’’جب میں نے پہلی بار ڈوکرا کاریگری دیکھی تھی، تو مجھ پر کسی جادو جیسا اثر ہوا تھا،‘‘ ۴۱ سالہ کاریگر پیجوش مونڈل کہتے ہیں۔ مغربی بنگال کے بیر بھوم سے تعلق رکھنے والے پیجوش تقریباً ۱۲ سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ اسے بنانے میں موم کے سانچے کا استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ ہندوستان میں روایتی طور پر دھات کی ڈھلائی کی سب سے پرانی تکنیکوں میں سے ایک ہے، اور وادی سندھ کی تہذیب کے دور سے چلی آ رہی ہے۔

ڈوکرا (یا ڈھوکرا) سے مراد خانہ بدوش کاریگروں کا وہ گروپ ہے جو پورے مشرقی ہندوستان میں گھوم کر یہ کام کیا کرتا تھا۔

اوڈیشہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ میں پھیلے چھوٹا ناگپور سطح مرتفع میں تانبے کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ یہ دھات کے مرکب پیتل اور کانسی کا بنیادی جزو ہے جس سے ڈوکرا مجسمے بنائے جاتے ہیں۔ ڈوکرا آرٹ ویسے تو ہندوستان کے بہت سے حصوں میں رائج ہے، لیکن بانکورہ، بردھمان اور پرولیا ضلعوں کے ’بنگال ڈوکرا‘ کو جغرافیائی نشان (جی آئی) کا سرٹیفکیٹ حاصل ہے۔

ڈوکرا مجسمے کو بنانے کی شروعات چکنی مٹی کا اندرونی ڈھانچہ تیار کرنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ مطلوبہ مجسمہ کو ڈھالنے کی اصل بنیاد یہی ڈھانچہ ہے۔ اس کے بعد اس ڈھانچہ پر موم یا سال کے درخت (شوریا روبسٹا) کی گوند کی پرت چڑھا کر مجمسے کو مناسب شکل و صورت دینے اور اس کی باریکیوں کو تراشنے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ کام پورا ہو جانے کے بعد موم کے مجسمے پر مٹی کی دوسری پرت چڑھائی جاتی ہے، جس میں ایک یا دو سوراخ چھوڑ دیے جاتے ہیں، تاکہ بعد میں ان کے ذریعے پگھلی ہوئی موم کو باہر نکالا جا سکے۔ آخری میں انھیں سوراخوں کے ذریعے اس میں گرم پگھلی ہوئی دھات کو اندر ڈالا جاتا ہے۔

سیما پال مونڈل کہتی ہیں، ’’اس پورے عمل میں قدرت بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ اگر سال کے درخت نہیں ہوں گے، تو میں موم بنانے کے لیے ان کی رال کا استعمال نہیں کر پاؤں گی۔ شہد کی مکھیوں یا ان کے چھتوں کے بغیر مجھے موم نہیں ملے گا۔‘‘ ڈوکرا کی ڈھلائی مختلف قسم کی مٹی کی دستیابی اور موزوں موسمی حالات پر بھی بہت زیادہ منحصر ہے۔

جب مٹی کی باہری پرت اچھی طرح خشک ہو جاتی ہے، تب پیجوش اور ان کے ساتھی مجسمے کو اپنے اسٹوڈیو میں اینٹ اور مٹی سے بنی دو میں سے ایک بھٹی میں پکنے کے لیے ڈال دیتے ہیں۔ یہ بھٹیاں ۳ سے ۵ فٹ گہری ہیں۔ جب مٹی پک جاتی ہے، تو موم پگھل کر باہر نکل جاتی ہے اور وہ جگہ کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ بعد میں اسی کھوکھلی میں دونوں سوراخوں کے ذریعے گرم پگھلی ہوئی دھات کو انڈیل دیا جاتا ہے۔ اچھی طرح سے سانچے کو ٹھنڈا ہونے کے لیے اسے عموماً ایک دن کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر ڈیلیوری جلدی دینی ہوتی ہے، تو ۴ سے ۵ گھنٹے کے لیے سانچے کو چھوڑ دینے سے بھی کام چل جاتا ہے۔ اس کے بعد، آخر میں سانچے کو توڑ کر ڈھلی ہوئی مورتی (مجسمہ) نکال لی جاتی ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ڈوکرا کی ڈھلائی کا فن

مترجم: محمد قمر تبریز

Sreyashi Paul

Sreyashi Paul is an independent scholar and creative copywriter based out of Santiniketan, West Bengal.

Other stories by Sreyashi Paul
Text Editor : Swadesha Sharma

Swadesha Sharma is a researcher and Content Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with volunteers to curate resources for the PARI Library.

Other stories by Swadesha Sharma
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique