گنگو بائی چوہان کو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے گڑگڑانا پڑتا ہے۔ ’’سرکار! چوکیدار صاحب! پینے کے لیے تھوڑا سا پانی دے دیجئے۔ ہم یہیں رہتے ہیں، حضور۔‘‘

لیکن، صرف گڑگڑانے سے کام نہیں چلتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی دلانا پڑتا ہے کہ ’’میں آپ کے کسی بھی برتن کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی۔‘‘

گنگو بائی (بدلا ہوا نام) کو پانی کے لیے پرائیویٹ نلوں، چائے کی دکانوں، اور بارات گھروں پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ وہ ناندیڑ شہر کے گوکل نگر علاقے میں فٹ پاتھ پر رہتی ہیں۔ پانی حاصل کرنے کے لیے، انہیں اپنے ’گھر‘ کے دوسری طرف بنے ہوٹل اور اس جیسی دیگر عمارتوں کے چوکیداروں کی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ اور یہ کام انہیں روزانہ کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ پانی تو روز چاہیے۔

ان کا تعلق پھانسے پاردھی قبیلہ سے ہے، جسے انگریزوں کی نو آبادیاتی حکومت کے دوران ’مجرم قبائل‘ کی فہرست میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اسی لیے، وہ جب بھی پانی کی تلاش میں نکلتی ہیں انہیں لوگوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ حالانکہ، ہندوستانی حکومت نے ۱۹۵۲ میں انگریزوں کے اس سیاہ قانون کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن ۷۰ سال گزر جانے کے بعد گنگو بائی جیسے لوگوں کو آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی لڑنی پڑ رہی۔ وہ جب دوسرے لوگوں کو یہ سمجھانے میں کامیاب رہتی ہیں کہ وہ چور نہیں ہیں، تب کہیں جا کر انہیں ایک ڈبہ پانی مل پاتا ہے۔

گنگو بائی بتاتی ہیں، ’’جب ہم ان سے کہتے ہیں کہ ’ہم نے یہاں رکھی آپ کی کسی بھی چیز کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا ہے‘ تب جا کر وہ ہمیں تھوڑا سا پانی دے دیتے ہیں۔‘‘ اجازت ملنے کے بعد، جہاں تک ممکن ہو سکے وہ چھوٹے کنٹینر، پلاسٹک کے ڈبوں اور پانی کی بوتلوں کو بھرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر کسی ہوٹل میں انہیں پانی بھرنے سے منع کر دیا جاتا ہے، تو وہ ہوٹل مالک کی بدسلوکی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسرے ہوٹل کا رخ کرتی ہیں؛ اکثر انہیں چار پانچ جگہوں کے چکّر لگانے پڑتے ہیں تب جا کر کسی کو ان کے اوپر رحم آتا ہے اور وہ پینے، کھانا پکانے اور دیگر گھریلو ضروریات کے لیے پانی حاصل کر پاتی ہیں۔

A settlement of the Phanse Pardhi groups on the municipal grounds of Gokulnagar in Nanded. Migrants and transhumants live here on footpaths
PHOTO • Prakash Ransingh
A settlement of the Phanse Pardhi groups on the municipal grounds of Gokulnagar in Nanded. Migrants and transhumants live here on footpaths
PHOTO • Prakash Ransingh

ناندیڑ میں گوکل نگر کے میونسپل میدان میں پھانسے پاردھی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بستی۔ مہاجر مزدور اور خانہ بدوش لوگ یہاں فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں

Left: Children taking a bath near the road settlements. Right: An enclosure created for men to bath
PHOTO • Prakash Ransingh
Left: Children taking a bath near the road settlements. Right: An enclosure created for men to bath
PHOTO • Prakash Ransingh

بائیں: فٹ پاتھ پر بنی جھگیوں کے قریب غسل کرتے بچے۔ دائیں: مردوں کے غسل کے لیے پردے سے گھیر کر بنائی گئی ایک جگہ

گنگو بائی جیسے مہاجر مزدور مہاراشٹر کے گاؤوں اور دوسرے ضلعوں سے ناندیڑ آتے ہیں۔ ’’ہم یہاں (ناندیڑ) آٹھ مہینوں کے لیے آتے ہیں، اور مانسون شروع ہوتے ہی اپنے گاؤں لوٹ جاتے ہیں،‘‘ گنگو بائی کہتی ہیں۔ شہر میں یہ لوگ کھلے میدانوں، فٹ پاتھوں، پانی کی اونچی ٹنکیوں کے نیچے، کوڑے دانوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر عارضی جھگیاں بنا کر رہتے ہیں۔ یہاں قیام کے دوران وہ کوئی نہ کوئی کام تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ضرورت پڑنے پر کہیں اور چلے جاتے ہیں۔

مہاجر مزدوروں اور حاشیہ برداروں کے لیے ناندیڑ شہر میں پانی کا کوئی مستقل انتظام نہیں ہے۔ پانی حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران بچوں، عورتوں اور خاص کر جوان لڑکیوں کو بے عزتی اور تشدد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

کام کی تلاش میں زیادہ تر لوگ گوکل نگر، دیگلور ناکہ، وجیگاؤں، سڈکو روڈ اور حضور صاحب ریلوے اسٹیشن کے قریب آ کر رکتے ہیں۔ اگر انہیں یہاں کام نہیں ملا، تو وہ کسی دوسرے شہر کا رخ کرتے ہیں یا پھر اپنے آبائی گاؤں واپس لوٹ جاتے ہیں۔

یہاں کے مہاجر مزدوروں میں پھانسے پاردھی، گھساڑی اور وڈار برادریوں کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کے لکھنؤ اور کرناٹک کے بیدر سے آنے والے مزدور بھی شامل ہیں؛ اس کے علاوہ تلنگانہ کے مسلمان، چمار اور جوگی بھی یہاں آتے ہیں۔ وہ اپنے روایتی، ذات پر مبنی پیشہ کو جاری کھتے ہوئے کوئی نیا کام بھی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہاتھ سے بنے لوہے کے سامان، قلم، غبارے، چٹائی، شیشے کے برتن اور کھلونے بھی بیچتے ہیں، اور بعض دفعہ ٹریفک سگنلوں پر بھیک مانگتے ہیں یا عمارتوں کی تعمیر کے مقامات پر مزدوری کرتے ہیں۔ یعنی زندہ رہنے کے لیے جو بھی کام مل جائے، وہ سب کرتے ہیں۔

سڈکو ایم آئی ڈی سی روڈ کے قریب رہنے والی گھساڑی فیملی کی کاجل چوہان بتاتی ہیں کہ انہیں پانی کے لیے ہمیشہ بھٹکنا پڑتا ہے۔ ’’کبھی کبھی ہم لوگ سڑک سے گزر رہے پانی کے ٹینکروں سے پانی مانگ لیتے ہیں۔ بدلے میں، ہمیں ان کے لیے کام کرنا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اور ایسا کرنے والی وہ اکیلی نہیں ہیں۔ میونسپل میدان میں رہنے والے لوگ بھی بتاتے ہیں کہ پانی کے بدلے انہیں پرائیویٹ نلوں کے مالکوں کے یہاں کام کرنا پڑتا ہے۔

نل سے پانی نہیں ملنے پر انہیں کوئی دوسرا متبادل تلاش کرنا پڑتا ہے۔ گوکل نگر کے فٹ پاتھ پر، میونسپل کارپوریشن کی پانی کی پائپ لائن میں ایک چیمبر ہے۔ اُس چیمبر سے لیک ہونے والا پانی اس کے نیچے بنے ایک گڑھے میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ ’’چیمبر میں [پائپ لائن سے] پانی کی سپلائی ہفتے میں دو بار ہوتی ہے۔ جس دن چیمبر میں پانی آتا ہے، وہ ہمارے لیے جشن کا دن بن جاتا ہے،‘‘ گوکل نگر میں گنّے کا جوس بیچنے والے ایک مقامی شخص کا کہنا ہے۔

A collection of containers lined up to collect water. Their temporary homes on the side of a road  (right)
PHOTO • Prakash Ransingh
A collection of containers lined up to collect water. Their temporary homes on the side of a road  (right).
PHOTO • Prakash Ransingh

پانی بھرنے کے لیے قطار میں رکھے گئے ڈبے۔ سڑک کے کنارے مزدوروں کی جھگی (دائیں)

A Ghisadi family (right) makes iron tools using different alloys (left)
PHOTO • Prakash Ransingh
A Ghisadi family (right) makes iron tools using different alloys (left)
PHOTO • Prakash Ransingh

ایک گھساڑی فیملی (دائیں) مختلف قسم کی مرکب دھاتوں سے لوہے کے سامان بناتی ہے (بائیں)

چھوٹے چھوٹے بچے گڑھے میں جا کر آسانی سے پانی نکال لیتے ہیں۔ گرد و غبار اور آس پاس کے ہوٹلوں سے بہہ کر آنے والا گندا پانی گڑھے کے اس پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔ لیکن ضرورت مند کنبوں کو غسل کرنے اور کپڑا دھونے کے لیے مجبوراً یہی پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس فٹ پاتھ پر رہنے والے کم از کم ۵۰ کنبے اسی چیمبر کے پانی پر منحصر ہیں؛ ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، جن کی گنتی کرنا مشکل ہے۔

سال ۲۰۲۱ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ناندیڑ شہر میں ۱۲۰ لیٹر پانی فی کس کے حساب سے روزانہ ۸۰ ایم ایل ڈی (لاکھوں لیٹر یومیہ) پانی کی سپلائی ہوتی ہے۔ لیکن، یہ پانی سڑک پر رہنے والے لوگوں کو میسر نہیں ہے۔

*****

خان فیملی بھی انھیں میں سے ایک ہے، جو دیگلور ناکہ پر پانی کی اونچی ٹنکی کے نیچے رہتی ہے۔ یہ لوگ بیڈ ضلع کے پرلی سے یہاں آئے ہیں اور سال میں دو چار بار ناندیڑ آتے رہتے ہیں، خاص کر رمضان کے دنوں میں جب وہ یہاں ۱۵ دن قیام کرتے ہیں۔

سیمنٹ سے بنی پانی کی اونچی ٹنکی انہیں رہنے کا ٹھکانہ فراہم کرتی ہے اور آس پاس کے ہوٹلوں سے پانی مل جاتا ہے۔ پینے کا پانی انہیں دور کے ایک سرکاری کلینک سے لانا پڑتا ہے۔ کلینک بند ہونے پر فلٹر کا وہ پانی بھی نہیں مل پاتا ہے۔ جاوید خان (۴۵ سالہ) کہتے ہیں، ’’ہمیں تو بورویل کا ہو یا نل کا، جیسا بھی پانی مل جائے پینا پڑتا ہے۔ ہم تو پانی کی اس اونچی ٹنکی کے والو سے ٹپکنے والا پانی بھی پی لیتے ہیں۔‘‘

مہاجر مزدوروں کو پانی کے لیے بھلے ہی بھٹکنا پڑتا ہو، لیکن پرائیویٹ پانی کے فلٹر آپ کو یہاں ہر جگہ مل جائیں گے – جہاں سے آپ ۱۰ روپے میں ۵ لیٹر پانی خرید سکتے ہیں۔ ٹھنڈا پانی دس روپے میں ملتا ہے، اور سادہ پانی پانچ روپے میں۔

سولاپور ضلع کی ۳۲ سالہ مہاجر مزدور نینا کالے، ممبئی – ناسک – پونے کا سفر کرنے کے بعد پونے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم پانچ لیٹر پانی کی بوتل ۱۰ روپے میں خریدتے ہیں اور اسی سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

Left: Some migrants get access to filtered tap water from a clinic.
PHOTO • Prakash Ransingh
Right: A water pot near Deglur Naka
PHOTO • Prakash Ransingh

بائیں: کچھ مہاجر مزدوروں کو کلینک میں لگے فلٹر والے نل سے پانی مل جاتا ہے۔ دائیں: دیگلور ناکہ کے قریب رکھا پانی کا گھڑا

ان لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ روزانہ پانی خرید سکیں۔ اسی لیے، یہ لوگ آر او (ریوَرس اوسموسِس) فلٹریشن کے دوران فلٹر سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کو خرید کر پیتے ہیں۔ حالانکہ یہ پانی انسانوں کے پینے لائق نہیں ہوتا ہے، پھر بھی یہ لوگ مجبوری میں اسے پیتے ہیں اور اپنی دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں۔

ناندیڑ اسٹیشن کے قریب رہنے والی خاتون پٹیل (۳۰ سالہ) کہتی ہیں، ’’اگر ہم ہوٹلوں سے پانی مانگنے جاتے ہیں، تو وہ ہم سے پیسے مانگتے ہیں یا پھر ہوٹل کے منیجر یہ کہتے ہوئے صاف منع کر دیتے ہیں کہ گاہکوں کے لیے تو پانی ہے نہیں، تمہیں کہاں سے دیں؟‘‘

گوکل نگر کے چوکیدار کا کہنا ہے، ’’ہمارے پاس پانی ہوتا ہے، لیکن ہم ان لوگوں کو نہیں دیتے ہیں۔ ہم انہیں یہ کہہ کر بھگا دیتے ہیں کہ پانی ختم ہو گیا۔‘‘

ایک بارات گھر کے مالک (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) کا کہنا ہے، ’’ہم نے ان [جھگیوں میں رہنے والے لوگوں] کو بولا ہے کہ وہ دو ڈبّہ پانی بھر سکتے ہیں، لیکن یہ لوگ مزید پانی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں پانی کا میٹر لگا ہوا ہے، اس لیے ہم انہیں اس سے زیادہ پانی نہیں دے سکتے۔‘‘

*****

پانی لانے کا کام اکثر خواتین اور لڑکیوں کے ذمہ ہوتا ہے، اسی لیے ٹھکرائے جانے کا سامنا بھی انہیں ہی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پریشانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ فٹ پاتھ پر لوگ ہمیشہ آتے جاتے رہتے ہیں اور وہاں پر عوامی غسل خانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ’’ہمیں کپڑے پہن کر نہانا پڑتا ہے۔ ہم غسل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا سکتے کیوں کہ آس پاس کافی مرد موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں بہت شرم آتی ہے، لوگ لگاتار دیکھتے رہتے ہیں۔ ہم تیزی سے نہاتے ہیں، اور اپنے کپڑے بدل کر اسے دھو دیتے ہیں،‘‘ سمیرا جوگی (۳۵ سالہ) بتاتی ہیں۔ وہ لکھنؤ سے آئی ہیں اور جوگی برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جسے اتر پردیش میں او بی سی کا درجہ حاصل ہے۔

دیگلور ناکہ پر رہنے والی پاردھی کنبے کی عورتیں بتاتی ہیں کہ وہ اندھیرا ہونے پر غسل کرتی ہیں۔ غسل کرنے کے لیے یہ عورتیں وہاں کھڑے ٹرکوں کے پیچھے ایک خالی جگہ کو ساڑی سے گھیر کر پردہ کر لیتی ہیں۔

سڈکو روڈ پر بنی جھگی میں رہنے والی کاجل چوہان ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہم سڑک کے کنارے رہتے ہیں۔ وہاں سے گزرنے والے لوگ ہمیں دیکھتے رہتے ہیں۔ اسی لیے، ہم نے غسل کرنے کے لیے یہ چھوٹی سی جگہ بنائی ہے۔ میرے پاس ایک جوان لڑکی ہے، اسی لیے مجھے زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔‘‘

Left: The board at the public toilet with rate card for toilet use.
PHOTO • Prakash Ransingh
Right: Clothes create a private space for women to bathe
PHOTO • Prakash Ransingh

بائیں: پبلک ٹوائلیٹ پر لگا ایک بورڈ جس پر بیت الخلاء کو استعمال کرنے کا دام لکھا ہوا ہے۔ دائیں: عورتوں کے غسل کے لیے کپڑے سے گھیر کر بنائی گئی پردے والی جگہ

گوکل نگر میں رہنے والی نینا کالے صبح کو جلدی نہا لیتی ہیں کیوں کہ انہیں ہمیشہ یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی انہیں دیکھ لے گا۔ دیگلور ناکہ پر رہنے والی عرفانہ شیخ (۴۰ سالہ) کہتی ہیں، ’’یہاں پر نہ تو پانی ہے اور نہ ہی باتھ روم کا کوئی مناسب انتظام، اس لیے میں ہفتے میں صرف دو بار نہاتی ہوں۔‘‘

گنگو بائی کہتی ہیں، ’’عوامی غسل خانہ میں نہانے پر ہمیں ہر بار ۲۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔ ہم جیسے روز کمانے روز کھانے والے لوگ اتنا پیسہ کہاں سے لائیں گے؟‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’ہماری جیب میں جس دن اتنا پیسہ نہیں ہوتا ہے، اُس دن ہم غسل نہیں کرتے ہیں۔‘‘ ریلوے اسٹیشن کے قریب رہنے والی خاتون پٹیل کہتی ہیں، ’’جب ہمارے پاس پیسہ نہیں ہوتا ہے، تو ہم ندی میں جا کر غسل کرتے ہیں۔ وہاں پر بہت سارے مرد ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے لیے وہاں غسل کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

جب گوکل نگر کے مذکورہ چیمبر میں پانی آتا ہے، تو چھوٹی عمر کے بچے غسل کرنے کے لیے وہاں بڑی تعداد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں کو فٹ پاتھ پر کپڑا پہنے غسل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب کہ عورتیں نہاتے وقت اپنے بدن پر ساڑی لپیٹ لیتی ہیں۔ شاید پتلے پردے میں نہانے کی بجائے اُنہیں کپڑا پہن کر غسل کرنا زیادہ محفوظ لگتا ہے۔

حیض کے دوران عورتوں کی پریشانیاں کئی گُنا بڑھ جاتی ہیں۔ عرفانہ کہتی ہیں، ’’جب مجھے حیض آتا ہے، تو میں بیت الخلاء استعمال کرنے کے بہانے اس میں داخل ہو جاتی ہوں اور پھر اپنے پیڈ تبدیل کرتی ہیں۔ ساتویں دن، ہمارے لیے غسل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ تب میں پبلک باتھ روم استعمال کرنے اور نہانے کے لیے ۲۰ روپے ادا کرتی ہوں۔‘‘

گنگو بائی کہتی ہیں، ’’یہ بھیا لوگ (دوسری ریاستوں کے لوگ) ہمارے اوپر چیختے رہتے ہیں کہ ’اپنے لوگوں سے کہہ دو کہ وہ یہاں کے بیت الخلاء میں نہ آئیں۔‘ ہمارے لوگ پاٹ/کموڈ (بیت الخلاء کی سیٹ) کا استعمال کرنا نہیں جانتے، جس کی وجہ سے وہ کبھی کبھی اسے گندا کر دیتے ہیں۔ اسی لیے وہ لوگ ہمیں یہاں آنے سے منع کرتے ہیں۔‘‘

Left: Requesting water from security guards of buildings doesn't always end well.
PHOTO • Prakash Ransingh

بائیں: عمارتوں کے سیکورٹی گارڈوں سے پانی مانگنے کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا ہے۔ دائیں: پرائیویٹ فلٹر سے پانی بھرتا ایک مہاجر مزدور

عوامی بیت الخلاء کا ایک بار استعمال کرنے پر ۱۰ روپے دینے پڑتے ہیں، اس لیے کسی بڑی فیملی کے تمام ارکان کے لیے اتنے پیسوں کا انتظام کرنا ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں، انہیں رفع حاجت کے لیے کھلے میدان میں جانا پڑتا ہے۔ ’’عوامی بیت الخلاء رات میں ۱۰ بجے کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ تب ہمیں کھلے میں رفع حاجت کے لیے جانا پڑتا ہے، ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘ میونسپل میدان کی جھگی میں رہنے والے رمیش پاتوڈے (۵۰ سالہ) کہتے ہیں۔

’’ہم کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ رات کے وقت اس کی ضرورت پیش آنے پر ہمیں ڈر لگتا ہے، اس لیے ہم دو تین لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں،‘‘ گوکل نگر کے میونسپل میدان کے قریب فٹ پاتھ پر رہنے والی نینا کالے کہتی ہیں۔ ’’ہم جب کھلے میدان میں جاتے ہیں، تو مرد آواز لگاتے ہیں اور ہمیں چھیڑتے ہیں۔ بعض دفعہ وہ ہمارا پیچھا بھی کرتے ہیں۔ ہم نے سینکڑوں بار پولیس سے اس کی شکایت کی ہے۔‘‘

اس سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ’’سڑکوں کے کنارے کسی کونے میں جایا جائے،‘‘ سڈکو روڈ علاقے میں رہنے والی کاجل چوہان کہتی ہیں۔

سال ۱۲-۲۰۱۱ میں، ناندیڑ میں مکمل صفائی مہم کے تحت سٹی سینی ٹیشن پلان تیار کیا گیا تھا۔ اُس وقت، شہر کی تقریباً ۲۰ فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرتی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، سال ۱۵-۲۰۱۴ میں ناندیڑ شہر میں ۲۳ عوامی بیت الخلاء تھے، جن میں صرف ۲۱۴ سیٹیں تھیں، جب کہ ۴۱ ہزار سے زیادہ سیٹوں کی کمی تھی۔ اُس وقت کے میونسپل کمشنر نِیپُن ونائک نے کمیونٹی کی قیادت والے مکمل صفائی پروگرام کے تحت بہتر صفائی، گندے پانی اور کچرے کے بندوبست کے لیے عوامی حصہ داری کا ایک پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ سال ۲۰۲۱ میں واگھالا میونسپل کارپوریشن کو او ڈی ایف+ اور او ڈی ایف++ (کھلے میں رفع حاجت سے پاک) سرٹیفکیٹ ملا تھا۔

لیکن، شہر کے حاشیہ برداروں کے لیے پینے کا پانی، صاف صفائی اور محفوظ ماحول آج بھی ایک دور کی کوڑی ہے جیسا کہ جاوید خان کہتے ہیں، ’’صاف اور پینے لائق پانی مل ہی جائے گا، اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔‘‘

نامہ نگار کی طرف سے ایس او پی پی ای سی او ایم، پونے کی سیما کلکرنی، پلّوی ہرشے، انیتا گوڈبولے اور ڈاکٹر بوس کا بہت بہت شکریہ۔ ان کی تحقیق انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز (آئی ڈی ایس) کے اشتراک سے کیے گئے مطالعہ بعنوان ’ٹوارڈس براؤن گولڈ ری-امیجننگ آف-گرڈ سینی ٹیشن اِن ریپڈلی اربنائزنگ ایریاز اِن ایشیا اینڈ افریقہ‘ پر مبنی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Prakash Ransingh

Prakash Ransingh is a research associate at the Society for Promoting Participative Ecosystem Management (SOPPECOM), Pune.

Other stories by Prakash Ransingh
Editor : Medha Kale

Medha Kale is based in Pune and has worked in the field of women and health. She is the Translations Editor, Marathi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Medha Kale
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique