کرشن چندر باغ کہتے ہیں ’’یہ ہاتھ صرف موسیقی بنانے کے لیے ہیں۔‘‘ وہ اس دن کی یادوں میں کھوئے ہوئے تھے جس دن انہوں نے ’بھوکھا‘ دیکھی تھی – جو سمبل پور میں بنائی گئی ایک فلم ہے جس میں قبائلیوں اور موسیقی کے آلات پر مبنی مکالمے شامل کیے گئے ہیں، جو ان کے اندر کے فنکار سے باتیں کرتے ہیں۔

کئی دہائیوں بعد، کرشن نے بغیر کسی اشارے کے فلم کا ایک ڈائیلاگ بڑے ہی دلیرانہ انداز میں سنایا: ’’میں اپنے اس پرانے پیشہ [دُلدُلی] کو کبھی ترک نہیں کرسکتا۔ میرے والد نے کبھی مزدوری نہیں کی۔ نہ ہی ان کے والد نے کبھی ایسا کیا۔‘‘

دُلدُلی، سمبل پوری لوک روایت ہے جو پرفارمنس کے دوران پانچ ڈھول اور ہوا پھونک کر بجائے جانے والے ساز کو یکجا کرتی ہے۔ انتہائی ہنر مند موسیقار ہی اس میں حصہ لے سکتے ہیں۔

کرشن کا کہنا ہے کہ ’بھوکھا‘ ان پہلی فلموں میں سے ایک تھی جس نے ان کے جیسے دلدلی موسیقاروں کو موجودگی کا احساس دلایا۔ وہ اپنی اہلیہ سوکانتی باغ (۵۰) اور بیٹے شتیش باغ کے ساتھ مغربی اوڈیشہ کے سمبل پور شہر میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق دلت برادری سے ہے۔

کرشن بتاتے ہیں ’’گھاسیہ [گھاسی] برادری آلات موسیقی بناتی ہے اور گانڈا برادری کے لوگ انہیں بجاتے ہیں۔ یہ دونوں برادریاں چمڑے کا کام کرتی ہیں، اس لیے انہیں ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لیے کام تلاش کرنا مشکل تھا، اس لیے وہ رقص کرنے اور موسیقی کے آلات بجانے جیسی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔‘‘ اوڈیشہ میں گھاسی اور گانڈا دونوں برادریوں کو درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کے طور پر درج کیا گیا ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔

استعمال ہونے والے پانچ آلات میں سے، یہ برادریاں ڈھول اور نشان بناتی ہیں، جن میں جانوروں کے چمڑے سے بنے ڈرم ہیڈ ہوتے ہیں۔ نشان کو دونوں طرف سے ہرن کے سینگوں سے بھی مزین کیا گیا ہے۔ ان آلات کو بنانے کے لیے جانوروں کی کھالوں اور سینگوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایتی طور پر اسے دلت برادریوں کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔

Panchabadya dulduli Tasha(on the left), nishan (with deer horns), dhol (in the middle at the back), mahuri (flute in front) and kasthal (metal cymbals)
PHOTO • Bishnu Bagh

پنچ بَڑیا دُلدُلی تاشہ (بائیں طرف)، نشان (ہرن کے سینگ کے ساتھ)، ڈھول (پیچھے درمیان میں)، موہوری (سامنے رکھی ہوئی بانسری) اور کستھل (دھات سے بنی ہوئی جھانجھ)

Group Kalajibi performing at Sambalpur district with musicians playing the dhol , nishan and tasha
PHOTO • Courtesy: Kalajibi Dance Group

کلا جیبی گروپ سمبل پور ضلع میں ڈھول، نشان اور تاشہ بجانے والے موسیقاروں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ پیش کر رہا ہے

کرشن کی عمر ۶۰ سال کے آس پاس ہے اور وہ رنگ پھروا نامی دلدلی گروپ کے سب سے پرانے فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ دلدلی پانچ ڈھول اور ہوا پھونک کر بجائے جانے والے سازوں کے ساتھ آمیزش کرتی ہے جو اجتماعی طور پر پنچ بڑیا (پانچ ساز) کے نام سے مشہور ہیں – ڈھول، نشان اور تاشہ جو ہاتھ سےبجائے جانے والے آلات موسیقی ہیں جبکہ موہوری اور کھرتال جیسے ساز کو منہ سے ہوا پھونک کر بجایا جاتا ہے۔

جب ان آلات موسیقی کو ایک ساتھ بجایا جاتا ہے، تو کرشن کہتے ہیں، ’’بجر ساؤنڈ رے ایتکی ساؤنڈ بہرسی جے ہال بھیترے پریکٹس ہی کری نائی ہوئے [ان آلات موسیقی کو ایک ساتھ بجانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی آواز اتنی تیز ہوتی ہے کہ آپ کسی بھی ہال کے اندر اس کا صحیح طریقے سے ریاض نہیں کر سکتے]۔‘‘

وہ ڈھول بجانے میں ماہر ہیں، جو کہ دو طرفہ بیرل کی شکل کا ڈرم ہوتا ہے۔ ان کا بیٹا شتیش (۲۸) ایک فری لانس فوٹوگرافر ہے، جو ڈھول بھی بجا لیتا ہے اور اپنے والد کے ساتھ پرفارم کرتا ہے۔ کرشن کہتے ہیں، ’’ہم رسمی طور پر تربیت یافتہ نہیں تھے اور ہم نے اپنے والد سے یہ فن سیکھا تھا اور میرے والد کو اپنے والد (دادا) سے یہ فن وراثت میں ملا تھا۔‘‘ کرشن مزید بتاتے ہیں کہ دلدلی کی یہ فنی میراث ان کے خاندان میں تین نسلوں سے چلی آ رہی ہے۔

اپنے کمرے میں سرٹیفکیٹ سے ڈھکی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کرشن سمبل پوری بولی میں کہتے ہیں، ’’ایتا ہی تا امار کمانی آئے باقی دنیا داری تا چلیتھی با [یہ وہ عزت ہے جو ہم نے کمائی ہے]۔‘‘ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ایک فنکار، جس نے ملک بھر میں اور بالخصوص لوک مہوتسو (اوڈیشہ میں مقامی ضلع انتظامیہ کے ذریعہ منعقد کیا جانے والا سالانہ جشن) جیسی باوقار تقریبات میں اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔

Left: Krushna Chandra Bagh with all his awards.
PHOTO • Shakti Sekhar Panigrahi
Right: Ornaments used in a Dalkhai performance – Katriya, bandhriya, paisa mali, gunchi, bahati, ghungru, khakla and kanpatri.
PHOTO • Shakti Sekhar Panigrahi

بائیں: کرشن چندر باغ اپنے تمام ایوارڈز کے ساتھ- دائیں: دلکھائی پرفارمنس میں استعمال ہونے والے زیورات – کٹریا، بنڈھریا، پیسہ مالی، گُنچی، بہاتی، گھنگھرو، کھاکلا اور کنپتری

کرشن ہر تقریب یا پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ۱۰۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے معاوضہ لیتے ہیں، جو اس بات پر منحصر ہے کہ گروپ اپنے فن کا مظاہرہ کتنی دیر تک کرتا ہے۔

تین سال قبل کرشن نے قریبی سرکاری ہائی اسکول میں میوزک ٹیچر کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ اپنے دلدلی گروپ کے ساتھ پریکٹس اور پرفارم کرنے کے علاوہ، وہ اختتام ہفتہ پر نوجوانوں کو دلکھائی ڈانس بھی سکھاتے ہیں۔

*****

گزشتہ ۴۰ برسوں سے اس فن سے منسلک رقاص، دلکھائی کے استاد، کوریوگرافر اور پرفارمنس آرٹسٹ درگا پرساد داش بتاتے ہیں کہ دلدلی اور دلکھائی ایک ساتھ چلتے ہیں۔

داش (۵۵) دھنکوڑہ بلاک کے ماجھی پلی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کا تعلق برہمن برادری سے ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر دلکھائی آرٹ کے ساتھ اس برادری کا کوئی تعلق نہیں ہے، جس میں ’’ایک گروپ ہوتا ہے، جو دلکھائی دیوی کے لیے وقف گیت پر رقص کرتا ہے – یہ دیوی درگا کی ایک مجسم پیکر ہیں۔‘‘

داش بتاتے ہیں، ’’پہلے، کول، کھریا، بنجھل اور اوراؤں برادریوں کی خواتین (اوڈیشہ میں درج فہرست قبائل کے طور پر درج) دسہرہ کے تہوار میں اپنا اپواس توڑنے کے لیے دلدلی کی تال پر رقص کیا کرتی تھیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا تو مجھے دلکھائی [پرفارمنس] دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس وقت بچوں کے لیے اسے دیکھنا فحش سمجھا جاتا تھا۔ ’’مور اسکول دنے، موئی لُکی لُکی دلکھائی دیکھی جاؤتھیلی [میں اپنے اسکول کے دنوں میں بھیڑ میں چھپ کر دلکھائی کا رقص دیکھتا تھا]۔‘‘

Durga Prasad Das instructing his band during a practice session
PHOTO • Shakti Sekhar Panigrahi
Durga Prasad Das instructing his band during a practice session.
PHOTO • Shakti Sekhar Panigrahi

درگا پرساد داش پریکٹس سیشن کے دوران اپنے بینڈ کو ہدایات دے رہے ہیں

Group Kalajibi performing in Sambalpur district
PHOTO • Courtesy: Kalajibi Dance Group

کلا جیبی گروپ سمبل پور ضلع میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے

وہ بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۰ کی دہائی کے آخر میں حالات بدل گئے، جب دلکھائی ایک عوامی مظاہرے کے طور پر ابھرا، اس کے قدردانوں میں اضافہ ہوا اور بہت سے نئے ڈانس گروپ بنائے جانے لگے۔ داش کا کہنا ہے کہ مختلف کمیونٹیز کے لوگ اس میں شامل ہونے لگے اور جو لوگ شروع سے انڈسٹری میں تھے وہ گرو یا سرپرست بن گئے اور اپنے ڈانس گروپس اور اکیڈمیاں شروع کر دیں۔

دلکھائی کے فن کو دنیا کے سامنے لانے والے ایک استاد کے طور پر اپنے تجربے کا خلاصہ کرتے ہوئے داش کہتے ہیں، ’’دلکھائی تا کھالی ڈانس نوہے ایتا امار دنیا آئے [دلکھائی محض ایک رقص نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے لیے دنیا ہے]۔

*****

ٹیکی مہر (۲۴) سمبل پور کے ریرا کھول بلاک کے ریرا کھول گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایک دلکھائی رقاصہ ہیں۔ ان کا تعلق مہر برادری سے ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں، وہ اپنی چار رکنی فیملی – اپنی والدہ اور دو چھوٹے بھائیوں کے ساتھ اسی ضلع کے برلا قصبے آ گئیں۔ وہ دلکھائی فن کا مظاہرہ کرنے کے مزید منافع بخش مواقع کی تلاش میں تھیں۔

آج وہ کلا جیبی نامی ایک مشہور ڈانس گروپ کی رکن ہیں۔ وہ ملک بھر میں پرفارم کرنے والی آٹھ مستقل دلکھائی رقاصوں میں سے ایک ہیں۔ ’’سب سے پہلے، میں نے بیک گراؤنڈ ڈانسر کے طور پر شروعات کی اور اب میں ہاکی ورلڈ کپ میں پرفارم کر رہی ہوں، اس لیے یہ میرے لیے باعث اطمینان ہے،‘‘ ٹیکی فخریہ انداز سے کہتی ہیں۔

ٹیکی جب ۱۹ سال کی تھیں تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ گھر میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی ماں اور دو چھوٹے بھائیوں کی کفالت کے لیے راستے تلاش کرنے پڑے۔ ٹیکی کہتی ہیں، ’’میں نے کچھ کمانے کی امید میں دلکھائی سیکھنا شروع کیا۔‘‘

Tiki Meher of Kalajibi dance group, during a performance
PHOTO • Courtesy: Kalajibi Dance Group
Tiki Meher of Kalajibi dance group, during a performance
PHOTO • Courtesy: Kalajibi Dance Group

ایک پرفارمنس کے دوران کلا جیبی ڈانس گروپ کی ٹیکی مہر

Five dancers from g roup Kalajibi during a performance in Sambalpur district.
PHOTO • Courtesy: Kalajibi Dance Group

سمبل پور ضلع میں پرفارمنس کے دوران کلا جیبی گروپ کی پانچ رقاصائیں

وہ کہتی ہیں، ’’چھوا اسکول تھی اُتکی اُتکی نچلے تلی مرسون آؤ سیہی چھوا بعد ہیئی کری ڈانسر ہیمی کہیلے گلی دیسون [اسکول کے دنوں میں اسٹیج پر اپنے بچوں کی پرفارمنس دیکھ کر ہر ماں باپ خوش ہوتے ہیں، لیکن اگر وہی بچہ پروفیشنل ڈانسر بننا چاہے، تو اسے ڈانٹا پھٹکارا جاتا ہے]۔‘‘

ابتدائی دنوں میں انہیں اپنے فیصلے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’میرے پڑوسی میرے گھر والوں کو مشورہ دیتے کہ رقص میرے لیے اچھا پیشہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سے کوئی مجھ سے شادی نہیں کرے گا۔‘‘

لیکن، ٹیکی کے لیے، رقص ان کے مشکل ترین وقت میں پر امید بنے رہنے کے لیے روشنی کے ایک کرن کی طرح رہا ہے۔ ’’میرے اتار چڑھاؤ والے دنوں کے دوران، رقص ہی وہ واحد چیز ہے جس سے میں نے لطف اٹھایا اور اس نے دنیا کا سامنا کرنے کے لیے میرے اعتماد و یقین کو زندہ رکھا۔‘‘

مترجم: سبطین کوثر

Shakti Sekhar Panigrahi

Shakti Sekhar Panigrahi recently completed his M.A. in Development from Azim Premji University, Bengaluru. Being a musician himself, he was interested in writing about livelihoods tied to the musical culture he grew up around in Sambalpur.

Other stories by Shakti Sekhar Panigrahi
Editor : Riya Behl

Riya Behl is Senior Assistant Editor at People’s Archive of Rural India (PARI). As a multimedia journalist, she writes on gender and education. Riya also works closely with students who report for PARI, and with educators to bring PARI stories into the classroom.

Other stories by Riya Behl
Editor : Kruti Nakum

Kruti Nakum is a first year Masters student in Economics at Azim Premji University, Bengaluru.

Other stories by Kruti Nakum
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser