آج ۲۸ فروری، ۲۰۲۳ ہے اور شام کے ۶ بج چکے ہیں۔ خوبصورت نظر آ رہے کھول ڈوڈا گاؤں میں سورج جیسے ہی غروب ہوتا ہے، ۳۵ سال کے رام چندر دوڑکے لمبی رات کے لیے تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ وہ دور تک روشنی دینے والی، ہائی پاور والی ’کمانڈر‘ ٹارچ کو چیک کرتے ہیں اور اپنا بستر باندھتے ہیں۔

ان کے اس چھوٹے سے گھر میں، ان کی بیوی جے شری رات کا کھانا بنا رہی ہیں – جس میں دال اور شوربے والی سبزی شامل ہے۔ بغل والے گھر میں، ان کے ۷۰ سال کے چچا داداجی دوڑکے بھی رات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان کی بیوی شکو بائی خوشبودار چاول پکا رہی ہیں، جسے دونوں میاں بیوی اپنے کھیت پر ہی اُگاتے ہیں – اور چپاتی (روٹیاں) بھی بنا رہی ہیں۔

رام چندر کہتے ہیں، ’’ہماری تیاری تقریباً پوری ہو چکی ہے۔ کھانا تیار ہوتے ہی ہم لوگ یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔‘‘ جے شری اور شکو بائی ہمارے لیے رات کا کھانا پیک کرنے جا رہی ہیں، وہ مزید بتاتے ہیں۔

ریاست کے درج فہرست قبائل میں شامل مانا برادری سے تعلق رکھنے والے داداجی اور رام چندر آج ہمارے میزبان ہیں۔ داداجی ایک کیرتنکار (بابا صاحب امبیڈکر کے پیروکار) ہیں، اور خود ایک کسان ہیں؛ جب کہ رام چندر اپنی فیملی کی پانچ ایکڑ زمین کی دیکھ بھال کرتے ہیں کیوں کہ ان کے والد بھیکاجی – داداجی کے بڑے بھائی – سخت بیمار رہنے کی وجہ سے اب کھیتی باڑی کا کام نہیں سنبھال سکتے۔ بھیکاجی کسی زمانے میں گاؤں کے ’پولیس پاٹل‘ ہوا کرتے تھے، یہ وہ کلیدی عہدہ ہے جو گاؤں اور پولیس کے درمیان رابطہ کا کام کرتا ہے۔

ہم لوگ رام چندر کے کھیت کی طرف جانے کی تیاری کر رہے ہیں، جو کہ ناگپور ضلع کی بھیوا پور تحصیل میں واقع ان کے اس گاؤں سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ یہ لوگ کھیت میں کھڑی فصل کو جنگلی جانوروں سے بچانے کے لیے رات میں جاگ کر پہریداری کرتے ہیں، جسے ’جگلی‘ کہا جاتا ہے۔ ہم سات لوگوں کے اس گروپ میں رام چندر کا بڑا بیٹا آشوتوش بھی ہے، جو ابھی نو سال کا ہے۔

Left to right: Dadaji, Jayashree, Ramchandra, his aunt Shashikala and mother Anjanabai outside their home in Kholdoda village
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں سے دائیں: کھول ڈوڈا میں اپنے گھر کے باہر داداجی، جے شری، رام چندر، ان کی پھوپھی ششی کلا اور ماں انجنا بائی

شہری لوگوں کے لیے یہ بھلے ہی ایک ایڈونچر ہو، لیکن ہمارے میزبانوں کے لیے تقریباً پورے سال کا معمول ہے۔ ان کی ربیع کی فصل – مرچ، تور، گندم اور کالا چنا – تیار ہونے والی ہے، جس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔

داداجی کا کھیت دوسری طرف ہے، لیکن ہم لوگ رام چندر کے کھیت پر ہی رات گزاریں گے؛ وہیں شاید الاؤ کے پاس بیٹھ کر ہم لوگ رات کا کھانا بھی کھائیں گے۔ سردیاں ختم ہو رہی ہیں، اس لیے آج رات کا درجہ حرارت تقریباً ۱۴ ڈگری سیلسیس رہنے والا ہے۔ رام چندر بتاتے ہیں کہ دسمبر ۲۰۲۲ اور جنوری ۲۰۲۳ میں کافی ٹھنڈ پڑی تھی، جب رات کا درجہ حرارت ۷-۶ ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا تھا۔

پہریداری کرنے کے لیے، فیملی کے کم از کم ایک رکن کو رات میں کھیت پر رہنا پڑتا ہے۔ چوبیسوں گھنٹے اسی طرح رکھوالی کرنے، اور رات کی سردی کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے گاؤں کے کئی لوگ بری طرح بیمار پڑ چکے ہیں۔ اپنی پریشانیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے رام چندر کہتے ہیں کہ نیند کی کمی، تناؤ اور ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے بخار اور سر میں درد ہونے لگتا ہے۔

ہم لوگ جیسے ہی وہاں سے روانہ ہوتے ہیں، داداجی اپنی بیوی کو سرویکل بیلٹ لانے کے لیے کہتے ہیں۔ ’’ڈاکٹر نے مجھے اس بیلٹ کو ہمیشہ اپنی گردن میں پہننے کے لیے کہا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

میں نے ان پوچھا کہ گردن میں سپورٹ کے لیے انہیں سرویکل بیلٹ پہننے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

وہ جواب دیتے ہیں، ’’ہمارے پاس ابھی پوری رات ہے اس پر بات کرنے کے لیے؛ تھوڑا انتظار کرو۔‘‘

یہ سن کر، رام چندر چُٹکی لیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’جناب کچھ مہینے پہلے اپنے کھیت پر بنے ۸ فٹ اونچے مچان سے گر گئے تھے۔ یہ قسمت والے ہیں، ورنہ آج ہمارے ساتھ نہیں ہوتے۔‘‘

Dadaji Dodake, 70, wears a cervical support after he fell from the perch of his farm while keeping a night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar

داداجی دوڑکے (۷۰ سالہ) رات میں پہریداری کرتے وقت اپنے کھیت پر بنے مچان سے گرنے کے بعد گردن میں سپورٹ کے لیے سرویکل بیلٹ پہنتے ہیں

*****

کھول ڈوڈا، ناگپور سے تقریباً ۱۲۰ کلومیٹر دور، بھیوا پور تحصیل کی آلیسور گرام پنچایت کا حصہ ہے۔ چندر ضلع کی چیمور تحصیل کا جنگل – یعنی تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو (ٹی اے ٹی آر) کا شمال مغربی حصہ – اس کی سرحد پر واقع ہے۔

مہاراشٹر کے مشرقی خطہ، ودربھ کے جنگل کے سینکڑوں گاؤوں کی طرح کھول ڈوڈا میں بھی جنگلی جانوروں کی کافی دہشت ہے۔ گاؤوں والوں کو اکثر اپنی فصل اور مویشی گنوانے پڑتے ہیں۔ زیادہ تر کھیتوں میں باڑ لگی ہے، مگر رات کی پہریداری ان کی زندگی کا معمول بن چکا ہے۔

دن بھر لوگ کھیت میں روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، فصلوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی، خاص کر فصل کی کٹائی کے سیزن میں، ہر گھر سے لوگ جنگلی جانوروں سے اپنی کھڑی فصلیں بچانے کے لیے کھیت میں پہنچ جاتے ہیں۔ اگست سے مارچ تک، جب کھیتی باڑی ہوتی ہے اور دوسرے وقت میں بھی یہی چلتا ہے۔

دن میں جب میں کھول ڈوڈا پہنچا، تو عجیب طرح کا سناٹا تھا۔ کسی بھی کھیت میں کوئی نہیں تھا۔ ہر کھیت نائیلان کی ساڑیوں سے گھرا تھا۔ شام ۴ بجے کا وقت تھا اور ادھر ادھر کچھ کتوں کو چھوڑ کر گاؤں کی گلیاں بھی خالی اور سنسان دکھائی پڑ رہی تھیں۔

داداجی کے گھر پہنچتے ہی جب میں نے پوچھا کہ گاؤں میں سناٹا کیوں ہے، تو انہوں نے بتایا، ’’دوپہر دو سے ساڑھے چار بجے تک سبھی سو جاتے ہیں، کیوں کہ اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا کہ ہم رات کو سو پائیں گے یا نہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’وہ (کسان) دن بھر کھیتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ ۲۴ گھنٹے کی ڈیوٹی کی طرح ہے۔‘‘

Monkeys frequent the forest patch that connects Kholdoda village, which is a part of Alesur gram panchayat
PHOTO • Jaideep Hardikar
Monkeys frequent the forest patch that connects Kholdoda village, which is a part of Alesur gram panchayat
PHOTO • Jaideep Hardikar

کھول ڈوڈا گاؤں کے پاس واقع اس جنگل میں بندروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جو آلیسور گرام پنچایت کا حصہ ہے

Left : Villagers in Kholdoda get ready for a vigil at the fall of dusk.
PHOTO • Jaideep Hardikar
Right: A farmer walks to his farm as night falls, ready to stay on guard
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: کھول ڈوڈا کے لوگ شام ڈھلتے ہی پہریداری کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ دائیں: رات ہوتے ہی ایک کسان اپنے کھیت کی طرف جا رہا ہے، تاکہ وہاں پہرہ دے سکے

جیسے ہی شام ہوتی ہے، گاؤں میں پھر سے جان آ جاتی ہے – عورتیں کھانا بنانا شروع کر دیتی ہیں، مرد رات کی پہریداری کے لیے تیار ہوتے ہیں اور گائیں اپنے چرواہوں کے ساتھ جنگل سے گھر لوٹ آتی ہیں۔

ساگوان اور دیگر درختوں والے گھنے جنگلوں سے گھرا کھول ڈوڈا، تاڈوبا علاقے کا حصہ ہے، جس میں تقریباً ۱۰۸ کنبے (مردم شماری ۲۰۱۱) رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر چھوٹے اور معمولی کسان ہیں، جن کا تعلق دو بڑی برادریوں سے ہے: مانا آدیواسی اور مہار دلت۔ کچھ دیگر ذات کے لوگ بھی یہاں رہتے ہیں۔

یہاں تقریباً ۱۱۰ ہیکٹیئر زمین پر کھیتی ہوتی ہے، اور کھیتوں کی زرخیز مٹی زیادہ تر بارش پر منحصر ہے۔ دھان، دالیں اگائی جاتی ہیں اور کچھ میں گیہوں، باجرا اور سبزیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہاں کے کسان اپنے کھیتوں پر کام کرتے ہیں، ساتھ ہی تھوڑی بہت جنگلاتی پیداوار اور دہاڑی مزدوری کرکے بھی گزارہ کرتے ہیں۔ کچھ نوجوان روزی روٹی کمانے کے لیے شہر چلے گئے ہیں، کیوں کہ کھیتی اب ان کا سہارا نہیں رہی۔ داداجی کا بیٹا ناگپور میں پولیس کانسٹیبل ہے۔ گاؤں کے کچھ لوگ مزدوری کے لیے بھیوا پور جاتے ہیں۔

*****

جب تک ہمارا رات کا کھانا تیار ہو رہا ہے، ہم گاؤں کا موڈ جاننے کے لیے جلدی سے اس کا چکر لگاتے ہیں۔

ہماری ملاقات تین عورتوں سے ہوتی ہے – شکنتلا گوپی چند ننّاورے، شوبھا اندرپال پیندام اور پربتا تلسی رام پیندام۔ سبھی کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے۔ وہ اپنے کھیت کی طرف جانے کی جلدی میں ہیں۔ ان کے ساتھ ایک کتا ہے۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ گھر کا کام، کھیت میں محنت مزدوری اور رات کی پہریداری کتنی مشکل ہے، تو شکنتلا بتاتی ہیں، ’’ہم ڈرے ہوئے ہیں، لیکن کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ رات میں ایک دوسرے کے آس پاس رہ کر سہارا دیتے ہوئے وہ اپنے اپنے کھیتوں کا چکر لگائیں گی۔

ہم نے داداجی کے گھر کے سامنے گاؤں کی مرکزی سڑک پر گُنوَنت گائکواڑ کو اپنے دوستوں سے باتیں کرتے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے چٹکی لی، ’’اگر آپ خوش قسمت ہوئے، تو آپ کو شیر ضرور نظر آ جائے گا۔‘‘ گائکواڑ کہتے ہیں، ’’ہم تو باقاعدگی سے شیروں کو کھیتوں میں آتے جاتے دیکھتے ہیں۔‘‘

Gunwanta Gaikwad (second from right) and other villagers from Kholdoda prepare to leave for their farms for a night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar

گُنوَنت گائکواڑ (دائیں سے دوسرے) اور کھول ڈوڈا گاؤں کے دیگر لوگ رات میں پہریداری کے لیے اپنے کھیتوں کی طرف نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں

Left: Sushma Ghutke, the woman ‘police patil’ of Kholdoda, with Mahendra, her husband.
PHOTO • Jaideep Hardikar
Right: Shakuntala Gopichand Nannaware, Shobha Indrapal Pendam, and Parbata Tulshiram Pendam, all in their 50s, heading for their farms for night vigil (right to left)
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: کھول ڈوڈا کی خاتون ’پولیس پاٹل‘ سشما گُھٹکے اپنے شوہر مہندر کے ساتھ۔ دائیں: شکنتلا گوپی چند ننّاورے، شوبھا اندرپال پیندام، اور پربتا تلسی رام پیندام (دائیں سے بائیں) رات کی پہریداری کے لیے اپنے کھیتوں کی طرف جا رہی ہیں

ہم گاؤں کے نائب سرپنچ، راج ہنس بَنکر سے ان کے گھر پر ملے۔ وہ رات کا کھانا کھا رہے ہیں، جس کے بعد وہ کھیت کے لیے نکل جائیں گے۔ وہ دن بھر کے کام سے تھک کر چور ہو چکے ہیں – بَنکر، پنچایت کے انتظامی امور کو سنبھالتے ہیں۔

اب ہم سشما گُھٹکے سے ملتے ہیں، جو فی الحال خاتون ’پولیس پاٹل‘ ہیں اور اپنے شوہر مہندر کے ساتھ موٹر سائیکل کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر کھیت کی طرف جا رہی ہیں۔ انہوں نے رات کا کھانا، کچھ کمبل، لاٹھی اور دور تک روشنی دینے والی ٹارچ پکڑ رکھی ہے۔ ہم دوسروں کو بھی ٹارچ، لاٹھی اور کمبل لیے اپنے کھیتوں کی طرف پیدل جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

’’چلا آمچیا بروبر،‘‘ سشما مسکراتے ہوئے ہمیں اپنے کھیت میں ساتھ آنے کی دعوت دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’آپ رات کو بہت شور شرابہ سنیں گے۔ اسے سننے کے لیے کم از کم ڈھائی بجے تک جاگتے رہنا۔‘‘

جنگلی سؤر، نیل گائے، ہرن، سامبھر، مور، خرگوش – یہ سبھی رات میں کھانا کھانے کے لیے نکلتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی انہیں شیر اور تیندوا بھی نظر آ جاتا ہے۔ وہ مذاق میں کہتی ہیں، ’’ہمارے کھیت اینیمل فارم (جانوروں کے گھر) ہیں۔‘‘

کچھ گھر دور رہنے والے مقامی سیاسی لیڈر، آتما رام سو ساکھلے (۵۵ سالہ) رات کی پہریداری کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ۲۳ ایکڑ پشتینی زمین ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے کھیت پر کام کرنے والے لوگ ان سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چونکہ میرا کھیت بڑا ہے، اس لیے اس کی رکھوالی کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ ان کے کھیت پر کم از کم چھ سات مچان ہیں، جہاں سے فصل کے ہر بڑے حصے پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس وقت ان کے کھیت میں گیہوں اور چنے کی فصل کھڑی ہے۔

رات ساڑھے آٹھ بجے تک، کھول ڈوڈا کے لوگ رات گزارنے کے لیے اپنے دوسرے ٹھکانہ – یعنی کھیتوں میں آ گئے ہیں۔

*****

رام چندر نے اپنے پورے کھیت میں کئی مچان بنوائے ہیں، جہاں سے آپ ایک دوسرے کو سن تو سکتے ہیں، مگر دیکھ نہیں سکتے۔ آپ یہاں آرام سے جھپکی لے سکتے ہیں۔ یہ مچان لکڑی سے بنے چبوترے ہیں، جو ۸-۷ فٹ اونچے ہیں، جن کے اوپر سوکھی گھاس یا ترپال کی چھتری ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ مچان پر دو لوگ بیٹھ سکتے ہیں، مگر زیادہ تر میں صرف ایک ہی آدمی بیٹھ سکتا ہے۔

Ramchandra has built several machans (right) all over his farm. Machans are raised platforms made of wood with canopies of dry hay or a tarpaulin sheet
PHOTO • Jaideep Hardikar
Ramchandra has built several machans (right) all over his farm. Machans are raised platforms made of wood with canopies of dry hay or a tarpaulin sheet
PHOTO • Jaideep Hardikar

رام چندر نے اپنے پورے کھیت میں کئی مچان (دائیں) بنوائے ہیں۔ مچان لکڑی سے بنے چبوترے ہوتے ہیں، جن میں سوکھی گھاس یا ترپال کی چھتریاں ہوتی ہیں

دراصل، بھیوا پور کے اس حصہ میں جو جنگلات سے سٹا ہے، آپ کو ایسے غضب کے ٹھکانے دیکھنے کو ملیں گے، جو وہاں رات گزارنے والے کسانوں کے فن تعمیر کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔

وہ مجھ سے کہتے ہیں، ’’آپ کسی بھی ٹھکانے کو منتخب کر لیں۔‘‘ میں کھیت کے بالکل درمیان میں ترپال کی چادر والا ایک اڈّہ منتخب کرتا ہوں۔ کھیت میں ابھی چنا لگا ہوا ہے اور فصل کی کٹائی ہونے والی ہے۔ مجھے شک ہے کہ پھوس کی چھتری والے ٹھکانے پر چوہے ہوں گے۔ میرے چڑھنے سے مچان ہلتا ہے۔ رات کے ساڑھے نو بجے ہیں اور ہمیں رات کا کھانا کھانا ہے۔ ہم سیمنٹ کے کھلیان میں الاؤ (لکڑی کی آگ) کے چاروں طرف بیٹھ گئے ہیں۔ درجہ حرارت گھٹنے لگا ہے۔ چاروں طرف اندھیرا ہے، لیکن آسمان صاف ہے۔

داداجی کھانے کے وقت بات چیت شروع کرتے ہیں:

’’چار مہینے پہلے آدھی رات کو میرا مچان اچانک ڈھے گیا تھا اور میں سات فٹ کی اونچائی سے سر کے بل نیچے گرا۔ میری گردن اور پیٹھ میں بری طرح چوٹ لگی تھی۔‘‘

یہ رات کے تقریباً ڈھائی بجے کی بات تھی۔ شکر ہے کہ وہ جس جگہ گرے، وہاں کی زمین زیادہ سخت نہیں تھی۔ داداجی بتاتے ہیں کہ وہ کئی گھنٹے وہاں پڑے صدمے اور درد سے چھٹپٹاتے رہے۔ لکڑی کے جس لٹھے پر مچان کھڑا تھا، وہ گر گیا تھا کیوں کہ وہاں کی مٹھی ڈھیلی ہو گئی تھی۔

’’میں حرکت نہیں کر پا رہا تھا اور وہاں میری مدد کے لیے بھی کوئی موجود نہیں تھا۔‘‘ لوگ رات کو کھیت میں اکیلے ہی ہوتے ہیں، بھلے ہی آس پاس لوگ اپنے اپنے کھیتوں کی رکھوالی کر رہے ہوں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے لگا تھا کہ میں مر جاؤں گا۔‘‘

Dadaji (left) and Ramchandra lit a bonfire to keep warm on a cold winter night during a night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar
Dadaji (left) and Ramchandra lit a bonfire to keep warm on a cold winter night during a night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar

داداجی (بائیں) اور رام چندر نے سرد رات میں پہریداری کے دوران خود کو گرم رکھنے کے لیے الاؤ جلایا ہے

علی الصبح، وہ آخرکار کھڑے ہو پانے میں کامیاب ہوئے اور گردن اور پیٹھ میں شدید درد کے باوجود دو تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے گھر پہنچے۔ ’’گھر پہنچنے کے بعد، میری پوری فیملی اور پڑوسی مدد کے لیے دوڑ پڑے۔‘‘ داداجی کی بیوی شکو بائی گھبرا گئی تھیں۔

رام چندر انہیں بھیوا پور قصبہ میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے، جہاں سے انہیں ایمبولینس سے ناگپور کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بھیج دیا گیا۔ ان کے بیٹے نے اسپتال میں داخل کرانے کا انتظام کیا۔

ایکس رے اور ایم آر آئی اسکین میں چوٹ کا تو پتہ چلا، لیکن خوش قسمتی سے ہڈی نہیں ٹوٹی تھی۔ مگر گرنے کے بعد سے، لمبے اور دبلے پتلے جسم والے داداجی کو زیادہ دیر تک بیٹھنے یا کھڑے رہنے پر چکّر آنے لگتا ہے، اس لیے وہ لیٹ جاتے ہیں۔ اور بھجن گاتے ہیں۔

وہ مجھے بتاتے ہیں، ’’میں نے یہ قیمت رات کی پہریداری کے عوض چکائی، مگر کیوں؟ اس لیے کہ اگر میں نے اپنی فصلوں کی رکھوالی نہیں کی، تو یہ جنگلی جانور میرے کھیت میں کاٹنے لائق پیداوار بھی نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

داداجی کہتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے، تو رات کی پہریداری کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ گزشتہ ۲۰ برسوں میں، جانوروں کے حملے میں تیزی آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف جنگل سکڑ گئے ہیں، بلکہ جنگلی جانوروں کو بھی پوری طرح کھانا پانی نہیں مل رہا ہے اور ان کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ اسی لیے، ہزاروں کسان اپنی راتیں کھیتوں پر گزارتے ہیں، پہریداری کرتے ہیں، رات کے ان حملہ آوروں سے اپنی فصلوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، کیوں کہ کھڑی فصلوں کو نگلنے کے لیے جنگلی جانور انتظار کرتے رہتے ہیں۔

حادثے، اوپر سے گر جانا، جنگلی جانوروں کے ساتھ خطرناک مڈبھیڑ، نیند کی کمی کی وجہ سے ذہنی صحت سے متعلق مسائل اور عام بیماریاں – یہ کھول ڈوڈا اور ودربھ کے بڑے حصہ میں کسانوں کے لیے عام بات ہو چکی ہے، جو پہلے سے ہی پریشان حال کسانوں کے مسائل کو مزید بڑھا رہی ہیں۔

Machans , or perches, can be found across farms in and around Kholdoda village. Some of these perches accommodate two persons, but most can take only one
PHOTO • Jaideep Hardikar
Machans , or perches, can be found across farms in and around Kholdoda village. Some of these perches accommodate two persons, but most can take only one
PHOTO • Jaideep Hardikar

اس قسم کے مچان کھول ڈوڈا گاؤں اور اس کے آس پاس کے کھیتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پر دو لوگ بیٹھ سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر میں صرف ایک ہی آدمی بیٹھ سکتا ہے

Farmers house themselves in these perches during the night vigil. They store their torches, wooden sticks, blankets and more inside
PHOTO • Jaideep Hardikar
Farmers house themselves in these perches during the night vigil. They store their torches, wooden sticks, blankets and more inside
PHOTO • Jaideep Hardikar

رات کی پہریداری کے دوران، کسان ان مچانوں پر رہتے ہیں۔ وہ اپنی ٹارچ، لاٹھی، کمبل وغیرہ اس کے اندر ہی رکھتے ہیں

گزشتہ کچھ برسوں میں دیہی علاقوں کے سفر کے دوران میں ایسے کسانوں سے ملا، جو ’سلیپ ایپنیا‘ کے سبب تناؤ میں تھے۔ ’سلیپ ایپنیا‘ ایک قسم کی بیماری ہے، جب سوتے وقت سانس رک جاتی ہے اور پھر چلنے لگتی ہے۔

رام چندر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں، ’’یہ جسم کو بہت نقصان پہنچاتا ہے – ہمیں دن میں اور رات کو بھی نیند پورا کیے بغیر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے جب ہم اپنے کھیت کو ایک دن کے لیے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ یہاں کا چاول، دال یا کالا چنا کھا رہے ہیں، تو یہ اناج ہیں جو جنگلی جانوروں کے حملے سے بچ گئے ہیں، کیوں کہ کسی نے راتوں کی نیند حرام کرکے کہیں نہ کہیں اپنی فصل بچانے میں کامیابی پائی ہوگی۔

رام چندر کہتے ہیں، ’’ہم الارم بجاتے ہیں، آگ جلاتے ہیں، کھیتوں میں باڑ لگاتے ہیں، لیکن اگر آپ رات میں کھیت پر نہیں ہیں، تو عین ممکن ہے کہ آپ وہ سب کچھ گنوا دیں گے جو آپ نے لگایا ہے۔‘‘

*****

رات کے کھانے کے بعد، ہم اپنی ٹارچ چمکاتے ہوئے رام چندر کے پیچھے ایک قطار میں چلنا شروع کرتے ہیں، جو اس اندھیرے میں کھیتوں کی بھول بھلیاں میں ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔

رات کے ۱۱ بجے ہیں اور ہم تھوڑی تھوڑی دیر میں کچھ فاصلہ پر لوگوں کو چیختے ہوئے سنتے ہیں – ’’اوئے…اوئے…ای ای ای،‘‘ جو جانوروں کو ڈرانے اور کھیتوں پر اپنی موجودگی جتانے کے لیے چیخ رہے ہیں۔

باقی دنوں میں اکیلے ہونے پر رام چندر ہر گھنٹے لمبا بھاری ڈنڈا لے کر کھیت کا چکّر لگاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ دو بجے سے چار بجے کے درمیان محتاط رہتے ہیں، جب ان کے مطابق جانور سب سے زیادہ حرکت کرتے ہیں۔ بیچ بیچ میں وہ جھپکی لینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر محتاط رہتے ہیں۔

آدھی رات کے قریب گاؤں سے ایک آدمی کھیت پر آتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ آلیسور میں پوری رات کبڈی ٹورنامنٹ چلے گا۔ ہم کھیل دیکھنے کے لیے وہاں سے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ داداجی، رام چندر کے بیٹے کے ساتھ کھیت پر ہی رک جاتے ہیں اور ہم باقی لوگ کھیت سے ۱۰ منٹ کے فاصلہ پر آلیسور کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔

Villages play a game of kabaddi during a night-tournament
PHOTO • Jaideep Hardikar

رات کے مقابلہ کے دوران کبڈی کھیلتے گاؤں کے لوگ

رات کی پہریداری کے دوران، کسان آلیسور گرام پنچایت میں کبڈی کا کھیل دیکھنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں

راستے میں ہمیں جنگلی سؤروں کا ایک جھنڈ سڑک پار کرتے ہوئے ملا، جس کے پیچھے دو گیدڑ تھے۔ تھوڑی دیر بعد، جنگل کے ساتھ سٹے حصے میں ہم نے ہرنوں کا ایک جھنڈ دیکھا۔ ابھی تک شیر کا کوئی پتہ نہیں چلا تھا۔

آلیسور میں آس پاس کے گاؤوں کے دو پرانے کھلاڑیوں کے درمیان کبڈی کا زبردست مقابلہ دیکھنے کے لیے بھاری بھیڑ جمع ہے۔ ان کا جوش دیکھنے لائق ہے۔ ٹورنامنٹ میں ۲۰ سے زیادہ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور میچ صبح تک چلیں گے۔ فائنل صبح ۱۰ بجے ہوگا۔ گاؤں کے لوگ رات بھر اپنے کھیتوں اور کبڈی کے میچ کی جگہ کے درمیان چکرلگاتے رہیں گے۔

لوگ ایک شیر کی موجودگی کے بارے میں ایک دوسرے کو اطلاع دے رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک رام چندر سے کہتا ہے، ’’تم ہوشیار رہنا۔‘‘ آلیسور کے ایک آدمی نے اسے شام کو دیکھا تھا۔

شیر کا نظر آنا ایک قسم کا راز ہے۔

کچھ دیر بعد، ہم رام چندر کے کھیت میں واپس آ گئے۔ رات کے دو بج رہے ہیں اور ان کا بیٹا آشوتوش، کھلیان کے پاس چارپائی پر سو چکا ہے۔ داداجی خاموشی سے بیٹھے ہوئے اس کی نگرانی کر رہے ہیں اور الاؤ جلا رہے ہیں۔ ہم تھکے ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک نیند نہیں آئی ہے۔ ہم کھیت کا ایک اور چکّر لگاتے ہیں۔

Ramchandra Dodake (right) at the break of the dawn, on his farm after the night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar
Ramchandra Dodake (right) at the break of the dawn, on his farm after the night vigil
PHOTO • Jaideep Hardikar

رام چندر دوڑکے (دائیں) رات کی پہریداری کے بعد، صبح کے وقت اپنے کھیت پر

Left: Ramchandra Dodake's elder son Ashutosh, on the night vigil.
PHOTO • Jaideep Hardikar
Right: Dadaji plucking oranges from the lone tree on Ramchandra’s farm
PHOTO • Jaideep Hardikar

رات کی پہریداری کے وقت، رام چندر دوڑکے کا بڑا بیٹا آشوتوش۔ دائیں: داداجی، رام چندر کے کھیت میں لگے اکیلے درخت سے سنترے توڑ رہے ہیں

رام چندر نے ۱۰ویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی، اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا کام ہوتا تو وہ کھیتی کرتے ہی نہیں۔ انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو ناگپور کے ایک بورڈنگ اسکول میں بھیج دیا ہے، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے کھیتی کریں۔ آشوتوش چھٹیاں منانے گھر آیا ہے۔

اچانک، چاروں طرف سے چیخ پکار کی آوازیں آنے لگیں۔ کسان تھالی پیٹ رہے ہیں، اور اونچی آواز میں چلّا رہے ہیں۔ جانوروں کو ڈرانے کے لیے وہ ایسا بار بار کریں گے۔

میری حیرانی کو دیکھ کر داداجی مسکرا دیتے ہیں۔ رام چندر بھی مسکرانے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ آپ کو عجیب لگ سکتا ہے، لیکن رات بھر یہی ہوتا ہے۔ کسان کچھ جانوروں کی موجودگی کا اشارہ دینے کے لیے چیختے ہیں، جو دوسرے کھیتوں میں جا سکتے ہیں۔‘‘ تقریباً ۱۵ منٹ بعد، ہنگامہ ختم ہوا اور پھر سے سب خاموش ہو گئے۔

تقریباً ساڑھے تین بجے ستاروں سے جگمگاتے آسمان کے نیچے ہم الگ ہوتے ہیں اور اپنے جھولتے ہوئے مچانوں پر آ جاتے ہیں۔ میرے چاروں طرف کیڑوں کی آوازیں تیز ہو جاتی ہیں۔ میں اپنی پیٹھ کے بل لیٹ گیا ہوں۔ مچان پر بس میرے لائق ہی جگہ ہے۔ پھٹی ہوئی سفید ترپال کی چادر ہوا کے جھونکے سے لہرا رہی ہے۔ میں تارے گنتا ہوں اور تھوڑی دیر کے لیے سو جاتا ہوں۔ دن نکلنے تک، میں لوگوں کے چیخنے کی رک رک کر آتی آوازیں سنتا رہا۔ مچان پر اپنے ٹھکانے سے میں چاروں طرف دودھیا سفید شبنم سے ڈھکے سرسبز کھیتوں کو دیکھتا ہوں۔

رام چندر اور داداجی پہلے سے ہی جگے ہوئے ہیں۔ داداجی کھیت کے اکلوتے سنترے (نارنجی) کے درخت سے کچھ پھل توڑتے ہیں اور گھر لے جانے کے لیے مجھے سونپ دیتے ہیں۔

Ramchandra Dodake (left), Dadaji and his wife Shakubai (right) bang thalis ( metal plates), shouting at the top of their voices during their night vigils. They will repeat this through the night to frighten away animals
PHOTO • Jaideep Hardikar
Ramchandra Dodake (left), Dadaji and his wife Shakubai (right) bang thalis ( metal plates), shouting at the top of their voices during their night vigils. They will repeat this through the night to frighten away animals
PHOTO • Jaideep Hardikar

رات کی پہریداری کے دوران، رام چندر دوڑکے (بائیں)، داداجی اور ان کی بیوی شکو بائی (دائیں) تھالیاں بجاتے ہیں اور زور زور سے چیختے ہیں۔ جانوروں کو ڈرانے کے لیے وہ ایسا رات بھر کرتے رہتے ہیں

رام چندر تیزی سے اپنے کھیت کا ایک چکر لگاتے ہیں، اور چیک کرتے ہیں کہ کسی جانور نے ان کی فصل کو چھوا تو نہیں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا ہوں۔

ہم صبح سات بجے گاؤں لوٹتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خوش قسمت ہیں کہ رات میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔

بعد میں، دن کے وقت رام چندر کو پتہ چل پائے گا کہ پچھلی رات جنگلی جانور کسی اور کے کھیت میں داخل ہوئے تھے یا نہیں۔

میں اپنے میزبان سے وداع لیتا ہوں، اور وہ مجھے اپنے کھیت میں اُگے چاول کے تازہ آٹے کا ایک پیکٹ بطور تحفہ مجھے دیتے ہیں۔ یہ خوشبودار چاول ہے۔ اس کی فصل کٹنے تک، رام چندر نے کئی راتیں کھیت میں پہریداری کرتے گزاری ہیں۔

ہم گاڑی چلا کر کھول ڈوڈا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کھیتوں سے گزرتے ہیں، اور مجھے کھیتوں سے خاموشی کے ساتھ لوٹتے مرد و خواتین نظر آتے ہیں۔ میرا دلچسپ سفر مکمل ہو چکا ہے۔ ان کا کمر توڑ دن تو بس ابھی شروع ہوا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jaideep Hardikar

Jaideep Hardikar is a Nagpur-based journalist and writer, and a PARI core team member.

Other stories by Jaideep Hardikar
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique