جے پور کے راجستھان پولو کلب میں شام کے چار بجے ہیں، فروری کی دھوپ کھلی ہوئی ہے۔

چار-چار کھلاڑیوں پر مشتمل دونوں ٹیمیں تیار ہیں۔

ہندوستانی خواتین کی پی ڈی کے ایف کی ٹیم اس نمائشی میچ کے لیے پولو فیکٹری انٹرنیشنل ٹیم کے مدمقابل ہے۔ ہندوستان میں کھیلا جانے والا خواتین کا یہ پہلا بین الاقوامی پولو میچ ہے۔

ہر کھلاڑی اپنے اپنے ہاتھوں میں لکڑی کے مالیٹ (چھڑی) لیے کھیل شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ اشوک شرما کا یہ اس سیزن کا پہلا میچ ہے۔ لیکن وہ اس کھیل کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔

مالیٹ بنانے کے ۵۵ سال کے تجربہ کے ساتھ اشوک تیسری نسل کے کاریگر ہیں۔ بید (کین) سے بننے والا پولو اسٹک کسی بھی کھلاڑی کی کِٹ کے لیے ضروری ہے۔ وہ اپنے خاندان کی ۱۰۰ سالہ میراث کے بارے میں بات کرتے ہوئے فخریہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’میں مالیٹ بنانے کے ہنر کے درمیان پیدا ہوا تھا۔‘‘ گھوڑے والے پولو کا شمار دنیا میں گھڑ سواری کے قدیم ترین کھیلوں میں ہوتا ہے۔

Ashok Sharma outside the Jaipur Polo House where he and his family – his wife Meena and her nephew Jitendra Jangid craft different kinds of polo mallets
PHOTO • Shruti Sharma
Ashok Sharma outside the Jaipur Polo House where he and his family – his wife Meena and her nephew Jitendra Jangid craft different kinds of polo mallets
PHOTO • Shruti Sharma

اشوک شرما (بائیں) جے پور پولو ہاؤس کے باہر کھڑے ہیں، جہاں وہ اور ان کی فیملی یعنی ان کی بیوی مینا اور بھتیجے جتیندر جانگیڑ (دائیں) الگ الگ قسم کے پولو مالیٹ بناتے ہیں

وہ جے پور پولو ہاؤس کے مالک ہیں۔ یہ پورے شہر کا قدیم ترین اور مشہور ترین ورکشاپ ہے۔ یہی ان کا گھر بھی ہے۔ یہاں وہ اپنی بیوی مینا اور ۳۷ سالہ بھتیجے جتیندر جانگیڑ (انہیں پیار سے ’جیتو‘ پکارا جاتا ہے)  کے ساتھ مل کر الگ الگ طرح کے مالیٹ تیار کرتے ہیں۔ ان کا تعلق راجستھان میں دیگر پسماندہ طبقات کے طور پر درج جانگیڑ برادری سے ہے۔

ایک دوسرے کے مقابل قطار میں کھڑی ٹیموں کے درمیان امپائر گیند کو لڑھکا دیتا ہے۔ اور جیسے ہی میچ شروع ہوتا ہے، اس ۷۲ سالہ بزرگ کی پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ’’میں گراونڈ میں سائیکل چلا کر آتا تھا۔ پھر میں نے اسکوٹر خرید لیا۔‘‘ لیکن ۲۰۱۸ میں یہ سلسلہ اس وقت منقطع ہو گیا جب فالج کے ہلکے حملے نے ان کے اس طرح کے دوروں کو کم کردیا۔

دو مرد کھلاڑی آتے ہیں اور نمستے ’پولی جی‘ کہتے ہیں۔ اشوک کی یہ عرفیت ان کی نانی سے ملی ہے۔ یہ عرفیت جے پور کے پولو حلقہ میں مشہور ہو گئی۔ ’’میں آج کل ادھر زیادہ آنا چاہتا ہوں، تاکہ زیادہ کھلاڑیوں کو معلوم ہو کہ میں اب بھی کام کر رہا ہوں، تاکہ مرمت کے لیے وہ اپنی اسٹکز ہمارے پاس بھیجیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تقریباً دو دہائی قبل اشوک کے کارخانے (ورکشاپ) میں آنے والے کسی شخص کا استقبال چھت سے لٹکے اور دیواروں سے لگے تیار مالیٹ (اسٹک) کرتے نظر آتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے ہلکے سفید رنگ کی دیواروں کا کوئی نشان نظر نہیں آتا تھا۔ ’’بڑے کھلاڑی آتے، اپنی پسند کی اسٹک کا انتخاب کرتے، میرے ساتھ بیٹھتے، چائے پیتے اور چلے جاتے۔‘‘

کھیل شروع ہو چکا ہے اور ہمیں اپنی نشستیں راجستھان پولو کلب کے سابق سکریٹری وید آہوجہ کے پاس ملتی ہیں۔ ’’ہر کوئی اپنی مالیٹ صرف پولی سے بنواتا تھا،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’پولی، کلب کو بانس کی جڑوں سے بنی گیندیں بھی فراہم کرتے تھے،‘‘ آہوجہ یاد کرتے ہیں۔

Ashok with international polo-players who would visit in the 1990s for fittings, repairs and purchase of sticks
PHOTO • Courtesy: Ashok Sharma
The glass showcases that were once filled with mallets are now empty.
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: اشوک (درمیان میں) بین الاقوامی پولو کھلاڑیوں کے ساتھ جو ۱۹۹۰ کی دہائی میں اسٹک کی فٹنگ، مرمت اور خریداری کے لیے ان کے یہاں آتے تھے۔ دائیں: شیشے کے شوکیس جو کبھی مالیٹ سے بھرے ہوتے تھے اب خالی پڑے ہیں

اشوک کہتے ہیں کہ یا تو بہت امیر یا فوج سے وابستہ لوگ پولو کھیلنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ سال ۱۸۹۲ میں قائم ہونے والی انڈین پولو ایسوسی ایشن (آئی پی اے) میں ۲۰۲۳ تک صرف ۳۸۶ کھلاڑی رجسٹرڈ ہیں۔ ’’ایک میچ کھیلنے کے لیے کسی کھلاڑی کے پاس کم سے کم چھ گھوڑے ہونے ضروری ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میچوں کو چار سے چھ چکروں میں منقسیم کیا جاتا ہے، اور ہر کھلاڑی کو ہر راونڈ کے بعد ایک الگ گھوڑے پر سوار ہونا پڑتا ہے۔

راجستھان میں خاص طور پر سابق شاہی خاندان کے لوگ اس کھیل کے سرپرست تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے چچا کیشو رام نے جودھپور اور جے پور کے حکمرانوں کے لیے پولو اسٹکس بنائے تھے۔‘‘

گزشتہ تین دہائیوں میں پولو کے کھیل، اس کے ساز و سامان کی پیداوار اور اس کے ضابطے طے کرنے کےمعاملے میں ارجنٹائن دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ اشوک مزید کہتے ہیں، ’’ان کے پولو کے گھوڑے ہندوستان میں سپر ہٹ ہیں، جیسا کہ ان کے پولو مالیٹ اور فائبر گلاس کی گیندیں ہیں۔ یہاں تک کہ کھلاڑی بھی ارجنٹائن میں تربیت حاصل کرنے کے لیے جاتے ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’میرا کام ارجنٹائن کی اسٹکس کی وجہ سے ختم ہو گیا ہوتا، لیکن شکر ہے کہ میں نے تیس چالیس سال قبل سائیکل پولو کے لیے مالیٹ بنانا شروع کر دیا تھا، اس لیے میرے پاس اب بھی کام ہے۔‘‘

گھوڑے والے پولو کے برعکس سائیکل پولو کسی بھی ساخت اور سائز کی عام سائیکل پر کھیلا جاتا ہے۔ اشوک کہتے ہیں، ’’یہ کھیل عام آدمی کے لیے ہے۔‘‘ ان کی تقریباً ۵ء۲ لاکھ کی سالانہ کمائی سائیکل پولو کے اسٹکس تیار کر کے ہوتی ہے۔

Ashok says that years of trial and error at the local timber market have made him rely on imported steam beech and maple wood for the mallet heads.
PHOTO • Shruti Sharma
Jeetu begins the process of turning this cane into a mallet. He marks one cane to between 50 to 53 inches for horseback polo and 32 to 36 inches for cycle polo
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: اشوک کا کہنا ہے کہ لکڑی کے مقامی بازار میں برسوں کی سعی اور خطا نے انہیں مالیٹ ہیڈز کے لیے درآمد شدہ اسٹیم بیچ اور میپل کی لکڑی پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دائیں: جیتو اس بید کو مالیٹ میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ وہ گھوڑے کے پولو کے لیے ایک بید کو ۵۰ سے ۵۳ انچ اور سائیکل پولو کے لیے ۳۲ سے ۳۶ انچ تک نشان زد کرتے ہیں

اشوک کو کیرالہ، کرناٹک، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش سے عام شہریوں اور فوج کی ٹیموں سے سالانہ ۱۰۰ سے زیادہ سائیکل پولو مالیٹ کے آرڈر ملتے ہیں۔ ’’کھلاڑی عام طور پر غریب ہوتا ہے، اس لیے مجھے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ہر اسٹک پر صرف ۱۰۰ روپے کا منافع کیوں کماتے ہیں۔ انہیں کبھی کبھار اونٹ پولو اور ہاتھی پولو اور چھوٹے تحائف کے لیے بھی مالیٹ کے آرڈر ملتے ہیں۔

گراونڈ سے باہر نکلتے ہوئے اشوک کہتے ہیں، ’’آج کل بمشکل کوئی تماشائی نظر آتا ہے۔‘‘

انہیں یاد ہے کہ جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اسی گراؤنڈ پر ایک میچ کھیلا گیا تھا، تو اس میں ۴۰ ہزار سے زیادہ تماشائی موجود تھے اور بہتوں نے تو درختوں پر بیٹھ کر میچ کا لطف اٹھایا تھا۔ اس طرح کی یادیں انہیں وقت کے مطابق خود کو ڈھالنے اور مالیٹ بنانے کی طویل خاندانی وراثت کو جاری رکھنے کے لیے ان کے جوش کو برقرار رکھتی ہیں۔

*****

’’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں، کیا اس کام میں کوئی کاریگری ہے؟ یہ تو صرف ایک چھڑی ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ مالیٹ تیار کرنے میں ’’کھیل کے ناقابل محسوس احساس تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ مختلف قدرتی خام مواد کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ احساس توازن، لچک، طاقت اور ہلکاپن کے ایک ساتھ آنے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈھیلا ڈھالا بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

مدھم روشنی میں تنگ سیڑھیوں پر ایک ایک قدم رکھتے ہوئے ہم ان کے گھر کی تیسری منزل پر واقع ورکشاپ تک پہنچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فالج کے بعد ان کے لیے یہ کام مشکل ہوگیا ہے، لیکن وہ پرعزم ہیں۔ اگرچہ گھوڑوں کے پولو کے مالیٹ کی مرمت کا کام پورے سال جاری رہتا ہے، لیکن سائیکل پولو کے مالیٹ بنانے کے کام میں تیزی صرف سیزن کے دوران ستمبر سے مارچ تک رہتی ہے۔

Meena undertakes the most time consuming aspects of making mallets – strengthening the shaft and binding the grip
PHOTO • Shruti Sharma
in addition to doing the household work and taking care of Naina, their seven-year old granddaughter
PHOTO • Shruti Sharma

مینا (بائیں) گھر کے کام کرنے اور اپنی سات سالہ پوتی نینا (دائیں) کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ مالیٹ بنانے کے سب سے زیادہ وقت طلب پہلوؤں یعنی شافٹ (بَلی) کو مضبوط کرنے اور گرفت باندھنے کا کام کرتی ہیں

اشوک کہتے ہیں، ’’موٹا کام جیتو اوپری منزل پر کرتے ہیں۔ میں اور میڈم باقی کام نیچے کی منزل پر اپنے کمرے میں کرتے ہیں۔‘‘ وہ اپنی بیوی مینا کو ’میڈم‘ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ عمر کی ساٹھویں دہائی میں پہنچ چکیں مینا کو جب وہ ’باس‘ کہتے ہیں تو وہ ہنس دیتی ہیں۔ ہماری بات چیت کو سنتے ہوئے وہ اپنے فون پر کسی ممکنہ کلائنٹ کو چھوٹے مالیٹ سیٹ کے نمونہ کی تصاویر بھیج رہی ہیں۔

اس کام کو مکمل کرنے کے بعد وہ ہمارے لیے کچوریاں تلنے کی غرض سے باورچی خانے کا رخ کرتی ہیں۔ مینا کہتی ہیں، ’’میں ۱۵ سال سے پولو کا کام کر رہی ہوں۔‘‘

دیوار سے لٹکا ایک پرانا مالیٹ اتار کر اشوک پولو اسٹک کے تین اہم اجزاء کی نشاندہی کرتے ہیں: ایک بید کی بَلی، دوسرا لکڑی کا ہیڈ (سرا) اور تیسرا ربڑ یا ریگزین کی گرفت کا ہینڈل جس میں سوتی کا فیتہ بندھا ہوتا ہے۔ ہر جزو کی تشکیل کی ذمہ داری ان کی فیملی کے مختلف فرد کے ذریعہ سنبھالی جاتی ہے۔

یہ عمل جیتو سے شروع ہوتا ہے جو گھر کی تیسری منزل پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایک مشین کٹر کا استعمال کرتے ہیں جسے بید کاٹنے کے لیے انہوں نے خود ہی بنایا ہے۔ اس بید کو ہموار کرنے کے لیے، وہ رندے کا استعمال کرتے ہیں جو بَلی کو لچکدار بناتا ہے اور کھیل کے دوران اسے خم دیتا ہے۔

اشوک کہتے ہیں، ’’ہم بید کے نیچے کیل نہیں لگاتے کیونکہ اس سے گھوڑوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘ اور پھر اس میں مزید اضافہ کرتے ہیں، ’’مانو اگر گھوڑا لنگڑا ہو گیا تو آپ کے لاکھوں روپے بیکار۔‘‘

Jeetu tapers the cane into a shaft for it to arc when in play. He makes a small slit at the end of this shaft
PHOTO • Shruti Sharma
He makes a small slit at the end of this shaft and then places it through the mallet’s head.
PHOTO • Shruti Sharma

جیتو بید کو شافٹ (بَلی) کی شکل دے رہے ہیں تاکہ کھیل کے دوران اس میں لچک پیدا ہوسکے۔ وہ اس شافٹ کے آخر میں ایک چھوٹا چیرا لگاتے ہیں (بائیں) اور پھر اسے مالیٹ کے ہیڈ میں داخل کرتے ہیں (دائیں)

جیتو کہتے ہیں، ’’میرا کام ہمیشہ تکنیکی رہا ہے۔ وہ پہلے فرنیچر بناتے تھے اور اب راجستھان حکومت کے سوائی مان سنگھ ہسپتال میں ’جے پور فوٹ‘ ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہیں۔ یہاں ان کے جیسے کاریگر انسانی جسم کے سستے مصنوعی اعضاء بناتے ہیں۔

جیتو یہ ظاہر کرنے کے لیے مالیٹ کے ہیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ بید کی بَلی لگانے کے لیے ڈرلنگ مشین کا استعمال کرتے ہوئے کیسے سوراخ بناتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بَلی مینا کے حوالے کرتے ہیں جو آگے کے کام کی ذمہ داری سنبھالتی ہیں۔

باورچی خانہ ان کے دو بیڈروم کے ساتھ گراؤنڈ فلور پر ہے۔ مینا ان سبھی جگہوں پر کام کرتی ہیں، اور ضرورت کے مطابق آسانی سے اوپر نیچے کر لیتی ہیں۔ وہ کھانا پکانے کے بعد اور اس سے پہلے دوپہر ۱۲ بجے سے شام ۵ بجے کے درمیان مالیٹ پر کام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن جب مختصر نوٹس پر آرڈر آتے ہیں، تو انہیں لمبے وقت تک کام کرنا پڑتا ہے۔

مینا مالیٹ بنانے میں سب سے زیادہ وقت لگنے والے پہلوؤں یعنی بَلی کو مضبوطی دینے اور گرفت (گریپ) کو باندھنے کے کام کو انجام دیتی ہیں۔ اس میں بَلی کے پتلے سرے پر فیویکول گوند میں ڈوبی ہوئی سوتی کی پٹیوں کو احتیاط سے لپیٹنا شامل ہوتا ہے۔ اس کام کے مکمل ہونے کے بعد بَلی کو ۲۴ گھنٹے تک زمین پر خشک کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنی شکل برقرار رکھ سکے۔

اس کے بعد وہ ربڑ یا ریگزین کی گرفت کو باندھتی ہیں اور گوند اور ناخن کا استعمال کرتے ہوئے موٹے ہینڈلوں پر سوتی کے فیتوں کو لپیٹتی ہیں۔ یہ گرفت واضح اور فیتے مضبوط ہونے چاہئیں تاکہ اسٹک کھلاڑی کی کلائی سے نہ پھسلے۔

Meena binds rubber or rexine grips and fastens cotton slings onto the thicker handles using glue and nails. This grip must be visibly neat, and the sling strong, so that the stick does not slip out of the player’s grasp
PHOTO • Shruti Sharma
Meena binds rubber or rexine grips and fastens cotton slings onto the thicker handles using glue and nails. This grip must be visibly neat, and the sling strong, so that the stick does not slip out of the player’s grasp
PHOTO • Shruti Sharma

مینا ربڑ یا ریگزین کی گرفت کو باندھتی ہیں اور گوند اور ناخن کا استعمال کرتے ہوئے موٹے ہینڈلوں پر سوتی کے فیتوں کو لپیٹتی ہیں۔ یہ گرفت واضح اور فیتے مضبوط ہونے چاہئیں تاکہ اسٹک کھلاڑی کی کلائی سے نہ پھسلے

اس جوڑے کے ۳۶ سالہ بیٹے ستیم پہلے ان کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے لیکن اب ایک سڑک حادثہ کے بعد زمین پر بیٹھنے سے قاصر ہیں۔ ان کی ٹانگ پر تین سرجریاں ہوئیں ہیں۔ کبھی کبھی وہ باورچی خانے میں سبزی پکا کر یا رات کے کھانے کے لیے ڈھابے کے انداز میں دال تڑکا بنا کر ان کی مدد کرتے ہیں۔

ان کی بیوی راکھی اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر واقع ایک پیزا ہٹ میں صبح ۹ بجے سے رات ۹ بجے تک ہفتے میں سات دن کام کرتی ہیں۔ انہیں گھر پر جو بھی خالی وقت ملتا ہے اس میں وہ اپنی بیٹی نینا کی مدد سے خواتین کے کپڑے جیسے بلاؤز اور کرتا بنانے میں گزارتی ہیں۔ سات سالہ نینا عام طور پر ستیم کی رہنمائی سے اپنا ہوم ورک مکمل کرتی ہے۔

نینا ایک ۹ انچ کے چھوٹے سے مالیٹ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ دو اسٹکس کے چھوٹے سیٹ، جس میں گیند کے طور پر لکڑی کی بنیاد پر نصب ایک مصنوعی موتی جڑی ہوئی ہے، کی قیمت ۶۰۰ روپے ہوتی ہے۔ مینا کہتی ہیں کہ کھیل کے لیے بنائے جانے والے بڑے مالیٹ کے مقابلے میں تحفے کے لیے چھوٹے مالیٹ میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ ’’ان کا کام زیادہ پیچیدہ ہے۔‘‘

مالیٹ بنانے میں، دو الگ الگ ٹکڑوں (ہیڈ اور بید کی بلی) کو ایک ساتھ جوڑنا سب سے اہم کام سمجھا جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں ڈنڈے کا توازن قائم کیا جاتا ہے۔ مینا کہتی ہیں، ’’توازن ایک ایسی چیز ہے جسے ہر کوئی ٹھیک نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ اوزاروں کی ایک غیر محسوس خصوصیت ہے اور اشوک بے پروائی سے کہتے ہیں، ’’میں یہی کرتا ہوں۔‘‘

اپنی بائیں ٹانگ کو پھیلا کر فرش پر بچھی سرخ گدی پر بیٹھے، وہ ہیڈ (سرے) میں ڈرل شدہ سراخ کے چاروں طرف گوند لگاتےہیں، جب کہ بید کی بَلی ان کے پیر کے انگوٹھے اور پہلی انگلی کے درمیان ہے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے گزشتہ ساڑھے پانچ دہائیوں میں اپنی انگلیوں کے درمیان کتنی بار بید کی بَلی کو رکھا ہے، تو اشوک ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’بس کوئی گنتی نہیں ہے۔‘‘

This photo from 1985 shows Ashok setting the balance of the mallet, a job only he does. He must wedge a piece of cane onto the shaft to fix it onto the mallet’s head and hammer it delicately to prevent the shaft from splitting completely.
PHOTO • Courtesy: Ashok Sharma
Mo hammad Shafi does varnishing and calligraphy
PHOTO • Jitendra Jangid

سال ۱۹۸۵ کی اس تصویر (بائیں) میں اشوک کو مالیٹ کا توازن درست کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، یہ کام صرف وہی کرتے ہیں۔ مالیٹ ہیڈ کو بلی میں پیوست کرنے کے لیے بید کے ٹکڑے کی میخ لگا کر ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ ضرب لگائی جاتی ہے تاکہ بلی کو مکمل طور پر پھٹنے سے روکا جا سکے۔ رنگ و روغن چڑھاتے اور خطاطی کرتے ہوئے محمد شفیع (دائیں)

جیتو بتاتے ہیں، ’’یہ چوڑی ہو جائے گی، فکس ہو جائے گی پھر یہ باہر نہیں نکلے گی۔‘‘ گیند کے مسلسل اثر کو برداشت کرنے کے لیے بید اور لکڑی کو مضبوطی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

ایک ماہ میں تقریباً ۱۰۰ مالیٹ بنائی جاتی ہیں۔ اس کے بعد اشوک کے ۴۰ سال کے ساتھی محمد شفیع ان پر رنگ و روغن چڑھاتے ہیں۔ رنگ و روغن سے ان میں چمک تو آتی ہی ہے، ساتھ میں نمی اور گندگی سے ان کا بچاؤ بھی ہوتا ہے۔ شفیع مالیٹ کے اوپر تک خطاطی کر کے اور ہینڈل کے نیچے ’جے پور پولو ہاؤس‘ کا لیبل چسپاں کر کے اپنا کام مکمل کرتے ہیں۔

ایک مالیٹ تیار کرنے کے لیے خام مواد کی قیمت ۱۰۰۰ روپے ہوتی ہے، اور اشوک کا کہنا ہے کہ وہ انہیں فروخت کر کے نصف رقم بھی وصول کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ ایک مالیٹ ۱۶۰۰ روپے میں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’کھلاڑی اچھی قیمت نہیں دیتے ہیں۔ وہ ایک ہزار سے بارہ سو [روپے] ادا کرنے کی پیشکش کرتے ہیں۔‘‘

منافع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک مالیٹ کے ہر حصے کو احتیاط سے پرکھا جاتا ہے۔ اشوک کہتے ہیں، ’’[صرف] بید آسام اور رنگون سے کولکاتا آتا ہے۔‘‘ اسے صحیح نمی، لچک کی حد، کثافت اور موٹائی کے معیار پر پورا اترنا ہوتا ہے۔

اشوک کہتے ہیں، ’’کولکاتا کے سپلائرکے پاس موٹی بید ہوتی ہے جو پولیس اہلکاروں کے لیے لاٹھیاں بنانے اور بزرگوں کے لیے سیر کی چھڑی بنانے کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ ایسی ایک ہزار بید میں سے صرف سو میری ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔‘‘ ان کے سپلائر کی فراہم کردہ زیادہ تر بیدیں مالیٹ بنانے کے لیے بہت موٹی ہوتی ہیں۔ لہٰذا مناسب بیدوں کو منتخب کرنے اور انہیں لانے کے لیے وبائی مرض سے پہلے وہ ہر سال کولکاتا جایا کرتے تھے۔ ’’اب میں صرف اسی وقت کولکاتا جا سکتا ہوں، جب میری جیب میں ایک لاکھ روپے ہوں۔‘‘

Mallets for different polo sports vary in size and in the amount of wood required to make them. The wood for a horseback polo mallet head (on the far right) must weigh 200 grams for the length of 9.25 inches.
PHOTO • Shruti Sharma
The tools of the craft from left to right: nola , jamura (plier), chorsi (chisel), bhasola (chipping hammer), scissors, hammer, three hole cleaners, two rettis ( flat and round hand files) and two aaris (hand saws)
PHOTO • Shruti Sharma

بائیں: الگ الگ پولو کھیلوں کے لیے مالیٹ کی سائز میں اور انہیں بنانے کے لیے درکار لکڑی کی مقدار میں فرق ہوتا ہے۔ گھوڑے والے پولو مالیٹ ہیڈ (سب سے دائیں) کی لکڑی کا وزن ۲۵ء۹ انچ کی لمبائی کے لیے ۲۰۰ گرام ہونا چاہیے۔ دائیں: دستکاری کے اوزار بائیں سے دائیں: نولا، جمورا (پلائر)، چھینی، بنسولا، قینچی، ہتھوڑا، سوراخ صاف کرنے والے تین اوزار، دو ریتیاں اور دو آریاں

لکڑی کے مقامی بازار میں برسوں کی سعی اور خطا کے بعد اشوک کو درآمد شدہ اسٹیم بیچ اور میپل کی لکڑی پر انحصار کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ لکڑیاں عام طور پر فرنیچر بنانے کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے لکڑی فروش کو کبھی نہیں بتایا کہ وہ ان لکڑیوں سے کیا بناتے ہیں۔ ورنہ ’’وہ یہ کہتے ہوئے کہ ’آپ بڑا کام [انتہائی قابل قدر کام] کر رہے ہیں‘ ان کی قیمت بڑھا دے گا!‘‘

اس کے بجائے وہ اپنے سپلائرز کو بتاتے ہیں کہ وہ میزوں کی ٹانگیں بناتے ہیں۔ ’’اگر کوئی پوچھتا ہے کہ کیا میں رولنگ پن بناتا ہوں، تو میں اسے بھی ہاں کہتا ہوں!‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’’اگر میرے پاس ۱۵ سے ۲۰ لاکھ روپے ہوں، تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ وہ ٹیپوانا ٹیپو کے درخت سے ٹیپا کی لکڑی استعمال کرتے ہیں، جو ارجنٹائن میں ملتی ہے اور جو ارجنٹائنی مالیٹ کے ہیڈ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اشوک کہتے ہیں، ’’یہ بہت ہلکی ہوتی ہے اور ٹوٹتی نہیں ہے، اسے صرف چھیل دیا جاتا ہے۔‘‘

ارجنٹائنی اسٹک کی قیمت ۱۰ ہزار روپے سے ۱۲ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ ’’بڑے کھلاڑی ارجنٹائن سے آرڈر کرتے ہیں۔‘‘

Ashok’s paternal uncle, Keshu Ram with the Jaipur team in England, standing ready with mallets for matches between the 1930s and 1950s
PHOTO • Courtesy: Ashok Sharma
PHOTO • Courtesy: Ashok Sharma

اشوک کے چچا کیشو رام (بائیں) اور والد کلیان (دائیں) انگلینڈ میں جے پور ٹیم کے ساتھ، ۱۹۳۰ اور ۱۹۵۰ کی دہائیوں کے درمیان میچوں کے لیے مالیٹ کے ساتھ تیار کھڑے ہیں

آج آرڈر ملنے پر گھوڑوں کے پولو کے لیے اشوک کسٹمائزڈ مالیٹ بناتے ہیں اور اور غیر ملکی مالیٹ کی مرمت کرتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جے پور ضلع میں ہندوستان میں پولو کلب کی سب سے زیادہ تعداد ہے، شہر کے اسپورٹس ریٹیل اسٹورز فروخت کے لیے مالیٹ نہیں رکھتے ہیں۔

اشوک کا بزنس کارڈ مجھے دیتے ہوئے لبرٹی اسپورٹس (۱۹۵۷) کے انیل چھابڑیا کہتے ہیں، ’’اگر کوئی پولو اسٹکس مانگنے آتا ہے تو ہم  انہیں ہمیشہ پولو وکٹری کے سامنے واقع جے پور پولو ہاؤس بھیج دیتے ہیں۔‘‘

پولو وکٹری سنیما (اب ایک ہوٹل) کو اشوک کے چچا کیشو رام نے ۱۹۳۳ میں انگلینڈ کے دورے پر جے پور ٹیم کی فتوحات کی تاریخی یادگار کے طور پر بنوایا تھا۔ کیشو رام واحد پولو مالیٹ کاریگر تھے، جنہوں نے ٹیم کے ساتھ اس دورے پر سفر کیا تھا۔

آج جے پور اور دہلی میں منعقد ہونے والے سالانہ پولو ٹورنامنٹ، جے پور کی تاریخی ٹیم کے تین اراکین: مان سنگھ ثانی، ہنوت سنگھ اور پریتھی سنگھ کے نام پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ تاہم، برصغیر کی پولو کی تاریخ میں اشوک اور ان کے خاندان کی شراکت کا بہت کم اعتراف کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’جب تک کین (بید) کی چھڑی سے کھیلیں گے، تب تک کھلاڑیوں کو میرے پاس آنا ہی پڑے گا۔‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کے ذریعے فراہم کردہ فیلوشپ کی مدد سے کی گئی ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Reporter : Shruti Sharma

Shruti Sharma is a MMF-PARI fellow (2022-23). She is working towards a PhD on the social history of sports goods manufacturing in India, at the Centre for Studies in Social Sciences, Calcutta.

Other stories by Shruti Sharma
Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam