منگلا ہریجن اُن سبھی گاؤوں کو یاد کرتی ہیں، جہاں وہ کام کرنے جا چکی ہیں۔ کرناٹک کے ہاویری ضلع کے ہِریکیرور تعلقہ میں آنے والے گاؤں کا نام لیتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’کُنچور، کوراگُنڈ، کیاتنکیری... میں ایک سال رتّی ہلّی بھی گئی تھی۔‘‘ زرعی مزدور منگلا، کھیتوں میں مزدوری کے لیے دور افتادہ علاقے میں واقع اپنے گاؤں سے روزانہ تقریباً ۱۷ سے ۲۰ کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’’میں دو سال سے کونن تلی جا رہی ہوں۔‘‘ کونن تلی اور منگلا کا گاؤں مینا شینہل، دونوں ہاویری کے رانے بینور تعلقہ میں واقع ہیں۔ وہاں سے ہریکیرور تعلقہ تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور ہے۔ منگلا، اور مینا شینہل کے مڈیگا کیری کی دوسری خواتین ۸ سے ۱۰ لوگوں کے چھوٹے گروہوں میں کام کرنے کے لیے ہاویری جاتی ہیں۔ ان تمام عورتوں کا تعلق دلت برادری، مڈیگا سے ہے۔

ان میں سے ہر عورت ۱۵۰ روپے یومیہ کماتی ہے، لیکن جب وہ ہاتھ سے زیرہ پوشی کا کام کرتی ہیں، تو سال کے اُن مہینوں میں ان کی کمائی بڑھ کر ۲۴۰ روپے یومیہ ہو جاتی ہے۔ اس کام کے لیے وہ پورے ضلع کا سفر کرتی ہیں، اور جن کسانوں کے کھیتوں میں یہ خواتین کام کرتی ہیں وہ آٹو رکشہ سے انہیں کھیتوں تک لے جاتے ہیں اور کام کے بعد گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ منگلا کہتی ہیں، ’’آٹو ڈرائیور ہر دن کا ۸۰۰ سے ۹۰۰ روپے لیتے ہیں۔ اس لیے، کسان ہم تمام لوگوں کی مزدوری میں سے ۱۰ روپے کاٹ لیتے ہیں۔ پہلے آٹو کی سہولت نہیں تھی۔ ہم پیدل ہی آتے جاتے تھے۔‘‘

منگلا ۳۰ سال کی ہیں۔ وہ اوسط قد کی اور دیکھنے میں دبلی پتلی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پھوس سے بنی جھونپڑی میں رہتی ہیں، جس میں صرف ایک کمرہ ہے۔ ان کے شوہر بھی ایک دہاڑی مزدور ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ ان کی جھونپڑی میں ایک بلب جل رہا ہے، اور وہیں ایک کونے میں کھانا بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، دوسرے کونے میں سارے کپڑے رکھے جاتے ہیں۔ اسٹیل کی ایک ٹوٹی ہوئی الماری دیوار کے دوسری طرف کھڑی کر دی گئی ہے اور کمرے کے درمیان میں بچی جگہ کا استعمال کھانا کھانے اور سونے کے لیے کیا جاتا ہے۔ باہر، ایک پتھر کو اٹھا کر رکھا گیا ہے، جہاں پر کپڑے اور برتن دھوئے جاتے ہیں۔

Mangala Harijan (left) and a coworker wear a plastic sheet to protect themselves from rain while hand pollinating okra plants.
PHOTO • S. Senthalir
Mangala and other women from Menashinahal village in Ranibennur taluk, working at the okra farm in Konanatali, about 12 kilometres away
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: منگلا ہریجن (بائیں) اور ان کی ساتھی کارکن، بھنڈی کے پودوں کی ہاتھ سے زیرہ پوشی کرتے وقت بارش سے خود کو بچانے کے لیے پلاسٹک کی چادر اوڑھے ہوئے۔ دائیں: رانے بینور تعلقہ کے مینا شینہل گاؤں کی منگلا اور دیگر خواتین، تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور واقع کونن تلی میں بھنڈی کے کھیت میں کام کرتے ہوئے

منگلا کہتی ہیں، ’’زیرہ پوشی کے کام کے لیے، ہمیں اس سال یومیہ ۲۴۰ روپے دیے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال تک، ہمیں صرف ۲۳۰ روپے دیے جاتے تھے۔‘‘ ان کے جیسے مزدور ہاتھ سے زیرہ پوشی کا کام کرتے ہیں (فصلوں کو جب بیج کے لیے کاٹا جاتا ہے)، اس عمل کو کراس یا کراسنگ کہتے ہیں۔

سردیوں اور مانسون کے موسم میں، جب ہاتھ سے زیرہ پوشی کا کام آتا ہے، تو منگلا مہینہ میں کم از کم ۱۵-۲۰ دن کام پر جاتی ہیں۔ وہ بیجوں کے لیے ٹماٹر، بھنڈی اور لوکی کی ہائبرڈ قسموں کی افزائش میں مدد کرتی ہیں، کسان جس کی پیداوار پرائیویٹ بیج کمپنیوں کے لیے کرتے ہیں۔ نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا (این ایس اے آئی) کے مطابق، ہندوستان میں ہائبرڈ سبزیوں کے بیج کی صنعت کی مالیت ۲۶۰۰ کروڑ روپے (۳۴۹ ملین ڈالر) ہے، جس کے لیے منگلا پودوں کے پھولوں کی پہلی سطح پر زیرہ پوشی کرتی ہیں۔ مہاراشٹر اور کرناٹک، ملک میں سبزی کے بیجوں کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والی ریاستیں ہیں، اور کرناٹک میں ہاویری اور کوپّل ضلعے سبزیوں کے بیج کی پیداوار کے مرکز ہیں۔

ہاویری کے دیہی علاقوں میں عورتیں تھوڑی زیادہ کمائی کرنے کے لیے، اپنے گاؤں کے کھیتوں میں کام کرنے کے مقابلے لمبا سفر طے کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ ۲۸ سالہ رضیہ علاء الدین شیخ سنّدی، شادی کے بعد چار سال تک ظلم برداشت کرنے کے بعد اپنے سسرال سے بھاگ گئیں اور ہریکیرور میں واقع اپنے میکہ، کُڈا پلی گاؤں لوٹ آئیں، تو انہیں اپنی دونوں بیٹیوں کی پرورش کے لیے کام تلاش کرنا پڑا۔

ان کے گاؤں میں کسان مکئی، کپاس، مونگ پھلی اور لہسن کی کھیتی کرتے ہیں۔ رضیہ بتاتی ہیں، ’’ہمیں ایک دن میں صرف ۱۵۰ روپے ملتے ہیں [کھیت میں مزدوری کے لیے]۔ ہم اس سے ایک لیٹر تیل بھی نہیں خرید سکتے۔ اس لیے، ہم کام کے لیے دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔‘‘ جب رضیہ کی پڑوسن نے انہیں ہاتھ سے زیرہ پوشی کرنے والوں کے گروپ میں شامل ہونے کو کہا، تو انہوں نے زیادہ سوچا نہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں گھر پر رہ کر کیا کروں گی۔ اس لیے، وہ مجھے اپنے ساتھ کام پر لے گئیں۔ ہمیں اس کام کے لیے ایک دن کے ۲۴۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘

Rajiya Aladdin Shekh Sannadi harvesting the crop of hand-pollinated tomatoes in Konanatali village in Haveri district
PHOTO • S. Senthalir
Rajiya Aladdin Shekh Sannadi harvesting the crop of hand-pollinated tomatoes in Konanatali village in Haveri district
PHOTO • S. Senthalir

ہاویری ضلع کے کونن تلی گاؤں میں ہاتھ سے زیرہ پوشی والے ٹماٹر توڑتیں رضیہ علاء الدین شیخ سنّدی

رضیہ دیکھنے میں دبلی پتلی اور لمبی ہیں۔ ۲۰ سال کی عمر میں ان کی شادی ایک شرابی سے کر دی گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ گدگ ضلع کے شِرہٹّی تعلقہ میں رہنے لگیں۔ رضیہ کے والدین نے اپنی حیثیت کے مطابق شادی میں سب کچھ دیا تھا، لیکن اس کے بعد بھی جہیز کے لیے رضیہ پر ظلم ڈھائے جاتے رہے۔ رضیہ کہتی ہیں، ’’میرے والدین نے ۲۴ گرام سونا اور ۳۵ ہزار نقد دیا تھا۔ ہماری برادری میں، ہم بہت سارے برتن اور کپڑے بھی دیتے ہیں۔ انہیں دینے کے بعد گھر میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ میرا شوہر شادی سے پہلے ہوئے ایک حادثہ کے معاملے میں ملزم تھا۔ وہ مجھ سے کہتا رہتا تھا کہ میں قانونی خرچ کے لیے، اپنے والدین سے ۵ ہزار یا ۱۰ ہزار روپے مانگوں۔‘‘

رضیہ کے شوہر نے ان کے جانے کے بعد، خود کو رنڈوا (جس کی بیوی مر گئی ہو) بتا کر دوسری شادی کر لی ہے۔ رضیہ نے چار مہینے پہلے، اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا، جس میں نان نفقہ اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے معاوضہ کی مانگ کی تھی۔ رضیہ کہتی ہیں، ’’وہ ایک بار بھی اپنے بچوں سے ملنے نہیں آیا۔‘‘ رضیہ کو خواتین کمیشن اور خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے محکمہ جیسے اداروں کے بارے میں نہیں پتہ ہے، جہاں سے وہ مدد مانگ سکتی ہیں۔ زرعی مزدوری کے لیے، سرکاری فلاحی اسکیموں کا فائدہ اٹھانے میں ان کی رہنمائی کرنے والا گاؤں میں کوئی بھی نہیں ہے۔ وہ کسانوں کو ملنے والے کسی بھی فائدے کے لیے بھی دعویٰ نہیں کر سکتیں، کیوں کہ انہیں کسان نہیں مانا جاتا ہے۔

رضیہ مجھ سے کہتی ہیں، ’’اگر مجھے اسکول میں باورچی کی نوکری مل جاتی، تو میری ریگولر آمدنی ہونے لگتی۔ لیکن ایسی نوکری صرف انہیں ہی ملتی ہے جن کی جان پہچان ہوتی ہے۔ میں کسی کو نہیں جانتی۔ سب کہتے ہیں کہ چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی، لیکن مجھے اکیلے ہی کام کرنا ہے، میری مدد کے لیے کوئی نہیں ہے۔‘‘

رضیہ جس کسان کے لیے کام کرتی ہیں، وہ ایک بڑی ملٹی نیشنل بیج کمپنی کو بیج فروخت کرتا ہے۔ اس کمپنی کی سالانہ مالیت ۲۰۰ سے ۵۰۰ کروڑ روپے کے درمیان ہے، لیکن رضیہ اس وسیع مالیت کا بس ایک چھوٹا اور معمولی سا حصہ کماتی ہیں۔ رانے بینور تعلقہ کے ۱۳ گاؤوں میں بیج کی پیداوار پر نظر رکھنے والا، اس بیج کمپنی کا ایک ملازم کہتا ہے، ’’یہاں [ہاویری ضلع میں] پیدا ہونے والے بیج نائجیریا، تھائی لینڈ، پاکستان، آسٹریلیا اور امریکہ بھیجے جاتے ہیں۔‘‘

Women from Kudapali village in Haveri's Hirekerur taluk preparing to harvest the 'crossed' tomatoes in Konanatali. They are then crushed to remove the seeds.
PHOTO • S. Senthalir
Leftover pollen powder after the hand-pollination of tomato flowers
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: ہاویری کے ہریکیرور تعلقہ کے کُڈا پلی گاؤں کی عورتیں، کونن تلی میں ’کراسڈ‘ ٹماٹر کی فصل کی کٹائی کی تیاری کر رہی ہیں۔ پھر انہیں بیج نکالنے کے لیے مسلا جاتا ہے۔ دائیں: ٹماٹر کے پھولوں کی ہاتھ سے زیرہ پوشی کرنے کے بعد بچا ہوا زر گل

منگلا جیسی مہاجر مزدور عورتیں، ہندوستان میں بیج کی پیداوار کے کام کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں۔ این ایس اے آئی کا تخمینہ ہے کہ ملک کی بیج صنعت کم از کم ۲۲۵۰۰ کروڑ روپے (۳ بلین ڈالر) کی ہے، جو کہ دنیا میں پانچویں مقام پر ہے۔ ہائبرڈ بیج صنعت، جس میں مکئی، باجرا، کپاس، سبزی کی فصلیں، ہائبرڈ چاول اور تلہن کے بیج شامل ہیں، ۱۰ ہزار کروڑ روپے (ایک اعشاریہ ۳۳ بلین ڈالر) کی ہے۔

سرکاری پالیسیوں کی مدد سے گزشتہ کچھ برسوں میں، بیج صنعت میں پرائیویٹ سیکٹر ایک اہم رول نبھانے لگا ہے۔ اس سال مارچ میں زراعت اور کسانوں کی فلاح و بہبود کی وزارت کے ذریعے لوک سبھا میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق، ملک میں کل ۵۴۰ پرائیویٹ بیج کمپنیاں ہیں۔ ان میں سے ۸۰ کمپنیاں تحقیق و ترقی سے متعلق کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں بیج کی پیداوار میں پرائیویٹ سیکٹر کی حصہ داری ۲۰۱۷-۱۸ میں ۵۷ اعشاریہ ۲۸ فیصد تھی اور اب ۲۰۲۰-۲۱ میں بڑھ کر ۶۴ اعشاریہ ۴۶ فیصد ہو گئی ہے۔

اربوں ڈالر کی قیمت والے بیج کے شعبہ کی ترقی سے، ہاویری میں رہنے والی منگلا اور دوسری خواتین زرعی مزدوروں کی زندگی کے معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ منگلا کی ۲۸ سالہ پڑوسن دیپا دونیپّا پُجار کہتی ہیں: ’’ایک کلو سبزی کے بیج کے لیے وہ [کسان] ۱۰-۲۰ ہزار روپے تک کما سکتے ہیں۔ سال ۲۰۱۰ میں وہ فی کلو بیج کے ۶۰۰۰ روپے تک کما لیتے تھے، لیکن اب وہ ہمیں اپنی کمائی نہیں بتاتے ہیں۔ وہ بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ کمائی پہلے کی طرح ہی ہے۔‘‘ دیپا کہتی ہیں کہ ان کے جیسے زرعی مزدوروں کی مزدوری بڑھنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہماری یومیہ مزدوری بڑھائی جانی چاہیے۔ ہم کڑی محنت کرتے ہیں، لیکن کچھ بچا نہیں پاتے ہیں؛ ہم سے کوئی بچت نہیں ہو پاتی ہے۔‘‘

دیپا بتاتی ہیں کہ ہاتھ سے زیرہ پوشی کے کام کے ساتھ ساتھ، ان پر اور بھی کئی کاموں کا بوجھ ہوتا ہے۔ ’’یہ کافی محنت کا کام ہے۔ ہمیں کھانا بنانا ہوتا ہے۔ جھاڑو لگانا ہوتا ہے، گھر صاف کرنا پڑتا ہے، برتن دھونے ہوتے ہیں... ہمیں سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

دیپا کہتی ہیں، ’’جب ہم زیرہ پوشی کے لیے جاتے ہیں، تو وہ [کسان] صرف وقت دیکھتے ہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی تاخیر سے پہنچتے ہیں، تو وہ ہم سے کہتے ہیں کہ اگر ہم دیر سے پہنچیں گے، تو وہ ہمیں ۲۴۰ روپے کیسے دیں گے۔ ہم شام کو ساڑھے پانچ بجے وہاں سے نکلتے ہیں اور گھر پہنچتے پہنچتے ساڑھے سات بج جاتے ہیں۔ اس کے بعد، ہمیں گھر کی صفائی کرنی ہوتی ہے، پھر چائے پیتے ہیں، اور رات کا کھانا بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ جب ہم سونے جاتے ہیں، تب تک آدھی رات ہو چکی ہوتی ہے۔ یہاں پر کوئی کام نہ ہونے کے سبب ہی ہمیں وہاں کام کرنے جانا پڑتا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ پھولوں کے سِمہ (اسٹگما) کو دیکھ کر ان کی آنکھیں تن جاتی ہیں۔ ’’اس کا سائز کسی بال جیسا ہوتا ہے۔‘‘

A woman agricultural labourer peels the outer layer of an okra bud to expose the stigma for pollination.
PHOTO • S. Senthalir
Deepa Doneappa Pujaar (in grey shirt) ties the tomato plants to a wire while preparing to pollinate the flowers at a farm in Konanatali
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: زیرہ پوشی کے لیے سِمہ (اسٹگما) کو باہر نکالنے کے لیے، ایک خاتون زرعی مزدور بھنڈی کی کلی کی باہری پرت کو چھیلتی ہوئی۔ دائیں: کونن تلی کے ایک کھیت میں پھولوں کی زیرہ پوشی کرنے کی تیاری کر رہیں دیپا دونیپّا پُجار (خاکستری شرٹ میں) ٹماٹر کے پودوں کو تار سے باندھی ہوئیں

ہاتھ سے زیرہ پوشی کرنے والے لوگوں کی مانگ محدود وقت تک ہی ہونے کے سبب، عورتوں کو سال کے بقیہ مہینوں میں کم مزدوری والے کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ دیپا کہتی ہیں، ’’زیرہ پوشی کا موسم ختم ہونے کے بعد، ہم ۱۵۰ روپے یومیہ والے کام پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اتنے پیسے میں آج کیا ملتا ہے؟ ایک کلو پھل کی قیمت ۱۲۰ روپے ہوتی ہے۔ ہمیں بچوں کے لیے اسنیکس، کیرانے کا سامان، اور رشتہ داروں کے آنے پر مہمان نوازی کرنی پڑتی ہے۔ اگر ہم سنتھے [ہفتہ واری بازار] نہ جائیں، تو ہم کچھ بھی نہیں خرید پاتے۔ اس لیے ہم بدھ کے روز کام پر نہیں جاتے ہیں۔ ہم پورے ہفتہ کی ضرورت کا سامان خریدنے کے لیے، تُمّیناکٹّی [تقریباً ڈھائی کلومیٹر دور] میں لگنے والے سنتھے تک پیدل جاتے ہیں۔‘‘

مزدوروں کے کام کا کوئی متعینہ وقت نہیں ہے، اور ان کا کام فصل کی کٹائی کی بنیاد پر موسم در موسم الگ ہوتا ہے۔ دیپا کہتی ہیں، ’’جب ہم مکئی کی فصل کاٹنے جاتے ہیں، تو ہم صبح چار بجے اٹھتے ہیں اور پانچ بجے تک کھیت پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی، اگر سڑک کچی ہے تو آٹو نہیں آ پاتا اور ہمیں چل کر جانا پڑتا ہے۔ اس لیے، ہم روشنی کے لیے موبائل [فون] یا بیٹری والا ٹارچ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ہم دوپہر ایک بجے گھر آ جاتے ہیں۔‘‘ مونگ پھلی کی فصل کاٹنے کے لیے، وہ علی الصبح ۳ بجے نکل جاتے ہیں اور دوپہر سے پہلے گھر آ جاتے ہیں۔ ’’مونگ پھلی کی کٹائی کے لیے، ہمیں ۲۰۰ روپے روزانہ ملتے ہیں، لیکن یہ کام صرف ایک مہینہ تک ہی چلتا ہے۔‘‘ کسان کبھی کبھی انہیں لینے کے لیے گاڑی بھیجتے ہیں۔ ’’نہیں تو وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ہم خود ہی دیکھ لیں کہ کیسے آنا جانا ہے۔‘‘

ان سب کے علاوہ، کام کرنے والی جگہوں پر بنیادی سہولیات کا بھی فقدان رہتا ہے۔ دیپا کہتی ہیں، ’’ایک بھی بیت الخلاء نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں ایسی جگہ تلاش کرنی ہوتی ہے جہاں کوئی ہمیں دیکھ نہ سکے۔ زمیندار ہم سے کہتے ہیں کہ آنے سے پہلے ہم گھر پر ہی نمٹ کر آئیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس سے کام کا وقت برباد ہوتا ہے۔‘‘ حیض ہونے پر ان کی مشکلیں بڑھ جاتی ہیں۔ ’’جب ہمارے پیریڈز ہوتے ہیں، تو ہم موٹے کپڑے یا سینٹری پیڈ کا استعمال کرتے ہیں۔ جب تک ہم کام کے بعد گھر نہیں پہنچ جاتے، تب تک بدلنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ پورے دن کھڑے رہنے کی وجہ سے درد ہوتا ہے۔‘‘

دیپا کا ماننا ہے کہ یہ سب حالات کی دین ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمارا گاؤں بہت پچھڑا ہوا ہے۔ یہ کسی بھی چیز میں آگے نہیں ہے۔ ورنہ ہمیں اس طرح کام کیوں کرنا پڑتا؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

S. Senthalir

S. Senthalir is Senior Editor at People's Archive of Rural India and a 2020 PARI Fellow. She reports on the intersection of gender, caste and labour. Senthalir is a 2023 fellow of the Chevening South Asia Journalism Programme at University of Westminster.

Other stories by S. Senthalir
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique