جھارکھنڈ کے چیچریا گاؤں میں سویتا دیوی کے مٹی سے بنے گھر کی دیوار پر لٹکی تصویر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہماری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ ’’بابا صاحب نے ہمیں ووٹنگ کا حق دیا ہے، اس لیے ہم ووٹ دیتے ہیں،‘‘ سویتا کہتی ہیں۔

سویتا کے پاس ایک بیگھہ (صفر اعشاریہ ۷۵ ایکڑ) قابل کاشت زمین ہے، جس پر وہ ربیع کے دنوں میں دھان اور مکئی اور خریف کے موسم میں چنا اور تلہن اُگاتی ہیں۔ انہوں نے سوچا تھا کہ اپنے گھر کے پیچھے کی زمین پر وہ ساگ سبزیاں لگائیں گی۔ ’’لیکن دو سالوں سے بارش بالکل بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘ گزشتہ کچھ برسوں میں لگاتار خشک سالی کے سبب ان کی فیملی قرض میں ڈوبی ہوئی ہے۔

سویتا (۳۲) اپنے چار بچوں کے ساتھ پلامو ضلع کے اسی گاؤں میں رہتی ہیں۔ ان کے ۳۷ سالہ شوہر پرمود رام ۲۰۰۰ کلومیٹر دور بنگلورو میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ’’سرکار کے پاس ہمیں دینے کے لیے نوکریاں نہیں ہیں،‘‘ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے یہ دلت مزدور بتاتے ہیں، ’’ہم پوری طرح اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔‘‘

پرمود عمارتوں کی تعمیر کے ایک مقام پر کام کرتے ہیں اور ایک مہینہ میں ۱۰ سے ۱۲ ہزار روپے کماتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ٹرک ڈرائیوری کا کام بھی کرتے ہیں، لیکن یہ کام بھی انہیں پورے سال نہیں ملتا ہے۔ ’’اگر مرد چار مہینے بھی گھر میں بیٹھ جائیں، تو ہمیں بھیک مانگنے کی نوبت آ جائے گی۔ پردیش جا کر کمانے کے سوا ہمارے پاس متبادل ہی کیا ہے؟‘‘ سویتا پوچھتی ہیں۔

سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، چیچریا کی کل آبادی ۹۶۰ ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ کام کی تلاش میں مہاجرت کرنے کو مجبور ہیں، کیوں کہ ’’گاؤں میں لوگوں کے لیے روزگار کے وافر مواقع موجود نہیں ہیں۔ اگر یہاں کام ملتا، تو لوگ باہر کیوں جاتے؟‘‘ سویتا کی ۶۰ سالہ ساس سُرپتی دیوی کہتی ہیں۔

Left: Dr. B. R. Ambedkar looks down from the wall of Savita Devi’s mud house in Checharia village. The village has been celebrating Ambedkar Jayanti for the last couple of years.
PHOTO • Savita Devi
Right: ‘Babasaheb has given us [voting rights], that's why we are voting,’ Savita says
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: جھارکھنڈ کے چیچریا گاؤں میں سویتا دیوی کے مٹی سے بنے گھر کی دیوار پر لٹکی تصویر سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہماری طرف دیکھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ گاؤں گزشتہ چند برسوں سے امبیڈکر جینتی منا رہا ہے۔ دائیں: ’بابا صاحب نے ہمیں ووٹنگ کا حق دیا ہے، اس لیے ہم ووٹ دیتے ہیں،‘‘ سویتا کہتی ہیں

سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، آٹھ لاکھ سے بھی زیادہ لوگ کام اور روزگار کی تلاش میں جھارکھنڈ سے باہر رہنے کو مجبور ہیں۔ ’’اس گاؤں میں آپ کو  ۲۰ سے ۵۲ سال کی عمر کا ایک بھی کام کرنے لائق آدمی نہیں ملے گا،‘‘ شری شنکر دوبے کہتے ہیں۔ ’’بمشکل پانچ فیصد آدمی ہی یہاں رہ گئے ہیں، باقی لوگ گاؤں سے مہاجرت کر چکے ہیں،‘‘ بسنا پنچایت سمیتی کے رکن دوبے کہتے ہیں۔ چیچریا اسی پنچایت سمیتی کے ماتحت ہے۔

’’اس بار جب لوگ ووٹ مانگنے ہمارے پاس آئیں گے، تب ہم ان سے سوال کریں گے، آپ نے ہمارے گاؤں کے لیے کیا کیا ہے؟‘‘ غصے سے بھری ہوئی سویتا نے پر عزم لہجے میں کہا۔ وہ اپنے گھر کے سامنے فیملی کے دیگر ارکان کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ انہوں نے ایک گلابی رنگ کی نائٹی پہنی ہوئی ہے اور سر پر ایک زرد دوپٹہ لپیٹ رکھا ہے۔ یہ دوپہر کا وقت ہے اور اسکول جانے والے ان کے چاروں بچے ابھی ابھی اسکول سے لوٹے ہیں، جہاں انہوں نے مڈ ڈے میل [اسکول میں ملنے والا دوپہر کا کھانا] کھایا ہے۔

سویتا کا تعلق چمار برادری سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں بابا صاحب امبیڈکر کے بارے میں گاؤں کے لوگوں کے ذریعے منعقد امبیڈکر جینتی کی تقریب میں پتہ چلا کہ ہندوستان کا آئین انہوں نے ہی بنایا تھا۔ گاؤں میں رہنے والے تقریباً ۷۰ فیصد لوگ درج فہرست ذات کی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے فریم میں لگی ہوئی امبیڈکر کی ایک تصویر کچھ سال پہلے گڑھوا شہر کے بازار سے خریدی تھی، جو ان کے گاؤں سے ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔

سال ۲۰۲۲ کے پنچایت انتخابات سے پہلے سویتا نے مکھیا کی بیوی کی درخواست پر ایک پرچار ریلی میں حصہ بھی لیا تھا، جب کہ انہیں بہت تیز بخار تھا۔ ’’انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ جیتنے کے بعد ہمیں ایک ہینڈ پمپ کا تحفہ ملے گا،‘‘ سویتا کہتی ہیں۔ لیکن ان سے یہ وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا۔ سویتا ان کے گھر دو بار گئیں بھی۔ ’’مجھ سے ملنا تو دور کی بات رہی، انہوں نے میری طرف دیکھا بھی نہیں۔ ایک عورت ہو کر بھی انہوں نے ایک دوسری عورت کی تکلیفوں کے تئیں کوئی ہمدردی محسوس نہیں کی۔‘‘

گزشتہ ۱۰ برسوں سے چیچریا گاؤں پانی سے متعلق سنگین بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ پورے گاؤں میں صرف ایک ہی کنویں سے پانی مل رہا ہے اور یہاں کے ۱۷۹ خاندان اسی پر منحصر ہیں۔ سویتا کو روزانہ دو بار ہینڈ پمپ سے پانی لانے کے لیے ۲۰۰ میٹر دور چڑھائی پر جانا ہوتا ہے۔ انہیں پورے دن میں پانچ سے چھ گھنٹے پانی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، اور یہ سلسلہ صبح چار یا پانچ بجے شروع ہوتا ہے۔ ’’کیا ہمیں ایک ہینڈ پمپ کی سہولت دینا سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے؟‘‘ وہ پوچھتی ہیں۔

Left and Right: Lakhan Ram, Savita’s father-in-law, next to the well which has dried up. Checharia has been facing a water crisis for more than a decade
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
Left and Right: Lakhan Ram, Savita’s father-in-law, next to the well which has dried up. Checharia has been facing a water crisis for more than a decade
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں اور دائیں: سویتا کے سسر لکھن رام اُس کنویں کے بغل میں ہیں جو اب خشک ہو گیا ہے۔ چیچریا گاؤں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے پانی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے

جھارکھنڈ یکے بعد دیگرے خشک سالی سے بری طرح متاثر رہا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں تقریباً پوری ریاست کے ۲۲۶ بلاکوں کو خشک سالی سے متاثرہ علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال، یعنی ۲۰۲۳ میں ۱۵۸ بلاک خشک سالی سے متاثر رہے۔

’’ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ ہم کتنے پانی کا استعمال پینے کے لیے کریں اور کتنا پانی کپڑا دھونے کے لیے بچا کر رکھیں،‘‘ سویتا اپنے کچے مکان کے آنگن میں بنے کنویں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کہتی ہیں، جو پچھلے مہینہ سے ہی سوکھا پڑا ہوا ہے جب کہ اس وقت ۲۰۲۴ کی گرمیاں بس شروع ہی ہوئی ہیں۔

سال ۲۰۲۴ کے عام انتخابات میں چیچریا کے لوگ چوتھے مرحلہ میں ۱۳ مئی کے دن اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پرمود اور ان کے چھوٹے بھائی، جو کہ خود بھی ایک مہاجر مزدور ہیں، ووٹ والے دن تک گھر لوٹ آئیں گے۔ ’’وہ صرف اپنا ووٹ دینے کے لیے ہی آ رہے ہیں،‘‘ سویتا بتاتی ہیں۔ گھر آنے پر ایک آدمی کو ۷۰۰ روپے اضافی خرچ کرنا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ انہیں اپنا موجودہ کام بھی چھوڑنا پڑے اور نئے سرے سے کام تلاش کرنا پڑا۔

*****

چیچریا سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ہی ایک چھ لین کے ہائی وے کا تعمیری کام تیزی سے چل رہا ہے، لیکن اس گاؤں تک پہنچنے کے لیے ابھی تک سڑک نہیں بنی ہے۔ اس لیے جب ۲۵ سال کی رینو دیوی کو درد زہ شروع ہوا، تب سرکاری گاڑی (ریاستی ایمبولینس) ان کے دروازے تک نہیں پہنچ سکی۔ ’’مجھے مرکزی سڑک [تقریباً ۳۰۰ میٹر دور] تک پیدل، اسی حالت میں جانا پڑا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ظاہر ہے، گیارہ بجے رات کے اندھیرے میں سڑک تک پیدل پہنچنے کا یہ واقعہ ان کی یادداشت میں آج بھی تازہ ہے۔

صرف ایمبولینس ہی نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار کی ایک بھی ترقیاتی اسکیم ان کی دہلیز تک آج بھی نہیں پہنچ پائی ہے۔

چیچریا کے زیادہ تر گھروں میں کھانا آج بھی چولہے پر بنتا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو یا تو ابھی تک پردھان منتری اُجّولا یوجنا کے تحت ایل پی جی سیلنڈر نہیں ملا ہے، یا ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سیلنڈر کو دو بار بھروا سکیں۔

Left: Renu Devi has been staying at her natal home since giving birth a few months ago. Her brother Kanhai Kumar works as a migrant labourer in Hyderabad .
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
Right: Renu’s sister Priyanka stopped studying after Class 12 as the family could not afford the fees. She has recently borrowed a sewing machine from her aunt, hoping to earn a living from tailoring work
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: کچھ مہینے پہلے بچے کو جنم دینے کے بعد سے رینو دیوی اپنے میکے میں رہ رہی ہیں۔ ان کے بھائی کنہائی کمار حیدرآباد میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دائیں: رینو کی بہن پرینکا کو ۱۲ویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑنی پڑی، کیوں کہ ان کی فیملی فیس کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے حال ہی میں سلائی کے کام سے روزی روٹی کمانے کی امید میں اپنی چچی سے ایک سلائی مشین اُدھار لی ہے

Left: Just a few kilometres from Checharia, a six-lane highway is under construction, but a road is yet to reach Renu and Priyanka’s home in the village.
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
Right: The family depended on the water of the well behind their house for agricultural use
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: چیچریا سے کچھ ہی کلومیٹر کے فاصلہ پر، چھ لین کا ہائی وے بن رہا ہے، لیکن گاؤں میں رینو اور پرینکا کے گھر تک ابھی سڑک نہیں پہنچی ہے۔ دائیں: فیملی کھیتی میں استعمال کے لیے اپنے گھر کے پیچھے موجود کنویں کے پانی پر منحصر تھی

چیچریا کے تمام باشندوں کے پاس قومی دیہی روزگار گارنٹی کارڈ (منریگا کارڈ) ہیں، جو انہیں سال بھر میں ۱۰۰ دن کے کام کی ضمانت دیتے ہیں۔ یہ کارڈ ان کے نام پر پانچ چھ سال پہلے تقسیم کیے گئے تھے، لیکن ان کے صفحات آج بھی خالی ہیں۔ ان کے اندر سے اب بھی تازہ کاغذ کی بو آتی ہے۔

رینو کی بہن پرینکا کو ۱۲ویں جماعت کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی، کیوں کہ فیملی ان کا تعلیمی خرچ اٹھانے کی متحمل نہیں تھی۔ تقریباً ۲۰ سال کی پرینکا نے حال ہی میں اپنی چچی سے کرایے پر ایک سلائی مشین لی ہے، تاکہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے سلائی کا کام کر سکیں۔ ’’جلد ہی اس کی شادی بھی ہونے والی ہے،‘‘ رینو بتاتی ہیں، جو زچگی کے بعد ابھی اپنے میکے میں ہی ہیں۔ ’’دولہے کے پاس نہ تو کوئی نوکری ہے اور نہ خود کا پختہ مکان ہے، لیکن وہ جہیز میں ۲ لاکھ روپے مانگ رہا ہے۔‘‘ ان کے گھر والوں نے شادی کے لیے پیسے قرض لیے ہیں۔

آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی صورت میں چیچریا میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں نے اونچی شرح سود پر مہاجنوں سے پیسے قرض لے رکھے ہیں۔ ’’گاؤں میں ایسی ایک بھی فیملی نہیں ہے جو قرض کے بوجھ سے دبی ہوئی نہ ہو،‘‘ سنیتا دیوی بتاتی ہیں۔ ان کے جڑواں بیٹے لو اور کُش کام کی تلاش میں مہاراشٹر کے کولہاپور مہاجرت کر چکے ہیں۔ فیملی کی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کے ذریعے بھیجے گئے پیسے ہیں۔ ’’کبھی وہ ۵ ہزار اور کبھی ۱۰ ہزار [روپے] بھیجتے ہیں،‘‘ دونوں کی ۴۹ سالہ ماں بتاتی ہیں۔

پچھلے سال ہی اپنی بیٹی کی شادی کے لیے سنیتا اور ان کے شوہر راج کمار رام نے ایک مقامی مہاجن سے پانچ فیصد شرح سود پر ایک لاکھ روپے قرض لیے تھے۔ بہرحال، ۲۰ ہزار روپے کسی طرح واپس ادا کرنے کے بعد بھی ان کے اوپر ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرض ابھی بھی باقی ہے۔

’’غریب کے چاو دیو لا کوئی نئیکے۔ اگر ایک دن ہمن جھوری نہیں لانب، تا اگلا دن ہمن کے چُلّھا نہیں جلتئی [غریب کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر ایک دن ہم جلاون کی لکڑی نہیں لائیں، تو دوسرے دن ہمارا چولہا نہیں جلے گا]،‘‘ سنیتا دیوی کہتی ہیں۔

Left: Like many other residents of Checharia, Sunita Devi and her family have not benefited from government schemes such as the Pradhan Mantri Awas Yojana or Ujjwala Yojana.
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
Right: With almost no job opportunities available locally, the men of Checharia have migrated to different cities. Many families have a labour card (under MGNEREGA), but none of them have had a chance to use it
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: چیچریا کے کئی دیگر باشندوں کی طرح سنیتا دیوی اور ان کی فیملی کو پردھان منتری آواس یوجنا یا اُجّولا یوجنا جیسی سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں ملا۔ دائیں: مقامی سطح پر نوکری کے مواقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے، چیچریا کے مرد الگ الگ شہروں میں مہاجرت کر چکے ہیں۔ کئی کنبوں کے پاس (منریگا کے تحت) لیبر کارڈ ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس کا استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا ہے

گاؤں کی دوسری عورتوں کے ساتھ وہ روزانہ ۱۵-۱۰ کلومیٹر پیدل چل کر ایک پہاڑی سے جلاون کی لکڑی لانے جاتی ہیں۔ اس کام میں انہیں لگاتار جنگلات کے محافظوں (فاریسٹ گارڈ) کے ذریعے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سال ۲۰۱۹ میں، پچھلے عام انتخابات سے قبل، سنیتا دیوی نے گاؤں کی دیگر خواتین کے ساتھ پردھان منتری آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت اپنے مکان کے لیے درخواست دی تھی۔ ’’آج تک کسی کو گھر نہیں ملا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں اور ساتھ میں یہ کہنا نہیں بھولتیں، ’’ہمیں صرف راشن کا فائدہ ملا ہے۔ لیکن راشن بھی ہمیں ۵ کلو ملنے کی بجائے صرف ساڑھے ۴ کلو ہی ملتا ہے۔‘‘

پانچ سال پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وشنو دیال نے کل ووٹنگ کا ۶۲ فیصد لاکر جیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار گھورن رام کو ہرایا تھا۔ اس سال بھی وشنو دیال رام اس حلقہ انتخاب سے امیدوار ہیں۔

پچھلے سال، یعنی ۲۰۲۳ تک سنیتا ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھیں۔ ایک مقامی میلہ میں انہوں نے ان کے نام کے کچھ نعرے سنے، ’’ہمارا نیتا کیسا ہو؟ وی ڈی رام جیسا ہو!‘‘

سنیتا کہتی ہیں، ’’آج تک ان کو ہم لوگ دیکھا نہیں ہے۔‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Ashwini Kumar Shukla

Ashwini Kumar Shukla is a freelance journalist based in Jharkhand and a graduate of the Indian Institute of Mass Communication (2018-2019), New Delhi. He is a PARI-MMF fellow for 2023.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique