روپیش موہارکر نے تقریباً ۲۰ سال کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے گروپ کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے۔

روپیش (۳۱) چیختے ہوئے کہتے ہیں، ’’دھیان لگائیں۔‘‘ سبھی نوجوان ان کی اس بات کو غور سے سنتے ہیں۔ وہ انہیں ’کرو یا مرو‘ کی یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کوتاہی کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے!‘‘

تائید میں سر ہلاتے ہوئے سنجیدہ چہروں والے اس گروپ میں نعرہ بلند ہونے لگتا ہے۔ سبھی پرجوش ہو کر، بھاگنا، دوڑنا اور اسٹریچنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی یہ جسمانی تربیت پچھلے ایک مہینہ سے چل رہی ہے۔

اپریل کی ابتدا ہے۔ صبح چھ بجے شہر کا واحد عوامی میدان، بھنڈارا کا شیواجی اسٹیڈیم جوشیلے نوجوانوں کی بھیڑ سے بھرا ہوا ہے۔ یہ نوجوان پسینہ بہا رہے ہیں، ۱۰۰ میٹر اور ۱۶۰۰ میٹر کی دوڑ لگا رہے ہیں، اور قوت برداشت کو مضبوط کرنے کے لیے شاٹ پُٹ اور دوسری ورزشیں کر رہے ہیں۔

ان کے ذہن میں عام انتخابات کی باتیں شاید ہی ہوں، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے لگاتار تیسری بار اپنی دعویداری پیش کی ہے۔ بھنڈارا-گوندیا پارلیمانی حلقہ میں ۱۹ اپریل، ۲۰۲۴ کو پہلے مرحلہ کی ووٹنگ ہوگی، جو ایک طویل، مشکل اور مشقت بھرا انتخابی موسم ہونے والا ہے۔

انتخابی گہما گہمی سے دور ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کی توجہ پوری طرح سے ریاستی پولیس کی تقرری سے متعلق تیاریوں پر مرکوز ہے، جس کے لیے درخواستیں جمع کرنے کی کارروائی ۱۵ اپریل کو بند ہو جائے گی۔ اس کے لیے آئندہ کچھ مہینوں میں جسمانی اور تحریری امتحانات ہوں گے تاکہ پولیس کانسٹیبل، کانسٹیبل ڈرائیور، ریاستی ریزرو پولیس فورس، پولیس بینڈز مین اور جیل کانسٹیبل جیسے عہدوں پر تقرری کی جا سکے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

روپیش موہارکر (بائیں) مشرقی مہاراشٹر کے بھنڈارا میں ایک کسان کے بیٹے ہیں، جن کے لیے ریاستی پولیس میں تقرری کا یہ آخری موقع ہے۔ وہ بھنڈارا اور گوندیا ضلعوں میں پرماننٹ سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کے خواہش مند چھوٹے کسانوں کے بچوں کو کوچنگ بھی دیتے ہیں

حال ہی میں عالمی ادارۂ محنت (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، آئی ایل او) کے ذریعہ جاری ہندوستان کی بے روزگاری سے متعلق رپورٹ ۲۰۲۴ کے مطابق، ہندوستان کے بے روزگاروں میں تقریباً ۸۳ فیصد نوجوان ہیں، جب کہ بے روزگاروں میں ثانوی یا اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے لوگوں کی حصہ داری سال ۲۰۰۰ میں ۲ء۵۴ فیصد سے بڑھ کر سال ۲۰۲۲ میں ۷ء۶۵ فیصد ہو گئی ہے۔

اگر ملک کے دیہی نوجوانوں کی بے روزگاری اور بڑھتی فکرمندیوں کا کوئی ایک چہرہ ہوتا، تو وہ اس وقت شیواجی اسٹیڈیم میں موجود بھیڑ جیسا ہوتا، جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ آرائی میں ہے، اور جنہیں معلوم ہے کہ ان میں سے صرف کچھ ہی کامیابی حاصل کر پائیں گے۔ آگے کا راستہ مشکل ہے۔ چند خالی عہدوں کے لیے لاکھوں لوگ میدان میں ہوں گے۔

بھنڈارا اور گوندیا جنگلات سے مالامال، اچھی بارش والے ضلعے ہیں، جہاں دھان کی کھیتی ہوتی ہے، لیکن بڑی تعداد میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل پر مبنی آبادی کے لیے یہاں کوئی بڑی صنعت نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چھوٹے، حاشیہ بردار اور بے زمین کسانوں نے بڑے پیمانے پر ان ضلعوں سے دوسری ریاستوں میں نقل مکانی کی ہے۔

حکومت مہاراشٹر کے محکمہ داخلہ نے ضلع وار کوٹہ کے تحت ۱۷۱۳۰ عہدوں کو بھرنے کے لیے تقرری مہم کا اعلان کیا تھا۔ بھنڈارا پولیس میں ۶۰ عہدے خالی ہیں، جن میں سے ۲۴ خواتین کے لیے ریزرو ہیں۔ گوندیا میں ایسے تقریباً ۱۱۰ عہدے ہیں۔

روپیش ان میں سے ایک پوسٹ کے دعویدار ہیں۔ بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعد، ان کی ماں نے ان کی پرورش کی۔ روپیش کی فیملی کے پاس بھنڈارا کے قریب سونولی گاؤں میں ایک ایکڑ زمین ہے۔ تقرری مہم میں کامیاب ہونے اور وردی حاصل کرنے کا یہ ان کا آخری موقع ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’میرے پاس کوئی ’پلان بی‘ نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar

بھنڈارا کے شیواجی اسٹیڈیم میں حال ہی میں ہوئی ایک تربیتی مشق کے دوران روپیش موہارکر کے ساتھی ۵۰ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک گروپ

اپنا خواب پورا کرنے کی کوشش میں وہ مشرقی مہاراشٹر کے اس معاشی طور پر پس ماندہ ضلع میں تقریباً ۵۰ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی رہنمائی بھی کر رہے ہیں۔

غیر رسمی طور پر روپیش ’سنگھرش‘ نام کی ایک اکادمی چلاتے ہیں، جو ان کی جدوجہد کی ہی عکاسی کرتی ہے۔ ان کے گروپ کے رکن بھنڈارا اور گوندیا ضلعوں کے غیر معروف گاؤوں سے آتے ہیں۔ چھوٹے کسانوں کی ان اولادوں کا مقصد ایک مستقل نوکری حاصل کرنا ہے۔ ان کی امید وردی حاصل کر کے اپنے اہل خانہ کے بوجھ کو کم کرنا ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے ہائر سیکنڈری اسکول تک پڑھائی کی ہے، بہت کم کے پاس ہی ڈگری ہے۔

کتنوں نے کھیتوں پر کام کیا ہے؟ سبھی اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیتے ہیں۔

کتنے دوسری جگہ کام کے لیے گئے؟ کچھ نے پہلے ایسا کیا تھا۔

ان میں سے اکثر نے منریگا (مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون) کی جگہوں پر کام کیا ہے۔

یہ تو ایک گروپ ہے۔ اسٹیڈیم غیر رسمی اکادمیوں کے ایسے کئی گروہوں سے بھرا ہوا ہے، جن کی قیادت اکثر روپیش جیسے لوگ کرتے ہیں جو امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پہلے کوشش کر چکے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بھنڈارا شہر کے واحد کھلے عوامی میدان میں ۲۰ سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں ریاستی پولیس تقرری مہم ۲۰۲۴ کے لیے پسینہ بہا رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر پہلی یا دوسری بار کے ووٹر ہیں، جو اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں

یہاں ورزش کر رہے کئی نوجوان پہلی یا دوسری بار کے ووٹر ہیں۔ وہ غصے میں ہیں، مگر خاموشی سے اپنے کیریئر اور مستقبل کے لیے فکرمند ہیں۔ انہوں نے پاری کو بتایا کہ ان کی خواہش ہے کہ دوسرے شعبوں میں بھی انہیں نوکریاں، اچھی تعلیم، گاؤوں سے بہتر زندگی اور یکساں مواقع دستیاب ہوں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مقامی لوگوں کے لیے ضلع پولیس کی اسامیوں میں کوٹہ رکھا جائے۔

گرودیپ سنگھ بچِل (۳۲) نام کے ایک امیدوار نے بتایا، ’’یہ تقرری تین سال بعد ہو رہی ہے۔‘‘ روپیش کی طرح ان کا بھی یہ آخری موقع ہے۔ ایک ریٹائرڈ پولیس والے کے بیٹے، روپیش پولیس میں نوکری حاصل کرنے کے لیے ایک دہائی سے کوشاں ہیں۔ امیدواروں سے بھرے اسٹیڈیم میں گھومتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں جسمانی امتحان تو پاس کر لیتا ہوں، لیکن تحریری امتحان میں پھنس جاتا ہوں۔‘‘

ایک اور مسئلہ ہے: زیادہ تر امیدواروں کی شکایت ہے کہ مہاراشٹر کے خوشحال حصوں سے اچھی تیاری کر کے آنے والے امیدوار بھنڈارا اور گوندیا جیسے پس ماندہ علاقوں میں نکلے عہدوں کے لیے درخواست جمع کرتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ضلعوں میں شامل گڑھ چرولی ایک استثنیٰ ہے، جہاں صرف مقامی لوگ ہی درخواست جمع کر سکتے ہیں اور پولیس کی نوکری پا سکتے ہیں۔ اس لیے روپیش اور دوسرے لوگوں کے لیے راہ مشکل ہے۔

اس لیے وہ سبھی پوری طاقت سے تربیت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔

سینکڑوں قدموں کی اچھل کود سے اسٹیڈیم کی ہوا غبار آلود ہے۔ امیدواروں میں سے کچھ معمولی ٹریک سوٹ یا پینٹ، کچھ جوتے پہنے ہوئے، تو دوسرے ننگے پیر ہیں، اور دوڑ لگانے کا اپنا وقت بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی بھی چیز ان کی توجہ میں رخنہ نہیں ڈال سکتی، انتخابات بھی نہیں، جو کافی دور دکھائی دیتے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: روپیش موہارکر، بھنڈارا میں اپنی چچی کی چکن کی دکان پر کام کرتے ہوئے۔ بچپن میں ہی والد کی وفات کے بعد ان کی ماں نے ان کی پرورش کی تھی۔ ان کی فیملی کے پاس بھنڈارا کے قریب سونولی گاؤں میں ایک ایکڑ زمین ہے۔ امتحان پاس کرنے کا ان کا یہ آخری موقع ہے۔ جن نوجوانوں کو وہ ورزش کی ٹریننگ دے رہے ہیں، وہ صبح ان کے ساتھ حکمت عملی پر غور کرنے اور اپنی خامیوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں

بھنڈارا میں اپنی چچی کی دکان پر روپیش قصائی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ حالانکہ، ذات کے لحاظ سے وہ قصائی نہیں ہیں۔ وہ اپنی چچی پربھا شیندرے کی فیملی کی مدد کرتے ہیں۔ ایپرن پہن کر وہ ایک ماہر کی طرح مرغیوں کو کاٹتے ہیں اور لگاتار گاہکوں سے نمٹتے رہتے ہیں۔ وہ سات سال سے یہ کام کررہے ہیں، اور ان کا خواب ایک دن خاکی وردی پہننے کا ہے۔

زیادہ تر امیدواروں کے لیے غریبی کی انتہا نے کڑی محنت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا ہے۔

روپیش کہتے ہیں کہ سخت جسمانی ورزش کے لیے ہمیں اچھا کھانا پینا بھی چاہیے، جیسے چکن، انڈے، مٹن، دودھ، پھل وغیرہ۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم میں سے بہت سے لوگ اچھا کھانا نہیں خرید سکتے۔‘‘

*****

بھنڈارا سب سے غریب دیہی نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے ایک مرکز کی طرح ہے۔ جب بھی پولیس تقرری کی مہم کا اشتہار جاری ہوتا ہے، وہ یہاں آتے ہیں، قیام کرتے ہیں اور تیاری کرتے ہیں۔

شیواجی اسٹیڈیم میں اربوں خواب باہم متصادم ہیں۔ جیسے جیسے دن چڑھے گا، ضلع کے اور بھی نوجوان میدان پر پہنچیں گے۔ ایسی ہی ایک نوجوان لڑکی سے ہماری ملاقات ارکٹونڈی گاؤں میں منریگا کے کام کی جگہ پر ہوئی، جو گڑھ چرولی کی سرحد سے ملحق گوندیا کی ارجنی مورگاؤں تحصیل میں واقع ہے۔ ۲۴ سال کی میگھا میشرام گریجویٹ ہیں۔ وہ اپنی ماں سریتا اور تقریباً ۳۰۰ دوسرے نوجوان اور بزرگ گاؤں والوں کے ساتھ سڑک کی تعمیر کے ایک مقام پر ریت اور پتھر ڈھو رہی ہیں۔ ۲۳ سال کی میگھا آڑے کی بھی یہی کہانی ہے۔ پہلے والی میگھا ایک دلت (درج فہرست ذات) ہیں اور دوسری آدیواسی (درج فہرست قبائل) ہیں۔

میگھا میشرام پختہ لہجے میں ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہم صبح اور شام کو گاؤں میں دوڑتے اور ورزش کرتے ہیں۔‘‘ ان کا گھر گھنے جنگلات والے علاقے میں ہے اور وہ یومیہ مزدوری کر کے دن بھر اپنے والدین کی مدد کرتی ہیں۔ دونوں میگھا نے بھنڈارا کی اکادمیوں کے بارے میں سنا ہے اور مئی میں وہاں جا کر اُن سینکڑوں لوگوں کے ساتھ شامل ہونے کے بارے میں سوچ رہی ہیں جو پولیس دستہ میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ اپنے اخراجات کے لیے وہ اپنی مزدوری بچا رہی ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: میگھا میشرام نے پولیس تقرری کی مہم میں اپنی درخواست جمع کی ہے۔ یہ نوجوان دلت لڑکی فی الحال اپنی ماں سریتا کی مدد کے لیے اپنے گاؤں میں منریگا سائٹ پر کام کرتی ہے۔ (دائیں) میگھا آڑے کے ساتھ میگھا میشرام، منریگا سائٹ پر کام کرنے والی یہ دونوں لڑکیاں آپس میں دوست ہیں۔ دونوں گریجویٹ ہیں اور ریاستی پولیس کی تقرری مہم ۲۰۲۴ کے دوران پولیس فورس میں شامل ہونے کی خواہش مند ہیں

ایک بار وہاں پہنچنے کے بعد، وہ کرایے پر کمرہ لیں گی اور گروپوں میں رہیں گی، ساتھ میں کھانا بنائیں گی اور امتحان کی تیاری کریں گی۔ جب کوئی امتحان میں پاس ہو جاتا ہے، تو وہ سبھی جشن مناتے ہیں۔ دوسرے اگلی تقرری کے انتظار میں اگلی صبح اپنی ورزش پر لوٹ جاتے ہیں۔

یہ نوجوان لڑکیاں اپنے مرد مدمقابل سے پیچھے نہیں ہیں اور انہیں کسی بھی مشکل کی پرواہ نہیں ہے۔

شرم سے مسکراتے ہوئے ویشالی میشرام (۲۱) کہتی ہیں، ’’مجھے اپنی لمبائی کی وجہ سے شکست کھانی پڑتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اسی لیے، انہوں نے ’بینڈز مین‘ زمرہ میں درخواست جمع کی ہے، جہاں ان کی لمبائی رکاوٹ نہیں بنے گی۔

ویشالی اپنی چھوٹی بہن گائتری اور دوسرے گاؤں کی ۲۱ سالہ پولیس امیدوار میوری گھراڈے کے ساتھ شہر میں ایک کمرے میں رہ رہی ہیں۔ اپنے صاف ستھرے کمرے میں وہ باری باری سے کھانا پکاتی ہیں۔ ان کا ماہانہ خرچ کم از کم ۳۰۰۰ روپے آتا ہے۔ پروٹین کی اپنی ضرورت وہ بنیادی طور پر چنا اور دالوں سے پورا کرتی ہیں۔

ویشالی کے مطابق، آسمان چھوتی قیمتیں ان کے بجٹ کو متاثر کرتی ہیں۔ ’’ہر چیز مہنگی ہے۔‘‘

ان کا دن مصروف ہوتا ہے۔ وہ صبح ۵ بجے اٹھتے ہیں، جسمانی ٹریننگ کے لیے سائیکل سے میدان پر پہنچتے ہیں۔ صبح ۱۰ بجے سے دوپہر ۱۲:۳۰ بجے تک وہ پاس کی لائبریری میں پڑھتے ہیں۔ روپیش گوشت کی دکان پر اپنے کام کے درمیان آتے ہیں، اور ماک ٹیسٹ پیپر ڈرل کے ساتھ ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ شام کو وہ جسمانی ورزش کے لیے میدان پر لوٹ جاتے ہیں۔ ٹریننگ کی تیاری کے ساتھ ان کا دن پورا ہوتا ہے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

تصویر میں دوسری لڑکیوں کی طرح ویشالی تلشی رام میشرام (بائیں) ریاستی پولیس کی نوکری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ساتھ رہنے والی میوری گھراڈے (دائیں) کے ساتھ، جو خود مہاراشٹر پولیس کی تقرری مہم ۲۰۲۴ کے لیے امیدوار ہیں

روپیش یا ویشالی جیسے لوگ دراصل کاشتکاری سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہیں، جس میں انہیں اپنا مستقبل نظر نہیں آتا۔ ان میں سے زیادہ تر اپنے ماں باپ کو بغیر کسی فائدے کے کھیتوں میں محنت کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ وہ مزدور کی طرح دور دراز کے علاقوں میں مہاجرت نہیں کرنا چاہتے۔

بڑھتی عمر کے ساتھ وہ کوئی محفوظ نوکری حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہیں، یعنی ایسا معاش جسے وہ باوقار کہہ سکیں۔ مگر پرائیویٹ اور سرکاری شعبوں میں نوکریاں بہت کم ہیں۔ جیسے جیسے ۲۰۲۴ کا انتخاب شروع ہو رہا ہے، وہ مایوس ہیں کہ موجودہ حکومت ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہی ہے۔ یہ پولیس تقرری کی مہم ان لوگوں کے لیے واحد موقع ہے، جنہوں نے ۱۲ویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے پاس زیادہ قابلیت نہیں ہے۔

آنے والے انتخاب میں وہ کسے ووٹ دیں گے؟

اس سوال کے بعد لمبی خاموشی چھا جاتی ہے۔ یہ نصاب سے باہر کا سوال ہے!

مترجم: قمر صدیقی

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique