لکڑہارا کلہاڑی کو سر سے اوپر اٹھاتا ہے اور ایک مخصوص آواز کے ساتھ لکڑی پر ضرب لگاتا ہے۔ اس کی آواز سے تقریباً دس فٹ دور بیٹھی میں چونک جاتی ہوں۔ پسینہ اس کی پیٹھ سے نیچے گرتا ہے اور سوتی کے جانگھیئے کے اوپر کمر کے گرد لپٹے تولیے میں گم ہو جاتا ہے۔ ٹھاک! وہ لکڑی پر دوبارہ ضرب لگاتا ہے۔ لکڑی پھٹ جاتی ہے… اور اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں۔ لکڑہارے کا نام ایم کاماچی ہے۔ کسی زمانے میں وہ ایک زرعی مزدور تھے۔ وہ اپنی گردن اٹھائے بغیر مجھ سے بات کرتے ہیں، لیکن ان کی نگاہیں کلہاڑی کی دھار پر ٹکی ہوئی ہیں۔

کاماچی گزشتہ ۳۰ سالوں سے تنجاور کے ایک بہت پرانے باغ – شیو گنگئی پونگا کے قریب بنے شیڈ میں کام کرتے رہے ہیں۔ ان کی عمر ۶۷ سال ہے۔ اس ۱۵۰ سال پرانے باغ کی عمر ان سے دو گنی ہے۔ قریب ہی ۱۱۰۰ سال پرانا عظیم برہدیشور کووِل مندر کھڑا ہے۔ اور جس ساز کو وہ ہاتھ سے تراش رہے ہیں، اس کا تذکرہ ان تحریروں میں ملتا ہے جو اس مندر سے بھی بہت قدیم ہے۔ کٹہل کی لکڑی کے چار فٹ کے ٹکڑے کو کاماچی ایک وینئی کی شکل دے رہے ہیں، جسے عام طور پر ’وینا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

لکڑی پر مضبوط گرفت کے لیے انہوں نے اپنا دایاں پیر اس کے دھنسے ہوئے حصے پر رکھا ہے، جو ایک دن وینئی کا کُڈم (تونبہ) بن جائے گا۔ شیڈ گرد وغبار میں ڈوبا ہوا ہے اور سائے کے باوجود یہاں گرمی ہے۔ کاماچی کا کام سخت اور محنت طلب ہے۔ انہیں اپنی محنت اور ہنر کے لیے ۶۰۰ روپے یومیہ ملتے ہیں۔ کلہاڑی کے ہر وار پر وہ’ہنہ‘ کی ایک آواز نکالتے ہیں؛ اور بار بار کھردرے تولیے سے اپنے چہرے کا پسینہ بھی پونچھتے جاتے ہیں۔

چند گھنٹوں میں وہ ۳۰ کلو کی لکڑی کو تراش کر ۲۰ کلو کا کر دیتے ہیں۔ یہ ٹکڑا اب پٹّرئی (ورکشاپ) جانے کے لیے تیار ہو جائے گا، جہاں کاریگر اسے مزید تراشیں گے اور پالش کریں گے۔ ایک مہینے کے اندر ساز تیار ہو جائے گا اور سازندے کی گود میں بیٹھ کر خوبصورت موسیقی بکھیرے گا۔

Left: Logs of jackfruit wood roughly cut at the saw mill wait for their turn to become a veenai
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Using an axe, Kamachi splitting, sizing and roughly carving the timber
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: آرا مل پر کٹے ہوئے لکڑی کے ٹکڑے وینئی میں تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دائیں: کلہاڑی کی مدد سے کاماچی لکڑی کو برابر ٹکڑوں میں کاٹ رہے ہیں اور انہیں ناہموار شکل دے رہے ہیں

Left: Veenais are lined up in the workshop, waiting for the finishing touches .
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Different musical instruments made by Kuppusami Asari from jackfruit wood, including mridangam, tavil, kanjira and udukkai
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: ورکشاپ میں ایک قطار میں رکھی وینئی ، جو نوک پلک درست کرنے کے آخری مرحلے کا انتظار کر رہی ہیں۔ دائیں: کٹہل کی لکڑی سے کُپّوسامی آساری کے بنائے ہوئے مختلف ساز، جن میں مریدنگم، تویل، کنجیرا اور اُڈوکّئی شامل ہیں

وینئی کی پیدائش تنجاور میں ہوئی تھی۔ سرسوتی وینا - جو تنجاور وینئی کی پرانی شکل ہے - ہندوستان کا قومی ساز ہے۔ ’ویدک دور‘ کے حوالہ جات کی رو سے مریدنگم اور بانسری کے ساتھ یہ تین ’آسمانی آلات موسیقی‘ میں سے ایک ہے۔

مریدنگم ، کنجیرا ، تویل ، اُڈوکّئی جیسے بہت سے دوسرے ضربی سازوں کی طرح وینئی نے بھی اپنے سفر کا آغاز پَنروتی کے نزدیک واقع باغات سے کیا ہے۔ پَنروتی ، کڈلور ضلع کا ایک چھوٹا سا شہر ہے، جو اپنی مٹھائیوں اور کٹہل کے ریشے دار پھلوں کے لیے مشہور ہے۔ لیکن، کٹہل اور ہندوستان کے سب سے مشہور موسیقی کے آلات کے رشتے سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

*****

’میری بات سن کر وہ رک گیا، ویسے ہی راضی ہو گیا جیسے،
فیل بان کی مہمیز سے بے قابو نر ہاتھی کو،
یال (وینا) دھن پر قرار آ جائے۔‘‘

کلیتوکئی ۲، سنگم شاعری

تنجاور وینا کے جغرافیائی نشان (جی آئی) - جو اسے ۲۰۱۳ میں موصول ہوا تھا - کے لیے جو درخواست دی گئی تھی اس میں اسٹیٹمنٹ آف کیس (معاملے کی گواہی) میں تار کے اس ساز کی تاریخ کے متعدد حوالہ جات موجود ہیں، جو اس کے سرے کو سنگم دور (تقریباً ۲۰۰۰ سال قبل) تک لے کر جاتے ہیں۔ اس وقت اس وینئی کی جو شکل موجود تھی اسے ’یال‘ کہا جاتا تھا۔

’’جس وقت مجھ سے کہا تھا
کہ اگر تم دوسری عورتوں کے پاس گئے، تو وہ مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپائے گا
اور اس نے کئی بار اپنی یال کی قسمیں کھائی تھیں،
کیا وہ آئے گا اور تمہاری گردن پر ان عورتوں کی چوڑیوں سے پڑی
خراشوں کو دیکھے گا، جو تمہاری جھوٹی باتوں کا بھروسہ کرتے ہوئے
تمہارے ساتھ ہونے کو راضی ہوئیں؟‘‘

کلیتوکئی ۷۱، سنگم شاعری میں ایک لونڈی نے ہیرو سے کہا

جغرافیائی نشان کی دستاویز میں کٹہل کی لکڑی کو خام مال کے طور پر نشانزد کیا گیا ہے اور اس کی تشکیل کی تفصیلات کی صراحت کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چار فٹ لمبی وینئی میں ’’ایک بڑا اور گول ڈھانچہ ہوتا ہے جس کی گردن موٹی اور چوڑی ہوتی ہے، اور جس کے ایک سرے کو ڈریگن کی شکل دی جاتی ہے۔‘‘

وینئی بذات خود ان تفصیلات سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔ کہیں خمیدہ ہوتی ہے تو کہیں نقاشی شدہ۔ ڈریگن کا سر (جسے یہاں یالی کہا جاتا ہے) جاذب نظر اور رنگین ہوتا ہے۔ لکڑی کی گردن میں تاروں کی ۲۴ فریٹس (کھونٹیاں) اور چار بجنے والے تار لگے ہوتے ہیں، جن کو چھیڑنے سے موسیقی نکلتی ہے۔ ’خصوصی‘ وینئیوں میں کُڈم (تونبہ) کا پیچیدہ ڈیزائن ہوتا ہے، اور ان کی قیمت عام وینئیوں سے کم از کم دوگنی ہوتی ہے۔

انسانی ہاتھوں کے ذریعہ موسیقی کے ایک ساز میں تبدیل ہونے سے قبل پلامرم (کٹہل) کے درخت تقریباً ۳۰ سے ۵۰ سالوں تک تمل ناڈو کے کڈلور ضلع میں، پنروتی کے آس پاس کے گاؤوں میں جھنڈ میں کھڑے رہتے ہیں۔ دراصل مویشیوں کی طرح درخت بھی سرمایہ ہوتے ہیں۔ دیہی آبادی انہیں شیئر بازار کے اسٹاک جیسا مانتی ہے، جن کی قیمتیں عام طور پر بڑھتی رہتی ہیں، اور جنہیں منافع کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ پنروتی شہر کے کٹہل کے ۴۰ سالہ تاجر آر وجے کمار وضاحت کرتے ہیں کہ ایک بار جب تنا آٹھ ہاتھ چوڑا، اور ۷ سے ۹ فٹ لمبا ہو جاتا ہے، تو ’’ صرف اس کی لکڑی کے ۵۰ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔‘‘

Left: Jackfruit growing on the trees in the groves near Panruti, in Cuddalore district.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Finishing touches being made on the veenai in the passageway next to Narayanan’s workshop
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: کڈلور ضلع میں پنروتی کے قریب درختوں کے جھرمٹ میں کٹہل کے پھل لگے ہوئے ہیں۔ دائیں: نارائنن کی ورکشاپ کی برابر کی راہداری میں وینئی کی نوک پلک درست کی جا رہی ہے

Left: Details on the finished veenai , including the yali (dragon head).
PHOTO • Aparna Karthikeyan & Roy Benadict Naveen
Right: Murugesan, a craftsman in Narayanan's workshop sanding down and finishing a veenai
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: یالی (ڈریگن کے سَر) کے ساتھ تیار شدہ وینئی کی نقاشی۔ دائیں: نارائنن کی ورکشاپ کے ایک کاریگر مروگیسن ریت سے رگڑ کر وینئی کو مکمل کر رہے ہیں

جہاں تک ممکن ہوتا ہے کسان درخت نہیں کاٹتے ہیں۔ ’’لیکن جب سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے - مثلاً ہنگامی طبی حالات یا شادی کے لیے
– تو ہم چند بڑے درختوں کا انتخاب کرتے ہیں اور انہیں فروخت کر دیتے ہیں،‘‘ کٹہل کے ۴۷ سالہ کاشتکار کے پَٹّو سامی بتاتے ہیں۔ ’’اس سے چند لاکھ روپے مل جاتے ہیں، جو بحران پر قابو پانے یا کلیانم (شادی) کے لیے کافی ہوتے ہیں…‘‘

تنجاور پہنچنے سے قبل ہی لکڑی کے بہترین حصوں کو مریدنگم کے لیے علاحدہ کر لیا جاتا ہے۔ ’سیباسٹیئن اینڈ سنز: اے بریف ہسٹری آف مردنگم * میکرس‘ میں ٹی ایم کرشنا (موسیقار، مصنف، مقرر اور میگسیسے ایوارڈ یافتہ) ان گمنام ہیروز کا خاکہ پیش کرتے ہیں، جو اس ساز کو دستی طور پر تیار کرتے ہیں۔

لیکن سب سے پہلے خود ساز ’’مریدنگم ۱۰۱‘‘، جیسا کہ کرشنا اسے کہتے ہیں، کی بات کرتے ہیں۔ مریدنگم ایک ’’بیلن نما دو رخی ڈرم ہوتا ہے، جو کرناٹِک* موسیقی اور بھرتناٹیم کی پیش کش میں استعمال ہونے والا بنیادی ضربی ساز ہوتا ہے۔ اس کا ڈھاںچہ ارتعاش پیدا کرنے والا ایک کھوکھلا چیمبر ہوتا ہے جسے کٹہل کے درخت کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے۔‘‘ اس کے کھلے ہوئے دونوں سروں پر چمڑے کی تین تہیں لگائی جاتی ہیں۔

کرشنا لکھتے ہیں، مریدنگم کے لیے کٹہل کی لکڑی ’’مقدس شے‘‘ کی طرح ہے۔ ’’اگر کٹہل کا درخت کسی مندر کے نزدیک کا ہے تو اس کے تقدس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں لکڑی مندر کی گھنٹیوں اور ویدک منتروں کی آوازوں سے پاک ہو جاتی ہے، اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح کی لکڑی سے بنے ساز کی گونج بے مثال ہو جاتی ہے۔ منی ایر جیسے فنکار اس طرح کے ایک اچھے درخت سے لکڑی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔‘‘

اپنے خاندان کے تیسری نسل کے آلہ ساز کُپّوسامی آساری، کرشنا کو بتاتے ہیں کہ ’’ایک عقیدہ ہے کہ ایسا درخت جو گرجا گھر یا مندر کے قریب ہو، یا ایک ایسی سڑک کے کنارے ہو جہاں لوگ چلتے اور بات کرتے ہوں، یا جہاں گھنٹیاں بجتی ہوں، وہ درخت ارتعاش جذب کرتا ہے اور اچھی آواز پیدا کرتا ہے۔‘‘

کرشنا کا مشاہدہ ہے کہ اگرچہ ’’مریدنگم کے فنکاروں کا خیال ہے کہ ہندو مندر کی گھنٹیاں اور منتر اس کے جادوئی جزو ہیں، لیکن اس آلہ موسیقی کی ان مثبت ارتعاشوں کی تلاش زیادہ ہمہ گیر ہے۔‘‘

Kuppusami Asari in his workshop in Panruti town, standing next to the musical instruments made by him
PHOTO • Aparna Karthikeyan

کُپّوسامی آساری پنروتی شہر میں اپنی ورکشاپ میں اپنے بنائے ہوئے آلات موسیقی کے ساتھ

اپریل ۲۰۲۲ میں کٹہل کے کاشتکاروں اور تاجروں سے ملاقات کی غرض سے میں نے پنروتی شہر کا دورہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں دوپہر کے وقت کُپّوسامی آساری کی مصروف ورکشاپ میں داخل ہوئی۔ یہ بیک وقت (لیتھ اور مشینوں کی موجودگی میں) جدید بھی ہے اور (پرانے زمانے کے اوزاروں اور دیوتاؤں کی تصاویر کے ساتھ) روایتی بھی، بالکل ویسا ہی جیسا مریدنگم بنانے کا کُپّوسامی کا رویہ ہے۔

کُپّوسامی کہتے ہیں، ’’چلیے، اپنے سوالات پوچھیے۔‘‘ وہ ایک مصروف شخص ہیں اور جلدی میں ہیں۔ ’’آپ کیا جاننا چاہتی ہیں؟‘‘ کٹہل کی لکڑی ہی کیوں، میں پوچھتی ہوں۔ ’’کیونکہ پلامرم اس کے لیے بالکل ٹھیک ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ ہلکا ہوتا ہے اور اس کے نادَم [سُر] پکے ہوتے ہیں۔ یہاں ہم وینئی کے علاوہ  ہر طرح کے ضربی ساز بناتے ہیں۔‘‘ کُپّو سامی ایک انتہائی معتبر کاریگر ہیں۔ ’’آپ ہمارے بارے میں ٹی ایم کرشنا کی کتاب میں پڑھ سکتی ہیں،‘‘ وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں۔ ’’یہاں تک کہ اس میں لیتھ کے ساتھ میری ایک تصویر بھی شامل ہے۔‘‘

کُپّوسامی نے چنئی کے مضافاتی علاقے مادھوَرم میں تربیت حاصل کی تھی اور ان کے پاس ’’تقریباً ۵۰ سال کا تجربہ‘‘ ہے۔ انہوں نے ۱۰ سال کی عمر سے یہ کام سیکھنا شروع کیا تھا۔ ان کی تعلیم بہت معمولی ہے، لیکن لکڑی کا کام کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’اُس وقت سبھی کام ہاتھ سے کیے جاتے تھے۔ میرے والد نے پلامرم کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے وَنڈی سَکّرم [بیل گاڑی کا پہیہ] پر چڑھا کرکام کیا تھا۔ دو آدمی مل کر پہیے کو گھماتے تھے اور اپّا (والد) اسے اندر سے کھرچتے تھے۔ لیکن فیملی نے بہت جلد ٹیکنالوجی کو اپنا لیا اور ’’ہم وقت کے ساتھ بدلتے گئے۔‘‘

بہت سے دیگر کاریگروں کے برعکس وہ جدید مشینری کو لے کر زیادہ پرجوش ہیں۔ ’’دیکھئے، پہلے آپ ایک مریدنگم کو اندر سے کھوکھلا کرنے میں پورا دن صرف کر دیتے تھے۔ اب لیتھ (خراد) کے استعمال سے یہ کام تیزی سے اور موثر ڈھنگ سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اور اس کی حتمی شکل بھی بہت بہتر ہوتی ہے۔‘‘ وہ پنروتی میں خراد کے استعمال میں پیش پیش تھے اور ۲۵ سال قبل مشین نصب کی تھی۔ اب بہت سے لوگ دوسرے شہروں میں اسے اپنا رہے ہیں۔

’’اس کے علاوہ،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے چار، پانچ لوگوں کو موسیقی کے ضربی آلات بنانے کی تربیت دی ہے۔ جب وہ پوری طرح سے تربیت یافتہ ہو جاتے ہیں، تو اپنی دکان کھول لیتے ہیں اور اسے چنئی کے مئیلاپور کے اسی خوردہ فروش کو فروخت کرتے ہیں، جسے میں ساز فراہم کرتا ہوں۔ وہ اپنا تعارف میرے شاگرد کے طور پر کراتے ہیں اور دکاندار مجھے فون کرکے پوچھتا ہے: ’آپ نے کتنے لوگوں کو تربیت دی ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے کُپّوسامی قہقہہ لگاتے ہیں۔

ان کے بیٹے سبری ناتن نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ’’میں نے اسے پیمائش کرنے اور ساز بنانے کا طریقہ سیکھنے کو کہا ہے۔ اگر اس کی کہیں نوکری لگ بھی جائے گی، تو کاریگر رکھ کر وہ اس کام کو جاری رکھ سکتا ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

Lathe machines make Kuppusami’s job a little bit easier and quicker
PHOTO • Aparna Karthikeyan

لیتھ مشین کُپّوسامی کے کام کو کچھ آسان اور تیز تر بناتی ہے

*****

’’آساریوں کا تعلق وشوکرما برادری سے ہے۔ وہ مادی فن کے کاریگر ہیں جو دھات، پتھر اور لکڑی کا کام کرتے ہیں۔ اس برادری کے بہت سے لوگ اپنے تخلیقی مشاغل کو چھوڑ کر ذات پات پر مبنی روایتی پیشوں سے منسلک مزدوری کی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ نوجوان نسل بھی عزت بخش نوکریوں کی طرف مائل ہو چکی ہے،‘‘ ٹی ایم کرشنا اپنی کتاب ’سیباسٹیئن اینڈ سنز‘ میں لکھتے ہیں۔

’’جب ہم موروثی اور ذات پات پر مبنی پیشوں کی بات کریں، تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ علم کی تخلیق میں اسے بین نسلی تسلسل کے طور پر رومان زدہ نہ بنایا جائے، کیونکہ ہمارے سماجی ڈھانچے میں تمام لوگ اور پیشے مساوی نہیں ہیں،‘‘ کرشنا کہتے ہیں۔ ’’وہ کام جو ذات پات کے مراعات یافتہ خاندانوں کے اندر منتقل ہوتا ہے اسے علم سمجھا جاتا ہے اور اس طرح کی ذات پات کی بنیاد پرجاری محدود اشتراک کو تحفظ گردانا جاتا ہے۔ اور اسے اختیار کرنے والوں کو جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جبکہ وہ پیشے اور کام کی وہ شکلیں جو مظلوم یا پسماندہ برادریوں میں نسل در نسل جاری رہتی ہیں علم نہیں سمجھی جاتیں۔ نہ ہی ان سے متعلق لوگوں کو علم کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے، ان کی ناقدری کی جاتی ہے اور ان کے کام کو جسمانی مشقت کے کام کے طور پر درجہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پیشوں کو اپنانے والوں کو ذات پات کی بنیاد پر جبر اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے معاملات میں سماجی حالات کی وجہ سے، ان کے پاس خاندان یا ذات کی طرف سے تفویض کردہ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔‘‘

کرشنا کہتے ہیں ، ’’اس ملک میں اگر موسیقی کے ساز بنانے والوں کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو تکنیکی خطوط پر کی جاتی ہے۔ انہیں تعمیراتی مقام پر کام کرنے والے ایک مستری [بڑھئی] کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ سازندے کو معمار (آرکٹیکٹ) کی طرح۔ ان کے کام کو اعتبار دینے سے انکار یا اس میں بخالت، ذات پات کے تعصب کی وجہ سے ہوتی ہے۔‘‘

کُپّوسامی کا کہنا ہے کہ مریدنگم سازی میں مردوں کا غلبہ ہے۔ ’’کچھ خواتین ہیں جو چمڑے کا کام کرتی ہیں۔ لیکن لکڑی کے کام پر مردوں کی اجارہ داری ہے۔ اس کے لیے جو لکڑی استعمال کی جاتی ہے وہ عام طور پر کٹہل کے ایسے درختوں کی ہوتی ہے جن پر پھل آنا بند ہو جاتا ہے۔ کُپّوسامی کا کہنا ہے کہ ’’وہ ان درختوں کو ’’منتخب‘‘ کرتے ہیں، جو پرانے اور غیر پیداواری ہو چکے ہوتے ہیں۔ ’’اور ہر دس کٹے ہوئے درختوں کے عوض وہ ۳۰ نئے پودے لگاتے ہیں۔‘‘

کُپّو سامی کے لیے لکڑی کی بہت سی تخصیصیں ہیں۔ وہ ایسے درختوں کو ترجیح دیتے ہیں جو لگ بھگ ۹ یا ۱۰  فٹ لمبے، چوڑے اور مضبوط ہوں اور باڑ کے قریب یا سڑک کے کنارے ہوں۔ مثالی طور پر وہ لکڑی کا نچلا حصہ لیتے ہیں، جس کا رنگ گہرا ہوتا ہے اور جو بہتر ارتعاش کو یقینی بناتا ہے۔

ایک دن میں وہ تقریباً چھ مریدنگم کو کاٹ کر شکل دے سکتے ہیں۔ لیکن ان کی تکمیل میں مزید دو دن صرف ہوتے ہیں۔ ان سے حاصل منافع بہت کم ہوتا ہے۔ ان کہنا ہے کہ اگر وہ ایک مریدنگم پر ۱۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں، تو انہیں خوشی ہوتی ہے۔ یہ منافع ’’مزدوروں کو ادا کیے جانے والے ۱۰۰۰ روپے کے اوپر سے ہوتا ہے۔ یہ محنت طلب کام ہے، اگر اتنی مزدوری نہ دی جائے تو وہ نہیں آئیں گے۔‘‘

لکڑی پورے سال دستیاب نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک درخت پھل دے رہا ہوتا ہے، اس وقت تک کوئی بھی اسے نہیں کاٹتا۔ لہذا ’’مجھے لکڑی کا اسٹاک رکھنا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ ۲۵ ہزار روپے فی لکڑی کے ٹکڑے کے حساب سے درخت کے ۲۰ ٹکڑے پانچ لاکھ روپے میں خریدتے ہیں۔ اور وہ یہیں حکومتی مداخلت کے خواہاں ہیں۔ ’’اگر وہ لکڑی خریدنے کے لیے ہمیں سبسڈی یا قرض دیتے ہیں… تو یہ ہمارے لیے اچھا ہوگا!‘‘

کُپّوسامی کا کہنا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی دونوں بازروں میں مریدنگم کی اچھی مانگ ہے۔ ’’میں ایک مہینے میں ۵۰ مریدنگم اور ۲۵ تَویلیں فروخت کرتا ہوں۔‘‘ لیکن مصیبت صحیح لکڑی حاصل کرنے اور اسے تقریباً چار ماہ تک پکانے میں ہوتی ہے۔ کُپّوسامی کہتے ہیں کہ چونکہ پنروتی کی کٹہل کی لکڑی ’’بہترین‘‘ ہوتی ہے، ’’اس لیے اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔‘‘ اور اس کے پکے سُر کا سہرا وہ اس خطے کی سرخ مٹی کے سر باندھتے ہیں۔

Left: Kuppusami Asari in the workshop.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: The different tools used to make the instruments
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: ورکشاپ میں کُپّوسامی آساری۔ دائیں: ساز بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف اوزار

لکڑی کے حصول کے لیے کُپّوسامی کو تقریباً پانچ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے۔ ’’تقریباً ۲۵ ہزار روپے کی لاگت والے ایک دس فٹ لمبے لٹھے سے آپ صرف تین اچھے مریدنگم کاٹ سکتے ہیں۔ اور ہر لاٹ ملا جلا ہوتا ہے۔ لکڑی کے کچھ حصوں کو موسیقی حاصل کرنے کے لیے نہیں کاٹا جاتا ہے۔ کُپّو سامی ان کا سب سے بہترین استعمال چھوٹی اڈوکئی (ہاتھ میں پکڑ کر بجایا جانے والا ضربی سازی) بنانے میں کر سکتے ہیں۔

ایک بہتر ’’کَٹّئی‘‘ کی قیمت ’’ایٹّو روبا‘‘ ہے، کُپّوسامی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ مریدنگم کے خول کے لیے ’کَٹّئی‘ (لکڑی یا لٹھا) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ’’ایٹّو روبا‘‘ (لغوی طور پر آٹھ روپے) کا مطلب ۸۰۰۰ روپے ہوتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ یہ ’’اونام نمبر‘‘ (اعلیٰ معیار کا) ہوتا ہے، اور گاہک اسے واپس نہیں کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں، ’’اگر لکڑی میں دراڑیں پڑ جائیں، یا اگر نادَم [سُر] اچھا نہ ہو، تو گاہک اسے ضرور واپس لائیں گے!‘‘

عام طور پر مریدنگم ۲۲ یا ۲۴ انچ لمبا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ساز کو عموماً مائیکروفون سامنے رکھ کر بجایا جاتا ہے۔ ’’ کُتو [تھیئٹر] کے لیے، جہاں اسے مائیک کے بغیر بجایا جاتا ہے، مریدنگم کی لمبائی ۲۸ انچ ہوتی ہے۔ اور ایک طرف کا منہ پتلا اور دوسری طرف کا چوڑا ہوتا ہے۔ اس کی ضربیں بہت دور تک سنی جا سکتی ہیں، کیونکہ آواز بہت اچھی طرح نکلتی ہے۔‘‘

کُپّوسامی چنئی میں میوزیکل کمپنیوں کو لکڑی کے خول فراہم کرتے ہیں۔ انہیں مہینے میں ۲۰ سے ۳۰ خولوں کے آرڈر ملتے ہیں۔ اس کے بعد اسے چمڑے کے کاریگروں کو دیتے ہیں جو مریدنگم کو آخری شکل دیتے ہیں۔ اس عمل سے قیمت میں مزید ۴۵۰۰ روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ’’پھر زپ والا ایک بیگ ہوتا ہے،‘‘ خیالی زپ سے خیالی مریدنگم باندھتے ہوئے کُپّو سامی بتاتے ہیں۔

ایک بہتر معیار کے مریدنگم کی قیمت تقریباً ۱۵۰۰۰ روپے ہوتی ہے۔ کُپّوسامی کو یاد ہے جب اس کی قیمت ۵۰ اور ۷۵ روپے ہوا کرتی تھی۔ ’’استادوں کو مریدنگم پہنچانے کی غرض سے میرے والد مجھے اپنے ہمراہ مئیلاپور، مدراس (اب چنئی) لے جاتے تھے۔ وہ ہمیں کرارے نقدی نوٹوں میں ادائیگی کرتے تھے! میں تب چھوٹا بچہ تھا،‘‘ وہ مسکراتے ہیں۔

کارئی کوڈی منی اور اُمیال پورم شیو رامن جیسے کرناٹِک موسیقی کی دنیا کے چند عظیم مریدنگم فنکاروں نے اپنے ساز کُپّوسامی سے حاصل کیے ہیں۔ ’’بہت سے وِدوان (اسکالر اساتذہ اور فنکار) یہاں آتے ہیں اور ساز خریدتے ہیں،‘‘ وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک مشہور اور روایتی دکان ہے…‘‘

Kuppusami’s workshop stacked with blades, saw, spanners, lumber and machinery
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Kuppusami’s workshop stacked with blades, saw, spanners, lumber and machinery
PHOTO • Aparna Karthikeyan

کُپّوسامی کی ورکشاپ میں قرینے سے رکھے بلیڈ، آری، اسپینر، لکڑی کے  ٹکڑے اور مشینری

کُپّو سامی ضربی ساز سے متعلق کئی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کی پرانی اور نئی کہانیوں میں زبردست تضاد ہے۔ ’’کیا آپ آنجہانی پالگھاٹ منی ایر کو جانتی ہیں؟ ان کے ساز اتنے وزنی تھے کہ انہیں اٹھانے کے لیے انہیں الگ سے ایک آدمی رکھنا پڑتا تھا!‘‘ وہ وزنی مریدنگم کو اس لیے ترجیح دیتے تھے، کیونکہ اس کی آواز ’’گَنیر، گَنیر‘‘ (بلند اور واضح) تھی۔ بہرحال، یہ ایسی چیز نہیں ہے جو موجودہ نسل کو بھی ہمیشہ پسند آئے، کُپّوسامی کہتے ہیں۔

’’جب وہ بیرونی ممالک کا سفر کرتے ہیں، تو ہلکے ساز لے جاتے ہیں۔ وہ اسے یہاں لاتے ہیں اور میں اس کا وزن ۱۲ کلو سے کم کر کے چھ کلو کر دیتا ہوں۔‘‘ یہ کیسے ممکن ہے، میں پوچھتی ہوں۔ ’’ہم اس کے پیٹ سے لکڑی کھرچ دیتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم ساز کو اس وقت تک تولتے رہتے ہیں جب تک کہ اس کا وزن چھ کلو نہیں ہو جاتا۔‘‘

آپ کہہ سکتے ہیں کہ مریدنگم کا پیٹ کاٹ لیا جاتا ہے…

لیکن وہ صرف مریدنگم ہی نہیں، بلکہ دوسرے ضربی ساز بھی دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجتے ہیں۔ ’’میں نے پچھلے ۲۰ سالوں سے ملائیشیا میں اُرومی مِیلم [دو سروں والے ڈرم] بھیجے ہیں۔ صرف کووڈ کے دوران یہ سلسلہ منقطع ہوا تھا…‘‘

کٹہل کی لکڑی مریدنگم، تَویل ، تَبیلا ، وینئی ، کنجیرا ، اُڈوکّئی ، اُڈومی ، پمبئی بنانے کے لیے مثالی لکڑی ہے… کُپّوسامی ناموں کی فہرست بتاتے ہیں۔ ’’میں تقریباً ۱۵ قسم کے ضربی ساز بنا سکتا ہوں۔‘‘

وہ دوسرے ساز بنانے والے کاریگروں سے بھی واقف ہیں، کچھ کے تو نام اور پتوں سے بھی۔ ’’اوہ، وینئی بنانے والے نارائنن سے آپ کی ملاقات ہے؟ وہ تنجاور کے ساؤتھ مین اسٹریٹ میں رہتے ہیں، ہے نا؟ وہ ہم سے واقف ہیں۔‘‘ کُپّوسامی کا کہنا ہے کہ وینئی بنانا ایک مشکل کام ہے۔ ’’ایک دفعہ میں نے وینئی بنتے دیکھا تھا۔ آساری لکڑی کو خمیدہ بنا رہے تھے۔ میں خاموشی سے بیٹھا دو گھنٹے تک انہیں دیکھتا رہا۔ انہوں نے لکڑی کاٹ کر اسے شکل دی، پھر ایک طرف رکھا اور جانچ کی اور کچھ اور لکڑیوں کو کاٹ کر انہیں بھی شکلیں دیں… یہ دیکھنا حیرت انگیز اور دلچسپ تھا…‘‘

*****

Left: Narayanan during my first visit to his workshop, in 2015, supervising the making of a veenai.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Craftsmen in Narayanan’s workshop
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: سال ۲۰۱۵ میں میرے پہلے دورے کے وقت نارائنن اپنی ورکشاپ میں وینئی بنائے جانے کی نگرانی کر رہے تھے۔ دائیں: نارائنن کی ورکشاپ میں کاریگر

میں تنجاور میں واقع ایم نارائنن کی ورکشاپ میں ۲۰۱۵ میں پہلی دفعہ وینئی بنانے والوں سے ملی تھا۔ اگست ۲۰۲۳ میں انہوں نے مجھے دوبارہ ملنے کی دعوت دی۔ ’’کیا آپ کو یہ گھر یاد ہے؟ یہ وہی گھر ہے جس کے باہر وہ درخت ہے،‘‘ انہوں نے کہا۔ یہ ایک عجیب نشان ہے، لیکن پُنگئی کا درخت (انڈین بیچ) شاید ساؤتھ مین اسٹریٹ پر واحد درخت ہے۔ سیمنٹ سے بنی وینئی پہلی منزل کے اگلے حصے کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے۔ ان کے گھر کے پیچھے ورکشاپ بالکل ویسی ہی ہے۔ سیمنٹ کے شیلف پر رکھے اوزار، دیوار پر آویزاں تصویریں اور کیلنڈر، اور فرش پر نامکمل وینئیاں مجھے یاد ہیں۔

جب وینئی شیو گنگئی پونگا سے آتی ہے، تو یہ لکڑی کا ایک مضبوط اور کسی حد تک چھوٹا ناتراشیدہ بلاک ہوتی ہے۔ ورکشاپ میں آنے کے بعد نئے اوزاروں سے نیا کام ہوتا ہے، اور نتیجتاً نئی چیز وجود میں آتی ہے۔ ۱۶ انچ لکڑی کے ٹکڑے سے باہر نکالے گئے پیٹ سے نارائنن کی ٹیم ایک پتلا پیالہ تیار کرتی ہے جس کی چوڑائی ۵ ء۱۴ انچ ہوتی ہے، اور جس کی دیوار آدھی انچ موٹی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دائرہ بنانے کے لیے وہ ایک کمپاس کا استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر اُلّی (چھینی) کی مدد سے بڑے احتیاط سے اضافی لکڑی ہٹاتے ہیں۔

ساز سے موسیقی حاصل کرنے کے لیے لکڑی کو وقفے وقفے سے تراش خراش سے گزرنا پڑتا ہے۔ وقفہ دینے سے لکڑی کو خشک ہونے اور موسم سے مطابقت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ باہر اور اندر سے تراش کر وزن کم کیا جاتا ہے۔ ۳۰ کلوگرام وزن کے ساتھ تنجاور آنے کے بعد شیو گنگئی پونگا میں اس کا وزن ۲۰ کلوگرام تک کر دیا جاتا ہے۔ وینئی پَٹّرئی میں مزید تراش خراش کے بعد اس کے وزن کو ۸ کلو گرام تک لایا جاتا ہے۔

ورکشاپ کے سامنے اپنے گھر میں بیٹھے نارائنن مجھے ایک وینئی دیتے ہیں۔ ’’یہاں سے پکڑیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس کی جسامت اچھی اور بناوٹ ہموار ہے۔ اس کے ہر حصے کو اچھی طرح سے چکنا کر کے پالش کیا گیا ہے۔ ’’یہ سب ہاتھ سے ہوتا ہے،‘‘ نارائنن فخریہ لہجے میں کہتے ہیں۔

’’وینئی صرف تنجاور میں بنتی ہے اور وہ یہاں سے پوری دنیا میں جاتی ہے۔ ہمارے پاس ایک جغرافیائی نشان [جی آئی] ہے جس کے لیے ایڈووکیٹ سنجے گاندھی نے درخواست دی تھی اور اسے حاصل کیا تھا،‘‘ نارائنن بتاتے ہیں۔

Left: Kudams (resonators) carved from jackfruit wood.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Craftsman Murugesan working on a veenai
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: کُڈم (تونبہ) کٹہل کی لکڑی سے تراشے گئے ہیں۔ دائیں: کاریگر مروگیسن وینئی پر کام کر رہے ہیں

وینئی کٹہل کی لکڑی سے بنائی جاتی ہے۔ ’’اس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ پلامرم کی لکڑی تمام موسمی حالات سے مطابقت حاصل کرلیتی ہے۔ تنجاور کا درجہ حرارت آج ۳۹ ڈگری [سینٹی گریڈ] ہے۔ اور جب آپ اسے یہاں بناتے ہیں اور امریکہ لے جاتے ہیں، جہاں کا درجہ حرارت صفر ڈگری ہو سکتا ہے، تب بھی یہ ٹھیک طریقے سے کام کرے گی۔ یہی نہیں، اگر آپ اسے مغربی ایشیا جیسے کسی گرم خطے میں بھی لے جائیں، تو بھی کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہ ہر جگہ اچھی طرح سے بجے گی۔ یہ ایک نادر خصوصیت ہے، اور اسی لیے ہم کٹہل کی لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘

’’اس کے لیے آپ آم کی لکڑی کا استعمال نہیں کرسکتے۔ گرمیوں میں آم کی لکڑی سے بنے دروازے کو آسانی سے بند کیا جا سکتا ہے، لیکن مانسون کے دوران آپ کو اسے سختی سے بند کرنا پڑے گا… مزید یہ کہ آپ اسے چاہے جتنا تراش لیں، آپ کو کٹہل کی لکڑی جیسی ’اچھی‘ شکل نہیں ملے گی۔ اس کے علاوہ، پلامرم میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں، نارائنن بتاتے ہیں، ہمارے سر کے بالوں سے بھی چھوٹے۔ ’’یہ لکڑی کو سانس لینے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘

کٹہل کے درخت بڑے پیمانے پر اگائے جاتے ہیں۔ ’’لیکن جہاں تک میری جانکاری ہے، کچھ علاقوں میں (پَٹّو کوٹّئی [تنجاور ضلع] اور گندھرو کوٹئی [پُدوکوٹئی ضلع] کے آس پاس) بہت سے درخت کاٹے گئے ہیں، لیکن ان کی جگہ نئے پودے نہیں لگائے گئے ہیں۔ باغات مالکان نے اپنی زمینیں ہاؤسنگ پلاٹوں کے طور پر بیچ کر رقم بینکوں میں جمع کرادی ہیں۔ نارائنن کہتے ہیں، ’’درختوں کے بغیر ذرا بھی سایہ نہیں ہوتا۔ موسیقی کو تو بھول جائیں۔ میری گلی کو ہی دیکھ لیجئے، یہاں صرف میرا درخت ہے… باقی سارے درخت کٹ چکے ہیں!‘‘

کٹہل کی نئی لکڑی پیلی ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ  سوکھ کر سرخی مائل ہو جاتی ہے۔ اور اس کا ارتعاش شاندار ہوتا ہے۔ نارائنن کا کہنا ہے کہ  اسی وجہ سے پرانی وینئی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ ’’اور اسی لیے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ انہیں کبھی بھی بازار میں نہیں دیکھتے، کیونکہ مالکان اپنے ساز کو بحال کرنے، مرمت کرنے اور اپنے ساتھ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عام طور پر فیملی کے اندر۔‘‘

Narayanan shows an elaborately worked veenai , with Ashtalakshmis carved on the resonator
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Narayanan shows an elaborately worked veenai , with Ashtalakshmis carved on the resonator
PHOTO • Aparna Karthikeyan

نارائنن ایک تفصیلی نقاشی شدہ وینئی دکھاتے ہیں، جس کے تونبے پر اشٹ لکشمی کی نقاشی کی گئی ہے

نارائنن جو وینئی بناتے ہیں، ان میں کچھ جدید چیزیں شامل کر دیتے ہیں۔ ’’گٹار کی اس چابی کو دیکھیں، ہم نے اسے لگا دیا ہے تاکہ تاروں کو ٹیون اور سخت کرنا آسان ہو۔‘‘ وہ موسیقی کی تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں کو لے کر بھی پر امید نہیں ہیں۔ وہ انہیں شارٹ کٹ تعلیم کہتے ہیں (جس میں اساتذہ طلباء کو پچ ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی نہیں سکھاتے)، اور وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک وینئی کو ٹیون کرتے ہیں۔ کٹہل کی لکڑی اور دھات کے تار خوبصورت آواز پیدا کرتے ہیں، یہ آواز ہماری گفتگو کے لیے پس منظر کی موسیقی کا کام  کرتی ہے۔

بہت سے کاریگروں کی طرح نارائنن بھی وہ ساز بجا سکتے ہیں جسے وہ تیار کرتے ہیں۔ ’’صرف ذرا ذرا سا،‘‘ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے تاروں کو چھیڑتے ہوئے اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو ڈانڈے کے اوپر اور نیچے کرتے ہوئے نرمی سے کہتے ہیں۔ ’’یہ سمجھنے کے لیے میری جانکاری کافی ہے کہ گاہک کیا چاہتا ہے۔‘‘

ان کی گود میں لکڑی کے ایک ٹکڑے سے بنی ایکانت وینئی ہے۔ وہ اسے بالکل ویسے ہی احتیاط سے پکڑے ہوئے ہیں، جیسے ایک ماں اپنے سوئے ہوئے بچے کو پکڑتی ہے۔ ’’ایک زمانے میں ہم سجاوٹ کے لیے ہرن کے سینگ کا استعمال کرتے تھے۔ اب یہ کام ممبئی سے منگوائی گئی پلاسٹک کے ہاتھی دانت سے کرتے ہیں…‘‘

اگر صرف ایک ہی شخص شروع سے آخر تک وینئی بنائے، تو اس میں ۲۵ دن لگیں گے۔ ’’اسی لیے ہم مختلف لوگوں کو مختلف کام دیتے ہیں اور اسے تیزی سے جوڑ دیتے ہیں، اور مہینے میں دو یا تین وینئی بنا لیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی قیمت ۲۵۰۰۰ سے ۷۵۰۰۰ روپے کے درمیان ہوسکتی ہے۔‘‘

Narayanan (left) showing the changes in the structures of the veena where he uses guitar keys to tighten the strings.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Narayanan (left) showing the changes in the structures of the veena where he uses guitar keys to tighten the strings. Plucking the strings (right)
PHOTO • Aparna Karthikeyan

نارائنن (بائیں) وینا کے ڈھانچے میں کی گئی تبدیلیوں کو دکھا رہے ہیں جہاں وہ تاروں کو سخت کرنے کے لیے گٹار کی چابیاں استعمال کرتے ہیں۔ تاروں کو بجاتے ہوئے (دائیں)

Narayanan with a veena made by him.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Right: Hariharan, who works with Narayanan, holds up a carved veenai
PHOTO • Aparna Karthikeyan

نارائنن اپنی بنائی ہوئی وینا کے ساتھ۔ دائیں: ہری ہرن، جو نارائنن کے ساتھ کام کرتے ہیں، ایک نقاشی کی ہوئی وینئی پکڑے ہوئے ہیں

دوسرے وینئی کاریگروں کی طرح، نارائنن بھی اپنی لکڑی پنروتی سے منگواتے ہیں۔ ’’یا تو ہم وہاں جاکر ایک ’لاٹ‘ خریدتے ہیں، یا تاجر انہیں یہاں لے کر آتے ہیں۔ چالیس یا پچاس سال پرانے بالغ درخت سے سب سے اچھی لکڑی حاصل ہوتی ہے۔ دس فٹ کے ایک لٹھے کے لیے تاجر ہم سے ۲۰ ہزار روپے وصول کر سکتے ہیں، جس سے ہم ایکانت وینئی بنا سکتے ہیں۔ سودے میں مول تول کی کچھ گنجائش بھی رہتی ہے۔ سودا طے کر لینے کے بعد ہم اس کے ٹکڑے کرتے ہیں اور پھر شیو گنگئی پونگا میں ایسوسی ایشن کے مقام پر اسے شکل دیتے ہیں۔‘‘ نارائنن کا کہنا ہے کہ لکڑی کا کاروبار، بہرحال، ایک خطرناک کاروبار ہے۔ ’’بعض اوقات اس میں چھوٹی چھوٹی دراڑیں پڑ سکتی ہیں جن کے ذریعہ پانی درخت میں داخل ہو کر درخت کو خراب کر سکتا ہے۔ جب تک ہم لکڑی کو کاٹ نہیں لیتے اس وقت تک ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا!‘‘

نارائنن کا اندازہ ہے کہ تنجاور میں ۱۰ کل وقتی وینئی کاریگر ہیں اور بہت سے لوگ جزوقتی طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ مجموعی طور پر ایک ماہ میں تقریباً ۳۰ وینئیاں بناتے ہیں۔ جب لکڑی کا لٹھا تنجاور پہنچتا ہے، تو اسے ایک ساز بننے میں تقریباً ۳۰ دنوں کا وقت لگتا ہے۔ ’’یقیناً اس کی مانگ اچھی ہے،‘‘ نارائنن کہتے ہیں۔

’’چِٹّی بابو اور شیو نندم جیسے بہت سے بڑے فنکار میرے والد سے وینئی خرید چکے ہیں۔ نوآموز فنکاروں کی نئی کھیپ کو بھی اس میں کافی دلچسپی ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے ساز چنئی کے ’میوزیکلز‘ سے خریدتے ہیں۔ کچھ براہ راست یہاں آتے ہیں اور کسی خاص ڈیزائن یا خصوصیت والے سازوں کی مانگ کرتے ہیں۔‘‘ اور نارائنن کو یہ بات پسند ہے۔

اگر ان کا کاروبار پروان چڑھے تو انہیں اچھا لگے گا۔ ’’میں یہ کام ۴۵ سال سے کر رہا ہوں۔ میرے دونوں بیٹے اس کام میں شامل ہونا نہیں چاہتے۔ وہ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس نوکریاں ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کیوں؟‘‘ وقفہ دلسوز ہو جاتا ہے۔ ’’یہ معمار،‘‘ وہ اپنے گھر میں کام کرنے والے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ’’روزانہ ۱۲۰۰ روپے کماتا ہے۔ اور میں اس کے لیے دن میں دو بار دو وڑئی اور چائے خریدتا ہوں۔ لیکن ہماری اتنی محنت کے بعد بھی ہمیں آدھے پیسے ہی ملتے ہیں۔ کوئی آرام نہیں ہے، کام کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔ بے شک یہ ایک اچھا کاروبار ہے، لیکن اس میں صرف دلال ہی پیسہ کماتے نظر آتے ہیں۔ میری ورکشاپ ۱۰ فٹ بائی ۱۰ فٹ کی ہے۔ آپ نے اسے دیکھا ہے نا؟ یہاں سب کچھ ہاتھ سے کیا جاتا ہے۔ اور پھر بھی ہمیں کمرشل نرخ پر بجلی ملتی ہے۔ ہم نے حکام کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ ایک کاٹیج انڈسٹری ہے، لیکن ہم اپنی نمائندگی کرنے اور اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں…‘‘

نارائنن لمبی سانس بھرتے ہیں۔ ان کے گھر کے پیچھے ورکشاپ میں، ایک بوڑھا کاریگر کُڈم کو ریت سے چمکا رہا ہے۔ رکھانی، ڈیرلر اور بلیڈ کی مدد سے وہ کٹہل کی لکڑی میں آہستہ آہستہ موسیقی بھر رہا ہے…

اس تحقیقی مطالعہ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی نے اپنے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے ایک حصے کے طور پر فنڈ کیا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought' and 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam