کلمب بلاک میں واقع اس ۲۰۰ سال پرانی درگاہ میں ان کے مہمان ہیں۔

گرمیوں کے مہینوں میں جب کاشتکار کنبوں کے پاس کچھ خالی وقت ہوتا ہے، تو مراٹھواڑہ کے علاقے عثمان آباد، لاتور اور چھ دیگر اضلاع (بیڈ، جالنہ، اورنگ آباد، پربھنی، ناندیڑ اور ہنگولی) میں پیروں (مقدس شخصیات) کی درگاہیں عام طور پر سرگرمیوں سے بھر جاتی ہیں۔ جمعرات اور اتوار کو یہ کنبے بڑی تعداد میں یہاں پہنچتے ہیں۔ بکرے کی قربانی دیتے ہیں، پکے ہوئے گوشت کا نیوڈ (نذرانہ) چڑھاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، ایک ساتھ مل کر کھانا کھاتے ہیں اور دوسروں کو کھلاتے ہیں۔

عثمان آباد کے ییڈشی سے تعلق رکھنے والی ہماری رشتہ دار ۶۰ سالہ بھاگیرتھی کدم بتاتی ہیں، ’’ہم نے کئی نسلوں سے یہ [کندوری] کرتے آ رہے ہیں۔ مراٹھواڑہ کا خطہ (بشمول حیدرآباد کے نظام کی ۲۲۴ سالہ حکومت کے) ۶۰۰ سال سے زائد عرصے تک اسلامی حکومت کے ماتحت رہا ہے۔ ان اسلامی مزارات پر عقیدت رکھنا اور زیارت کرنا لوگوں کے عقیدہ اور رسومات کا حصہ رہا ہے، جو ایک مشترکہ طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

’’ہم پوجا کرنے گڈ دیودری جاتے ہیں۔ تاورج کھیڑا کے لوگ یہاں موہا آتے ہیں اور آپ کے گاؤں [لاتور ضلع کے بورگاؤں بُدرُک] کے لوگوں کو شیرا جانا پڑتا ہے،‘‘ بھاگیرتھی، جنہیں پیار سے بھاگا ماوشی کہا جاتا ہے، الگ الگ گاؤوں کے عبادت کے لیے مخصوص درگاہوں سے وابستہ صدیوں پرانے رسم و رواج کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

یہاں موہا میں حضرت سید علوی کی درگاہ کے قریب ہر درخت اور ٹن کی چھتوں یا تنے ہوئے شامیانوں کے نیچے لوگوں نے چولہے جلا رکھے ہیں اور درگاہ کی زیارت کے دوران چڑھاوے کے لیے کھانا پکایا جا رہا ہے۔ مرد اور عورتیں گپ شپ میں مشغول ہیں، جب کہ بچے دل کھول کر کھیل رہے ہیں۔ ہوا گرم ہے لیکن مغربی آسمانوں سے اٹھنے والے بادل اور درگاہ کے داخلی راستے پر موجود پرانے املی کے درختوں کے سائے گرمی سے راحت فراہم کر رہے ہیں۔ درگاہ میں موجود آبی ذریعہ (ایک ۹۰ فٹ گہرا، پتھر کا پرانا کنواں جسے بارَو کہتے ہیں) خشک ہو چکا ہے، لیکن ایک عقیدت مند نے ہمیں بتایا کہ یہ ’’مانسون کی بارش کے دوران پانی سے بھر جائے گا۔‘‘

Left: Men offer nivad and perform the rituals at the mazar at Hazrat Sayyed Alwi (Rehmatullah Alaih) dargah (shrine) at Moha.
PHOTO • Medha Kale
Right: Women sit outside the mazar, near the steps  to watch and seek blessings; their heads covered with the end of their sarees as they would in any temple
PHOTO • Medha Kale

بائیں: موہا میں حضرت سید علوی رحمت اللہ علیہ کی درگاہ (مزار) پر مرد نیوڈ چڑھا رہے ہیں اور رسومات ادا کر رہے ہیں۔ دائیں: خواتین زیارت کرنے اور برکت حاصل کرنے کے لیے مزار کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی ہیں؛ ان کے سر ان کی ساڑیوں کے سروں سے ڈھکے ہوئے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کسی مندر میں داخل ہوتے وقت ڈھکے ہوتے ہیں

Left: People sit and catch up with each other while the food is cooking.
PHOTO • Medha Kale
Right: People eating at a kanduri feast organised at the dargah in Moha, Osmanabad district
PHOTO • Medha Kale

بائیں: کھانا پکاتے وقت لوگ بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ دائیں: ضلع عثمان آباد کے موہا میں درگاہ پر منعقد کندوری دعوت کا لطف اٹھاتے لوگ

ایک ۶۰ برس کا آدمی اپنی بوڑھی ماں کو پیٹھ پر اٹھائے درگاہ میں داخل ہوتا ہے۔ ماں کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ ہے۔ انہوں نے نو گز کی ہلکی سبز رنگ کی ارکل ساڑی پہن رکھی ہے، جسے اس خطے میں ہندو اور مسلمان دونوں خواتین پہنتی ہیں۔ جیسے ہی ان کا بیٹا مزار کی پانچ سیڑھیاں چڑھتا ہے ماں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، اور وہ ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے دعا کرتی ہیں۔

دوسرے عقیدت مند ان کی پیروی کرتے ہیں۔ ان میں ایک چالیس سال کی ظاہری طور پر بیمار اور پریشان حال عورت بھی شامل ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ درگاہ میں داخل ہوتی ہیں۔ مزار، مرکزی دروازے سے تقریباً ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے دونوں ہی آہستہ روی سے آگے بڑھتی ہیں۔ وہ مزار پر ناریل اور کچھ پھول چڑھاتی اور اگربتیاں جلاتی ہیں۔ مجاور ٹوٹا ہوا ناریل واپس کرتا ہے اور بیمار عورت کی کلائی پر باندھنے کے لیے ایک دھاگہ دیتا ہے۔ ماں جلی ہوئی اگربتی کی چٹکی بھر راکھ بیٹی کے سر پر لگاتی ہے۔ دونوں کچھ دیر املی کے درخت کے سائے میں بیٹھتی ہیں اور پھر چلی جاتی ہیں۔

مزار کے پیچھے لگی دھات کی باڑ نیان اور ہلکے سبز رنگ کے شیشے کی چوڑیوں سے لدی ہوئی ہے۔ تمام مذاہب کی خواتین ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ ان کی بیٹیوں کے لیے مناسب رشتے مل جائیں۔ ایک طرف ایک کونے میں لکڑی کا ایک بڑا گھوڑا کھڑا ہے جس کے سامنے مٹی کے چند چھوٹے چھوٹے گھوڑے رکھے ہوئے ہیں۔ بھاگا ماوشی نے بتایا، ’’یہ ان معزز مسلمان فقیروں کی یاد میں پیش کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں میں گھوڑوں پر سواری کی تھی۔‘‘ اسے سننے کے بعد میں سوچ میں پڑ گئی۔

مجھے یاد آیا کہ میری ساس کے گھر میں اسی طرح کے دو گھوڑوں کی روزانہ پوجا کی جاتی تھی۔ ان کا واقعی کچھ مطلب ہے۔ دراصل ایک کا تعلق بھیروبا سے ہے جو ہندوؤں کے دیوتا ہیں، جبکہ دوسرے کا تعلق اس پیر (ایک قابل احترام مسلمان فقیر) سے ہے۔

Left: Women who are seeking a match for their daughters tie bunches of light green or neon bangles to a metal fence behind the mazar.
PHOTO • Medha Kale
Right: A large wooden horse with a few clay horse figurines are offered by people in memory of revered saints who rode faithful horses
PHOTO • Medha Kale

بائیں: وہ خواتین جو اپنی بیٹیوں کے لیے رشتوں کی تلاش میں ہیں وہ ہلکے سبز یا نیان رنگ کی چوڑیوں کے گچھے مزار کے پیچھے دھات کی باڑ سے باندھ دیتی ہیں۔ دائیں: لکڑی کا ایک بڑا گھوڑا جس کے ساتھ چند مٹی کے چھوٹے چھوٹے  گھوڑوں کے یہ مجسمے جو ان بزرگوں کی یاد میں پیش کیے جاتے ہیں جنہوں نے وفادار گھوڑوں کی سواری کی تھی

*****

بہت سی خواتین آدھی رات سے ہی سالانہ کندوری دعوت کی تیاری کر رہی ہیں، جس میں گوشت کا سالن اور بھاکری شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگ مٹن نہیں کھا رہے ہوں گے کیونکہ جمعرات ان کے کیلنڈر میں بغیرگوشت کا دن ہوتا ہے۔ ’’کھانا اتنا اہم نہیں ہے،‘‘ ایک خاتون نے کہا۔ ’’ ہے دیوچا کام آہے، ماے [پیارے، ہم یہ کام دیوتا کے لیے کرتے ہیں]،‘‘ وہ مجھے بڑے پیار سے سمجھاتی ہیں۔

ایسی تقریبات میں خواتین کی حصہ داری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن بہت سے لوگ جو یہ کھانا نہیں کھاتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ سبزی خوروں اور اپواس کرنے والوں کے لیے پکا ہوا اپواس کا کھانا کھا کر خوش ہیں۔ وہ اس حقیقت سے پریشان نہیں ہوتے کہ سبزی اور گوشت ایک ہی چولہے پر پکائے جائیں گے اور ایک ہی پلیٹوں میں پروسے جائیں گے: کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ کسی کے جذبات مشتعل نہیں ہوتے ہیں۔

لکشمی کدم پونے میں رہتی ہیں اور اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے آئی ہیں۔ سینکڑوں بھاکریاں بناتے، سالن کے لیے مسالے پیستے، برتن دھوتے اور صفائی کرتے وہ تھک گئی ہیں۔ ’’مجھے ان کی [مسلمانوں کی] عورتوں پر رشک آتا ہے،‘‘ وہ تھکے ہوئے لہجے میں کہتی ہیں۔ ’’بریانی کی ایک بڑی دیغ اور ان کا کام ہوگیا! ہا اسلا راڑا نکو، نہ کاہی نکو [انہیں اتنا کام نہیں کرنا پڑتا جتنا ہمیں کرنا پڑتا ہے]۔‘‘

’’ان کے گال دیکھو، کتنے خوبصورت اور گلابی ہیں!‘‘ ان کی حسد خیالات اور تخیل کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس کی زیادہ تر خواتین دبلی پتلی اور زیادہ کام کرنے والی ہیں، سوائے اونچی ذات کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی چند ایک خواتین کے۔ لیکن وہ بھی لکشمی کی خیالی ’’گلابی گالوں والی‘‘ خواتین نہیں ہیں۔

Left: Men are in charge of both cooking and serving the meat.
PHOTO • Medha Kale
Right: Men serve the mutton dish; women eat after making hundreds of bhakri
PHOTO • Medha Kale

بائیں: گوشت پکانے اور پروسنے دونوں کے ذمہ داری مردوں پر ہے۔ دائیں: مرد مٹن پیش کرتے ہیں۔ خواتین سینکڑوں بھاکریاں بنا کر کھانا کھاتی ہیں

Left: Men sitting and chatting after the feast, sharing a paan and some laughs.
PHOTO • Medha Kale
Right:  The region of Marathwada was under Islamic rule for more than 600 years. Belief and worship at these Islamic shrines are ingrained in people’s faith and rituals – representing a syncretic way of life
PHOTO • Medha Kale

بائیں: مرد تقریب کے بعد بیٹھ کر بات چیت کر رہے ہیں، پان تقسیم کر رہے ہیں اور کچھ ہنسی مذاق میں مشغول ہیں۔ دائیں: مراٹھواڑہ کا خطہ ۶۰۰ سال سے زیادہ عرصے تک اسلامی حکومت کے تحت رہا ہے۔ ان اسلامی مزارات پر عقیدت رکھنا اور زیارت کرنا لوگوں کے عقیدہ اور رسومات کا اٹوٹ حصہ ہے، جو مشترکہ طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں

ان تقریبات کے دوران گوشت پکانے کا کام بطور خاص مردوں کے ذمہ ہے۔ مسلمان عقیدت مندوں کی طرف سے خوش ذائقہ اور خوشبودار بریانی پیش کی جاتی ہے۔

پانچ بھاکریاں، ایک پیالی شوربہ اور گوشت کے چنندہ ٹکڑے اور پسی ہوئی گندم کی چپاتیوں، گھی اور چینی یا گڑ سے بنا ہوا میٹھا ملیدہ درگاہ پر مجاور کو بطور نیوڈ پیش کیا جاتا ہے۔ مرد مزار کے قریب جاتے ہیں اور نیوڈ پیش کرتے ہیں۔ خواتین باہر سیڑھیوں پر بیٹھی نظر آتی ہیں اور دعائیں مانگتی ہیں، ان کے سر اپنی ساڑیوں کے سرے سے ویسے ہی ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کسی مندر میں ڈھکے ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ جب دعا ختم ہو جاتی ہے اور تحائف کا تبادلہ ہو جاتا ہے، تو دعوت کی باری آتی ہے۔ عورتیں اور مرد الگ الگ صفوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ اپواس کرنے والے (روزہ دار) اپواس کا کھانا کھاتے ہیں۔ دعوت رسمی طور پر اس وقت ختم ہوتی ہے جب درگاہ میں کام کرنے والے پانچ فقیروں اور پانچ خواتین کو کھانا پیش کر دیا جاتا ہے۔

*****

چند ہفتوں کے بعد میری ۷۵ سالہ ساس گیا بائی کالے نے گھر کے قریب ایک درگاہ پر دعوت کا اہتمام کیا۔ وہ کچھ عرصے سے اس کا منصوبہ بنا رہی تھیں اور اس سال (۲۰۲۳ میں) اپنی چھوٹی بیٹی زُمبر کے ساتھ مہاراشٹر کے لاتور کے رینا پور بلاک کے ایک چھوٹے سے گاؤں شیرا میں واقع درگاہ کی زیارت کرنے پہنچیں۔

Left: A woman devotee at Dawal Malik dargah in Shera coming out after offering her prayers at the mazar .
PHOTO • Medha Kale
Right: Shriram Kamble (sitting on the floor) and his friend who did not want to share his name enjoying their time out
PHOTO • Medha Kale

بائیں: شیرا میں داول ملک کی درگاہ سے ایک خاتون عقیدت مند مزار کی زیارت کے بعد باہر آرہی ہے۔ دائیں: شری رام کامبلے (فرش پر بیٹھے ہوئے) اور ان  کے دوست (جو اپنا نام بتانا نہیں چاہتے) اپنے فرصت کے لمحات کا لطف اٹھا رہے ہیں

Left: Gayabai Kale is joined by her daughter Zumbar in the annual kanduri at Dawal Malik in Latur district.
PHOTO • Medha Kale
Right: A banyan tree provides some shade and respite to the families who are cooking the meat, as well as families waiting to offer nivad and prayers at the dargah
PHOTO • Medha Kale

بائیں: گیا بائی کالے اپنی بیٹی زُمبر کے ساتھ لاتور ضلع میں داول ملک کی درگاہ پر سالانہ کندوری میں شامل ہوئیں۔ دائیں: برگد کا درخت جو گوشت پکانے کے ساتھ ساتھ  درگاہ پر نیوَڈ پیش کرنے اور عبادت کے منتظر کنبوں کو سایہ اور سکون فراہم کرتا ہے

داول ملک کی یہ درگاہ موہا میں واقع درگاہ سے چھوٹی ہے۔ ہم مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ۱۵ ہندو کنبوں سے ملے۔ خواتین کا ایک گروپ مزار کے سامنے بیٹھ کر چند بھجن (ہندو دیوتاؤں کی تعظیم میں بھکتی گیت) پیش کرتا ہے؛ کچھ لوگ ایک بزرگ مسلمان فقیر سے بات کر رہے ہیں اور گھریلو معاملات میں ان سے مشورہ طلب کر رہے ہیں۔ لڑکوں کا ایک بینڈ، جن میں زیادہ تر دلت ہیں اور جن کا اب بھی بہت سے مندروں میں استقبال نہیں کیا جاتا، نیوَڈ پیش کیے جانے کے دوران ہلگی (ڈھول) بجاتا ہے۔

گیا بائی کے بڑے بیٹے بالا صاحب کالے کھانا بنوانے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ لاتور کے بورگاؤں بُدرُک  کے ایک چھوٹے کسان ہیں۔ وہ بکریوں کو ذبح کرنے میں اپنی ماں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ ایک مسالہ دار، مزیدار شوربہ بھی بناتے ہیں۔ ماں بیٹی کی جوڑی نیوَڈ پیش کرتی ہے اور کنبہ درگاہ پر موجود دوسرے لوگوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھانا کھاتا ہے۔

جن خواتین سے میں دو درگاہوں میں ملی، ان کے لیے عبادت اور دعوت کی یہ رسم ایک وعدے کی مانند ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے۔ ’’یہ پسند کی بات نہیں ہے۔ وجھ است، اتراو لاگت [یہ ایک بوجھ ہے، جسے اتارنا ہے]۔‘‘ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا تو کچھ خوفناک واقعہ پیش آجائے گا۔

زیارت، کھانا پکانے، دعوت کرنے اور کھانے کے دوران وہ اپنی ہندو شناخت کو برقرار رکھتے ہیں، اور ان مزاروں کو وہ اپنی عبادت گاہوں کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

’’یہ [پیر] میرے دیوتا ہیں اور میں یہاں عبادت کرتی رہوں گی۔ میرے دادا نے یہ کیا، میرے والد نے کیا اور میں بھی کرتی رہوں گی،‘‘ گیا بائی یقین اور اٹل ایمان کے ساتھ کہتی ہیں۔

Left: Women spend hours making hundreds of bhakris for the kanduri feast.
PHOTO • Medha Kale
Right: Men like Maruti Fere, Gayabai’s brother, preparing the mutton
PHOTO • Medha Kale

بائیں: خواتین کندوری کی دعوت کے لیے سینکڑوں بھاکریاں بنانے میں گھنٹوں گزارتی ہیں۔ دائیں: ماروتی فیرے (جو گیا بائی کے بھائی ہیں) جیسے مرد مٹن تیار کرتے ہیں

Left: Balasaheb Kale is in charge of cooking the meat at dargah Dawal Malik.
PHOTO • Medha Kale
Right: Prayers and nivad are offered at the mazar and Kale family eats the kanduri meal
PHOTO • Medha Kale

بائیں: بالاصاحب کالے درگاہ داول ملک پر کھانا بنوانے کا انتظام دیکھ رہے ہیں۔ دائیں: مزار پر عبادت اور نیوڈ ادا کی جاتی ہے اور کالے فیملی کندوری کا کھانا کھا رہی ہے

*****

اسی مہینے (مئی ۲۰۲۳) میں جب گیا بائی، بھاگا ماوشی اور دیگر عقیدت مند اپنے وعدوں کو پورا کر رہے تھے اور ۵۰۰ کلومیٹر دور درگاہوں کا دورہ کر رہے تھے، تو تِریمبکیشور کے رہنے والے سلیم سید، ناسک ضلع کے تِریمبکیشور مندر کے دروازے پر چندن کی دھوپ چڑھانے گئے تھے۔ ساٹھ برس کی عمر میں ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہو گئے، جو ۱۰۰ سال سے زیادہ پرانی رسم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہیں اپنے ’تِریمبک راجہ‘ پر پختہ عقیدہ تھا اور اسی لیے چادر چڑھانے کے لیے سالانہ عرس ہوتا تھا۔ مگر ہر کسی کی قسمت درگاہ پر جانے والوں جیسی نہیں ہوتی ہے، کچھ کا نام سلیم سید بھی ہوتا ہے۔

لیکن سید اور دیگر لوگوں کو دروازے پر ہی روک لیا گیا اور مندر میں زبردستی داخل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ایک بنیاد پرست ہندو رہنما نے مسلمان مردوں سے کہا کہ وہ ’اپنی عبادت کو اپنے مزارات تک محدود رکھیں‘۔ ان پر وہاں عبادت کرنے والے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ اور ’دہشت گردی کی کارروائی‘ کی جانچ کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

حیران اور دہشت زدہ سید نے عوامی طور پر معافی مانگی۔ انہوں نے سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس صدیوں پرانے رواج کو روکنے کا وعدہ کیا۔ یہ ایک ستم ظریفی ہی ہے کہ اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

مترجم: شفیق عالم

Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Translations Editor, Marathi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam