’’یہاں ایک بڑا سکھوا گاچھ [درخت] تھا۔ اس کے نیچے ہِجلا گاؤں ہی نہیں، ارد گرد کے کئی گاؤوں کے لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ انگریزوں نے دیکھا کہ یہ لوگ یہاں روزانہ بیسی [میٹنگ] کرتے ہیں، تو سکھوا کا گاچھ کاٹ دیا۔ درخت کاٹ دیا، تو اس کا خون [درخت کی کٹائی سے نکلنے والا سیال مادّہ] بہا اور پتھر بن گیا۔‘‘

جھارکھنڈ کے گُملا ضلع میں اسی کٹے درخت کے پاس بیٹھ کر راجندر باسکی صدیوں پرانا قصہ سنا رہے ہیں۔ گاؤں کے نائکی (آدیواسی سماج کے پجاری) اور ۳۰ سالہ کسان راجندر کے مطابق، ’’کٹے درخت کا تنا اب پوجا کا مقام [مرانگ بُرو استھان] بن گیا ہے۔ جھارکھنڈ، بہار اور بنگال کے سنتال آدیواسی یہاں آتے ہیں، پوجا کرتے ہیں اور عقیدت سے اپنا سر جھکاتے ہیں۔‘‘

ہِجلا گاؤں، سنتال پرگنہ علاقے میں دُمکا شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، اور سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی ۶۴۰ ہے۔ سِدو مرمو اور کانہو مرمو کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی پہلی منظم بغاوت – سنتال ہول – ۳۰ جون ۱۸۵۵ کو بھوگنا ڈیہہ گاؤں میں شروع ہوئی تھی جو ہجلا سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور ہے۔

PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul

بائیں: کٹے درخت کا تنا، جہاں سنتال آدیواسی مرانگ بُرو کی پوجا کرتے ہیں۔ دائیں: راجندر باسکی، مرانگ بُرو کے موجودہ نائکی (پجاری) ہیں

PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul

بائیں: پوجا کے مقام کا داخلی دروازہ، جس کی تعمیر ۱۹ویں صدی میں انگریزوں نے کی تھی۔ دائیں: میلہ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے سنتال فنکار

ہجلا گاؤں، ہجلا پہاڑی کے چاروں طرف آباد ہے، جو راج محل پہاڑی سلسلہ کا توسیعی حصہ ہے۔ اس لیے گاؤں میں آپ کسی ایک جگہ سے چلنا شروع کرتے ہیں، تو پھر چلتے چلتے وہیں پہنچ جاتے ہیں۔

’’ہمارے آباء و اجداد اس درخت کے نیچے میٹنگ کر کے اپنے گاؤں و سماج کے لیے سال بھر کا قاعدہ بناتے تھے،‘‘ سنیلال ہانسدا (۵۰) کہتے ہیں، جو سال ۲۰۰۸ سے ہی گاؤں کے پردھان ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج بھی گاؤں کے لوگ یہاں میٹنگ کرتے ہیں۔

ہانسدا کے پاس ہجلا میں ۱۲ بیگھہ زمین ہے اور وہ اس پر خریف سیزن کے دوران کھیتی کرتے ہیں۔ وہ باقی مہینوں میں دُمکا شہر میں مزدوری کرتے ہیں، اور جن دنوں میں کام مل پاتا ہے انہیں ۳۰۰ روپے کی یومیہ مزدوری مل جاتی ہے۔ ہجلا میں رہنے والے سبھی ۱۳۲ خاندان، جن میں سے زیادہ تر سنتال آدیواسی ہیں، اپنے معاش کے لیے کھیتی اور مزدوری پر منحصر ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں بارش کی وجہ سے کافی غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوئی ہے، جس کے سبب زیادہ تر لوگ کام کی تلاش میں مہاجرت کرنے لگے ہیں۔

PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul

ہر سال فروری اور مارچ کے درمیان منعقد ہونے والے ہجلا میلہ میں رقص بھی پیش کیا جاتا ہے

PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul

بائیں: ہجلا میلہ کا ایک منظر۔ مرانگ بُرو کے سابق نائکی سیتا رام سورین

ہجلا میں مرانگ بُرو کے مقام پر ایک اہم میلہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ فروری میں بسنت پنچمی کے آس پاس، میوراکشی ندی کے ساحل پر یہ سالانہ میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ جھارکھنڈ حکومت کے نوٹس سے پتہ چلتا ہے کہ سال ۱۸۹۰ میں سنتال پرگنہ کے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر آر کاسٹیئرس نے ہجلا میلہ شروع کروایا تھا۔

دُمکا کی سِدو کانہو مرمو یونیورسٹی میں سنتالی کی پروفیسر، ڈاکٹر شرمیلا سورین نے پاری سے بات چیت میں بتایا کہ ہجلا میلہ کا انعقاد ہر سال کیا جاتا ہے، اور صرف کورونا وبائی مرض کے دوران یہ دو سال کے لیے بند ہوا تھا۔ میلہ میں بھالے اور تلوار سے لے کر ڈھول اور دؤرا (بانس کی ٹوکری) جیسی مختلف قسم کی چیزیں خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ مرد و خواتین رقص بھی پیش کرتے ہیں۔

حالانکہ، ۶۰ سالہ سیتا رام سورین کے مطابق، لوگوں کی مہاجرت کے سبب ’’یہ میلہ اب آدیواسی ثقافت کے مطابق نہیں ہوتا ہے۔ ہماری روایات کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے اور دوسری چیزیں حاوی ہو رہی ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Rahul

Rahul Singh is an independent reporter based in Jharkhand. He reports on environmental issues from the eastern states of Jharkhand, Bihar and West Bengal.

Other stories by Rahul
Editors : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

Other stories by Dipanjali Singh
Editors : Devesh

Devesh is a poet, journalist, filmmaker and translator. He is the Translations Editor, Hindi, at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Devesh
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique