پہلی بار دیا بھاگنے میں تقریباً کامیاب رہی۔

وہ بس کی سیٹ پر گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی اور بس کے پوری طرح بھرنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے سورت سے جھالود کے لیے ایک ٹکٹ خرید لیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہاں سے گجرات سرحد پار کر کے راجستھان کے کشل گڑھ میں واقع اپنے گھر پہنچنے کا سفر ایک گھنٹہ کا ہے۔

وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی، جب روی اچانک اس کے پیچھے سے آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتی، روی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے بس سے نیچے اتار لیا۔

آس پاس کے لوگ سامان چڑھانے، بچے سنبھالنے میں مصروف تھے۔ کسی نے بھی غصے سے بھرے جوان لڑکے اور ڈری ہوئی لڑکی پر دھیان نہیں دیا۔ دیا نے کہا، ’’مجھے چیخنے میں ڈر لگا۔‘‘ روی کے غصے کا سامنا پہلے بھی وہ کر چکی تھی، اس لیے اسے خاموش رہنا ہی بہتر لگا۔

اُس رات کنسٹرکشن سائٹ کے پیچھے، اپنے گھر اور پچھلے ۶ مہینے سے جیل بنی ہوئی جگہ پر، دیا سو نہیں سکی۔ اس کے پورے جسم میں درد تھا۔ روی کی مارپیٹ سے اسے کئی جگہ زخم ہو گئے تھے اور نشان پڑ گئے تھے۔ وہ یاد کرتی ہے، ’’اس نے مجھے لات اور گھوسوں سے مارا۔‘‘ وہ جب اسے مارتا تھا، تب کوئی اسے روک نہیں سکتا تھا۔ جو آدمی دخل دیتے تھے ان پر یہ الزام لگتا تھا کہ دیا پر ان کی نظر ہے۔ جن عورتوں نے تشدد کو دیکھا انہوں نے فاصلہ بنائے رکھا۔ اگر کوئی ٹوکنے کی ہمت بھی کرتا، تو روی کہتا، ’میری گھر والی ہے، تم کیوں بیچ میں آ رہے ہو؟‘

دیا کہتی ہے، ’’ہر بار جب میرے ساتھ مارپیٹ ہوئی، مجھے مرہم پٹی کے لیے اسپتال جانا پڑتا اور ۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے۔ روی کا بھائی کبھی کبھی پیسے دیتا تھا اور یہاں تک کہ مجھے اسپتال بھی لے جاتا تھا اور کہتا تھا، ’’تم اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاؤ۔‘‘ لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایسا کرے کیسے۔

Kushalgarh town in southern Rajasthan has many bus stations from where migrants leave everyday for work in neighbouring Gujarat. They travel with their families
PHOTO • Priti David
Kushalgarh town in southern Rajasthan has many bus stations from where migrants leave everyday for work in neighbouring Gujarat. They travel with their families
PHOTO • Priti David

جنوبی راجستھان کے کشل گڑھ شہر میں کئی بس اسٹیشن ہیں، جہاں سے مزدور کام کی تلاش میں پڑوسی ریاست گجرات کے لیے ہر روز روانہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ مہاجرت کرتے ہیں

دیا اور روی راجستھان کے بانس واڑہ ضلع کے بھیل آدیواسی ہیں، جو کہ ۲۰۲۳ کی کثیر جہتی غریبی رپورٹ کے مطابق، ریاست میں دوسری سب سے زیادہ غریبوں کی آبادی والی جگہ ہے۔ کم زمین کی ملکیت، کھیتی کی کمی، بے روزگاری، اور چاروں طرف غریبی کے سبب، کشل گڑھ تحصیل کے بھیل آدیواسیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر مہاجرت ہوتی ہے، جو یہاں کی ۹۰ فیصد آبادی ہے۔

دوسروں کی طرح، دیا اور روی بھی ایک اور مہاجر جوڑے کی طرح دکھائی دیتے ہیں، جو گجرات میں کنسٹرکشن سائٹ پر کام تلاش کر رہے ہوتے ہیں، لیکن دیا کی مہاجرت ایک اغوا تھا۔

جب وہ پہلی بار روی سے بازار میں ملی، وہ پاس کے سجّن گڑھ میں دسویں جماعت میں پڑھنے والی ۱۶ سال کی لڑکی تھی۔ گاؤں کی ایک عمر دراز عورت نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر روی کا نمبر اسے پکڑا دیا تھا اور ضد کی تھی کہ اسے روی سے ملاقات کرنا چاہیے، کیوں کہ وہ بس اس سے ملنا چاہتا ہے۔

دیا نے اسے کال نہیں کیا۔ اگلے ہفتے جب وہ بازار آیا، تو اس کی اس سے تھوڑی سی بات ہوئی۔ وہ یاد کرتی ہے، ’’ہم کو باگی دورہ گھمانے لے جائے گا بولا، بائک پر۔ اسکول سے ایک گھنٹہ پہلے، ۲ بجے مجھے آنے کے لیے کہا۔‘‘ اگلے دن وہ اپنے دوست کے ساتھ اسکول کے باہر انتظار کر رہا تھا۔

وہ کہتی ہے، ’’ہم باگی دورہ نہیں گئے۔ ہم بس اسٹینڈ گئے۔ اس نے مجھے احمد آباد کی بس میں زبردستی بیٹھا دیا، جو یہاں سے ۵۰۰ کلومیٹر دور دوسری ریاست میں تھا۔‘‘ گھبرائی ہوئی دیا نے کسی طرح اپنے والدین کو فون کیا۔ ’’میرے چچا مجھے احمد آباد میں لینے آئے، لیکن روی کو اپنے گھر کے آس پاس کے دوستوں سے خبر مل گئی اور وہ مجھے زبردستی سورت لے گیا۔‘‘

اس کے بعد وہ دیا کے کسی سے بھی بات کرنے پر شک کرنے لگا اور اس کے بعد تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کسی سے بات کرنے کے لیے فون مانگنے پر اور زیادہ مارپیٹ ہوتی۔ دیا اس دن کو یاد کرتی ہے جب اپنے گھر والوں سے بات کرنے کے لیے بہت پریشان تھی، رو رہی تھی اور فون کے لیے فریاد کر رہی تھی۔ وہ اپنی پیٹھ کا ایک حصہ دکھاتی ہوئی کہتی ہے، جس میں اب بھی درد رہتا ہے، ’’اس نے مجھے کنسٹرکشن سائٹ کی پہلی منزل سے دھکہ دے دیا۔ خوش قسمتی سے میں ملبے کے ڈھیر پر گری، میرے پورے جسم پر زخم آئے تھے۔‘‘

Left: A government high school in Banswara district.
PHOTO • Priti David
Right: the Kushalgarh police station is in the centre of the town
PHOTO • Priti David

بائیں: بانس واڑہ ضلع کا ایک سرکاری ہائی اسکول۔ دائیں: شہر کے بالکل درمیان میں واقع کشل گڑھ پولیس اسٹیشن

*****

جب پہلی بار دیا کے اغوا کے بارے میں اس کی ماں کملا نے سنا، تو انہوں نے اسے واپس لانے کی کوشش کی۔ وہ ایک ۳۵ سالہ دہاڑی مزدور ہیں۔ بانس واڑہ ضلع کے چھوٹے سے گاؤں میں، اپنے ایک کمرے کے کچے گھر میں ماں بے تحاشہ روتے ہوئے کہتی ہیں، ’’بیٹی تو ہے میری۔ اپنے کو دل نہیں ہوتا کیا۔‘‘ روی کے دیا کو لے جانے کے کچھ دن بعد کملا نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی۔

عورتوں کے خلاف جرائم کے معاملے میں راجستھان تیسرے نمبر پر ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کی سال ۲۰۲۰ کی ہندوستان میں کرائم رپورٹ کے مطابق، ان جرائم کی فرد جرم داخل کرنے میں اس کا ریکارڈ سب سے کم – ۵۵ فیصد – ہے۔ اغوا اور یرغمال بنائے جانے کی تین میں سے دو شکایتیں پولیس کی فائل میں کبھی درج ہی نہیں ہوتیں۔ دیا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔

کُشل گڑھ کے ڈپٹی ایس پی روپ سنگھ بتاتے ہیں، ’’انہوں نے معاملہ واپس لے لیا تھا۔‘‘ کملا کہتی ہیں، بانجڑیا اس معاملے میں شامل ہو گئے۔ یہ گاؤں کے مردوں کا ایک گروپ ہے جو عدالتوں کے باہر معاملوں کو نمٹانے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کملا اور ان کے شوہر کشن کو پولیس کے بغیر ’دولہن کی قیمت‘ پر معاملے کو نمٹانے کے لیے راضی کر لیا۔ دولہن کی قیمت، بھیل برادری کی ایک روایت ہے، جہاں لڑکے کے گھر والے شادی کے لیے پیسے دیتے ہیں۔ (اتفاق سے، جب مرد شادی کو توڑتے ہیں، تو وہ پیسے واپس مانگتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ شادی کر سکیں۔)

فیملی کا کہنا ہے کہ انہیں ایک دو لاکھ روپے لے کر اغوا کا کیس واپس لینے کو کہا گیا۔ اس ’شادی‘ کو اب سماجی منظوری حاصل تھی، دیا کی نابالغ عمر اور اس کی رضامندی کو پوری طرح سے خارج کر دیا گیا تھا۔ سال ۲۰۲۱۔۲۰۱۹ کے قومی خاندانی صحت سروے ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کے مطابق، راجستھان میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی ایک چوتھائی عورتوں کی شادی ۱۸ سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔

ٹینا گراسیا، کُشل گڑھ کی سماجی کارکن ہیں۔ وہ خود ایک بھیل آدیواسی ہیں اور دیا جیسے معاملوں کو بالکل بھی اس طرح دیکھنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ صرف دولہنوں کے بھاگنے کے معاملے ہیں۔ بانس واڑہ ضلع میں آجیویکا بیورو کی سربراہ، ایک دہائی سے بھی لمبے عرصے سے مہاجر خواتین کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس آنے والے زیادہ تر معاملوں میں، مجھے کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ لڑکیاں اپنی مرضی سے گئی ہیں یا وہ کسی فائدے کے لیے گئی ہیں یا پیار کا رشتہ ہونے یا اپنی خوشی سے گئی ہیں۔‘‘

’’میں ان کے جانے کو ٹریفکنگ [اسمگلنگ] کی ایک سازش، ایک منصوبہ کی طرح دیکھتی ہوں۔ لڑکیوں کو ان رشتوں میں پھنسانے کے لیے لوگ ہوتے ہیں۔‘‘ ٹینا آگے اپنی بات کہتی ہیں کہ لڑکی سے صرف تعارف کرانے کے لیے بھی پیسے دیے جاتے ہیں۔ ’’اگر ایک لڑکی ۱۵-۱۴ سال کی ہے، تو اسے رشتوں یا زندگی کی کیا سمجھ ہوگی؟‘‘

جنوری کی ایک صبح، کشل گڑھ میں ٹینا کے دفتر میں تین کنبے اپنی بیٹیوں کے ساتھ آئے ہیں۔ ان کی کہانیاں بھی دیا جیسی ہی ہیں۔

Left: Teena Garasia (green sweater) heads Banswara Livelihood Bureau's Migrant Women Workers Reference Center; Anita Babulal (purple sari) is a Senior Associate at Aaajevika Bureaa, and Kanku (uses only this name) is a sanghatan (group) leader. Jyotsana (standing) also from Aajeevika, is a community counselor stationed at the police station, and seen here helping families with paperwork
PHOTO • Priti David
Left: Teena Garasia (green sweater) heads Banswara Livelihood Bureau's Migrant Women Workers Reference Center; Anita Babulal (purple sari) is a Senior Associate at Aaajevika Bureaa, and Kanku (uses only this name) is a sanghatan (group) leader. Jyotsana (standing) also from Aajeevika, is a community counselor stationed at the police station, and seen here helping families with paperwork
PHOTO • Priti David

بائیں: ٹینا گراسیا (لال رنگ کے سوئیٹر میں) بانس واڑہ میں آجیویکا بیورو کے تحت مہاجر خواتین مزدوروں کے لیے چلائے جانے والے مرکز کی سربراہ ہیں؛ انیتا بابو لال (بینگنی ساڑی میں) آجیویکا بیورو کی سینئر معاون ہیں، اور کانکو (وہ صرف اسی نام کا استعمال کرتی ہیں) سنگٹھن (جماعت) کی قائد ہیں۔ جیوتسنا (بھورے رنگ کا سوئیٹر پہنے کھڑی ہیں) بھی آجیویکا سے جڑی ہیں، اور پولیس اسٹیشن میں تعینات کمیونٹی کاؤنسلر ہیں۔ یہاں انہیں کاغذی کام میں خاندانوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

سیما کی شادی ۱۶ سال کی عمر میں ہو گئی تھی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ کام کے لیے گجرات چلی گئی تھی۔ وہ کہتی ہے، ’’اگر میں کسی سے بھی بات کروں، تو اسے بہت حسد ہوتی تھی۔ ایک بار اس نے مجھے اتنی زور سے مارا، میں ایک کان سے آج بھی ٹھیک سے نہیں سن پاتی ہوں۔‘‘

’’بے رحمی سے مارتا تھا۔ مجھے اتنا درد ہوتا تھا کہ میں زمین سے اٹھ بھی نہیں پاتی تھی اور پھر وہ کہتا تھا کہ یہ کام چور ہے۔ تب میں اپنے زخموں کے باوجود کام کرتی تھی۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ ان کی کمائی سیدھے شوہر کے پاس جاتی تھی اور ’’وہ گھر کے لیے آٹا تک بھی نہیں خریدتے تھے اور سارا پیسہ شراب میں خرچ کر دیتے تھے۔‘‘

اپنی زندگی کو ختم کرنے کی دھمکیوں کے بعد وہ اس سے الگ ہونے میں کامیاب رہیں۔ تب سے وہ کسی اور عورت کے ساتھ رہ رہا ہے۔ ’’میں حاملہ ہوں، لیکن وہ نہ شادی ختم کرنے کو تیار ہے، نہ ہی بھتّہ دینے کو۔‘‘ اس کے بعد ان کی فیملی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ گھریلو تشدد قانون ، ۲۰۰۵ کی دفعہ ۱ء۲۰ (ڈی) کہتی ہے کہ گزر بسر کے لیے بھتّہ ملنا ہی چاہیے اور یہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ ۱۲۵ کے عین مطابق ہے۔

رانی، جو ۱۹ سال کی ہیں، تین سال کے بچے کی ماں ہیں اور ایک بار پھر سے حاملہ ہیں۔ ان کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا۔ لیکن اس سے پہلے رانی کو بھی زبانی اور جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ روزانہ پیتا تھا اور ’گندی عورت، رنڈی ہے‘ کہہ کر جھگڑا کرتا تھا۔‘‘

حالانکہ، انہوں نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔ لیکن اسے واپس لے لیا گیا، جب بانجڑیا گروپ نے ۵۰ روپے کے اسٹامپ پیپر پر ایک سودا کیا، جہاں شوہر کی فیملی نے وعدہ کیا کہ وہ اچھا برتاؤ کرے گا۔ ایک مہینے بعد جیسے ہی ظلم و ستم دوبارہ شروع ہوا، بانجڑیا نے منہ موڑ لیا۔ رانی، جو کبھی اسکول نہیں گئیں اور اب قانونی داؤ پیچ سیکھ رہی ہیں، کہتی ہیں، ’’میں پولیس کے پاس گئی تھی، لیکن چونکہ میں نے اپنی شکایت واپس لے ہی تھی، اس لیے ثبوت گم ہو گئے۔‘‘ بھیل خواتین کی شرح خواندگی بہت ہی کم – ۳۱ فیصد – ہے (درج فہرست قبائل کی شماریاتی پروفائل، ۲۰۱۳)۔

آجیویکا بیورو کے دفتر میں، ٹیم کے اراکین دیا، سیما اور رانی جیسی خواتین کو قانونی اور دیگر امداد فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک کتابچہ، ’شرمک مہیلاؤں کا سرکشت پرواس‘ [خواتین مزدوروں کے لیے محفوظ مہاجرت] بھی شائع کیا ہے، جس میں خواتین کو ہیلپ لائن، اسپتالوں، لیبر کارڈ اور دیگر بہت سی چیزوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے فوٹو اور گرافکس کا استعمال کیا گیا ہے۔

حالانکہ، ان خواتین کے لیے یہ ایک لمبی لڑائی ہے، جس میں پولیس اسٹیشنوں، عدالتوں کے بے شمار دورے ہوتے ہیں اور اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی ہے۔ چھوٹے بچوں کی اضافی ذمہ داری کے سبب، کئی لوگ کام کے لیے دوبارہ مہاجرت نہیں کر سکتے۔

The booklet, Shramak mahilaon ka surakshit pravas [Safe migration for women labourers] is an updated version of an earlier guide, but targeted specifically for women and created in 2023 by Keerthana S Ragh who now works with the Bureau
PHOTO • Priti David
The booklet, Shramak mahilaon ka surakshit pravas [Safe migration for women labourers] is an updated version of an earlier guide, but targeted specifically for women and created in 2023 by Keerthana S Ragh who now works with the Bureau
PHOTO • Priti David

کتابچہ ’شرمک مہیلاؤں کا سرکشت پرواس ‘ پہلے سے موجود مواد اپ ڈیٹ کر کے تیار کیا گیا ہے۔ اسے سال ۲۰۲۳ میں کیرتن ایس راگ نے خاص طور پر خواتین کے لیے تیار کیا ہے، جو اب بیورو کے ساتھ کام کرتی ہیں

Left: Menka, also from Aajeevika (in the centre) holding a afternoon workshop with a group of young girls, discussing their futures and more.
PHOTO • Priti David
Right: Teena speaking to young girls
PHOTO • Priti David

بائیں: آجیویکا سے جڑی مینکا (درمیان میں) نوجوان لڑکیوں کے ایک گروپ کے درمیان دوپہر کی ورکشاپ کا اہتمام کر رہی ہے، جس میں ان کے مستقبل اور دیگر موضوعات پر بات چیت کی جاتی ہے۔ دائیں: ٹینا نوجوان لڑکیوں سے بات کر رہی ہیں

ٹینا کہتی ہیں، ’’ہم نے ایسے معاملے دیکھے ہیں جہاں لڑکیوں کو گھر چھوڑنے کے لیے راضی کر لیا گیا۔ پھر وہ ایک مرد سے دوسرے مرد کے پاس بھیجی جاتی رہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ سیدھے طور پر لڑکیوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ہی ہے۔ اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔‘‘

*****

اغوا کے فوراً بعد، احمد آباد اور پھر سورت میں دیا کو کام پر لگا دیا گیا۔ وہ روی کے ساتھ ’روکڑی‘ کے لیے کھڑی ہونے لگی – جہاں ٹھیکیدار، مزدور منڈیوں سے ۴۰۰-۳۵۰ روپے میں دہاڑی مزدور لے جاتے تھے۔ وہ فٹ پاتھ پر ترپال کی بنی جھونپڑی میں رہتے تھے۔ بعد میں وہ روی ’قائم‘ ہو گیا، جس کا مطلب تھا کہ اسے ماہانہ مزدوری ملنے لگی اور وہ کنسٹرکشن سائٹ پر رہنے لگے۔

دیا کہتی ہے، ’’لیکن میں نے کبھی اپنی کمائی نہیں دیکھی۔ وہ اسے رکھ لیتا تھا۔‘‘ دن بھر جی توڑ محنت کے بعد، وہ کھانا بناتی، صاف صفائی کرتی، کپڑے دھوتی اور گھر کے بقیہ کام کرتی۔ کبھی کبھی دوسری خواتین مزدور بات کرنے آتی تھیں، لیکن روی اس پر باز کی طرح نظر رکھتا تھا۔

’’تین بار میرے والد نے مجھے یہاں سے نکلنے کے لیے کسی کے ہاتھ سے پیسے بھیجے۔ لیکن جیسے ہی میں نکلنے لگتی، کوئی دیکھ لیتا اور روی کو بتا دیتا، اور وہ مجھے جانے نہیں دیتا۔ اُس بار میں بس میں چڑھ گئی، لیکن کسی نے روی کو بتا دیا اور وہ میرے پیچھے آ گیا۔‘‘

اس کی مزدوری رکھ لی جاتی تھی اور وہ مقامی زبان بھی نہیں جانتی تھی۔ دیا صرف واگڑی میں بات کر سکتی تھی اور تھوڑی بہت ہندی سمجھتی تھی۔ اس کے پاس روی اور اس کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے، گجرات میں کسی سے مدد لینے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

جب روی، دیا کو بس سے گھسیٹ کر لے آیا تھا، اس کے تقریباً چار مہینے بعد وہ حاملہ ہو گئی۔ لیکن یہ بھی اس کی مرضی سے نہیں ہوا تھا۔

اس دوران مارپیٹ کم ہوئی، لیکن پوری طرح سے بند نہیں ہوئی۔

آٹھویں مہینے میں روی نے دیا کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دیا۔ بچے کی پیدائش کے لیے وہ جھالود کے ایک اسپتال میں داخل ہوئی۔ وہ اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا سکی، کیوں کہ ۱۲ دن آئی سی یو میں داخل رہی اور اس کے جسم میں دودھ بننا بند ہو گیا۔

Migrant women facing domestic violence are at a double disadvantage – contractors deal with them only through their husbands, and the women who don't speak the local language, find it impossible to get help
PHOTO • Priti David
Migrant women facing domestic violence are at a double disadvantage – contractors deal with them only through their husbands, and the women who don't speak the local language, find it impossible to get help
PHOTO • Priti David

گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی مہاجر خواتین کو دہری مار پڑتی ہے۔ ایک تو ٹھیکیدار ان کے شوہروں کے ذریعے ہی ان سے رابطے میں رہتے ہیں، اور جو خواتین مقامی زبان نہیں بولتی ہیں ان کے لیے مدد حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے

اُس وقت اس کی فیملی میں کسی کو بھی روی کے پرتشدد رویے کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ کچھ دن رکنے کے بعد، والدین اسے واپس بھیجنے کے لیے بیتاب تھے – مہاجر نوجوان مائیں اپنے چھوٹی عمر کے بچوں کو ساتھ لے جاتی ہیں۔ کملا کہتی ہیں، ’’لڑکی کے لیے سہارا وہ آدمی ہی ہے جس سے اس کی شادی ہوئی ہے۔ وہ ساتھ رہیں گے، ساتھ کام کریں گے۔‘‘ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنے سے، ماں اور بچہ فیملی کی مالی حالت کو مزید مشکل میں بھی ڈال رہے تھے۔

دریں اثنا، اب فون پر گالی گلوچ شروع ہو گئی تھی۔ روی بچے کے علاج کے لیے پیسے دینے سے انکار کر دیتا تھا۔ دیا اب گھر پر تھی اور اسے تھوڑی ہمت ملی تھی، اور وہ بھی کبھی کبھی ایسا کہہ کر اپنی طاقت دکھاتی تھی، ’’ٹھیک ہے پھر، میں اپنے باپ سے مانگوں گی۔‘‘ کملا یاد کرتی ہیں، ’’بہت جھگڑا کرتے تھے۔‘‘

ایسی ہی ایک بات چیت میں اس نے دیا سے کہا کہ وہ کسی دوسری عورت کے ساتھ چلا جائے گا۔ دیا نے جواب دیا، ’’اگر آپ جا سکتے ہیں، تو میں بھی جا سکتی ہوں،‘‘ اور پھر کال کاٹ دی۔

کچھ گھنٹوں بعد، روی جو پڑوس کی تحصیل میں اپنے گھر پر تھا، پانچ آدمیوں کے ساتھ تین بائک پر، دیا کے والدین کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ کہہ کر دیا کو ساتھ آنے کے لیے راضی کر لیا کہ وہ اچھا برتاؤ کرے گا اور وہ دوبارہ سورت جائیں گے۔

دیا یاد کرتی ہے، ’’وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ انہوں نے میرے بچے کو چارپائی پر لیٹایا۔ میرے گھر والے نے مجھے تھپڑ مارا۔ مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور ایک کمرے میں لے جا کر اس کا دروازہ بند کر دیا۔ اس کے بھائی اور دوست بھی آئے۔ اس نے ایک ہاتھ سے میرا گلا دبایا اور باقی لوگ میرے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اور اس نے دوسرے ہاتھ سے بلیڈ سے میرا سر مونڈ دیا۔‘‘

یہ واقعہ دیا کی یادداشت میں دردناک طریقے سے بسا ہوا ہے۔ ’’مجھے تھامبا [لکڑی کا کھمبا] سے باندھا گیا تھا۔ میں جتنا چیخ و پکار کر سکتی تھی اتنی آواز دی، لیکن کوئی نہیں آیا۔‘‘ پھر باقی لوگ چلے گئے اور انہوں نے دروازہ بند کر دیا۔ ’’اس نے میرے کپڑے اتارے اور میری عصمت دری کی۔ وہ گیا، پھر باقی تین لوگ آئے اور انہوں نے باری باری سے میری عصمت دری کی۔ مجھے بس اتنا ہی یاد ہے، کیوں کہ اس کے بعد میں بیہوش ہو گئی تھی۔‘‘

کمرے کے باہر اس کے بچے نے رونا شروع کر دیا تھا۔ ’’میں نے سنا میرے گھر والے [شوہر] نے میری ماں کو فون کیا اور کہا، ’وہ نہیں آ رہی ہے۔ ہم آئیں گے اور بچہ چھوڑ جائیں گے‘۔ میری ماں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ خود آ رہی ہیں۔

Young mothers who migrate often take their very young children with them. In Diya's case, staying with her parents was straining the family’s finances
PHOTO • Priti David
Young mothers who migrate often take their very young children with them. In Diya's case, staying with her parents was straining the family’s finances
PHOTO • Priti David

مہاجر نوجوان مائیں اکثر اپنے چھوٹی عمر کے بچوں کو ساتھ لے جاتی ہیں۔ دیا کے معاملے میں، ماں باپ کے ساتھ ان کا رہنا فیملی کی مالی حالت کو مزید مشکلوں میں ڈال رہا تھا

کملا یاد کرتی ہیں کہ جب وہ پہنچی، تو روی نے ان سے بچہ لے جانے کو کہا، ’’میں نے کہا ’نہیں‘۔ میں اپنی بیٹی سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ مونڈے ہوئے سر کے ساتھ کانپتی ہوئی دیا آئی، ’’گویا کسی کی آخری رسومات ادا کی گئی ہوں۔‘‘ کملا یاد کرتی ہیں، ’’میں نے اپنے شوہر، سرپنچ اور گاؤں کے مکھیا کو بلایا اور انہوں نے پولیس بلائی۔‘‘

جس وقت تک پولیس آئی، جن آدمیوں نے یہ کیا تھا وہ غائب ہو گئے۔ دیا کو اسپتال لے جایا گیا۔ دیا یاد کرتی ہے، ’’مجھ پر کاٹنے کے نشان تھے۔ کوئی ریپ ٹیسٹ نہیں ہوا۔ اور میرے زخموں کی کوئی تصویر نہیں لی گئی تھی۔‘‘

گھریلو تشدد سے خواتین کی حفاظت کا قانون ، ۲۰۰۵ کی دفعہ (۹جی) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر جسمانی تشدد ہوا ہے، تو پولیس کو جسمانی جانچ کا حکم دینا چاہیے۔ حالانکہ، دیا کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولیس کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ جب رپورٹر نے ڈپٹی ایس پی سے پوچھا، تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ دیا نے اپنا بیان بدل دیا تھا، عصمت دری کا ذکر نہیں کیا تھا، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے سکھایا گیا ہو۔

دیا کی فیملی اس بات سے صاف انکار کرتی ہے۔ دیا کہتی ہے، ’’آدھا آدھا لکھا اور آدھا آدھا چھوڑ دیا۔ میں نے دو تین دن بعد کورٹ میں فائل پڑھی۔ میں نے دیکھا کہ انہوں نے یہ لکھا ہی نہیں کہ چار لوگوں نے میری عصمت دری کی اور نہ ہی ان لوگوں نے نام لکھے، جب کہ میں نے نام دیے تھے۔‘‘

The Kushalgarh police station where the number of women and their families filing cases against husbands for abandonment and violence is rising
PHOTO • Priti David

کُشل گڑھ پولیس اسٹیشن، جہاں شوہروں کے خلاف تشدد کرنے اور چھوڑ دینے کے معاملے درج کرانے والی خواتین اور ان کے خاندانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی مہاجر خواتین کو دہری مار پڑتی ہے۔ ایک تو ٹھیکیدار ان کے شوہروں کے ذریعے ہی ان سے رابطے میں رہتے ہیں، اور جو عورتیں مقامی زبان نہیں بولتی ہیں ان کے لیے کسی سے مدد مانگنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے

روی اور باقی جن تین آدمیوں کے نام دیا نے عصمت دری کرنے والوں کے طور پر پولیس کو دیے تھے وہ گرفتار کیے گئے۔ ساتھ ہی فیملی کے دوسرے لوگ بھی۔ ابھی سب کے سب ضمانت پر باہر ہیں۔ دیا کو روی کے دوست اور گھر والے جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔

سال ۲۰۲۴ کی شروعات میں، جب یہ رپورٹر ان سے ملی، تو انہوں نے کہا کہ ان کا دن پولیس اسٹیشن، عدالتوں کے چکر کاٹنے اور ۱۰ مہینے کے بچے کی دیکھ بھال میں گزرتا ہے، جو مرگی کے مرض میں مبتلا ہے۔

دیا کے والد کشن کہتے ہیں، ’’ہر بار جب ہم کشل گڑھ آتے ہیں [بس میں] ہم میں سے ہر ایک کے ۴۰ روپے لگتے ہیں۔‘‘ کبھی کبھی فیملی کو فوری طور پر بلایا جاتا ہے اور انہیں ایک پرائیویٹ گاڑی کرایے پر لینی پڑتی ہے، جس میں ان کے گھر سے ۳۵ کلومیٹر کے فاصلہ کے لیے ۲۰۰۰ روپے کا خرچ آتا ہے۔

خرچ بڑھتا جا رہا ہے، لیکن کشن نے مہاجرت کرنا بند کر دیا ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’جب تک یہ معاملہ نمٹ نہیں جاتا، میں کیسے کہیں جا سکتا ہوں؟ لیکن اگر میں کام نہیں کروں گا، تو گھر کیسے چلاؤں گا؟‘‘ بانجڑیا نے ہمیں معاملہ واپس لینے کے لیے پانچ لاکھ روپے دینے کی بات کہی۔ میرے سرپنچ نے کہا، ’لے لو‘۔ میں نے کہا، نہیں! اسے قانون کے حساب سے سزا ملنے دو۔‘‘

دیا، جو کہ اب ۱۹ سال کی ہے اور اپنے گھر کے کچے فرش پر بیٹھی ہے، امید کرتی ہے کہ مجرموں کو سزا ملے گی۔ اس کے بال ایک انچ بڑھ گئے ہیں۔ ’’انہوں نے میرے ساتھ وہ کیا جو وہ چاہتے تھے۔ اب ڈر کس بات کا؟ میں لڑوں گی۔ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ اگر وہ ایسا کچھ کرے گا، تو کیا ہوگا۔ پھر وہ کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں کرے گا۔‘‘

اس کی آواز اونچی ہوتی جاتی ہے، وہ کہتی ہے، ’’اسے سزا ملنی ہی چاہیے۔‘‘

یہ اسٹوری ہندوستان میں جنسی اور صنف پر مبنی تشدد (ایس جی بی وی) کا سامنا کر چکے لوگوں کی دیکھ بھال کی راہ میں آنے والی سماجی، ادارہ جاتی اور ساختیاتی رکاوٹوں پر مرکوز ملک گیر رپورٹنگ پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز انڈیا‘ کا تعاون حاصل ہے۔

سیکورٹی کے لحاظ سے اسٹوری میں شامل کرداروں اور ان کے اہل خانہ کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Series Editor : Anubha Bhonsle

Anubha Bhonsle is a 2015 PARI fellow, an independent journalist, an ICFJ Knight Fellow, and the author of 'Mother, Where’s My Country?', a book about the troubled history of Manipur and the impact of the Armed Forces Special Powers Act.

Other stories by Anubha Bhonsle
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique