’’جنکیہ ہوٹل ہم جیسے لوگوں کے لیے، جن کی لاک ڈاؤن میں نوکری چلی گئی ہے، بہت مددگار ثابت ہو رہا ہے۔،‘‘ ترواننت پورم میں ایم جی روڈ شاخ کے باہر پیک کیا ہوا کھانا خریدنے کا انتظار کرتے ہوئے آر راجو کہتے ہیں۔

ایک ماہ سے زیادہ وقت سے ۵۵ سالہ بڑھئی، راجو روزانہ تین کلومیٹر سائیکل چلاکر جنکیہ ہوٹل پہنچتے ہیں اور صرف ۲۰ روپے میں کھانا خریدتے ہیں – کھانے میں چاول، اچار، تین قسم کا سالن، اور سبزی کا تورن (تلی ہوئی سبزی) ہوتا ہے، جسے وہ بتاتے ہیں کہ ’’عمدہ‘‘ ہے۔

’’جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، تب میں بہت پریشان ہو گیا تھا،‘‘ راجو کہتے ہیں، جنہیں تب سے کوئی کام نہیں مل پایا ہے۔ ’’میرے پاس بہت کم بچت تھی اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں دو مہینے تک کھانا خرید پاؤں گا۔ لیکن یہاں سے کھانا خریدنے پر مجھے ہر مہینے صرف ۵۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

ٹی کے روندرن بھی، جو ایک کال سنٹر میں کام کرتے ہیں، ان دنوں دوپہر کے کھانے کے لیے جنکیہ ہوٹل کے کفایتی کھانے پر ہی منحصر ہیں۔ روندرن ترواننت پورم کے پیٹّہ علاقے میں ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں، جو ایم جی روڈ سے تین کلومیٹر دور ہے۔ وہ دوپہر کا کھانا اپنے دفتر کی کینٹین میں کھایا کرتے تھے۔ لیکن وہ کینٹین ۲۳ مارچ کو بند ہو گئی، جب کیرالہ حکومت نے ۲۵ مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن سے کچھ دن پہلے ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔ ’’دوسرے ریستراں بہت مہنگے ہیں۔ ڈلیوری فیس بھی بہت زیادہ ہے،‘‘ روندرن بتاتے ہیں، جو دو سال پہلے ہی کولّم سے، جو تقریباً ۷۰ کلومیٹر دور ہے، اس شہر میں آئے تھے۔

جنکیہ ہوٹل کی جس شاخ میں وہ اور راجو جاتے ہیں، وہاں پر ۱۰ عورتوں کا ایک گروپ کھانے کے پیکٹ تیار کرنے میں مشغول رہتا ہے۔ یہ عورتیں روزانہ ۵۰۰ لوگوں کے لیے دوپہر کا کھانا بناتی اور پیک کرتی ہیں – اخبار میں لپیٹے ہوئے پلاسٹک والے پیپر میں چاول اور سالن کو گرنے سے بچانے کے لیے سلور فوائل میں پیک کرتی ہیں۔ ان کا صرف پارسل والا ’پبلک (جنکیہ) ہوٹل‘ پیر سے ہفتہ صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۵ بجے تک کھانا مہیا کرواتا ہے۔

Kudumbashree members in the Janakeeya Hotel near Thiruvananthapuram's M.G. Road cook and pack about 500 takeaway meals every day
PHOTO • Gokul G.K.
Kudumbashree members in the Janakeeya Hotel near Thiruvananthapuram's M.G. Road cook and pack about 500 takeaway meals every day
PHOTO • Gokul G.K.

ترواننت پورم کے ایم جی روڈ کے پاس جنکیہ ہوٹل میں کڈمب شری کی رکن روزانہ کھانے کے تقریباً ۵۰۰ پیکٹ پکاتی اور پیک کرتی ہیں

’’ہم لوگ یہاں صبح ۷ بجے آتے ہیں اور فوراً کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہم ۱۰ بجے تک کھانا بنا لیتے ہیں اور پھر فوراً انہیں پیک کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ سبزیاں، باورچی خانہ بند ہونے کے بعد، پچھلے دن ہی کاٹ لی جاتی ہیں،‘‘ کے سروجم بتاتی ہیں، جو اس شاخ کا یومیہ نظم و نسق کرتی ہیں۔ ’’میں زیادہ تر کھانا پکانے میں مدد کرتی ہوں۔ یہاں پر ہر کسی کا کام مقرر ہے۔‘‘

سروجم اور ان کی ٹیم کی دوسری عورتیں کڈمب شری کی رکن ہیں، یہ نام ریاست کیرالہ کے غریبی مٹاؤ مشن کو دیا گیا ہے، جو عورتوں کے گروہوں کی ایک ریاست گیر تنظیم ہے۔ اس کی رکن کیرالہ بھر میں ۴۱۷ (۲۶ مئی تک) جنکیہ ہوٹلوں کا نظم و نسق کرتی ہیں، جو ’کڈمب شری ہوٹلوں‘ کے نام سے مشہور ہیں۔

یہ تنظیم ۱۹۹۸ میں شروع کی گئی تھی، اور اس کی سرگرمیوں میں شامل ہے چھوٹی سطح کی مالی مدد، کھیتی، عورتوں کو با اختیار بنانا اور آدیواسی برادریوں کے لیے ترقی کے پروگرام۔ کڈمب شری مرکزی حکومت کی غذائی تحفظ، روزگار اور معاش سے متعلق اسکیموں کو نافذ کرنے کے لیے بھی ایک نوڈل ایجنسی ہے۔

رعایتی کھانا فراہم کرنے کا یہ پروگرام کڈمب شری مشن اور کیرالہ کی مقامی سرکاری اکائیوں کے ذریعے مشترکہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔ تین کمرے کی ایم جی روڈ شاخ – ایک باورچی خانہ، ایک ہال جہاں کھانا پیک کیا جاتا ہے، اور ایک ڈلیوری کاؤنٹر – میونسپل کارپوریشن کی عمارت میں واقع ہے۔ یہ ترواننت پورم کے ۲۲ جنکیہ ہوٹلوں میں سے ایک ہے۔

دوپہر کے ۲ بجے کے قریب، کاؤنٹر پر گاہکوں کی بھاری بھیڑ ہوتی ہے – جس میں کووڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہاسٹل میں رکے ہوئے طلبہ، طبی معاون، ایمبولینس ڈرائیور، عمارتوں کے سیکورٹی گارڈ، ضروری سامان ڈھونے والی گاڑیوں کے ڈرائیور وغیرہ شامل ہیں۔ ’’ہمارے زیادہ تر گاہک وہ لوگ ہیں جن کا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ذریعہ معاش ختم ہو گیا ہے، جن کے پاس کھانا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، یا وہ لوگ جو خود سے کھانا پکانے کے قابل نہیں ہیں،‘‘ کڈمب شری مشن کی ڈسٹرکٹ کوآرڈنیٹر، ڈاکٹر کے آر شیزو بتاتی ہیں۔

The lunch parcels, priced Rs. 20, are stacked on the counter. They are mostly bought by people left with barely any income in the lockdown
PHOTO • Gokul G.K.
The lunch parcels, priced Rs. 20, are stacked on the counter. They are mostly bought by people left with barely any income in the lockdown
PHOTO • Gokul G.K.

کھانے کے پیکٹ، ۲۰ روپے فی پیکٹ کی قیمت پر، کاؤنٹر پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ پیکٹ زیادہ تر وہ لوگ خریدتے ہیں جن کے پاس لاک ڈاؤن کے دوران آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے

داخلی دروازہ کے پاس کاؤنٹر پر کھانے کے پیکٹوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ ایک کڈمب شری کارکن، ماسک اور دستانے پہنے ہوئے، پیسے لیتی ہیں اور پارسل دیتی ہیں۔ ’’لائن لگنے کے باوجود ہم یقینی بناتے ہیں کہ سماجی دوری کے تمام ضابطوں پر عمل کیا جائے،‘‘ شاخ کی منتظم اور کڈمب شری گروپ کی ایک رکن، ایس لکشمی بتاتی ہیں۔

لکشمی اور سروجم کڈمب شری کی ان ۴ء۵ ملین ارکان میں سے ہیں، جنہیں آس پاس کے گروہوں (این ایچ جی) کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے۔ کیرالہ کے ۷۷ لاکھ گھروں میں سے تقریباً ۶۰ فیصد گھروں کی کم از کم ایک رکن اس مشن سے جڑی ہوئی ہے۔

ہر ایک جنکیہ شاخ کو پاس ہی کے ایک این ایچ جی کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ ایم جی روڈ شاخ کو چلانے والی ٹیم تقریباً پانچ کلومیٹر دور، کوریاتھی کے این ایچ جی کی ہے۔ یہ عورتیں روزانہ کھانے کے تقریباً ۵۰۰ پیکٹ تیار کرتی ہیں، جو زیادہ تر کاؤنٹر بند ہونے سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔ بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کھانا کم پڑ گیا ہو، سروجم بتاتی ہیں۔ ’’اور کبھی کبھی پانچ یا چھ پیکٹ بچ جاتے ہیں، جو ہم گھر لے جاتے ہیں۔‘‘

۸ اپریل کو ایم جی روڈ شاخ کی شروعات اے راجیو کے لیے نعمت ثابت ہوئی، جو صبح ۸ بجے سے شام ۵ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ۲۸ سالہ راجیو، ۲۳ مارچ کو لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے ہی اپنی سامان ڈھونے والی گاڑی سے اسپتالوں اور میڈیکل اسٹور میں دوائیں پہنچا رہے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کا پہلا ہفتہ واقعی میں کافی مشکل تھا کیوں کہ کوئی بھی ریستراں کھلا ہوا نہیں تھا۔ میری ماں صبح میں جلدی اٹھ کر میرے لیے دوپہر کا کھانا بناتی تھیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’یہ شاخ کافی قریب ہے کیوں کہ مجھے اسی علاقے کے ارد گرد ڈلیوری کرنی ہوتی ہے۔ میں یہاں سے ایک مہینے کا کھانا تقریباً ۵۰۰ روپے میں حاصل کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ لوگ اس شاخ کو لاک ڈاؤن کے بعد بھی چلاتے رہیں گے۔ یہ ہمارے جیسے بہت سے لوگوں کے لیے مددگار ہوگا۔‘‘

Left: Rice is packed in coated paper. Right: A. Rajeev with his meal packets. 'I hope they will continue even after the lockdown'
PHOTO • Gokul G.K.
Left: Rice is packed in coated paper. Right: A. Rajeev with his meal packets. 'I hope they will continue even after the lockdown'
PHOTO • Gokul G.K.

بائیں: چاول کو ایک پلاسٹک اور کاغذ سے بنے پیپر میں پیک کیا جاتا ہے۔ دائیں: اے راجیو اپنے کھانے کے پیکٹ کے ساتھ۔ ’مجھے امید ہے کہ یہ لوگ لاک ڈاؤن کے بعد بھی اسے چلاتے رہیں گے‘

جنکیہ کے کھانے نے کرشن کمار اور ان کے بزرگ والدین، جو ان کی آمدنی پر منحصر ہیں، کی بھی مدد کی ہے۔ یہ فیملی شہر کے جنوب میں واقع شری ورہم علاقے میں رہتی ہے۔ ’’میں، ہم تین لوگوں کے لیے روزانہ کھانے کے دو پیکٹ خریدتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اتوار کو ہم لوگ کچھ معمولی سا پکا لیتے ہیں جیسے ڈوسا، یا جو کا ایک پیکٹ ابال لیتے ہیں۔‘‘

کمار لاک ڈاؤن سے پہلے ایک ٹھیکہ دار کے لیے پلمبر کا کام کر رہے تھے، جہاں پر انہیں ۸۰۰ روپے یومیہ مزدوری ملتی تھی اور وہ مہینے میں تقریباً ۱۶ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ ’’ٹھیکہ دار نے مجھے ان دو مہینوں [اپریل اور مئی] کے لیے آدھے مہینہ کی تنخواہ دی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ شاید لاک ڈاؤن کی مدت بڑھ سکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ہمیں کب تک اسی طرح سے تنخواہ دے سکے گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

کڈمب شری ہوٹل ۲۰۲۰ کے شروع میں ریاستی حکومت کے بھوک سے پاک کیرالہ پروگرام کے حصہ کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ ان ہوٹلوں کے تصور کا اعلان ریاست کے وزیر خزانہ تھامس ایزاک کے ذریعے ۷ فروری کو ان کی بجٹ تقریر کے دوران کیا گیا تھا۔

پہلی شاخ الپوژہ ضلع کے منان چیری شہر میں ۲۹ فروری کو شروع کی گئی تھی۔ ۲۴ مارچ کو ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد، ریاست کی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ حکومت نے دیگر شاخیں کھولنے کے لیے کوشش شروع کر دی تھی۔ ۲۶ مئی تک، جنکیہ ہوٹلوں کی تمام شاخوں نے کل ملا کر تقریباً ۹ء۵ ملین کھانے کے پیکٹ بیچے تھے، ہر ایک پیکٹ ۲۰ روپے کی قیمت پر۔

کڈمب شری ریاست کے کئی سرکاری دفتروں میں کینٹین بھی چلاتا ہے۔ لیکن اس کی اراکین نے جنکیہ ہوٹلوں سے پہلے کبھی بھی کچھ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں چلایا تھا۔ سروجم مانتی ہیں کہ انہوں نے جب پہلی بار اس کے بارے میں سنا، تو وہ شک و شبہ میں تھیں۔ ان کے پاس باورچی خانہ چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس کی قیادت کرنا تو دور کی بات ہے۔

Left and centre: K. Sarojam and S. Lekshmi. We had never run anything of this scale,' says Sarojam. Right: The packets are almost over by 3 p.m.
PHOTO • Gokul G.K.
Left and centre: K. Sarojam and S. Lekshmi. We had never run anything of this scale,' says Sarojam. Right: The packets are almost over by 3 p.m.
PHOTO • Gokul G.K.
Left and centre: K. Sarojam and S. Lekshmi. We had never run anything of this scale,' says Sarojam. Right: The packets are almost over by 3 p.m.
PHOTO • Gokul G.K.

بائیں اور بیچ میں: کے سروجم اور ایس لکشمی۔ ’ہم نے پہلے کبھی بھی کچھ اس پیمانے پر نہیں چلایا تھا،‘ سروجم کہتی ہیں۔ دائیں: ۳ بجے تک سارے پیکٹ ختم ہو جاتے ہیں

اپنے این ایچ جی کی صدر ہونے کے ناطے سروجم کے پہلے کے کاموں میں شامل تھا میٹنگ کروانا، قرض کے پیسے تقسیم کرنا، اور کوریاتھی این ایچ جی کی ارکان کے ذریعے چلائے جا رہے پروگراموں جیسے صابن، اچار بنانا اور دستکاری میں تعاون فراہم کرنا۔ ’’ہم نے پہلے کبھی بھی اتنے بڑے پیمانے پر کچھ بھی نہیں چلایا تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ ہم اسے اچھی طرح سے چلا پائیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

کوریاتھی این ایچ جی گروپ نے جنکیہ شاخ کی شروعات کڈمب شری مشن کے ذریعے دی گئی ابتدائی رقم سے کی تھی۔ کیرل اسٹیٹ سول سپلائیز ڈپارٹمنٹ چاول، سبزیاں اور دیگر چیزیں رعایتی شرحوں پر فراہم کرتا ہے اور کرایہ اور فرنیچر جیسے دیگر اخراجات ترواننت پورم کارپوریشن کے ذریعے فراہم کیے جاتے ہیں۔ کڈمب شری مشن ہر پیکٹ کی فروخت پر اپنے ارکان کو ۱۰ روپے کی رعایت دیتا ہے۔ ’’سبھی رعایتوں کو ملاکر کھانے کے ایک پیکٹ کی قیمت ۲۰ روپے سے تھوڑی زیادہ آتی ہے (کڈمب شری کے ذریعے دی گئی ۱۰ روپے کی رعایت سے پہلے)،‘‘ سروجم بتاتی ہیں۔

انہوں نے یہ امید نہیں کی تھی کہ ان کی یہ شاخ اتنی کامیاب ہوگی، وہ کہتی ہیں۔ ’’ہمیں خوشی ہوتی ہے جب لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم لوگ تھوڑا جھجک رہے تھے، لیکن ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ لیا اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے ایسا کیا۔‘‘

دن میں ۳ بجے ایم جی روڈ شاخ کے باہر لگی لائن کم ہونے لگتی ہے۔ عورتوں کی یہ ٹیم باورچی خانہ کی صفائی کرنا شروع کرتی ہے اور دوسرے دن کے لیے سبزیاں کاٹنے لگتی ہے۔

پاس ہی میں کھڑے راجو، اپنے پارسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یہ عورتیں کسی کو بھی بھوکا نہیں جانے دیں گی۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Gokul G.K.

Gokul G.K. is a freelance journalist based in Thiruvananthapuram, Kerala.

Other stories by Gokul G.K.
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique