’’ہم دہلی اس لیے آئے ہیں کیونکہ حکومت نے ہمارے مطالبات کو پورا نہیں کیا ہے،‘‘ بھارتی بائی کھوڑے نے بتایا۔ مارچ ۲۰۱۸ میں بھارتی بائی نے ناسک سے ممبئی تک کسانوں کے اس تاریخی احتجاجی مارچ میں شامل ہونے کے لیے تقریباً ۱۸۰ کلو میٹر پیدل سفر کیا تھا۔

میں نے ۵ ستمبر کو مزدور کسان سنگھرش ریلی سے ایک دن قبل وسط دہلی کے رام لیلا میدان میں بھارتی بائی سے ملاقات کی۔ ان کے گاؤں کے دیگر بہت سے کاشتکار، جن کا تعلق مہاراشٹر میں ضلع ناسک کے کالوان تعلقہ میں واقع سپت شرنگ گڑھ سے تھا، جنہوں نے ناسک سے لے کر ممبئی تک کے طویل مارچ میں حصہ لیا تھا اور اس مارچ میں شریک کاشتکاروں کی تعداد ۴۰ سے ۵۰ ہزار کے درمیان تھی، یہ تمام لوگ دہلی آئے تھے۔ ان کے مطالبات تھے – زمین کا مالکانہ حق، آبپاشی، قرضوں کی معافی، فصلوں کے لیے بہتر قیمتیں اور دیگر سہولتیں۔

لیکن منتظمین کے اندازہ کے مطابق، اس بار ۲۶ ریاستوں سے آنے والے کاشتکاروں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی تھی، یعنی ۳ لاکھ سے تجاوزکر گئی تھی۔ اور اس بار کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ دیگر کارکنان بھی شامل تھے۔ یہ تمام تر لوگ دہلی اس لیے آئے تھے کیونکہ انہیں آل انڈیا کسان سبھا، سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز، اور آل انڈیا ایگریکلچرل ورکرز یونین کی جانب سے منعقدہ ریلی میں شریک ہونا تھا۔

احتجاج کرنے والے بیشتر افراد ریل گاڑیوں او ربسوں کے ذریعہ ۵ ستمبر کو منعقد ہونے والی ریلی سے ایک دن قبل دہلی پہنچ گئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے تھیلے لے کر آئے تھے، جن میں ملبوسات اور گھر سے لائی گئی کھانے پینے کی تھوڑی بہت چیزیں تھیں۔ ان کے لیے رام لیلا میدان میں سونے کے لیے خیمے نصب کیے گئے تھے، وہاں کھانا ۲۵ روپے میں دستیاب تھا۔

Bhartibai Khode, who doesn’t have a patta for the land says, “This year I had to take a loan of Rs 20,000 from a money lender at 10% interest.”
PHOTO • Sanket Jain
The tents were named according to the states. AIKS General Secretary, Hannan Mollah said, “The [protestors] came from 26 states and nearly 3 lakh people marched in the rally.”
PHOTO • Sanket Jain

’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ہمیں زمین کا مالکانہ حق دے‘، بھارتی بائی کھوڑے (بائیں) نے کہا؛ رام لیلا میدان میں احتجاج کرنے والوں کے لیے لگائے گئے خیموں (دائیں) کا نام ریاستوں کے مطابق رکھا گیا تھا

پانچ ستمبر کی صبح کو ہونے والی بارش ان کے جوش و جذبے کو کم نہیں کر سکی۔ بنگالی، گجراتی، کنڑ، ملیالم، مراٹھی، تمل اور دیگر زبانوں میں نعروں سمیت انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے احتجاج کرنے والوں نے صبح ۹ بجے اپنے خیموں سے بارش میں شرابور ہوکر روانگی شروع کی۔ دو گھنٹے بعد وہ تین کلو میٹر پیدل چل کر اپنی منزل – پارلیمنٹ اسٹریٹ – تک پہنچے تاکہ اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کر سکیں۔

بھارتی بائی – جن کا تعلق ایک درج فہرست قبیلہ، کولی مہادیو برادری سے ہے – نے کہا کہ اگر حکومت ہمیں انصاف نہیں دیتی، تو اس صورت میں ہم اس جگہ سے نہیں ہٹیں گے۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک ان کا کنبہ ایک ایکڑ سے بھی کم جنگلاتی زمین پر کھیتی کرتا آیا ہے۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اور محکمہ جنگلات ہمیں زمین کا مالکانہ حق دے۔ پٹہ [ملکیت] ہمارے نام سے نہیں ہے۔ ہم اس پر قرض کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔ یہ حقوق اور تحفظات حقوق جنگلات قانون ۲۰۰۶ میں موجود ہیں – تاہم ان کا نفاذ عمل میں نہیں آیا ہے۔

’’اس کی بجائے محکمہ جنگلات کے افسران نے میرے مکان کو چار مرتبہ توڑا ہے۔ میں ان سے ڈرتی نہیں ہوں۔ میں رات میں پھر سے ٹین پر مبنی چھوٹا سا گھر تعمیر کر لیتی ہوں۔ ہمیں حکومت سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ بھارتی بائی نے کہا۔

پنجاب کے ضلع برنالا کے موضع اُپّلی سے بذریعہ ریل گاڑی یہاں تک پہنچنے والے ۷۰ سالہ مگھر سنگھ اس احتجاج میں شریک ہونے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے انہیں سنسد مارگ پر ایک نیلے کپڑے پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ اتنے لمبے سفر کی وجہ سے کافی تھک چکے تھے اور تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتے تھے۔ اس حالت میں بھی، مگھر سنگھ ایم جی نریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم) پروجیکٹوں کے لیے بطور مزدور کام کرتے ہیں۔ انہیں گزشتہ مالی سال میں ۲۵ دنوں کا کام ملا تھا، تاہم بجائے اس کے کہ انہیں قاعدے کے مطابق ۲۴۰ روپے یومیہ کی اجرت ادا کی جاتی، انہوں نے بتایا، ’’ہمیں آٹھ گھنٹوں کے کام کے لیے صرف ۱۴۰ روپے یومیہ ادا کیے جاتے ہیں اور کبھی کبھی حکومت ہمارے ذریعہ کمائے جانے والے پیسے کو [ہمارے بینک اکاؤنٹ میں] جمع کرنے میں تین برس کا وقت لے لیتی ہے۔ مگھر سنگھ کی اہلیہ گردیو کور بھی ایک ایم جی نریگا مزدور تھیں، لیکن چار برس قبل پیش آئے ایک حادثے نے انہیں اب واکر کا سہارا لے کر چلنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ ان کے بچے نزدیک میں واقع مواضعات میں تعمیراتی سائٹوں پر بطور مزدور کام کرتے ہیں۔ ’’اتنی معمولی آمدنی سے ہم اپنا پیٹ کیسے بھر سکتے ہیں؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔ ’’لہٰذا ہم اُپّلی میں چلنے والے لنگر میں کھانا کھاتے ہیں۔‘‘

03a - Indrakumari Nevare, a mid-day meal worker said that for the past five years her salary has remained Rs 1000 monthly (top left)

03b - Maghar Singh, 70 from Punjab talks about the time delay in NREGA payments and how the number of working days under NREGA has been reducing (top right)

03c - A worker carrying the flag of labour union in Ramlila Maidan (bottom left)

03d - Farmers and workers leaving for Parliament Street carrying the flags and banners of their demands.
PHOTO • Sanket Jain

مدھیہ پردیش کے ضلع سیونی سے تعلق رکھنے والی مڈ ڈے میل کارکن اندرا کماری نوارے (اوپر بائیں جانب)، اور پنجاب کے ضلع برنالا سے تعلق رکھنے والے ایم جی نریگا مزدور مگھر سنگھ (اوپر دائیں جانب) یہاں اپنی معمولی سی اجرتوں پر نظرثانی کی جستجو میں آئے ہیں۔ سب سے نیچے والی قطار میں: پارلیمنٹ اسٹریٹ کے لیے مارچ کا آغاز کرتے ہوئے

بہتر تنخواہ کے مطالبے کے لیے، ۴۲ سالہ اندرا کماری نوارے جیسے مڈ ڈے میل کارکنان بھی دہلی آئے تھے۔ اندرا کماری کا تعلق مدھیہ پردیش کے ضلع سیونی کے برگھاٹ بلاک کے موضع ملارا سے ہے۔ اندرا کماری دو دہائیوں سے ریاست کی مڈ ڈے میل اسکیم کے تحت روزگار سے جڑی ہوئی ہیں۔ پچاس طلباء کے لیے یومیہ کھانا تیار کرنے اور برتن دھونے [ملارا میں سرکاری پرائمری اسکول میں] کے عوض ہمیں ماہانہ صرف ۱۰۰۰ روپے ہی ملتے ہیں۔ ان کے شوہر شیو پرساد جو اس احتجاج میں شامل ہونے کے لیے نہیں آسکے، وہ ۱۰۰ روپے یومیہ پر گاؤں میں بطور زرعی مزدور کام کرتے ہیں۔

ضلع سیونی کے متعدد مواضعات سے تعلق رکھنے والے مڈ ڈے میل کارکنان کی ایک بڑی تعداد ماہانہ ۱۸ ہزار روپے کی تنخواہ کا مطالبہ کر رہی تھی۔

مہندر چودھری (۲۸ سالہ) اپنی اجرتوں میں تھوڑی سی نظر ثانی کے خواہش مند ہیں۔ وہ بہار میں ضلع گیا کہ اماس بلاک کے چتورے کھاپ گاؤں سے آئے تھے، جہاں وہ ایک زرعی مزدور ہیں۔ کھیت میں ایک دن میں ۹ گھنٹے کام کرنے کے عوض انہیں ڈھائی کلو چاول ملتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’زمین مالکان ہمیں پیسے نہیں دیتے۔ وہ ہمیں صرف چاول دیتے ہیں اور گاؤں کے دکاندار اس چاول کو ہم سے ۱۶ روپے فی کلو کے حساب سے خرید لیتے ہیں۔‘‘ جب کہ منڈی میں یہی چاول ۲۲ روپے فی کلو کے حساب سے ملتا ہے۔ تھوڑا زیادہ کمانے کے لیے مہندر کبھی کبھی قریب کے گاؤوں میں یومیہ ۱۵۰ روپے کی اجرت پر تعمیراتی مزدور کے طور پر بھی کام کر لیتے ہیں۔ ’’میں ۱۲ سال کی عمر سے مزدوری کر رہا ہوں۔ ہماری اجرتوں کو بڑھا کر یومیہ ۵۰۰ روپے کیا جانا چاہیے۔‘‘

From left to right: ASHA worker Pradnya Dhurandar, her son Vishal, and daughter kanchan who came from Takli Pr.Rajur village in Maharashtra’s Buldana district
PHOTO • Sanket Jain
In order to make ends meet, Mahendar Choudhary, 28 from Chature Khap village in the Amas block of Gaya district in Bihar doubles up as a [building] construction majdoor and an agricultural labourer
PHOTO • Sanket Jain

مہاراشٹر کے بلڈانہ ضلع سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی ہیلتھ ورکر پرگیاں دھرندر (بائیں، جو اپنے بیٹے وشال اور بیٹی کنچن کے ساتھ دہلی آئی تھیں)، اور بہار میں ضلع گیا کے ایک تعمیراتی مزدور اور زرعی مزدور مہندر چودھری (دائیں) بھی مناسب اجرت کا مطالبہ کر رہے تھے

دہلی میں منعقدہ اس زبردست ریلی میں ۳۵ سالہ پرگیاں دھرندر بھی موجود تھیں، جو مہاراشٹر کے بلڈانہ ضلع کے موٹلا تعلقہ کے موضوع تکلی پی آر راجور سے آئی تھیں۔ وہ ٹالسٹائے مارگ کے فرش پر بیٹھی ہوئی تھیں، جو پارلیمنٹ اسٹریٹ سے بہت دور نہیں ہے۔ اس احتجاج میں وہ اپنی ۱۷ سالہ بیٹی کنچن اور ۱۱ سالہ بیٹے وشال کو بھی ساتھ لے کر آئی تھیں۔ ان کے شوہر کو پولیو ہے اور وہ بے روزگار ہیں۔ ’’ہم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ میرے دونوں بچے کمزوری محسوس کر رہے ہیں اور میں نے انہیں یہاں بٹھا دیا ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔

پرگیاں سال ۲۰۱۰ سے ہی قومی دیہی صحت مشن کے تحت منظور شدہ سماجی صحت کارکن (آشا) کمیونٹی ورکر کے طور پر کام کرتی آئی ہیں، وہ بلڈانہ اور اکولہ ضلع کے گاؤوں سے متعدد دیگر آشا کارکنان کے ساتھ ریلی میں آئی تھیں۔ ان تمام کارکنان کا مطالبہ یہ ہے کہ انہیں ایک مقررہ تنخواہ دی جائے۔ آشا کارکنان کو صرف ان کاموں کے لیے کارکردگی پر مبنی ترغیبات ادا کی جاتی ہیں، جو کم یا زیادہ ہوتے ہیں اور ان میں بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کے امور کو فروغ دینا شامل ہوتا ہے۔ تولیدی صحت کے لیے حوالہ جاتی خدمات بھی انجام دیتی ہیں، ساتھ ہی ساتھ اندرونِ خانہ بیت الخلاؤں کی تعمیر کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔ (یہ تمام باتیں قومی صحت مشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں)۔

کاشتکاروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، پرگیاں نے ناسک سے ممبئی کے مارچ میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے مضبوطی سے کہا، ’’ہم جانتے ہیں کہ حکومت ہمیں مقررہ تنخواہ نہیں دے گی۔ لہٰذا ہم دوبارہ دہلی آئیں گے۔‘‘ یہ ریلی شام کو ساڑھے چار بجے ختم ہوگئی تھی، لیکن ان کی جیسی متعدد کارکنان نے کہا کہ وہ دوبارہ دہلی  آنے اور احتجاج کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

یہ بھی ملاحظہ کریں: دہلی میں عدم اطمینان اور عزم مصمم : فوٹو البم

مترجم: سبطین کوثر

Sanket Jain

Sanket Jain is a journalist based in Kolhapur, Maharashtra. He is a 2022 PARI Senior Fellow and a 2019 PARI Fellow.

Other stories by Sanket Jain
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser