پیر کے دن صبح ۱۱ بجے، ۴۱ سالہ مونیشور مانجھی اپنے بغیر پلاسٹر والے، خستہ گھر کے باہر بچھی ایک چوکی (تخت) پر آرام کر رہے ہیں۔ مکان کے سامنے اس کھلی جگہ پر دھوپ سے بچنے کے لیے نیلے رنگ کی پولی تھین کی ایک چادر کو بانس کے ستونوں پر ٹانگا گیا ہے۔ لیکن، حبس سے انہیں کسی قسم کی راحت نہیں مل رہی ہے۔ پٹنہ شہر سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور، کاکو قصبہ کے قریب موسہری ٹولہ میں رہنے والے مونیشور بتاتے ہیں، ’’پچھلے ۱۵ دنوں سے مجھے کوئی کام نہیں ملا ہے۔‘‘

دلتوں کی موسہر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس رہائش گاہ، یعنی موسہری ٹولہ میں کل ۶۰ گھر ہیں۔ مونیشور اور اس ٹولہ میں رہنے والے دوسرے لوگ قریب کے کھیتوں پر کام کرکے یومیہ مزدوری کماتے ہیں، اور یہی ان کی آمدنی کا ذریعہ ہے۔ لیکن، مونیشور بتاتے ہیں کہ کام ہمیشہ نہیں ملتا۔ یہ صرف سال میں ۴-۳ مہینے ہی ملتا ہے، جب خریف اور ربیع کے موسم میں فصلوں کی بوائی یا کٹائی ہوتی ہے۔

پچھلی بار انہیں راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے ’بابو صاحب‘، یعنی زمیندار کے کھیت پر کام ملا تھا۔ زرعی کارکنوں کو ملنے والی یومیہ مزدوری کے بارے میں مونیشور بتاتے ہیں، ’’ہمیں آٹھ گھنٹے کام کرنے کے عوض ۱۵۰ روپے نقد یا ۵ کلو چاول ملتا ہے۔ بس اتنا ہی۔‘‘ نقد پیسہ نہ ملنے کی حالت میں ۵ کلو چاول کے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی ملتا ہے – جس میں ۵-۴ روٹی، یا چاول اور دال، اور سبزی ہوتی ہے۔

حالانکہ اُن کے دادا کو ۱۹۵۵ میں بھودان تحریک کے دوران – جب زمینداروں نے اپنی زمین کا ایک حصہ عطیہ کر دیا تھا تاکہ اسے بے زمین لوگوں میں دوبارہ تقسیم کیا جا سکے – کھیتی کے لیے تین بیگھہ (تقریباً دو ایکڑ) زمین ملی تھی، لیکن وہ زمین کسی کام کی نہیں ہے۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’ہم لوگ جہاں رہتے ہیں وہاں سے وہ زمین تین کلومیٹر دور ہے۔ ہم جب بھی اس پر کسی فصل کی بوائی کرتے ہیں، تو جانور اسے چر جاتے ہیں، جس سے ہمیں نقصان ہوتا ہے۔‘‘

اسی لیے، مونیشور کی فیملی اور اس ٹولہ پر رہنے والے دوسرے لوگ سال کے زیادہ تر دنوں میں مہوا دارو – مہوا کے پیڑ کے پھولوں سے بنی شراب ( مدھوکا لونگی فولیا لیٹی فولیا ) – بنا کر اور اسے بیچ کر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔

حالانکہ، یہ ایک خطرناک بزنس ہے۔ بہار میں شراب یا نشہ آور چیزیں بنانے، انہیں رکھنے، فروخت کرنے یا ان کا استعمال کرنے پر سخت پابندی ہے – اسے روکنے کے لیے وہاں شراب بندی اور ایکسائز قانون، ۲۰۱۶ نافذ ہے۔ اور ’ملکی یا روایتی شراب‘ کے طور پر مشہور ’مہوا دارو‘ کو بھی اس قانون کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔

The unplastered, dipalidated house of Muneshwar Manjhi in the Musahari tola near Patna city.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Muneshwar in front of his house. He earns Rs 4,500 a month from selling mahua daaru, which is not enough for his basic needs. He says, ‘The sarkar has abandoned us’
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: پٹنہ شہر کے قریب موسہری ٹولہ میں مونیشور مانجھی کا بغیر پلاسٹر والا، خستہ گھر۔ دائیں: اپنے گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے مونیشور۔ مہوا دارو بیچ کر وہ ہر مہینے ۴۵۰۰ روپے کماتے ہیں، جو اُن کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’سرکار نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے‘

لیکن متبادل کام کے مواقع کی کمی نے مونیشور کو چھاپہ ماری، گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی کے خوف کے باوجود اس قسم کی شراب بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ڈر کس کو نہیں لگتا؟ ہمیں بھی ڈر لگتا ہے۔ لیکن، پولیس جب چھاپے مارتی ہے، تو ہم شراب کو چھُپا کر فرار ہو جاتے ہیں۔‘‘ اکتوبر ۲۰۱۶ میں پابندی لگنے کے بعد، پولیس اس ٹولہ پر اب تک ۱۰ بار سے زیادہ چھاپے مار چکی ہے۔ ’’میں کبھی گرفتار نہیں ہوا۔ وہ کئی بار ہمارے برتنوں اور چولہے کو توڑ چکے ہیں، لیکن ہم اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

زیادہ تر موسہروں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، اور ملک میں وہ سب سے زیادہ پچھڑے ہوئے اور تعصب کے شکار لوگ ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ملک کے اندر کا ہی جنگل میں رہنے والا قبیلہ ہے، اور اس برادری کا نام دو الفاظ سے ماخوذ ہے – موسا (چوہا) اور آہار (غذا) – جس کا مطلب ہے ’چوہے کھانے والے‘۔ بہار میں موسہروں کو درج فہرست ذات میں رکھا گیا ہے، جہاں وہ ’مہا دلت‘ کے طور پر شامل ہیں، یعنی اقتصادی اور سماجی طور پر سب سے پس ماندہ دلت۔ ریاست بہار میں ان کی آبادی ۲۷ لاکھ سے زیادہ ہے، لیکن کم شرحِ خواندگی – ۲۹ فیصد – اور ہنرمندی کی کمی کی وجہ سے وہ ہنرمندی والا کوئی کام نہیں کرتے۔ ویسے تو یہ برادری روایتی طور پر مہوا دارو کا استعمال کرتی رہی ہے، لیکن اب اسے زیادہ تر گزر بسر کے لیے بنایا جاتا ہے۔

مونیشور ۱۵ سال کی عمر سے ہی مہوا دارو بناتے آ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرے والد کافی غریب تھے۔ وہ ٹھیلا [سامان لانے لے جانے کے لیے] کھینچتے تھے۔ اس سے بہت کم آمدنی ہوتی تھی۔ کئی بار مجھے بھوکے پیٹ ہی اسکول جانا پڑتا تھا۔ اس لیے کچھ مہینے کے بعد میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ یہاں آس پاس رہنے والے کچھ لوگ شراب بناتے تھے، جنہیں دیکھ کر میں نے بھی بنانا شروع کر دیا۔ یہ کام میں ۲۵ سال سے کر رہا ہوں۔‘‘

الکحل بنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ سب سے پہلے، مہوا کے پھولوں کو گُڑ اور پانی کے آمیزہ میں ملایا جاتا ہے، اور خمیر بننے کے لیے اسے آٹھ دنوں تک یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس آمیزہ کو دھات کی ہانڈی میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اُبل جائے۔ اس کے بعد مٹی سے بنی ہوئی ایک چھوٹی ہانڈی، جس کی نچلی سطح کھلی ہوئی ہو، اسے دھات والی ہانڈی کے اوپر رکھا جاتا ہے۔ مٹی والی ہانڈی میں ایک سوراخ ہوتا ہے، جس میں ایک پائپ فٹ کر دیا جاتا ہے اور پانی سے بھری ہوئی دھات کی ایک دوسری ہانڈی کو اس کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔ بھاپ کو باہر نکلنے سے روکنے کے لیے تینوں ہانڈیوں کی خالی جگہوں کو گیلی مٹی اور کپڑے سے بند کر دیا جاتا ہے۔

مہوا کے ابلتے ہوئے آمیزہ سے نکلنے والی بھاپ مٹی کی ہانڈی میں جمع ہو جاتی ہے۔ یہ پائپ کے ذریعے دھات والی ہانڈی میں جاتی ہے، جس میں ٹپک رہی بوندیں اکٹھا ہوتی ہیں۔ تین سے چار گھنٹے تک لگاتار اًبالنے کے بعد، تقریباً آٹھ لیٹر شراب جمع ہوتی ہے۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’ہمیں وہاں [چولہے کے پاس] موجود رہنا پڑتا ہے، تاکہ آگ لگاتار جلتی رہے۔ وہاں بہت گرمی ہوتی ہے۔ ہمارا جسم تپتا رہتا ہے۔ لیکن، اپنی گزر بسر کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ وہ شراب بنانے کے اس عمل کو ’مہوا چُوانا‘ کہتے ہیں۔

PHOTO • Umesh Kumar Ray
The metal utensil connected to the pipe collects the dripping condensation. The distillation process is time-consuming
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: مہوا کے پھول، گڑ، اور پانی کے خمیر والے آمیزہ سے بھاپ بنانے کے لیے اسے اُبالا جاتا ہے، جو درمیان میں رکھے مٹی کے برتن میں جمع ہوتی ہے۔ دائیں: پائپ سے جڑی دھات کی ہانڈی میں، ٹپک رہی بوندیں جمع ہوتی ہیں۔ اس طریقے سے شراب بنانے میں کافی وقت لگتا ہے

مونیشور مہینہ میں ۴۰ لیٹر مہوا دارو بناتے ہیں، جس کے لیے انہیں ۷ کلو پھول، ۳۰ کلو گُڑ، اور ۱۰ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ۷۰۰ روپے میں مہوا کے پھول اور ۱۲۰۰ روپے میں گُڑ خریدتے ہیں۔ چولہا جلانے کے لیے وہ ۸۰ روپے میں ۱۰ کلو لکڑی خریدتے ہیں۔ اس طرح، انہیں کچے مال پر ہر مہینے ۲۰۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔

مونیشور کہتے ہیں، ’’شراب بیچ کر ہم ہر مہینے ۴۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔ کھانے کا خرچ نکال کر، ہم مشکل سے ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے بچا پاتے ہیں۔ بچا ہوا پیسہ بچوں پر خرچ ہوتا ہے، جو اکثر بسکٹ اور ٹافیوں کی ضد کرتے ہیں۔‘‘ ان کے اور ان کی بیوی چمیلی دیوی (۳۶ سال) کے چار بچے ہیں۔ تین بیٹیاں ہیں، جن کی عمر ۵ سے ۱۶ سال کے درمیان ہے، اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر ۴ سال ہے۔ چمیلی ایک زرعی مزدور ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ شراب بناتی ہیں۔

ان کے گاہک عموماً آس پاس کے گاؤوں کے مزدور ہوتے ہیں۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’ہم فی ۲۵۰ ملی لیٹر شراب کے ۳۵ روپے لیتے ہیں۔ صارفین کو ہمیں نقد میں ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ ہم صارفین کو اُدھار پر دارو دینے سے منع کر دیتے ہیں۔‘‘

شراب کی مانگ بہت زیادہ ہے – آٹھ لیٹر شراب فروخت ہونے میں صرف تین دن لگتے ہیں۔ لیکن، زیادہ شراب بنانا خطرے والا کام ہے۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’جب پولیس چھاپہ ماری کرتی ہے، تو وہ ساری شراب برباد کر دیتے ہیں، جس سے ہمیں نقصان ہوتا ہے۔‘‘ اس ’جرم‘ کے لیے سزا کے طور پر جیل تک ہو سکتی ہے، اور اس کے تحت سخت سے سخت یا تا عمر قید کی سزا بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایک لاکھ سے دس لاکھ روپے تک کا بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔

مونیشور کے لیے شراب ایک ذریعہ معاش ہے، نہ کہ منافع کمانے کا کاروبار۔ اپنے اکیلے کمرے کے ڈھانچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میرا گھر دیکھئے، ہمارے پاس اس کی مرمت کرانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔‘‘ گھر کی مرمت کے لیے، انہیں ۴۰ سے ۵۰ ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ کمرے میں مٹی کا فرش ہے؛ اندر کی دیواریں مٹی کے گارے سے بنی ہیں، اور کوئی کھڑکی نہیں ہے، جس سے ہوا اندر داخل ہو سکے۔ کمرے کے ایک کونے میں چولہا ہے، جہاں چاول کے لیے دھات کا برتن اور سور کے گوشت (پورک) کی ایک کڑھائی رکھی ہے۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’ہم سور کا گوشت بہت کھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے صحت بخش ہے۔‘‘ ٹولہ میں گوشت کے لیے سور کو پالا جاتا ہے، اور ٹولہ میں ۴-۳ دکانوں پر سور کا گوشت مل جاتا ہے، جس کی قیمت ۲۰۰-۱۵۰۰ روپے کلو ہے۔ ٹولہ سے سبزی منڈی ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم کبھی کبھی مہوا دارو بھی پی لیتے ہیں۔‘‘

سال ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن سے شراب کی فروخت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا، اور اس دوران مونیشور نے ماہانہ ۳۵۰۰ سے ۴۰۰۰ روپے کمائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے مہوا، گُڑ کا انتظام کیا اور شراب تیار کی۔ دور دراز کے علاقوں میں بہت زیادہ سختی نہیں تھی، اس سے ہمیں مدد مل گئی۔ ہمیں گاہک بھی ملے۔ شراب کی کھپت اتنی عام ہے کہ لوگ اسے کسی بھی قیمت پر خریدنے کو تیار رہتے ہیں۔‘‘

Muneshwar Manjhi got his MGNREGA job card seven years ago, but he was never offered any work.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: مونیشور مانجھی کو سات سال پہلے ان کا منریگا جاب کارڈ ملا تھا، لیکن انہیں کبھی کوئی کام نہیں ملا۔ دائیں: ان کی فیملی کے سبھی چھ ممبران ایک کمرے کے گھر میں سوتے ہیں، جس میں کوئی کھڑکی نہیں ہے

سال ۲۰۲۱ کے مارچ مہینہ میں والد کی موت کے بعد، ان پر قرض چڑھ گیا۔ روایت کے مطابق، آخری رسومات ادا کرنے اور اجتماعی کھانے کا انتظام کرنے کے لیے مونیشور کو پیسے قرض لینے پڑے۔ انہوں نے راجپوت ذات کے ایک ساہوکار سے پانچ فیصد شرح سود پر ۲۰ ہزار روپے لیے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اگر شراب پر پابندی نہیں ہوتی، تو میں [زیادہ شراب بنا کر] ضرورت کے مطابق پیسہ بچا لیتا اور قرض لوٹا دیتا۔ اگر کوئی بیمار پڑتا ہے، تو مجھے قرض لینا پڑتا ہے۔ ہم اس طرح کیسے گزارہ کر سکتے ہیں؟‘‘

پہلے، مونیشور اچھی نوکری کی تلاش میں مہاجرت کرکے دوسری ریاستوں میں جاتے تھے، لیکن انہیں صرف مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ پہلی بار، وہ سال ۲۰۱۲ میں تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرنے کے لیے مہاراشٹر کے پونہ شہر گئے، لیکن تین مہینے میں ہی گھر واپس آ گئے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جو ٹھیکہ دار مجھے وہاں لے گیا تھا وہ مجھے کام نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے، میں نا امید ہو گیا اور واپس چلا آیا۔‘‘ سال ۲۰۱۸ میں، وہ اتر پردیش گئے اور اس بار ایک مہینے میں لوٹ آئے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے سڑکوں کو کھودنے کے لیے صرف ۶۰۰۰ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ اس لیے، میں واپس آ گیا۔ تب سے میں کہیں نہیں گیا۔‘‘

ریاست کی فلاحی پالیسیاں موسہری ٹولہ میں کچھ خاص کارگر نہیں ثابت ہوئیں۔ روزگار پیدا کرنے کے لیے کوئی کام نہیں کیے گئے ہیں، لیکن ٹولہ کا انتظام و انصرام کرنے والی گرام پنچایت کے مکھیا مقامی رہائشیوں سے شراب بنانا بند کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ مونیشور کہتے ہیں، ’’سرکار نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ ہم بے سہارا ہیں۔ برائے کرم سرکار کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کہ آپ نے ٹولہ میں ایک بھی ٹوائلیٹ نہیں دیکھا۔ سرکار ہماری مدد نہیں کر رہی ہے، اس لیے ہمیں شراب بنانا پڑتا ہے۔ اگر سرکار ہمیں کوئی کام دھندہ دے یا چھوٹی دکان شروع کرنے یا گوشت مچھلی بیچنے کے لیے پیسے دے دے، تو ہم شراب کا کاروبار بند کر دیں گے۔‘‘

موسہری ٹولہ کے ۲۱ سالہ رہائشی، موتی لال کمار کے لیے اب مہوا دارو ہی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ انہوں نے بے قاعدہ زرعی کاموں اور بے حد کم مزدوری ملنے سے پریشان ہو کر، سال ۲۰۱۶ میں شراب بندی قانون نافذ ہونے سے ۳-۲ مہینے پہلے شراب بنانا شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں دہاڑی کی شکل میں صرف پانچ کلو چاول دیا جاتا تھا۔‘‘ ان کے مطابق، سال ۲۰۲۰ میں انہیں صرف دو مہینے کا زرعی کام مل پایا تھا۔

Motilal Kumar’s mother Koeli Devi checking the stove to ensure the flames reach the handi properly. The entire family works to distil the mahua daaru.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Motilal and Koeli Devi in front of their house in the Musahari tola
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: موتی لال کمار کی ماں کوئیلی دیوی چولہے کی آگ کو چیک کر رہی ہیں کہ آگ کی لپٹیں ہانڈی تک ٹھیک سے پہنچ رہی ہے یا نہیں۔ پوری فیملی مہوا دارو بنانے کا کام کرتی ہے۔ دائیں: موسہری ٹولہ میں اپنے گھر کے سامنے کھڑی موتی لال اور کوئیلی دیوی

موتی لال، ان کی ماں کوئیلی دیوی (۵۱ سال)، اور ان کی ۲۰ سالہ بیوی بُلاکی دیوی ساتھ مل کر مہوا دارو بناتے ہیں۔ وہ ہر مہینے تقریباً ۲۴ لیٹر شراب بناتے ہیں۔ موتی لال کہتے ہیں، ’’جو بھی پیسہ میں شراب بنا کر کماتا ہوں، وہ کھانا، کپڑا، اور دواؤں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ہم بہت غریب ہیں۔ شراب بنانے کے بعد بھی ہم پیسے نہیں بچا پا رہے ہیں۔ میں کسی طرح اپنی بیٹی انو کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ اگر میں زیادہ [شراب] بناؤں گا، تو میری آمدنی بڑھ جائے گی۔ اس کے لیے، مجھے پیسے [پونجی] کی ضرورت ہے، جو میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی (منریگا) قانون سے یہاں کے موسہروں کو کوئی خاص مدد نہیں ملی ہے۔ مونیشور نے سات سال پہلے منریگا کارڈ بنوایا تھا، لیکن انہیں کبھی کوئی کام نہیں ملا۔ موتی لال کے پاس نہ تو منریگا کارڈ ہے، اور نہ ہی آدھار کارڈ۔ ٹولہ کے کئی رہائشیوں کو لگتا ہے کہ آدھار کارڈ بنوانا، پیسے وصول کرنے کا ایک سرکاری کھیل ہے۔ موتی لال کہتے ہیں، ’’جب ہم [تین کلومیٹر دور] بلاک آفس جاتے ہیں، تو وہ مکھیا کے دستخط والا لیٹر مانگتے ہیں۔ جب ہم انہیں مکھیا کا لیٹر دیتے ہیں، تو وہ اسکول سے کاغذ لانے کو کہتے ہیں۔ جب میں اسکول کا کاغذ لاتا ہوں، تو وہ پیسے مانگتے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ بلاک آفیسر ۳۰۰۰-۲۰۰۰ روپے کی رشوت لینے کے بعد ہی آدھار کارڈ دیتے ہیں۔ لیکن میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘

موسہری ٹولہ میں رہنے کے حالات بالکل بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ یہاں بیت الخلاء نہیں ہے، یہاں تک کہ پبلک ٹوائلیٹ بھی نہیں ہے۔ کسی بھی گھر میں ایل پی جی کنکشن نہیں ہے – لوگ اب بھی ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال کھانا پکانے اور شراب بنانے میں کرتے ہیں۔ حالانکہ، تین کلومیٹر کی دوری پر ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر ہے، لیکن یہ درجن بھر سے زیادہ پنچایتوں کے تحت آنے والا اکلوتا طبی مرکز ہے۔ مکھیا کہتے ہیں، ’’علاج کے لیے مناسب سہولیات نہیں ہیں، اس لیے لوگ پرائیویٹ کلینک پر منحصر ہیں۔‘‘ مقامی لوگوں کے مطابق، وبائی مرض کے دوران ٹولہ میں ایک بھی کووڈ۔۱۹ ٹیکہ کاری کیمپ نہیں لگایا گیا تھا۔ بیداری پھیلانے کے لیے، کسی بھی سرکاری میڈیکل آفیسر نے علاقے کا دورہ نہیں کیا۔

بنیادی سہولیات کی شدید قلت کے درمیان، شراب کی فروخت کے سہارے ہی ٹولہ کے کنبوں کا گزارہ چلتا رہا ہے موتی لال کہتے ہیں، ’’ہمیں کہیں بھی کام نہیں ملتا، اس لیے ہم مجبوری میں شراب بناتے ہیں۔ ہمارا گزارہ صرف شراب کی بدولت ہی چل رہا ہے۔ اگر ہم شراب نہ بنائیں، تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘

سیکورٹی کے مدنظر، اسٹوری میں شامل لوگوں اور جگہوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Umesh Kumar Ray

Umesh Kumar Ray is a PARI Fellow (2022). A freelance journalist, he is based in Bihar and covers marginalised communities.

Other stories by Umesh Kumar Ray
Editor : S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique