وجیہ پھرتاڈے چار سال پہلے دادی بن گئی تھیں۔ حالانکہ، ابھی وہ محض ۳۴ سال کی ہیں۔ مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے اروی گاؤں میں اپنی ٹن کی چھت والی جھونپڑی کے باہر پتھر کے چبوترے پر بیٹھی وہ کہتی ہیں، ’’میری شادی ۱۴ سال کی عمر میں ہی کر دی گئی تھی۔‘‘ ان کے دولہا، بندو، کی عمر ان سے بہت زیادہ نہیں تھی، وہ ۱۸ سال کے تھے۔ وجیہ کہتی ہیں، ’’میں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ چند سال انتظار کریں، لیکن انہوں نے کہا کہ یہی صحیح عمر ہے۔ میری زیادہ تر سہیلوں کی شادیاں اسی عمر میں ہوئی تھی۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ ’شاید وہ صحیح ہیں‘۔‘‘

شادی کے ایک سال کے اندر ہی وجیہ ماں بن گئیں۔ اگلے پانچ برسوں میں، جب وہ کم سن ہی تھیں، ان کے تین بچے (دو بیٹیاں اور ایک بیٹا) پیدا ہو چکے تھے۔ چھ سال پہلے ان کی بڑی بیٹی سواتی کی ۱۳ سال کی عمر میں شادی ہوگئی۔ اور چار سال بعد چھوٹی بیٹی شیتل کی باری تھی، جس کی عمر ۱۵ سال تھی۔ اب سواتی کی چار سال کی ایک بیٹی ہے اور شیتل کا ایک سال کا بیٹا ہے۔

مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں پھرتاڈے فیملی کی طرح کم عمری کی شادیاں عام ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کے ۲۰۱۵-۱۶ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کے دیہی علاقوں میں ۲۰-۲۴ سال کی عمر کی تمام لڑکیوں میں سے تقریباً ایک تہائی لڑکیوں کی شادی ۱۸ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی گئی تھی۔ مزید برآں، سروے کے وقت دیہی مہاراشٹر میں ۱۵ سے ۱۹ سال کی عمر کی ۴ء۱۰ فیصد خواتین ماں بن چکی تھیں یا حاملہ تھیں۔

اگرچہ یہ جانکاری عام ہے کہ ہندوستان میں کم عمری کی شادی (۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکیوں اور ۲۱ سال سے کم عمر کے لڑکوں کے لیے) غیر قانوںی ہے۔ اس کے باوجود، کاشتکاری سے ہونے والی کم آمدنی اور بڑھتی ہوئی مہاجرت کی وجہ سے بیڈ ضلع کے دیہاتوں میں ایسی جوڑیاں زیادہ بنائی جاتی ہیں۔ سال ۲۰۱۵-۱۶ کے این ایف ایچ ایس کے مطابق، بیڈ میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی ۳ء۵۱ فیصد خواتین کی شادی ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہی ہو گئی تھی، اور سروے کے وقت ۱۵ سے ۱۹ سال کی عمر والے گروپ میں ۲ء۱۸ فیصد لڑکیاں ماں بن چکی تھیں، یا حاملہ تھیں۔

مہاجرت اکثر مراٹھواڑہ میں کم عمر کی شادیوں پر مجبور کرتی ہے۔ ٹریڈ یونین کے اندازوں کے مطابق، تقریباً ۳ لاکھ کسان اور مزدور فصل کی کٹائی کے موسم میں بیڈ سے نکل جاتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر مغربی مہاراشٹر کے کولہا پور، سانگلی اور ستارا ضلعے یا کرناٹک کے بیلگام ضلع میں گنے کاٹنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ (دیکھیں: گنے کے کھیتوں تک کا لمبا سفر )

گزشتہ برسوں کے دوران زراعت کی پیداواری لاگت میں اضافہ اور پیداوار کے منافع میں جمود آنے کے ساتھ مراٹھواڑہ سے موسمی مہاجرت میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیشن برائے زرعی لاگت اور قیمت کی خریف فصلوں کی قیمت کی پالیسی (۲۰۱۷-۱۸) کے عنوان سے شائع ایک رپورٹ میں کپاس جیسی نقد فصلوں سمیت تقریباً ہر فصل کے لیے سرمایہ کاری اور منافع کے درمیان فرق کو ظاہر کیا گیا ہے۔ خطے میں پانی کے دائمی بحران کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار اپنی آمدنی کے بنیادی ذریعہ کے طور پر کھیتی پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اس سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

احمد نگر سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم ہیرمبھ کلکرنی، جو ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ جب کنبہ کام کے لیے نقل مکانی کرتا ہے، تو بیٹی کی دیکھ بھال ایک پریشانی بن جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جیسے ہی بیٹی بڑھنے لگتی ہے، نقل مکانی کرنے والے والدین کو اس کی حفاظت کی فکر ستانے لگتی ہے۔ وہ جلدی سے اس کی شادی کر دیتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بڑی ذمہ داری پوری کر دی۔‘‘

A woman in a field with a young girl
PHOTO • Parth M.N.

وجیہ اپنی پوتی گیانیشوری کے ساتھ: اس طرز کو توڑتے ہوئے

وجیہ کے والدین بیڈ کے شیرور تعلقہ کے شِیرا پور گاؤں میں دو ایکڑ زمین کے کاشتکار ہیں۔ جب وہ نوعمر تھیں، تو ان کے والدین ہر سال نومبر سے مارچ تک گنا کٹائی کی غرض سے پانچ ماہ کے لیے ہجرت کرتے تھے [اور اب بھی کرتے ہیں]۔ ’’ہم نے کپاس کی کاشت کی، لیکن کم زمین ہونے کی وجہ سے ہمیں آمدنی کے دوسرے ذرائع تلاش کرنے پڑے،‘‘ وجیہ کہتی ہیں، جن کی کوئی بہن نہیں ہے۔ ’’میرے پاس ایک مہاجر کے طور پر زندگی کی مبہم یادیں ہیں۔ میرے والدین گنے کاٹنے کے لیے کھیتوں میں جاتے تھے اور میں عارضی جھونپڑی میں ٹھہر جاتی تھی۔ (دیکھیں: دو ہزار گھنٹے تک گنّے کی کٹائی )

کم عمری کی شادی کے خلاف قانون ہونے کے باوجود جب بچپن میں ہی لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے، تو صحت کے بہت سے منفی نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ مطالعات میں اکثر کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں کم عمر ماؤں میں زچگی کے دوران شرح اموات زیادہ ہوتی ہے، اور جب ماں خود بہت چھوٹی اور جسمانی طور پر کمزور ہوتی ہے تو بچوں میں غذائیت کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اسقاط حمل، مردہ پیدائش اور کم وزن والے بچے بھی کم عمری کے حمل کے تمام ممکنہ نتائج ہیں۔

قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی رپورٹ بعنوان ’’ہندوستان میں کم عمری کی شادی کا شماریاتی تجزیہ: ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر‘‘ میں کہا گیا ہے کہ ۱۰ سے ۱۴ سال کی عمر کی لڑکیوں کے حمل یا بچے کی پیدائش کے دوران موت کے امکانات ۲۰ سے ۲۴ سال کی خواتین کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ جب لڑکیوں کی عمر ۱۵ سے ۱۹ سال کی ہوتی ہے، تو بچے کی پیدائش اور حمل کے دوران ان کی موت کے امکانات بڑی عمر کی خواتین کے مقابلے میں دو گنا ہو جاتے ہیں۔

’’اس رپورٹ سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کم عمری کی شادی اور بچے پیدا کرنے کا تعلق چھوٹی عمر کی ماؤں میں ناقص غذائیت اور کم غذائیت سے ہے،‘‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے، ’’[اور اس سے] قبل از وقت پیدائش، مشکل زچگی، کم وزن کے بچوں کی پیدائش اور ماں کی موت جیسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘

دوسرے مطالعوں میں گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادی کے درمیان تعلق کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ ’’کم عمر دلہن اپنی بات رکھنے کا حق نہیں رکھتی ہے، اور چونکہ اسے ضبط و تحمل سے رہنے کے لیے کہا جاتا ہے، اس لیے وہ اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے سے بھی جھجکتی ہے۔ اس کے علاوہ بیداری کی کمی یا غیرت کے احساس کی وجہ سے گھر والوں کی جانب سے شاذ و نادر ہی بدسلوکی کی اطلاع دی جاتی ہے،‘‘ پونے میں مقیم وکیل اور بچوں کے حقوق کی کارکن راما سرودے کہتی ہیں۔ ’’کم عمر میں زچگی لڑکیوں کی تعلیم کا خاتمہ بھی کر دیتی ہے، جس سے ان کا معاشی انحصار بڑھ جاتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔‘‘

این ایف ایچ ایس کے مطابق مہاراشٹر کے دیہی علاقوں میں صرف ۶ء۳۲ فیصد اور بیڈ میں صرف ۳۱ فیصد خواتین نے ۱۰ سال یا اس سے زیادہ عرصے تک اسکول کی تعلیم حاصل کی ہے۔

وجیہ نے اپنے گاؤں کے اسکول میں صرف درجہ ۲ تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ’’جیسے جیسے میں بڑی ہوئی، میرا تحفظ میرے والدین کے لیے تشویش کا باعث بنتا گیا۔ انہوں نے میرے لیے ایک دولہا ڈھونڈ لیا اور میری شادی کر دی گئی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کے شوہر بندو کا کنبہ اروی میں رہتا ہے، جو ان کے اپنے گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور ہے۔ انہیں دو ایکڑ زمین وراثت میں ملی ہے، جہاں وہ کپاس اگاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پورے سیزن میں [تقریباً ۶ سے ۸ ماہ کے] ہم صرف آٹھ کوئنٹل کپاس اگاتے ہیں۔ اس سے ہمیں ۲۲ ہزار روپے کا منافع ملتا ہے۔ لیکن جب ہم گنے کاٹتے ہیں تو ٹھیکیدار ہمیں تقریباً ۵۰ ہزار روپے پیشگی دیتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے، خواہ اس کا مطلب پانچ ماہ کی سخت مشقت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

چونکہ گنا ٹھیکیدار صرف شادی شدہ جوڑوں کو کام پر رکھتے ہیں، لہٰذا جب ایک کم عمر لڑکی اور لڑکے کی شادی ہو جاتی ہے، تو دوسرا جوڑا کھیتوں میں ہجرت کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کنبے کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ پیدا ہو جاتا ہے

ویڈیو دیکھیں: وجیہ کم عمری کی شادیوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہہیں تاکہ دوسرے کنبے اس طرز کو چھوڑ دیں

چونکہ گنا ٹھیکیدار صرف شادی شدہ جوڑوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں، لہٰذا جب کم عمر لڑکی اور لڑکے کی شادی ہو جاتی ہے، تو ایک اور جوڑا کھیتوں میں کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور کنبے کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وجیہ اور بندو نے شادی کے فوراً بعد ہر سال گنے کاٹنے کے لیے ہجرت کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جیسے جیسے ہماری بیٹیاں بڑی ہوئیں، ہمیں وہی فکر ستانے لگی جو میرے والدین کو ستاتی تھی اور ہم نے پھر وہی غلطی دہرائی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہم نے سوچا کہ اتنی کم آمدنی میں ہم ان کی دیکھ بھال کیسے کریں گے، اور سوچا کہ ان کی شادی کر دینا بہتر ہے۔‘‘

اور پھر سواتی بھی اپنے شوہر کے ساتھ گنے کاٹنے کے لیے ہجرت کرنے لگیں۔ لیکن انہوں نے یہ کام صرف ایک سیزن کے لیے کیا۔ ان کی شادی کے دو سال بعد، ان کے شوہر کشور کی بیڈ کے پٹودا تعلقہ میں واقع ان کے گاؤں چِکھلی میں ایک موٹر سائیکل حادثہ میں موت ہو گئی۔ اس وقت سواتی سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ ’’جب اس نے اپنی بیٹی، گیانیشوری کو جنم دیا، تو اس کے سسرال والوں نے اس کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا،‘‘ وجیہ بتاتی ہیں۔ چنانچہ سواتی اپنی ماں کے گھر واپس آگئیں۔

اس مشکل سے نمٹنے میں کنبے کی مدد کے لیے دیپک ناگرگوجے، جو اروی میں شانتی ون نامی ایک غیر سرکاری تنظیم چلاتے ہیں، نے سواتی کو پونے میں نرس ٹریننگ پروگرام میں داخلہ لینے کے لیے مالی مدد فراہم کی۔ وجیہ اور بندو اب گیانیشوری کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ اب اس کی پرورش اپنے ۱۵ سالہ بیٹے رامیشور کے ساتھ کر رہے ہیں، جو اروی میں شانتی ون کے ذریعہ شروع کردہ رہائشی اسکول میں ۱۰ویں جماعت کا طالب علم ہے۔

اب بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وجیہ اور بندو فصل کی کٹائی کے موسم میں ہجرت نہیں کرتے ہیں، اور قریبی کھیتوں میں جو بھی کام مل جاتا ہے اسی پر انحصار کرتے ہیں۔ وجیہ کی چھوٹی بیٹی شیتل بیڈ شہر میں رہتی ہیں، جہاں ان کے شوہر تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ناگرگوجے کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۱۵ سالوں کے دوران انہوں نے آس پاس کے دیہاتوں کی درجنوں کمسن دلہنوں کی مدد کی ہے، جنہیں گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا یا شادی کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’بہت سی کم عمر شادیاں ہوتی ہیں، لیکن ہم اس میں اس وقت تک مداخلت نہیں کرسکتے جب تک کہ گھر والے نہ چاہیں، اور یہ شادیاں اکثر پوشیدہ ہوتی ہیں۔‘‘

مختلف مقامی تنظیموں نے گاؤں کے اسکولوں کو عارضی رہائشی اسکولوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہجرت کرنے والے والدین کو اپنے بچوں کو ساتھ لے جانے کے عمل سے روکا جا سکے۔ لیکن رہائشی اسکول کم ہیں اور عام طور پر خراب حالت میں ہیں، اور والدین اپنی بیٹیوں کو وہاں رکھنے سے جھجکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے سرو شکشا ابھیان (سب کے لیے تعلیم پروگرام)  سے وابستہ اور پونے میں مقیم نوتن مگھاڈے کا کہنا ہے کہ ریاست ہنگامی وستی گرہ یوجنا (سیزنل ہاسٹل پلان) کے تحت فی بچہ ۱۴۱۶ روپے ماہانہ دیتی ہے۔ وہ بچوں کے قیام کی ذمہ داری نہیں لیتی، بلکہ یہ رقم ریاستی امداد یافتہ اسکول کمیٹیوں کو دے دی جاتی ہے، جو ان بچوں کے طعام کی ذمہ داری اور دیگر اخراجات اٹھاتی ہیں، جو دادا دادی کے ساتھ رہ جاتے ہیں۔ (دیکھیں: ’گاؤں کا تقریباً ہر آدمی جا چکا ہے‘ )

اروی میں جن والدین سے میں نے بات کی، وہ خود اسکول میں بہت کم گئے تھے یا بالکل نہیں پڑھے تھے اور ان کی بیٹیاں چھوٹی عمر میں ہی اسکول چھوڑ چکی تھیں۔ وجیہ کو چھوڑ کر، ان سب نے ریکارڈ پر آنے اور تصویر کھنچوانے سے انکار کر دیا، شاید اس لیے کہ وہ جانتی ہیں کہ کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے۔ لیکن انہوں نے انہی مخمصوں کا ذکر کیا جن کا وجیہ کو سامنا تھا۔

بہرحال، وجیہ کم عمری کی شادیوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کے جیسے کنبے اس طرز کو ترک کر دیں۔ ’’ہمارے پاس اپنی لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، لیکن ساتھ ہی ہم تعلیم کی اہمیت سے ناواقف تھے،‘‘ وہ اپنی گود میں کھیلتی ننھی گیانیشوری کو دیکھتے ہوئے کہتی ہیں: ’’ہمارے ساتھ جو ہوا وہ اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam