’’اگر وہ ہمارے گھروں کو تباہ کرنے کے لیے ہاتھیوں کے ساتھ آئے تو ہم اپنا سارا سامان اور اپنے بچوں کو اس تالاب میں پھینک دیں گے، ایک حلقہ بنائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ہمیں گولی مار دیں، لیکن جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہم یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے،‘‘ روپ رانی کہتی ہیں۔ وہ جلد ہی  رامپورہ کے دیگر تمام باشندوں کی طرح اپنے گھر اور اپنی زمین سے محروم ہو سکتی ہیں۔

ان کا گاؤں پنّا ٹائیگر ریزرو کے حائلی علاقے (بفر ژون) کے ۴۹ گاؤں میں سے ایک ہے۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں محکمہ جنگلات نے بتایا ہے کہ باگھوں (ٹائیگر) کی تعداد میں اضافے کے باعث تحفظ شدہ قلبی علاقے کی توسیع کرنی ہوگی۔ قلبی علاقوں میں انسانی بستیاں بسانے کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ حائلی علاقے باگھوں کی اہم رہائش گاہوں کے ارد گرد ان کی آزادانہ نقل و حرکت کے لیے زیادہ جگہ فراہم کرتے ہیں، اور انسانوں اور جنگلاتی حیات کی باہمی بقا کو بھی یقنی بناتے ہیں۔ رامپورہ اگست ۲۰۱۲ میں پنا ریزرو کے حائلی علاقے کے تحت آیا تھا۔

لیکن پچھلے چار برسوں سے قلبی علاقے کی توسیع کے منصوبوں پر کام چل رہا ہے، جس کی وجہ سے روپ رانی اور ان کے پڑوسی اپنے مستقبل کو لے کر غیر یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنی زمین بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور ساتھ میں محکمہ جنگلات کے ساتھ معاوضہ کے طور پر فی کنبہ ملنے والے۱۰ لاکھ روپے (یہ رقم مرکزی حکومت کے پروجیکٹ ٹائیگر کے ذریعہ ۲۰۰۸ میں مختض کی گئی تھی) کے علاوہ پانچ ایکڑ کے پلاٹ پر منتقل ہونے کے لیے بھی مذاکرات کر رہے ہیں۔

Closed Grill gate.
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan
Net, behind that there is a green building.
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan

پنا ریزرو کے نزدیک: وہ سرحد جو جنگل کو رامپورہ (بائیں) سے الگ کرتی ہے، اور گاؤں کے داخلی دروازے پر محکمہ جنگلات کی چوکی (دائیں)

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے انہیں بتایا ہے کہ حکومت کے پاس بازآبادکاری کے لیے کوئی زمین نہیں ہے۔ روپ رانی مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ کاشتکاری بھی کرتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اپنی دو ایکڑ زمین پر گندم اور مکئی کی کھیتی کرتی ہیں۔ وہ حالات کی ستم ظریفی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’اگر حکومت کے پاس ہمیں دینے کے لیے زمین نہیں ہے، تو وہ ہم سے کسی چیز کی توقع کیسے کریں گے؟ وہ ہم سے کس طرح یہ توقع کرسکتے ہیں کہ ہم ۱۰ ہزار روپے میں کھیتی کے لیے مناسب زمین خریدیں گے، اس پر ایک گھر بنائیں گے اور اپنے مویشیوں اور بچوں کو کھلائیں گے؟‘‘

تقریباً ۱۵۰ افراد (تقریباً ۴۰-۳۵ کنبوں) پر مشتمل رامپورہ مدھیہ پردیش کے پنا ضلع میں واقع ایک آدیواسی گاؤں ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں اس گاؤں کا اندراج نہیں ہے۔ یہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع کنڈاواہا نامی ایک بستی ہے۔ اس بستی کو غیر آباد دکھایا گیا ہے جبکہ اس میں ۲۵-۲۰ کنبے آباد ہیں۔ اور رامپورہ کا پنچایت گاؤں، اٹواں کلاں ۱۵ کلومیٹر دور ہے۔ اس گاؤں کی آبادی ۵۹۹۴ ہے۔

رامپورہ میں ایک آنگن واڑی ہے اور ایک پرائمری اسکول ہے، لیکن نہ تو اُجولا اور آواس یوجنا جیسی سرکاری اسکیمیں گاؤں تک پہنچی ہیں اور نہ ہی بجلی آئی ہے۔ محکمہ جنگلات نے ہر گھر کو ایک سولر لیمپ دیا ہوا ہے، اور گاؤں والوں نے موبائل فون چارج کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا سولر پینل اجتماعی طور پر خریدا ہے۔ بجلی کی فراہمی سے محروم پنا کے اکثر آدیواسی گاؤں کا یہ عام طریقہ ہے۔

A young child with his mother
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan
Portrait of a woman
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan

شوبھا رانی (بائیں) اور دیگر نے کلکٹر کے پاس عرضی داخل کی ہے۔ دائیں: روپ رانی پوچھتی ہیں، ’اگر حکومت کے پاس زمین نہیں ہے، تو وہ ہم سے زمین تلاش کرنے کی امید کیسے کریں گے؟‘

تقریباً ۵۵ سال کی شوبھا رانی کہتی یں، ’’جنگلات کے حکام ہماری ہر قسم کی امداد میں رخنہ ڈالتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب گاؤں کو منتقل کیا جانا ہے، تو یہاں کوئی بھی سرکاری اسکیم وقت کی بربادی ہوگی۔‘‘ ان کا کبنہ اپنی ۱۱ ایکڑ آبائی زمین پر انحصار کرتا ہے۔ (رامپورہ کے باشندوں کا کہنا ہے کہ ان سب کے پاس پٹے – زمین کی ملکیت کے دستاویزات – ہیں۔ حالانکہ مجھے زمین کا کوئی دستاویز نہیں دکھایا گیا تھا۔)

ستمبر ۲۰۱۸ میں شوبھا اور رامپورہ کی چند دیگر خواتین نے کلکٹر کے یہاں ایک عرضی داخل کی تھی۔ ’’ہم نے اپنے مطالبات ایک کاغذ پر درج کیے، لوگوں کے دستخط لیے اور اسے [پنا ضلع] کلکٹر کو پیش کیا۔ انہوں نے اس پر اپنی مہر لگائی، ایک کاپی اپنے پاس رکھی اور ایک ہمیں دے دی۔‘‘

درخواست پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ میں نے کلکٹر سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ میرے دورے کے وقت شہر سے باہر تھے۔ محکمہ جنگلات سے وابستہ واحد شخص جس نے مجھ سے ریکارڈ پر بات کی وہ فاریسٹ گارڈ تھے (لیکن ہم یہاں ان کا نام استعمال نہیں کر رہے ہیں)۔ وہ کہتے ہیں، ’’حکومت کے پاس اب لوگوں کو دینے کے لیے کوئی زمین نہیں ہے۔ گاؤں والے [معاوضہ کے طور پر دی گئی] رقم سے اپنی مرضی کی زمین خرید سکتے ہیں۔ وہ جس گاؤں کا انتخاب کریں وہاں آباد ہوسکتے ہیں۔ انہیں صرف کلکٹر کو ایک درخواست دینی ہوگی تاکہ انہیں اس پنچایت میں شامل کیا جا سکے۔‘‘

House
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan
document paper
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan

گاؤں والوں نے مشترکہ طور پر فون چارج کرنے کے لیے ایک چھوٹا سولر پینل (بائیں) خریدا ہے۔ دائیں: درخواست کی ایک کاپی جو انہوں نے کلکٹر کو جمع کرائی تھی

گارڈ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ (پی سی سی ایف) نے الگ سے ایک معاہدہ کرنے کے لیے تقریباً ایک سال قبل رامپورہ کا دورہ کیا تھا۔ ’’انہوں نے گاؤں والوں کو فی کبنہ ایک گھر اور فی بالغ شخص ۱۰ لاکھ روپے معاوضے کی پیشکش کے ساتھ راضی کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن گاؤں والوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ (کچھ گاؤں والوں کو یہ یاد ہے کہ انہیں فی بالغ شخص ۱۰ لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی تھی، فی خاندان نہیں، لیکن اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی)۔

رامپورہ کے باشندوں کے لیے پی سی سی ایف کے وعدے پر شک و شبہ کی کئی وجوہات ہیں۔ ۵۰ سالہ بسنتا آدیواسی کہتے ہیں، ’’یہی وعدہ بڈگڈی کے لوگوں کے ساتھ [تقریباً ۱۰ سال قبل] کیا گیا تھا۔ وہ گاؤں سے باہر چلے گئے تھے، لیکن انھیں گھر نہیں ملا تھا۔‘‘  بڈگڈی کلاں ٹائیگر ریزرو کے مرکزی علاقے میں پنا ضلع کے ہینوتا رینج میں واقع ہے۔ ’’دھوکہ دہی کے احساس کی وجہ سے انہوں نے محکمہ جنگلات سے معاوضے کی رقم لینے سے بھی انکار کردیا۔ اب ان میں سے بہت سے لوگ چھتر پور ضلع [کے قصبوں] میں رہتے ہیں، جہاں وہ محکمہ جنگلات کے ساتھ اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ ان کے پاس وکیل کو دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔‘‘

رام پورہ کے لوگوں نے دوسرے گاؤں کے لوگوں کی نقل مکانی کے بعد ان کی جدوجہد بھی دیکھی ہے۔ شوبھا رانی کہتی ہیں، ’’آپ جانتے ہیں کہ تلگاؤں کے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا [دیکھیں: جنگل سے بےدخلی اور غیر یقینی صورتحال ]۔ ہم ویسی حالت میں نہیں جانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باز آبادکاری سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں کسی پنچایت سے جوڑیں [جو گاؤں کے لوگوں کو سرکاری اسکیموں تک رسائی میں مدد دے گی]، ہمارے بچوں کے اسکول میں داخلے کو یقینی بنائیں اور گیس اور بجلی جیسی دیگر سہولیات بھی [فراہم کریں]۔‘‘

Kids in front of their house
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan
Pink colour house
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan

رامپورہ میں ایک اسکول ہے، لیکن بہت سی دوسری ریاستی اسکیمیں نہیں ہیں۔ شوبھا رانی کہتی ہیں،  ’چونکہ اس گاؤں کو منتقل کیا جائے گا، اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ یہاں کوئی بھی اسکیم وقت کی بربادی ہوگی‘

زراعت رامپورہ میں آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہاں کاشت کی جانے والی اہم فصلیں کالا چنا، مکئی، چنا، تل اور گندم ہیں۔ یہاں کے لوگ ان فصلوں کو اپنی خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کا ایک حصہ فروخت کرکے اوسطاً ۲۰ ہزار سے ۵۰ ہزار روپے سالانہ کماتے ہیں۔

حائلی علاقے میں رہائش ہونے کی وجہ سے گاؤں والوں پر جنگل کی پیداوار جمع کرنے، استعمال کرنے یا بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن جنگل میں کاشتکاری کے ساتھ ساتھ یہ سرگرمیاں بھی تیزی سے محدود کی جا رہی ہیں۔ اب گاؤں والے شاذ و نادر ہی جنگل کی پیداوار جمع کرنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ یہ پیداوار پہلے ان کی آمدنی میں اضافے اور گھریلو ضروریات کو پورا کرنے میں معاون تھی۔ ساڑھے تین ایکڑ کے پلاٹ پر کھیتی کرنے والے ۳۰ سالہ ویریندر آدیواستی کہتے ہیں، ’’جنگل کی دیگر پیداوار کی کون کہے، اگر ہم لکڑی جمع کرنے بھی جاتے ہیں تو ہماری کلہاڑیاں ضبط کر لی جاتی ہیں۔ ہماری شکایات اعلیٰ حکام تک نہیں پہنچتی ہیں اور اب نہ ہی ہمیں جنگلی جانوروں کے ذریعے تباہ ہونے والی فصلوں کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔‘‘

نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی کے نظرثانی شدہ رہنماخطوط (۲۰۰۸) میں کہا گیا ہے کہ جنگلی جانوروں کی وجہ سے انسانی اموات اور فصلوں کی تباہی کی صورت میں جنگل میں رہنے والوں کو معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ رامپورہ میں جنگلی سور اور نیل گائیں اکثر فصلوں کو تباہ کر دیتی ہیں۔ ویرندر کہتے ہیں، ’’ہم جانوروں کو بھگانے کے لیے پوری رات جاگتے رہتے ہیں۔ انہیں تکلیف پہنچانا جرم ہے، جس کے لیے ہمیں جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ اکثر وہ ہماری فصل کو بڑا نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

Woman with steel mutaka on her head
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan
Two men
PHOTO • Maithreyi Kamalanathan

بائیں: پریم بائی پوچھتی ہیں، ’ہم بغیر زمین کے باہری دنیا میں  کیسے زندہ رہیں گے؟‘ دائیں: ویرندر آدیواسی اور بسنتا آدیواسی: ’ہم سبھی لوگ ایک ساتھ احتجاج کریں گے‘

ان مشکلات کے باوجود رامپورہ میں لوگوں کو تحفظ کا احساس ہے۔ اس کی ایک وجہ پانی کی دستیابی ہے۔ ویرندر کہتے ہیں، ’’آپ نے وہاں تالاب ضرور دیکھا ہوگا… اس میں سال بھر پانی دستیاب رہتا ہے۔ یہاں کے کسی اور گاؤں میں پانی کا ایسا ذریعہ تلاش کرنا مشکل ہے۔ ہماری خواتین کو روزانہ پانی لانے کے لیے میلوں پیدل سفر نہیں کرنا پڑتا ہے۔‘‘

پریم بائی (۴۵) گاؤں کے اسکول میں دوپہر کا کھانا (مڈ ڈے میل) بناتی ہیں۔ ان کا مشترکہ خاندان تقریباً ۱۰ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتا ہے۔ پریم بائی  کو بھی اس تحفظ کا احساس ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اور میرے شوہر پہلے ہی بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اگر ہم جنگل سے باہر جائیں گے، تو ہم میں یومیہ اجرت پر مزدوری کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ کم از کم یہاں ہماری زمین ہے اور ہم اپنے رزق کے لیے فصلیں کاشت کرسکتے ہیں۔ ہم بغیر زمین کے، باہر کیسے زندہ رہیں گے؟ ہم یہ جگہ چھوڑنے سے انکار نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن اگر حالات مزید خراب ہوں گے تو کیا فائدہ؟ ہمارے وہی مطالبات ہیں جو ہمارا حق ہے۔ ہم زمین، شناخت اور ایک محفوظ ذریعہ معاش چاہتے ہیں۔‘‘

اب جبکہ رامپورہ کے لوگ اپنی درخواست پر کلکٹر کی طرف سے کارروائی کا صبر و تحمل کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں، وہ آگے آنے والی چیزوں کے لیے بھی تیاری کر رہے ہیں۔ بسنتا کہتے ہیں، ’’صرف ہمارا ہی گاؤں نہیں ہے جسے منتقل ہونا پڑے گا۔ اور بھی کئی گاؤں ہیں اور ان کے بھی یہی مطالبات ہیں۔ ہم سبھی لوگ کلکٹر کے دفتر کے سامنے ایک ساتھ احتجاج کریں گے۔‘

مترجم: شفیق عالم

Maithreyi Kamalanathan

Maithreyi Kamalanathan is the communication head of Project Koshika, Bundelkhand Action Lab, Panna, Madhya Pradesh.

Other stories by Maithreyi Kamalanathan
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam