اننت پور ضلع میں نگرور کے کسان اپنے ماضی کی آرزو کرتے ہیں، جب ان کے گاؤں میں زیر زمین پانی کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ وہ بعض دفعہ 2007 سے پہلے کے دور کے بارے میں فعل حال میں بات کرتے ہیں، شاید وہ خوشحالی کے اُن دنوں کو بھولنا نہیں چاہتے۔

سال 2007 کے آس پاس، بارش حالانکہ کم ہو چکی تھی، لیکن نگرور کے قریب کی جھیلوں میں آخری بار طغیانی آئی تھی۔ ’’این ٹی راما راؤ کے دور میں (آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کے طور پر)، بارش لگاتار ہوتی تھی۔ جب وائی ایس راج شیکھر ریڈی (مئی 2014 میں اقتدار میں) آئے، تو جھیلوں میں ایک ہفتہ کے لیے طغیانی آئی (بھاری بارش کی وجہ سے)۔ اور وہ آخری تھا،‘‘ 42 سالہ کسان وی رام کرشن نائڈو کہتے ہیں۔

PHOTO • Sahith M.

’این ٹی راما راؤ کے دور میں، بارش لگاتار ہوتی تھی،‘ وی رام کرشن نائڈو گزشتہ دور کو یاد کرتے ہیں جس کے بعد ان کے گاؤں میں لگاتار قحط پڑنے لگا

حالانکہ کم بارش کے بعد عام طور سے ایک سال اچھی بارش ہوتی تھی، جس سے کنویں میں پانی بھر جاتا تھا اور زیر زمین پانی کی حالت بھی صحیح ہو جاتی تھی، لیکن یہ دھیرے دھیرے بدلنے لگا۔ سال 2011 سے پہلے، کچھ برسوں میں نگرور میں سالانہ بارش (جسے اننت پور کے گراؤنڈ واٹر اینڈ واٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے ریکارڈ کیا) 800-700 ملی میٹر تھی۔ لیکن جون 2011 کے بعد گاؤں میں سب سے زیادہ بارش 607 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی (جون 2015 – مئی 2016) اور دوسرے برسوں میں یہ صرف 400 سے 530 ملی میٹر رہی۔

تاہم، اننت پور ضلع کے 750 گاؤوں کے پانی اس سے بھی پہلے، 1990 کی دہائی میں خشک ہونے شروع ہوگئے۔ اس دہائی میں، تقریباً 2300 کی آبادی والے نگرور گاؤں کے کسانوں نے باجرا اور لیموں جیسے روایتی فصلوں کی بجائے مونگ پھلی اور موسمی جیسی نقدی فصلیں پیدا کرنی شروع کردیں۔ ’’تب یہی ٹرینڈ تھا، لوگ ان فصلوں کی کھیتی کرتے تھے، کیوں کہ یہ زیادہ منافع بخش تھیں،‘‘ سنیل بابو نام کے ایک کسان بتاتے ہیں۔

PHOTO • Sahith M.

کے شری نیواسولو اور ان کی فیملی نے بورویل کی کھدائی پر 10 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے، جس میں اپنے کھیت کی سینچائی کرنے کے لیے ڈرِپ پائپس (دائیں) پر لگائے گئے 2 لاکھ روپے بھی شامل ہیں

زیادہ پانی والی نقدی فصلوں کی طرف مڑنا، ساتھ ہی کم ہوتی بارش، اس کا مطلب ہے اور بھی بورویل اور مزید گہرائی سے زیر زمین پانی کو باہر کھینچنا۔ ’’چالیس سال قبل، کوئی گڑھا (بورویل) نہیں تھا۔ صرف کنویں کھودے جاتے تھے (ہمارے ذریعے ہاتھ سے)۔ ہم زمین میں صرف 10 فٹ کھدائی کرتے تھے اور پانی مل جاتا تھا،‘‘ سنیل بابو کے والد کے شری نیواسولو یاد کرتے ہیں، جو خود بھی کسان ہیں اور 70 کی عمر میں چل رہے ہیں۔

لیکن واٹر ٹیبل تیزی سے نیچے جانے کی وجہ سے – ضلع کے گراؤنڈ واٹر اینڈ واٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ نے 1972 میں جب سے ریکارڈ رکھنا شروع کیا تب سے سب سے کم – اور ہر سال کم ریچارج کی وجہ سے، بورویل اب 700-600 فٹ گہرائی تک کھودے جاتے ہیں۔ اور نگرور کے کچھ کسان بتاتے ہیں کہ انھوں نے 1000 فٹ تک کھدائی کی پھر بھی انھیں پانی نہیں ملا۔

نتیجہ میں، بورویل سے سینچائی میں اضافہ نے گراؤنڈ واٹر کو اور نیچے کر دیا ہے ساتھ ہی ضلع میں کھلے ہوئے کنووں کو خشک کر دیا، ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعے 2009 کے ایک مطالعہ کے مطابق ’’...اننت پور ضلع کے 63 منڈلوں میں سے صرف 12 زیر زمین پانی کے استعمال کے معاملے میں ’محفوظ‘ کیٹیگری میں ہیں،‘‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔

PHOTO • Sahith M.

گہرائی کا گراف جس پر نگرور میں زیر زمین پانی پایا جا سکتا ہے – سال 02-2001 میں تقریباً 10 میٹرس سے، 2017 میں 25 میٹرس سے زیادہ۔ کچھ اور بھی سال تھے جس میں یہ گہرائی مزید بڑھ گئی، لیکن اوسطاً گھٹ رہی ہے (ذریعہ: گراؤنڈ واٹر اینڈ واٹر آڈٹ ڈپارٹمنٹ، اننت پور)۔ دائیں: کے شری نیواسولو اپنے کھیت پر ناکام بورویل کا مہانہ دکھاتے ہیں

شری نیواسولو نے اپنے نو ایکڑ کے کھیت پر آٹھ بورویل کھودے، ان میں سے ہر ایک پر انھوں نے کم از کم 1 لاکھ روپے خرچ کیے۔ انھوں نے اور ان کے تین بیٹوں نے ساہوکار سے تقریباً 5 لاکھ روپے کا قرض لیا ہے۔ ان کا صرف ایک بورویل اس وقت کام کر رہا ہے۔ یہ ان کے کھیت سے تقریباً دو کلومیٹر دور ہے اور فیملی نے اپنے کھیت تک پانی لانے کے لیے ڈرِپ پائپ پر مزید 2 لاکھ روپے خرچ کیے۔ ’’ہماری خواہش ہے کہ اس فصل کو مرنے سے بچائیں جو ہمارے منھ میں پہنچنے والی ہے،‘‘ شری نیواسولو کہتے ہیں۔

شری نیواسولو کی طرح ہی بہت سے کسان متعدد کنووں کی کھدائی کرکے پوری قسمت آزمائی کر رہے ہیں، 2013 تک اس ضلع میں تقریباً 2 لاکھ بورویل تھے – وہ نمبر جو ڈاکٹر وائی وی مَلّا ریڈی نے اپنی کتاب اننت پرستھانم میں ریکارڈ کیا ہے؛ ریڈی اننت پور میں ایشیون فریٹرنا ایکولوجی سنٹر میں بطور ڈائرکٹر کام کرتے ہیں۔ ’’لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے تقریباً 80000 بورویل 2013 کی گرمی میں سوکھ چکے ہیں،‘‘ وہ لکھتے ہیں۔

بورویل کی کل تعداد 2017 میں تقریباً 2.5 لاکھ تک پہنچ چکی ہے، ریڈی نے اس رپورٹر کو بتایا، اور، انھوں نے کہا، ’’(گراؤنڈواٹر) اہلکار نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ صرف 20 فیصد بورویل ہی کام کر رہے ہیں، جب کہ 80 فیصد کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

PHOTO • Sahith M.

نگرور میں ایک ناکام بورویل اور وہ پتھر جسے اس کے منھ کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

رام کرشن نائڈو کے کھیت پر بنے دو کنویں بھی اسی 80 فیصد میں شامل ہیں – انھوں نے سال 2000 کے بعد اپنے 5.5 ایکڑ کے کھیت پر تین کھودے تھے، جس میں سے اب صرف ایک کام کر رہا ہے۔ ’’میں نے 11-2010 کے آس پاس لون لینا شروع کیا تھا۔ اس سے پہلے درخت ہوا کرتے تھے اور کافی پانی تھا۔ کوئی قرض نہیں تھا،‘‘ نائڈو بتاتے ہیں۔ اب وہ ساہوکار کے تقریباً 2.70 لاکھ روپے کے قرضدار ہیں اور زراعت سے ہونے والی اپنی کمائی سے ہر ماہ 2 فیصد سود ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ’’میں رات میں سو نہیں سکتا۔ میں ساہوکار کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ جو کل مجھ سے پیسے مانگنے آ سکتا ہے؟ جو گاؤں میں مجھے ذلیل کر سکتا ہے؟‘‘

لون، متعدد بورویل، اور پانی اور قرض کے بارے میں لگاتار فکرمندی کے باوجود، اگر کوئی کسان اچھی فصل حاصل بھی کر لیتا ہے، تو یہ بھی اننت پور میں منافع کی گارنٹی نہیں ہے، کیوں کہ یہاں کا زرعی بازار مستحکم نہیں ہے۔ اس سال اپریل میں، اپنے بورویل سے پانی استعمال کرکے، نائڈو نے کھیرے کی اچھی پیداوار کی، جسے سامبر بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ انھیں امید تھی کہ اچھا منافع ہوگا۔ ’’میں نے جب اپنی فصل کاٹی اس سے دس دن قبل، قیمت 15-14 روپے فی کلو سے گھٹ کر سیدھے 1 روپیہ فی کلو پر نیچے آگئی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں اتنے بھی پیسے نہیں کما سکا جو میں نے بیج خریدنے پر خرچ کیا تھا۔ میں نے فصل بکریوں کو کھلا دی۔‘‘

PHOTO • Sahith M.

جی شری رامالو اپنے چھ ایکڑ کے کھیت پر چھ ناکام بورویل میں سے ایک کے پاس کھڑے ہیں

’’ٹماٹر کی بھی کوئی قیمت نہیں تھی۔‘‘ جی شری رامالو کہتے ہیں، جنہیں بورویل سے سینچائی کرنے کی وجہ سے دسمبر 2016 میں ٹماٹر کی کامیاب فصل ملنے کے باوجود نقصان سہنا پڑا۔ شری راما لو کے چھ ایکڑ کے کھیت پر چھ بورویل ہیں۔ انھوں نے گاؤں سے ٹھیک باہر، شری سائیں ٹفن ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے اپنے بورویل کے بارے میں بتایا۔ صبح تقریباً 7:30 بجے یہ جگہ عام طور سے صارفین سے بھری ہوتی ہے، وہ سبھی کسان جو اپنی فصلیں ناکام ہونے کی وجہ سے اپنے کھیتوں پر کم وقت گزارتے ہیں، یا پھر کنسٹرکشن سائٹس یا روز کی مزدوری کے کام کے لیے منریگا کے کام کرنے کی جگہ پر جا رہے ہوتے ہیں۔ کھانے کے اس ہوٹل کو 2003 میں ایک کمہار، کے ناگ راجو نے شروع کیا تھا۔ ’’شروع میں ہمارا روزانہ 300-200 روپے کا کاروبار ہو جاتا تھا۔ اب یہ روزانہ تقریباً 1000 روپے ہو چکا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

یہاں پر کسان متعدد موضوعات پر بات چیت کرتے ہیں، قومی سیاست سے لے کر ان کے بورویل کی قیمت اور قرضوں تک کے بارے میں۔ ’’کسی زمانے میں، پارٹی کا تعلق گاؤں کے سیاسی سربراہوں سے ہوتا تھا۔ اب ہم گنگمّا (پانی) کے ساتھ پارٹی کرتے ہیں،‘‘ ہوٹل میں بیٹھے ایک صارف نے مذاقیہ لہجہ میں کہا۔ یعنی، کسان اپنے گاؤوں میں فرقہ وار لڑائی کے بعد حراست سے بچنے کے لیے پیسے خرچ کرتے، لیکن اب ان کا زیادہ تر پیسہ پانی پر خرچ ہوتا ہے۔

PHOTO • Sahith M.

نگرور کے باہر شری سائیں ٹفن ہوٹل میں، زیادہ تر صارفین کسان ہیں جو، خراب فصلوں کی وجہ سے، روزانہ کی مزدوری کے کام کی جگہ پر جا رہے ہیں

اور چونکہ یہ پانی ہر سال کم ہو رہا ہے، زراعت یہاں پر ایسا ناپسندیدہ کام بن چکا ہے، بہت سے لوگ ہمیں بتاتے ہیں، کہ نگرور کا اب کوئی بھی آدمی اپنی بیٹیوں کی شادی کسی کسان کے گھر میں نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ’’میں اپنے گاؤں کی ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا،‘‘ نائڈو بتاتے ہیں۔ ’’اس کے والدین نے کہا کہ وہ اس کے لیے تبھی راضی ہوں گے جب میں حیدرآباد یا کسی اور جگہ پر کسی پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کر لوں۔ وہ ایک کسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

نائڈو ایک وکیل بننا چاہتے تھے۔ ’’وہ ایک اچھی زندگی ہوتی۔ میں لوگوں کو انصاف دلانے میں مدد کرسکتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنی بیچلر کی ڈگری کو چھوڑنے کے لیے مجبور کیا گیا اور گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے کھیتی کرنے کے لیے کہا گیا۔ وہ اب 42 سال کے ہیں، غیر شادی شدہ، اور اپنے ساتھ کئی ادھورے خواب لیے ہوئے ہیں۔

تصویریں: ساہتھ ایم

مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز

Rahul M.

Rahul M. is an independent journalist based in Andhra Pradesh, and a 2017 PARI Fellow.

Other stories by Rahul M.
Sahith M.

Sahith M. is working towards an M.Phil degree in Political Science from Hyderabad Central University.

Other stories by Sahith M.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez