سُداما آدیواسی کا تجربہ اسپتالوں کے بارے میں بہت اچھا نہیں رہا ہے۔ وہ وارانسی ضلع کے انیئی گاؤں میں رہتی ہیں۔ انہوں نے گھر پر ہی اپنے پانچ بچوں کو کیسے، کب اور کیوں جنم دیا، اس بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اگر میرے بس میں ہوتا، تو میں اسپتال کبھی نہیں جاتی۔ وہاں ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ خود ڈاکٹر ہمارے پاس نہیں آتے، بلکہ نرسوں کو بھیج دیتے ہیں جو الٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں، مثلاً ’یہ رہتی کیسے ہیں! ان میں بدبو آ رہی ہے، یہ کہاں سے آئی ہیں؟‘‘‘

گزشتہ ۱۹ سالوں میں سُداما کے نو بچے پیدا ہوئے۔ اب وہ ۴۹ سال کی ہو چکی ہیں، لیکن اس عمر میں بھی اُن کا حیض آنا بند نہیں ہوا ہے۔

وہ بڑا گاؤں بلاک میں واقع اس گاؤں کے ایک سرے پر موجود، ۵۷ کنبوں پر مشتمل موسہر بستی میں رہتی ہیں، جس کے دونوں طرف ٹھاکر، برہمن، گپتا جیسی بڑی ذات والوں کے گھر ہیں۔ یہاں پر کچھ مسلمانوں کے بھی گھر ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ دوسری درج فہرست ذات کے لوگ بھی رہتے ہیں، جیسے کہ چمار، دھارکر اور پاسی۔ بستی کو دیکھنے سے اس برادری سے جڑی کئی دقیانوسی باتیں صحیح ثابت ہونے لگتی ہیں – آدھے جسم پر کپڑے، گرد و غبار میں لپٹے بچے، جن کے پتلے چہرے پر کھانے کی جھوٹن لگی ہونے کی وجہ سے مکھیاں بھنک رہی ہیں، اور چاروں طرف حد سے زیادہ گندگی۔ لیکن قریب سے دیکھنے پر کچھ اور ہی نظارہ سامنے آتا ہے۔

اتر پردیش کی درج فہرست ذاتوں میں شامل موسہر بنیادی طور پر چوہے پکڑنے میں ماہر ہوتے تھے، جو بصورت دیگر کھیتی کو برباد کر دیتے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کا پیشہ بدنامی کا باعث بن گیا، اور انہیں ’چوہے کھانے والا‘ کہا جانے لگا – ’موسہر‘ کا مطلب یہی ہے۔ یہ برادری دوسرے سماجی گروہوں کی طرف سے بے دخلی اور تذلیل کی شکار ہے، حکومتوں نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے، اور یہ لوگ انتہائی محرومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پڑوسی ریاست بہار میں، انہیں ’ مہا دلت ‘ کے زمرہ میں رکھا گیا ہے – یعنی درج فہرست ذاتوں کے درمیان سب سے غریب اور استحصال زدہ طبقوں میں سے ایک۔

Sudama Adivasi and her children, on a cot outside their hut in Aneai village. 'We have seen times when our community was not supposed to have such cots in our huts. They were meant for the upper castes only,' says Sudama
PHOTO • Jigyasa Mishra

انیئی گاؤں میں اپنی جھونپڑی کے باہر ایک چارپائی پر بیٹھی ہوئی سُداما آدیواسی اور ان کے بچے۔ سداما کہتی ہیں، ’ہم نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب ہماری کمیونٹی کو اپنی جھونپڑیوں میں چارپائی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ صرف اونچی ذات والوں کے لیے ہوا کرتی تھی‘

انیئی گاؤں میں کم غذائیت کی شکار اس بستی کے وسط میں، سُداما مٹی اور گھاس پھوس سے بنی اپنی جھونپڑی کے باہر ایک چارپائی پر بیٹھی ہیں۔ اس چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہم نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے جب ہماری کمیونٹی کو اپنی جھونپڑیوں میں چارپائی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ صرف اونچی ذات والوں کے لیے ہوا کرتی تھی۔ گاؤں میں گھومتے ہوئے اگر ٹھاکر ہمیں ان چارپائیوں پر بیٹھا ہوا دیکھ لیتے، تو پتہ نہیں کیا کیا سناتے!‘‘ ان کی مراد گندی گالیوں سے ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ آج کل بھلے ہی یہ لگ رہا ہو کہ لوگ اب ذات میں زیادہ یقین نہیں رکھتے، لیکن ان کی زندگیوں میں یہ اب بھی موجود ہے۔ ’’اب تو [یہاں کے] ہر گھر میں چارپائی ہے، اور لوگ ان پر بیٹھتے بھی ہیں۔‘‘ حالانکہ عورتوں کو اب بھی یہ سہولت حاصل نہیں ہے: ’’عورت نہیں بیٹھ سکتی – خاص کر جب اس کے بزرگ [ساس سسر] آس پاس ہوں۔ ایک بار تو میری ساس ہمارے پڑوسیوں کے سامنے میرے اوپر چیخنے لگیں کیوں کہ میں اس وقت چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی۔‘‘

سُداما کے تین بچے چارپائی کے چاروں طرف دوڑ رہے ہیں، جب کہ چوتھا بچہ ان کی گود میں ہے۔ میں نے جب ان سے سوال کیا کہ ان کے کل کتنے بچے ہیں، تو وہ تھوڑا کنفیوز ہو جاتی ہیں۔ جواب میں پہلے تو وہ سات کہتی ہیں، پھر سسرال میں رہ رہی اپنی شادی شدہ بیٹی، آنچل کی یاد آنے پر وہ خود کو درست کرتی ہیں۔ اور اس کے بعد، پچھلے سال اپنے ایک بچے کی موت کو یاد کرتے ہوئے وہ خود کو دوبارہ صحیح کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ آخر میں، وہ انگلیوں پر اپنے سات بچوں کو گنتی ہیں جو اس وقت ان کے ساتھ موجود ہیں: ’’۱۹ سال کا رام بالک، ۱۷ سال کی سادھنا، ۱۳ سال کا بکاس، ۹ سال کا شیو بالک، ۳ سال کی ارپیتا، ۴ سال کا آدتیہ، اور انوج جو ابھی ڈیڑھ سال کی ہے۔‘‘

پڑوس کی کچھ عورتوں کو ہماری بات چیت میں شامل ہونے کی دعوت دینے کے لیے، وہ اپنی بیٹی کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ارے جاؤ، اور جا کے چاچی لوگوں کو بلا لو۔‘‘ اس کے بعد سُداما اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے آگے کہتی ہیں، ’’شادی کے وقت میری عمر ۲۰ سال رہی ہوگی، لیکن تین یا چار بچے پیدا ہونے سے پہلے مجھے کنڈوم یا آپریشن [نس بندی] کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ آخر میں، جب مجھے ان کے بارے میں معلوم ہوا، تو میں آپریشن کرانے کی ہمت کبھی نہیں جُٹا سکی۔ مجھے ڈر لگتا تھا کہ آپریشن کرانے میں بہت درد ہوگا۔‘‘ ایسا کرانے کے لیے انہیں گاؤں سے ۱۰ کلومیٹر دور، بڑا گاؤں بلاک ہیڈکوارٹر میں واقع پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) جانا پڑتا۔ مقامی پی ایچ سی میں ایسے آپریشن کا انتظام نہیں ہے۔

Sudama with her youngest child, Anuj.
PHOTO • Jigyasa Mishra
She cooks on a mud chulha in her hut. Most of the family’s meals comprise of rice with some salt or oil
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: سُداما اپنی سب سے چھوٹی بچی، انوج کے ساتھ۔ دائیں: وہ اپنے گھر میں بنے مٹی کے چولہے پر کھانا پکاتی ہیں۔ چاول کے ساتھ تھوڑا نمک یا تیل – اس سے زیادہ یہاں کے لوگوں کو کچھ بھی میسر نہیں ہے

سُداما خاتونِ خانہ ہیں، جو اپنے ۵۷ سالہ شوہر رام بہادر کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ ’’دھان کے کھیت میں ہیں، کیوں کہ بوائی کا موسم چل رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ یہاں کے دیگر لوگوں کی طرح ہی، آس پاس کے شہروں میں تعمیراتی مقامات پر کام کرنے چلے جائیں گے۔

یہاں کی موسہر برادری کے زیادہ تر مردوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے، اس لیے وہ دوسروں کے کھیتوں پر مزدوری کرتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ ادھیا، تیسریا یا چوتھیا کی بنیاد پر کھیتی کرتے ہیں (جس میں کسی اور کی زمین پر بٹائی دار کھیتی کی جاتی ہے، جس سے بٹائی دار کو آدھی، ایک تہائی یا ایک چوتھائی فصل ملتی ہے)۔ سداما کے شوہر تیسریا کی بنیاد پر کھیتی کرتے ہیں اور اپنے حصے کی فصل میں سے کچھ کو فروخت کرکے اپنی فیملی کے لیے ضروری سامان کا انتظام کرتے ہیں۔

آج، سداما نے دوپہر کے کھانے میں چاول بنایا ہے۔ جھونپڑی کے اندر مٹی کے چولہے پر چاول کا وہ برتن رکھا ہوا ہے۔ چاول کے ساتھ تھوڑا نمک یا تیل – اس سے زیادہ یہاں کے لوگوں کو کچھ بھی میسر نہیں ہے۔ اگر کوئی اچھا دن رہا، تو چاول کے ساتھ انہیں دال، سبزی یا چکن (مرغ کا گوشت) کھانے کو مل جاتا ہے۔ روٹی شاید ہفتہ میں ایک بار کھانے کو ملتی ہے۔

اُن کی بیٹی سادھنا، اسٹیل کی پلیٹ میں اپنے بھائی بہنوں کو کھانا پروستے ہوئے کہتی ہے، ’’ہم آم کے اچار کے ساتھ چاول کھائیں گے۔‘‘ سب سے چھوٹی، انوج، سادھنا کے پلیٹ سے کھا رہی ہے جب کہ رام بالک اور بکاس ایک ہی پلیٹ میں کھا رہے ہیں۔

The caste system continues to have a hold on their lives, says Sudama.
PHOTO • Jigyasa Mishra
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: سُداما کہتی ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ذات کا غلبہ آج بھی موجود ہے۔ دائیں: انیئی کی موسہر بستی میں کام کرنے والی حقوق انسانی کی ایک کارکن، سندھیا کہتی ہیں کہ یہاں کی ہر عورت انیمیا کی شکار ہے

اب ہمارے ساتھ محلہ کی کچھ اور عورتیں شامل ہو چکی ہیں۔ انہی میں سے ایک ۳۲ سالہ سندھیا بھی ہیں، جو مانوادھیکار جن نگرانی سمیتی نام کے ایک انسانی حقوق کے گروپ کی رکن کے طور پر اس بستی میں پچھلے پانچ سال سے کام کر رہی ہیں۔ سندھیا اپنی بات، بڑے پیمانے پر انیمیا (بدن میں خون کی کمی) کے مسئلہ سے شروع کرتی ہیں۔ اگرچہ ۱۶-۲۰۱۵ کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۴ (این ایف ایچ ایس۔۴) میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش کی ۵۲ فیصد عورتیں انیمیا کی شکار ہو سکتی ہیں، لیکن سندھیا کے مطابق، انیئی کی ۱۰۰ فیصد عورتیں درمیانی یا شدید انیمیا میں مبتلا ہیں۔

سندھیا مزید بتاتی ہیں، ’’ہم نے حال ہی میں اس گاؤں کی تمام عورتوں کی پوشن میپنگ [غذائیت کی جانچ] کی تھی، جس میں پتہ چلا کہ ایک بھی عورت کا ہیموگلوبن ۱۰ گرام فی ڈیسی لیٹر سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، ان عورتوں میں لیوکوریا اور کیلشیم کی کمی عام طور سے پائی جاتی ہے۔‘‘

صحت سے متعلق ان مسائل اور خرابیوں کے ساتھ ہی صحت عامہ کے نظام سے ان کا اعتماد اُٹھ چکا ہے، جہاں انہیں نام سے پکارا جاتا ہے اور زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس لیے جب تک کہ کوئی ایمرجنسی نہ ہو، یہ عورتیں اسپتال نہیں جاتیں۔ کلینک کے بارے میں اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے سُداما کہتی ہیں، ’’میری پہلی پانچ ڈیلیوری (زچگی) گھر پر ہی ہوئی تھی۔ اس کے بعد آشا [منظور شدہ سماجی صحت کارکن] نے مجھے اسپتال لے جانا شروع کر دیا۔‘‘

پڑوس میں رہنے والی، ۴۷ سالہ دُرگامتی آدیواسی غصے سے کہتی ہیں، ’’ڈاکٹر ہمارے ساتھ بھید بھاؤ کرتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اصلی چیلنج تو خود گھر پر شروع ہوتا ہے۔ سرکار، ڈاکٹر، اور ہمارے آدمی بھی ہمیں نیچی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ [مرد] صرف جسم کا مزہ لوٹنا جانتے ہیں، اس کے نتائج کے بارے میں نہیں جانتے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی صرف ایک ہی ذمہ داری ہے – فیملی کا پیٹ بھرنا۔ باقی سارا کام ہم عورتوں کا ہے۔‘‘

The lead illustration by Jigyasa Mishra is inspired by the Patachitra painting tradition.

صحت سے متعلق مسائل اور خرابیوں کے ساتھ ہی صحت عامہ کے نظام سے ان کا اعتماد اُٹھ چکا ہے، جہاں انہیں نام سے پکارا جاتا ہے اور زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اس لیے جب تک کہ کوئی ایمرجنسی نہ ہو، یہ عورتیں اسپتال نہیں جاتیں

انیئی میں آئرن کی گولیاں بانٹنے آئیں ۴۵ سالہ آشا کارکن، منورما سنگھ کہتی ہیں، ’’ہر برادری میں مہیلا (عورت) ہی آپریشن کراتی ہے۔ پورے گاؤں میں گھوم کر دیکھ لیجئے – آپ کو ایسا ایک بھی مرد نہیں ملے گا جس نے نس بندی کرائی ہو۔ بھگوان ہی جانتا ہے کہ بچے پیدا کرنا اور اپنا آپریشن بھی کرانا صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں ہے۔‘‘ سال ۲۱-۲۰۱۹ کے این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق، وارانسی میں صرف صفر اعشاریہ ۱ فیصد مردوں نے ہی نس بندی کرائی ہے، جب کہ عورتوں میں یہ تعداد ۲۳ اعشاریہ ۹ فیصد ہے۔

این ایف ایچ ایس۔۴ میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ: ’’اتر پردیش میں ۱۵ سے ۴۹ سال کے تقریباً ۳۸ فیصد مردوں کا ماننا ہے کہ نس بندی کرانا عورتوں کا کام ہے، اور آدمی کو اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

گاؤں میں کیے گئے اپنے کام کی بنیاد پر، سندھیا کا بھی یہی خیال ہے۔ ’’ہم لوگ فعال طریقے سے انہیں [مردوں کو] خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں بتاتے رہے ہیں اور ساتھ ہی کنڈوم بھی تقسیم کرتے ہیں۔ زیادہ تر معاملوں میں، اپنی بیوی کے کہنے کے باوجود مرد کنڈوم کا استعمال نہیں کرتے۔ حمل بھی تبھی رکتا ہے جب فیملی اور خود عورت کا شوہر اسے روکنا چاہے۔‘‘

این ایف ایچ ایس۔۴ کے مطابق، اتر پردیش میں ۱۵ سے ۴۹ سال کی شادی شدہ عورتوں میں مانع حمل کے استعمال کی شرح (سی پی آر) ۴۶ فیصد تھی، جو این ایف ایچ ایس۔۳ کے مقابلے تھوڑا زیادہ ہے، جس میں یہ شرح ۴۴ فیصد تھی۔ سروے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اتر پردیش کی عورتوں میں مانع حمل کے استعمال کا امکان تب زیادہ ہوتا ہے جب ان کے پاس پہلے سے ہی کوئی بیٹا ہو۔ منورما کے ساتھ آئیں ایک اور آشا کارکن، تارا دیوی، جو قریب کی دوسری بستی میں کام کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’’ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی فیملی پلاننگ (خاندانی منصوبہ بندی) کی پرواہ نہیں ہے، خاص کر مردوں کو۔ یہاں کے کنبوں میں بچوں کی اوسط تعداد چھ ہے۔ زیادہ تر یہ تبھی رکتا ہے جب عمر بڑی ہو جائے۔ اور مردوں سے پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ وہ نس بندی کا درد اور اس کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

سُداما کہتی ہیں، ’’انہیں کمانا ہوتا ہے اور فیملی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں، میں یہ کیسے سوچ سکتی ہوں کہ وہ اپنا آپریشن کرالیں؟ یہ تو کوئی متبادل ہی نہیں ہے۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

جگیاسا مشرا ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے توسط سے صحت عامہ اور شہریوں کی آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کوئی ادارتی کنٹرول نہیں کیا ہے۔

جگیاسا مشرا کے ذریعے بنایا گیا بنیادی خاکہ ’پت چتر‘ پینٹنگ کی روایت سے متاثر ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Illustration : Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez