’’خواہ کولکاتا ہو، جے پور ہو، دہلی ہو یا بمبئی، ہر جگہ بانس سے بنی پولو کی گیندیں براہ راست دیولپور سے جاتی تھیں،‘‘ رنجیت مل ہندوستان کے ان شہروں کے نام بتاتے ہوئے کہتے ہیں جہاں پولو کھیلا جاتا تھا۔

مغربی بنگال کے مردم شماری شہر دیولپور میں پولو کی گیند بنانے والے دستکار ۷۱ سالہ رنجیت نے تقریباً ۴۰ سالوں تک گُوادُوا بانس کی جڑوں (ریزوم) سے گیند سازی کی ہے۔ بانس کی جڑوں کو مقامی طور پر بانسیر گوڑھا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ریزوم بانس کے تنے کا زمین کے اندر کا حصہ ہوتا ہے، جو اس کی نشوونما میں مددگار ہوتا ہے۔ آج رنجیت اس ہنر کے آخری دستکار ہیں، جو ان کے مطابق تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

جدید پولو ۱۶۰ سالوں سے زیادہ عرصے سے کھیلا جا رہا ہے۔ ابتدائی دور میں فوجیں، شاہی خاندان کے لوگ اور طبقہ اشرافیہ یہ کھیل کھیلا کرتا تھا، لیکن بانس کی گیندیں دیولپور سے ہی آتی تھیں۔ درحقیقت دنیا کے پہلے پولو کلب کا قیام ۱۸۵۹ میں سلچر (آسام) میں عمل میں آیا تھا۔ دوسرا کلب ۱۸۶۳ میں کلکتہ میں وجود میں آیا تھا۔ جدید پولو ساگول کانگجیئی (منی پور میں میَتیئی کمیونٹی کا ایک روایتی کھیل) کا ایک ورژن ہے، اور یہ میَتیئی ہی تھے جنہوں اس کھیل میں بانس کی جڑوں کی گیندوں کو متعارف کرایا تھا۔

۱۹۴۰ کی دہائی کے اوائل میں دیولپور گاؤں کے چھ سے سات کنبوں نے ۱۲۵ سے زیادہ دستکاروں کو کام پر رکھا۔ ان دستکاروں نے مل کر مجموعی طور پر سالانہ ایک لاکھ پولو کی گیندیں تیار کیں۔ رنجیت کہتے ہیں، ’’ہمارے ہنرمند شلپکار (کاریگر) پولو کے مارکیٹ کو جانتے تھے۔‘‘ ان کے دعووں کی تصدیق برطانوی دور حکومت میں ہوڑہ ضلع کی سروے اور سیٹلمیٹ رپورٹ سے بھی ہو جاتی ہے، جس میں کہا گیا ہے: ’’ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں دیولپور وہ واحد جگہ ہے جہاں پولو کی گیندیں بنتی ہیں۔‘‘

رنجیت کی بیوی مینوتی مَل کہتی ہیں، ’’پولو کی گیند سازی کے فروغ پاتے کاروبار کو دیکھ کر ہی میرے والد نے ۱۴ سال کی عمر میں میری شادی یہاں کر دی تھی۔‘‘ اب وہ اپنی عمر کی ساٹھویں دہائی میں ہیں۔ ایک دہائی پہلے تک وہ اس کام میں اپنے شوہر کی مدد کیا کرتی تھیں۔ اس کنبے کا تعلق مغربی بنگال میں درج فہرست ذات کے طور پر درج مَل برادری سے ہے۔ رنجیت نے اپنی تمام عمر دیولپور میں گزاری ہے۔

اپنے گھر کے اندر مدور گھاس کی چٹائی پر بیٹھے، وہ پرانے اخباری تراشوں اور میگزین کے مضامین کے اپنے قیمتی ذخیرے کو الٹ پلٹ رہے ہیں۔ ’’اگر آپ کو اس دنیا میں کہیں بھی لنگی پہنے گیند بناتے کسی شخص کی تصویر نظر آتی ہے، تو وہ تصویر میری ہوگی،‘‘ وہ فخریہ لہجے میں کہتے ہیں۔

Ranjit shows his photographs of ball-making published in a Bangla magazine in 2015 (left) and (right) points at his photograph printed in a local newspaper in 2000
PHOTO • Shruti Sharma
Ranjit shows his photographs of ball-making published in a Bangla magazine in 2015 (left) and (right) points at his photograph printed in a local newspaper in 2000
PHOTO • Shruti Sharma

رنجیت ۲۰۱۵ میں ایک بنگلہ میگزین میں شائع ہونے والی گیند سازی کی اپنی تصاویر دکھا رہے ہیں (بائیں) اور سال ۲۰۰۰ میں ایک مقامی اخبار میں چھپی اپنی تصویر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں (دائیں)

رنجیت کو سبھاش باگھ کے کارخانے (ورکشاپ) میں ٹیپ ریکارڈر پر بج رہے محمد رفیع کے گانے کے ساتھ کام کا ایک عام دن یاد آتا ہے۔ ’’میں رفیع کا بڑا بھکتو (مداح) ہوں۔ میں نے ان کے گانوں کی کیسٹیں بھی بنائی تھیں،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ فورٹ ولیم، کولکاتا سے پولو کھیلنے والے فوجی افسران گیند خریدنے آتے تھے۔ ’’ گان شونے پوچوندو ہوئی گے چھیلو۔ سوب کیسٹ نیئے گیلو [افسران نے گانا سنا اور پسند کیا۔ پھر وہ تمام کیسٹ اپنے ساتھ لے گئے]،‘‘ رنجیت یاد کرتے ہیں۔

دیولپور فخر کا مقام اس لیے تھا کیونکہ ہوڑہ ضلع کے اس خطے میں وافر مقدار میں پائے جانے والے گُوادُوا بانس، جسے مقامی طور پر گھورو بانس کہاجاتا ہے، یہاں آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے۔ گُوادُوا بانس جھرمٹ میں اگتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی جڑیں مضبوط اور زمین کے نیچے گہرائی تک پیوست ہوتی ہیں، اور جن سے پولو کی گیندیں تیار کی جاتی ہیں۔

’’بانس کی ہرایک نسل میں ایسی جڑیں نہیں ہوتیں، جو پولو گیندوں کے وزن اور سائز کے معیار سے مطابقت رکھتی ہوں،‘‘ رنجیت وضاحت کرتے ہیں۔ انڈین پولو ایسوسی ایشن کے طے کردہ معیارات کے مطابق ہر گیند کا قطر تقریباً ۷۸ سے ۹۰ ملی میٹر اور وزن ۱۵۰ گرام ہونا چاہیے تھا۔

سال ۱۹۹۰ کی دہائی تک پولو کی تمام گیندیں صرف اسی مواد سے بنتی تھیں۔ اس تجربہ کار دستکار کا کہنا ہے کہ ’’انہوں نے آہستہ آہستہ [بانس کی گیندوں] کو ارجنٹائن سے منگائی گئی فائبر گلاس کی گیندوں سے بدلنا شروع کر دیا۔‘‘

فائبر گلاس کی گیندیں زیادہ پائیدار ہوتی ہیں اور ان کی قیمت بھی بانس کی گیندوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن رنجیت کا کہنا ہے کہ ’’پولو بدستور پروچور دھونی لوک [انتہائی امیر لوگوں] کا کھیل ہے، اس لیے [گیندوں پر] زیادہ پیسہ خرچ کرنا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘‘ مارکیٹ میں اس تبدیلی نے دیولپور میں اس ہنر کو کچل دیا ہے۔ ’’۲۰۰۹ سے پہلے یہاں ۱۰۰ سے ۱۵۰ دستکار گیند بنانے کا کام کرتے تھے، لیکن ۲۰۱۵ آتے آتے پولو کی گیندیں بنانے والا میں واحد دستکار باقی بچ گیا تھا۔‘‘ اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

*****

Left: Carrying a sickle in her hand, Minoti Mal leads the way to their six katha danga-zomin (cultivable piece of land) to show a bamboo grove.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: She demarcates where the rhizome is located beneath the ground
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: ہاتھ میں درانتی لیے مینوتی مل بانس کی کوٹھی دکھانے کے لیے اپنی چھ کٹھہ ڈنگہ زومین (قابل کاشت زمین) تک لے جاتی ہیں۔ دائیں: وہ بتاتی ہیں کہ جڑ (ریزوم) زمین کے نیچے کہاں ہے

Left: The five tools required for ball-making. Top to bottom: kurul (hand axe), korath (coping saw), batali (chisel), pathor (stone), renda (palm-held filer) and (bottom left) a cylindrical cut rhizome - a rounded ball.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: Using a katari (scythe), the rhizome is scraped to a somewhat even mass
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: گیند بنانے کے لیے درکار پانچ اوزار۔ اوپر سے نیچے: کورول (کلہاڑی)، کورتھ (آری)، بٹالی (چھینی)، پاتھور (پتھر)، رینڈا (رندا) اور (نیچے بائیں) ایک بیلن کی شکل میں کاٹی ہوئی جڑ (گول گیند)۔ دائیں: کٹاری کا استعمال کرتے ہوئے، جڑ کی تقریباً ہموار سطح کو کھرچ دیا جاتا ہے

درانتی ہاتھ میں لیے مینوتی اپنی بانس کی کوٹھی کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں، میں اور رنجیت ان کے پیچھے ہیں۔ اس جوڑے کے پاس اپنے گھر سے تقریباً ۲۰۰ میٹر کے فاصلے پر چھ کٹھہ زمین ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کے لیے پھل اور سبزیاں اُگاتے ہیں، اور اضافی پیداوار مقامی دکانداروں کو فروخت کرتے ہیں۔

’’بانس کے تنے کو کاٹنے کے بعد جڑوں کو زمین کے نیچے سے نکالا جاتا ہے،‘‘ مینوتی جڑوں کو نکالنے کے عمل کی تفصیلات بتاتی ہیں۔ یہ کام بنیادی طور پر دیولپور کی سردار برادری لوگوں کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔ رنجیت ان سے بانس کی جڑیں حاصل کرتے تھے۔ ۲ سے ۳ کلو گرام وزنی جڑیں ۲۵ سے ۳۲ روپے میں فروخت ہوتی تھیں۔

جڑوں کو تقریباً چار ماہ تک دھوپ میں خشک کیا جاتا تھا۔ ’’ نا شوکلے، کاچا اوبوستھا تے بال چِٹکے جابے۔ ٹیڑھا بیکا ہُوئی جابے [اگر صحیح طریقے سے خشک نہ کیا جائے، تو گیند چٹک جاتی ہے اور بے ڈھب ہو جاتی ہے]،‘‘ رنجیت وضاحت کرتے ہیں۔

اس کے بعد انہیں ۱۵ سے ۲۰ دنوں تک تالاب میں بھگو دیا جاتا تھا۔ ’’ روڑ ے پاکا [دھوپ میں پکے] جڑوں کو نرم کرنے کے لیے بھگونا ضروری ہوتا ہے، بصورت دیگر آپ انہیں کاٹ نہیں سکتے،‘‘ بزرگ دستکار مزید کہتے ہیں، ’’ہم انہیں ۱۵ سے ۲۰ دنوں تک دوبارہ خشک کریں گے۔ تب ہی یہ گیند سازی کے لیے تیار ہوں گی۔‘‘

جڑوں کو کھرچنے کے لیے کٹاری یا کورول (کلہاڑی) کا استعمال ہوتا تھا اور ناہموار حصہ کو بیلن نما ٹکڑوں میں کاٹنے کے لیے کورتھ (آری) کا، ’’اس عمل میں ہر ایک مرحلے کو اکڑوں بیٹھ کر کرنا پڑتا تھا،‘‘ کمر کے دائمی درد میں مبتلا رنجیت کہتے ہیں۔ اب وہ صرف آہستہ آہستہ چل سکتے ہیں۔ ’’پولو کا کھیل ہم دستکاروں کی پشت پر کھیلا جاتا تھا،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔

بانس کی جڑوں سے بیلن نما ٹکڑوں کو کاٹ لینے کے بعد ایک چھینی کی مدد سے انہیں ایک مخصوص گول شکل دی جاتی تھی۔ اس کام کے لیے چھینی کے ہینڈل پر پتھر سے ضرب کیا جاتا تھا۔ جڑوں کے سائز کی بنیاد پر ہم ایک ٹکڑے سے دو، تین یا چار گیندیں بنا سکتے تھے،‘‘ رنجیت کہتے ہیں۔ اس کے بعد گیند کی سطح کو ہموار کرنے کے لیے وہ رندے کی مدد سے گیند کو چھیلتے تھے۔

گیند سازی پر ایک مختصر ویڈیو دیکھیں

دیولپور فخر کا مقام اس لیے تھا کیوںکہ یہاں گُوادُوا بانس آسانی سے دستیاب ہو جاتے تھے۔ اس بانس کو مقامی طور پر گھورو بانس کہا جاتا ہے، جو ضلع ہوڑہ کے اس علاقے میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں

ایک پرانی گیند ہاتھ میں لے کر مینوتی اسے چمکانے کے عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں: ’’گھر کے کاموں کے درمیان، شیرش پیپر نیئے گیند آمی ماجھتم [میں ریگ مال سے سطح ہموار اور مکمل کرتی تھی]۔ پھر اسے سفید رنگ سے رنگا جاتا تھا۔ بعض اوقات ہم اس پر مہر بھی لگا دیتے تھے،‘‘ وہ وضاحت کرتی ہیں۔

ایک گیند مکمل کرنے میں ۲۰ سے ۲۵ منٹ لگتے تھے۔ ’’ایک دن میں ہم دونوں مل کر ۲۰ گیندیں بنا سکتے تھے اور ۲۰۰ روپے کما سکتے تھے،‘‘ رنجیت کہتے ہیں۔

اس کام کے لیے درکار مہارت، آگاہی اور تفصیل پر توجہ کے باوجود رنجیت نے کئی سالوں کے دوران اپنی اجرت میں بہت کم اضافہ دیکھا ہے۔ جب انہوں نے ایک کارخانے (ورکشاپ) میں پولو کی گیندیں بنانا شروع کی تھیں، تو انہیں ایک گیند کے لیے ۳۰ پیسے ملے تھے، جبکہ ۲۰۱۵ تک فی گیند اجرت صرف ۱۰ روپے تک پہنچی تھی۔

’’دیولپور میں ایک گیند ۵۰ روپے میں فروخت ہوتی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ کلکتہ پولو کلب کی ویب سائٹ کے تجارتی سیکشن پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دستکاروں کی سخت محنت سے بہت زیادہ منافع کمایا جاتا تھا۔

اس ویب سائٹ پر ان گیندوں کو ’’مغربی بنگال کی دیہی صنعت کے ذریعہ تیار کردہ بانس کی گیندوں‘‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے، اور فی الحال ہر ایک گیند کی قیمت ۱۵۰ روپے رکھی گئی ہے، جو رنجیت کو فی گیند ملنے والی اجرت سے ۱۵ گنا زیادہ۔

’’کسی پولو میچ کے لیے بانس کی ۳۰-۲۵ سے بھی زیادہ  گیندوں کی ضرورت پڑتی تھی۔‘‘ زیادہ تعداد کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’جڑیں سے بنی گیندیں قدرتی ہوتی ہیں اس لیے ان کے وزن میں فرق ہوتا ہے۔ پولو میچ کے دوران جب ان پر مالیٹ سے بار بار ضرب لگایا جاتا ہے تو یہ تیزی سے اپنی شکل کھو دیتی ہیں یا چٹک جاتی ہیں۔‘‘ دوسری طرف فائبر گلاس کی گیندیں زیادہ دیر تک چلتی ہیں: ’’پولو میچ کے لیے ایسی صرف تین سے چار گیندوں کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ رنجیت کہتے ہیں۔

A sack full of old bamboo rhizome balls (left).
PHOTO • Shruti Sharma
Minoti (right) demonstrating the task of glazing a polo ball with sand paper. 'Between housework, I used to do the smoothening and finishing,' she says
PHOTO • Shruti Sharma

پرانے بانس کی جڑوں سے بنی گیندوں سے بھری ایک بوری (بائیں)۔ مینوتی (دائیں) پولو بال کو ریگ مال سے چمکانے کے عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’گھر کے کاموں کے درمیان، میں انہیں چمکانے اور فنشنگ کا کام کرتی تھی‘

Left : Ranjit holds a cut rhizome and sits in position to undertake the task of chiselling.
PHOTO • Shruti Sharma
Right: The renda (palm-held file) is used to make the roundedness more precise
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں:رنجیت ایک کٹی جڑ کو پکڑ کر چھینی سے تراشنے کا کام کرنے کی پوزیشن میں بیٹھے ہیں۔  دائیں: رندے کا استعمال گول اور درست شکل دینے کے لیے کیا جاتا ہے

سال ۱۸۶۰ کی دہائی کے اوائل میں کلکتہ پولو کلب کے قیام کے بعد وہاں سے صرف ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دیولپور میں پولو کی گیند سازی کو فروغ حاصل ہوا تھا، لیکن جب ان گیندوں کی مانگ میں کمی آئی تو کلب نے ۲۰۱۵ کے بعد بانس کی گیندیں حاصل کرنا بند کر دیا۔

*****

رنجیت کھیلوں یا اسپورٹس مین شپ کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ انہوں نے دیولپور پرگتی سنگھ (گاؤں کے اسپورٹس کلب) کے لیے فٹ بال اور کرکٹ کھیلا تھا اور کلب کے پہلے سکریٹری بھی تھے۔ بحیثیت تیز گیندباز اور ڈیفنڈر ’’خوب نام تھا ہمارا گاؤں میں،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔

انہوں نے اس کام کی شروعات سبھاش باگھ کی ملکیت والے ایک کارخانے سے کی تھی۔ پولو کی گیندیں بنانے کا ہنر دیولپور میں متعارف کرانے کا سہرا سبھاش کے دادا کے سر جاتا ہے۔ اب ۵۵ سال کے ہوچکے سبھاش ہی پولو اور دیولپور کے درمیان واحد کڑی ہیں، لیکن اب انہوں نے بھی پولو مالٹس (ڈنڈے) بنانا شروع کردیا ہے۔

نصف صدی قبل پولو گیند سازی کا شمار دیولپور کے باشندوں کو روزگار فراہم کرنے والی دستکاریوں میں ہوتا تھا۔  ’’ زریر کاج [زری کے کام] سے لے کر، بیڑی بنانے اور پولو کی گیندیں بنانے تک، ہم نے زندگی گزارنے اور اپنے تین بچوں کی پرورش کے لیے ہر کام کیا ہے،‘‘ مینوتی کہتی ہیں۔ ’’ سوب الپو پوئیسار کاج چھیلو۔ کھوب کوشٹو ہوئے چھیلو [یہ سب کم پیسے والے اور محنت طلب کام تھے۔ ہم نے بہت جدوجہد کی ہے]،‘‘ رنجیت اضافہ کرتے ہیں۔

’’اب چار کلومیٹر دور دھولا گڑھ چوراہے کے قریب بہت سی صنعتیں لگ گئی ہیں،‘‘ رنجیت خوش ہیں کہ دیولپور کے باشندوں کے پاس روزگار کے بہتر مواقع موجود ہیں۔ ’’اب تقریباً ہر گھر کا ایک فرد تنخواہ پر کام کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اب بھی گھر میں زری کا کام کرتے ہیں،‘‘ مینوتی مزید بتاتی ہیں۔ خیال رہے کہ دیولپور میں تقریباً ۳۲۵۳ لوگ گھریلو صنعتوں میں ملازم ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)۔

یہ جوڑا اپنے چھوٹے بیٹے ۳۱ سالہ سومِت اور بہو سومونا کے ساتھ رہتا ہے۔ سومیت کولکاتا کے قریب ایک سی سی ٹی وی کیمرہ کمپنی میں کام کرتے ہیں اور سومونا اپنی انڈر گریجویٹ ڈگری حاصل کر رہی ہیں، جس کے بعد وہ بھی نوکری حاصل کرنے کی امید رکھتی ہیں۔

Left : Sumona, Ranjit and Minoti on the road from where Mal para (neighbourhood) begins. The localities in Deulpur are segregated on the basis of caste groups.
PHOTO • Shruti Sharma
Right : Now, there are better livelihood options for Deulpur’s residents in the industries that have come up closeby. But older men and women here continue to supplement the family income by undertaking low-paying and physically demanding zari -work
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: سومونا، رنجیت اور مینوتی اس سڑک پر کھڑے ہیں، جہاں سے مل پاڑہ (علاقہ) شروع ہوتا ہے۔ دیولپور کے محلے ذات پات کی بنیاد پر منقسم ہیں۔ دائیں: اب، دیولپور کے رہائشیوں کے لیے ان صنعتوں میں روزی روٹی کے بہتر مواقع موجود ہیں جو ان کے قریب لگ چکی ہیں۔ لیکن یہاں کے بزرگ مرد اور خواتین کم معاوضے اور زیادہ محنت والے زری کا کام کر کے کنبے کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں

*****

رنجیت کہتے ہیں، ’’مجھ جیسے شلپ کاروں (دستکاروں) نے اس فن کو اپنا سب کچھ دیا، لیکن پولو کھلاڑیوں یا حکومت کی جانب سے ہمیں کچھ نہیں ملا۔‘‘

سال ۲۰۱۳ میں حکومت مغربی بنگال نے یونیسکو کی شراکت داری میں پوری ریاست میں روایتی فن اور دستکاری کی مختلف شکلوں کو فروغ دینے کے لیے رورل کرافٹ ہب پروجیکٹس کا آغاز کیا۔ یہ شراکت داری آج اپنے تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور پوری ریاست میں ۵۰ ہزار مستفیدین کا احاطہ کرتی ہے، لیکن بانس سے پولو کی گیندیں بنانے والا ایک بھی دستکار ان میں شامل نہیں ہے۔

’’اپنے ہنر کی تحفظ کا مطالبہ کرنے کے لیے  ہم ۲۰۱۷-۱۸ میں نابنا [ریاستی حکومت کے ہیڈکوارٹر] گئے تھے۔ ہم نے حکومت کو اپنی صورتحال سے آگاہ کیا، درخواستیں دیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا،‘‘ رنجیت کہتے ہیں۔ ’’ہماری مالی حالت کیا ہوگی؟ ہمارا ہنر اور ذریعہ معاش ختم ہو چکا ہے، ہم کیا کھائیں گے؟ ہم نے ان سے پوچھا۔‘‘

’’شاید پولو کی گیندیں دیکھنے میں خوبصورت نہیں ہوتیں، اس لیے کم لوگوں کو اس کی فکر ہے،‘‘ ایک لمحے کے توقف کے بعد رنجیت مزید کہتے ہیں، ’’…کبھی کسی نے ہمارے بارے میں نہیں سوچا۔‘‘

مینوتی کچھ فاصلے پر دوپہر کے کھانے کے لیے باٹا (میٹھے پانی کی معمولی مچھلی) مچھلیوں کی صفائی کر رہی ہیں۔ رنجیت کی بات سن کر، وہ کہتی ہیں، ’’مجھے اب بھی امید ہے کہ ہماری مسلسل کوششوں سے ہمیں کچھ پہچان مل جائے گی۔‘‘

تاہم رنجیت اتنے پرامید نہیں ہیں۔ ’’چند سال پہلے تک پولو کی دنیا مکمل طور پر ہم دستکاروں پر منحصر تھی۔ لیکن انہوں نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب میں ایک معدوم ہوچکی دستکاری کا واحد ثبوت ہوں۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Shruti Sharma

Shruti Sharma is a MMF-PARI fellow (2022-23). She is working towards a PhD on the social history of sports goods manufacturing in India, at the Centre for Studies in Social Sciences, Calcutta.

Other stories by Shruti Sharma
Editor : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

Other stories by Dipanjali Singh
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam