یہ چھٹا دھرنا تھا جس میں سی وینکٹ سُبّا ریڈی اپنے بقایا پیسوں کی مانگ کے لیے شرکت کر رہے تھے۔ اٹھارہ مہینے سے زیادہ عرصے سے آندھرا پردیش کے وائی ایس آر ضلع کے کسانوں کو ان کے گنّے کی قیمت ادا نہیں کی گئی تھی۔

۲ فروری، ۲۰۲۰ کو سُبّا ریڈی آندھرا پردیش گنّا کسان ایسوسی ایشن کے ذریعے منعقد دھرنا (ہڑتال) میں شریک ہونے کے لیے، بس سے تقریباً ۱۷۰ کلومیٹر کا سفر کرکے چتور ضلع کے تروپتی شہر پہنچے تھے۔

کملا پورم بلاک منڈل کے وبھرم پورم گاؤں میں ساڑھے چار ایکڑ زمین کے مالک سُبّا ریڈی بتاتے ہیں، ’’میورا شوگر فیکٹری نے مجھے سال ۲۰۱۸ میں گنّا سپلائی کے ایک لاکھ ۴۶ ہزار روپے ابھی تک نہیں دیے ہیں۔‘‘ میورا چینی مل نے انہیں ۲۰۱۸-۱۹ میں ایک ٹن کے لیے ۲۵۰۰ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ’’لیکن بعد میں کمپنی نے اسے کم کرکے ۲۳۰۰ روپے فی ٹن کر دیا۔ مجھے دھوکہ دیا گیا۔‘‘

آر بابو نائیڈو بھی احتجاجی مظاہرہ میں گئے تھے، وہ چینی مل سے اپنے ساڑھے چار لاکھ روپے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ چتور کے رام چندر پورم منڈل کے گنیش پورم گاؤں میں گنّا کی کھیتی کرتے ہیں، جہاں انہوں نے ایک رشتہ دار کی ۸ ایکڑ زمین کرایے پر لی ہے۔ بورویل کے خشک ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے اپنی زمین خالی چھوڑ دی۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے (۲۰۱۹-۲۰ میں) کھیتی کے لیے ۸۰ ہزار روپے ادا کیے، لیکن میرے رشتہ دار نے مجھ سے کافی کم کرایہ لیا۔ عام طور پر ایک ایکڑ کا کرایہ ۲۰ ہزار روپے لیا جاتا ہے۔‘‘

بابو نائیڈو کو چینی مل سے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے ملنے تھے، لیکن میورا شوگرز نے انہیں صرف ۴ لاکھ روپے ادا کیے۔ ’’ہمارے پیسے نہیں دیے گئے ہیں۔ کسانوں کو کھیتی کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

چتور اور وائی ایس آر (جسے کڈاپا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) ضلع میں گنّا کسان ابھی بھی میورا شوگرز کے ذریعے اپنے پیسوں کی ادائیگی کا انتظار کر رہے ہیں۔ سُبّا ریڈی کہتے ہیں، ’’ہم بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ کرنا چاہتے تھے، لیکن ایسا نہیں کر سکے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وبائی مرض کے سبب مارچ ۲۰۲۰ میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے سبب وہ پچھلے سال زیادہ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد نہیں کر سکے۔

Left: A. Rambabu Naidu grows sugarcane in his 15 acres of land in Chittoor district. Right: Farm leader P. Hemalatha speaking at a dharna in Tirupati
PHOTO • G. Ram Mohan
Left: A. Rambabu Naidu grows sugarcane in his 15 acres of land in Chittoor district. Right: Farm leader P. Hemalatha speaking at a dharna in Tirupati
PHOTO • G. Ram Mohan

بائیں: چتور میں اپنی ۱۵ ایکڑ زمین پر اے رام بابو نائیڈو گنّے کی کھیتی کرتے ہیں۔ دائیں: کسان لیڈر، پی ہیم لتا تروپتی میں ایک احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کر رہی ہیں

کسانوں کو گنے کی سپلائی کے ۱۴ دنوں کے اندر اس کی قیمت مل جانی چاہیے تھی۔ گنّا (کنٹرول) آرڈر، ۱۹۶۶ کے مطابق اگر کوئی مل کسانوں کو ۱۴ دنوں کے اندر ان کی بقایا رقم ادا نہیں کرتی ہے، تو اسے بعد میں سود سمیت ادائیگی کرنی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے، تو آندھرا پردیش ریونیو ریکوری ایکٹ، ۱۸۶۴ کے تحت گنّا کمشنر فیکٹری کی جائیدادوں کی نیلامی کر سکتے ہیں۔

لیکن چتور کے بُچی نائیڈو کنڈریگا منڈل میں واقع میورا شوگر فیکٹری میں ۲۰۱۸ میں تالا لگ گیا اور فروری ۲۰۱۹ میں اس کا کام کاج پوری طرح سے بند ہو گیا۔ حالانکہ، فیکٹری کے مینیجر اگست ۲۰۱۹ تک کسانوں کی بقایا رقم کا کچھ حصہ ادا کرتے رہے، لیکن کمپنی کو ابھی ۳۶ کروڑ روپے مزید ادا کرنے ہیں۔

چتور ضلع کے اسسٹنٹ گنّا کمشنر، جان وِکٹر بتاتے ہیں کہ بقایا رقم وصول کرنے کے لیے ریاستی حکومت نے فیکٹری کی ۱۶۰ ایکڑ زمین کو ضبط کر لیا، جس کی قیمت ۵۰ کروڑ روپے ہے۔ ۴ نومبر ۲۰۲۰ کو میورا شوگرز کی جائیدادوں کو نیلامی کے لیے رکھے جانے سے پہلے، اسے ۷ نوٹس بھیجے گئے تھے۔ وِکٹر بتاتے ہیں کہ انہیں صرف ایک بولی ملی، جو کہ کافی کم تھی۔ اس کے بعد میورا نے گنّا کمشنر کو ایک بینکر چیک جمع کیا۔ وِکٹر کہتے ہیں، ’’میورا شوگرز کی انتظامیہ نے مجھے ۳۱ دسمبر ۲۰۲۰ کو ایک چیک دیا، لیکن جب ہم نے اسے جمع کیا، تو وہ باؤنس ہو گیا۔‘‘

چیک ۱۰ کروڑ روپے کا تھا۔ ’’لیکن، میورا شوگرز پر کسانوں کے ۳۶ کروڑ روپے بقایا ہیں۔ ہم سے کہا گیا کہ کمپنی کی انتظامیہ اپنی کمپنی کی جائیداد فروخت کرکے ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ تک پوری رقم ادا کر دے گی، لیکن کسانوں کو کوئی پیسہ نہیں دیا گیا ہے،‘‘ آل انڈیا گنّا کسان فیڈریشن کی ایک کمیٹی کی رکن، پی ہیم لتا کہتی ہیں۔

میورا، چتور کی واحد چینی مل نہیں ہے جس نے کسانوں کو ان کی بقایا رقم نہیں دی ہے۔ نِندرا منڈل میں، نٹیمس شوگر پرائیویٹ لمیٹڈ کی فیکٹری نے بھی سال ۲۰۱۹-۲۰ میں خریدے گئے گنّے کے لیے کسانوں کو پیسے نہیں دیے ہیں۔

نٹیمس شوگر فیکٹری فارمرز ایسوسی ایشن کے سکریٹری دساری جناردن کے مطابق، نٹیمس کی انتظامیہ نے کسانوں کو بھروسہ دلایا تھا کہ ان کی ادائیگی کر دی جائے گی۔ ’’لیکن [۲۰۲۰ میں] لاک ڈاؤن سے ہمیں جھٹکا لگا۔ انہوں نے کہا کہ بقایا رقم ادا نہیں کی جا سکتی، کیوں کہ کمپنی کے مینیجنگ ڈائرکٹر لندن میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘

Left: Entrance of Natems' sugar factory in Chittoor's Nindra mandal. Right: Farmers demanding their dues at the factory
PHOTO • G. Ram Mohan
Left: Entrance of Natems' sugar factory in Chittoor's Nindra mandal. Right: Farmers demanding their dues at the factory
PHOTO • G. Ram Mohan

بائیں: چتور کے نندرا منڈل میں نٹیمس کی چینی مل کا داخلی دروازہ۔ دائیں: فیکٹری میں اپنے پیسے کا مطالبہ کر رہے کسان

ستمبر ۲۰۲۰ تک، نٹیمس کو کسانوں کو ۳۷ کروڑ ۶۷ لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ کمپنی کی مشینوں کی نیلامی ۱۹ ستمبر ۲۰۲۰ کو ہونی تھی۔ ’’لیکن، کمپنی کو ہائی کورٹ سے ایک عبوری اسٹے آرڈر مل گیا،‘‘ وکٹر بتاتے ہیں۔

نٹیمس نے جنوری ۲۰۲۱ تک بقایا رقم کا کچھ حصہ ادا کر دیا تھا۔ کمپنی کے ڈائرکٹر آر نند کمار نے جنوری میں بتایا، ’’ابھی تک ہمیں کسانوں کے مزید ۳۲ کروڑ روپے ادا کرنے ہیں۔ میں پیسوں کا انتظام کر رہا ہوں۔ ہم جنوری کے آخر تک کسانوں کو پیسہ دے دیں گے اور گنّے کی پیرائی شروع کر دیں گے۔ میں کمپنی کو بچانے کے لیے وسائل جمع کر رہا ہوں۔‘‘ لیکن کسانوں کو کچھ بھی نہیں ملا۔

نند کمار کہتے ہیں کہ آندھرا پردیش میں چینی ملوں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ وہ انڈین شوگر ملز ایسوسی ایشن (اِسما) کے منتخب رکن بھی ہیں۔ ’’ریاست میں کل ۲۷ چینی ملوں میں سے صرف ۷ ہی کام کر رہی ہیں۔‘‘

کسان لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان سب کی وجہ خامی سے بھری پالیسیاں ہیں۔ گنّے کی مناسب اور منافع بخش قیمت (ایف آر پی) اور چینی کی خوردہ قیمتوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اِسما نے سال ۲۰۱۹ میں گنّا اور چینی صنعت پر نیتی آیوگ کے ٹاسک فورس کے ساتھ ایک بات چیت میں کہا کہ چینی کی پیداواری قیمت اس کے فروخت کی قیمت سے کہیں زیادہ تھی۔ نند کمار کہتے ہیں، ’’ایک کلو چینی کی پیداوار میں ۳۷-۳۸ روپے لگتے ہیں۔ لیکن، چنئی میں ایک کلو چینی ۳۲ روپے میں اور حیدرآباد میں ۳۱ روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ ہمیں پچھلے سال [۲۰۱۹-۲۰] ۵۰ کروڑ روپے کا نقصان ہوا اور اس سے پہلے یہ خسارہ ۳۰ کروڑ روپے کا تھا۔‘‘

اے رام بابو نائیڈو، جو نندرا منڈل کے گورپّا نائیڈو کنڈریگا گاؤں میں اپنی ۱۵ ایکڑ زمین پر صرف گنّے کی کھیتی کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو چینی کی خوردہ قیمت طے کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے۔ ’’چینی ۵۰ روپے کلو کیوں نہیں فروخت ہو سکتی؟ دیگر صنعتیں اپنی پیداوار کی قیمت طے کر سکتی ہیں، تو چینی صنعت کیوں نہیں؟‘‘

Left: K. Venkatesulu and K. Doravelu making the rounds of Natems to collect their payment. Right: V. Kannaiah, a tenant farmer, could not repay a loan because the factory had not paid the full amount that was his due
PHOTO • G. Ram Mohan
Left: K. Venkatesulu and K. Doravelu making the rounds of Natems to collect their payment. Right: V. Kannaiah, a tenant farmer, could not repay a loan because the factory had not paid the full amount that was his due
PHOTO • G. Ram Mohan

بائیں: کے وینکٹے سُولو اور کے ڈوراویلو اپنے پیسوں کے لیے نٹیمس مل کے چکر لگاتے ہوئے۔ دائیں: وی کنّیّا ایک کاشتکار ہیں، وہ اپنا قرض نہیں چُکا سکے، کیوں کہ فیکٹری سے انہیں پیسے نہیں ملے

چینی صنعت بھی نقدی کی کمی سے پریشان ہے۔ نند کمار کہتے ہیں، ’’درج فہرست بینکوں سے بھی مالی مدد نہیں مل رہی ہے۔ ورکنگ کیپٹل پر بھی قرض دستیاب نہیں ہے۔‘‘

کسانوں کے لیے بہت کم ادارہ جاتی قرض دستیاب ہیں، انہیں اپنی ضروریات کے لیے ذاتی قرض لینا پڑا ہے۔ جناردن کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنی دوسری فصلوں کی کھاد کے لیے قرض لینا پڑا۔ عام طور پر چینی ملیں کسانوں کو اتنا پیسہ دیتی ہیں کہ وہ مزدوروں کو مزدوری دے سکیں۔ لیکن، مجھے ان کی مزدوری کے لیے ۵۰ ہزار روپے قرض لینے پڑے۔ میں اب اُس قرض پر سود چُکا رہا ہوں۔‘‘ جناردن نے اپنے زرعی مزدوروں کو پیسہ دینے کے لیے قرض لیا ہے۔

فیڈریشن آف فارمرز ایسوسی ایشن کے ریاستی صدر، ایم گوپال ریڈی کہتے ہیں کہ چینی کی قیمتوں کے کم ہونے سے ان کمپنیوں کا فائدہ ہو رہا ہے جو ڈبہ بند خوراک اور مشروبات تیار کرتی ہیں۔ ’’یہ قیمتیں بڑی کمپنیوں کے مفادات کو پورا کرتی ہیں۔‘‘ ملک میں گزشتہ تین دہائیوں میں سافٹ ڈرنک اور مٹھائی بنانے والی کمپنیوں کا بازار کافی بڑھ گیا ہے اور اس کی وجہ سے چینی کی کھپت کا پیٹرن بھی بدل گیا ہے۔ ٹاسک فورس کے سامنے رکھی گئی اِسما کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ بڑے صارف چینی کی پیداوار کے ۶۵ فیصد حصے کا استعمال کرتے ہیں۔

نند کمار کے مطابق، ہندوستان میں چینی کی پیداوار سرپلس میں ہوتی ہے۔ ’’اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ حصے کو برآمد کیا جاتا ہے اور کچھ کو ایتھنال بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر یہی ٹرینڈ جاری رہتا ہے، تو بازار بھی متوازن ہو جائے گا۔‘‘

ان کو اب مرکزی حکومت کے ایتھنال کی آمیزش والے پٹرول کے پروگرام پر بھروسہ ہے، جس کے ذریعے ذاتی ملکیت والی چینی ملیں پبلک سیکٹر کی تیل کمپنیوں کو شیرے (جو گنّے کے رس سے شکر بناتے وقت مشترکہ پیداوار کی شکل میں حاصل ہوتی ہے) کی سپلائی کر سکیں گی۔ نند کمار کہتے ہیں، ’’ایتھنال کی پیداوار میں گنّے کی سپلائی سے بازار میں اس کی دستیابی میں کمی آئے گی۔‘‘

اکتوبر ۲۰۲۰ میں مرکزی حکومت نے گنّا پر مبنی خام مال سے حاصل ایتھنال کی قیمت کو بڑھا دیا تھا ، تاکہ چینی صنعتوں کے کسانوں کو ادائیگی کرنے کی ان کی صلاحیت میں بہتری آ سکے۔

لیکن کسان لیڈر، جناردن اس فیصلہ سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’چینی مل کے منتظمین کے ذریعے دیگر شعبوں میں پیسے کی سرمایہ کاری کرنا مسئلہ کو مزید سنگین بناتا جا رہا ہے۔‘‘

Sugarcane farmers protesting in Tirupati in April 2021, seeking the arrears of payments from Mayura Sugars
PHOTO • K. Kumar Reddy
Sugarcane farmers protesting in Tirupati in April 2021, seeking the arrears of payments from Mayura Sugars
PHOTO • K. Kumar Reddy

میورا شوگرز کے خلاف بقایا ادائیگی کے مطالبہ کو لیکر، اپریل ۲۰۲۱ میں چتور میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے گنّا کسان

نٹیمس کے ذریعے کو جنریشن پلانٹ کے لیے ۵۰۰ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کرنا، کمپنی کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔ چینی ملوں کے ذریعے پیدا کی گئی سرپلس بجلی ریاست کے الیکٹریسٹی گرڈز کو بھیجی جانی تھی۔ کمپنی کے ڈائرکٹر کہتے ہیں، ’’ہماری فیکٹری کی ساڑھے سات میگاواٹ کی مقررہ صلاحیت ہے، لیکن ہم بجلی کی سپلائی نہیں کر رہے ہیں، کیوں کہ [ریاستی] حکومت ہماری شرحوں پر بجلی خریدنے کو تیار نہیں ہے اور پاور ایکسچینج کی قیمتیں ڈھائی روپے فی یونٹ سے لیکر ۳ روپے فی یونٹ سے نیچے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ قیمتیں بجلی کی پیداواری لاگت سے کافی کم ہیں۔

نند کمار کا کہنا ہے کہ بہت سی چینی ملوں کے کوجنریشن پلانٹ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے والے اثاثوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ’’ایک بار سرمایہ کاری کرنے کے بعد ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔ ہم نے سرکاری پالیسی کے سبب ۲۰ میگاواٹ کا پلانٹ لگانے کے اپنے منصوبہ کو محدود کر دیا۔ ہمیں پالیسیوں میں تبدیلی اور حالات بہتر ہونے تک کسی طرح برقرار رہنا ہوگا۔‘‘

لیکن چتور، جو آندھرا پردیش کا دوسرا سب سے بڑا گنّے پیدا کرنے والا ضلع ہے، پر ایسے حالات کے سبب کافی برا اثر پڑا ہے۔ ضلع انتظامیہ کی دستاویزوں کے مطابق، گزشتہ ۸ سالوں میں چتور کے ۶۶ منڈلوں میں گنّے کی پیداوار گھٹ کر ۵۰ فیصد رہ گئی ہے۔ سال ۲۰۱۱ میں جہاں ضلع کی ۲۸۴۰۰ ہیکٹیئر زمین پر گنّے کی کھیتی ہوتی تھی، وہیں ۲۰۱۹ میں صرف ۱۴۵۰۰ ہیکٹیئر زمین پر گنّے کی کھیتی کی گئی۔

اپنی پیداوار کی قیمت ملنے میں دیر ہونے کے سبب گنّا کسان، جنہیں اپنی فصل کو ایک طے فیکٹری کو فروخت کرنا پڑتا ہے، دوسری فصلوں کی کھیتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں انہیں خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ سُبّا ریڈی کہتے ہیں کہ گنّے کی پیداوار کی اونچی لاگت کے سبب یہ کسانوں کے لیے ایک غیر منافع بخش فصل بن گئی ہے۔

بابو نائیڈو کے لیے خراب حالات کا مطلب اپنے رشتہ داروں سے مدد مانگنا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چنئی کے ایک انجینئرنگ کالج میں میری بیٹی کا داخلہ کروانے میں رشتہ داروں کی مدد لینی پڑی۔ اگر مجھے میرے پیسے مل گئے ہوتے، تو مجھے ان سے مدد نہیں لینی پڑتی۔‘‘

سُبّا ریڈی کا ماننا ہے کہ چینی مل کمپنیاں کسانوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتی ہیں، اس پر کسانوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ’’لیکن، ہمارے بچوں کو فیس جمع نہ کرا پانے کی وجہ سے گھر بھیجا جا رہا ہے، کیا ایسے میں کسان خودکشی کے بارے میں نہیں سوچیں گے؟‘‘ وہ کہتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

G. Ram Mohan

G. Ram Mohan is a freelance journalist based in Tirupati, Andhra Pradesh. He focuses on education, agriculture and health.

Other stories by G. Ram Mohan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez