ڈرائیور نے اسے بھروسہ دلایا تھا کہ وہ اسے گھر چھوڑ دے گا، مگر کار مخالف سمت میں دوڑنے لگی۔ جب اس نے ہائی وے پر گاڑی واپس نہیں گھمائی، تو نیہا کو لگا کہ شاید وہ انجانے میں غلطی کر بیٹھا ہے۔ جب دوسرا یو ٹرن بھی آ کر چلا گیا، تو پھر ۱۵ سال کی اس لڑکی کا شک مزید گہرا ہو گیا۔ جب تیسری بار ایسا ہوا، تو وہ گھبرا گئی۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں؛ اس کا دل بیٹھ گیا۔

بے تابی اور غیر یقینی کی حالت میں وہ اپنے ماں باپ کو یاد کر کے چیخنے لگی۔ کار میں اس کے بغل میں بیٹھی عورت اور ڈرائیور نے اسے فکرمند نہ ہونے اور تسلی دینے کی کوشش کی۔

مگر اندر ہی اندر نیہا جانتی تھی کہ وہ بڑی مصیبت میں پڑ چکی ہے۔ اس نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ جذبات میں آ کر کر لیا تھا اور اب اسے اپنے اس فیصلہ پر پشیمانی ہو رہی تھی۔

اسی سال مئی ۲۰۲۳ میں، نیہا کی اپنے والدین کے ساتھ بحث ہو گئی تھی، جنہیں لگتا تھا کہ وہ کتابوں پر کم اور فون پر زیادہ وقت گزار رہی ہے۔ یہ جگھڑا نیہا کا فون ضبط ہونے کے ساتھ ختم ہوا۔

وہ ہلکی آواز میں بغیر نظریں ملائے کہتی ہے، ’’میں بہت غصے میں تھی کہ میرے والدین نے مجھ سے موبائل فون چھین لیا تھا۔ میں بس ان سے دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔‘‘

اس لیے وہ صبح سویرے تقریباً ۶ بجے گھر سے نکل گئی اور پڑوس کی تنگ گلیاں پار کر کے ہائی وے تک پہنچ گئی۔ اپنے والدین سے ناراض وہ ہائی وے پر تقریباً ۸-۷ کلومیٹر نکل آئی تھی۔ تب جا کر اسے احساس ہوا کہ وہ کافی دور آ گئی ہے۔ اب تک سورج نکلے کچھ گھنٹے ہو چکے تھے اور اسے پیاس لگی تھی، مگر اس کے پاس پانی کی بوتل خریدنے لائق پیسے بھی نہیں تھے۔

کالے رنگ کی ایک چمکدار کار اس کے سامنے رکی۔ نیہا کو یاد ہے، ’’کار ایک آدمی چلا رہا تھا اور پیچھے ایک عورت بیٹھی تھی۔‘‘ عورت نے کھڑکی نیچے کی اور نیہا سے پوچھا کہ کیا اسے گھر لوٹنے کے لیے لفٹ چاہیے۔ ’’وہ اچھے لوگ لگ رہے تھے۔ میں پورے راستے چل کر بہت تھک گئی تھی اور میرے پاس بس ٹکٹ کے لیے پیسے بھی نہیں تھے،‘‘

نیہا نے ان کی پیشکش قبول کر لی۔ اے سی (ایئر کنڈیشنر) میں اسے آرام ملا۔ اس نے سر پیچھے جھکا کر رومال سے پیشانی کا پسینہ پونچھا۔ عورت نے اسے پانی کی بوتل دی۔

حالانکہ، یہ راحت جلد ہی ڈر میں تبدیل ہو گئی، جب ڈرائیور لگاتار اس کے گھر سے دور جانے لگا۔ اس نے چیخنے اور احتجاج کرنے کی کوشش کی، مگر کار آخر ایک گھنٹہ بعد ہی جا کر رکی۔ وہ بھوپال پہنچ گئے تھے۔ نیہا کا اغوا ہو چکا تھا۔

مدھیہ پردیش بچوں کی گم شدگی کی سب سے زیادہ تعداد کے معاملے میں مسلسل پہلے نمبر پر بنا ہوا ہے۔ سال ۲۰۱۶ اور ۲۰۲۱ کے درمیان ریاست میں آفیشل طور پر ۶۰ ہزار ۳۱ ایسے کیس درج کیے گئے (نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو)۔ ’چائلڈ رائٹس اینڈ یو‘ (سی آر وائی) کے ذریعہ داخل کی گئی ایک آر ٹی آئی کے بعد پتہ چلا کہ ۲۰۲۲ میں ۱۱ ہزار ۷۱۷ بچے لاپتہ ہوئے تھے۔ یعنی سال میں اوسطاً ۱۰ ہزار ۲۵۰ یا روزانہ ۲۸ بچے غائب ہوتے ہیں، جو ہندوستان کی کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے زیادہ ہے۔

Madhya Pradesh consistently has the highest numbers of children that go missing in India

ہندوستان میں بچوں کی گم شدگی کی تعداد مدھیہ پردیش میں سب سے زیادہ بنی ہوئی ہے

نیہا کی طرح گم شدہ بچوں میں سے ۷۷ فیصد، یعنی ۵۵ ہزار ۷۳ لڑکیاں ہیں۔ بھوپال کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ’وکاس سمواد سمیتی‘ کے ساتھ کام کرنے والے کارکن سچن جین کہتے ہیں، ’’[گم شدہ بچوں کی] یہ تعداد بھی پوری طرح درست نہیں ہوگی، کیوں کہ دور دراز کے علاقوں میں گم شدگی کے کئی معاملوں کی رپورٹ ہی نہیں کی جاتی۔‘‘ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم کے پاس مدھیہ پردیش میں بچوں کی گم شدگی کے اعداد و شمار موجود ہیں۔

دریں اثنا، شہر کے باہری علاقے میں ایک کمرے کی جھونپڑی میں رہنے والے نیہا کے والدین – پریتی اور رمن نے فوراً اس کی تلاش شروع کر دی۔ انہوں نے اپنے پڑوسیوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور رشتہ داروں کو فون کیے۔ پریتی کہتی ہیں، ’’مجھے برا لگا اور میں نے اس کے لیے خود کو قصوروار ٹھہرایا۔ ہم پورے محلہ میں گھومے، مگر وہ کہیں نہیں ملی۔ ہم نے سوچا کہ وہ دوپہر تک لوٹ آئے گی۔‘‘ انہوں نے اگلے دن مقامی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا اور گم شدگی کی شکایت درج کرا دی۔

دونوں میاں بیوی بھوپال کے آس پاس کے کارخانوں میں دہاڑی مزدوری کرتے ہیں اور ہر مہینے آٹھ سے دس ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ پریتی کہتی ہیں، ’’ہم ہمیشہ اپنے بچوں کو کسی بھی قیمت پر پڑھانا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں اچھی نوکریاں مل سکیں۔‘‘

وہ اور ان کے شوہر بے زمین مہاجر ہیں، جو ۲۰ سال پہلے اتر پردیش سے آئے تھے۔ ان کا تعلق دیگر پس ماندہ برادری سے ہے۔ ’’کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے بچے مزدور ہونے کی بے عزتی برداشت کریں اور استحصال کا شکار ہوں۔ اسی لیے ہم پڑھائی کے لیے اس کے اوپر تھوڑی سختی کرتے تھے۔‘‘

نیہا کی طرح جو نوجوان اپنے والدین سے جھگڑا کر کے اپنا گھر چھوڑ دیتے ہیں، یا وہ نوجوان جو کسی کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد گھر سے بھاگ جاتے ہیں، گم شدہ بچوں کے کئی زمروں میں سے ایک میں آتے ہیں، جن میں سیکس یا مزدوری کے لیے اسمگلنگ سب سے مہلک کیٹیگری ہوتی ہے۔ ’’ٹھیکیدار بچوں کو کام کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔‘‘ جین کہتے ہیں، ’’اس قسم کی بچہ مزدوری کے پیچھے بڑی ساز باز ہے۔‘‘

*****

نیہا کو بھوپال کے ایک فلیٹ میں لے جایا گیا اور اسے باہر نکلنے یا کسی سے رابطہ کرنے کو منع کیا گیا۔ میاں بیوی نے پڑوسیوں کو بتایا کہ وہ ان کے چچیرے بھائی کی بیٹی ہے اور اسے ثنا کہہ کر بلانے لگے۔ جب اس نے نئے نام پر کچھ بھی ردعمل کرنے سے انکار کیا، تو اسے مارا پیٹا گیا۔

فرار ہوئی اس بچی کا جسمانی اور جنسی استحصال کیا گیا۔ میاں بیوی اس سے گھر کے بے شمار کام، کمرے کی صفائی اور برتن صاف کرواتے تھے۔ آخر اس نے یہاں سے بھاگنے کا پلان بنانے کی کوشش کی، تو اسے پکڑ لیا گیا اور سزا دی گئی۔ وہ یاد کرتی ہیں، ’’میں نے گھر لوٹنے کی امید چھوڑ دی تھی۔ جب پولیس نے مجھے بچایا، تو مجھے یقین ہی نہیں ہوا۔‘‘

پولیس نے ہائی وے پر اس کے چلنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا استعمال کر کے اسے ٹریک کیا، مگر بھوپال میں اسے تلاش کرنے میں انہیں کچھ دن لگے۔ میاں بیوی کو اغوا اور جنسی جرائم سے بچوں کی حفاظت (پاسکو) کا قانون، ۲۰۱۲ اور بچہ مزدوری (روک تھام اور ضابطہ کاری) کا قانون، ۱۹۸۶ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے گھر پہنچنے پر والدین نے راحت کی سانس لی۔ پریتی کہتی ہیں، ’’ہم پولیس کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے۔‘‘

PHOTO • Priyanka Borar

نیہا کی طرح جو نوجوان اپنے والدین سے جھگڑا کر کے اپنا گھر چھوڑ دیتے ہیں، یا وہ نوجوان جو کسی کی محبت میں گرفتار ہونے کے بعد گھر سے بھاگ جاتے ہیں، گم شدہ بچوں کے کئی زمروں میں سے ایک میں آتے ہیں، جن میں سیکس یا مزدوری کے لیے اسمگلنگ سب سے مہلک کیٹیگری ہوتی ہے

جین کا ماننا ہے کہ نیہا خوش قسمت تھی کہ اس کا دوسروں کے مقابلے جلدی پتہ لگا لیا گیا، مگر لگاتار ایسے واقعات ہونا تشویش کی بات ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہ صرف قانون اور نظم و نسق کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ معاشرہ آج کے زمانے میں بچوں اور نوجوانوں کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی چنوتیوں کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔‘‘

گزشتہ سات برسوں میں مدھیہ پردیش میں ۷۰ ہزار سے زیادہ بچے غائب ہوئے ہیں اور ریاستی پولیس ہر سال مسلسل ۶۵-۶۰ فیصد کو برآمد کر رہی ہے۔ مگر ایک بچہ غائب ہونا بھی بہت بڑی بات ہے۔ فی الحال ۱۱ ہزار سے زیادہ بچے ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو انہیں نہیں کرنی چاہیے اور ان کے ماں باپ اور اہل خانہ کو اس کا ڈر اور خوف لاحق رہتا ہے کہ نہ جانے ان کے بچوں پر کس قسم کے ظلم ہو رہے ہوں گے۔

اگست کے درمیان ۱۴ سال کی بیٹی پوجا کے لاپتہ ہونے کے بعد سے لکشمی اور نتیش کے دماغ میں بار بار الگ الگ خیالات آتے رہتے ہیں۔ پولیس ابھی تک اس کا پتہ نہیں لگا پائی ہے اور اس کا معاملہ ابھی کھلا ہے۔

نتیش کہتے ہیں، ’’دماغ خراب ہو گیا۔ ہم جتنا ہو سکے، مثبت سوچ بنائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ سوچنا ناممکن ہے کہ ہماری بیٹی کیا کر رہی ہوگی یا کن حالات میں ہوگی۔‘‘

ایک صبح پوجا اسکول کے لیے نکلی مگر واپس نہیں لوٹی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں وہ اسکول جاتے ہوئے نظر آئی، مگر اس کے بعد وہ غائب ہو گئی۔ ماں باپ کو لگا کہ اس نے شاید اس کا منصوبہ بنایا تھا، کیوں کہ وہ اس دن اپنا فون گھر پر ہی چھوڑ گئی تھی، جو وہ کبھی نہیں کرتی تھی۔ نتیش (۴۹) کہتے ہیں، ’’پولیس نے اس کے کال ریکارڈ کو دیکھا اور پایا کہ وہ ایک لڑکے سے باقاعدگی سے بات کرتی تھی۔ وہ اکثر اپنے فون پر رہتی تھی، لیکن ہم اس کی رازداری کا احترام کرتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ یہی وہ عمر ہے جب بچے اپنے دوستوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

پوجا جس لڑکے سے بات کر رہی تھی وہ اسی کی عمر کا تھا اور اتر پردیش کے ایک گاؤں کا کوئی شناسا تھا۔ پولیس اسے اور پوجا کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن دونوں نہیں ملے۔

نتیش اور لکشمی نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور روزانہ کام پر جاتے ہیں۔ دونوں کی عمر چالیس کے پار ہے۔ دونوں ہی تقریباً ۳۰ سال پہلے کام کے لیے مغربی بہار کے ایک گاؤں سے آئے تھے۔ نتیش کہتے ہیں، ’’ہم کسی ایسے شخص کو جانتے تھے جو یہاں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ انہوں نے ہمیں یہاں آ کر کام تلاش کرنے کی صلاح دی۔‘‘

میاں بیوی دہاڑی مزدور ہیں جو جھونپڑی سے پکا گھر بنانے کے لیے اور اپنے بچوں کی تعلیم اور شادی کے لیے بچت کر رہے ہیں۔ دن میں ۱۲ سے ۱۴ گھنٹے کام کرکے وہ ۹۰۰۰ روپے مہینہ کما پاتے ہیں۔ نتیش کو لگتا ہے کہ طویل عرصے تک کام کرنے کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیٹی کی اندیکھی کی۔ ’’ہمیں جو بھی کام ملا، ہم نے کر لیا، کیوں کہ ہم اپنے بچوں کے لیے بہتر زندگی چاہتے تھے۔ کیا ماں باپ کے طور پر ہم ناکام رہے کہ وہ اس بارے میں ہم سے بات نہیں کر پائی؟‘‘

پوجا محنتی طالبہ تھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھتی تھی۔ اس کی بڑی بہنوں کی شادی ۲۰ اور ۲۲ سال کی عمر میں ہو گئی تھی، مگر وہ پولیس افسر بننا چاہتی تھی۔ اس کے والدین کو تعجب ہے کہ کیا اس نے وہ خواب چھوڑ دیا، کیا انہیں وہ یاد کرتی ہے۔ کبھی کبھی انہیں لگتا ہے کہ کیا اسے اس کی خواہش کے خلاف لے جایا جائے گا اور کیا وہ اسے پھر کبھی دیکھ بھی پائیں گے۔

PHOTO • Priyanka Borar

پوجا کے ماں باپ فکرمند ہیں کہ کیا وہ اپنی بیٹی کو پھر کبھی دیکھ بھی پائیں گے

لکشمی کہتی ہیں، ’’غائب ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اس کی بھیانک کہانیوں والی بہت ساری خبریں موجود ہیں۔‘‘ اپنی بیٹی کے غائب ہونے کے بعد سے وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی ہیں۔ ’’مجھے ڈراؤنے خیال آتے رہتے ہیں، جن سے میں چھٹکارہ نہیں پا سکتی۔ گھر پر ماتم جیسا ماحول رہتا ہے۔‘‘

اصولی طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ چار مہینے تک غائب رہتا ہے، تو اس معاملے کو ضلع کی انسانی اسمگلنگ مخالف اکائی (اے ایچ ٹی یو) میں منتقل کر دیا جانا چاہیے۔

جین کہتے ہیں، ایک بار اس یونٹ میں جانے کے بعد اس کی جانچ زیادہ تیزی، سنجیدگی اور فوکس کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ’’مگر انتظامیہ اکثر اس سے بچتی ہے، کیوں کہ اسمگلنگ کے اعداد و شمار کا اچانک سامنے آنا ان کے نام کو خراب کرتا ہے، بدنامی لاتا ہے۔‘‘یہ بدنصیب کیس مقامی پولیس کے پاس دبے رہتے ہیں اور اس سے گم شدہ بچوں کو تلاش کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔

*****

بچوں کے ملنے کے بعد ان کی باز آبادکاری ضروری ہوتی ہے، کیوں کہ وہ ایک دردناک تجربے سے گزرے ہوتے ہیں۔ ان کی دماغی حالت اکثر کمزور ہوتی ہے۔

بھوپال میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ریکھا شریدھر کہتی ہیں کہ مدھیہ پردیش کے سرکاری اسپتالوں میں ضروری پیشہ ور ماہر نفسیات نہیں ہیں، جو زیادہ تر شہروں میں ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ دور دراز کے علاقوں کے صدمے میں مبتلا بچے بار بار ہونے والے کاؤنسلنگ سیشن میں نہیں جا پاتے، جن کی انہیں سخت ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’گھر پر انہیں سنبھال نہیں پاتے، کیوں کہ وہ اپنی مالی پریشانیوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور نفسیاتی مریض کو کیسے سنبھالنا ہے، اس کی بیداری کی عموماً کمی ہوتی ہے۔‘‘

شریدھر کاؤنسلنگ کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بچے ذہنی تناؤ کے شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں خودکشی کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ ان کے ذہن پر لمبے عرصے تک اثر ڈال سکتا ہے اور مستقبل میں ان کے ہر رشتے کو متاثر کر سکتا ہے۔‘‘

نیہا کو گھر لوٹے تقریباً پانچ مہینے ہوئے ہیں۔ تب سے اس کے چار پانچ کاؤنسلنگ سیشن ہو چکے ہیں، مگر وہ اب بھی پوری طرح صحت مند نہیں ہو پائی ہے۔ اسے یہ بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا کہ وہ گھر پر ہے اور محفوظ ہے۔ نیہا کہتی ہے، ’’وہ ۱۷ دن مجھے لامتناہی مدت محسوس ہوئے تھے۔‘‘

وہ دوبارہ اسکول جانے لگی ہے، مگر اسے اکیلے جانے میں ڈر لگتا ہے۔ اس کا بھائی اسے ہر دن چھوڑ دیتا ہے اور واپس لے کر آتا ہے۔ نیہا پہلے کثیر رخی ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ نئے لوگوں سے ملنے سے ڈرتی ہے اور نظریں نہیں ملا پاتی۔

فیملی اینٹ کی دیوار والے گھر میں رہتی ہے، جس میں ایک کمرہ اور باورچی خانہ ہے اور ٹین کی چھت ڈلی ہوئی ہے۔ یہاں وہ سبھی فرش پر ایک دوسرے کے بغل میں سوتے ہیں۔ نیہا کو اس سے وہ یادیں آتی ہیں، جو اسے پریشان کرتی ہیں۔ پریتی کہتی ہیں، ’’جب سے وہ لوٹی ہے، چین سے نہیں سوئی ہے۔ جب بھی اس کے بغل میں سو رہا شخص نیند میں ہلتا ہے، تو وہ آدھی رات میں اٹھ کر مدد کے لیے چیخنے لگتی ہے۔ اسے چُپ کرانے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔‘‘

نابالغوں کی حفاظت کے مدنظر اسٹوری میں شامل تمام لوگوں کے نام بدل دیے گئے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique